میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 14

راحیل صاحب کا گھر اس وقت بقعہ نور بنا ہوا تھا ۔۔گیندے کے پھولوں اور برقی قمقموں سے چھت پر بہت خوبصورت سجاوٹ کی گئی تھی ۔۔چھت کے ایک طرف درمیان میں زویا اور راحم کے بیٹھنے کے لیے لکڑی کا خوبصورت جھولا رکھا گیا تھا جس کو گیندے کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔ ۔
گھر میں شادی والے گھر کی مخصوص افرا تفری پھیلی تھی ۔ اکبر ماموں کی ساری فیملی بھی صبح سے آ چکی تھی۔فرحین صاحبہ نے اکبر صاحب سمیت سب کو منیب کے بارے میں یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ وہ دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا ہوا ہے اور وہاں موبائل کے سگنل کا مسلہ ہے۔زویا اور زینب جو حقیقت سے باخبر تھیں نظریں چرا کر رہ گئیں ۔۔خاص طور پر زینب بہت اپ سیٹ تھی۔ ۔قصور نہ ہوتے ہوے بھی وہ خود کو منیب کی قصور وار سمجھ رہی تھی ۔۔اور فرحین مامی کے سامنے بھی سخت شر مندگی محسوس کر رہی تھی ۔۔
زین ۔رمشا کا شوہر وقاص اور اریب سب اندر باہر کے کامو ں میں گھن چکر بنےہوے تھے۔ ۔خواتین الگ تیاریوں میں مصروف تھیں ۔۔۔بار بار چاۓ بن رہی تھی تو کبھی کسی کے لیے کھانا گرم کیا جارہا تھا ۔۔ ۔ندا ابھی علی کو سلانے کمرے میں گئی تھی جو گھر میں اتنے سا رے لوگوں کو دیکھ کر صبح سے چڑ چڑا ہو رہا تھا ۔۔جب کہ رمشا اپنی بیٹی کی سینڈل کا سائز بدلوانے بازار گئی تھی ۔۔غزالہ بالوں میں ہیر کلر لگا ے بیٹھی تھیں ۔۔زینب ابھی سب گھر والوں کے کپڑے استری کر کے آئ تھی ۔۔سب مردوں نے آج کے لئے سفید کرتا شلوارکے ساتھ ویلویٹ کی بلیک ویسٹ کوٹ بنائی تھی ۔ ۔۔حتی کہ ننھے زین کا بھی سیم ڈریس تھا ۔۔غزالہ صاحبہ نے ہلکے کام کا لائٹ لیمن کلر کا سوٹ بنایا تھا جب کہ سب لڑکیوں نے غرارے کے ساتھ ویلویٹ کی كامدار شارٹ شرٹس اور نیٹ کے کام والے دوپٹے لئے تھے ۔۔۔رنگ سب نے الگ الگ اپنی پسند کالیا تھا ۔۔
“زینب !! اٹھو الماری میں سے زویا کا آج پہننے والا سیٹ نکالو ۔۔ساتھ ٹیکا بھی ہوگا ۔۔دیکھنا “۔۔غزالہ صاحبہ نے زینب سے کہا جو ابھی ابھی آ کر بیٹھی تھی ۔۔۔
امی پلیز !! ابھی اتنے سارے کپڑے استری کرکے آئ ہوں ۔۔۔ذرا آدھا گھنٹہ کمر سیدھی کرنے دیں ۔۔ابھی میں کچھ نہیں کر رہی ۔۔۔اس نے صوفے پر نیم دراز ہوتے کہا ۔
غزالہ نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔”یہ کوئی وقت ہے آرام کرنے کا ۔۔چار بجنے والے ہیں ۔۔ابھی کچھ دیر میں مہمان آنے لگیں گے ۔۔”انہوں نے گھرکا ۔۔
“اچھا نہ بس بیس منٹ ۔۔۔پلیز ” لجاجت سے بولی اور جلدی سے دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر لیٹ گئی ۔۔رات بھی وہ کافی دیر سے سوئ تھی ۔۔منیب کی وجہ سے پریشان رہی تھی ۔۔کمرے میں زویا نے عجیب ہڑبونگ مچای ہوئ تھی ۔۔اس لئے وہ غزالہ صاحبہ کے کمرے میں کچھ پل سکون کے لیے چلی آئ لیکن ۔۔۔
“دیکھ رہی ہیں بھابی! آج کل کی لڑکیوں کو ذرا ذرا سا کام کرتے مصیبت پڑتی ہے ۔۔ماں باپ کے گھر میں یہ حال ہے ۔۔سسرال جا کے کیا کریں گی”
غزالہ صاحبہ شروع ہوئیں تو بولتی ہی چلی گئیں ۔۔۔
“ارے ارے غزالہ ! تم تو بچی کے پیچھے ہی پڑگئیں ۔۔۔لڑکیاں یہ نخرے بھی ماں باپ کے گھر ہی دکھاتی ہیں ۔۔سسرال میں انھیں بھی پتا ہوتا ہے لاڈ اٹھانے والے ماں باپ نہیں ہیں ۔۔۔” فرحین صاحبہ نے اس کے دوپٹے میں چھپے وجود کو دیکھ کر بھرپور حمایت کی ۔۔ویسے بھی صبح سے اسے دیکھ کر ان کے دل سے ہوک اٹھ رہی تھی ۔۔بیٹے کے ساتھ ساتھ وہ بھی اس گوہر نایاب کو شدت سے اپنے گھر میں سجانا چاہتی تھیں لیکن بس نصیب کی بات ۔۔۔اللّه کی مرضی جان کر صبر کرکے بیٹھ گئیں۔
“اور پھپو ! ویسے بھی زینی کے سسرال میں ماشاءالله اتنے سارے نوکر چاکر ہیں ۔۔اسے وہاں جا کر کونسےگھر کام کرنے ہوں گے “۔۔اریب کی بیوی سیمی بھابی نے بھی ٹکڑا لگایا ۔۔
“بیٹا !! گھر کے کاموں کے لئے چاہے جتنے بھی نوکر کیوں نہ ہوں ۔۔۔اپنے میاں کے سار ے کام تو اسی کو کرنے ہوں گے نا ۔۔۔” غزالہ خفگی سے بولیں ۔۔شام ہونے کو آئ تھی اتنے کام کرنے کو تھے ۔۔اوپر سے اس لڑکی کی ڈھٹائی ۔
افف ۔۔لفظ” میاں” پر اس کے صبر کی حد ہوئی ۔اسے اپنے چہرے سے بھاپ نکلتی محسوس ہوئی ۔۔بلا اختیار اللّه کا شکر ادا کیا کہ چہرہ ڈھانپ رکھا تھا ۔۔۔چند لمحوں میں خود کو سنبھال کر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
“بتائیں !! کیا کرنا ہے ۔۔؟ خفگی سے منہ پھلا کر کہا ۔۔تو غزالہ صاحب اسے ھدایت دیتی واشروم کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اوہو غازیان !! کہاں رہ گئے تھے تم ۔۔۔؟ کتنی دفعہ کال کی میں نے تمہیں ۔۔ فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے ۔۔۔”
جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا رباب نے دہائ دی ۔۔۔
“کیوں ایسا کیا مسلہ ہوگیا جو آپ بار بارمجھے فون کر رہی تھیں ؟” اس نے کوٹ اتار تے ہوۓ پوچھا ۔
“مسلہ مجھے نہیں ماموں جان کو ہے ۔۔ان کا کہنا ہے سگی بھتجی کا فنکشن ہے ۔۔۔اس طرح مہمانوں کی طرح عین وقت کے وقت جاتے اچھے لگیں گے ہم ۔۔”رباب نے پریشے کا چھوٹا سا دوپٹہ اس کی قمیض میں پن سے لگاتے ہوے جواب دیا ۔۔۔
“تو چلے جاتے آپ سب۔ میں بعد میں آ جاتا ۔۔ویسے بھی آج میرا جانا اتنا ضروری بھی نہیں۔ ۔کونسا میرا نکاح ہے آج ۔۔”
صوفے پے نیم دراز ہوتے ہوۓ کہا ۔۔اور بعد میں صرف رباب کو جلانے کے لیے ٹکڑا لگایا ۔۔ورنہ سچ تو یہ تھا ۔۔آج اسکا اپنا دل اس حور کو دیکھنے کے لیے ہمک رہا تھا ۔
“بکو مت ۔۔!!” اس کی بات پے رباب کی آنکھیں اور منہ ایک ساتھ کھلا ۔۔ “سیدھی طرح جاؤ تیار ہو فٹافٹ ۔۔” سب تقریبأ تیار ہی ہیں تم بھی جلدی سے ریڈی ہو جاؤ شاباش ۔۔میں تمھارے لئے کافی بھجواتی ہوں ۔۔۔” وہ جلدی جلدی ھدایت دیتے کچن کی جانب چلی گئی تو وہ بھی صوفے سے اپنا کوٹ اٹھاتا کھڑا ہو گیا ۔۔۔
تقریبأ آ د ھے گھنٹے بعد وہ کمرے سے باہر آیا تو سب ہی لاؤنج میں موجود اس کے منتظر تھے ۔ چند لمحوں کے لئے تو سب ہی اس کی وجاہت دیکھ کر مبہوت رہ گئے ۔۔۔پھپو نے تو بے ساختہ آگے بڑھ کر اس کی بلایئں لے ڈالیں ۔۔سہیل صاحب نے فورآ اپنے وجیه بیٹے کا صدقہ نکالا ۔۔امل کے دل میں بھی کسک جاگی ۔۔کیا ہی اچھا ہوتا یہ بے تحاشا شاندار شخص اس کی بہن کا نصیب بنتا ۔۔ازلان ۔شایان نے محبت سے اپنے لاڈلےبھائی کو گلے لگایا ۔۔جو نیوی بلیو شلوار قمیض پر کیمل کلر کی مردانہ شال کندھوں پر ڈالے پیروں میں کیمل کلرکی پشاوری چپل پہنے ہوے تھا ۔۔قمیض کی آستینيں کہنیوں تک مڑی ہوئی تھیں جن میں سے اس کے مضبوط مردانہ ہلکی سبز رگوں والے بازو نظر آ رہے تھے ۔۔الٹے ہاتھ میں کیمل کلرکے لیدر کے پٹے والی قیمتی گھڑی پہنی ہوئی تھی ۔۔ماتھے پر سلکی گھنے سیاہ بال پھیلے تھے۔ ۔سیاہ آنکھوں میں چمک جب کے عنابی لبوں پر جان لیوا مسکراہٹ لئے آج معمول سے ہٹ کر تیار ہوا بلا کا خوبرو لگ رہا تھا ۔۔
بوا جلدی سے مرچیں لے کر آگے آئیں اس کا ماتھا چوم کر بولیں ۔۔۔”ماشاءالله میرا بچہ ۔۔میں نظر اتار دوں پھر جانا ۔۔”
اس موقع پر غازیان سمیت سب کو ہی بلا اختیار سعدیہ صاحبہ یاد آئیں ۔۔
“اللّه میرے بھائی کا گلشن سلامت رکھے ۔۔”عائشہ پھپو اپنی آف وائٹ ساڑھی کا پلو سنبھالتی رندھی آواز میں بولیں ۔۔تو غازیان انھے کندھے سے لگا گیا ۔۔جب کہ سہیل صاحب کوازلان نے دلاسا دیا ۔۔سب ہی رنجیدہ ہو گئے تھے ۔۔۔
جانے والے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کاروبار زندگی نہیں رکتا ۔۔اپنے بیحد پیارے بھولا ۓ نہیں بھولتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت رمشا ،ندا اور سیمی بھابی اس کے اور زویا کے مشترکہ کمرے میں موجود تھیں ۔۔۔رمشا اور ندا مکمل تیار ہو کر اب بچوں کو تیار کر رہی تھیں ۔۔سیمی بھابی میک اپ کرنے میں مہارت رکھتی تھیں اس لئے زویا کا ہلکا پھلکا میک اپ اور ہیئر اسٹائل بنا کر دوپٹہ سیٹ کرنے کی ذمے داری انہوں نے لی تھی ۔۔
زویا اس وقت گہرے پیلے رنگ کے غرارے ۔چھوٹی قمیض جو بہت خوبصورت کام سے بھری ہوئی تھی ۔۔ساتھ ہی جارجٹ کا فل کام سے بھرا دوپٹہ جس میں کہیں کہیں آتشی گلابی اور سبز رنگ کا بھی ٹچ دیا گیا تھا ۔۔۔ہاتھوں میں پیلی چوڑیاں ۔ موتیےگلاب کے گجرے پہنے ۔ماتھے پر چھوٹی سی بندیا لگاے ہلکے پھلکے میک اپ میں غضب ڈھا رہی تھی ۔
“آپی ۔بھابی ۔۔دیکھیں یہ سوٹ تو بہت ہیوی لگ رہا ہے ۔” زینب جو ابھی واشروم سے کپڑے چینج کر کے نکلی تھی۔۔ روہانسی آواز میں بولی ۔۔۔وہ اس وقت گہرے جامنی رنگ کی ویلویٹ کی كامدار شارٹ شرٹ اور گیندا رنگ کے سادے غرارے پر پیرٹ گرین کامدارنیٹ کے دوپٹے میں ملبوس تھی ۔۔ندا اور رمشا کے کپڑے بھی ایسے ہی تھے ۔بس ندا کی قمیض کا رنگ سرخ اور رمشا کا گہرا گلابی تھا ۔
“ماشاءالله ! میری گڑیا تو بہت پیاری لگ رہی ہے ۔۔”رمشا نے بےساختہ آگے بڑھ کر اس کا گال چومتے کہا
“یہ سوٹ تو دیکھیں ۔۔۔کتنا ہیوی ہے ۔”۔۔ جھلا کر بولی
” نہیں بالکل صحیح لگ رہا ہے زینی ۔۔۔ماشاءالله آج تو کوئی گیا کام سے ۔۔” زویا نے آنکھیں گھما کر کہا تو تینو ں ہنس پڑیں ۔۔
“تم اپنا منہ بند رکھو ۔۔ورنہ پٹ جاؤگی مجھ سے ۔” زویا کو زبردست گھوری سے نوازتے بولی ۔
“ماشاءالله ! لڑکی تم تو کپڑے بدل کر ہی اتنی حسین لگ رہی ہو ابھی جب میک اپ کروگی جیولری پہنوگی توکیا قیامت ڈھاؤ گی “۔سیمی بھابی نے محبّت سے کہا ۔۔
“نہیں بھئی !۔یہ سوٹ ہی اتنا ہیوی ہے میں اب کوئی میک اپ نہیں کروا رہی ۔۔اور جیولری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔”وہ صاف انکاری ہوئی ۔
خبردار جو تم فضول بولیں ۔۔۔زویا نے گھرکا
“زویا !! اتنے بھاری سوٹ کے ساتھ میک اپ کر کے میں پوری آنٹی لگوں گی یار ۔۔۔” وہ جھنجھلائ
“فکر نہ کرو ۔۔میں بہت سوفٹ سا میک اپ کروں گی ۔۔ اب جلدی بیٹھو سب تیار ہو گئے ۔بس تم ہی رہ گئیں ۔۔” سیمی بھابی نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بٹھاتے کہا ۔۔۔
“مہمان اتے ہی ہوں گے ۔۔۔ر مشا ۔ندا نے اچھا کیا نیچے چلی گئیں ۔۔سب کمرے میں گھسے رہتے تو آنٹی سے ڈانٹ پڑتی کہ ہم ابھی تک تیارنہیں ہوۓ ۔۔” سیمی بھابی نے مصروف سے انداز میں کہا ۔۔۔اور پھر واقعی انہوں نے اس کے ہلکا سا بلش ان ۔مسکارا اور باریک سا لائنر لگایا ۔۔آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر ۔۔لبوں پر سرخ شیڈ کا لپ گلوس لگا ۓوہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی ۔۔۔زویا اور سیمی بھابی کےلاکھ اصرار پر بھی وہ بالوں کی فرینچ چٹیا بنا کر اس میں موتیے کے پھول لپیٹنے پر راضی نہ ہوئی ۔۔۔کہ ان چاروں نے ایسے ہی بال بناے تھے ۔۔۔سیمی بھابی نے اس کے کہنے پر سیدھی مانگ نکا ل کر دونوں طرف فرنچ بریڈ کر کے پیچھے ہیر پن لگا دی ۔۔کانوں میں خوبصورت سے لمبے ایک چین کی صورت لٹکتے آویزے پہنے اسے اپنی تیاری مکمل لگی ۔
“زینی یہ ٹیکا تو پہن لو ۔”۔سیمی بھابی اسے تیار کرکے نیچے جاچکی تھیں ۔۔اب زویا کمرہ سمیٹ رہی تھی ۔۔۔جب جیولری باکس میں جیولری رکھتے ہوے زویا کی نظر اس کے میچنگ ٹیکے پر پڑی ۔۔
“نہیں زویا !! مجھے پہلے ہی اپنی تیاری اوو ر لگ رہی ہے ۔۔” اس نے کلائی میں میچنگ چوڑیاں چڑھاتے کہا ۔۔۔
“کوئی اوور نہیں لگ رہیں ۔۔تمہاری بہن کی شادی ہے ۔۔۔اتنا تو بنتا ہے یار ویسے بھی ٹیکا تمہیں بہت سوٹ کرتا ہے ۔۔”زویا نے تسلی دی تو اس نے آئینے میں جھلملاتے اپنے عکس کو دیکھا ۔۔وہ ذرا مطمئن ہوتی صبیح پیشانی پر ٹیکا سجاگئی ۔۔ویسے بھی اسے جیولری میں ٹیکا بہت پسند تھا ۔
ٹیکا مانگ میں سجانے کے بعد اس نے چھوٹی سی گولڈن ہیل کی سینڈل پہنی اور نیچے چلی آئ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل صاحب کی فیملی کا راحیل صاحب کے گھر میں پر تپاک استقبال کیا گیا ۔۔۔نہایت عزت و احترام کے ساتھ سب کو اندر لے جایا گیا ۔۔سہیل صاحب کے ساتھ آۓ ہوۓ ملازمین سارا سامان ۔۔جس میں مٹھائی اور پھل کے ٹوکروں کے علاوہ زینب کے لئے چند خوبصورت سوٹس ۔زیورات ۔سنڈیلز ۔میک اپ کا سامان ۔۔زویا اور باقی گھروالوں کے لئے بیش قیمت تحائف شامل تھے ۔۔۔اندر لےکرجا رہے تھے ۔
غازیان کو دیکھ کر سب ہی بہت خوش ہوۓ ۔۔وہ بھی لبوں پر دھیمی مسکان لیے سب سے ملا ۔۔غزالہ صاحبہ اور راحیل صاحب نےاکبر صاحب کی فیملی اور گھر پر موجود دیگر رشتے داروں سے غازیان کا تعارف کروایا ۔۔سب کو ہی خوبرو سا بھرپور مردانہ وجاہت کا شاہکار غازیان بہت اچھا لگا ۔۔
تب ہی غزالہ صاحبہ کے کمرے سے وہ جھنجھلائی ہوئی باہر نکلی ۔۔۔
“امی !! مجھے نہیں مل رہی آپ کی شال ۔۔۔پتا نہیں کہاں رکھ دی آپ نے ۔۔”غزاله صاحب اپنی نئی میچنگ شال کہیں رکھ کر بھول گئی تھیں۔ اوراب الماری میں سے شال برآمد کرنے کی ذمے داری اس کی لگائی تھی ۔۔وہ دس منٹ تک پوری الماری چھاننے کے بعد اپنی دھن میں بولتی ہوئی باہر نکلی جب سامنے نظر اٹھی تو سہیل صاحب کے ساتھ سب کو دیکھ کر کنفیوز ہوگئی ۔۔خاص طور غازیان کو سامنے دیکھ کر چہرہ یکدم سرخ اور دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔۔ وہ بس ایک سرسری نگاہ اس پر ڈ ال کر جلدی سے نظریں جھکا گئی ۔ہتیھلیاں فورأ ہی پسینے سے بھیگ گئی تھیں ۔ ۔۔ وہ جلدی سے سب کو سلام کرتی زویا کے پاس چلی گئی ۔۔۔اور اریب بھائی سے ملتا غازیان جس نے ابھی ایک ذرا سی جھلک ہی اسکی دیکھی تھی ۔اسکے من موہنے چہرے کو تو ٹھیک سے نظر بھر کر ابھی دیکھ بھی نہیں پایا تھا کہ وہ ایک دم وہاں سے غائب ہو گئی تھی ۔ وہ سخت بد مزہ ہوتا لب بھینچ کر رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا ہوا ۔۔؟ ” تم یہاں کیوں آ گئیں اور فیس اتنا ریڈ کیوں ہو رہا ہے ۔۔؟ زویا نے اسے دیکھتے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے ۔۔۔
“تم۔۔ اکیلی بور ہو رہی ہوگی ۔۔بس اسی لئے چلی ای ۔۔”اس نے نظریں چراتے بمشکل کہا اور موبائل پر جھک گئی ۔
“همم ۔۔۔اچھا “زویا نے نچلے لب کا کنارہ منہ میں دباتے مصنوعی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔اور دھیرے دھیرے گنگنائی ۔
“پیا سے مل کے آۓ نین
پیا سے مل کے آ ۓ نین
ہاۓ میں کیا کروں
آۓ نہ مجھ کو اب تو چین
ہاۓ میں کیا کروں “
زینب منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔جب اس کے ہونق تاثرات دیکھ کر زویا کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔ وہ بیڈ پر لوٹ پوٹ ہوگئی ۔۔
زینب نے ہوش میں آتے تکیہ اٹھا کر اسے مارا ۔۔
“ہاہاہاہاہا ۔۔۔یہ ظلم ہے زینب ! ” زویا مشکل سے اپنا بچاؤ کرتی بولی ۔۔
“یہ ظلم ہے ۔۔ اور تم جو بکواس کر رہی ہو وہ کیا ہے ۔۔”؟
غصے سے ڈانٹ پیستے بولی ۔
“ارے اس کی بات کون کر رہا ہے ۔۔”آنکھ سے تکیے کی طرف اشارہ کیا ۔۔”میں تو اس ظلم کی بات کر رہی ہوں جو تم غازیان بھائی کے ساتھ کر رہی ہو ۔۔بیچارے منتظر ہوں گے تمہارے ۔۔اور تم کتنی بری ہو یہاں چھپی بیٹھی ہو ۔۔”شرارت سے بھرپور لہجے میں آنکھیں گھماتے کہا ۔۔
زوئی !!تم کچھ زیادہ ہی بے شرم نہیں ہوتی جا رہیں ؟” دانت پیس کر کہا تو زویا قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔
اسی وقت ہلکی سی دستک کے بعد دروازہ کھول کر سیمی بھابی اور رباب چلی آئیں ساتھ ننھی پریشے بھی تھی ۔۔وہ دونوں سنبھل کر بیٹھ گئیں ۔
“ماشاءالله ۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو ۔” رباب بھابی زویا سے مل کر اسے گلے لگاتی بولیں ۔۔
“دونوں دلہنیں ہی قیامت ڈھا رہی ہیں ۔۔ماشاءالله ۔” رباب نے زینب کی تھوڑی چھوتے اپنی عادت کے مطابق قہقہہ لگاتے کہا ۔۔۔
“دونوں دولہا بھی کسی سے کم نہیں ہیں ماشاءالله۔۔دلہنوں کی ٹکرکے ہیں۔” سیمی بھابی نے ٹکڑا لگایا ۔
پریشے زینب کی گود میں چڑھ گئی تھی کبھی اس کے جھمکے چھیڑتی تو کبھی ٹیکے کو ہاتھ لگاتی ۔۔
“بھئی میری بیٹی اپنی ڈول چاچی سے ملنے کے لئے بے چین تھی تو میں اسے یہاں تمھارے پاس لے آئ ۔ رباب نے زینب کو پیار سے دیکھتے کہا ۔۔
“تم دونوں یہاں چھپی بیٹھی ہو جب کہ وہاں بے چارے ۔۔تمھارے دولہا بیچنی سے اپنی دلہنوں کے منتظر ہیں ۔۔چلو اب باہر چلو ۔۔۔” سیمی بھابی دونوں سے بولیں تو وہ جھینپ گئیں ۔۔۔جب کہ رباب بھابی بولیں ۔۔
” راحم تو اتنے اتاولے ہو رہے ہیں زویا ۔۔اگر تم کچھ دیر اور باہر نہ آئیں تو وہ یہیں چلے آئیں گے ۔” رباب اور سیمی بھابی نے پھر قہقہہ لگایا ۔۔
زویا کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا ۔۔زویا کو زینب کی شکل دیکھ کر خوب ہنسی آئ ۔۔ابھی کیسے اسے تنگ کر رہی تھی اور اب کیسے بھیگی بلی بنی بیٹھی تھی ۔۔
” اور تم دیورانی صاحبہ ۔۔” رباب کا رخ زینب کی طرف ہوا ۔۔
“بہتر ہے اندر ہی چھپ کر بیٹھو ۔اتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔ایسا نہ ہو غازیان آج ہی نکاح پڑھوا کر اٹھا کر لے جائے ۔۔”رباب نے سیمی بھابی کو تائید طلب نظروں سے دیکھتے کہا انہوں نے ہنستے ہوے گردن ہلا کر ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔زینب گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازیان کو سب ہی داماد والا پروٹوکول دے رہے تھے ۔۔راحیل صاحب بہت خوش خوش اسے مختلف مہمانوں سے ہونے والے داماد کے بطور متعارف کروا رہے تھے ۔۔وہ بھی لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ سجاے عزت و احترام سے سب سے مل رہا تھا ۔۔گاہے بگاہے ایک ہلکی پھلکی نظر اس دشمن جان کی تلاش میں اطراف میں بھی دوڑ ا لیتا جو ابھی تک ناکام ہی رہی تھی ۔۔ایک جھلک دکھلا کر جانے وہ کہاں جا چھپی تھی، جو اب نظر ہی نہیں آ رہی تھی ۔۔تب ہی کسی نے ڈیک آن کر دیا ۔
مہندی کی رات آئ، مہندی کی رات
دیکھو کوئی کسی لڑکی کے ہاتھ
خوشیوں بھرے ، ارمانوں بھرے
مہندی تلے کئی سپنوں کو سب سے چھپاے ہوے
شرماے ہوے
مہندی کی رات آئ ،مہندی کی رات
فضا میں جنید جمشید کی سحر طاری کرتی آواز میں ہلکا ہلکا گانا گونج رہا تھا ۔۔ وہ شایان اور اریب بھائی کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا ۔۔جب فضا میں ہلکا سا شور محسوس کرکے اس نے چھت کے داخلی دروازے کی طرف دیکھا اور نگاہ پلٹنے سے انکاری ہو گئی ۔
سامنے ہی وہ اپسرا رمشا کے ساتھ زویا کو ایک سائیڈ سے تھامے دھیمی دھیمی چال چلتی آ رہی تھی ۔۔جامنی رنگ کی قمیض میں اس کی شہابی رنگت کھلی پڑ رہی تھی ۔۔صبیح پیشانی پر ٹیکا الگ بہار دکھا رہا تھا ۔۔غازیان جو اسکو سادگی میں دیکھ کر ہی اس کے حسن سے گھائل ہو گیا تھا آج ہلکے پھلکے میک اپ اور تیاری میں وہ سیدھی دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔چہرے سے ہوتی اس کی نظریں فورأ اس کی گردن پر نمایاں ہوتے موٹے موٹے تلوں پر پڑیں ۔۔۔شانوں پر دوپٹہ پھیلانے کی وجہ سے اس کے تل صاف نظر آ رہے تھے ۔غازیان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔گلابی مرمریں کلائیوں میں میچنگ چوڑیاں اور خوبصورت گجرے غازیان کی بے خودی بڑھا گئے ۔۔۔وہ ارد گرد کا ہوش بھولاے اسے نگاہوں کے راستے دل میں اتارنے میں مگن تھا۔۔ یہاں تک کہ وہ زویا کو جھولے پر راحم کے ساتھ بیٹھا کر پیچھے ہٹ گئی۔۔ ذرا سا جھکنے سے خوبصورت سیاہ لمبے سلکی بال شانوں سے آگے آپڑے جنہیں اس نے ایک جھٹکے سے پیچھے ڈالا ۔۔غازیان کا دل جیسے ان سیاہ زلفوں میں اٹک گیا ۔۔عین اسی وقت خود پر کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس کرکے زینب نے نگاہ اٹھائی تو ایک سائیڈ میں دیوار سے ٹیک لگاۓ کھڑے غازیان کو محویت سے خود کو تکتا پاکر ساکت رہ گئی ۔۔نیوی بلو شلوار قمیض میں اس کی بلند قامت اور چوڑے شا نے نمایاں ہو رہے تھے ۔۔کیمل کلر کی مردانہ شال کندھوں پر ڈالے ہوے وہ پورے ماحول پر چھایا ہوا لگ رہا تھا ۔۔
لمحے بھر کا نگاہوں کا تصادم اس کا دل بری طرح دھڑکا گیا ۔۔پل بھر میں حسین چہرہ شرم و حیا سے گلابی ہو گیا ۔۔اس نے جلدی سے سیاہ گھنیری پلکوں کی جھالر گرا کر نگاہیں موڑ لیں ۔۔غازیان جواس کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ اترتے دیکھ کر مبہوت ہوا کھڑا تھا خود بھی ایک دم ہوش میں آتا اپنی نگاہوں کا زاویہ بدل گیا ۔۔سب راحم اور زویا کی جانب متوجہ تھے اس لئے اس کی بے اختیاری کوئی نوٹس نہ کر سکا ۔۔لیکن یہ صرف اس کا خیال تھا جو کہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب اذلان نے اس کی کمر پر زوردار دهپ لگائی ۔۔
“چل بس کردے تاڑنا اب کیا نظر لگاۓ گا بچی کو۔۔” ازلان نے معنی خیزی سے مسکراتے کہا تو وہ ایک پل کے لئے خجل ہوا لیکن پھر اگلے ہی لمحے اپنی ازلی خود اعتمادی سے گویا ہوا ۔۔
” کسی اور کو نہیں ۔۔اپنی فیانسی اور ” کل ہی ” ہونے والی بیوی کو ہی تاڑ رہا ہوں ۔” کل ہی پر زور دیتا ہوا ڈھٹائی سے بولا اور نظر سامنے اٹھائی تو خون کھول اٹھا ۔۔وہ کوئی ینگ سا لمبے لمبے بالوں والا عجیب سے حلیے کالڑکا تھا۔ جو گہری نظروں سے زینب کا جائزہ لینے میں مصروف تھا ۔۔غازیان نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔۔اسے سمجھ نہیں آئ ازلان اسے کیا کہتا وہاں سے ہٹا تھا ۔۔اس کے بعد بھی کچھ لوگوں سے ملتے ہوے جب ایک دو بار اس کی نگاہ اٹھی۔۔ اس لڑکے کی گندی نظریں زینب کے وجود کا ہی طواف کررہی تھیں ۔۔جبکہ زینب اسکی نظروں سے بے پرواہ پوری طرح فنکشن انجوا ے کرنے میں مصروف تھی ۔۔غازیان کو اس پر بھی غصہ آیا وہ کیسے اپنی طرف اٹھنے والی نظروں سے اتنی انجان ہو سکتی ہے ۔۔اس نے ایک سلگتی ہوئی نظراسٹیج پر بیٹھی اس دشمن جان پر ڈالی جو لبوں پر دھیمی سی دل آویز مسکان سجاے گردن دائیں بائیں ہلا رہی تھی۔۔جب کہ ایسا کرنے سے کانوں میں پہنے آویزے بھی حرکت کرتے اس کی صراحی دار گردن کو چوم رہے تھے ۔۔منظر بھرپور تھا غازیان نے ایک نظر چاروں طرف دوڑائ تو اس وقت کتنی ہی نگاہوں کو اس کے دلکش چہرے پر جمے پایا ۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا اسے یہاں سے کہیں غائب کردے۔۔غازیان نے ذرا غور کیا تو پتا چلا اس وقت وہ راحم کی انگلی تھامے بیٹھی تھی اور نیگ کا مطالبہ کر رہی تھی ۔جب کہ ارد گرد رمشا ۔ندا اور چند دوسری خواتین بھی موجود تھیں جب کہ دوسری طرف راحم کے چند کزنز کھڑے تھے جن میں وہ ‘ ہے ہو دہ ‘ لڑکا بھی موجود تھا جو ابھی بھی زینب کے وجود پر نظریں ٹکاے کھڑا تھا۔۔غازیان لب بھینچ کر رہ گیا ۔۔وہ کوئی تنگ نظر مرد نہیں تھا ۔۔لیکن ایک مرد ہونے کے ناطے وہ عورت کی طرف اٹھتی نگاہ اچھی طرح پہچانتا تھا ۔۔اسے معلوم تھا وہ لڑکا کس نگاہ سے زینب کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اسٹیج سے کچھ ہی فاصلے پر سہیل صاحب اور اکبر صاحب کے ساتھ کھڑا بظاھر ان کی گفتگو سنتے ہوے بھی انہی سوچوں میں گم اسٹیج پر نظریں جماے کھڑا تھا ۔جب وہی لڑکا بولا ۔
“راحم بھائی !! بہت بد ذوق ہیں آپ ۔۔اتنی حسین لڑکی آپ کی انگلی تھامے بیٹھی ہے اور آپ اسکی بات نہیں مان رہے ۔۔حالاں کہ ان پر تو جان لٹانے کو دل چاہ رہا ہے ۔۔” اسکے ایک دم بیچ میں ٹپک کر بے ہودہ بات کرنے پر ایک لمحے کو سب ہی چپ رہ گئے ۔۔
” شٹ اپ ” زینب کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا اس نے غصے سے کہا ۔لیکن ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کے ماحول میں کسی نے بھی اس کی بات کو زیادہ سریس نہ لیا ۔۔
وہ لڑکا راحم کی پھپو کی بیٹی کا دیور تھا ۔۔آج بھی بلا وجہ ساتھ آ نے کی ضد کرنے لگا تو روبینہ صاحبہ کو لانا پڑا ۔حالاں کہ یہ کوئی بہت بڑ ا فنکشن نہیں تھا ۔۔خاندان والوں کے علاوہ بس چند پرانے قریبی ملنے والے لوگ ہی تھے ۔۔۔راحیل صاحب کو مہندی کے نام پر ہونے والا گانا بجانا ۔ڈانس۔ بے ہودگی بالکل پسند نہ تھی اسلئے اس فنکشن میں ایسا کچھ بھی نہ تھا ۔۔لیکن یہ لڑکا مسلسل اپنی بے ہودہ نظروں اور فضول گوئی سے زینب کو پریشان کر رہا تھا اور غازیان کے اعصاب کاامتحان لے رہا تھا ۔۔اس سے پہلے کہ اسکے ضبط کا دامن چھٹتا اس کا فون اس کی توجہ کھینچ گیا، جہاں اسلام آباد برانچ کے منیجر کی کال آ رہی تھی وہ غازیان کی ھدایت کے مطابق روز ہی اسے کال کر کے رپورٹ دیتے تھے ۔۔غازیان فون کان سے لگاے سیڑھیاں اترتا نیچے چلا گیا ۔۔
تھوڑی دیر بعد راحم نے بلآخر خوب تنگ کرنے کے بعد مطلوبہ نیگ زینب کے حوالے کیا۔ وہ ہنستی مسکراتی اٹھی ۔۔ ۔ غیر محسوس انداز میں اطراف کا سرسری سا جائزہ لیا غازیان کہیں نظر نہ آیا ۔۔وہ جو کب سے اس کی تپش زدہ نظریں خود پر جمی محسوس کر رہی تھی ۔۔ بےاختیار شکر کا سانس خارج کر گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازیان فون پر منیجرصاحب سے رپورٹ لے کر ،جو کچھ خاص اچھی نہ تھی ۔ پیچھے مڑا جب کانوں میں اسی لڑکے کی کریہہ آواز پڑی جو شاید اپنے کسی دوست سےمحو گفتگو تھا ۔۔
” یار کیا بتاؤں ۔۔کیا زبردست فنکشن ہے ۔۔ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت چہرہ ہے یہاں۔ ۔ایک تو اتنی حسین ہے دل چاہ رہا ہے دنیا سے چرا کر کہیں دور دیس لے جاؤں ۔۔تو بھی آجاتا ۔۔قسم سے بہت انجوا ے کرتے دونوں بھائی مل کر ۔۔” خباثت سے آنکھ دباتا ہنستا ہوا بولا
” غازیان جس کے صبر کی حد تمام ہو چکی تھی ایک دم آگے بڑھا اور اس لڑکے کا رخ اپنی طرف موڑا ۔۔
“او ۓ کیا بات ہے ۔۔؟” وہ لڑکا ایکدم غصے سے زور سے بولا تھا لیکن پھر مقابل کھڑے غازیان کی رعب دار شخصیت سے مرعوب ہوتا ایک دم ٹھنڈا پڑتے بولا ۔۔”کون ہیں آپ ؟”
” نام کیا ہے تمہارا ۔۔؟” غازیان نے اس کے بالکل پاس آ کر اس لڑکے کی جیکٹ کا کالر اپنے دونوں ہاتھوں سے ٹھیک کرتے ہوۓ انتہائی ٹھنڈے لہجے میں پوچھا
” ک ۔۔کیوں کون ہیں آپ ۔۔؟” اسکے لہجے میں کچھ ایسا تھا جسے محسوس کر کے اس لڑکے کی حالت خراب ہوگئی ۔۔
” نام بتاؤ ۔۔؟” ذرا سا چہرےکا رخ موڑ کر تھوڑی کھجاتے ہوۓ اپنے لفظوں پر زور دیتا بولا ۔۔
” س ۔۔سعد ۔” انتہائی گھبراہٹ زدہ لہجے میں کہا ۔۔
“ہاں تو سعد ۔۔ ۔ جاؤ یہاں سے ۔شاباش ۔۔چلو اب مجھے نظر نہ آنا ۔۔” لہجے میں عجیب سی پھنکار لئے بولاتو اس لڑکے کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی ۔۔
” کیا غنڈہ گردی ہے یہ۔ ۔کون ہیں آپ ۔۔؟” وہ لڑکا اپنے ڈر پر قابو پا کربولا ۔۔غازیان نے اسکی بات کا جواب دینے کے بجاے ہاتھ اونچا کرکے موبائل پر اس کی تصویر لی ۔۔اس لڑکے کی صحیح معنوں میں سانس حلق میں اٹکی جب کہ غازیان اس کو نظر انداز کر کے اپنے فون پر ایک نمبر ملاتا ہوا فون کان سے لگا گیا ۔۔
” ہیلو ” اے ایس پی جبران ۔۔یار ایک تصویر بھیجی ہے تمہیں ۔۔سعد نام ہے ۔۔اس لڑکے کو ایسا سبق سکھاؤ کہ آئندہ دوسروں کی عزتوں پر نظر ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔۔” خونخوار نظریں اس کے چہرے پر جماے محو گفتگو تھا ۔۔” سنیں ۔۔سر!! پلیز بات تو سنیں ۔۔” وہ لڑکا بری طرح گھبراتا ہوا تھوک نگلتا درمیان میں منمنایا
” غازیان نے ہاتھ اٹھا کر زبردست گھوری سے نوازا تو وہ ایک دم خاموش ہوگیا ۔۔
” چل اب نکل یہاں سے ۔۔تیرے سسرال والے آ رہے ہیں تجھے دور دیس لے جانے ۔۔” کچھ لمحے بات کرکے غازیان نے فون بند کر کے اس کی ہونق شکل کو دیکھ کر تمسخرانہ لہجے میں کہا تو وہ لڑکا روہانسی شکل کے ساتھ جیب سے موبائل نکالتا تیزی سے گھر سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔غازیان ایک قہر آ لود نظر اس کی پشت پر ڈالتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial