قسط 8
وہ اپنی کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کے تبھی تہمینہ اس کے کمرے میں آئی مہرو کو معلوم تو ہو گیا تھا مگر اس نے ان کی طرف نہ دیکھا۔ مہرو ناراض ہے مجھ سے ۔تہمینہ نے پیار سے پوچھا۔ میں کسی سے ناراض نہیں ہو آپ پلیز چلی جائے۔ مہرو نے اب بھی ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
میں کیوں ناراض ہونے لگی ویسے بھی آپ کو کون سا فرق پڑتا ہے۔ مہرو اب انہیں دیکھ کے شکوے کرنے لگی۔ بیٹا دیکھ اگر میں کچھ بولتی تو وہ تجھے اور مارتے میں نے تیری بہتری کے لیے کیا جو کیا۔تہمینہ اس کی گال پہ ہاتھ رکھتی نرم لہجے میں بتانے لگی۔
کیوں آخر کیوں ہم ان کے اصولوں کے خلاف کیوں نہیں جا سکتے۔ مہرو افسوس سے پوچھنے لگی۔ مہرو میری جان تجھے یاد ہے نا تہذیب والا واقع اور جب بی جان کچھ بولی تھی تو آغا جان نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا بیٹا اس لیے ہمارے لیے بہتر یہی ہو گا کے ہم خاموش رہے فیصل بھائی صاحب نے بھی ان کے خلاف بولا تھا تو انہوں نے ان سے رشتہ توڑ دیا۔اب تو بتا کیا میں غلط کہ رہی ہوں۔ تہمینہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا مہرو خاموش رہی۔ اور ہاں رات کو یاد سے کھانے کی ٹیبل پہ آئی تو آج دوپہر کے کھانے میں بھی نہیں آئی تھی۔تہمینہ اسے کہتی چلی گئی۔
سب لوگ رات کے کھانے کی میز پہ موجود تھے۔ میں کل ایک دن کیلیے کراچی جارہا ہوں میرے دوست کے بیٹے کی شادی ہے میرا جانا لازمی ہے۔ آغا جان کھانا کھاتے ہوئے بتانے لگے۔
چلو ایک دن تو سکون سے گزرے گا۔ مہرو نے دل میں کہا۔مہر کھڑا تھا جب مہرو سیڑھیاں اترتی کالج جانے کے لیے تیار تھی۔ میں چھوڑ دیتا ہوں آپ کو فضل آغا جان کے ساتھ گیا ہے۔ مہر نے مہرو سے کہا۔ نہیں میں خود چلی جاؤ گی۔ مہرو نے صاف انکار کیا ۔
اکیلی کیسی جائیں گی ٹھیک تو کہ رہا ہے وہ جا اس کے ساتھ۔ بی اماں مہرو سے مخاطب ہوئی مہرو بی اماں کے کہنے پہ چپ چاپ چلی گئی۔
اگر میں کل سب کچھ نہ بتاتا تو کیا آپ ساری زندگی اس Guiltکے ساتھ رہ لیتی۔ مہر نے گاڑی چلاتے ہوئے پوچھا۔ ادھر لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مہرو نے بتایا۔
مجھے لگتا ہے آپ تہذیب پھو۔مہر کہتا کہتا چپ ہوا۔کیا۔ مہرو نے اسے گھور کے دیکھا۔ وہ مجھے ابراہیم نے بتایا تھا کے آپ کی پھوپھو کے ساتھ بہت غلط ہوا تھا۔ مہر نے فوراً بات بنائی۔جی۔ مہرو بس اتنا ہی کہ سکی۔ میں جاننا چاہتا ہوں کے آپ کی پھوپھو کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ مہر نے اسے پوچھا۔
بہت لمبی کہانی ہے پھر کبھی سناؤں گی اب تو کالج بھی آ گیا۔ مہرو نے کالج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ خاموش ہو گیا۔
وہ بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی کے تبھی دروازے پہ دستک ہوئی۔ مہرو اپنی سوچ سے باہر آئی اور پھر اٹھ کے دروازہ کھولنے گئی۔آپ یہاں کیا کررہے ہیں اگر آغا جان نے دیکھ لیا تو بہت مسئلہ ہو گا آپ جائیں۔ مہرو ایک ہی سانس میں بولتی گئی۔
ریلیکس آغا جان کل صبح سے پہلے نہیں آئے گے۔مہر نے بتایا تو وہ خاموش ہو گئی۔میں جاننا چاہتا ہوں آپ کی پھو پھو کے ساتھ کیا ہوا اور اس سے اچھا موقع کوئی نہیں ملا مجھے۔ مہر نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ تو سنیے مگر مجھے ٹھیک سے یاد نہیں بی اماں نے۔ بتائی تھی ۔مہرو اس کے سامنے بیٹھتی بولی۔
گاؤں کے ایک محلہ میں ایک تہذیب نامی لڑکی رہتی تھی جو دیکھنے میں بہت خوبصورت تھی ریشمی بال بڑی بڑی آنکھیں گورا رنگ دیکھنے میں پری کی طرح لگتی تھی اور وہ ایک شخص سے محبت کرتی تھی جو اسی علاقے میں رہتا تھا دونوں ایک دوسرے سے بے انتہاء محبت کرتے تھے مگر آغا جان ان کی شادی ان کی عمر سے بہت بڑےشخص سے کرنا چاہتے تھے تہزیب پھوپھو نے ہمت کر کے آغا جان کو بتادیا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہیں اور شادی بھی اسی سے کریں گی اس کے علاوہ کسی سے نہیں کریں گے
آغا جان کو ان کی بات پہ بہت غصہ آیا کیونکہ یہ آغا جان کے اصولوں کے خلاف تھا اور انہیں اپنی بیٹی کی خوشیاں سے زیادہ عزیز اپنے اصول تھے آغا جان نے ان پہ اتنا سا رحم کھائے بغیر انہیں جان سے مار دیا۔وہ روئی وہ تڑپی مگر آغا جان کو ذرا سا بھی ترس نہ آیا ان پر۔ مہرو نے پورا واقع سنائیا سناتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو گرے اور مہر کی آنکھ بھی نم ہوئی مگر وہ اپنے اندربہت سے آنسو اتار گیا