قسط 17
“اب بس بھی کرو زینی ۔۔۔” رو رو کر اپنی آنکھیں سجالیں ۔۔۔رمشا نے پیار سے اس کے آنسو صاف کرتے کہا ۔۔۔
“جب بڑے ابّا کی بات مان ہی لی تو پھر اپنی حالت بگاڑ نے کا کیا فائدہ ۔۔میری جان کتنا ہلکان کر رہی ہو خود کو ۔۔” چلو!! اب بس جا کر فریش ہو ۔۔کچھ دیر میں بیو ٹیشن آنے والی ہے ۔” پیار سے پچکارتے کہا ۔۔
زینب اپنے آنسو صاف رمشا کے شانے سے سر ٹکا گئی ۔۔۔وہ اپنے دل کی حالت کسے بتاتی ۔۔وہ اپنی زندگی میں انے والے اس اچانک اتنی بڑ ی تبدیلی سے بوکھلا کر رہ گئی تھی ۔۔
یہ سب بہت جلدی جلدی ہو رہا تھا ۔۔دو تین مہینے پہلے منگنی شادی کا کوئی ذکر تک نہ تھا اور آج وہ کسی کے نام سے منسوب ہو کر اپنے گھر سے رخصت ہونے والی تھی ۔۔غازیان احمد شاہ کسی آندھی طوفان کی طرح اس کی زندگی میں داخل ہوا تھا ۔۔
“آپی ماشاءالله دیکھیں تو سہی دونوں کی مہندی کا کتنا گہرا رنگ آیا ہے ۔۔” ندا نے زویا اور زینب کے مہندی سے رنگے خوبصورت ہاتھ دکھاتے ہوے رمشا سے کہا ۔۔تو زینب بھی اپنے خیالات سے باہر آئ
“ہاں ماشاءالله !! “میری دونو ں بہنوں کو بہت محبت کرنے والے شوہر مل رہے ہیں ۔۔۔۔” رمشا نے دونوں کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے کہا
“ہاں بھئی۔۔ اب بھی اس میں کوئی شک باقی رہ گیا ۔۔راحم کی بیقراری تو کل نظر آ ہی رہی تھی اور یہ غازیان صاحب ۔۔یہ تو را حم سے بھی چار ہاتھ آگے نکلے خیر سے ۔۔۔” سیمی بھابی کے آنکھیں گھما کر کہنے پر سب ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں ۔۔جب کہ زینب جھینپ گئی ۔۔صبح سے جب سے بڑے ابّا گئے تھے کوئی نہ کوئی اسے غازیان کے بے صبرے پن کا حوالہ دے کر چھیڑ ے جا رہا تھا ۔۔ظاہر ہےسب کو ہی اندازہ تھا کہ اس ہنگامی رخصتی کے پیچھے غازیان کا ہی ہاتھ ہے ۔۔
“میں نے تو زینی کو کل ہی کہا تھا ۔ اتنی خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔غازیان بھائی کنٹرول نہیں رکھ پائیں گے خود پر ۔۔اور دیکھ لیں وہی ہوا ۔”۔زویا نے زینی کے خوبصورت چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے کہا ۔۔جب کہ وہ بری طرح جلی
“تمہاری تو ہے ہی کالی زبان ۔۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے ۔”۔اس کے چڑ کر کہنے پر سب نے مسکراہٹ دبآئ
“ارے ۔۔۔ارے ۔۔میں نے کیا کیا ہے بھئی ۔۔” زویا نے دہائی دی
“چلو بس ۔۔اب چھوڑو اس بحث کو ۔۔۔جاؤ جلدی جاکے شاور لے کر آؤ ۔۔ “رمشا نے زینب کوواشروم بھیجا ۔۔اور ندا سے مخاطب ہوئی ۔۔
“ندا۔۔!! چلو ہم زینب کا سامان پیک کر لیتے ہیں ۔۔۔”
ندا سر ہلاتی اٹھ گئی ۔۔رمشا اور سیمی بھابی ابھی تھوڑی دیر پہلے وقاص کے ساتھ مارکیٹ جا کر غازیان کے لیے چند قیمتی برانڈڈ جوڑے اور زینب کی ضرورت کا کچھ سامان لائی تھیں ۔۔۔
کچھ دیر قبل جب رباب بھابی زینب کا برائیڈل ڈریس دینے آئ تھیں تو وہ بتا کر گئی تھیں کہ غازیان خاص طور پر خود سے زینب کی شاپنگ کرکے آیا ہے ۔۔۔بلکہ اس بات پر انہوں نے زینب کو خوب چھیڑ ا بھی تھا کہ اس نے غازیان پر ایسا جادو کیا ہے کہ وہ جسےخواتین کی شاپنگ کرنے سے ہمیشہ ہی چڑ رہی ہے آج چار گھنٹے لگا کر زینب کی ضروریات کی چیزیں خود خرید کر لایا ہے ۔۔۔ان کی باتوں کو زینب سرخ چہرہ لیے سنتی رہی اور ایک نظر بھی زویا اور ندا بھابی کی طرف نہیں دیکھا تھا جو معنی خیز مسکراہٹ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔۔رمشا دل سے اپنی بہنوں کی دائمی خوشیوں کے لئے دعا گو تھیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کی زبانی ساری بات سن کر اور منال کی حالت دیکھ کر اس جیسے مضبوط اعصاب کا مالک بھی چند پل کے لئے چکرا کر رہ گیا ۔۔۔
” غازیان !! اب تم ہی اسے سمجھاؤ ۔۔۔۔۔رابعہ خالہ نے آنسو پونچتھے کہا اور دانستہ انہیں کمرے میں تنہا چھوڑ کر باہر چلی گئیں ۔۔امل کو ابھی کچھ دیر پہلے ہی غازیان گھر بھیج چکا تھا ۔۔۔آج اس کی بارات تھی اور ایسے میں امل کی غیر حاضری سے گھر میں سب ہی تشویش میں مبتلا ہو رہے تھے ۔۔۔رباب کا فون آ نے پر امل نے رابعہ صاحبہ کی طبیعت خرابی کا بہانہ گھڑا ۔۔
اس عجیب و غریب صورت حال میں وہ خود بوکھلا کر رہ گیا تھا ۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی منال کو کیسے سمجھا ے ۔۔وہ اس کی کزن تھی ۔۔بہت اچھی دوست تھی ۔۔۔نا دانستگی میں پہلے ہی اسے ہرٹ کر چکا تھا اب نہیں چاہتا تھا کہ اسے مزید اپنی ذات سےکوئی صدمہ پہنچاے ۔۔۔ رابعہ صاحبہ کے جانے کے بعد گہرا سانس لیتا منال کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔جو مسلسل آنسو بہاے جا رہی تھی ۔۔
” منال !! آئ ایم سوری ۔۔۔یار ۔۔۔آئ ایم ریلی ویری سوری ۔۔” اس کے ہاتھ پکڑ تے کہا ۔۔۔
“ہے پلیز ۔۔۔اسٹاپ کراینگ ۔۔” ملتجیانہ لہجے میں بولا
“منال !! مجھے بالکل بھی۔۔ کبھی بھی ۔۔۔اندازہ نہیں ہوا کہ تم میرے بارے میں اس طرح ۔۔۔” اس کے ہاتھ تھام کر آنسو صاف کرتے دھیرے سے بولا ۔۔تو وہ اپنی آنسووں سے بھری سرخ سوجی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتی بولی
“ہاؤ کڈ یو ڈو سے دس ٹو می غازیان۔۔۔ ہاؤ کڈ یو ۔۔؟”
“کیسے تمہیں۔۔تمہیں کبھی میری محبت کا اندازہ ہی نہیں ہوا ۔۔۔کیا میری محبت میں ذرا بھی طاقت نہیں تھی ۔۔ جو اس کی آنچ تم تک کبھی پھنچی ہی نہیں ۔۔۔؟” آخری جملہ بولتے اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ کھینچے ۔۔
” میں تمہاری محبت۔۔تمہاری پسندیدگی کو ایک کزن ۔ایک دوست کی محبت ہی سمجھتا رہا ۔۔۔آئ سویر مجھے ذرا بھی آئیڈیا نہیں ہوا کبھی ۔۔ ” اپنی شہ رگ پر ہاتھ لگا کر یقین دلاتا ہوا بولا
“اب ۔۔اب تو پتہ چل گیا نا تمہیں میرے جذبوں کا ۔۔۔اب سوچ لو میرے بارے میں ۔۔۔تم ۔۔کیسے ایک انجان لڑکی سے رشتہ جوڑ سکتے ہو ۔۔
” غازیان ۔۔۔!! انکل اتنا بڑافیصلہ کیسے تمہاری مرضی کے خلاف کر سکتے ہیں ۔۔” وہ اس کے ہاتھ تھام کر جلدی جلدی بولتی قابل رحم لگ رہی تھی ۔۔غازیان کو دکھ ہوا ۔۔اس نے بے ساختہ اس سے نظریں چرائیں ۔۔
“منال !!بس میں ڈیڈ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔یونو ۔وہ راحیل چچا کے بارے میں بہت اموشنل ہیں ۔۔۔ ” غازیان نے اس وقت اس کی حالت کے پیش نظر مصلحت سے کام لیتے یہی ظاہر کیا کہ یہ رشتہ بس سہیل صاحب کی ایماءپر جوڑا ہے ۔۔
” تم بات تو کرو انکل سے ۔ ۔” وہ روتے بلکتے بولی تو غازیان اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال کرسنجیدگی سے بولا ۔
“نہیں منال ۔۔!! اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔چند گھنٹوں بعد میری شادی ہے اور تم جانتی ہو میں جب کوئی فیصلہ کرلوں تو پھر پیچھے نہیں ہٹتا ۔میں ہرگز بھی اپنے ڈیڈ کو دکھ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔میں یہ رشتہ جوڑوں گا بھی اور اپنی پوری ایمان داری سے نبھاونگا بھی ۔”
منال کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو جاری ہوے ۔۔
“چلو اٹھو ۔۔۔تم بھی یہ رونا دھونا بند کرو ۔ ۔تمنہ صرف میری کزن ہو بلکہ بہت اچھی دوست بھی ہو ۔۔ اور میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتا ۔۔” اپنے مضبوط ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کےآنسو صاف کرتا بولا
” محبت ۔۔محبت تو نہیں ہوں نا تمہاری ۔۔ ” وہ دو بدو بولی
“میں کیا کروں غازیان ۔۔۔مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔”اپنے بال مٹھیوں میں بھر کر بے تحاشا آنسو بہاتے بولی
” غازیان بے بسی سے لب بھینچ گیا ۔۔۔اسے منال کو اس حال میں دیکھ کر حقیتا بہت برا لگ رہا تھا لیکن وہ بھی کیا کرتا ۔۔۔محبت تو ایک آفاقی جذبہ ہے ۔۔یہ تو وحی کی طرح دلوں پے نازل ہوتا ہے ۔۔محبت کرنا یا نا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں کہاں ہے بھلا ۔۔وہ بھی اس وقت منال کے لئے دل میں ہمدردی کے علاوہ کوئی اور جذبہ محسوس نہیں کر رہا تھا ۔۔
گہری سانس خارج کر کے وہ خود کو کمپوز کرتا لہجے میں بشاشت بھرتا بولا ۔۔
“مجھ سے بھی یوں تمہیں دیکھنا برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔پلیز سنبھالو خود کو ۔۔”اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتا بولا ۔ “بلیو می ۔۔تمہیں کوئی بہت بہتر شخص ملے گا ۔۔مجھ سے بہت بہتر ۔۔جو تمہیں بہت چاہے گا ۔۔۔”
“تم ۔۔۔تم کیوں نہیں ملے مجھے ۔۔۔؟ “اس نے آنسو بھری آنکھیں اٹھاتے پوچھا شکوہ کناں لہجے میں پوچھا تو وہ ترحم آمیز نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گیا ۔
“منال پلیز ! میری خاطر ۔۔۔سنبھالو خود کو ۔۔مت رو اس طرح۔پلیز تم میری دوست ہو ۔۔غازیان احمد شاہ کی دوست اور غازیان احمد شاہ کی دوست اتنی کمزور نہیں ہو سکتی ۔۔۔تمہیں خود کو سنبھالنا ہوگا ۔۔۔ہوں۔۔” تسلی دیتے اس کا سر اپنے شانے کے ساتھ لگایا تو وہ اپنے آنسو پونچھ کر دھیرے سے اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی قمقموں اور سرخ اور سفید پھولوں سے سجے بنکویٹ ہال میں اس وقت خوب رونق اتری ہوئی تھی ۔۔خوب گہماگہمی تھی ۔۔۔ہر طرف خوشیاں تھیں قہقہے تھے۔۔ دو خوبصورت پھولوں سے سجے اسٹیج بنا کر ان پر دونوں جوڑوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ ۔وہ دونوں دلہن بنی ڈریسنگ روم میں موجود تھیں ۔۔ان کا خیرہ کن حسن دیکھ کر بے ساختہ سب کے منہ سے ماشاءالله نکل رہا تھا ۔۔زینب کا لباس ،زیورات ہر چیز انتہائی بیش قیمت تھی ۔۔وہ سر سے لے کر پاؤں تک غازیان کی پسند کردہ چیزوں سے سجی تھی ۔۔ اس کے انتہائی خوبصورت قیمتی لباس اور ہیرے جڑے بھاری خیرہ کن زیورات دیکھ کر ہرکوئی اس کی قسمت پر رشک کر رہا تھا ۔۔غزالہ صاحبہ اور راحیل صاحب دونوں کے پاس موجود تھے ۔۔” ہمیشہ خوش رہو ۔۔میری بچیوں ۔۔اللّه تعالیٰ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر دے ۔۔” راحیل صاحب نے آب دیدہ لہجے میں زویا کی پیشانی چومتے کہا ۔۔۔۔آمین ۔۔غزالہ صاحبہ جو دوسری جانب زینب کو گلے لگا ے کھڑی تھیں اپنے آنسو صاف کرتی بولیں ۔۔۔وہ دونوں بھی اپنے آنسو پونچھنے لگیں ۔۔۔
“پھپو ۔۔انکل آپ لوگوں نے پھر ان دونوں کو رلا دیا ۔۔سارا میک اپ خراب ہو جاےگا ان کا ۔۔۔” ندا نے ان کے پاس آتے ہوے کہا ۔۔جب ہی پیچھے سے زین جو بلیک شروانی میں اپنے لمبے قد اور چورے شانو ں کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا بولتا چلا آیا ۔۔۔
“بابا !! آپ لوگ یہاں ہیں ۔۔باہر چلیں ۔۔۔خالہ کا فون آیا ہے وہ لوگ گھر سے نکل گئے ہیں بس کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے ۔۔”غزالہ صاحبہ نے محبت پاش نظروں سے اپنے خوبرو بیٹے اور نازک سی من موہنی صورت والی ندا کو دیکھا جو میر ون کلر کے خوبصورت کام والے سوٹ میں سلیقے سے کئے گئے میک اپ میں بلا کی دلکش لگ رہی تھی ۔۔انہوں نے بے اختیار دونوں کو پیار کیا ۔۔خوش رہنے کی دعادی ۔۔زین بھی دونوں بہنوں کی پیشانی چوم کر نم آنکھوں سے راحیل صاحب اور غزالہ صاحبہ کے ساتھ باہر چلا گیا ۔۔۔
باہر سے انے والے شور اور دھول کی تھاپ سن کر زینب نے مسکرا کر زویا کو دیکھا ۔۔اور اس کے گلے میں بانہیں حایل کرتی بولی ۔۔”مجھے یقین ہے ۔۔راحم بھائی تمہارا بہت خیال رکھیں گے ۔۔”ایک شر مگین مسکراہٹ زویا کے لبوں پر دوڑ گئی ۔۔دونوں کچھ دیر اپنی اپنی سوچوں میں گم رہیں ۔۔بچپن سے لے کر جوانی تک کے کتنے ہی واقعا ت نگاہوں کے سامنے گھوم گئے تھے ۔۔دونوں نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور حال میں واپس آئیں ۔۔جہاں ندا راحم کی چند کزنز کے ساتھ ڈریسنگ روم میں موجود تھیں ۔۔جو اب اشتیاق سے دونوں دلہنوں کو دیکھ کر تعریفیں اور تبصرے کر رہی تھیں ۔۔
“مجھے تو لگتا ہے راحم بھائی نے بھی آج ہی رخصتی کروا لینی ہے ۔۔راحم کی پھوپی زاد نے زویا کا دوپٹہ ٹھیک کرتے مسکراہٹ دباتےہوے شرارت سے کہا۔۔ایک ہی خاندان تھا اس لئے سب ہی زینب کی ہنگامی رخصتی سے آگاہ ہو گئے تھے ۔۔جو وائٹ بے انتہا نفیس كامدار سوٹ پر لال دوپٹہ اوڑھے ۔ہلکی پھلکی جیولری اور نفاست سے کیے میک اپ میں غضب ڈھا رہی تھی ۔۔زویا کے چہرے پر شرمگیں مسکان پھیل گئی ۔۔جب کہ ندا نے اب اپنا رخ زینب کی طرف کیا جس کی سوں سوں جاری تھی اور اسے ڈ پٹتے بولی ۔۔
“افف !! بس کر دو پاگل لڑکی ۔۔۔سارا میک اپ خراب کرلو گی ۔۔۔” اتنی حسین لگ رہی ہو آج ۔۔غازیان بھائی تو گئے کام سے ۔۔ندا نے آنکھیں گھمائیں وہ شرم سے سرخ پڑتا چہرہ نیچے کر گئی ۔۔اسی لمحے سیمی بھابی چلی آئیں ۔۔
“غازیان کا تو کل ہی کام خراب ہو گیا تھا ندا ۔۔اتنی ہنگامی رخصتی اور کس لئے کروا رہا ہے وہ ؟” سیمی بھابی نے ندا کو آنکھ مارتے ہوےبے باکی سے کہا تو ندا کے ساتھ وہاں موجود باقی لڑکیاں بھی ہنس پڑیں ۔۔ زینب پہلو بدل کر رہ گئی ۔
“ماشاءالله دونوں بالکل آسمان سے اتری پرياں لگ رہی ہو ۔۔راحم بھی خوب غضب ڈھا رہا ہے “ویسے ایک بات تو ہے۔ ۔اللّه نے تم لوگوں کے پورے خاندان کو بہت فراوانی سے حسن سے نوازا ہے ۔۔بھئی میں تو خوش نصیب ہوں جو اتنے حسین خاندان کا حصّہ بنی ۔۔”سیمی بھابی کے خاص انداز سے کہنے پر سب ہی ہنس دیں ۔۔
اسی وقت زینب کی بارات انے کا شور مچا تو سب جلدی جلدی باہر نکل گئیں ۔۔۔۔باہر سے خوب آتش بازی اور بینڈ باجے بجنے کی آوازیں آ رہیں تھیں ۔۔زینب کےسارے وجود میں عجیب سی لہر دوڑ گئی۔ ۔۔دل عجیب بے هنگم طریقے سے دھڑ کنے لگا ۔۔۔لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔کافی دیر بعد جا کر یہ شور تھما ۔۔۔وہ دونوں خاموشی سے اپنی دھڑکنیں سنبھالتی بیٹھی تھیں۔ ۔تھوڑی دیر بعد آپس میں بھی کوئی بات کر لیتیں ۔۔
کچھ ہی دیر بعد غزالہ صاحبہ اور زین نکاح خواں کے ساتھ اندر چلے آ ۓ زویا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔زینب کی ہتھیلیوں میں پسینہ اتر آیا ۔۔وہ بے ساختہ پاس کھڑی رمشا کا ہاتھ تھام گئی جو ابھی ابھی وہاں ای تھی ۔۔پہلے زویا کا نکاح پڑھایا گیا ۔۔۔اس کے کچھ دیر بعد ہی غازیان احمد شاہ اس کے جسم و جان کا مالک بن بیٹھا ۔۔۔
” ہمیشہ خوش رہو “۔۔۔سرخ نم آنکھیں لئے زین نے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔۔
“بیٹا کچھ دیر بعد انہیں باہر لے آنا ۔۔” غزا لہ صاحبہ بھی آنکھیں صاف کرتی کہتی ہوئی باہر چلی گئیں ۔۔۔زینب باہر جانے تک ہر کسی کی زبانی غازیان کی خوبروی اور بے پناہ وجاہت کے چرچے سنتی رہی ۔۔
وہ بھینچے لب اور سنجیدہ چہرہ لئے بیٹھا تھا ۔۔صبح سے جو رونق اورخوشی چہرے پر چھائی ہوئی تھی اس وقت وہ معدوم تھی ۔۔۔شام کو جو کچھ بھی ہوا ۔۔۔اس سب سے وہ کافی پریشان ہوگیا تھا ۔۔۔وہ منال کے لئے بہت برا محسوس کر رہا تھا ۔۔سب ہی خاص طور پر حیدر تو اس سے کئی دفعہ اس کی غیر معمولی خاموشی کا سبب پوچھ چکا تھا لیکن وہ ٹال گیا ۔
کافی سارا ٹائم منال کے ساتھ گزا ر کر شام کے سات بجے تو وہ گھر پھنچا تھا ۔۔۔سہیل صاحب اور سب کو اس وقت تک فاروقی ہاوس میں اپنی موجودگی کی وجہ رابعہ خالہ کی اچانک طبیعت خرابی بتائ تھی ۔۔۔خالہ کے گھر سے صرف فاروقی صاحب ہی آج شریک ہوے تھے۔۔ رابعہ خالہ منال کے ساتھ گھر پر ہی رکی تھیں۔۔منال کی دگرگوں حالت دیکھ کر اسے بھی یہی مناسب لگا ۔۔امل کا چہرہ بھی ستا ہوا تھا ۔۔۔اس ساری صورت حال سے کیسے نمٹا جائے، فلحال وہ سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔اس وقت بھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھا ۔۔جب نکاح خواں کے الفاظ سے حال میں واپس آیا ۔۔۔جو زینب کے لئے اس کی رضا مندی پوچھ رہے تھے ۔۔وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتا ہوا اپنی پوری رضامندی اور دل کی آمادگی کے ساتھ اس دشمن جان کو قبول کر گیا ۔۔بے شک وہ اس کی زندگی میں انے والی پہلی لڑکی تھی جس کے لئے دل الگ انداز میں دھڑکا تھا ۔۔۔آخری بار قبول ہے کہتے ہی لبوں پر جاندار مسکراہٹ چھا گئی ۔۔آج اس کی ذات کی تکمیل ہو گئی تھی ۔۔وہ دشمن جاں اس کی روح کا حصہ بن گئی تھی ۔۔دعا کے بعد سب نے گلے لگا کر مبارکباد دی ۔۔سہیل صاحب ا ور راحیل صاحب کی خوشی کا تو آج ٹھکانہ ہی نہ تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے زویا کو باہر لیجایا گیا ۔۔ پھر رمشا اور ندا بھابی اسے اپنے ساتھ باہر لائیں ۔۔زینب کو عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔۔ قدم جیسے من من بھر کے ہوگئے تھے ۔۔۔اسپاٹ لائٹ کی روشنی میں وہ تھوڑی تک نفیس کام سے بوجھل دوپٹے کا گھونگھٹ ڈالے سہج سہج قدم اٹھاتی اسٹیج کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔سامنے کھڑے ہلکے سے کام کی انتہائی خوبصورت بلیک شروانی پہنے ،ہلکی بڑھی شیو میں شہزادوں جیسی آن بان کے ساتھ پر وقار شخصیت لئے غازیان کی نظریں اس دل ربا کے سراپے پر ٹکی تھیں ۔۔اس وقت شام سے ذہن پر چھائی کلفت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اسکا چاند سا مکھڑا گھونگھٹ میں چھپا دیکھ کر غازیان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔ کل اس پر اٹھنے والی نظروں سے وہ سارا وقت کتنا بے کل رہا تھا ۔۔اسی لئے آج اس نے رباب بھابی کو خاص ھدایت کی تھی کہ زینب کو گھونگھٹ ڈال کر سب لوگوں کے سامنے لایا جائے ۔۔وہ اس کی ملکیت تھی اور وہ تو اپنی بےجان چیزوں کے بارے میں حد سے زیادہ پوزیسوتھا یہ تو پھر اس کی روح کا حصہ تھی ۔۔
آہستہ آہستہ چل کر اسٹیج کے پاس آئ تو غازیان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔اس کے بڑھے ہوے مضبوط ہاتھ کو دیکھ کر زینب کا دل الگ ہی لے پر دھڑکا اور اس نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔عین اسی لمحے غازیان نے بھی گھونگھٹ کے پار اس کے چاند جیسے مکھڑے پر نظر ڈالی ۔۔دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں ۔۔۔زینب اس کے بھرپور مردانہ وجاہت لئے دلکش وجود اور اپنے سحر میں جکڑتی سیاہ نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوے بس ایک نظر ہی اسے دیکھ سکی اور اس کے مضبوط ہاتھ میں جھجھکتے ہوے اپنی نازک سی ہتھیلی دے کر فورا اپنی نظریں جھکا گئی۔۔ارد گرد کھڑے لوگوں کی ہوٹنگ ،تالیوں کی آواز اور اس بے پناہ خوبرو شخص کی پر کشش نگاہوں کی تپش سے اپنا وجود پگھلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔غازیان اس کا ہاتھ تھامے اسٹیج تک لایا اور اسے آہستہ سے صوفے پر بٹھادیا ۔۔چاروں طرف خوشیاں تھیں ۔۔شور تھا لیکن اس کا سارا دیھان اس پری وش کی طرف ہی تھا ۔۔ساری لائٹس آن ہو گئیں ۔۔غازیان اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔ہر آنکھ میں ان کے لیے ستائش تھی ۔۔سب ہی ان کی جوڑی کو خوب سراہ رہے تھے ۔۔۔دوسری طرف زویا اور راحم کا کپل بھی کم نہیں لگ رہا تھا ۔۔زویاکی آج رخصتی نہیں تھی اسی لئے وہ کافی ریلیکس بیٹھی تھی ۔۔راحم کی کبھی کبھی کی جانے والی سرگوشیاں اسے اپنے آپ میں سمٹنے پر مجبور کر دیتی تھیں ۔ جب کہ زینب کی دھڑکن حد سے سوا تھی ۔۔ ا پنے انتہائی قریب سے اٹھتی اس کے وجود اور کلون کی دلفریب خوشبوزینب کے حواس مختل کر رہی تھی ۔۔غازیان کی نگاہ اس کے مہندی کے خوبصورت نقش و نگار سے سجے مومی ہاتھوں پر تھی ۔۔تب ہی اس کی نظر سامنے ستا ہوا چہرہ لئے کھڑی امل پر پڑی اور ایک دم اس کی نگاہوں کے سامنے منال کا بکھرتا سراپا لھرا گیا ۔۔۔آج اسےاپنی زندگی کے اس خاص موقع پر سعدیہ صاحبہ کی کمی بھی بہت محسوس ہو رہی تھی ۔۔اس وقت بھی ماں اور ماں جیسی خالہ کی غیر موجودگی اسے بے طرح کھٹکی وہ بے ساختہ لب بھینچتا زینب کے پاس سے اٹھ گیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام رسموں کے بعد عائشہ پھپو اور رباب اسے کچھ دیر پہلے ہی غازیان کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں۔ پھولوں کی دلفریب مہک اور کینڈلز کی مدھم مدھم پیلی روشنی کمرے کے ماحول کو فسوں خیز بنا رہی تھی ۔۔وہ بڑے سارے خوب صورت بیڈ کے بیچ و بیچ شرارہ پھیلاہے ، چہرے پر گھونگھٹ ڈالے پورے استحقاق کے ساتھ زیر لب درود شریف کا ورد کرتی بڑی مشکل سے اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں اور ٹرین کی رفتار سے بھاگتی دل کی دھڑکنوں کو قابو کیے بیٹھی تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد جب گردن جھکاے جھکاے تھک گئی تو سر اونچا کر کے چہرے سے تھوڑا سا گھونگھٹ سرکاے کمرے کا جائزہ لینے لگی ۔۔کمرہ بے حد کشادہ تھا اور انتہائی نفیس اور قیمتی آف وائٹ اور نیوی بلیو کومبنیشن کے فرنیچر سے مز ين، موتیے اور گلاب کے خوبصورت پھولوں اور سینٹیڈ کینڈلز سے سجا تھا ۔۔داخلی دروازے کے دائیں جانب ڈریسنگ روم اور واش روم تھا ۔۔اس کی دیوار کےساتھ بلو مخملی نازک سی دو کرسیو ں کے درمیان میں چھوٹی سی تکون شیشے کی میز رکھی تھی۔۔کمرے کے درمیان میں آف وائٹ اور بلوکومبینشن کا نفیس سارگ بچھا تھا ۔سامنے کی پوری دیوار پر نیوی بلو کلر کے دبیز پردے پڑے تھے جب کہ بائیں جانب کچھ فاصلے سے دو دروازے موجود تھے ۔۔جو نہ جانے کہاں کھلتے تھے۔ ۔زینب کیوں کے اس کمرے میں پہلی بارآئ تھی اسی لیے دلچسپی اور اشتیاق سے سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔۔
ابھی وہ کمرے کا جائزہ لینے میں مصر وف ہی تھی جب دروازے پر ہلکا سا کھٹکا محسوس کر کے جلدی سے چہرے پر گھونگھٹ ڈال کر سنبھل کر بیٹھ گئی ۔۔آہستہ سے دروازہ کھول کر غازیان اندر داخل ہوا۔۔بے ساختہ نگاہ بیڈ کے درمیان میں پوری شان سے براجمان اس حور پرگئی جو اسی کا پسند کیا سرخ اناری رنگ کا بیش قیمت بھاری لباس زیب تن کیے اپنا پور پور اس کے لئے سجاے سرخ گلاب کے پھولوں کے درمیان بیٹھی خود بھی گلاب کی کلی ہی لگ رہی تھی ۔۔ایک استحقاق بھری نظر اس دلربا پر ڈال کر ہاتھ میں پکڑا موبائل اور شیروانی کی جیب سے گاڑی کی چابی ۔والٹ وغیرہ نکال کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھتاایک ہاتھ سے شیروانی کے بٹن کھولتا ہوا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔
زینب جو کب سے سانس روکے بیٹھی تھی۔۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے اسے کمرے سے جاتا دیکھ کر گہری سانس بھرتی اپنے حواس بحال کر گئی ۔آ نے والے لمحوں کا سوچ کر دل کی حالت بہت خراب تھی ۔۔کمرے میں چلتے اے سی کی وجہ سے اچھی خاصی خنکی تھی لیکن پھر بھی اس کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں ۔۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی دھڑکنوں کو سنبھالنا چاہا ۔۔اسی لمحے واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر وہ سیدھی ہوکربیٹھ گئی ۔۔کیجول سے بلیک ٹراؤزر اور بلیک ہی ہاف سیلیوز کی ٹی شرٹ میں وہ تولیے سے بال رگڑ تا کمرے میں آیا ۔۔تولیہ اسٹینڈ پر تولیہ ڈال کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کیا اور ساتھ ہی ایک نظر ڈریسنگ مرر میں نظر آتے گھونگھٹ میں چھپے اس کے دلکش سراپے پر ڈالی جو دونوں ہاتھوں کو سختی سے جکڑکر شاید ہاتھوں کی لرزش پر قابو پا نے کی کوشش کر رہی تھی۔اس کا ذہن ایک مرتبہ پھر منال کی طرف چلا گیا ۔ابھی گھر آ کر امل سے اس کی بابت پوچھنے پر پتا چلا کہ شام کو اس کے وہاں سے آنے کے بعد رابعہ صاحبہ بڑی مشکل سے اسے نیند کی گولی دے کر سلانے میں کامیاب ہوئی تھیں ۔۔وہ سر جھٹکتا خود پر خوب سارا پرفیوم چھڑکتا بیڈ کی طرف بڑھ گیا ۔۔دھیرے دھیرے چلتا بیڈ پر اسکے مقابل بیٹھاتو وہ بےاختیار خود میں سمٹ گئی ۔۔اسکی یہ حرکت غازیان نے بغور دیکھی تھی ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک دم اس کا گھونگھٹ الٹ دیا اور مبہوت رہ گیا ۔۔وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اس کا قیامت خیز ہوشربا حسن دیکھ کر اسے اپنا دل پہلو سے پھسلتا محسوس ہوا ۔۔وہ بے انتہا خوبصورت تھی ۔۔وہ جانتا تھا۔۔ لیکن دلہن بن کر اس قدر حسین لگے گی یہ اندازہ نہ تھا ۔۔وہ سدھ بدھ بھلاے گنگ ہوا اسے دیکھتا چلا گیا۔ سرخ اناری رنگ کے عروسی لباس میں نفاست سے کیے گۓ میک اپ کے ساتھ صراحی دار گردن میں ڈائمنڈ کا خوبصورت سیٹ پہنے صحیح معنوں میں اس کے ہوش اڑا رہی تھی ۔۔ناک نہ چھیدی ہونے کے باوجود چھوٹی سی بالی میں بڑ ی سی گول نتھ پہنی ہوئی تھی جس میں موجود بڑ ا سا سرخ موتی اس کے بے حد جان لیوا کٹاؤ والے سرخ لپسٹک سے سجے لبوں کو چھوتا ہوا غازیان کا دل دھڑکارہا تھا۔
غازیان نے اسے پہلی مرتبہ۔۔سرخ رنگ کےلباس میں ملبوس دیکھا تھا۔۔ اس نے سرخ رنگ کے عروسی لباس کا انتخاب بھی اسی لیے کیا تھا کہ آج جب وہ اس کی روح کا حصہ بن گئی تھی۔ غازیان اس کے جسم و جان پر پورا استحقاق رکھتا تھا تو وہ اسے اسی رنگ میں دیکھنا چاہتا تھا۔لیکن اس پر دلہناپے کا روپ کچھ اس طرح چڑھا تھا کہ غازیان کی قوت گویائی ہی سلب ہوگئی ۔۔اس نے آج تک کبھی اتنی حسین دلہن نہ دیکھی تھی ۔۔اس کی مستقل خاموشی سے زینب نے ہلکا سا كسمسا کر اپنی حسین خواب ناک سبز آنکھیں نیم وا کیں تو اسے کھوے کھوے انداز میں یک ٹک اپنی طرف دیکھتا پا کر گھبرا کر جلدی سے ایک مرتبہ پھر نظریں جھکا گئی ۔۔اس کے کسمسانے سے غازیان بھی ہوش میں آیا ، بڑ ی مشکل سے اس کے چہرے سے نظریں ہٹائیں اور گھیرا سانس خارج کرتا اس کا خوبصورت مہندی اور گجرے سے سجا نرم و ملائم نازک سا مومی ٹھنڈا پڑتا ہاتھ تھام گیا ۔۔زینب کا پورا وجود کپکپا گیا ۔۔اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا سائیڈ ٹیبل پر پڑا اسکا فون بج اٹھا ۔۔فون کی چنگھاڑتی آواز سے کمرے میں چھایا فسوں ایک دم ٹوٹ گیا ۔۔غازیان نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا ۔۔جس پر منال کے نام کے ساتھ ساتھ اس کی مسکراتی تصویر بھی چمک رہی تھی۔ ۔اس نے بے اختیار زینب کی طرف دیکھا ۔۔جسکی نظریں فون پر ہی تھیں۔ ۔اسی لمحے اس نے بھی نظریں اٹھا کر غازیان کی طرف دیکھا ۔وہ خجل ہوتا اس سے ایکسکیوز کرکے بیڈ سے اٹھا اور فون کان سے لگا کر سامنے پڑے بیحد دبیز نیوی بلوکلر کے پردے ہٹا کر گلاس وال میں ایستادہ سلائڈنگ گلاس ڈور کھولتا باہر نکل گیا ۔۔اس کے باہر جاتے ہی زینب کی نگاہ سامنے لگے خوبصورت ووڈن وال کلاک پر گئی جو رات کے دو بجا رہی تھی ۔۔وہ چند پل سامنے گلاس وال کے پار نظر اتے بڑ ے سے سوئمنگ پول کو دیکھتی رہی جس کے ساتھ بنی روش پر غازیان فون کان سے لگاے ٹہلتا ہوا نظر آ رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“غازیان…غازیان !! کہاں ہو تم ؟ تم اپنی بیوی کے ساتھ ہونا؟” جیسے ہی اس نے کال ریسیو کی ۔۔منال کی روتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
وہ جو امل کی زبانی اس کے سونے کا سن کر پرسکون ہو گیا تھا اب اتنی رات کو اس کی کال انے اور اس کا رونا سن کر پریشان ہو گیا ۔۔وہ بالکل شام والے فیز میں ہی تھی ۔۔
” منال !! کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔۔کیوں فضول باتیں سوچ رہی ہو ۔۔؟وہ اپنے بال مٹھی میں جکڑتے بولا
“کیا فضول ۔۔کیا فضول ہے اس میں ؟ کیا وہ تمھارے پاس نہیں ہے ۔۔؟” ہچکیاں لیتے دبا دبا چلائی
” منال پلیز !! تم ایک سمجھدار میچورڈ لڑکی ہو ۔۔سنبھالو خود کو۔” نرم لہجے میں اسے سمجھایا
” میں نے ۔۔میں نے ہمیشہ تمھارے ساتھ اس روپ میں خود کو ۔۔خود کو ہی تصور کیا ہے ۔۔اب کیسے سمجھاوں خود کو۔۔ کیسے ۔۔؟” بے تحاشا روتے بلکتے بولی تو وہ لب بھینچ گیا ۔۔اس کا رونا سماعتوں پر سخت گراں گزر رہا تھا ۔۔وہ جو بزنس کی پیچیدہ سی پیچیدہ سچویشن بھی بہت آسانی سے حل کر لیتا تھا اس معاملے میں خود کو بالکل بےبس محسوس کر رہا تھا ۔۔اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔
” یار پلیز ۔۔۔کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو ۔۔” گہری سانس خارج کرتا بولا
” تم کیسے کسی اور سے شادی کر سکتے ہو۔ ۔؟کیسے انجان ہو سکتے ہو میری فیلنگز سے ۔۔؟میں نے ہمیشہ اپنا لائف پارٹنر تمہیں ہی سوچا ہے۔ ۔تم نے کیسے کرلی کسی اور لڑکی سے شادی ۔۔؟” اس نے ایک بار پھر وہی بات دوہرائی ۔۔
” منال !! بار بار ایک ہی بات سوچ کر کیوں خود کو پریشان کر رہی ہو ۔۔میں تمہیں بتا چکا ہوں میں نے کبھی بھی تمہیں اپنا لائف پارٹنر نہیں سوچااور ویسے بھی اب میری شادی ہو چکی ہے اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔” بار بار اس کی ایک ہی گردان سے عاجز آ کر جھنجھلا کر بولا
“ٹھ ۔۔ٹھیک ہے ۔۔آئ انڈر اسٹینڈ ۔۔سوری میں نے تمہیں اس وقت ڈسٹرب کیا ۔۔جب کہ تم ۔۔تمہاری وائف تمہارا ویٹ کر رہی ہوگی ۔۔تمہیں میری تکلیف کا کیا احساس ہوگا کیوں کہ تم نے تو کبھی میرے لئے کچھ فیل ہی نہیں کیا ۔۔معاف کردو مجھے ۔۔جاؤ تم اپنی گولڈن نائٹ انجوا ے کرو۔۔” انتہائی کاٹ دار لہجے میں کہتی ایک دم فون بند کر گئی ۔۔۔
“منال !!میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔ بات تو سنو”۔۔وہ ہیلو ۔۔ہیلو ہی کرتا رہ گیا ۔۔اس کے بعد اس نے کئی مرتبہ اسکا نمبر ٹرائی کیا لیکن وہ فون ہی اف کر گئی تھی ۔۔
غازیان نے اپنے بال زور سے مٹھیوں میں کھینچے ۔۔۔۔کس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تھا وہ ۔۔سمجھ نہیں آ رہی تھی منال کو کیسے سمجھاے ۔۔۔
اپنی سوچوں میں گم کافی دیر تک وہیں ٹہلتا رہا ۔۔ اس وقت وہ اندر بیٹھی زینب کو بالکل فراموش کر چکا تھا ۔۔کافی مرتبہ ٹرائی کرنے کے بعد بھی جب منال نے فون نہیں اٹھایا تو کچھ سوچتے ہوے امل کو کال ملا گیا ۔۔
” ہیلو ” کچھ لمحوں بعد امل کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی تو اسے منال سے ہوئی بات مختصر أ بتا کر اس کےغصے سے فون بند کرنے کا بتاگیا ۔۔
“اچھا ۔۔تم پریشان نہ ہو۔ ۔میں ماماکو کال کرتی ہوں ۔۔وہ جا کر دیکھیں گی اسے ۔۔” امل نے کہہ کر فون بند کیا تو وہ گہری سانس بھرتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا ۔۔دل بے حد بوجھل ہو رہا تھا ۔۔اس وقت دل میں منال کی فکر کے علاوہ اور کوئی جذ بہ نہیں تھا ۔۔دوست تو بہت سارے تھے لیکن منال اور حیدر کی بات الگ تھی ۔۔دونوں اس کے بچپن کے دوست تھے ۔۔منال من موجی ٹائپ کی لڑکی تھی ہمیشہ خوش رہنے والی ۔۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ایسا کیا کرے جو وہ سب بھول جائے ۔۔رہ ررہ کر خود پر بھی غصہ آ رہا تھا اسے کبھی منال کی فیلنگز کا اندازہ کیوں نہیں ہوا ۔۔اگر امل ہی اسے یہ سب پہلے بتا دیتی تو وہ اپنے طریقے سے اس سچویشن کو ہینڈل کر لیتا ۔۔
اپنی سوچوں میں الجھا گلاس ڈور بند کرکے پردے برابر کرتا مڑا تو نظر بےساختہ بیڈ پر بیٹھی زینب پر پڑی جو نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں بمشکل کھولے نا سمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔تھکن چہرے سے ہویدا تھی ۔۔وہ شدید ندامت محسوس کرتا آنکھیں بند کر کے گہری سانس خارج کر کے اس کی طرف مڑا اور ایک نگاہ وال کلاک پر ڈالی ۔۔رات کے پونے تین بج رہے تھے ۔۔وہ نہ جانے کب سے خود پر اتنا کچھ لادے بیٹھی تھی ۔۔غازیان کو بیحد افسوس ہوا ۔۔آج جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے وہ بلا وجہ نظر انداز ہو رہی تھی
” سوری ۔۔ضروری کال تھی مجھے وقت کا اندازہ نہیں ہوا ۔۔” آہستہ سے چلتا اس کے پاس آیا اور رسانیت سے بولا ۔۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی جو بہت پریشان اور الجھا الجھا لگ رہا تھا ۔۔
” تم تھک گئی ہوگی ۔۔چینج کرلو ۔۔” نرمی سے بولا تو وہ سرہلا کر اپنا شرارہ سمیٹتی اٹھنے لگی تب ہی کچھ خیال آ نے پر پھنسی پھنسی آواز میں خود کو پوچھنے سے نہ روک پائی ۔۔ “سب ۔۔سب ٹھیک ہے ۔۔؟
اس کے پوچھنے پر غازیان نے ایک نظر اسے دیکھا پھر سر اثبات میں ہلا گیا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اسے بیڈ سے اٹھنے میں مدد دی ۔۔اسی وقت دروازہ زور زور سے بجایا گیا ۔۔غازیان نے لپک کر دروازہ کھولا تو حواس باختہ سی حالت میں بری طرح روتی ہوئی امل کھڑی تھی ۔۔اس کے پیچھے ہی تیزی سے سیڑھیاں اترتا شایان آ رہا تھا ۔
” غازیان !! منال نے ۔۔سلیپنگ پلز کھالیں ۔۔ابھی ماما۔ منال کے پاس اس کے روم میں گئیں تو ۔۔اس کے منہ سے جھ جھاگ نکل رہے تھے ۔۔۔ہمیں ۔۔ہمیں ہوسپٹل جانا ہے ۔۔ جلدی چلو۔ ۔۔” اس کے دروازہ کھولتے ہی امل نے روتے ہوے بتایا ۔۔وہ بے یقین نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔اسے منال سے اس انتہائی قدم کی ہرگز امید نا تھی ۔۔
“انکل اور خالہ اسے لے کر ہسپتال کے لئے نکل گئے ۔۔ابھی خالہ سے بات ہوئی ہے میری ۔۔چلو جلدی نکلو ۔۔” شایان نے پیچھے سے آ کر بتایا تو وہ تیزی سے کمرے میں مڑا اور سائیڈ ٹیبل سے اپنی گاڑی کی چابی اور والٹ اٹھا کر جیسے ہی پلٹا نظر بیڈ کے ساتھ کھڑی زینب سے ٹکرائی جو آنکھوں میں حیرت لئے پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔وہ اس سے ایک لفظ بھی کہے بغیر نظریں چرا تا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔
ساری بات سن کر ہونق ہوئی زینب دروازہ بند ہونے کی آواز سے یکدم ہوش میں آئ ۔۔کچھ دیر پہلے اتنی رات گئے منال کی کال ۔۔غازیان کے مبہم سنجیدہ تاثرات اور اب منال کا نیند کی گولیاں کھانا ۔۔ذہن جس طرف اشارہ دے رہا تھا وہ سوچ کر ہی اسکا دل ڈوب گیا ۔۔بےاختیار دل پر ہاتھ رکھتی بیڈ پر ٹک گئی ۔۔ذہن کے پردے پر خوش شکل و خوش لباس ما ڈرن سی منال لہرا گئی ۔۔
” یا اللّه !! اتنی پیاری سی لڑکی ہے۔ ۔اسے کچھ نہ ہو پلیز ۔۔” بے ساختہ دل سے دعا نکلی ۔۔دل کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی ۔۔یہ سب کیا ہو رہا تھا ۔۔ایسا تو کچھ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔۔کتنی ہی دیر غائب دماغی سے بیٹھی رہی ۔۔پھر آہستہ سے اپنا کام دار شرآراہ سنبھالتی بیڈ سے اٹھ گئی ۔۔آہستہ آہستہ چلتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئ کافی مشقت کے بعد ساری پنیں نکالنے میں کامیاب ہوئی ۔۔دوپٹہ اتارکر کرسی پر رکھا اور ایک ایک کرکے سارے زیورات اتارنے لگی ۔۔اس دوران آئینے میں نظر آتے اپنے مبہوت کرتے عکس کو دیکھ کر آنکھوں میں نمی اتر آئ ۔۔شام سے اس نے سب کے منہ سے اپنی بے انتہا تعریفیں سنی تھیں ۔۔اب اپنے آپ کو غور سے دیکھا تو سب کی تعریفیں سچ ہی لگیں ۔۔
سرخ اناری خوبصورت بھاری لباس و زیورات سے اپنی پور پور سجاے وہ واقعی حواس سلب کر رہی تھی لیکن کیا فائدہ اس سب بناؤ سنگھار کا ۔جس کے لئے یہ روپ سروپ سجآیا تھا ۔۔اپنی پور پور کو مہکایا تھا ۔۔وہ توکہیں اورہی مصروف تھا ۔۔ ۔دل سے ہوک سی اٹھی ۔۔وہ سر جھٹک کر سارے زیورات اتار کر دراز میں رکھنے لگی ۔۔بالوں میں لگی بےتحاشا پنیں نکالتے دانتوں تلے پسینہ آ گیا ۔۔بڑی مشکل سے یہ مرحلہ سر کرکے کوئی سادہ سے سوٹ لینے کے لئے ڈریسنگ روم میں چلی آئ جہاں سامنے ہی انتہائی مختصر اور بےباک آف وائٹ کلر کی نائٹی دیکھ کر پیشانی عرق آلود ہو گئی ۔۔یہ یقینا رباب بھابی کی کارستانی تھی ۔۔کچھ دیر قبل جب وہ اسے کمرے میں بیٹھانے آئ تھیں تو ان کی اس وقت کی جانے والی معنی خیز باتیں جو اس وقت وہ نہ سمجھ سکی تھی اب اچھی طرح سمجھ میں آگئی تھیں ۔۔ساتھ ہی یہ بھی یاد آ یا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی غازیان بھی ڈریسنگ روم میں آیا تھا یقینا اس نے بھی ۔۔اس سے آگے وہ کچھ سوچ ناسکی ۔۔ چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا ۔۔کپکپاتے ہاتھوں سے وارڈروب کا پہلا پٹ کھولا ۔۔اس میں نفاست سے مردانہ کپڑے لٹکے نظر اے اسے بند کر کے دوسرا پٹ کھولا وہاں اس کے کپڑے لٹکے تھے ۔۔اس نے جلدی سے اس نائٹی کو پیچھے کر کے رکھا اور فیروزی رنگ کا ایک کاٹن کا ٹراوُزر شرٹ لے کر واش روم کا رخ کیا ۔۔
واشروم دیکھ کر دنگ رہ گئی ۔۔وہ پہلے بھی اس گھر میں آ چکی تھی ۔۔یہ گھر بے انتہا خوبصورت اور انتہائی قیمتی چیزوں سے آراستہ تھا ۔۔لیکن وہ دعوے سے کہہ سکتی تھی یہ کمرہ اور واشروم اس گھر میں سب سے زیادہ شان دار تھے ۔۔واشروم میں اس کی ضرورت کی تقریبا ساری ہی چیزیں رکھی تھیں ۔۔جن میں شیمپو ۔فیس واش ۔باڈیواش ۔فیس اسکرب اور نہ جانے کیا کیا شامل تھا ۔ایک بالکل نیا ٹوتھ برش بھی پیکنگ میں موجود تھا ۔۔وہ متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکی ۔۔دس منٹ بعد منہ ہاتھ دھو کر وضو کرتی باہر نکلی ۔۔۔جائے نماز وہ ڈریسنگ روم میں رکھی دیکھ چکی تھی ۔۔اٹھا کر کمرے میں لائی اور قبلہ رخ بچھا کر عشاءکی نماز ادا کرنے لگی ۔۔کیوں کہ پہلے بھی اس گھر میں نماز ادا کر چکی تھی اس لئے قبلے کی سمت کا علم تھا ۔۔
نماز پڑھ کے کافی دیر تک اپنے لئے ۔ غازیان کے لیے اور سب کے ساتھ ساتھ منال کے لئے بھی دعا کرتی رہی ۔۔دل کی حالت بہت عجیب سی ہو رہی تھی ۔۔وہ بچی نہ تھی جو صورت حال کا اندازہ نہ کر پاتی ۔ جو کچھ اسے سمجھ آ رہا تھا اسے سوچ سوچ کر دل بہت گھبرا رہا تھا۔کسی لڑکی کا یوں خودکشی کی کوشش کرنا کوئی چھوٹی بات نہ تھی ۔۔دل ڈوب ڈوب جا رہا تھا ۔۔خیر سب کچھ اللّه پر چھوڑتی گہری سانس بھرتی اٹھ گئی ۔۔سارے دن کی تھکاوٹ کے باوجود آنکھوں میں نیند کاشائبہ تک نہ تھا ۔۔ ویسے بھی تھوڑی دیر میں فجر کی اذان ہونے والی تھی ۔۔وہ وقت گزاری کے لئے بیڈ کی بائیں جانب نصب دو درواز وں کی جانب بڑھ گئی ۔۔پہلا دروازہ کھولا تو وہ بہت کشادہ جم تھا ۔۔جہاں ایکسر سائز کا جدید اور کافی سارا سامان رکھا تھا ۔اس کی نظروں میں ستائش اتر آئ ۔۔اس کمرے کی بھی ایک دیوار شیشے کی تھی جس سے باهر لان میں جلتی مدھم مدھم پیلی لائٹیں نظر آرہی تھیں ۔۔یہ یقینا غازیان کا ذاتی جم تھا یعنی وہ ریگولرلی ایکسر سائزکرنے کا عادی تھا ۔۔خیر اس کا اندازہ تو اسکی مضبوط جسامت اور چوڑ ے پھولے پھولے بازو دیکھ کرہی ہوجا تا تھا کہ وہ روزانہ کئی گھنٹے جم میں صرف کرتا ہوگا ۔۔جم کا دروازہ بند کر کے دوسرے دروازے کو کھولا تو وہاں کئی شیشے کی بنی دیوار گیر الماریاں اور کتابوں سے بھرے شیلف تھے ۔۔وہ آہستہ آہستہ چلتی بک شیلف کے پاس چلی آئ تقریبا نوے فیصد کتابیں انگریزی رائٹرز کی تھیں ۔زیادہ تر بزنس سے ریلیٹڈ کتابیں تھیں ۔۔کچھ اسلامی کتابیں بھی تھیں ۔شیشے کی الماریوں میں ڈھیر ساری فائلز ترتیب سے رکھی تھیں ۔۔۔زینب کو جلدی ہی اندازہ ہو گیا جم کی طرح یہ اسٹڈی بھی غازیان کی ذاتی ملکیت ہے ۔۔داخلی دروازہ کے دائیں جانب لیدر کا ڈارک براؤن کلر کا تھری سیٹر صوفہ اور اس کے آگے آبنوسی لکڑی کی میز رکھی تھی جس پر ایک سیاہ موٹے کور کی فائل اور بال پواینٹ رکھا ہوا تھا ۔۔ایک طرف اسٹڈی ٹیبل رکھی تھی جس پر اپیل کا جدید ماڈل کالیپ ٹاپ رکھا تھا اور اس کے سامنے ری والونگ چیئر رکھی تھی ۔۔جبکہ سامنے والی دیوار میں شیشے کے فریمز میں اس کے میںڈلز اور سر ٹیفیکیٹس نصب تھے ۔۔زینب کو چند منٹ میں ہی اس شخص کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ ہو گیا ۔۔بلاشبہ وہ شخص ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے تھا جنھیں اللّه تعالی نے ذہانت ۔قابلیت وجاہت ۔دولت غرض کہ ہر چیز سے نوازا ہوتا ہے۔ ۔اسے اس لمحے اس پر رشک آیا ۔۔
کافی سارا ٹائم کتابوں کا جائزہ لیتی رہی تب ہی فجر کی اذان فضا میں گونجنے لگی۔ ۔صوفے پر بیٹھ کر پوری توجہ سے اذان سننے کے ساتھ اذان کے کلمات دوہرانے لگی۔ ۔اذان کا جواب دے کر دورود شریف پڑھا اور فجر کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھ گئی ۔۔نماز سے فارغ ہوئ تو آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں ۔۔کمرے میں جگہ جگہ جلتی کینڈ لز بجھا کر بیڈ پر آ کر لیٹ گئی اور ہاتھ بڑھا کر کمفرٹر خود پر کھینچ لیا ۔۔کمفرٹر میں سے وہی مخصوص بھینی بھینی خوشبو محسوس کرکے جو غازیان کے پاس آنے پر محسوس ہوتی تھی ۔۔وہ گہری سانس کھینچ کر آنکھیں مو ند گئی ۔۔اور چند ہی لمحوں میں نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔