قسط 3
وہ سب کھانے کی ٹیبل پہ موجود تھے کہ جب ڈھول بجنے اور شور شرابے کی آوازیں آئیں۔ میں نے کھا لیا۔ مہرو شور سن کر جانے کے لیے اٹھی۔ رکو آج تم ہم سب کے لیے چائے بناؤ گی۔ آغا جان کو پتہ چل گیا تھا اس لیے مہرو کو روکتے ہوئے کہنے لگے۔ جی۔ وہ اداسی سے سر جھکائیں کچن کی طرف بڑھ دی۔
آج ساتھ سال واپس آیا تو جی بھر کے دیکھنے تو دیں تجھے۔ شاہدہ کا خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ امی اب میں یہی رہو گا آپ کے سامنے جتنا دل کریں دیکھ لینا۔ مہر مسکراہتے ہوئے کہنے لگا۔ اور شاہدہ اپنے ںیٹا کا چہرھ چومتی اٹھ گئی۔ میں تیرے لیے کھانا لگوا رہی ہوں تو فریش ہو کے آجا شاہدہ نے کہا۔ جی۔ وہ کہتا کمرے کی جانب چلا گیا۔
سب کو چائے دے کے فارغ ہوئی تو فوراً کمرے میں آئے اور بیلکونی سے سامنے دیکھنے لگی مگر وہ نظر نہ آیا۔ ہو سکتا ہے سکینہ نے جھوٹ بولا ہو مجھ سے یہ کمرہ مہر کو نہ ملا ہو
۔ مہرو سوچتے ہوئے پھر سامنے دیکھنے لگی۔ امی آپ نے اتنا کچھ بنا دیا ہے میرے لیے میں کیسے کھاؤں گا۔ مہر کھانے کی ڈیشز دیکھتے ہوئے بتانے لگا۔ کیوں تو ساتھ سالوں بعد واپس آیا ہے میں تیرے لیے اتنا نہ کرتی۔ شاہدہ نے برا مانتے ہوئے کہا۔ تو پہلے بھی تو کھاتا تھا۔ پہلے بی اماں کھلاتی۔ مہر کہتے کہتے رکا۔ ابو بی اماں بہت یاد آتی ہیں آپ ان تیرہ سالوں میں ان سے نہیں ملے۔ مہر نے اب آغا فیصل کو مخاطب کیا۔ نہیں جاتا ہوں جب آغا جان گاؤں سے باہر جاتے ہیں مگر ایسا ہوتا بہت کم ہے۔ وہ افسردگی سے بتانے لگے۔تو مہر بھی چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔
نہ آئے میں وضو کر کے نماز پڑھنے جارہی ہو۔ مہرو کہتے باتھ روم چلی گئی۔وہ کمرے میں آیا لائٹس آن کی بیلکونی کی طرف گیا اور دور بین سے مہرو کی کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا وہ جائے نماز میں بیٹھی دعا مانگ رہی تھی
میڈیم کی عادت ابھی تک وہی ہے۔وہ مسکراتا کھڑکی بند کرتا باتھروم کی طرف چل دیا مہرو نے نماز پڑھ کر ایک دفعہ مہر کی بیلکونی میں دیکھنے لگی۔سکینہ نے جھوٹ کہا ہو گا ہو سکتا ہے یہ کمرہ مہر کو نہیں ملا ہو۔اس نے وہی بات دوبارہ کی اور جاکے بیڈ میں لیٹ گئی ۔
کمزور ہو گیا ہے میرا بیٹا پڑھ پڑھ کے مگر اب میں تجھے ہر روز دیسے گھی میں کھانے بنا کے کھلاؤں گی۔ شاہدہ نے کہا۔ جی ٹھیک ہے اماں ویسے بھی آپ مجھے صبح سے اتنا کچھ کھلا دیا ہے ۔مہر نے کہا۔ ہاں تو اور کیا ساتھ سال مجھ سے دور رہا ہے اب میں تیرا بہت خیال رکھوں گی۔ شاہدہ نے مسکراہتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دیا۔
بیٹے کے آتی ہی شوہر کو بھول گئی مجھ سے آج کھانا کا بھی نہیں۔ فیصل نے افسوس سے کہا۔اوہو نہیں آپ سو رہے تھے تومیں نے آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا میں ابھی لگوادیتی۔ شاہدہ کہتی چلی گئی اور فیصل مسکرا دیا۔