میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 1

ٹرین اپنی پوری رفتار سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔رات کی تاریکی ہر سو پھیلی ہوئ تھی ۔وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکاے ٹرین کی کھڑکی سے نظر آتے سیاہ آسمان پر نظریں جماۓ بیٹھی تھی۔ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔اب تک کی زندگی میں رونما ہوۓواقعات ایک کے بعد ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
اس نے تھک کے گہری سانس خارج کر کے ایک نظر اپنے سامنے والی سیٹ پر غیر آرام دہ مگر گہری نیند سوۓہوۓوجود کو دیکھا جو اس کی خاطر اپنے گھر کا آرام سکون چھوڑ کے اس کے ساتھ خوار ہو رہا تھا۔۔۔اس نفس کی محبت پر ایک اداس مسکان نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا تھا۔
“مجھے اب کچھ بھی نہیں سوچنا۔۔”اس نے تھک کر خود کو باور کروایا ۔اور اپنے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ کر آنکھیں موند لیں۔۔۔نا جانے آنے والی زندگی میں اس کے لیے کیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک سرخوشی کے عالم میں ڈرائیو کرتا گھر پہنچا تو رات کے ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے ۔پورا گھر خاموشی میں ڈوبا تھا ۔لاؤنج بھی خالی تھا ۔۔اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوے اس کے قدم سرشار اور بہکے بہکے ہو رہے تھے ۔۔اسکی چال میں نشہ سا تھا ۔دل کی خوشی انگ انگ میں رچی ہوئی تھی ۔اس کے دل و دماغ میں سرور سا چھا رہا تھا . اس وقت اسکے دل و دماغ سے اسکی ذات سے سارے بوجھ ہٹ گئے تھے ۔۔وہ اپنے کمرے کے دروازے کے سامنے آتا ذرا دیر کے لئے ٹھہر سا گیا۔آج دوپہر میں اس دشمن جان کا روتا ہوا چہرہ نگاہوں کے سامنے آیا تو لب بھینچ گیا ۔۔آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔۔خالی کمرہ دیکھ کر اسے کچھ غیر معمولی سا احساس ہوا۔۔۔۔وہ ایک دم دروازہ کھول کر باہر نکلااوراپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے کادروازہ ہلکی سی دستک دے کر کھولا لیکن اندر کوئی بھی موجود نہ تھا ۔کمرے سے ملحق واشروم کا دروازہ بھی نیم وا تھا۔۔۔نا جانے کیوں اس کا دماغ اسے کچھ غلط ہونے کا سگنل دے رہا تھا۔۔
اس نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے جیب سے فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کر کے کچھ لمحے بات کی جس کے بعد اس کے تفکر میں اضا فہ ہوا تھا۔۔کال بند کر کے وہ جلدی سے دوبارہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا جب ہی اس کی نظر دروازے کے عین سامنے موجود ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک آیا وہاں اسے منہ دکھائی میں پہناے لاکٹ کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہوئی تھی۔۔۔وہ تیزی سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر آیا دراز کھول کر دیکھی مگر کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئی۔
جلدی سے دوسری سائیڈ پر آیا ۔۔۔سامنے ہی ٹیبل پر ایک سفید کاغذ پڑا تھا ۔۔کاغذ پر ایک مختصر تحریر نظر تھی ۔۔اس نے جلدی سے کاغذ اٹھا کر تیز دھڑکتے دل کے ساتھ تحریر پر نظر دوڑائی اور ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔۔ دوبارہ دراز میں ہاتھ ڈالا اندرایک موبائل کا چارجر۔خواتین کا رسالہ اور تین چار کاغذ موجود تھے۔۔۔اس نے کاغذات باہر نکالے۔۔ایک دو کاغذات دیکھنے کے بعد اس نے ایک کاغذ کھولا اوراس کا دماغ بھک سے اڑا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اگست کے آخر دنوں کی گرم دوپہر میں تھکی ہاری لال بھبوکا چہرہ لیے یونیورسٹی سے لوٹی تو خلاف معمول زویا کو کچن میں مصروف پایا۔۔۔۔ دھپ سے کرسی کھنیچ کے بیٹھی۔۔۔
“آگئیں تم۔۔۔؟”مصروف سی زویا نے ایک نظر اسے دیکھ کے پوچھا ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔ابھی باہر ہی خوار ہو رہی ہوں ۔۔۔”اس نے تپے تپے لہجے میں جواب دیا۔۔۔
اس کی لال۔بھبھوکا شکل دیکھ کے زویا کو ہنسی آئ۔۔۔” ایک دن اگر بابا تمھیں پک کرنے نہیں آئے تو تمہاری تو حالت ہی خراب ہوگئی ۔۔۔”زویا نے مزاق اڑایا
“ہی ہی ہی۔۔۔۔ویری فنی۔۔۔خود تو بی ایس کر کے گھر بیٹھی ہو۔۔کتنا کہا تھا تمہیں ماسٹرز میں ایڈمیشن لے لو۔۔دونوں بہنیں مزے سے ساتھ آتی جاتیں یونیورسٹی ۔۔”اس نے وہی پرانا دکھڑا ایک بار پھر رویا۔۔۔
“اللہ لڑکی!! ڈھائی سال ہوگئے تمہیں یونیورسٹی جاتے،لیکن تمہارا یہ والا غم ختم نھیں ھوا۔۔۔میں نے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا ۔۔۔اب تو بس مجھے گھر داری پر دھیان دینا ہے ۔” زویا نے پتیلی میں چمچہ چلاتے ہوئے کہا جب کہ لبوں پہ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ تھی ۔۔
“اوہو۔۔ توبی بنو سسرال جانے کی تیاری کر رہی ہیں ۔۔”وہ کرسی سے اٹھ کے زویا کے پاس آئی اور اسکارخ اپنی طرف موڑا۔۔۔
“زویاراحیل احمدشاہ !!! مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو، سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔۔تمھاری راحم بھائی سے کوئی بات ہوئی ہے؟”آنکھیں چھوٹی کر کے زویا سے استفسار کیا تھا ۔۔
“پاگل ہوئی ہو کیا؟ وہ کب مجھ سے ڈایریکٹ اس موضوع پہ بات کرتے ہیں ۔۔؟”اس کی بات پہ زویا نے بدک کے اسے دیکھا
“اوہو!!! وہ۔۔” اس نے آنکھیں نچا کے ” وہ” کو لمبا کھینچا ۔۔”فکر نا کروڈایریکٹ بات بھی کرنے لگیں گے۔۔”انداز میں بلا کی شرارت تھی ۔۔۔
“بدتمیزی نا کروجاؤ جا کے فریش ہو ۔۔کب سے آئی ہوئی ہو ۔۔”زویا نے جھینپ کر بات بدلنا چاھی۔۔
“تم بات نا بدلو۔۔۔مجھے جلدی سے بتاؤ آج رخ روشن پر اتنی رونق کیوں ہے۔۔؟”اس نے با قاعدہ زویا کے منہ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
“توبہ ہے ایک بات کے پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔۔”زویا کو ہنسی آگئی ۔۔۔
“آج نا — روبی خالہ کا فون آیا تھا ،وہ کہہ رہی تھیں۔۔دسمبر کی چھٹیوں میں وہ لوگ پاکستان آئیں گے نکاح کرنے ۔۔” زویا نے شرماتے ہوئے پوری بات بتائی ۔
“یاہو!! زبردست۔۔”اس نے بات سن کے زوردار نعرہ مارا اور زویا کو گول گول گھمایا تھا ۔۔
“ارے چھوڑو مجھے چکر آگئے ۔”زویا نے اپنا آپ چھڑوایا تھا۔۔۔
اب اس نے کچن میں موجود ڈاءینگ ٹیبل کی کرسی پہ بیٹھ کے ٹیبل بجانی شروع کردی ساتھ ہی لہک لہک کےایک بہت پرانا گانا گانے لگی
میری پیاری بہنیا
بنے گی دلہنیا
سج کے آئیں گے دولہے را۔۔۔
“پاگل ہو گئی ہو ۔۔۔گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور تم میراثیوں کی طرح شروع ہو گئیں ۔۔”زویا نے کمر میں ایک ہاتھ جڑ کے اسے چپ کروایا تھا۔۔۔
“ہائے ظالم یہ ہاتھ ھے یا ہتھوڑا ۔۔۔بے چارے راحم بھائی تو تمھارا بھاری ہاتھ کھا کھا کے بجائے مریضوں کا علاج کرنے کے اپنا ہی علاج کرتے رہیں گے۔۔۔۔کمر توڑ دی میری ۔۔”اس نے مبالغہ آرائ کی حد کی۔۔زویا نے گھور کے دیکھا۔
“چلو اٹھو فریش ہو کے آو۔۔ورنہ میں کھانا نہیں دوں گی خود گرم کرنا پھر۔۔”دھمکایا تھا۔
“اچھا ۔۔اچھا جا رہی ہوں تم نے ہی باتوں میں لگا لیا تھا۔۔”آرام سے سر ہلاتے کہا توزویا نے پھر گھورا تھا ۔
“یہ بتاؤ زویا ۔۔۔۔آج یہ دونوں ساس بہو کہاں ہیں؟ ” نظر نہیں آ رہیں۔۔۔
“انسان بن جاؤ تم۔۔۔ “زویا نے مسکراتے ہوے اس کا کان کھینچا اور پیار سے اپنی سہیلی جیسی بہن کا خوبصورت چہرہ دیکھا جو تھکاوٹ کے باوجود تمتما رہا تھا ۔
“امی اندر ڈراینگ روم میں ہیں بابا کے ساتھ وہاں ۔۔”اسے بتانا چاہا
“ارے مہمان کون آیا ہے زویئ، یہ تو بتاؤ ۔۔؟”زویا کی بات کو درمیان میں قطع کرتےاستفسار کیا اور پانی کا گلاس منہ سے لگایا تھا ۔۔
“ہمارے تایا جی،یعنی بڑے ابا آئے ہیں۔۔۔” زوہا نے جواب دیا
جب کہ اس کاجواب سن کر پانی فوارے کی شکل میں اس کے منہ سے باہر آیا تھا۔۔۔
“یو مین۔۔ بڑےابّا ہمارے اپنے ذاتی پرسنل بڑے ابا” چند لمحوں بعد اپنی کھانسی پر قابو پا کر اس نے زویا کی طرف دیکھتے حیرانگی سے کہا
“جی !! ہمارے اپنے ذاتی پرسنل بڑے ابّا “زویا کو اس کے اسٹائل پہ ہنسی آئی ۔۔
“آج دوپہر جب وہ اچانک سے آے تو ہم سب کو بھی ایسے ہی جھٹکا لگا تھا۔۔۔بابا تو بہت ایمموشنل ہو گئے تھے بہت مشکل سے چپ کرایا انہیں۔۔۔” زویا نے تفصیل بتائی
“ظاہر ہے ۔۔کچھ بھی ہے ۔۔ہیں تو سگے بھائی ۔۔۔اتنے سالوں بعد ملے تو جذبات ابھر آئے ہوں گے۔۔۔”اس نے سنجیدگی سے تبصرہ کیا
“اچھا یہ بتاؤ آکیسے گئے ؟۔اتنے سالوں بعد ہماری یاد کیسے آگئی ؟”اس نےاستفسار کیا
“ابھی یہ کچھ نہیں پتہ۔۔۔کچھ دیر جذباتی سین چلا پھر امی نے مجھے اور بھابھی کوحکم دیا کہ پر تکلف ڈنر کا اہتمام کیا جائے ۔۔اب بڑے ابا کو ڈنر کراے بغیر نہیں جانے دیا جائے گا۔۔۔اور تو اور شام کی چائے پر بھی ان کے شایان شان تیاری کی جائے ۔۔سو ما بدولت ڈنر کے لیے کھیر کی تیاری میں مصروف ہیں ۔۔۔بھابھی بریانی کا مصالحہ بنا چکیں ۔۔ابھی علی کو سلانے کمرے میں گئی ہیں …” زویا نے ساری تفصیل گوش گزار کی
” هممم۔ ۔۔چلو میں بھی زرا بڑےابا سے مل لوں۔۔۔میں نے تو بہت سال پہلےکبھی انہیں دیکھا تھا۔۔” وہ جلدی سے اٹھی۔۔
“ارے پہلے فریش تو ہو لو ۔۔۔اس حلیے میں جاؤ گی ان کے سامنے۔۔”زویا نے ٹوکا۔۔۔”مت بھولو لڑکی!! تم ایک کروڑ پتی بلکہ ارب پتی آدمی سے ملنے والی ہو۔۔۔”مسخرے پن سے بولی تو اسے ہنسی آ گئ
“اوکے اوکے۔۔۔ میں فریش ہو کے آتی ہوں تم جب تک کھانا گرم کرو ۔۔” وہ ہنستی ہوئی کچن سے نکل کے اوپر اپنے اور زویا کے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔انداز میں عجلت تھی ۔وہ جلد ازجلد اپنے تایا سے ملنا چاہتی تھی جن کا ذکر بھی گھر میں بہت کم سنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان احمدشاہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔والدین کی اکلوتی اولاد اور شریف دیندار سے انسان تھے ۔۔۔بی اے کرنے کے بعد تھوڑی بھاگ دوڑ کرکے بجلی کے محکمے میں ملازم ہوئے تو والدین کو سرپہ سہرا سجانے کا شوق ہوا ۔۔۔
انکےوالد سلطان احمدشاہ نے اپنے دیرینہ دوست میر دلاور جن کا تعلق کشمیر سے تھااور ایک سال پہلے بیگم۔کا انتقال ہو چکا تھا، ان کی چھوٹی صاحبزادی زینب بی بی سے ان کی نسبت طے کر دی ۔۔۔چند ماہ میں ہی زینب بی بی دلہن بن کے عثمان احمد کے گھر چلی آئیں ۔۔۔۔
زینب بی بی نہ صرف بلا کی حسین ، پڑھی لکھی ، سمجھ دار عورت تھیں بلکہ مزاج کی بہت سادہ اور نرم تھیں ۔۔انتہا درجے کی سلیقہ شعار اور خدمت گزار بھی تھیں۔۔۔جلد ہی انہوں نے اپنی شیریں بیانی اور خدمت گذاری سے شوہر اور ساس سسر کے دل میں گھر کر لیا اور سلطان احمد اور ان کی بیگم کی برسوں کی دبی بیٹی کی خواہش کو بھی پورا کر دیا۔۔۔
زینب بی بی کے آنگن میں تین پھول کھلے۔۔۔سب سے بڑے بیٹے سہیل احمدشاہ ان سے دوسال چھوٹی عائشہ احمدشاہ اور عائشہ سے دو سال چھوٹے راحیل احمدشاہ ۔۔۔
زندگی بہت پر سکون اور خوبصورت تھی ۔گھر میں بہت ز یادہ پیسے کی ریل پیل نہیں تو تنگ دستی بھی نہیں تھی ۔۔۔عزت سے گزر بسر ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل احمدشاہ بچپن سے ہی بہت زہین تھے ۔۔۔پڑھائی میں بھی ان کا دماغ خوب تیز چلتا تھا نہ صرف ہر کلاس من اوّل آتے بلکہ اسکول میں بھی ٹاپ کرتے تھے ۔۔۔
عائشہ اور راحیل احمد شاہ بھی پڑھائی میں کافی اچھے تھے لیکن سہیل احمد والی بات نہ تھی۔ ۔۔
سہیل احمد کی فطرت میں خوب سے خوب تر کی جستجو شامل تھی ۔۔۔وہ بچپن سے نوکری کی بجاے بزنس کرنا چاہتے تھے ۔۔۔یہ ہی وجہ تھی ک انہو ں نے آئ بی اے سے ایم بی اے کرنے کو ترجیح دی ۔۔
جب کہ عائشہ بی ایس سی کرنے ک بعد گھر بیٹھ گئی تھیں ۔۔۔
راحیل احمد ایم اے اکنامکس کرنے بعد والد کی طرح ہی بجلی کے محکمے میں ملازم لگ گئے۔ ۔۔
ایم بی اے کرنے ک دوران ہی سہیل احمد اپنی ایک بے حد طرح دار اور امیر کبیر کلاس فیلو سعدیہ کو پسند کرنے لگے ۔۔۔بلکہ سعدیہ ہی تھیں، جو سہیل احمد کی ذہانت اور شان دار شخصیت سے شدید متاثرہو کر ان کے سامنے اظہار محبّت کر ببیٹھیں ۔۔۔
سہیل احمدشاہ بھی بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں والی معصوم صورت سعدیہ کی زلف کے اسیر ہو گئے ۔۔۔
لیکن چوں کے بچپن سے بڑے خواب دیکھتے آے تھے ،اس لئے شادی، اپنے کسی مقام پہ پہنچنے کے بعد کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
ایم۔ بی ا ہے کرنے کے دوران ہی سہیل نے گھر من زینب بیبی سے سعدیہ کے متعلق بات کی ۔۔۔زینب بیبی اور عثمان احمد کو سعدیہ کے امیر کبیر ہونے کی وجہ سے کچھ خد شاٹ تھے، جو سعدیہ اور ان کے والد سے مل کے ختم ھو گئے ۔۔۔سعدیہ کی والدہ کی وفات ہو چکی تھی۔۔۔ایک چھوٹی بہن تھی اور والد انتہائی سادہ مزاج انسان تھے ۔۔لگتا ہی نہیں تھا کے وہ دو دو کپڑے کی فیکٹریوں کے مالک ہیں ۔۔۔
سعدیہ اور سہیل احمد کی نسبت طے کر دی گئی اور شادی چند سال بعد ہونا قرار پائی ۔۔۔۔۔ سعدیہ اجکل بے حد خوش تھیں ۔۔۔یقین نہ آتا تھا کہ جسے چاہا اسے اتنی آسانی سے پا لیا ۔۔۔انہیں بھی سہیل احمد کے گھر والے بہت اچھے لگے تھے ۔۔۔
خوش تو سہیل احمد بھی بہت تھے، لیکن وہ آ جکل اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کرنے کے لئے کوششیس کر رہے تھے ۔۔۔تا کہ جلد از جلد سعدیہ کو بیاہ کر گھر لا سکیں ۔۔۔جب کہ زینب بیبی آ جکل زور و شور سے عائشہ شاہ کے لیے کوئی اچھا رشتہ تلاش کر رہی تھیں ۔۔۔۔جب کہ راحیل احمد شاہ اپنے بی کام میں مصروف تھے ۔۔۔
سیدھی سادی چلتی زندگی میں ہلچل تب مچی جب سعدیہ کے والد کو ہارٹ اٹیک آیا ۔۔۔ان کی حالت بے حد خراب تھی ڈاکٹرز بھی زیادہ پر امید نہ تھے ۔۔۔سعدیہ اور ان کی بہن رابعہ کی حالت بھی بہت خراب تھی۔ایسے میں عثمان احمد شاہ کا پورا گهرانا ان کی ہمّت بڑھآ رہا تھا ۔۔۔اللّه اللّه کر کے سب کی دعائیں رنگ لائیں اور اللّه نے عطاء اللّه
صاحب کو دوسری زندگی عطاء فر مائی ۔۔۔۔لیکن وہ بہت خوف زدہ ہو گئے اور اپنی زندگی میں ہی اپنی بچی کو اپنے گھر کا کرنا چاہتے تھے ۔۔۔اس لئے انہوں نے عثمان احمد سے گزارش کی کہ سعدیہ کی شادی جلد از جلد کر دی جائے ۔۔۔گو کے سہیل احمد کی۔ مرضی ابھی نہیں تھی، لیکن ایک مجبور والد کی فریاد کے آگے انھہیں مجبور ہونا پڑا ۔۔۔
عطاء اللّه صاحب نے اپنی دونو ں بیٹیوں کے نام ایک ایک فیکٹری کر دی ۔۔۔سہیل احمد سے در خو است کی ک وہ ان کے کاروبار کی دیکھ بھا ل کریں اور خود گھر پر وقت گزارنے لگے ۔۔۔سہیل احمد اپنے دوست کساتھ مل کے اپنا بھی چھوٹا سا کپڑے کا کارخانہ شروع کر چکے تھے۔ ۔۔عطاء اللّه صاحب کے بزنس کو بھی ٹائیم دینے لگے ۔۔۔ساتھ ہی سعدیہ اور رابعہ بھی اپنی اپنی فیکٹری کا چکّر لگآتی تھیں ۔۔۔
ایک سال بعد رابعہ کی شادی کے چند دن بعد عطاء اللّه صاحب کی وفات ہو گئی ۔۔۔۔
گذرتے وقت کے ساتھ سہیل احمد نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہت نام پیدا کیا ۔۔۔اورشراکت داری میں ایک چھوٹا سا کارخانہ شروع کرنے والے آج کئی فیکٹریوں کے مالک بن گئے ۔۔آج نا صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری بللکہ نہ جانے کتنا بزنس تھا،جو نا صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی پھیلا ہوا تھا ۔۔۔جسے اب ان کی اولاد اورشہرت کی بلندیوں پہ پہنچا رہی تھی ۔۔۔۔خاص طور پر غازیان احمد شاہ جو لندن اسکول اف بزنس کا ایم بی اے تھا ، شاہ انڈسٹریز کو عروج کی نئی بلندیوں پر لے گیا تھا ۔۔۔۔آجکل بزنس حلقوں میں اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا ۔۔۔حال ہی میں ٹائم میگزین میں اس کا انٹرویو شایع ہوا تھا ، جس نے ہر طرف خوب دھوم مچا رکھی تھی ۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial