قسط 8
مہندی ہے رچنے والی۔۔۔۔۔
ہاتھوں پر گہری لالی۔۔۔۔۔
سب لڑکیاں اونچی آواز میں مہندی کے گیت گا رہی تھیں۔۔۔۔۔چاروں طرف خوشبو بکھری ہوئی تھی ۔۔اور سب کے ہاتھ مہندی ڈیزائن سے سجے ہوئے تھے۔۔۔۔
ناز کے بعد گھر کی تمام عورتوں کو بھی مہندی لگ رہی تھی۔۔۔۔
ساتھ سب کی مذاق مستی بھی جاری تھی۔۔اور ناز کو چھیڑنے میں سب ایک ہو گئے تھے۔۔۔۔۔
بھابھی ۔۔۔۔۔۔آپ کے اور بھائی کے بیچ کوئی پروبلم ہے کیا ۔۔۔۔میں نے نوٹ کیا ہے آپ دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہے شاید۔۔۔۔۔اینی سیریس تھنگ ۔۔۔۔
اچانک نغمہ کا سوال ناز اور حمزہ سے بھٹک کر موضوع اُس کی طرح لے آیا تو وہاں خاموشی سي چھا گئی۔۔۔
اُس کی مسکراہٹ تو سمٹ ہی گئی تھی ساتھ افرا اور ناز بھی خاموش ہوگئیں۔۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔
اُس نے پھیکا سے مسکراتے ہوئے سر نفی میں ہلایا اور پھر سر جھکا کا اپنی مہندی کو دیکھنے لگی۔۔۔۔سوچ کر رہ گئی کہ ا ن کے بیچ کہاں کوئی پروبلم آ سکتی تھی وہاں صرف فاصلے تھے ۔۔بے تعلقی تھی۔۔۔
اصل میں ان کی ارینجمیریج ہے نہ اس لیے ایک دوسرے سے شرماتے ہے تھوڑا ۔۔۔۔۔
ناز نے اُسے اس سیچوشن سے نکالنے اور موڈ بحال کرنے کی غرض سے ہلکی پھلکے انداز میں کہا تو سب کے ساتھ وہ بھی ہنس دی۔۔۔۔
لیکن نغمہِ جانے کیوں اُسی کے متعلق بات کرتی رہی۔۔۔شاید وہاں موجود مہمانوں نے بھی اُن کے رشتے کی خلش کو محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔
بلآخر وہ کسی بہانے سے وہاں سے اٹھ گئی ۔۔۔۔اور اپنے روم میں جانے لگی ۔۔۔لیکن اُس کا روم میں جانا اور شہیر کا اُسی وقت عجلت میں باہر نکلنا بیک وقت تھا تبھی دونوں ایکدم سے ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور اُس سے ٹکرانے سے بچنے کے لیے نور نے ہڑبڑا ہٹ میں پیر کو بریک لگاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے شولڈرز پر رکھ دیے۔۔۔۔۔۔
اُس تصادم سے تو بچ گئی مگر شہیر کے اپنے شولڈر کی طرف دیکھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اُس کے مہندی بھرے ہاتھوں نے شہیر کی شرٹ پر کام دکھا دیا ہے۔۔۔۔
اُس نے ہڑبڑا کر ہاتھ ہٹائے تو مہندی کی ساری ڈیزائن وہاں اسکائی بلیو شرٹ کی دونوں شولڈر پر چھپی ہوئی تھی ۔۔
سوری ۔۔۔۔۔۔وہ میرا دھیان۔۔۔۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
اپنی غلطی پر اُس کے اوسان خطا ہوئے۔۔۔۔وہ پریشان سی ہو کر صفائی دینے لگی۔۔۔۔شہیر نے کوئی جواب نہیں دیکھا(ہمیشہ کی طرح )اور اُس کے چہرے سے اُسے سمجھنا تو آسان ہوتا نہیں تھا کہ اندازہ لگا سکے وہ غصّہ ہے یہ ناراض۔۔۔۔مگر جلدی میں وہ ضرور لگ رہا تھا تبھی بنا کچھ کہے سنے واپس روم میں چلا گیا تاکہ شرٹ چینج کرکے جلدی سے میٹنگ میں پہنچ سکے۔۔۔۔۔
نور مگر وہیں کھڑی تھی ۔۔۔ایک تو اُس کا دوپٹہ کندھے سے گر کر ہاتھ میں آگیا تھا اور نیچے زمین پر جھول رہا تھا . ۔۔۔پھر دونوں ہاتھ بگڑی ہوئی مہندی سے بھرے تھے کہ وہ اُسے اٹھا کر ٹھیک بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔اور نہ ایسے واشروم میں جا کر ہاتھ دھو سکتی تھی ۔۔۔۔تبھی بجائے اندر جانے کے وہ وہی رکی کسی کو ڈھونڈنے لگی جو اُس کی مدد کردے ۔۔۔۔
خواتین تو سب نیچے مہندی میں مصروف تھی مگر اتفاق سے اُسی وقت ایان وہاں سے گزرا تھا اور اُسے پریشان کھڑے دیکھ کر خود ہی اُس کی طرف چلا آیا تھا ۔۔
کیا ہوا بھابھی آپ ٹھیک ہے۔۔۔۔
وہ اُسے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور نور کے پاس اس وقت اُس سے ہیلپ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔
ایان ۔۔۔۔آپ میری ہیلپ کردیں گے۔۔۔۔۔یہ اٹھا دیں گے پلیز ۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہاتھ دھونے ہے۔۔۔۔
اُس نے بیچارگی سے اپنے ایک چوتھائی زمین پر پڑے دوپٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
افکورز بھابھی۔۔۔۔۔
ایان خوشدلی سے جواب دے کر دوپٹہ اٹھانے کو جھکا مگر اُس کا ہاتھ دوپٹے تک پہنچنے سے چار انچ پہلے ہی کسی اور ہاتھ نے لپک کر دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔۔۔جس پر وہ حیران ہوتا ہوا سیدھا ہوا تو اپنے سامنے شہیر كو پایا جس کی نظریں نور پر تھیں۔۔۔۔
اور نور بھی ایان کی طرح حیرت اور نہ سمجھی کی حالت میں اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔حالانکہ دل کچھ حد تک اُس کی سرد مہر نظروں کے اثر سے خوفزدہ بھی تھا۔۔۔۔
اُس نے ایان کی بہت بے دردی سے اگنور کرتے ہوئے نور کا دوپٹہ اُس کے شولڈر پر ڈالا ۔۔۔۔اور اُس کا ہاتھ تھام کر روم کے اندر لے گیا ۔۔۔نور اُس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی ۔۔صدمے اور حیرت کی کیفیت میں۔۔۔۔۔۔
ایان حالانکہ اُس کے اکھڑ مزاج سے واقف تھا مگر یہ لٹھ مار انداز اُسے شدید حیرت سے دوچار کر گیا ۔۔۔اور وہ کچھ پل وہیں کھڑا اُس رویے کی وجہ سوچنے کی کوشش کرتا رہ گیا۔۔۔۔
شہیر اُسے سیدھے واشروم میں لے کر آیا۔۔۔۔
اُس کے ہاتھ واش بیسن نل کے نیچے رکھ کر پانی چلایا اور باقاعدہ ہاتھ سے رگڑ کر مہندی دھوئی۔۔۔۔
نور صدمے میں سن تھی۔۔آنکھیں بلا ارادہ شہیر کے بے تاثر چہرے پر تھی۔۔۔۔۔اور دھڑکنیں خوف و خطر کے ساتھ اُس کی موجودگی کے باعث تیز ہو رہیں تھیں۔۔۔۔۔
اُس کے ہاتھوں سے پوری مہندی صاف ہوگئی تھی اور ہلکا ہلکا رنگ چڑھا ہوا تھا۔۔۔۔شہیر نے ٹیپ بند کیا اور ٹاول سے اُس کے ہاتھ خشک کیے۔۔۔۔۔وہ اب بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی کہ آخر یہ کیسا شخص ہے جو اُس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ۔۔۔اُس کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا مگر اُس وقت عجیب محبتی اور خدمت گزار شوہر کی طرح بہیو کر رہا تھا۔۔۔۔
اور کوئی ہیلپ چاہیے۔۔۔۔”۔”
وہ نظریں اٹھا کر بضاہر سنجیدہ مگر جتاتے انداز میں بولا تو وہ اُس کے یوں اچانک خود کو دیکھنے پر نظریں ملتے ہی اپنی جگہ بوکھلا گئی۔۔۔۔۔۔۔اور پورے زوروں سے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔۔۔
وہ اُسے وہی پھاڑ کھانے والے انداز میں دیکھتا باہر نکل گیا ۔۔اور نور سکتے کے کیفیت میں سوچتی رہی کہ یہ کیا تھا۔۔۔۔حقیقت خواب یا کچھ اور۔۔۔
№№№№№
وہ کچن میں کھڑی چائے بنا رہی تھی۔۔۔۔مہندی کا فنکشن ختم ہو چکا تھا اور سب تھکے ہارے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے مگر رئیسہ بیگم وحیدہ بیگم اور ناز کی دونوں خالہ ابھی تک جاگ کر کل شادی کے دن کی تیاریاں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اُس کا خود کا بھی نیند سے برا حال تھا اور وہ بار بار جمایاں روک رہی تھی۔۔۔حالانکہ سب اُسے کب سے جا کر سونے کو کہہ رہے تھے مگر اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ سب کام کریں اور وہ اپنے کمرے میں جا کر آرام کرتی رہے۔۔۔۔۔۔
شاید نیند کا ہی زور سر پر ایسا سوار تھا کہ اُس نے چائے کا پین چولہے سے اتار کر کپ بھرنے شروع کیے مگر گیس بند کرنا بھول گئی۔۔۔۔اور جب وہ تمام چائے کپوں میں نکال کر پین سنک میں رکھنے کو پلٹی تو اُس کے دوپٹے کے سرے نے چولہے کے اوپر سے گزرتے ہوئے آگ پکڑ لی۔۔۔۔
مگر اُسے علم نہیں ہوا وہ ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر نکلی اور اُسی وقت شہیر گھر میں داخل ہوا تھا کچن کے دروازے سے نکلتی نور کے بعد اُس کے دوپٹے پر نظر پڑی تو شاک سے لمحے کو اُس کے قدم رک گئے اور پھر ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بنا اُس کی جانب دوڑا ۔۔۔۔۔اُس کا دوپٹہ پکڑ کر زور سے کھینچ کر اُس کے وجود سے الگ کرتے ہوئے زمین پر پھینکا۔۔۔۔۔
اور تب اُس افتاد پر پلٹ کر نور کی نظر اپنے بھڑکتے ڈوپٹے پر پڑی تو خوف سے اُس کے ہاتھ سے نہ صرف ٹرے چھوٹا بلکہ حلق سے زوردار چینخ بھی برآمد ہوئی۔۔۔۔
سب ہی گھبرائے سے دوڑ کر وہاں آ پہنچے ۔۔۔۔
شہیر جوتے سے اُس ڈوپٹے میں لگی آگ کو بجھا رہا تھا اور نور مارے خوف کے کانپتی پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔۔۔۔ماجرا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔۔۔۔
دوپٹے کی جانب سے تسلی کرکے وہ کچن میں گیا اور چولہا بند کرکے سکون کی سانس لی۔۔۔۔۔
“کیا ہوا نور۔۔۔سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔۔”
رئیسہ بیگم نے اُسے آہستہ سے ہلا کر پوچھا۔۔۔جو شاک کے مارے سٹل کھڑی اپنے سبز سے سیاہ ہوئے دوپٹے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اُن کے پوچھنے پر اُس نے اجنبی نظروں سے اُنہیں دیکھا۔۔۔۔اور اپنے شاک سے نکلتے ہی آنکھیں میں آنسو آنے لگے۔۔۔
“ہاں مام سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔”
نور کے کچھ بھی کہنے سے پہلے اُس نے باہر آتے ہی سنجیدگی سے اُنہیں جواب دیا اور نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے لیے اپنے روم کی جانب بڑھا۔۔۔۔
رئیسہ بیگم پریشان سی اُس کی پشت کو دیکھتی رہ گئیں۔۔۔۔۔اور پھر زمین پر پڑی چینی کے ٹکڑوں کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔
روم میں لا کر بھی شہیر نے اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ اپنی گرفت سخت کردی ۔۔۔
اور نور نے جھنجھلا کر ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی تو ہاتھ سمیت اُسے بھی قریب کھینچ لیا۔۔۔۔۔۔اور وہ نم نگاہوں میں ناگواری لئے اُسے دیکھنے لگی کہ وہ تو پہلے ہی اس قدر گھبرائی ہوئی تھی اوپر سے جانے کیوں وہ اُس کے ساتھ ایسا سخت برتاؤ کر رہا تھا۔۔۔۔۔
کونسا طریقہ نکالا ہے یہ مجھ سے بدلہ لینے کا۔۔۔۔۔۔۔۔مر جاتی ابھی اگر میں دس سیکنڈ لیٹ ہوتا تو ۔۔۔۔
وہ اُس کے چہرے کے بے حد قریب جھکا غصے اور ضبط سے بولا تو نور نے ایک پل کو حیرت اور بھی بے حد ضبط سے اُسے دیکھا کہ وہ اس حادثے کو بھی اُس کا پلان سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔
تو مرنے دیں۔۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے آپکو ۔۔۔۔۔۔
وہ بجائے صفائی دینے کے ذرا رک کر ٹھنڈے انداز میں بولی تو شہیر کے تمام اعصاب ہی مانو ایک پل کو ساکت ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔اُس کی نظریں سرخ سونی آنکھوں پر رکی رہ گئی۔۔۔۔۔
مگر اگلے ہی لمحے ہی وہ سنبھلا ۔۔۔اور دانت غصے سے بھینچے ۔۔۔
“کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔لیکِن میں نہیں چاہتا کہ تمہارے مرنے سے میری اور میرے گھر والوں کی مشکلیں بڑھیں ۔۔۔کل میری بہن کی شادی ہے اور میں اُس کی شادی والے دن کوئی ماتم نہیں چاہتا ۔۔۔۔اگر تمہیں مرنا ہے نہ تو اپنے گھر واپس جا کر مرنا یہاں نہیں سمجھی۔۔۔۔۔۔
اور اُس نے پھر اُس کی توقع اور اپنی عادت سے زیادہ الفاظ اُس پر ضائع کرکے بے حسی اور سفاکی کی انتہا کی۔۔۔
نور کا دل اُس کے کٹھور لفظوں سے چھلنی چھلنی ہوتا گیا۔۔۔
“دنیا میں شاید ہی آپ سے زیادہ برا انسان کوئی ہوگا”
اُس نے محض دل میں اُس سے شکوہ کیا اور نظروں نے نظروں تک پہنچا دیا ۔۔۔شہیر نے کسی احساسِ دروں کے تحت اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور نظروں کا رخ بدل دیا۔۔۔
اُسے شدت سے احساس ہوا کہ اُس کے سوال کی جنجھلاہٹ میں وہ کچھ بہت غلط کہہ چکا ہے۔۔۔
آپ کو کیوں یہ خوش فہمی ہے کے میں آپ کی وجہ سے جان دینے کی کوشش کروں گی۔۔۔۔۔آپ میرے لیے اتنے بھی اہم نہیں ہے کہ آپ پر اپنی زندگی وار دوں ۔۔۔۔۔۔مجھے اپنی زندگی سے اتنا ہی پیار ہے جتنی کہ آپ سے نفرت ۔۔۔
وہ بے تحاشا اُمڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی بظاھر سخت لفظوں میں بولی مگر دِل جانے کیوں ٹوٹ ٹوٹ کر ٹکڑے ہوتا قدموں میں گرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ شہیر کو نہیں خود کو یقین دلا رہی ہے۔۔۔۔
بات اُس کی بے حسی کی نہیں بلکہ اپنی بے حرمتی کی تھی ۔۔۔دل دکھانے کی تھی جو کبھی کبھی غیروں کی باتوں پر بھی دکھ جاتا ہے۔۔۔۔ہاں وہ اپنا نہ صحیح مگر غیروں میں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔اسلئے شاید اس کا رویہ اس قدر اثر انداز ہو رہا تھا۔۔۔۔
اور آپ فکر مت کیجئے۔۔۔۔۔میں اپ کی اور آپ کے گھر” والوں کی پریشانی بڑھانے کے لیے زیادہ دن یہاں نہیں رہوں گی ۔۔۔۔۔کل میرا اس گھر میں آخری دن ہے ۔۔۔ اُسکے بعد اپکی پریشانی ختم‘۔۔۔۔ “
وہ نظریں جھکائے تلخی سے بولی تو شہیر نے دوبارہ اُس کی جانب دیکھا ۔۔۔مگر وہ آنسوؤں کے بے ضبط ہونے سے پہلے ہی اُس کے سامنے سے ہٹ گئی اسٹڈی روم کے دروازے کی جانب بڑھی اور چند لمحوں میں شہیر کی نظروں کے سامنے بس بند دروازہ ہی رہ گیا۔۔۔۔۔