قسط 13
شام کے سات بج رہے تھے۔ ۔غازیان نے آج سارادن اپنے آفس میں گزارا تھا ۔۔دوپہر کو سائٹ کا چکر لگایا پھر مینیجر صاحب سے گزشتہ سارے دنوں کی رپورٹ طلب کرتے اب جا کر فارغ ہوا ۔۔کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر سکون سے چند پل کے لئے آنکھیں موندیں۔۔تو نگاہوں میں وہ دل نشین چہرہ آ سمایا جس نے آجکل اسکا چین چرایا ہوا تھا ۔۔۔آج صبح ڈیڈ سے ہوئی بات ایک دفعہ پھر یاد آئ تو لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔خود پر ایک مرتبہ پھر حیرت ہوئی ۔۔آج تک ہمیشہ اس کے پیچھے لڑکیاں کھنچی چلی آئ تھیں ۔لیکن اب نا جانے کیوں پہلی دفعہ وہ اس لڑکی کے سامنے بے بس ہو رہا تھا ۔۔۔وہ کیوں بغیر کسی اعتراض کے ڈیڈ کی نکاح والی بات مان گیا ؟صبح سے جانے کتنی دفعہ یہ سوال خود سے پوچھ چکا تھا ۔۔۔کیا وہ دل سے یہی چاہتا تھا کہ وہ ساحرہ جلد از جلد اس کی ہو جائے ۔۔”جادوگرنی ۔۔” زیر لب کہتے گہرا مسکرایا اور کچھ خیال آ تے ہی فون نکال کر حیدر کو کال ملائی ۔۔دو دفعہ ٹرائ کرنے کے بعد بھی اس نے کال ریسیو نہیں کی تو اس کے لئے واٹس اپ پر وائس نوٹ چھوڑا ۔
“کہاں غائب ہے تو ۔۔؟میرا خیال ہے تو اپنی پرانی گرل فرینڈز کے ساتھ ڈیٹ پر ہے . اور اپنی فيانسی کے ڈر سے فون ریسیو نہیں کر رہا ۔۔۔ ہوش میں آ کر مجھے کال کر فورأ ۔۔۔”
حیدر کو میسج کر کے ٹیبل سے لیپ ٹاپ اور كيز اٹھایئں اور گھر کے لیے نکل گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازیان گھر پہنچا تو لاؤنج میں خوب رونق لگی ہوئی تھی ۔۔۔عائشہ پھپو ،رباب اور امل لاؤنج میں ڈھیر سارے رنگ برنگے ملبوسات اور بیش قیمت زیورات کے کئی ڈبے سجاۓبیٹھی نا جانے کس بحث میں مشغول تھیں ۔۔ آج خلاف توقع شایان بھی لاؤنج میں ایک سائیڈ پر کھڑا کسی فون کال پر مصروف تھا ۔۔وہ سب کو سلام کرتا بوا کو کھانے کا کہتا کہ اس وقت شدید بھوک لگی تھی ۔۔اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔اپنی دھن میں نوٹس ہی نا كرسكا رباب اورامل نے اسے دیکھ کر خفگی سے منہ پھیر لیا تھا ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد فریش ہوکر آیا تو ازلان اورشایان دونوں لاؤنج میں بیٹھے آپس میں گفتگو میں مصروف تھے ۔۔اسے دیکھتے ہی شایان اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے اس کے نزدیک آیا ۔۔”بے غیرت انسان صبح کیا بکواس کرکے گیا تھا امل سے ۔۔؟”زور سے اس کا کندھا دبوچتے غرایا ۔۔۔
“کیا ۔۔؟ ” غازیان نے آنکھیں چھوٹی کر کے سوالیہ آئی بروز اچکائیں ۔۔اسے بالکل یاد نا تھا صبح وہ کیا کارنامہ انجام دے کر گیا تھا ۔۔
ازلان جو ان دونوں کے قریب آ گیا تھا۔ ۔۔۔کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتا منہ بگاڑ تا ہوا بولا ۔۔”صبح سے ہم اپنی بیویوں کو منا منا کر تھک گئے ۔۔۔کتنے ہی پیسوں کی شاپنگ کروا چکے لیکن ان کی پیشانی کی بل ہی ختم نہیں ہو رہے اور یہ ذلیل انسان کہہ رہا ہے ۔۔۔ کیا ؟ شایان اسے اپنا کارنامہ یاد ہی نہیں ۔۔
ازلان کے کہتے ہی غازیان کو صبح ہوئی ساری بات یاد آ گئی ۔۔اس کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئ ۔۔جس سے ان دونوں کو خوب ہی آگ لگی۔ ۔۔
وہ ان سے اپنا آپ چھڑاتا صوفے کی جانب بڑھتا ہوا آرام سے بولا
“ہاں تو ۔۔؟ بہت بول رہی تھیں دونوں ۔۔ میں نے چپ کروادیا ۔۔۔” لبوں پے مخصوص کمینی مسکراہٹ سجاے آنکھوں میں شرارت لئے لاپرواہی سے بولتا بہت پیارا لگا۔۔
“تو انہیں چپ کرواتا نہ۔۔ ہمیں کیوں پھنسا گیا ۔۔؟” شایان نے پوچھا اور ساتھ ہی دونوں نے اس پر کشنز سے حملہ کر دیا ۔۔۔وہ ہنستا ہوا اپنا بچاؤ کرتا بولا ۔۔”کیا ضرورت ہے منانے کی ۔۔؟ رہنے دیں نا کچھ دن ناراض ۔۔۔ اچھا ہے آپ لوگ بھی سکون سے رہیں ۔۔”ایک دفعہ پھر زبان میں كهجلی ہوئی تو ازلان بولا ۔۔”کہاں کا سکون ۔۔۔جان عذاب میں آ جاتی ہے ۔۔بیوی ناراض ہوجاے تو ۔۔” شایان نے زور زور سے گردن ہلا کر ہاں میں ہاں ملاتے ہوے کہا ۔۔”ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی نا بھائی۔۔ تو اسے اندازہ نہیں ۔۔ایک دفعہ اس کی شادی ہو جائے تو پتا چلے گا بیوی کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر کیسے اپنی سانس اٹکتی محسوس ہوتی ہے ۔۔”
” توبہ ! بہت بڑے زن مرید ہیں آپ دونوں ۔” اس نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو ازلان نے کاندھے پر زور دار دھپ رسید کی
“چل بے !! ہم سے بھی بڑا زن مرید تو۔تو ہوگا “
“انشااللہ ” ۔۔۔ازلان کے کہتے ہی رباب نے دل کی گہرائی سے ٹکڑا لگایا اور مزید بولی ۔۔”میرا بہت دل ہے اسے اس کی بیوی کے ہاتھوں ذلیل ہوتا دیکھوں ۔۔ ” اس نے منہ بنا کراور ناک چڑھآ کر کہا تو سب ہنس دیے ۔۔۔
“یہ آپ کی حسرت ہی رہے گی ۔” غازیان نے پھر دل جلایا
“بیٹا ! اتنی بڑھکیں نہ مار ۔۔بعد میں منہ چھپا تا پھرے گا ۔” شایان نے کہا
“اپنے جیسا سمجھا ہے کیا ۔۔؟” اس نے معصومانہ سوال کیا تو دونوں بھائی اسے گھور کر رہ گئے ۔۔
“ابھی یہ بہت ہواؤں میں اڑ رہا ہے شان ۔۔وقت آنے پر اس سے حساب لیں گے ۔” ازلان نے شایان کو مفید مشورہ دیا۔ غازیان سر جھٹک کر رہ گیا ۔
“چلو بچو ! سب کھانے کے لئے آؤ ۔” عائشہ پھپو جو ان کی نوک جھونک سے محظوظ ہو رہی تھیں ۔جلدی سے بولیں ۔۔تو سب ہی کھانے کی میز کی طرف بڑھ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل صاحب کے گھر میں خوب رونق لگی تھی آج روبینہ صاحبہ زویا کی بری لے کر آئیں تھیں ۔۔اکلوتے بیٹے کی شادی تھی وہ ا پنے سار ے ارمان خوب پورے کر رہی تھیں۔۔۔زویا کے نکاح کے چند دن بعد ہی ان لوگوں کی واپسی تھی ۔۔اس لیے باہمی رضامندی کے بعد طے پایا تھا کہ رخصتی کاغذات بننے تک موخر کر دی جائے ۔ جس کا راحم کو خاصا قلق بھی تھا ۔۔ایک دفعہ کاغذات بن جا تے تو زویا کو یہاں سے روانہ کر دیا جاتا ۔۔۔
گھر میں شادی والے گھر کی مخصوص گہما گہمی تھی ۔۔۔رمشا اور زویا کے سمجھا نے پر اس نے رونا دھونا تو ختم کر دیا تھا لیکن خاموش احتجاج ابھی بھی جاری تھا ۔۔۔اس وقت بھی جب سب زویا کی بری کی چیزوں پر تبصرہ کرنے میں مصروف تھے وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں چلی آئ ۔۔۔دل عجیب سی اداسی کا شکار تھا۔ ۔۔تب ہی زویا پیچھے پیچھے چلی آئ ۔۔۔
“کیا زینب !! تم میری شادی پر اس طرح بیہیو کرو گی ۔۔مجھے ذرا اندازہ نہیں تھا ۔۔؟” آنکھوں میں آنسو بھر کے رندھی آواز میں گلہ کیا تو وہ تڑپ گئی ۔۔
“ہے ۔۔زوئی !! پاگل ہوگئی ہو کیا ؟” خوشی کا موقع ہے ۔۔رو کیوں رہی ہو ؟” پیار سے اس کے آنسو پونچھے ۔۔
“تم نے اپنا رویہ دیکھا ہے ۔ ؟۔میری کسی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہیں۔ ۔۔رمشا آپی سے عمر کا فرق زیادہ ہے۔ میں اور تم ہمیشہ سے ایک دوسرے کی بیسٹ فرینڈز رہی ہیں ۔۔اب اگر تم یوں منہ بناے پھروگی تو میں خوش ہو سکتی ہوں کیا ؟” سوں سوں کرتے بولی
“اچھا سوری ۔۔معاف کر دو ۔” زینب نے اس کے کان پکڑتے معصومیت سے کہا۔ تو زویا کو اسکی شرارت پر بے ساختہ ہنسی آ گئی ۔۔پھر ناک چڑھا کر بولی ۔۔”دل تو نہیں چاہ رہا اتنی آسانی سے معاف کرنے کو لیکن تمہاری یہ معصوم پیاری سی شکل دیکھ کر ترس آ گیا تم پر ۔۔”
“بہت نوازش آپ کی”۔ ۔۔۔زینب اسے گلے لگاتے بولی ۔
“بس اب خوش رہو پلیز ۔۔تمہاری سڑی ہوئی شکل دیکھ کر امی بابا بھی پریشان ہیں ۔۔ایک تو فری میں اتنے ہینڈ سم بندے سے نکاح ہو رہا ہے لیکن ان محترمہ کے مزاج ہی نہیں مل رہے ۔” پیار سے زینب کے گال کھینچتے کہا ۔۔
“چھوڑو اس بات کو ۔۔۔آؤ تمہارا بری کا سامان دیکھتے ہیں ۔” ۔زویا کو ہاتھ اٹھا کر کھڑا کرتے ہوے کمرے کے خارجی دروازے کی طرف بڑھی کہ سامنے سے ندا سامان کے بیگز ہاتھوں میں اٹھا ے چلی آ رہی تھی ۔۔
“زینب زویا ۔۔ پھپو نے کہا ہے یہ سامان الماری میں رکھو اپنی” ۔۔ندا ان سے مخاطب ہوئیں ۔۔زینب نے اس کے ہاتھ سے بیگز پکڑے ۔۔جب کہ زویا جو فون میں لگی تھی جھنجھلا کر بولی ۔۔۔
“بھابی !! منیب سے بات ہوئی آپ کی ؟میرا تو فون ہی نہیں اٹھا رہا ۔۔؟
“کتنے دن سے چکر بھی نہیں لگایا گھر پر اس نے ۔۔؟ “
زویا کی بات پر نداکے ہاتھ ایک لمحے کے لئے رکے ۔۔۔پھر آہستہ سے بولی ۔۔” زویا اسے کال نہ کرو ۔۔وہ یہاں نہ ہی آ ۓتو بہتر ہے ۔۔”
“کیوں ۔۔؟ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں آپ ۔۔؟ ندا کی بات پر زویا نے حیرت سے پوچھا ۔۔جب کہ زینب بھی اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
جوابأ ندا ایک نظر ان دونوں کو دیکھ کر دھیرے سے سب بتاتی چلی گئیں ۔۔۔ منیب کے اتنے شدید رد عمل خاص طور پر گھر چھوڑ جانے کا سن کر دونوں بھونچکی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“غازیان دیکھو! تمہاری بیوی کے لئے کتنے خوبصورت کپڑے لیے ہیں ہم نے ۔۔”
کھانا کھا کر فارغ ہوے تو رباب نے غازیان کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے کہا ۔۔ساتھ ہی چند زرق برق کپڑے اپنے پاس گھسیٹے ۔۔
“همم ۔۔اچھے ہیں ۔” وہ آہستہ سے بولا ۔۔جب کہ لفظ” بیوی “پر دل گدگدایا تھا ۔۔چند دن پہلے تک زندگی میں نکاح ۔ بیوی ان لفظوں کا کوئی ذکر نہ تھا ۔۔اب ایک دم اچانک یہ احساس کہ دو روز بعد اس کا نام کسی کے نام کے ساتھ جڑ جاےگا ۔۔ دل کو انوکھے جذبات سے ہمکنار کرگیا تھا ۔۔
“اچھا ۔۔یہ دیکھو ۔ یہ کیسا ہے ۔۔؟” رباب کی آواز اسے اپنی سوچوں سے باہر لائی ۔۔جو ایک بے انتہا نفیس خوبصورت کام سے مزین لباس اسے دکھا رہی تھی ۔۔غازیان کی آنکھوں میں بےاختیار پسندیدگی ابھری ۔۔
“یہ میں نکاح کے لئے لائی ہوں”۔ ۔۔۔مجھے آج مال میں پسند آ گیا تھاتو لے لیا لیکن اگر تم اپنی پسند سے نکاح کا جوڑا لینا چاہو تو کل لے لینا ۔۔رباب نے ایک خوبصورت وائٹ کلر کا كامدار دوپٹہ تہہ کرتے مصروف سے انداز میں کہا ۔
” نہیں یہی ٹھیک ہے ۔۔یہ سب آپ لوگ ہی دیکھ لیں بھابی ۔۔میرے پاس ان کاموں کا ٹائم نہیں ۔”وہ بولا
رباب نے ہلکے سے گھور کر دیکھا اور کہا ۔۔”اب عادت ڈالو اس سب کی ۔۔بیویاں ڈیمانڈ کرتی ہیں کہ ان کو شاپنگ پر آوٹنگ پر لے جایا جائے ۔”
“دیکھا جاےگا ۔۔” لاپرواہی سے کہتا صوفے سے اٹھا ۔۔۔تب ہی عائشہ پھپو زیورات کے ڈ بے اٹھآے چلی آئیں ۔۔ان کے پیچھے سہیل صاحب بھی تھے ۔
“کہاں چلے غازیان ؟ بیٹھو ذرا اپنی دلہن کے زیورات تو دیکھتے جاؤ ۔۔” ان کے کہنے پر وہ پھر صوفے پر ٹک گیا جو نہایت حسین آنکھوں کو خیرہ کرتے نازک نفیس سے سیٹس کے دبے کھول کھول کر دکھا رہی تھیں ۔۔۔”یہ دیکھو! کتنی نفیس ہیں نا ۔۔سہیل بھائی نے خاص زینب کے لئے بنوائی ہیں۔ ۔اچھی لگیں گی اسے ۔۔” پھپو نے ایک ڈبّہ کھول کر اس کے سامنے کیا جس میں انتہائی خوبصورت ڈیزائن کی نازک نازک ڈھیر ساری سونے کی چوڑیاں تھیں۔ ۔۔بے ساختہ اس کی آنکھوں میں ستائش اتر آئ ۔۔ہاتھ بڑھا کر ایک چوڑی باہر نکالی ۔۔”بہت خوبصورت ہیں۔ ” دھیمے سے کہہ کر چوڑ ی کا جائزہ لینے لگا جب کہ تصور میں اس دلربا کی دلکش گلابی کلائی چلی آئ ۔۔دل میں شدت سے ان حسین چوڑیوں کو اس کی نازک کلائی کی زینت بنے دیکھنے کی خواھش جاگی تھی ۔
“غازی چاچو !! کل آپ کی شادی ہے؟” ننھی پریشے نے اس کا گھٹنا ہلاتے زور سے پوچھا ۔وہ زینب کا خیال جھٹک کر حال میں آیا
“نو ! کل میری شادی نہیں ہے۔ ۔اینڈ ڈونٹ کال می غازی۔۔۔مائی نیم از غازیان۔ سو کال می غازیان ۔۔انڈراسٹینڈ سویٹی” زور سے اس کا گال چوم کر اسے اپنی گود میں بٹھایا تو وہ سر ہلا گئی ۔۔
*بٹ یور نیم از ڈفیفکلٹ فور می ” ۔۔ننھی سی ناک چڑھا کر کہا ۔۔
“اوکے ! دین کال می اونلی چاچو ۔۔بٹ ڈونٹ ا سپوئل مائی نیم ۔۔” انگلی اٹھا کر اسے سمجھایا ۔
“ہاں بھئی گڑیا !! تمھارے چاچو بہت ٹچی ہیں اپنے نام کے بارے میں ۔۔اسکول میں کوئی لڑکا غازی کہہ دیتا تھا تو اس سے جھگڑا کر لیتے تھے جناب ۔۔ایک دو کی تو پٹائی بھی کر دی تھی ۔”۔۔سہیل صاحب اس کے بچپن کے چند واقعا ت یاد کرتے بولے تو پریشے جلدی سے بولی ۔ “اوکے دادا ابّو ۔۔!! آئ ول الویز کال ہم غازیان دین ۔۔” اس کے گھبرا کر کہنے پر سب ہی ہنس دیے ۔۔
“غازیان!!اپنے فرینڈز کو انوائٹ کرلیا بیٹا ۔۔؟”سہیل صاحب نے ملازمہ کی بڑھائی ٹرے سے چاۓ کا کپ لیتے ہوے پوچھا
“نہیں فرینڈز میں بس حیدر اور منال ہی ہوں گے ۔” اس نے کافی کا گھونٹ بھرتے کہا ۔۔پھر کچھ یاد آنے پر امل سے مخاطب ہوا ۔
“امل !! منال کہاں غائب ہے ؟ کافی دن سے بات نہیں ہوئی اس سے ۔۔۔چند دن پہلے کال کی تھی اس نے ۔لیکن میں میٹنگ کے لئے نکل رہا تھا تو صحیح سے بات نہیں ہو سکی تھی ۔۔۔”
امل نے اس کی بات پر پہلو بدلا اور دھیرے سے بولی
“منال اجکل بز نس کی وجہ سے دبئی گئی ہوئی ہے ۔”
“توپرسوں غازیان کے نکاح میں تو شرکت کریگی نا ۔۔؟” رباب نے منال کی بات پر پوچھا جب کہ ازلان۔ ابراھیم انکل ۔ پھپو اور سہیل صاحب اپنی کسی بات میں مصروف تھے ۔
“نہیں بھابی! اسکا مشکل ہو جائے گا ابھی ۔۔” امل نے نظریں چراتے کہا تو رباب زور سے بے یقینی سے بولی
“کیا بات کر رہی ہو ۔۔اتنی اچھی دوست ہے غازیان کی اور اس کے اتنے اہم ایونٹ پر۔ ۔۔”
“اٹس اوکے بھابی !!کام پہلے۔۔ باقی سب بعد میں ۔آئ ایم گلیڈ۔۔ منال بزنس کو سریسلی لے رہی ہے ۔” غازیان نے ہاتھ اٹھاکر اسے درمیان میں ٹوکتے ہوےکہا ۔
“جیسے سڑے ہوے تم ہو ۔ویسا ہی منال کو بھی بنا دیا ۔” رباب اسے گھور کر بولی ۔
یہ مسلہ ٹلنے پر امل نے شکر کا سانس خارج کیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اے پاک پرور دگار ! میری بیوی۔۔ میری روح کا حصّہ اس وقت تکلیف میں ہے ۔ میرے معبود تو ۔ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ میری شریک حیات کو صحت تندرستی والی زندگی عطاء فرمادے میرے مولا ۔۔میری خاطر۔۔ ہماری اولاد کی خاطر اسے زندگی بخش دے میرے مالک ۔۔” ہسپتال کے پریئر روم میں جائے نماز پربیٹھا پیشانی سجدے میں ٹکاے وہ بے تحاشہ آنسو بہاتے اپنے رب کے آگے دعا گو تھا ۔۔بہت دیر تک آنسو بہانے کے بعد جب دل ذرا ہلکا ہوا تو جائے نماز سے اٹھتا منہ پر ہاتھ پھیرتا ایک مرتبہ پھر چلتا ہوا آئ سی یو کے سامنے آکر پلر سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔۔ذہن کے پردے پر اس دشمن جان سے ہوئی پہلی ملاقات سے لے کر اب تک بتایا ایک ایک پل کسی فلم کی طرح چل رہا تھا ۔وہ نہ جانے کب تک اپنی سوچوں میں ڈوبا رہتا جب ہی آئ سی یو کا دروازہ کھلا ۔۔وہ لپک کر ڈاکٹر کی طرف بڑھا ۔۔
” ڈاکٹر ۔۔میری وائف ۔۔” بے چینی سے پوچھا تو ڈاکٹر نے دکھ سے اسے دیکھتے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔۔
” آئ ایم سوری ۔۔مسٹر منصور ہم نے پوری کوشش کی لیکن جو خدا کی مرضی ۔۔ صبر کریں ۔” ڈاکٹر تسلی دیتا آگے بڑھ گیا جب کہ وہ وہیں ایک دم کھڑے قد سے زمین بوس ہوا تھا ۔۔عامر بھائی جو اسی وقت ہسپتال آے تھے ۔اسے زمین پر ڈھتا دیکھ کر کسی انہونی کے خیال سے دہلتے۔ ایک دم بھاگتے ہوے اس کی طرف لپکے تھے ۔ آس پاس کھڑے کچھ لوگ بھی اس اونچے لمبے۔ پورے مرد کی حالت دیکھ کر افسوس کرتے لپک کر انکی مدد کو آ ۓ تھے۔