میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 10

“میں نے ہمیشہ تم لوگوں سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے ۔۔۔کبھی بھی سخت گیر باپ کا رویہ نہیں اپنایا کیوں کہ میں چاہتاہوں کہ میرے بچے اپنے دل کی ہر بات با آسانی مجھ سے کر سکیں ۔۔۔”
راحیل صاحب نے زینب کے عین سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوے بات کا آغاز کیا ۔۔
“جیسا کہ تم جانتی ہی ہو سہیل بھائی نے غازیان کے لئے تمہارا رشتہ مانگا ہے ۔۔۔یقین کرو بیٹا میں اپنی پورا منشا کے باوجود اس وقت تک انھیں ہاں نہیں کروں گا جب تک تم اپنی دلی رضامندی سے اس رشتے پر راضی نہیں ہوگی ۔۔تمہاری ماں اور بھائی کو لگتا ہے میں اپنے بھائی کی محبّت میں جذباتی ہو رہا ہوں ۔۔لیکن سہیل بھائی مجھے جتنے بھی عزیز ہوں ۔۔ میرے لئے میری اولاد سے بڑھ کر نہیں ہیں ۔”
“ہم دونوں بھائی بس یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو تعلق بحال ہوا ہے یہ اتنی مضبوط ڈور سے جڑ جائے کہ ہمارے بعد بھی نہ ٹوٹ سکے ۔۔”
زینب جو بہت غور سے ان کی بات سن رہی تھی ۔ایک دم بولی ۔۔”اللّه آپ دونوں کو سلامت رکھے۔ ۔۔ بابا میں ۔۔”
راحیل صاحب نے ہاتھ اٹھا کے اسے روکا ۔
“تم اسے میری درخواست سمجھو ۔ایک بار اس رشتے پر غور ضرور کرنا تم پر کوئی زور زبردستی نہیں ،اگر تمہارا دل نہیں مانتا تو بے جھجھک مجھے منع کر دینا یا اگر تم کہیں اور ۔۔۔” انہوں نے بات دانستہ ادھوری چھوڑ دی۔ ۔
“نہیں بابا !! ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔” وہ ایک دم تڑپ کر بولی ۔۔ “در خواست نہیں آپ حکم کریں ۔” زینب نے ان کے ہاتھ تھامے ۔”آپ ایک مثالی باپ ہیں ۔آپ میرے لئے کچھ غلط سوچ ہی نہیں سکتے ۔۔۔مجھے فخرہے کہ میں آپ کی بیٹی ہوں ۔ بس اچانک سے یہ ذکر ۔۔میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں بس اس لئے ۔۔ ۔باقی آپ کو جو مناسب لگے آپ کریں ۔” زینب نے بے ربط جملوں میں اپنی بات مکمل کی ۔۔غزالہ اور زین کے کہنے کے باوجود بھی وہ راحیل صاحب کوصاف انکار نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔اس کے لئے یہ سب اچانک قبول کرنا آسان نہیں تھا ۔۔ورنہ انکار کی کوئی اور وجہ نہ تھی ۔۔۔
“میں تم پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتا ۔بس یہ چاہتا ہوں کہ تم اس پروپوزل پر غور ضرور کرو ۔میں تمہیں اس بارے میں سوچنے کابھی نہیں کہتا اگر غازیان کو ہر لحاظ سے تمھارے لئے بہترین نا سمجھتا ۔۔غازیان بے شک لاکھوں میں ایک ہے ۔۔خوش نصیب ہوگی وہ لڑکی جس کا نصیب اس سے جڑے گا ۔”
ان کے غازیان کا ذکر کرتے ہی ۔۔اسکی نگاہوں کے سامنے اس کی چھا جانے والی پرسنلیٹی آ گئی ۔۔چہرے پے یک دم سرخی دوڑ گئی ۔۔۔
“بیٹا اگر تمہارے دل میں غازیان کے حوالے سے کوئی خدشہ ہے تو کہو ۔” راحیل صاحب جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے اس کے چہرے پر بکھرا تذبذب دیکھ کر بولے ۔۔۔۔
“بابا۔۔” اس نے ذرا سی پلکیں اٹھائیں ۔۔۔جو بار حیا سے جھکی جا رہی تھیں ۔
“ہاں بیٹا بولو !!کیا کہنا چاہتی ہو ۔۔؟” اس کا ہاتھ دبا کر حوصلہ دیا ۔۔
“بابا!! وہ۔۔۔غاز۔۔غازیان بھائی بہت۔۔۔ بڑے ہیں ۔۔ مجھ ۔۔سے ۔اور بہت امیر۔۔امیر بھی ۔۔۔میری پڑھائی۔” بے حد جھجھکتے کہا تو راحیل صاحب کے چہرے کے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔
“بیٹا !!چھ سات سال کا فرق کوئی ایسا زیادہ فرق نہیں ہوتا ۔۔اتنا فرق تو لڑکا لڑکی کے درمیان ہونا چاہیے۔ ۔۔اچھا ہے ۔۔غازیان میچور ہے میری بیٹی کا اچھے سے خیال رکھے گا اور امیر ہے تو کیا ہوا ۔۔میری بیٹی کسی سے کم ہے کیا۔ ۔؟ تم فکر نہ کرو ۔اچھی طرح سوچ سمجھ کرمجھے جواب دینا ۔۔اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو بھی فکر نہ کرو ۔۔۔ میں شادی تمہاری پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی کروں گا ۔۔” وہ اس کے سر پے ہاتھ پھیرتے کمرے سے باہر چلے گئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک فائل کو دیکھنے میں مصروف تھی جب دروازہ نوک کر کے اس کی پی اے چلی آئ ۔۔۔” میم !!یہ کچھ فائلز فاروقی صاحب نے بھجوائی ہیں آپ سٹڈی کر لیں ۔۔۔”
“اوکے آپ رکھ دیں میں دیکھ لوں گی ۔۔”
“منصور صاحب سے رابطہ ہوا ؟” فائل سے نظر اٹھا کے پی اے سے پوچھا ۔۔
“نو میم !!ان کے پی ہے سے بات ہوئی ہے ۔منصور سر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پے آفس نہیں آ رہے ۔۔”
“هممم !!اوکے ۔۔جن فائلز پر منصور صاحب کے سائن چاہییں وہ ان کے آفس بھجوا دیں اور ان کے پی اے کو کہیں جیسے ہی منصور صاحب سے رابطہ ہو ان فائلز پے ان کے سائن لے کر مجھے بھجوائیں ۔”
“اوکے میم !!” پی اے کہتی باہر چلی گئی ۔
“پتا نہیں کیا مسلہ ہے اس آدمی کے ساتھ۔۔” دھیرے سے کہتے سر جھٹک کر فائل کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو پھر تم بابا کو ہاں بول دو گی ؟” زویا نے پوچھا
ابھی ابھی غزالہ صاحبہ اور زین اس کے پاس سے اٹھ کر گئے تھے ۔۔۔راحیل صاحب کا فوری رد عمل اور جارحانہ انداز دیکھ کر سب کو لگا تھا کہ وہ زینب کو غازیان کا رشتہ قبول کرنے کے لئے فورس کریں گے لیکن زینب کی زبانی ساری بات سننے کے بعد یہ بات سب کے لئے ہی اچھنبے کا باعث تھی کہ انہوں نے فیصلے کا کلّی اختیار زینب کو سونپا تھا ۔۔
اس صورت حال میں جب زینب کا دل صاف سلیٹ کی مانند تھا تو ظاہر ہے اس نے اپنے اتنے چاہنے والے باپ کا مان ہی بڑھانا تھا ۔اس لئے سب کو زینب کا فیصلہ معلوم ہی تھا ۔۔زین یا غزالہ صاحبہ کو بھی غازیان یا سہیل صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش تو نہ تھی جو مخالفت میں حد سے گزر جاتے ۔بس چھوٹے چھوٹے کچھ خدشات تھے جن سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا ۔۔۔البتہ زین نے دل میں مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ غازیان سے ایک مرتبہ کھل کر اس بارے میں ضرور بات کریگا تاکہ جان سکے کہ اس رشتے میں اس کی کس حد تک مرضی شامل ہے بہرحال وہ اپنی لاڈلی بہن کو کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
اب بھائی اور ماں کے جانے کے بعد زویا نے اس سے پوچھا ۔
“ہاں۔۔۔ بابا نے میرے لئے بہت اچھا ہی سوچا ہوگا۔ مجھے اللّه پر پورا بھروسہ ہے جب میں اپنے بابا کا مان بڑھاؤں گی تو اللّه پاک میرے ساتھ کچھ برا نہیں کریگا ۔” اس نے پریقین لہجے میں کہا
“انشااللہ ۔”زویا نے دل سے کہا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد گویا ہوئی۔۔۔”لیکن منیب ؟ وہ تمہیں پسند کرتا ہے زینی ۔۔۔تم جانتی ہو نا ۔۔؟”
زویا نے ٹھہر ٹھہر کر کہا تو وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگی ۔آنکھوں کے آگے منیب کا چہرہ گھوم گیا ۔۔۔جس کی آنکھوں میں زینب کے لئے ہمیشہ ہی وارفتگی ہوتی تھی ۔۔۔
“هممم !!جانتی ہوں اور تم بھی جانتی ہو زویا میرے دل میں منیب یا کسی کے لیے بھی ایسے کوئی جذبات نہیں ۔۔۔ہمیشہ ذہن میں یہی بات رہی کہ رمشا آپی اور تمہاری طرح میری شادی کا فیصلہ بھی گھر والے ہی کریں گے اس لئے اب بابا نے جو فیصلہ میرے لئے کیا ہے میں اس میں راضی ہوں ۔” اس نے زویا کو مدلل جواب دیا تو وہ سر ہلا گئی ۔۔
“ویسے زینی !!غازیان بھائی ماشاءالله اتنے شاندار ۔لمبے چوڑے ۔ہینڈسم ہیں ۔تم بھی اتنی حسین ہو ماشاءالله تم لوگوں کی جوڑی تو کمال ہوگی ۔مجھے تو تم دونوں کو ساتھ سوچ کے ہی مزہ آ رہا ہے ۔” چند پل بعد زویا نے شرارت سے آنکھیں نچا کر کہا تو اس کے گال تپ اٹھے ۔۔
“فضول باتیں نہ کرو سونے لیٹ جاؤ اب ۔۔مجھے صبح یونی بھی جانا ہے ۔” زویا کو گھرکا ۔۔۔
“ارے چھوڑو اب پڑھائی وڑھائ۔۔اب تو شادی کی تیاری کرو ۔۔دیکھنا بڑے ابّا تمہیں جلد ہی رخصت کروا کے لے جائیں گے ۔”۔زویا نے وثوق سے کہا ۔
“ہرگز نہیں ۔۔۔بابا نے مجھے یقین دلایا ہے ۔ میری پڑھائی مکمل ہوتے تک ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔وہ بڑے ابّا سے یہی بات کریں گے ۔”
“ارے رہنے دو ۔۔۔ایک بار رشتہ پکا ہوجا نے دو پھر دیکھنا ۔تم اتنی حسین ہو کہ غازیان بھائی صبر کر ہی نہیں پایئں گے فورا تمہیں رخصت کروا کر لے جائیں گے ۔۔” زویا نے اس کی تھوڑی چھو تے آنکھوں میں شرارت لئے کہا تو وہ بری طرح جھینپ گئی ۔۔
” بکو مت ۔۔۔لائٹ آ ف کرو اب ۔” اسے کہتے جلدی سے لیٹ گئی ۔
“سونا ہے یا غازیان بھائی کو سوچنا ہے ۔۔؟” زویا اپنے بستر کی جانب بڑھتے بھی باز نہ آئ ۔۔۔
“بولتی رہوفضول ۔”چادر کے اندر سے کہا اور آنکھیں موند لیں لیکن چند لمحوں بعدہی گھبرا کر کھول بھی دیں کیوں کہ آنکھوں کے پیچھے چھم سے غازیان صاحب اپنی پوری آ ن بان سے براجمان تھے ۔۔۔
اس نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھا جہاں دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو روبینہ آپا کے انے والے فون سے گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔۔۔گھر کا ماحول جو تین چار دن سے بوجھل سا تھا ایک دم خوشگوار ہو گیا ۔۔
روبینہ صاحبہ نے نوید سنائی کہ وہ دسمبر کی بیس تاریخ کو اپنے شوہر اور راحم کے ساتھ کراچی پہنچ رہی ہیں ۔۔پروگرام یہ طے پایا کہ ان کے انے کے ہفتہ بھر بعد مہندی اور اگلے روز نکاح کر دیا جاے گا اور زویا کا غذات بننے کے بعد ولیمہ وہ لندن میں کریں گی ۔جہاں ان کے سارے ملنے جلنے والے اور برطانیہ میں مقیم رشتے دار شرکت کر لیں گے ۔۔۔
زویا کے چہرے پے مسکراہٹ جیسے چپک کر رہ گئی تھی ۔۔وہیں غزالہ صاحبہ کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے ۔۔۔”بھلا بتاؤ آپا کو ایک دم ایمرجنسی مچا دی ۔۔۔اب لے دے کر دن ہی کتنے بچے ہیں ان کے آنے میں مشکل سے بیس پچیس دن ۔”
“سب ہو جاےگا امی ۔۔ کوئی لمبا چوڑا جہیز تو بنانا نہیں ہے آپ کیوں فکر کرتی ہیں ۔” زینب نے تسلی دی ۔۔
“اب فرحین مامی کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک ہے میں کل ہی ندا کو گھر لے آؤں گا ۔آپ خواتین کپڑے وغیرہ دیکھ لیجیے گا ۔میں اور بابا دیگر معاملات دیکھ لیں گے ۔” زین نے کہا تو غزالہ صاحبہ سرہلا گئیں ۔۔۔
“کل اکبر بھائی کے گھر مجھے بھی لے چلنا زین ۔۔میں بھائی بھابی کو خود جا کر بتاؤں گی ۔”
” زینب بیٹا ! کل رمشا کو بھی کال کرو ۔۔۔اس کا بھی پروگرام پوچھوں ذرا ۔” غزالہ صاحبہ نے ایک ساتھ زین اور زویا کو ھدایت جاری کی ۔۔۔
زینب نے شدت سے محسوس کیا جہاں سب خوش تھے وہاں راحیل صاحب خاموش خاموش تھے۔ ۔۔انہوں نے ایک دو بار زینب کی طرف سوالیہ نظرروں سے دیکھا بھی لیکن وہ نظریں جھکا گئی ۔۔۔زینب ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ رہی تھی لیکن وہ بھی کیا کرتی باپ سے جتنی بھی بے تکلف سہی اب خود سے منہ پھاڑ کر اپنے رشتے کے لئے رضا مندی تو نہیں دے سکتی تھی ۔
ان کی خاموشی غزالہ صاحبہ اور زین کو بھی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔۔ ان کی اداسی محسوس کر کے زین نے انھیں مخاطب کیا ۔
“بابا !! آپ بھی بڑے ابّا کو فون کر لیں ۔زویا کے نکاح کی ڈیٹ بتا دیں اور ۔۔”
“ہوں ۔۔۔بتا دو ں گا ایک دو دن تک ۔۔” انہوں نے زین کی بات مکمل سنے بغیر کہا تو غزالہ صاحبہ جلدی سے بولیں ۔۔۔
“اچھا زینب کے رشتے کے لئے توسہیل بھائی کو آج ہی ‘ رضا مندی ‘ دے دیں ۔” غزالہ صاحب نے مسکراتے ہوے کہا تو راحیل صاحب نے بے یقینی سے انھیں اور زین کو دیکھا ۔۔۔زین کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی ۔ان کی بے ساختہ نظرزینب کی طرف اٹھی جس نے شرما کر نظريں جھکالیں ۔۔۔راحیل صاحب کھل کر مسکراے اور زینب کے پاس آ کر دونو ں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر استفسار کیا ۔۔”میری بیٹی دل سے راضی ہے یا بس اپنے بابا کا دل رکھنے کے لئے اپنے دل پر جبر کر کے ہاں کی ہے ؟”
وہ اپنی پوری تسلی کرنا چاہتے تھے ۔۔
زینب نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔”میں اپنے بابا کے فیصلے پے دل سے راضی ہوں”
شرم سے سرخ پڑتے بمشکل کہا تو راحیل صاحب نے اس کی پیشانی چوم لی ۔۔۔
“مجھے اللّه پر پورا بھروسہ ہے اور غازیان پر مکمل یقین ۔۔۔ تم اس کے ساتھ بے حد خوش رہو گی ۔تم نے میرا مان سلامت رکھا ہے اللّه تمہیں بے حد وبے حساب خوشیاں دے گا۔انشااللہ “
“میں جانتا ہوں تم لوگ ابھی اس فیصلے پر پوری طرح دل سے خوش نہیں ہو۔”راحیل صاحب نے غزالہ صاحبہ اور زین کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔۔”لیکن میرا فیصلہ کتنا صحیح ہے یہ وقت ثابت کریگا۔میرا اللّه مجھے تم لوگوں کے سامنے کبھی شرمندہ نہیں کرواےگا ۔انشااللہ”
انہو ں نے نم آنکھوں سے کہا تو سب نے ہی بھیگی آنکھوں سے انشااللہ کہتے ان کا ساتھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل صاحب ۔ شایان اور امل کے ساتھ بمع ڈھیر سارے پھل اور مٹھائیوں کے ایک گھنٹے بعد ہی راحیل صاحب کے گھر پہنچ چکے تھے ۔۔۔ بے حد خوشگوار ماحول میں سب کا منہ میٹھا کرایا گیا ۔۔ ۔سہیل صاحب نے زینب کو مٹھائی کھلا کر پیشانی چومی اور پانچ پانچ ہزار کے کئی نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھے ۔۔۔ان کی عزیز از جان بھتیجی ان کے عزیز از جان بیٹے کے ساتھ منسوب ہو گئی تھی ۔۔ان کی خوشی کاتو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا ۔۔۔ شایان کو بھی نازک سی خوبصورت سی زینب ا پنے بے حد شاندار سے بھائی کے حوالے سے بہت پسند آئ تھی ۔۔امل کے تاثرات سپاٹ سے تھے ۔۔۔اسے معلوم تھا کہ اگر غازیان منال سے شادی کرنا چاہتا توکوئی چاہے کچھ بھی کر لیتا ،وہ منال سے ہی شادی کرتا ۔۔اب اگر زینب کو اس سے منسوب کیا گیا ہے تو یہ خالصتاسہیل صاحب کی مرضی تھی جس پر غازیان نے رضا مندی دی تھی ۔۔۔اگر غازیان کی شادی منال سے نہیں ہو رہی تو اس میں نہ سہیل صاحب قصوروار تھے نہ ہی زینب ۔۔۔اتنا تو وہ سہیل صاحب کو جانتی تھی اگر غازیان منال سے شادی کرنا چاہتا تو وہ کبھی بھی اپنی مرضی اس پر مسلط نہ کرتے۔ ۔۔اس لئے امل کو اس لڑکی سے کوئی جلن یا حسد محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔۔بس وہ منال کے متوقع رد عمل کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔۔۔اسے اندازہ نہ تھا سہیل صاحب یہ سب اتنی جلدی کر دیں گے۔ ۔۔امل نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ وہ کل ہی ممی کو تمام بات سے اگاہ کرد یگی ۔۔۔
سہیل صاحب کے زوردار قہقہے سے امل اپنے خیالات سے چونکی ۔۔ سب ہی نہ جانے کس بات پر ہنس رہے تھے ۔۔۔چند لمحوں بعد سہیل صاحب راحیل صاحب سے مخاطب ہوے ۔
“حالاں کہ میری بہت خواھش تھی کہ میں بس دو تین ماہ میں اپنی بچی کو اپنے گھر لے جاؤں لیکن تم چاہتے ہو کہ زینب کو پہلے تعلیم مکمل کرنے دی جائے تو چلو یوں ہی سہی ۔۔۔غازیان بھی ابھی سال ڈیڑھ سال تک بزنس پر فوکس کرنا چاہتا ہے۔ ۔۔تو چلو پھر ایسا کرتے ہیں زویا کے نکاح والے دن غازیان اورزینب کی منگنی کر دیتے ہیں اور شادی زینب کی تعلیم مکمل ہونےبعد ۔۔”
سہیل صاحب نےمنٹوں میں پروگرام فائنل کر لیا ۔۔جس پر سب نے ہی رضامندی ظاہر کی تھی ۔
“غازیان بھائی کیسے ہیں بڑے ابّا ؟ آپ انھیں بھی ساتھ لے اتے ۔۔” زویا نے غازیان کی کمی محسوس کرتے کہا ۔۔۔
“بیٹا !!وہ آج دوپہر ہی اپنے آفس کے کام سے اسلام آباد گیا ہے ۔۔۔ورنہ اسے ساتھ ضرور لاتے ۔۔۔ “تم ہماری بیٹی کو تو بلاؤ وہ کہاں چلی گئی آج تو اپنے بڑے ابّا کے پاس بیٹھی ہی نہیں ۔۔۔”۔بڑے ابّا نے زویا کو جواب دیتے ساتھ ہی زینب کو بلانے کا کہا تو وہ سر ہلاتی اسے بلانے چل دی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے ۔۔وہ اس وقت اسلام آباد میں اپنے بنگلے میں موجود تھا ۔۔گرم پانی سے شاور لینے کے بعد ڈائننگ ٹیبل پر آیا، جہاں ملازمہ نے اس کی پسندیدہ گرم گرم پران بریانی سرو کی تھی ۔۔دن بھر کی تھکا دینے والی مصروفیت کی وجہ سے لنچ بھی نا کر سکا تھا اس لئے اب بہت رغبت سے اپنا پسندیدہ کھانا کھانے میں مشغول تھا ۔۔جب اس کا فون رنگ ہوا ۔۔نمبر دیکھ کر لبوں پر ہلکی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔نیپکن سے منہ صاف کر کے کال او کے کی ۔۔جہاں ویڈیو کال پر رباب اور ازلان موجود تھے ۔
“ہیلو !!”اپنی گھمبیر دلکش آواز میں کہتے ہاتھ سے ہلکا سا ویو بھی کیا۔۔
“وعلیکم ہیلو !!” دولہے میاں ،کہو کیا حال ہیں ؟ بھئی!! تم تو بڑے چھپے رستم نکلے ۔۔جلدی جلدی رشتہ بھی پکا کروالیا ۔اور کان و کان خبر نا ہونے دی ۔۔”
رباب نے چہکتے ہوۓ شرارت سے آنکھیں نچاتے نان اسٹاپ کہا تو اس کے انداز پر غازیان کو ہنسی آ گئی ۔۔
“رباب آپی !! خیریت ہے ۔۔؟ رشتہ تو میرا پکا ہوا ہے ؟ آپ کیوں اتنی آیکسایٹڈ ہو رہی ہیں ۔۔؟ “اس نے بھی شرارت سے آنکھیں گھمائیں ۔
“میں اس لئے ایکسایٹڈ ہو رہی ہوں کہ اب تمہیں بھی کوئی سیدھا کرنے والی آے گی ۔۔جو تمہاری لگامیں کھینچ کر رکھے گی ۔۔۔” رباب نے بھرپور جلایا .
“ہونہہ ۔۔۔ایسا آپ کا خواب ہی رہیگا ۔۔غازیان احمد شاہ کو سیدھا کرنے والا یا اس کی لگامیں کھینچنے والا اس دنیا میں کوئی نہیں ۔” نہایت کروفر سے کہا
“او بیٹا !!” اتنے بڑے بڑے دعوے نہ کر کہ پھر بعد میں شرمندہ ہونا پڑے ۔۔” ازلان نے بھی لقمہ دیا ۔۔
“ہاہاہا ۔۔۔یہ بات آپ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔۔۔؟” وہ کہاں ہاتھ آ نے والا تھا ۔۔۔ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھسکا کر کافی کا کپ ہاتھ میں لیتے کھڑا ہوا ۔۔جو ابھی ملازمہ نے لا کر رکھا تھا ۔
“ا چھا یہ بتاؤ!! اسلام آباد کا کتنے دن کا پلان ہے ۔۔؟ ازلان نے سیریس ہوتے پوچھا
“کچھ دن تو لگیں گے بھائی ۔۔ ابھی کل تو آیا ہوں اسلام آباد ۔ ۔کافی دن سے یہاں کا آفس وزٹ نہیں کیا تو کچھ اشوز ہیں جنھیں سورٹ اوٹ کرنا ہے ۔۔کل سے بھی مسلسل میٹنگز میں بزی رہا ہوں ۔۔۔یہاں سے شاید دبئی بھی جانا پڑے دو چار دن کے لئے ۔” غازیان نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے سنجیدگی سے اپنا پروگرام بتایا ۔
“اوفوہ !!! کیا آپ لوگ آفس کی بورنگ باتیں لے کر بیٹھ گئے ۔۔۔انہیں چھوڑو ۔۔تم میری بات سنو غازیان۔۔ ” رباب نے غصے سے کہتے ازلان سے فون چھینا اور بولی ۔
“مجھے بتاؤ غازیان !! میری ہونے والی دیورانی سے بات چیت ہوئی ۔۔؟ کہیں ڈیٹ شیٹ پر لے کر جاؤ اسے ۔۔کیا تم آفس کے جھمیلوں میں الجھے ہوے ہو ۔۔۔”
“ہاہ !! اتنا فارغ نہیں ہوں میں ۔جو ان فضول کاموں میں وقت ضایع کروں ۔۔” کافی کا گھونٹ بھرتے کہا ۔
“تم مرد بھی نہ عجیب ہوتے ہو ۔ اپنی گرل فرینڈز کو تو لنچ ،ڈنر ،شاپنگ خوب کرا تے ہو ۔۔لیکن بیویوں کے لئے ٹائم نہیں ہوتا تمھارے پاس۔۔۔” رباب نے ناک پھلا کر جل کر کہا تو غازیان ہنس پڑا ۔۔۔
“ارے تو بیوی بننے تو دیں ۔۔۔جب بیوی بنے گی تب دیکھیں گے ۔۔۔”
“اچھا چلیں اب بس کریں ۔۔۔یہاں کافی رات ہوگئی ہے۔ اب سوؤں گامیں۔ کل بہت ہیک ٹک ڈے ہے ۔۔سارا دن بیک ٹو بیک میٹنگز ہیں ۔۔۔” اس نے جماہی روکتے کہا تو رباب خوب ہی تپی ۔۔۔
“ازلان !!!یہ تو بہت ہی کوئی بور انسان ہے۔ ۔اتنی پیاری لڑکی سے انگجمنٹ ہونے والی ہے ۔۔میں نے یہ سوچ کر ویڈیو کال کی تھی کہ یہ خوشی سے کھل رہا ہوگا بلش کر رہا ہوگا لیکن یہ تو ۔۔۔”
“ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ غازیان کا بے ساختہ زوردار قہقہہ نکلا ۔۔۔”کیا ہو گیا آپ کو ۔۔؟”
“ایسی بھی کوئی دنیا سے نرالی انگجمنٹ نہیں ہو رہی میری ۔۔جو بلش ۔۔۔خوشی سے کھلنا ۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔۔اوہ گاڈ ۔” اس نے بری طرح ہنستے ہوے خوب مذاق اڑایا
رباب خفگی سے گھور کر رہ گئی جب کہ ازلان بولا ۔۔
“رابی !!! تمہیں کیا پتا ۔۔ہو سکتا ہے تمہارا فون بند ہونے کے بعد اسے زینب سے بات کرنی ہو ۔یا اپنے فون میں موجود اس کی تصویریں دیکھنی ہوں ۔” ازلان نے شرارت سے مسکراتے لاڈلے چھوٹے بھائی کو چھیڑا ۔۔
“اوہ گاڈ !!بہت فلمی ہیں آپ دونو ں ۔۔بلکل سہی جوڑی ہے آپدونوں کی ۔” نفی میں سر ہلاتے کہا اور بچوں کے بارے میں پوچھا ۔۔۔دونو ں چھوٹے کہاں ہیں ۔۔؟
“سو رہے ہیں ۔۔۔جب سے پاکستان جانے کا سنا ہے بہت خوش ہیں دونو ں ۔” رباب نے بتایا ۔۔۔
“کب آ رہے آپ لوگ ۔۔؟ “غازیان نے پوچھا
“بس چند دنو ں میں انشااللہ ۔ عائشہ پھپواور ابراھیم انکل کا بھی پروگرام بن گیا تمہاری انگیجمنٹ اٹینڈ کرنے کے کا ۔۔۔تو بس سب کی ساتھ ہی ٹکٹ کرواتا ہوں ایک دو دن میں ۔۔۔” ازلان نے تفصیل بتائی ۔۔
اور جب کچھ دیر بعد وہ فون بند کرکے فریش ہوکر سونے لیٹا توآنکھیں بند کرتے ہی وہ پری وش سامنے آ گئی۔۔کانوں میں رباب کی باتیں گونجنے لگیں تو ہونٹ آپ ہی آپ مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔۔
“ا وں ہوں ۔۔۔سونے دو یار ۔۔ڈونٹ ڈسٹرب می ” ایسے کہا جیسے وہ سامنے بیٹھی ہو اوردوسرا تکیہ اٹھا کر چہرے پر رکھ لیا ۔۔۔
جب کہ بند آنکھوں کے سامنے۔۔۔ کبھی اس کی جھیل سی آنکھیں ،کبھی گلاب کی پنکھڑیوں جیسے گلابی ہونٹ ،کبھی وہ دلربا سے دو خوبصورت “تل” گھوم رہے تھے ۔
رباب نے صحیح کہا تھا ۔۔۔بیشک اسکو سیدھا کرنے والی یا لگامیں کسنے والی تو نہیں۔۔۔ لیکن ڈسٹرب کرنے والی ضرور آ گئی تھی ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial