میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 16

وہ حسب عادت کمرے کو یخ بستہ کئے بیڈ پر اوندھا پڑا گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔جب دروازے پر زور زور سے دستک کی آواز سے اس کی نیند میں خلل پڑا ۔۔چند لمحے یونہی نظر انداز کر کے پڑا رہا لیکن آنے والا بھی کوئی ڈھیٹ ہی تھا ۔۔مستقل مزاجی سے مسلسل دروازہ بجاۓ جا رہا تھا ۔۔
بڑ ی مشکل سے آنکھیں کھول کر اٹھا ۔۔خونخوار انداز میں دروازہ کھولا تو سامنے شایان۔ رباب ۔ازلان اور حیدر کھڑے تھے ۔۔۔جو ایک دم اس کے کمرے پر دھاوا بول گئے ۔۔۔
“ازلان بھائی کا فون سنتے ہی میری تو بھک سے نیند اڑگئی بیس منٹ میں گاڑی بھگاتا پھنچا ہوں اور تو یہاں مزے سے نیندیں پوری کر رہا ہے ۔۔” حیدر نے اسے شرم دلائی اور بے تکلفی سے بیڈ پر دراز ہوا ۔
“کیوں ایسی کیا مصیبت آ گئی۔؟ اور اتنا دروازہ کیوں پیٹ رہے تھے سب ؟ آدھی نیند سے اٹھا دیا ۔”۔غازیان نے حیدر کے برابر میں ایک دفعہ پھر نیم دراز ہو کر جماہی روکتے ہوے پوچھا ۔۔
“لو دیکھو جناب کو ۔۔!! ماموں جان بیچارے اتنے پریشان ہیں ۔۔ ہم سب صبح ہی اٹھ گئے اور ان محترم کو اپنی نیند کی پڑی ہے ۔۔۔”رباب نے کمر پر ہاتھ ٹکا کر آنکھیں گھماتے ہوے کہا ۔۔
“کیوں ۔۔؟ ایسا کیا ہوگیا جو آپ لوگ صبح صبح اٹھ گئے اورمیرےکمرے پر بھی دھاوا بول دیا ۔۔۔؟” اس نے ایئ برو اچکا تے پوچھا ۔۔
“ماشاءالله میرے بھائی کی معصومیت کے صدقے جاؤں “۔۔۔شایان نے بلائیں لے ڈالیں ۔۔ان سب کی ڈرامے بازی دیکھ کر غازیان کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔
“یہ کیا نیا شوشہ چھوڑا ہے تم نے رات کو ؟” ازلان نے بڑے بھائی والا رعب جمایا ۔
“ایسا بھی کیا کر دیا میں نے ؟”حیدر سے تکیہ چھین کر گردن کے نیچے رکھتےلا پرواہی سے پوچھا ۔۔
” زیادہ انجان مت بنو ۔۔۔ تمہیں اچھی طرح پتا ہے تم نے کیا ۔کیا ہے ۔۔۔خیر۔۔ میں تمہیں یہ سمجھانے آیا ہوں ڈیڈ ابھی گئے ہیں راحیل چچا کی طرف ۔۔ساتھ ابراھیم انکل اور عائشہ پھپو بھی ہیں ۔اب راحیل چچا کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ تمہیں بلا چوں چراں ماننا ہوگا ۔۔کل جو تم نے ڈیڈ سے فضول بات کی تھی ۔” ازلان کی بات غور سے سنتے غازیان نے سوالیہ آئ برو اچکایں توازلان نے اسے خفگی سے دیکھتے یاد دلایا ۔۔”وہی یا تو رخصتی ساتھ ہوگی یا نکاح بھی نہیں ہوگا۔” اس بات کو اب نہ دوہرانا ۔۔ازلان نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کی ۔
“ڈیڈ سب بتا چکے ہمیں ۔وہ کافی پریشان ہیں تمہاری ضد کی وجہ سے۔۔انھیں نہیں لگتا راحیل چچا اور اسپیشلی زینب مانے گی ۔۔اس لئے پلیز تم کچھ ۔۔”
شایان نے بھی سمجھایا ۔۔
“ڈیڈ ! با آسانی انھیں منا لیں گے ۔۔مجھے ڈیڈ کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے “۔وہ شایان کی بات درمیان میں قطع کرتا سکون سے بولا۔
“آپ لوگ بھی یہاں ٹائم ضایع کرنے کی بجآے شام کی تیاری کریں ۔۔وقت پہلے ہی بہت کم ہے ۔۔” اس کے پراعتماد انداز پر وہ چاروں اش اش کر اٹھے ۔۔
” کیا کونفیڈنس ہے ۔۔ واہ بھئی ہیرو !!چھا گیا تو۔ تو ۔۔۔” حیدر نے اس کے شانے پے تھپکی دیتے ہوے سر دھنا ۔
“ازلان۔۔!! یہ بیچارہ زینب کو ایک نظر دیکھ کر پاگل ہوگیا ہے ۔۔ویسے ۔اس کا بھی قصور نہیں ہے وہ ہے ہی اتنی حسین اسےدیکھ کر کوئی بھیاپنے ہوش گنواسکتا ہے ۔۔”رباب نے مذاق اڑایا
” رئیلی ۔۔” غازیان نے ای برو اچکاتے کہا اور ساتھ ہی سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھاتے اپنی سیکریٹری کا نمبر ملایا ۔۔
ازلان اور شایان حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کے انداز ملاحظہ کر رہے تھے۔۔
“مس واصف ۔۔!! آج میری شادی ہے ۔۔آپ کوئی اچھا سا ایونٹ پلانر ہائیر کرکے شام کے لئے سارے ارّنجمنٹس کروا لیں ۔۔سب کچھ بہترین ہونا چاہیے ۔آپ مینیجر صاحب سے کنٹیکٹ کر لیں وہ بھی آپ کی ہیلپ کر دیں گے۔”
“تھینکس “چند پل دوسری طرف کی بات سن کر بولا
“نہیں آج اس سب کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج کا فنکشن کسی بنکویٹ میں ہے ۔تو بس گھر پر ڈیکوریشن وغیرہ کافی ہے ۔۔شہر کی بہترین بیوٹیشن کو ہائر کریں ۔۔میں کچھ دیر میں آپکو ایڈریس ٹیکسٹ کردوں گاجہاں اسے بھیجنا ہے ۔”
“نہیں ! ڈریس اور جیولری وغیرہ میں خود دیکھ لونگا ۔۔”چند پل دوسری طرف کی بات سننے کے بعددوبارہ گویا ہوا ۔۔جہاں وہ چاروں حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے . وہیں
دوسری جانب اس کی سیکرٹری بیچاری اتنے شارٹ نوٹس پر اس کے احکامات سن کر بوکھلا گئی تھی ۔
“آپ دوگھنٹے میں مجھے رپورٹ دیں ۔۔”
“اوکے۔۔!! ہاں ایک اور بات ۔۔۔” فون بند کرتے کرتےکچھ یاد آنے پر دوبارہ گویا ہوا
“دو دن بعد کی ڈیٹ پر ولیمے کے کارڈز چھپنے کا آرڈر دے دیں ۔”
“وینیومیرا فارم ہاؤس ہوگا اور گیسٹ لسٹ میں آپکو بعد میں فارورڈ کر تا ہوں ۔۔۔”
چند منٹ میں سارے احکامات جاری کرکے فون رکھا تو وہ چاروں ہونق ہوۓ اسے دیکھ رہے تھے ۔۔
“کیا کروارہے ہو یہ سب ۔۔؟” سب سے پہلے ازلان ہوش میں آیا
“کیا مطلب ۔؟” شام کے لئے ارینجمنٹس کروارہا ہوں اور کیا؟” سادگی سے کہا تو حیدر بولے بغیر نہ رہ سکا
“بھائی تو۔ تو سب کچھ پہلے سے سوچے بیٹھا تھا ۔۔
اور تو اور ولیمےکی ڈیٹ تک ڈ یسائد کرلی ۔۔” شا یا ن نے بھی اسے تھپکی دیتے کہا
“ابھی جب ماموں آکر بتایئں گےنا۔ راحیل ماموں نہیں مانے تو اس کے سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔۔” رباب نے ایک مرتبہ پھر مذاق اڑایا
“کوئی انکار نہیں کریں گے راحیل چچا ۔۔۔آپ لوگ فکر نہ کریں ۔”۔غازیان نے ناک سے مکھی اڑاتے کہا ۔۔
“اتنا کا نفیڈ ینس ۔۔۔ لگتا ہے بھابی کے ساتھ ساری سیٹنگ کر کے بیٹھا ہے جگر ۔۔۔”حیدر نے اس کےشا نے پر دهپ لگاتے آنکھ ما رتے ہوۓ کہا
“بھابی میں فریش ہونے جا رہا ہوں ۔۔میرا ناشتہ بنوا دیں ۔۔”حیدر کو ایک تیز نظر سے گھورنے کے بعد رباب سے کہتے ہوے واشروم کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔جب کہ وہ سب حیرت سے اس کی پیٹھ دیکھتے رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑکی سے آ نے والی سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں پڑی تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔چند پل غائب دماغی سے ارد گرد کا جائزہ لینے کے بعد ذرا حواس بحال ہوے تو خود پر ٹوٹی قیامت ایک بار پھر یاد آ گئی ۔۔آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو جمع ہونے شروع ہو گئے ۔۔مستقل کئی گھنٹے رونے سے سر درد سے پھٹ رہا تھا ۔۔رات کو روتے روتے نہ جانے کس وقت اس کی آنکھ لگی تھی ۔۔اپنا شکستہ وجود سمیٹتی وارڈروب سے کپڑے نکال کر واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔
شاور کے پانی کے ساتھ آنکھوں سے بھی خوب پانی بہا کر نیم گرم پانی سے طویل شاور لے کر آئ تو حالت کچھ بہتر تھی ۔۔۔ذہن جو کل رات سے بلینک تھا اب کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو حیدر کی کہی ساری باتیں دماغ میں گونجنے لگیں ۔۔۔آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے کر بالوں میں برش کیا اور وارڈروب سے سفری بیگ نکالا ۔اپنا ضروری سامان اور سفری دستاویزات رکھ کر کچن کی جانب چل دی ۔۔سر درد سے پھٹ رہا تھا اپنے لئے کافی بنائی ساتھ ہی مینیجر صاحب کو کال ملا کر اپنی ارجنٹ واپسی کا بتا کر پہلی دستیاب فلائٹ سے پاکستان کی ٹکٹ کرا نے کی ھدایت دے کر کال کاٹ گئی ۔۔۔
کافی کے سپ لیتے ہوے کچھ پل کارپٹ کو گھورتی رہی پھر موبائل اٹھا کر امل کا نمبر ڈائل کرکے فون کان سے لگا گئی ۔۔چند پل بعد ہی امل کی نیند میں ڈوبی آوازسنائی دی تو منال کے بدن میں شرارے دوڑ گئے ۔
“مجھے آگ میں جھونک کر ۔میری آنکھوں سے نیند چھین کر تم اتنے سکون سے کیسے سو سکتی ہو امل ۔۔؟” چیخ چیخ کر امل سے پوچھتے وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی ۔۔
دوسری طرف اس کی آواز اور انداز سے امل کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔۔جسے محسوس کرتے اس کی نیند بھک سے اڑی ۔۔بلا اختیار نظر گھما کر اپنے پہلو میں دیکھا شایان موجود نہیں تھا ۔۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھی ۔۔
“کک ۔۔کیا ہوا ہے منال ۔۔۔؟ سب ٹھیک تو ہے ۔۔؟ تم ٹھیک ہو ۔۔؟ امل نے بے چینی سے پوچھا
“کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔۔کچھ بھی ۔۔۔اور پلیز یہ انجان بننے کی ایکٹنگ کرنا بند کرو ۔۔”اپنے بال مٹھیوں میں جکڑتے زور سے بولی ۔۔
“منال ۔۔منال!! “۔۔”میری جان” ۔۔”ایسے کیوں کہہ رہی ہو ؟میری بات سنو ۔۔” اس کی حالت محسوس کرتے امل نے روہانسی آواز میں کہا ۔۔
“کیا بات سنوں تمہاری ۔۔”۔۔ہاں ۔۔کیا بات ۔۔۔؟ زور سے چیخی
“ا مل تمہیں شرم نہیں آئ ؟ مجھے اندھیرے میں رکھتے ۔۔۔تم جانتی تھیں نا میری فیلنگز ۔۔۔غازیان میرے لئے کیا ہے تم جانتی تھیں ۔۔پھر بھی امل ۔۔۔پھر بھی ۔۔؟”فون سے ماتھا ٹکاتے زور زور سے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔۔
“منال میری بات سنو ۔۔”امل نے خود بھی روتے ہوے کہا ۔۔۔اپنی جان سے پیاری بہن کا درد محسوس کرکے اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔
“کچھ نہیں سننا میں نے ۔۔میں آرہی ہوں پاکستان ۔۔۔میں ہرگز غازیان کو ایسا نہیں کرنے دونگی ۔۔سنا تم نے ۔۔”نارمل انداز میں بولتے آخر تین لفظ چیخ کے ادا کئے اور فون بند کر دیا ۔۔
امل سن ہوتے دماغ کے ساتھ اگلے ہی پل رابعہ صاحبہ کا فون ملا گئی ۔۔
“ممی !! ممی ۔۔۔منال کو پتا چل گیا ۔۔” ان کے فون اٹھاتے ہی روتے ہوۓ بولی تو وہ گھبرا گئیں ۔۔
“کیا پتا چل گیا ۔۔امل تم ٹھیک ہو ۔۔؟ “رابعہ صاحبہ جو ابھی نیند سے بیدار ہوئی تھیں ۔۔تیزی سے دھڑکتے دل میں ڈھیروں خدشات لیے بولیں ۔۔
“غازیان ۔۔غازیان کے نکاح کا ۔۔” بےتحاشا روتے بولی
“اوہ” ۔۔کیسے ۔۔پتا چلا ۔۔اسے کس نے بتایا ؟ پریشانی سے بولیں ۔۔
“آئ ڈونٹ نو ممی ۔۔! مجھے نہیں معلوم اسے کس نے بتایا ۔۔۔لیکن وہ ٹھیک نہیں ہے ممی ۔۔اسے کچھ ہو نہ جائے ۔۔۔فون آیا تھا ابھی اس کا ۔۔آ رہی ہے پاکستان ۔۔”آنسو بہاتے انہیں ساری بات بتا گئی ۔۔
” تم خود کو سنبھالو امل ۔ میں تمھارے ڈیڈی سے بات کرتی ہوں ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا منال کو ۔۔میں تمھارے ڈیڈی کو دیکھوں کہاں ہیں ۔۔۔پھر بات کرتی ہوں تم سے۔ ۔”
رابعہ صاحبہ نے عجلت میں کال کاٹی اور فاروقی صاحب کی تلاش میں کمرے سے باہر نکلیں ۔
دوسری طرف امل آنسو صاف کرتے وارڈروب سے کپڑے لیتی واشروم کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔اس کا ارادہ فریش ہوکر فاروقی ہاؤس جانے کا تھا ۔۔۔
امل سے بات کیے ہوے پانچ منٹ ہی ہوے تھے جب مینیجرصاحب کا مسیج موصول ہوا جس میں اس کی فلائٹ کی ڈیٹیل تھی ۔جو خوشقسمتی سے ڈھائی گھنٹے بعد تھی ۔۔اس نے اپنے آنسو صاف کر کے منہ دھویا بالوں میں کیچر لگایا ۔ تب ہی فاروقی صاحب کی کال اپنے فون پر آتی دیکھ کر منال کے چہرے پر زہر خند پھیل گیا ۔۔۔اسے اس وقت کسی سے بات نہیں کرنی تھی ۔۔اسے بس جلد از جلد پاکستان پہنچنا تھا۔۔اب جو بات کرنی تھی وہ پاکستان جا کر ہی کرنی تھی چاہے وہ امل سے ہوتی یا غازیان سے ۔۔۔اپنا فون آف کرکے ہینڈ بیگ میں ڈالا اور اپارٹمنٹ سے باہر نکل گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کے فنکشن کے بعدرات دیر تک وہ سب مہندی لگانے میں مصروف رہی تھیں ۔۔زویا اور زینب کو مہندی لگانے میں مہارت حاصل تھی اس لئے باہر سے کسی کو بلا نے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ان دونو ں نے پہلے سب کے مہندی لگا ئ پھر آخر میں ایک دوسرے کے ہاتھوں پر نہایت دلکش ڈیزائن بناہے ۔۔رات تین بجے وہ لوگ سونے لیٹی تھیں ۔۔غازیان سے کچن میں ہوے سامنے اور اس کی عجیب و غریب باتوں سے زینب بہت گھبرا گئی تھی ۔۔دل اس طرح دھڑ دھڑ کر رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آ جاےگا۔۔وہ بہت دیر تک زویا کے ساتھ کمرے میں ہی چھپ کر بیٹھی رہی ۔۔۔اس ساحر کی گہری آنکھوں کا سامنا کرنے کی ہمّت ہی نہیں ہو رہی تھی ۔۔یہاں تک کہ ندا کی زبانی اس کے اور بڑ ے ابّا کے جانے کا علم ہوا تب ہی باہر نکلی تھی ۔ابھی گھر میں ناشتہ کا دور چل رہا تھا ۔۔زویا۔ ندا۔ زینب اوربچے توابھی سو ہی رہے تھے۔۔
اس وقت راحیل صاحب ۔غزالہ صاحبہ ۔زین اور وقاص ۔۔۔رمشا کے بنآے ہوے ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ رات ہوے مہندی کے فنکشن پر بھی تبصرہ کر رہے تھے ۔۔ساتھ ہی راحیل صاحب آج رات کو منعقد ہونی والی تقریب کے انتظامات کے بارے میں بھی وقاص اور زین سے بات چیت کر رہے تھے ۔۔۔جب اسی وقت دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی ۔۔چند منٹ بعد زین کی ہمراہی میں سہیل صاحب ۔عائشہ صاحبہ اور ابراھیم صاحب لاؤنج میں داخل ہوے ۔۔۔
آج رات کو نکاح کی تقریب تھی ایسے میں ان کی اس وقت آمد سے زیادہ ان کے چہرے پر چھائ سنجیدگی نے سب کو چونکایا تھا ۔۔خیر
چند منٹ کی رسمی گفتگو کے بعد سہیل صاحب گلا کھنکھار کر مخاطب ہوے ۔۔
جب کہ ان کے گلا کھنکھارتے ہی زین۔ رمشا کے کان میں بڑبڑایا۔
“اللّه خیر کرے ! بڑے ابّا جب اس طرح گلا کھنکھار کر بات کا آغاز کرتے ہیں تو کوئی ہی دھماکہ ہی کرتے ہیں ۔۔” اس نے اپنا مشاہدہ پیش کیا جب کہ رمشا نا سمجھی سے اسے دیکھ کر سہیل صاحب کی طرف متوجہ ہوگئی ۔
“راحیل ! میں تم سےصاف سیدھی بات کروں گا۔۔۔بس تم آج نکاح کے ساتھ ہی زینب کی رخصتی بھی دے دو ۔۔ ” سہیل صاحب جلدی سے اپنی بات مکمل کرگئے ۔۔
ان کی بات پر سب ہی حیرت زدہ گئے ۔۔زین نے جتاتی نظروں سے رمشا کو دیکھاتھا ۔
“بھائی صاحب۔۔!! اس طرح اچانک رخصتی کیسے ممکن ہے ۔۔؟ میں اپنی بچی کو طریقے سے رخصت کروں گا ۔۔بہت کچھ نہ سہی لیکن اپنی حثیت کے مطابق جہیز ۔۔۔”
“کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہے ہو راحیل ۔۔رخصتی آج ہو یا نا ہو ۔۔جہیز وغیرہ ہرگز نہیں چاہیے مجھے ۔۔”سہیل صاحب نے ان کی بات درمیان میں قطع کی ۔
” آپ سے پہلے ہی اس بارے میں بات ہو گئی تھی بھائی ۔۔زینب ابھی پڑھ رہی ہے ۔۔میں آج اس کی رخصتی نہیں کر سکتا ۔۔”راحیل صاحب نے ان کے بے وقت کے مطالبے پر غیر آرام دہ محسوس کرتے پہلو بدلتے ہوۓ دوٹوک لفظوں میں کہا ۔۔غزالہ صاحبہ کے چہرے کے تاثرات سے بھی صاف انکار ظاہر تھا ۔۔
“راحیل۔۔! پڑھائی کا کیا مسلہ ہے۔ ؟ زینب اپنے تایا کے گھر ہی جا رہی ہے ۔۔شادی کے بعد جتنا چا ہے پڑھتی رہے ۔۔”اس بار ابراھیم صاحب اور عائشہ صاحبہ بھی میدان میں اترے ۔۔
“میں شرمندہ ہوں ۔۔ آپ کی بات نہیں مان سکتا ۔”
راحیل صاحب نظریں چرا کر بولے ۔
“راحیل !! میں ایک دفعہ زینب سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔” سہیل صاحب نے چند لمحوں بعد کہا
“اگر وہ منع کر دے گی تو میں چلا جاؤں گا لیکن ۔۔آگراسے کوئی اعتراض نہ ہوا تو تم بھی انکار نہیں کرو گے ۔۔” انھیں باور کرایا تو راحیل صاحب اثبات میں سر ہلا گئے ۔۔
زینب ابھی ابھی واشروم سے منہ ہاتھ دھو کرباہر نکلی ہی تھی کہ رمشا کمرے میں چلی آئ ۔۔”زینب۔۔!! بڑے ابّا آ ۓ بیٹھے ہیں ۔۔تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ ۔جلدی سے باہر آؤ ۔” ۔رمشا نے اسے دوپٹہ پکڑاتے ہوے کہا۔۔
“کیا بات آپی ۔۔؟ وہ مستفسر ہوئی ۔۔ اتنے میں زویا بھی اٹھ کر ان کے پاس آگئی ۔۔
“ابھی پتا چل جاےگا۔ تم آؤ میرے ساتھ ۔۔بس وہ جو تم سے پوچھیں بغیر جھجھکے بتا دینا ۔۔” رمشا نے اس کے بالوں کی لٹیں کان کے پیچھے کرتے پیار سے کہا ۔۔
“بات کیا ہے ۔۔؟” اس مرتبہ زویا نے پوچھا ۔۔
“بڑے ابّا ۔۔آج نکاح کے ساتھ ہی رخصتی بھی چاہتے ہیں ۔۔۔”رمشا نے گہرا سانس خارج کرتے بتایا تو دونوں بے یقینی سے اسے دیکھنے لگیں ۔۔
” فکر نہ کرو۔ ۔بابا نے صاف منع کر دیا ہے ۔۔۔بس اب بڑے ابّا ایک دفعہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔تم بغیر گھبراے انہیں اپنا جواب دے دو ۔۔”رمشا نے پیار سے اس کا چہرہ تھامتے کہا اور اسے ہاتھ پکڑ کے باہر لے آئ ۔۔پیچھے پیچھے زویا بھی تھی ۔۔
“آو میری بیٹی !! یہاں میرے پاس بیٹھو ۔۔ماشاءالله چاند کا ٹکڑا ہے ۔”
جیسے ہی لاؤنج میں آئ عائشہ پھپو اسے ساتھ بٹھاتے بولیں ۔۔۔لمبا قد ۔۔ ملائی جیسی رنگت ۔۔چہرے کا احاطہ کیے کالی لٹیں ایسے تھیں جیسی چاند کے گرد بدلیاں ۔۔سبز آنکھوں میں گلابی ڈورے جو انہیں مزید قاتل بنارہے تھے ۔۔ انہوں نے بےساختہ پیشانی چوم لی ۔۔
ان کے والہانہ پن پر زینب جھینپ گئی ۔۔تب ہی بڑے ابّا اس کےساتھ آ کر بیٹھے ۔۔زینب کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی ۔۔
“زینب !! میری بچی ۔۔۔میں آج ہی تمہاری رخصتی چاہتا ہوں ۔۔۔”
انہوں نے اس کے جھکے سر پر ہاتھ رکھتے کہا ۔۔”بیٹا ۔۔! تم جتنا چاہو۔پڑھنا ۔۔کوئی تمہیں نہیں روکے گا ۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔۔”
“بڑے ابّا !” زینب نے اپنے لرزتے ہاتھوں کو آپس میں جکڑتے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے تب ہی ۔۔سہیل صاحب جلدی سے بولے
“زینب ۔۔!! یہ میری گزارش ہے بیٹا ۔۔۔کہتی ہو تو میں تمھارے آگے ہاتھ ۔۔” سہیل صاحب نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ وہ ایک دم تڑپ کر ان کے ہاتھ تھام گئی ۔۔
“نہیں بڑے ابّا ۔۔! یہ ۔۔یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔۔؟ لرزتی آواز میں ان کے ہاتھوں سے سر ٹکا کے رو پڑی ۔۔۔
“جو آپ چاہتے ہیں وہی ہوگا ۔۔۔”روتے روتے کہا تو سہیل صاحب اس کا آنسووں سے تر ہوتا سرخ چہرہ تھام گئے ۔۔
“تم سچ کہہ رہی ہو زینب ؟ تمہیں آج رخصتی پر کوئی اعتراض نہیں ۔۔؟”
اس نے روتے روتے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔تو سہیل صاحب اس کا سر اپنے شانے سے لگاتے بولے ۔۔۔۔”آج تم نے اپنے بڑے ابّا کا مان رکھا ہے ۔۔ہمیشہ خوش رہومیری بچی ۔۔راحیل ۔ غزالہ تم نےاپنا جگرگوشہ مجھے دے کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔۔۔میرا بیٹا زینب کا بہت خیال رکھے گا۔۔تمہیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔۔انشااللہ ۔” سہیل صاحب پہلے زینب سے پھر راحیل صاحب اور غزالہ صاحبہ سےممنو نیت سے بولے تو
یہ جذباتی منظر دیکھ کر سب خواتین ہی آبدیدہ ہو گئیں ۔۔ غزالہ صاحبہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر زینب کو خود سے لگا لیا ۔۔۔۔
“چلو بھئی اب اجازت دو۔۔۔ شام کو اپنی بیٹی کو پوری شان سے لینے آئیں گے ۔۔” بڑے ابّا نےصوفے پر سے اٹھتے ہوے تفاخر سے کہا ۔۔
غازیان کا ان پر یقین بے معنی نہیں تھا انہیں واقعی اپنی بات منوانے کا ہنر آتا تھا ۔۔وہ اپنے لاڈلے بیٹے کی آنکھوں سے اس کے دل کا حال جان گئے تھے تو بھلا کیسے اس کی جائز خواہش پوری نہ کرتے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت اس نے رو رو کر اپنا حشر بگاڑ لیا تھا ۔۔۔جن برے۔حالوں میں وہ ایئر پورٹ سے گھر پہنچی تھی اسے دیکھ کر سب ہی ششدر رہ گئے تھے ۔۔۔آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں ۔۔اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں موجود سرے قیمتی ڈیکوریشن پیسز توڑ چکی تھی ۔۔رابعہ صاحبہ ۔امل کسی کے قابو میں نہیں آرہی تھی ۔۔۔فاروقی صاحب بھی اسے کتنی دیر سمجھا تے رہنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے گئے تھے ۔۔ان کے جاتے ہی وہ اپنے آپے سے باہر ہو گئی تھی ۔۔
“ہاؤ کڈ یو دو دس ٹو می امل ۔؟ ہاؤ کڈ یو ۔۔؟ جانے کونسی دفعہ اس نے روتے ہوے یہی بات دوہرا ی تو امل بھی اپنی برداشت کھوکر چلائی ۔۔
” نہیں ہے غازیان کو تم میں کوئی انٹرسٹ ۔۔”
“تمہیں دکھ نہ ہو ۔۔اس لیے نہیں بتایا تمہیں ۔۔۔”
امل کے چلانے پر وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔آنسو بھی آنکھوں میں ہی ٹھٹھر کر رک گئے تھے .
” میں سچ کہہ رہی ہوں منال ۔۔اس نے انکل سے صاف صاف کہا تھا شادی کے لئے اس کی کوئی پسند نہیں اور انکل جہاں چاہیں اس کی شادی کردیں۔ ” امل نے منال کے پاس آ کر اس کے ہاتھ تھامتے کہا ۔۔
“بکواس ” جھوٹ ہے سب ۔۔۔وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے ؟” ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ چھڑاتے بولی۔ ۔آنکھوں سے آنسو ایک بار پھر جاری ہوگئے تھے ۔
“میں جھوٹ نہیں کہہ رہی منال ” عمل نے یقین دلایا تو زور سے بولی
“انکل نے اسے مجبور کیا ہوگا ۔۔۔وہ ۔۔وہ جانتا ہے ۔۔مم ۔۔میری فیلنگز ۔۔”
روتے بلکتے بولی ۔۔۔تو رابعہ صاحبہ کا دل کٹ گیا اسے اس حال میں دیکھ کر ۔۔
“منال ! میری بچی سنبھالو خود کو ۔۔وہ دنیا کا آخری لڑکا نہیں ہے ۔۔”
میری جان۔۔!! ایسے خود کو تکلیف نہ دو ۔۔” پیار سے اس کا چہرہ تھام کر بولیں
” آخری ہے ۔۔میرے لیے آخری ہی ہے ۔۔”وہ زور سے چیخی ۔۔”مجھے پتا ہے انکل کی وجہ سے مجبور ہوا ہے وہ ۔۔”۔بری طرح روتے ہوۓ بولی
“کوئی مجبور نہیں ہوا وہ ۔۔۔انکل اس طرح کے باپ ہیں ہی نہیں کہ اولاد پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کریں ۔۔اور کیا تم غازیان کو نہیں جانتیں ۔۔؟وہ اپنی مرضی کے خلاف کچھ کرتا ہے کیا ؟ جو انکل کے کہنے پر شادی کر لیگا ۔” امل ضبط کھو کر بولی ۔۔۔اسے اب منال پر غصہ آ نے لگا تھا ۔۔وہ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہی تھی ۔۔۔
منال خاموشی سے آنسو بہاتی رہی ۔۔جب امل مزید بولی ۔۔
“خوش ہے وہ اس رشتے سے ۔۔تم جانتی ہو آج نکاح تھا اس کا۔ لیکن ۔۔لیکن اس نے انکل کو مجبور کیا ہے کہ آج ہی رخصتی کی بات کریں ۔۔” امل اسے سب بتاتی چلی گئی ۔۔اسے لگا کہ منال کو سب کچھ بتا دینا ہی ٹھیک ہے ۔۔
منال نے ایک دم بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔
” کک ۔۔کیامطلب ۔۔آ ۔۔آج ۔۔غازیان ۔۔غازیان کی شادی ۔۔” انتہائی ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولی ۔۔۔
“میں نہیں جانتی ۔۔زینب کے گھر والوں نے کیا جواب دیا ہے ۔لیکن غازیان یہی چاہتا ہے ۔۔۔” امل نے اس کے بال چہرے سے ہٹاتے ہوۓ کہا ۔۔۔
رابعہ صاحبہ نے پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگایا ۔۔۔جسے وہ ہاتھ سے دور ہٹا گئی ۔۔۔
” زینب ۔۔۔زینب سے ہو رہی اس کی شادی ۔۔۔؟ منال کی آنکھوں کے سامنے چھوٹی سی خوبصورت سی لڑکی کا سراپا آ گیا ۔۔
“ہوں ۔۔”منال نے دھیرے سے کہا
“تم خود کو سنبھالو بیٹا ہماری خاطر ۔۔۔”رابعہ صاحبہ نے اسے پچکارا
” غازیان نے میری فیلنگز ہرٹ کی ہیں۔ ۔۔وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ اسے جواب دینا ہوگا ۔۔”ایک دم اپنے آنسو صاف کر کے اٹھی ۔۔۔ساتھ ہی امل اور رابعہ صاحبہ بھی اٹھی تھیں
“کہاں جا رہی ہو ؟ اسے دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ کر پوچھا
“غازیان سے بات کرنے ۔۔۔ وہ میرا فون نہیں اٹھا رہا ۔۔مجھے اس سے ملنا ہے ابھی ۔۔”منال نے کمرے سے نکلتے کہا
“رکو ۔۔گھر میں اتنے مہمان بھرے ہیں کیوں اپنا تماشا بنا رہی ہو وہاں جاکر منال۔ ۔۔” امل نے اسے کمرے کےاندر کھینچا تو اس کے گلے لگ کر بری طرح بکھرگئی ۔
“بس منال بہت ہوا ۔۔بند کرو یہ پاگل پن ۔۔کہاں گئی تمہاری سیلف ریسپیکٹ ۔۔؟”رابعہ صاحبہ غصے سے بولیں
“منّت کروگی کیا اسکی کہ تم سےشادی کر لے ۔۔تم منال فاروقی ہو ۔۔۔منال فاروقی ۔۔تمھارے لئے رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ہوش میں آؤ ؟؟ رابعہ صاحبہ اسے جھنجھوڑتے ہوۓ بولیں
“ممی !!اسے مجھے بتانا ہوگا اس نے جانتے بوجھتے میری فیلنگز کیوں ہرٹ کیں ۔۔اسے جواب دینا ہوگا ۔۔۔مجھے اس سے ایک بار بات کرنی ہے ۔” ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔
“ٹھیک ہے ۔۔تم کر لو اس سے ایک بار بات ۔۔۔میں اسے بلاتی ہوں یہاں ۔۔اس حالت میں تم وہاں نہیں جاؤں گی ۔۔پلیز خود کو سنبھالو ۔۔” امل نے اسے کہتے فون اٹھا کر غازیان کا نمبر ملایا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیدر کے ساتھ ابھی اپنی اور زینب کی ضروری شاپنگ کرکے اپنی رینج روور میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ حیدر کا فون بجنے لگا ۔۔۔
“ازلان بھائی کی کال ہے ۔۔”اس نے فون پر نظر ڈالتے کہا ۔۔۔
“اچھا۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں ۔۔سن “۔۔۔غازیان نے کار سٹارٹ کرتے کہا ۔
“جی ازلان بھائی !! جی ۔۔! میرے ساتھ ہی ہے ۔۔۔اچھا ۔۔” غازیان تیرا فون کہاں ہے چیک کر۔ ۔۔ازلان بھائی کہہ رہے ہیں تجھے فون کر رہے تھے کافی دیر سے ۔۔تواٹھا نہیں رہا ۔۔۔۔” حیدر نے فون کان سے لگا ۓ لگا ۓاستفسار کیا ۔۔
” یار ۔۔فون سایلنٹ پر تھا ۔۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ ۔۔غازیان نے جینز کی پاکٹ سے فون نکال کر چیک کرتے کہا ۔۔۔
” بھائی اس کا فون سایلنٹ پر تھا ۔۔۔آپ کو پتا تو ہے آج تو بیچارہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے ۔۔۔”۔۔حیدر نے مذاق اڑایا ۔۔۔جس پر غازیان نے گھور ی سے نوازا تھا .
“بس گھر ہی آ رہے ہیں بھائی ۔۔۔اس نے اتنی مشکل سے بھابی کا ڈریس پسند کیا ہے۔ ۔جناب کو کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔۔میں تو حیران تھا ۔۔اس نے کبھی اپنی شاپنگ میں اتنا ٹائم نہیں لگایا ۔۔ بیچاری اس شہر کی سب سے بڑ ی ڈیزائنر کو اتنا ٹف ٹائم دیا اس نے ۔۔۔ا ینڈ میں تو وہ اپنے بال نوچنے والی ہو رہی تھی ۔۔ “حیدر نے ہنستے ہوے ازلان کو احوال سنایا اور چند مزید باتیں کرکے فون بند کرکے غازیان سے بولا ۔
“جلدی گاڑی چلا ۔۔رباب بھابی کہہ رہی ہیں۔زینب بھابی کے گھر سامان بھجوانے میں دیر ہو رہی ہے ۔۔”
“ویسے تو بڑا کمینہ نکلا ۔۔غازیان “
” کیوں ؟ کیا۔ کیا ہے میں نے۔ ۔۔؟ اس نے سگنل پر گاڑی روکتے ایئ برو اچکاکر پوچھا
“تو کیسے مجھ سے پہلے شادی کر سکتا ہے ۔۔؟” جب کہ انگیجمنٹ تو چھ مہینے سے میری ہوئی ہے ۔۔” حیدر نے دہائی دی
“بیٹا ۔۔!! بس اپنے اپنے نصیب کی بات ہے ۔۔۔”مسکراتے ہوے اس کا دل جلایا ۔۔۔
ابھی حیدر کچھ کہتا کہ غازیان کا فون بج اٹھا ۔۔
“ہیلو ۔۔امل!! فون بلیو ٹوتھ سےکنیکٹ کرتے کہا
“غازیان !! تم اس وقت ممی کی طرف آ سکتے ہو پلیز ۔۔” امل پریشان کن آواز میں بولی ۔۔
“کیا ہوا ۔۔خیریت ۔۔؟ “سنجیدگی سے پوچھا
“اٹس این ایمر جینسی غازیان پلیز ۔۔تھوڑی دیر کے لئے آ جاؤ ۔۔” وہ ملتجی لہجے میں بولی ۔۔
“اوکے ۔۔!! میں آ رہا ہوں ۔۔۔ امل سے کہتے کال کاٹ دی ۔۔۔
” کیا ہوا ؟ کیا کہہ رہی تھیں امل بھابی ۔۔؟ فون بند کرتے ہی حسب توقع حیدر نے پوچھا
” فاروقی ہاؤس بلایا ہے ۔۔۔”سڑک پر نظریں جماے کہا ۔۔
” اس وقت ۔۔کیوں ؟ حیدر نے گھڑی دیکھتے استفسار کیا
” پتہ نہیں ۔۔یہ تو جا کر ہی پتا چلے گا ۔۔” غازیان نےکہا پھر چند لمحوں بعد مزید بولا
“حیدر !! تو یہ سب سامان فریدہ بوا سے کہہ کر میرے روم میں سیٹ کروا دینا اوررباب بھابی سے کہہ کر یہ برائیڈل ڈریس اینڈ جیولری زینب کی طرف بھجوا دینا ۔۔”
“میں ساتھ چلتا ہوں نا تیرے ۔۔” حیدر نے کہا ۔۔۔
“نہیں یار۔۔! تو گھر جا اب ۔۔شام کو ملتے ہیں ویسے بھی چار تو بجنے والے ہیں ۔۔میں دیکھوں امل کو ۔۔”گھر کے آگے گاڑی روکتے کہا ۔۔
“میں آتا ہوں کچھ دیرمیں؟ ملازم کے سامان نکال کر اندر لے جانے کے بعد حیدر سے کہا ۔۔”اور پلیز یار بھابی سے کہہ یہ سامان جلدی بھجوا دیں ۔ اسے تیار بھی ہونا ہوگا ۔۔” حیدر کو دوبارہ یاد دہانی کروائی تو اس نے بھر پور مسکراتےہوے آنکھ مارکرکہا ۔
“اوۓ ہوۓ ۔۔’شاوا بھئی شاوا’ ۔۔صدقے جاؤں تیری پھرتیو ں کے ۔۔”
“چل بک نا ” غازیان نے بھی ہنستے ہوے کہا ۔۔۔اور گاڑی آگے بڑھائی ۔۔نظروں کے سامنے ایک دلکش سراپا لہرا رہا تھا ۔۔جس نے رات کو اسے اتنا بے چین کیا کہ وہ فوری طور پر رخصتی کرانے کا فیصلہ کرگیا تھا ۔۔۔وہ بس اسے اپنے پاس اپنی دسترس میں رکھنا چاہتا تھا ۔۔۔اسے یقین تھا کہ سہیل صاحب اسے رخصتی پر منالیں گے۔ پھر بھی جب عائشہ پھپو نے راحیل صاحب کے مان جانے کا بتایا تو کیسا سکون رگ و پے میں سرایت کرتا محسوس ہوا تھا ۔۔وہ جانتا تھا اس طرح اچانک رخصتی کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہوگی ۔۔اسے جذباتی جھٹکا لگا ہوگا ۔لیکن اسے یقین تھا ۔وہ آج رات اس کے سارے خدشات دور کردیگا ۔۔اس کی آنکھوں کے سامنے زینب کا کل رات کا چہرہ لہرایا جب وہ کچن میں اس کا سامنہ ہونے سے گھبرا گئی تھی ۔۔۔اور پھر جب غازیان نے اسکے گال پر اپنے ہاتھ کا لمس بخشا تو کیسے سراسیمہ ہو کر آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔۔اس لمحے غازیان نے کتنی مشکل سے خود کو کسی گستاخی سے روکا تھا ۔وہی جانتا تھا ۔۔۔۔
“سی یو ٹو نائٹ ” عنابی لبوں کی تراش میں دلکش مسکراہٹ لئے اس نے زینب کے سر اپے کو مخاطب کیا اور گاڑی فاروقی ہاؤس کے سامنے روک دی ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial