قسط 12
دن تیزی سے پر لگا کر اڑ رہے تھے ۔۔۔زویا کے نکاح اور زینب کی منگنی میں دو دن رہ گئے تھے ۔۔۔جمعے کو زویا کی مہندی تھی ۔۔جس کا انتظام گھر کی چھت پر ہی کیا جانا تھا ۔۔جب کے اگلے دن نکاح کے لئے بنکویٹ ہال بک کروایا گیا تھا ۔۔
غازیان تاحال اسلام آباد سے نا لوٹا تھا ۔۔جب کہ اسے دو دن قبل ہی لوٹ آنا تھا ۔۔جس کی وجہ سے بڑے ابّا کا پارہ بہت ہائی تھا غصے میں آکر انہوں نےدوبارہ اس سے واپسی کا پوچھا ہی نہیں ۔۔نا ہی اس نے سہیل صاحب کوکال کرنے کی زحمت کی تھی ۔۔
عائشہ صاحبہ امل اور رباب شاپنگ پر گئی ہوئی تھیں ۔۔ازلان، شایان آفس تھے ۔۔سہیل صاحب کچھ سوچتے اٹھے اور راحیل صاحب کے گھر روانہ ہو گئے ۔۔۔وہاں بھی یہی حال تھا ۔۔سب لڑکیاں بازار گئی ہوئی تھیں ۔۔۔ غزالہ صاحبہ اور راحیل صاحب کے علاوہ روبینہ صاحبہ اور ان کے شوہر بھی گھر میں موجود تھے ۔۔جب کہ زین ابھی چند منٹ پہلے ہی آفس سے آیا تھا ۔۔۔غزالہ صاحبہ سب کے لئے چاۓ اور چند لوازمات لے کر آئیں تو سہیل صاحب ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعدغزالہ صاحبہ کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ تھامتے ہوے گلا کھنکھارتے گویا ہوے۔۔
“میں تم لوگوں سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں ۔” انہوں نے بات کا آغاز کیا تو سب ہی سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگے ۔
“اب جب کہ غازیان اور زینب کی منگنی میں صرف دو دن ہی باقی رہ گئےہیں ۔۔ میں جانتا ہوں کہ اسوقت یہ بات کچھ اتنی مناسب نہیں لیکن خیر گھر کی بات ہے۔انہوں نے تمہید باندھی تو سب الجھی نظروں سے انھیں دیکھنے لگے۔ ۔”میری بہت خواھش ہے کہ غازیان اور زینب کا بھی نکاح کر دیا جائے ۔”
وہ جلدی سے بولے تو غزالہ صاحبہ کی سانس میں سانس آئ ۔۔ان کے سنجیدہ تاثرات سے وہ خوفزدہ ہوگئی تھیں ۔
“لیکن دیکھو یہ میری صرف درخواست ہے ۔۔فیصلے کا اختیار تم لوگوں کے پاس ہے۔ ۔تمہارا جو فیصلہ ہوگا مجھے قبول ہوگا ۔۔۔۔۔” سہیل صاحب نے مزید کہا تو راحیل صاحب بولے
“سہیل بھائی !! دراصل زینب ابھی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہے ۔۔اور۔ میں بھی چاہتا ہوں کے دوران تعلیم بچوں کی سوچوں کو منتشر نہ کیا جائے ۔۔نکاح ۔۔۔”
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے راحیل ۔۔۔؟ جیسے منگنی ویسے ہی نکاح ہوگا ۔۔۔منگنی کی کوئی شرعی حثیت نہیں ۔۔بس میں اس لئے چاہتا ہوں کہ میری بھتیجی کا میرے گھر سے مضبوط رشتہ جڑجائے ۔۔بس تم میری یہ بات مان لو۔۔ انشااللہ رخصتی جب تم چاہو گے تب ہی ہوگی ۔۔۔انہوں نے راحیل صاحب کے ہاتھ تھامتے ہوے انکی بات قطع کرتے جلدی سے کہاجو تذبذب کا شکار تھے ۔۔۔
“بھئی ویسے تو یہ تم لوگوں کا ذاتی معا ملہ ہے لیکن میری راۓ کے مطابق سہیل کی بات بالکل معقول ہے ۔۔۔منگنی کی کوئی شرعی حثیت نہیں ۔۔” روبینہ صاحبہ نے کہا تو ان کے شوہر بھی ان کی بات کو آگے بڑھاتے کہنے لگے ۔۔”ہم بھی اپنی بیگم کی راۓ سے متفق ہیں۔ ۔گھر کی بات ہے ۔۔جہاں ایک بچی کا نکاح پڑھایا جائے گا وہاں دوسری کا بھی پڑھوا دینا ۔۔۔اچھا ہے خوش قسمت ہو اللّه پاک دونوں بچیوں کے فرض سے سبکدوش ہونے کا موقع دے رہا ہے ۔۔” انہوں نے کچھ اس انداز میں بات کی کہ راحیل صاحب کے پاس انکار کا جواز ہی نہ رہا ۔۔۔یوں سہیل صاحب بآسانی اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحین صاحبہ ابھی مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئیں تھیں کہ دھاڑ سے دروازہ کھول کر منیب کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔اس کی حالت بہت بکھری سی تھی ۔۔۔آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔
“امی آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں ۔۔؟وہ ایک دم ان کے سر پر آکر تیز لہجے میں بولا تو وہ آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔
“کیا ہوا ۔۔؟ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے تسبیح اٹھاتے مستفسر ہوئیں ۔
“زینب کی منگنی ہو رہی ہے ۔۔آپ نے اور ندا نے مجھے بتایا بھی نہیں ۔۔۔بلکہ آپ یہ منگنی ہونے کیسے دے رہی ہیں ۔؟ آپکو پھپو سے بات کرنی چاہیے تھی ۔۔۔آپ دونوں اچھی طرح جانتی ہیں ۔۔میں زینب ۔۔۔”
وہ ایک ساتھ کئی سوال کر گیا ۔۔۔فرحین صاحبہ بھونچکی رہ گئیں ۔۔انہوں نے اور ندا نے طے کیا تھا کہ وہ منیب کو اس منگنی کی بھنک بھی نہیں پڑنے دیں گی۔ ۔۔بیٹے کے جذبات سے واقف تھیں لیکن دوسری طرف بھی معاملہ بیٹی کی سسرال کا تھا ۔۔ویسے بھی منیب اجکل پڑھائی میں مصروف تھا ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے کہیں سے پتا چل جاےگا ۔۔۔
“تمہیں کس نے بتایا ۔۔؟” بمشکل ہوش میں آ تے اس سے پوچھا
“ابھی زین بھائی کی کال آئ تھی ۔انہوں نے ہی بتایا ۔۔گلہ کر رہے تھےکہ ویسے تو زویا اور زینب سے بہت دوستی ہے لیکن ان کے اہم دن کے موقع پر میں بالکل غائب ہوں ۔۔اور یہ کہ کتنے ہی کام ہیں جن میں انھیں میری مدد درکار ہے ۔۔” وہ شکایتی نظر ڈال کر گویا ہوا ۔
“دیکھو بیٹا !!تمھارے راحیل انکل نے اپنے بھائی کی خوشی کے لئے اچانک ہی زینب کا رشتہ طے کر دیا ۔۔ندا خود بے خبر تھی ۔۔” انہوں نے بیٹے کے تیور دیکھ کر رسان سے کہا
“ندا کی تو بات نہ ہی کریں ۔۔۔اس نے جان کے کیا ہے یہ سب۔ ۔۔پھپو ہر بات اس کے مشورے سے کرتی ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے اس بارے میں اسے ہوا بھی نہیں لگائی ۔۔؟” وہ انتہائی غصیلے لہجے میں بولتا بیڈ پر بیٹھا ۔۔
“نہ بچے بہن سے بدگمان نہ ہو ۔۔ندا بھلا کیوں نہیں چاہے گی ۔۔۔اس نے تو غزالہ سے بعد میں بات بھی کی لیکن راحیل اپنے بھائی کے لئے بہت جذباتی ہو رہے تھے ۔۔اس لئے غزالہ نے بھی اسے یہ بات نہ دوہرانے کا کہا ۔” فرحین صاحبہ نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔”تم سجھو زینب تمھارے نصیب میں نہیں تھی ۔۔” اس نے زورسے ان کا ہاتھ جھٹکا ۔۔۔اور اپنے بال غصے سے کھینچے ۔
“ایسے کیسے سمجھ لوں ۔۔اتنے سالوں سے اسے ۔۔۔”بات ادھوری چھوڑ کر زور سے پاس رکھی کرسی کو لات ماری
“خیر ۔۔۔زینب کی شادی تو مجھ سے ہی ہوگی ۔۔۔منگنی چاہے جس کسی سے بھی ہو جائے ۔۔۔” وہ پھنکآرا تو فرحین صاحبہ دہل گئیں ۔۔جوان خون تھا ۔۔کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھتا تو ۔۔
“منیب کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنا ۔۔۔تم بھی بہنوں والے ہو ۔۔۔کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے سے پہلے یاد رکھنا تمہاری بہن کا گھر اجڑ جائے گا “
ان کی بات سن کر وہ طنزیہ ہنسی ہنس کر زہر خند لہجے میں بو لا ۔۔
“بس آ گئی نہ اصل بات زبان پر ۔۔۔بیٹی کا گھر نہ اجڑے اس لئے آپ نے بیٹے کا دل اجاڑ دیا ۔۔”
کہہ کر کمرے میں رکا نہیں دروازہ زور سے بند کرتا چلا گیا ۔۔
فرحین صاحبہ وہیں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں ۔۔ٹانگ کے فریکچر کی وجہ سے اس کے پیچھے بھی نہ جا سکیں ۔۔۔بمشکل دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ ان کی بہو اریب کی بیوی گھبرائی ہوئی کمرے میں چلی آئ ۔۔۔
“امی ۔۔یہ منیب کو کیا ہوا ؟ ” فرحین صاحبہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
“ابھی ابھی بہت غصے میں بیگ لے کر گھر سے نکلا ہے ۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔اتنے غصے میں کہاں جا رہے ہو تو کہنے لگا گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔آپ سے کوئی جھگڑا ہوا ہے اسکا ؟وہ تو ایسا کبھی نہیں کرتا ۔۔” پوری بات بتا کر انہوں نے ساس سے پوچھا
“ارے۔۔۔ تم روکتیں نا اسے ۔۔۔الہی خیر ۔۔پتا نہیں کہاں گیا ہوگا یہ لڑکا ۔” فرحین صاحبہ پریشانی سے بولیں۔
“میں نے روکا تھا لیکن اس نے کچھ سنا ہی نہیں ایک دم چلا گیا ۔۔۔” ان کی بہو بولی اور ساتھ ہی پوچھا ۔۔۔”ہوا کیا ہے ؟ یہ تو بتایئں ؟”
فرحین صاحبہ انہیں سب بتانے لگیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند لمحوں تک تو وہ راحیل صاحب کو بالکل بےیقینی سے دیکھتی رہی ۔۔جب کہ آنکھوں میں تیزی سے آنسو بھرے تھے ۔۔۔راحیل صاحب ایک دم اپنی لاڈلی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھے ۔۔۔
“زینب میری بچی !! ایسے نارو میری جان ۔۔” جلدی سے اسے اپنے ساتھ لگاتے بولے ۔
“بابا ! بابا آپ نے۔۔ کہا تھا بس۔۔ ابھی منگ ۔۔منگنی ہوگی ۔۔پھ ۔۔ر ۔۔یہ اب نک ۔نکاح ۔” بے حد روتے بلکتے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔جسے راحیل صاحب بہت مشکل سے سمجھ سکے ۔۔۔
“ہاں بیٹا !!میں نے کہا تھا لیکن اب میں سہیل بھائی کے سامنے مجبورہو گیا ہوں میرا بچہ ۔۔” راحیل صاحب اسے پچکارتے بولے۔
“یہ کیا بات ہوئی ۔۔؟جو بڑے ابّا کہیں گے آپ مانتے جائیں گے ۔۔۔کل کو وہ کہیں گے رخصتی بھی کر دو تو آپ ۔۔۔”
وہ ان سے الگ ہوتی غصے سے بولی ۔۔۔غزالہ صاحبہ جو ابھی کمرے میں آئی تھیں ۔۔۔ انہیں اس کی بد لحاظی ایک آنکھ نا بھائی ۔۔۔اسے ٹوکتے ہوۓ بولیں “یہ کس لہجے میں اپنے باپ سے بات کر رہی ہو تم ۔۔۔؟ “
“منگنی ہو یا نکاح ۔۔تمہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں تو خود منگنی کو زیادہ پسند نہیں کرتی۔ ۔۔اچھا ہے شرعی رشتہ جڑ جاےگا ۔۔۔”
“نہیں غزالہ ۔۔۔آپ میری بیٹی کو نہ ڈانٹیں ۔وہ صحیح کہہ رہی ہے ۔۔میں نے اسے یقین دلایا تھا ابھی صرف رشتہ پکا ہوگا ۔اس کا رد عمل ٹھیک ہے ۔۔”راحیل صاحب اسے اپنے ساتھ لگاتےہوۓ پر سوچ لہجے میں بولے ۔۔جو ماں کی ڈانٹ سن کر تیزی سے رونے لگی تھی ۔
“پھرکیا کریں گے ؟ منع کر دیں گے سہیل بھائی کو ۔۔؟ ہماری لڑکی نکاح پر راضی نہیں ۔۔۔کیا سوچیں گے وہ ۔۔ان کا بیٹا لڑکا ہو کر باپ کی کسی بات سے اعتراض نہیں کر رہا اور ہماری بیٹی ۔۔۔”
غزالہ جھنجھلاتے لہجے میں بولیں ۔۔۔گھر میں سینکڑوں کام تھے ۔۔کل زویا کی مہندی تھی ۔دو دو بیٹیوں کا فنکشن اور اب یہ نیا مسلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔۔
رات وہ لوگ کافی دیر سے شاپنگ سے لوٹی تھیں ۔۔۔زینب تو بغیر کھانا کھا ۓ ہی سو گئی ۔۔راحیل صاحب نے اس کو آگاہ کرنے کی ذمےداری اپنے سر لی تھی ۔انہیں یقین تھا وہ آسانی سے مان جاۓگی لیکن ناشتے کے بعد جب انہوں نے اسے اپنے کمرے میں بات کرنے کے لۓ بلایا تو اس کااتنا شدید رد عمل دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے ۔
غزالہ کی بات سن کر راحیل صاحب کسی سوچ میں گم ہو گئے ۔۔جب کہ زینب ان سے الگ ہوکر اپنے آنسو صاف کرتے ہوے بولی ۔
“آپ لوگوں کو جو مناسب لگے، آپ کریں ۔۔مجھے کسی بات سے کوئی اعتراض نہیں ۔” جلدی سے کہہ کر وہ کمرے سے با ہر نکل گئی ۔۔۔راحیل صاحب دروازے کی طرف دیکھتے رہ گئے ۔
“آپ پریشان نہ ہوں ۔وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔جب رشتے کی حامی بھر ہی لی تو کیا فرق پڑتا ہے نکاح ہو یا منگنی ۔” غزالہ صاحبہ نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو راحیل صاحب بھی سر ہلا گئے ۔۔۔ جب کہ غزالہ مزید بولیں
“میں نے کہا ہے رمشا زویا سے وہ سمجھایئں گی اسے ۔۔بس اچانک نکاح کا فیصلہ ہو گیا تو گھبرا گئی ۔۔۔
اور پھر واقعی ۔۔۔کچھ دیر جی بھر کر رونے کے بعد رمشا کے سمجھانے پر وہ کافی بہل گئی ۔۔۔”زینی گڑیا ! بابا کی پوزیشن بھی تو سمجھو نا ۔۔اچھا یہ بتاؤ تم کیوں نہیں چاہتیں کہ نکاح ہو ۔” رمشا نے اسکے بالوں کی لٹیں کان کے پیچھے اڑ ستے پوچھا ۔
” آپی !! میرے کچھ خواب ہیں ۔میں پڑھنا چاہتی ہوں ۔۔مجھے ایم بی اے کرنا ہے ۔جاب کرنی ہے ۔۔۔جب یہ نکاح وغیرہ ہو جاتا ہے تو لڑکے والے شادی کے لئے دباؤ ڈالنے لگتے ہیں ۔پڑھائی بیچ میں چھٹ جاتی ہے ۔میری کلاس میں دو لڑکیوں کے ساتھ یہی ہوا ہے ۔۔۔اس لئےمیں ابھی یہ سب نہیں چاہتی ۔” وہ وجہ بتاتے، بات درمیان میں چھوڑ کر ایک مرتبہ پھر رو پڑی ۔۔
“نہیں میری جان !!بابا نے بڑے ابّا کو صاف لفظوں میں کہہ دیا ۔اس کے بعد وہ ان کی کوئی بات نہیں مانیں گے ۔”رمشا نے اپنے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کئے ۔
“پتا نہیں ۔۔مجھےاب اس بات پر یقین نہیں رہا۔۔۔بڑے ابّا کو اپنی بات منوانی آتی ہے ۔” آنسو پوچھتے سوں سوں کرتے بولی ۔
“اگر میں کچھ بولوں گی تو امی پھر کہہ دیں گی ان کا بیٹا لڑکا ہو کر کسی بات پر اعتراض نہیں کر رہا اور میں لڑکی ہو کر ۔۔۔” ما ں کا سخت لہجہ، اور یہ بات بہت چبھی تھی تب ہی بہنوں کو بتا بیٹھی ۔۔
“نہیں گڑیا! ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔رو رو کو خود کو پریشان نہ کرو ۔” رمشا نےپچکارا ۔۔جب کہ زویا کی زبان میں كهجلی ہوئی
“ویسے یہ بات تو امی کی بالکل صحیح ہے ۔۔اب ظاہر ہے ۔بڑے ابّا نے اتنی بڑ ی بات غازیان بھائی کی مرضی کے بغیر تو نہیں کی ہوگی ۔لگتا ہے وہ ایک ذرا سی ملاقات میں ہی زینب کے حسن سے بری طرح گھائل ہو گئے جو ۔۔۔”
زویا کے کہتے ہی وہ اس کی بات درمیان میں کاٹ کر زور سے بولی
“ایسے کوئی ترسے پھڑکے نہیں ہیں وہ ۔۔سنا نہیں تھا اس دن زین بھائ کیا کہہ رھے تھے ۔کافی ساری سہیلیاں ہیں ان کی ۔” ۔ایک دم زور سے کہہ کر پھرسے رو پڑی ۔۔ اس کی بات پر زویا کا قہقہہ نکلا رمشا نے بھی ہنسی دبائی ۔۔
“زویا !!چپ کرو تم ۔۔۔” رمشا نے مصنوعی غصے سے ڈانٹ کر زینب کے آنسو صاف کئے ۔۔۔زویا ہنستی ہوئی کمرے سے باہر جاتےہوۓ بولی ۔
“اوہ گاڈ ۔۔۔سہیلیاں “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحین صاحبہ کی زبانی منیب کے سخت رد عمل اور گھر چھوڑ کرجانے کا سن کر ندا شدید پریشان ہوگئی ۔وہ تو شکر ہوا اریب نے معلوم کروا لیا کہ منیب ٹھیک تھا اور اپنے ایک بہت قریبی دوست کے گھر رہ رہا تھا۔۔جہاں یہ سن کر فرحین صاحبہ کو کچھ تسلی ہوئی وہیں اس کے دوست نے بھی اریب بھائی کو یقین دلایا کہ دو چار دن میں سمجھا بجھا کر اسے گھر بھیج دے گا۔۔۔ندا نے فرحین صاحبہ کو سختی سے تاکید کی تھی کہ منیب تک زینب کے نکاح کی خبر نہ پہنچے ۔۔۔ساتھ ہی دونوں کو یہ اطمینان بھی ہوا کہ ایک دفعہ زینب کا نکاح ہو جاےگا تو منیب خود ہی صبر کر کے بیٹھ جاےگا ۔۔۔ندا سخت پریشا ن تھی اور دعاگو تھی کہ منیب کوئی گڑ بڑ نا کرے اور زینب کا نکاح خیر و عافیت سے انجام پا جائے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے وہ گھر میں داخل ہوا ۔۔۔سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔سب یقیناً اپنے کمروں میں تھے ۔۔وہ بھی سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا ۔۔نیند اور تھکن سے برا حال تھا ۔۔اپنا بیڈ دیکھ کر دل میں شدت سے خواہش جاگی کہ بس جلدی سے لمبی تان کر سو جائے ۔۔اتنے دنوں کی بے آرامی کے بعد اس کا بالکل دل نہیں تھا کہ اتنی لیٹ فلائٹ لیتا لیکن سہیل صاحب کی ناراضی کےخیال سے آج ہی چلا آیا ۔۔پہلے ہی چاہنے کے باوجود بھی دو دن قبل نہ پہنچ سکا تھا۔۔۔وہ بھی کیا کرتا ۔۔اسلام آباد آفس کی صورت حال کافی گھمبیر تھی ۔۔وہاں کے مسائل کافی توجہ طلب تھے ۔کوشش کے باوجود بھی مزدور یونین کے صدر سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے ۔ابھی بھی وہ مینیجر صاحب کو خاص ھدایا ت دے کر آیا تھا کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اسے فورا آگاہ کریں ۔۔
اے سی فل سپیڈ میں چلا کر شاور لینے چلا گیا ۔۔۔پندرہ منٹ بعد فریش ہو کر آیا بالوں میں برش کر کے لائٹس آف کیں اور بستر پر دراز ہو گیا ۔۔تھکن کی وجہ سے جلد ہی نیند کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی ۔۔۔
دن کے گیارہ بج چکے تھے اور وہ ابھی تک بیدار نہ ہوا تھا ۔۔۔سہیل صاحب جنھیں صبح ہی اس کی آمد کی خبر مل چکی تھی ۔۔شدت سے اس کے جاگنے کے منتظر تھے ۔۔۔کچھ اس کی تھکاوٹ کا احساس بھی تھا اس لیے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا ۔۔۔
خدا خدا کر کے پونے بارہ بجے وہ نک سک سے تیار بلیک پینٹ کوٹ کے ساتھ لائٹ لیمن کلر کی شرٹ پر میچنگ ٹائ لگاۓ خوشبوؤں میں بسا اپنی شاندار چھا جانے والی پرسنیلٹی کے ساتھ کمرے سے برآمد ہوا تو لاؤنج میں خوب رونق لگی تھی ۔۔۔سب ہی موجود تھے ۔۔وہ سب کو سلام کر کے پھپو سے پیار لے کر وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔ساتھ ہی فریدہ بوا کو ناشتے کے لئے آواز لگائی ۔۔۔اسے خود پر جمی سہیل صاحب کی طنزیہ نظروں کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا لیکن وہ نظر انداز کر کے بیٹھا رہا۔ بلکہ ایک دفعہ ان کی طرف مسکرا کر بھی دیکھا جس کے بدلے میں انہوں نے سخت گھوری سے نوازا ۔۔ان کا ری ایکشن دیکھ کراسے ہنسی بھی آئ لیکن ضبط کرکے ازلان اور پھپو سےباتوں میں مصروف رہا ۔۔۔کچھ دیر بعد جب سہیل صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو خود ہی طنزیہ لہجے میں اسے مخاطب کیا ۔
” برخوردار!!! فرصت مل گئی آپ کو گھر تشریف لانےکی ؟”
“فرصت تو ابھی بھی نہیں ملی لیکن آپ کی ناراضی کے خیال سے بہت مشکل سے ٹائم نکال کر آیا ہوں ۔۔” وہ کونسا کم تھا ۔۔مسکراہٹ دبا کر جوابأ انہیں خوب سلگایا
“ہوں !! بہت نوازش آپ کی ۔۔” ان کے طنزیہ انداز پر سب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔”ناشتہ کر کے میرے کمرے میں آؤ کچھ خاص بات کرنی ہے تم سے ۔”سہیل صاحب اسے برہم نظروں سے گھورتے ہوے مزید بولے ۔۔ جب کہ اپنے بھر پور توانا بیٹےکی وجاہت کو دل ہی دل میں سراہتے ماشاءالله کہا تھا ۔
“ماموں جان !! اس کی شادی کروانے نے سے پہلے ایک دفعہ چھان بین کروا لیں ۔جس طرح یہ گھر سے غائب رہتا ہے مجھے تو شک ہے ہو نہ ہو اس نے شادی کر رکھی ہے ۔۔” رباب نے آنکھیں نچا تے ہوے کہا تو سب ہی ہنس پڑے ۔۔۔
“ڈیڈ !! ویسے رابی کی بات میں وزن ہے ۔۔” ازلان نے بھی لقمہ دیا ۔۔۔
خلاف توقع وہ خاموشی سے بغیر جواب دیے ناشتہ کرتا رہا تو رباب کی زبان پھر چلی ۔۔۔
“ازلان دیکھیں ذرا۔۔ اس بے چارے کی بولتی تو ابھی سے بند ہوگئی ۔۔ابھی تو زینب آئ بھی نہیں ۔۔” رباب مصنوعی تفکر سے بولی
“بھابی !! یہ ابھی سے پریکٹس کر رہا ہے چپ رہنے کی ۔” امل نے بھی کہا اور دونو ں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑیں ۔
سب انکی شرارت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ۔سہیل صاحب اپنے گھر کی رونق دیکھ کر بے حد خوش تھے ۔۔۔ وہ گھر میں سب کو غازیان کے نکاح کا بتا چکے تھے لیکن تاکید کی تھی کہ غازیان کو کوئی نہ بتاے ۔۔وہ نہیں جانتے تھے اس کا رد عمل کیا ہوگا ۔۔۔اس لئے وہ اس سے خود بات کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
غازیان نے خاموشی سے ناشتہ ختم کیا ۔۔۔نیپکن سے منہ صاف کر کے کرسی سے ٹیک لگا کربیٹھا اور ایک نظر اپنی دونوں بھابھیوں پر ڈال کر نہایت سکون سے ازلان کو مخاطب کیا ۔۔
“بھائی۔۔!! وہ لیزا والا مسلہ حل ہوگیا ۔۔؟ “اس کے کہتے ہی ازلان ایک دم گڑ بڑا گیا جب کہ رباب کی مسکراہٹ بھی فورا سمٹی ۔۔
“ازی ۔۔!! یہ کیا کہہ رہا ہے غازیان ؟؟ کون ہے یہ لیزا ۔۔؟؟” رباب ایک لمحہ بھی صبر کئے بغیر بولی تو غازیان کی مسکراہٹ خوب گہری ہوئی ۔
“رابی !!بکواس کر رہا ہےیہ۔۔۔بات تو سنو ۔” ازلان کہتا رباب کے پیچھے بھاگا جو لاؤنج سے واک اوٹ کر گئی تھی ۔۔
ان کے جانے کے بعد وہ امل کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
“امل !!شایان آجکل آفس سے ٹائم پر گھر آ رہا ہے ۔۔؟” اس نے سرسری انداز میں پوچھا
“نہیں ۔۔۔کافی لیٹ آتا ہے ۔” امل نے جواب دے کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔
“هممم ۔۔۔ڈیڈ آپ شایان کی نئی سیکریٹری سے ملے ہیں ۔۔؟بہت ہارڈ ورکنگ ہے وہ ۔۔۔اور بہت گڈ لکنگ بھی ۔۔” تھوڑی کھجاتے ہوے نہایت اطمینان سے امل کا اطمینان غارت کیا ۔۔۔
وہ فورا صوفے سے کھڑی ہوتی اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔اس کے جاتے ہی سہیل صاحب اور پھپو کے ساتھ وہ خود بھی ہنس پڑا ۔۔۔سب ہی جانتے تھےاب امل فون کرکے شایان کی شامت بلاۓگی ۔۔
“بہت تخریب کار ہو تم” سہیل صاحب نے مصنوعی خفگی سے گھورتے کہا
“ماشاءالله ۔۔۔سہیل بھائی ہمارا بچہ تو زینب کے ساتھ رشتہ ہونے سے بہت خوش ہے ۔۔دیکھیں نا کیسے چہک رہا ہے۔ ۔ورنہ تو ہر وقت انگارے چبا ۓرکھتا تھا ۔” سب کےجانے کے بعد پھپو نے اس کی ٹانگ کھینچی تو بوا بھی انکی ہاں میں ہاں ملاتے بولیں .
“یہ تو آپ نے صحیح کہا عائشہ بٹیا ۔۔۔بچی بڑی نصیبوں والی ہے اس کا نام ساتھ جڑ رہا ہے تو میاں کے چہرے پر بھی ذرا رونق آ گئی ورنہ تو بس۔۔ ” بوا نے منہ بنا کر کہتے بات ادھوری چھوڑی تو عائشہ صاحبہ اور سہیل صاحب زور سے ہنس پڑے ۔
” بوا ۔۔دس از نوٹ فیئر ۔۔۔اب آپ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گی ۔” شکایتی لہجے میں بولا ۔
” ہم نے تو سچ ہی بولا ہے ۔” بوا کی بے نیازی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی . وہ بوا کو خفگی سے دیکھ کر رہ گیا ۔
“ڈیڈ۔۔!! بتائیں آپ نے کیا بات کرنی ہے ۔۔؟مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے پھر ۔۔” گھڑی پر نظر ڈالتے سہیل صاحب سے پوچھا
“اندر کمرے میں آؤ ۔۔” سہیل صاحب کہتے ہوے اپنے کمرے کی جانب چل دیے تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
سہیل صاحب اتنا برا فیصلہ اس سےپوچھے بغیر کرتو چکے تھے لیکن اب اس کے رد عمل کا سوچ کر متفکر بھی تھے ۔ انہوں نے اس کی گھر سے حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی لا تعلقی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا تھا ۔۔۔اب جانے وہ اتنی جلدی نکاح پر رضا مند بھی ہوتا یا نہیں ۔۔۔خیر انہیں یقین تھا تھوڑی اموشنل بلیک میلنگ کر کے وہ اسے مناہی لیں گے ۔
“ڈیڈ !! آپ کو کوئی بات کرنی ہے ۔۔”
غازیان نے انہیں سوچوں میں گم دیکھ کر ٹوکا ۔۔۔
“هممم ۔۔۔ہاں ۔۔بات یہ ہے کہ ۔۔۔”سہیل صاحب نے بات کا آغاز کیا ۔
“دو دن بعد میں نے تمہارا نکاح زینب سے طےکردیا ہے۔”
انہوں نے ایک دم کہا تو وہ چند پل کے لئے تحیر سے انہیں دیکھتا رہ گیا ۔۔
“واو ڈیڈ !!ڈیٹس گریٹ !! “لیکن آپ مجھے اتنے دن پہلے کیوں بتا رہے ہیں نکاح والے دن ہی بتا دیتے۔ “
اس نے نظریں گھماتے ہوے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔
“میں یقیناً ایسا ہی کرتا۔۔اگر مجھے اس بات کا یقین ہوتا کہ اس دن تم گھر پر ہی ہوگے ۔۔۔اپنی کسی بزنس ڈیل کے لئے شھر یا ملک سے باھر نہیں ہوگے ۔”
انہوں نے جواباً اس سے زیادہ طنزیہ انداز اپنا کر ثابت کیا تھا کہ وہ طنز کرنے میں بھی اس کے باپ ہی ہیں ۔۔۔۔
ان کے اتنے صاف کورے جواب پر اس کا منہ کھل گیا۔
“کیا سوچنے لگے ۔۔؟” وہ چند لمحے خاموش رہا تو سہیل صاحب نے آئ برو اچکا کر پوچھا ۔۔
“میں سوچ رہا ہوں ۔شکر ہے میں کل ہی آگیا اگر ایک دن اور لیٹ ہوجاتا تو آپ نے ڈائریکٹ میری شادی ہی کروا دینی تھی ۔۔۔”
اس نے نہایت معصومیت سے کہا تو سہیل صاحب نے لب بھینچ کر اپنی مسکراہٹ دبائی ۔