میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 18

ہسپتال کے کوریڈور میں اس وقت وہ لوگ شدید پریشانی کے عا لم میں کھڑے ہوے تھے۔ ۔رابعہ صاحبہ اور امل کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔ منال آئ سی یو میں تھی ۔۔۔بہت مشکل سے ان لوگوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سےڈاکٹرز یہ کیس لینے کو تیار ہوۓ تھے ۔۔۔
“امل یار ۔۔تم تو حوصلہ رکھو ۔تم اس طرح کروگی تو خالہ کو کون سنبھالے گا ۔۔”شا یان نے ایک مرتبہ پھر امل کو چپ کراتے ہوے کہا ۔۔
“شان ۔۔۔!! یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔میری وجہ سے وہ اتنی تکلیف میں ہے۔ ۔۔مجھے اسے پہلے ہی بتادینا چاہیے تھا ۔۔۔”امل نے شایان کے کندھے پر سر رکھتے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوے کہا ۔۔
“نہیں یار۔ ۔۔یہ سب اسی طرح ہونا تھا۔جو ہو رہا ہے اس میں تمہاری یا کسی کی بھی غلطی نہیں ہے ۔۔۔”شایان نے اس کے آنسو پونچھتے کہا ۔۔
“غازیان !! تمہاری کیا بات ہوئی تھی اس سے ۔۔؟ تم نےایسا کیا کہا اسے ،جو وہ اپنی جان لینے پر تل گئی ۔۔” رابعہ خالہ نے تسبیح کے دانے گھمانے روک کر عجیب چبھتے ہوے لہجے میں اس سے پوچھا ۔۔۔ہسپتال آنے کے بعد بھی رابعہ خالہ نے اس سے اسی لہجے میں کم و بیش یہی سوال کیا تھا ۔۔۔جس کا اس نے بہت تحمل سے جواب دیا تھا لیکن اب۔۔ وہ جو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا ے کھڑا تھا ان کا کاٹ دار انداز برداشت نہ کرسکا۔
“خالہ !! میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے ۔میں نے منال سے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ وہ یہ فضول حرکت کرتی ۔۔۔”
“مجھے منال کے لئے بہت برا محسوس ہو رہا ہے ۔۔جوہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔۔لیکن اگر وہ میرے بارے میں کسی اور طرح سے سوچتی ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔منال جیسی سمجھدار لڑکی سے مجھے ایسی بچکانہ حرکت کی امید نہیں تھی ۔” انتہائی سرد لہجے میں وہ بولتا چلا گیا ۔۔۔شایان نے کاندھے پے ہاتھ رکھ کر اسے ٹھنڈاکرنا چاہا ۔۔رابعہ خالہ خاموشی سے سر جھکا گئیں ۔۔ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ ۔اگر ان کی بیٹی اس کے پیچھے پاگل ہو کر اس حد تک چلی گئی تھی تو اس میں اس کا کیا قصور ۔۔۔اس نے کونسا منال کے ساتھ بیوفائی کی تھی ۔۔۔
“غازیان بالکل صحیح کہہ رہا ہے ۔۔ اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔آپ فضول میں اسے الزام نہ دیں ۔۔منال نے مجھے بہت مایوس کیا ہے ۔” فاروقی صاحب نے درشتی سے رابعہ صاحب کو جھڑکا ۔۔جب ہی آئ سی یو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب باہر آ ۓ ۔۔سب تیزی سے ان کی جانب بڑھے ۔۔۔
“میری بہن اب کیسی ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔؟”شایان نے بے صبری سے پوچھا ۔
” وہ اب خطرے سی باہر ہیں ۔۔۔ہم نے معدہ واش کردیا ہے ۔۔لیکن گولیاں بہت زیادہ مقدار میں کھانے کی وجہ سے وہ ابھی بے ہوش ہیں ۔۔”
ڈاکٹر صاحب ۔۔!! کب تک ہوش آے گا میری بیٹی کو ۔۔؟ رابعہ صاحبہ نے بے قراری سے پوچھا
” دو ڈھائی گھنٹے تک ہوش آ جائے گا انہیں ۔۔شکر کریں آپ لوگ انھیں جلدی ہسپتال لے آ ۓ جس کی وجہ سے ان کی جان خطرے سے باہر ہے اب ۔۔”
ڈاکٹر کے جانے کے بعد سب کی جان میں جان آئ اور سب نے کلمہ شکر ادا کیا ۔۔
کچھ دیر بعد امل، غازیان سے مخاطب ہوئی ۔۔
“غازیان !!منال خطرے سے باہر ہے اب ۔۔ تم گھر چلے جاؤ ۔۔زینب اکیلی ۔۔۔”
“اٹس اوکے امل ۔۔جب تک منال کو ہوش نہیں آ جاتا میں یہیں ہوں ۔۔”ہاتھ اٹھا کر اسے درمیان میں ٹوک گیا ۔۔
اللّه اللّه کر کے صبح کے ساڑھے چھ بجے منال کو ہوش آیا ۔۔فاروقی صاحب اس کے ہوش میں آ نے کا سنتے ہی اس سے ملے بغیر اپنی بھرپور ناراضی جتاتے گھر چلے گئے ۔۔۔
باقی سب منال سے ملنے گئے ۔۔۔۔۔رابعہ صاحبہ کے تو آنسو ہی نہیں رک رہے تھے ۔۔یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آ رہا تھا کہ اگر انھیں ہسپتال انے میں دیر ہوجاتی تو کیا ہوتا ۔۔۔رابعہ صاحبہ۔ امل۔ شایان سب نے ہی اس کی حرکت پر اسے سرزنش کی تھی ۔۔رابعہ صاحبہ کی حالت دیکھ کراور فاروقی صاحب کی ناراضی کا سن کر وہ واقعی بہت شرمندہ ہوئی۔۔۔ پتا نہیں وہ اتنی بڑ ی بے وقوفی کیسے کرگئی کہ اتنا بڑا گناہ کرنے چلی تھی ۔ کچھ دیر بعد جب رابعہ صاحبہ شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلی گئیں ۔امل فریش ہونے اور شایان ڈاکٹر سے بات کرنے تو اسے شرمندہ دیکھ کر غازیان اس کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھا ۔۔۔جو مارے شرمندگی کے اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی ۔۔
” اٹس اوکے ۔۔۔اب زیادہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔تم اس طرح بالکل اچھی نہیں لگ رہیں ۔۔”غازیان نے آہستہ سے اس کا ڈرپ لگاہاتھ تھام کر کہا ۔۔تو وہ آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر بولی ۔۔۔
“آئ ایم۔ ۔ آئ ایم سوری ۔۔۔پتہ نہیں کیسے۔۔۔ میں اتنی بڑ ی بے وقوفی کرگئی ۔۔۔”
“اٹس اوکے ۔۔۔منال ۔۔جسٹ فور گیٹ اٹ ” اس کا ہاتھ تھپتھپا کر بولا۔۔۔”کبھی کبھی انسان جذباتی ہو کر بے وقوفی کرجاتا ہے ۔۔لیکن پرامس کرو آیندہ کبھی بھی ایسی حرکت نہیں کرو گی ۔۔۔”
وہ اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔۔چند پل خاموشی رہی جسے منال نے توڑا ۔۔” “تم ۔۔تم یہاں اس وقت ۔۔ہسپتال میں ۔۔تمہاری بیوی ۔ ۔۔تمہیں اس کے پاس ۔۔ “بری مشکل سے حلق میں اٹکتے آنسووں پر قابو پا کر اٹک اٹک کر بولی تو وہ پوری بات سنے بغیر درمیان میں ہی ٹوک گیا ۔۔
“لک منال !! تم نا صرف میری کزن ہو بلکہ بہترین دوست بھی ہو ۔۔۔ میں تمہیں تکلیف میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں ۔۔۔”
چند پل خاموش رہ کر لفظ ترتیب دیے پھر گویا ہوا ۔۔
“دیکھو منال۔۔۔مجھے افسوس ہے میں تمہاری فیلنگز نہیں سجھ سکا ۔۔ہم زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن ہمیشہ ضروری نہیں جو ہم چاہیں ہمیں مل بھی جائے ۔۔پلیز یہ بات سمجھو ۔۔” اس کے ہاتھ پر ہلکا سا دباؤ دیتا بولا تو وہ بھیگی نظریں اٹھا کر اسے دیکھے گئی ۔۔”تم میچور ہو ایسی بچکانہ حرکتیں کرنے کی بجآے حقیقت کا سامنا کرو پلیز ۔۔” نرم سے لہجے میں سمجھاتے ہوے بولا تو وہ سر ہلا گئی ۔۔
“ڈیٹس لائک آ گڈ گرل ۔۔”ہلکا سے مسکراکربولا ۔۔اسی وقت ایک نرس منال کے بلڈ سیمپل لینے کے لئے اندر داخل ہوئی ۔۔۔منال کے کچھ ٹیسٹس ہوے ، جن کی رپورٹس ٹھیک آ نے کے بعد اسے گھر جانے کی اجازت مل گئی ۔۔امل ،منال کے پاس فاروقی ہاؤس رکنا چاہتی تھی ۔۔ غازیان اور شایان ان تینوں خواتین کو فاروقی ہاؤس ڈراپ کر کے گھر آے تو صبح کے سوا دس بج رہے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاس وال سے چھن چھن کر آتی سورج کی روشنی آنکھوں میں پڑی تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔کچھ پل ایسے ہی آنکھیں موندے پڑی رہی ۔۔۔پھر کروٹ بدل کر دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں تو سجا سجایا پھولوں کی خوشبو سے مہکتا کمرہ دیکھ کر کچھ لمحوں تک تو سمجھ ہی نہیں آئ کہ وہ کہاں ہے ۔۔چند پل بعد جب حواس بیدار ہوۓ تو سب یاد آ نے پر وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائ ۔۔وہ کہیں نہیں تھا ۔۔۔ دوسری سائیڈ کے بے شکن بستر سے صاف ظاہر تھا وہ رات بھر کمرے میں نہیں آیا ۔ بیڈ سے ہوتی ہوئی نظر وال کلاک کی جانب چلی گئی جہاں نو بج کر چالیس منٹ ہو رہے تھے ۔۔۔یعنی پوری رات گزر چکی تھی ۔۔اسے ایک دم منال کا خیال آیا ۔۔۔پتا نہیں وہ کیسی ہوگی ۔۔؟
بیڈ سے اتر کر کمفرٹر ٹھیک کرتی ڈریسنگ روم میں جانے کے لئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے گزری تو ڈریسنگ مرر میں اپنے عکس پرنظر پڑی ۔۔۔نگاہوں میں اپنا رات دلہنا پے والاروپ لہرا گیا ۔۔۔ کتنی دلکش لگ رہی تھی وہ کل ۔۔زویا ۔ندا ۔سیمی بھابی سب کتناچھیڑ رہی تھیں اسے غازیان کے حوالے سے ۔۔اور در حقیقت۔ ۔ ہوا کیا ۔۔ پوری رات اس نے کمرے میں تنہا گزاری تھی ۔۔جس کے لئے وہ دلکش روپ سجایا تھا، اپنی پور پورکو مہکایا تھا اس نے توایک کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی تھی ۔۔۔یہ سب سوچ کر بے ساختہ آنکھوں میں ہلکی سی نمی اتر آئ جسے پیچھے دھکیلتی وہ جلدی سے ڈریسنگ روم میں چلی گئی ۔۔
فریش ہو کر بال تولیے سےخشک کر کے تولیہ۔۔اسٹینڈ پر پھیلا کر مرر کے سامنے آئ ۔ ۔دراز کھول کر ہیئر ڈرائر تلاش کیا جو دوسری دراز میں مل گیا ۔ابھی ہیئر ڈرائر نکال کر سیدھی ہی ہوئی تھی جب دروازہ کھول کر وہ اندرچلا آیا ۔۔۔زینب کی نظریں مرر میں اس پر اٹھیں ۔۔ہمیشہ کی طرح اپنی اونچی لمبی مضبوط جسامت کے ساتھ شاندار لگ رہا تھا لیکن چہرے سے تھکن ہویدا تھی ۔اسی پل غازیان کی نظریں بھی اس پر ساکت ہوئی تھیں ۔۔اس کی نظریں خود پر اٹھی دیکھ کر زینب جلدی سے نگاہیں جھکا گئی جب کہ غازیان چند پل کے لئے وہیں دروازے کے پاس ساکت کھڑا رہ گیا ۔۔بوٹل گرین کلر کے لباس میں صاف ستھرا دھلا دھلایا چہرہ لئے ۔بھیگی ۔گیلی گیلی سی وہ ۔۔۔ اس کا دل بری طرح دھڑکا گئی تھی ۔۔لمبے گیلے بال کچھ آگے شانے پر اور کچھ کمر پر پھیلے تھے جن کی وجہ سے پشت سے قمیض کمرکے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔اس لڑکی میں کوئی خاص بات تھی کہ غازیان کا دل بے اختیار اس کی جانب کھنچتا تھا ۔ابھی بھی ایک نظراسے دیکھتے ہی غازیان کو اپنی رات بھر کی تھکن زائل ہوتی محسوس ہوئی ۔ابھی وہ اس کے سحر سے آزاد بھی نہیں ہو پایا تھا کہ زور سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا ۔وہ ایک دم اپنے خیالات سے چونکا اور گہری سانس خارج کرتا دروازہ کھول گیا ۔دروازے کے پار رباب کھڑی تھی ۔۔
“ارے “۔۔بھرپور حیرانگی سے کہا ۔۔۔”میں تو یہ سوچ کر آئ تھی بہت دفعہ دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا تب۔۔۔ تم اٹھو گے ۔لیکن کیا بات ہے بھئی۔۔ تم نے تو پہلی دستک پر ہی دروازہ کھول دیا ۔۔”انداز داد دینے والا تھا ۔۔جب کہ چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ سجی تھی ۔۔
” سب آپ کی طرح ہوں یہ ضروری تو نہیں۔ ۔مجھے یاد ہے آپ کی شادی کے اگلے روز تو ممی بس دروازہ تڑوانے ہی لگی تھیں ۔”اس نے بھی بھرپور جوابی کاروائی کی۔ جسکا رباب نے کچھ اثر نہیں لیا بلکہ ۔۔۔
“اتنی جلدی اٹھ گئے ۔۔؟” سوال کیا گیا ۔۔” یا پھر ۔۔۔رات بھر سوے ہی نہیں ؟”
آخرمیں خوب معنی خیزی سے آنکھیں نچا تے پوچھا ۔۔۔زینب تو اس کی بےباکی پر شرم سے سرخ ہو گئی ۔۔جب کہ غازیان جو آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھتا بغور اسکی بات سن رہا تھا ۔۔ہلکی سی مسکراہٹ لئے اس کی بے باکی کا جواب بے باکی سےدیتا ہوا بولا ۔۔۔”آپ کا آخری اندازہ صحیح ہے ۔۔۔رات بھر سویا ہی نہیں ۔۔” آفٹر آل یو آر این ایکسپیرینسڈ لیڈی۔۔”
“کیوں بھئی!! اتنے بے صبرے کیوں ہو گئے تھے ۔اس بیچاری پر کچھ تو رحم کرتے ۔۔”رباب لہجے میں مصنوعی افسوس بھرکر کہتی اسے دروازے سے ہٹا کر اندر چلی آئ ۔۔
زینب تو ان کی بیباک گفتگوسن کر زمین میں گڑنے والی ہوگئی تھی ۔۔چہرہے سے جیسے بهاپ نکلنے لگی تھی ۔۔غازیان بیڈ پر دراز ہوگیا نگاہیں اس کے دمکتے سراپے پر ہی ٹکی تھیں ۔۔
“ماشاءالله” بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔” رباب اسے پیار کرتی ہوئی بولی اور ڈرائر اٹھا کر اس کے بال ڈرائی کرنے لگی ۔۔ میری آنکھ کھل گئی تو سوچا تمہیں دیکھ لوں ۔ابھی سب اٹھتے ہی ہوں گے جب تک تم آرام سے تیار ہو جاؤ ۔۔
زینب خاموشی سے سر جھکا ے بیٹھی بظاہر اس کی باتیں سن رہی تھی جب کہ اس کا سارا دیھان بیڈ پر نیم دراز غازیان پر تھا ۔۔اس کی طرف ایک دفعہ بھی نہ دیکھنے کے باوجودبھی زینب کو بخوبی خود پر جمی اس کی نظروں کا احساس ہو رہا تھا ۔۔۔کمرے میں اچھی خاصی خنکی ہونے کے باوجود اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں ۔۔
” اب اس بیچاری کو گھور نا بند کرو اور تم بھی جاکر فریش ہو جاؤ ۔۔”
کچھ دیر بعد اس کی نظروں کا ار تكاز اور زینب کی گھبراہٹ محسوس کرکے رباب نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا تا گہری نظر زینب پر ڈالتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا ۔
زینب کی جان میں جان آئ ۔۔۔
“سوٹ تو تمہارا ٹھیک ہے۔ ۔میں تمہارا اچھا سا میک اپ کردیتی ہوں ۔۔۔”لمبے بال ڈرائی کرنے کے بعد رباب نےاس کے خوبصورت گولڈن کام سے مزین سوٹ کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا گئی ۔
“یہ تو بتاؤ ۔۔۔تمہیں میرا دیور کیسا لگا ۔۔؟” ڈریسنگ کی دراز میں سے میک اپ کا سامان نکالتے بھرپور شرارت سے پوچھا تو زینب شرما کر سر جھکا گئی ۔۔۔
“خوب تنگ کیا نا اس نے تمہیں رات بھر؟ بدتمیز نے تمہیں ذرا بھی سونے نہیں دیا ہوگا۔۔۔یہ شوہر نا بس ۔۔ایسے ہی ہوتے ہیں ۔” زینب کے چہرے پر ہاتھ چلا تےمصروف سے انداز میں بولی تو وہ شرم سے کٹنے والی ہوگئی اور شرمندہ ہو کر سر جھکا گئی ۔
رباب ۔ غازیان کے کچھ دیر پہلے ساری رات جاگنے والےبیان کو اپنی مرضی کا مطلب دے چکی تھی ۔۔
“ارے۔۔”رباب زور سے ہنسی ۔۔”کتنی پیاری ہو تم۔۔۔اوپر سے یہ شرمانے کی ادا ۔۔ بس پھراس نے کہاں بخشنا تھا تمہیں ۔۔”
رباب کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ زبان بھی فراٹے بھر رہی تھی ۔۔۔زینب کے تو چھکے چھوٹ گئے ۔اس نے ڈھیروں شکر ادا کیا کہ غازیان کمرے میں موجود نہیں ۔
“منہ دکھائی میں کیا ملا ۔۔؟چند پل خاموش رہ کر آئ میک اپ کرتے ہوۓ رباب نے ایک اور سوال داغا ۔۔۔
اس کے اس سوال پر زینب ٹھٹھک گئی ۔۔۔اس بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا ۔۔۔
“دکھاؤ نا ۔۔؟ کیا دیا غازیان نے منہ دکھائی میں ۔۔۔” رباب نے پھر سوال دوہرایا تو وہ آہستہ سے نفی میں سر ہلا گئی ۔
“کیا مطلب ۔۔۔؟ رباب نے الجھ کر پوچھا ۔۔
“ک ۔۔کچھ ۔۔۔کچھ نہیں دیا ۔۔” زینب نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا ۔۔
“کیا ۔۔۔۔؟ ” رباب زور سے چیخی ۔۔
“یہ ساری رات خالی خولی محبت جتاتا رہا تم سے۔ ۔بیوقوف لڑکی ۔۔۔تم نے اسےخود کو ہاتھ بھی کیوں لگانے دیا ۔پہلے حق مہر اور منہ دکھائی لیتیں پھر اپنے پاس آنے دیتیں ۔۔۔یہ تو بیوی کا حق ۔۔۔”
رباب نے اسکے چہرے پر چلتے ہاتھ روک کر اس کی عقل پر بھر پور ماتم کرتے بھرپور احتجاج کیا ۔۔ جب کہ اس کے بےباک جملے سن کر زینب کے پسینے چھوٹ گئے ۔۔حالت اتنی خراب ہوئی کہ اس کی قطع کلامی کرتے درمیان میں ہی جلدی سےنظریں جھکا کر بول پڑی ۔۔
” بھابی ۔۔آپ ۔۔۔آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔۔۔یہ۔۔تو رات بھر کمرے میں تھے ہی نہیں ۔۔۔ابھی آپ کے آنے سے چند لمحے پہلے ہی آ ۓ ہیں ۔۔۔”
“ہائیں ۔۔ کہاں تھا یہ رات بھر ۔۔؟” اس کا انکشاف سن کر رباب کی تو آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔۔
“وہ ۔۔منال کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔۔وہیں تھے شاید ۔” زینب نےکنفیوز ہوتے بتایا ۔۔۔
غازیان جو تولئے سے بال خشک کرتا ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا اس نے بھی زینب کا جملہ سنا تھا ۔۔ ہاتھ ایک پل کے لئے ساکت ہوۓ تھے ۔
“غازیان !! یہ زینب کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔؟ کیا ہوا منال کو ۔۔؟ “رباب غازیان کو کمرے میں آتا دیکھ کر فورا اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
” جی ۔۔۔رات اسکی طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔۔ میں ۔امل شایان۔ رابعہ انٹی اور انکل کے ساتھ ہسپتال ہی تھے ساری رات ۔۔۔اب ٹھیک ہے ۔گھر آ گئی ہے ۔” تولیہ صوفے پر ڈالتے اس نے قدرے مفصل جواب دیا ۔۔
“ہوا کیا تھا ۔۔؟ اور وہ تو دبئی نہیں تھی ۔۔کل فنکشن میں بھی شامل نہیں ہوئی تھی ۔۔؟ رباب نے پریشانی سے کئی سوال کر ڈالے ۔۔
“فوڈ ۔۔فوڈ پوایزن ہو گیا تھا ۔۔ کل ہی واپس آئ تھی دبئی سے ۔۔” ایک نظر زینب کو دیکھتے کہا ۔۔دل میں شکر بھی کیا کہ زینب نےاس کے گولیاں کھانے والی بات نہیں بتائی ۔۔
“اللّه رحم کرے ۔۔کل رابعہ انٹی کی سارا دن طبیعت خراب رہی اور پھر منال ۔۔” رباب نے میک اپ کو فائنل ٹچ دیتے فکر مندی سے کہا ۔۔اسی وقت دروازے پر دستک دے کر ملازمہ چلی ای ۔۔
” رباب بھابی ۔۔!! چھوٹی دلہن کے گھر سے فون آیا ہے وہ لوگ بس پہنچنے والے ہیں۔ ۔تو آپ کو جی۔۔۔بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں ۔۔”
“تم چلو میں آ رہی ہوں ۔۔۔” رباب نے ملازمہ کو کہا اور پھر زینب کا گال تھپٹھپا تے ہوےاس سے مخاطب ہوئی ۔۔
” زینب گڑیا !! تم اب جیولری پہن لو ۔۔میں ذرا باہر ناشتے کا ارّنجمنٹ دیکھ لوں ۔۔تم دونوں بھی جلدی سے ریڈی ہوکر آ جاؤ ۔۔” اس نے ہلکے سے سر اثبات میں ہلایا تو رباب فخریہ انداز میں غازیان سے بولی ۔۔
“دیکھو !! کتنا اچھا میک اپ کیا ہے تمہاری بیوی کا ۔۔۔کتنی خوبصورت لگ رہی ہے ۔۔”
“ماشاءالله “غازیان جو اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔۔۔بے اختیار آئینے میں جھلملاتےاس کے عکس پر نظر ڈال کر بول گیا ۔۔
“اووو۔۔۔ماشاءالله۔۔ ماشاءالله ” رباب نے معنی خیز آوازیں نکال کر کہا تو زینب شرما کر سر جھکا گئی ۔جب کہ غازیان زینب کے بالکل پاس آ کر ٹیبل پر سے ہیر برش اٹھا تا بغیر اثر لئے بولا ۔۔
“آپ کے میک اپ کا کمال نہیں ہے ۔۔’میری بیوی’ ہے ہی بہت خوبصورت ۔۔۔”
زینب تو اس کی جان لیوا قربت اور اس کے لفظوں سے پگھلنے لگی۔۔ وہیں رباب آنکھیں بھر پور شرارت سے نچاتے دروازے کی طرف بڑھتے ہوے بولی۔
“او۔ ۔ بیوی کے شوہر اب ‘بیوی’ کا میک اپ نہ بگاڑ دینا۔۔ جلدی باہر آ جانا ۔۔”زینب کا چہرہ تو بھاپ چھوڑنے لگا لیکن غازیان کو بھلا کیا فرق پڑنا تھا ڈھٹائی سے بولا ۔۔
” آپ باہر جائیں گی تو کچھ بگاڑ نے کا موقع ملے گا نا ۔۔۔”رباب ہنستی ہوئی دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی ۔۔۔جب کہ زینب لرزتے ہاتھوں سے ڈریسنگ کی دراز میں موجود جیولری باکس نکالنے لگی ۔۔۔
غازیان نے ایک بھرپور گہری نگاہ اس کے دلکش سراپے پر ڈالی ۔۔جو سبز رنگ کے خوبصورت لباس میں ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ لبوں پر سرخ لپسٹک لگاے۔۔گھنے سیاہ بیحد خوبصورت سلکی بال کمر پر بکھراے سیدھی دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
کچھ دیر اس کے پیچھے کھڑے ہو کر آئینے میں نظر آ تے اس کے عکس کو نظروں کے رستے دل میں اتارتارہا ۔۔زینب کو لرزتی پلکوں اور جھکی آنکھوں کے ساتھ بھی اپنے وجود پر ٹکی اس کی نگاہوں کا بھرپور ادراک تھا ۔۔بمشکل کانپتے ہاتھوں سے گولڈ کے نازک سے سیٹ کا ڈبہ کھولا اور ائر رنگ ہاتھ میں تھاما نظریں اٹھنے سے انکاری تھیں ۔۔اچانک جھکی نگاہوں کے سامنے ایک سرخی مائل مضبوط ہتھیلی آ گئی ۔۔”مے آئ ؟”۔۔ساتھ ہی کان میں نرم سی سرگوشی گونجی ۔
زینب نے ذرا سی نظریں اٹھا کر دیکھا وہ لبوں پے بے انتہا دلکش مسکراہٹ سجاے کھڑا تھا ۔۔وہ ہلکا سا سر اثبات میں ہلا گئی ۔۔غازیان نے اس کے ہاتھ سے ائر رنگ پکڑ لیا اور سائیڈ سے ذرا سے بال ہٹا کر اس کے کان میں ڈال دیا ۔۔اس کی انگلیاں کان سے ٹکرا یں تو زینب خود میں سمٹ گئی ۔۔اس کے ہاتھ کے لمس سے ایسا لگا جیسے برقی رو جسم میں دوڑ گئی ہو ۔۔اس کا شرمایا گھبرا یا روپ غازیان کو پاگل کر رہا تھا ۔۔اس نے عجیب سی بے خودی کے عالم میں دونوں کانوں میں ایررینگ ڈالے ۔۔زینب جو سانس روکے کھڑی تھی ۔۔اصل سانس تو سینے میں تب اٹکی جب غازیان نے ہاتھ بڑھاکرنیکلس نکالا ۔۔۔ غازیان نے دائیں ہاتھ سے سارے بال سمیٹ کر اس کے بائیں شانے پر ڈالے تو وہ جلدی سے دونوں ہاتھوں سے ڈریسنگ ٹیبل پکڑ گئی ۔۔جب کہ غازیان نے اس کے حسین بالوں کی نرمی پوری طرح محسوس کی تھی ۔۔ایسا لگا جیسے سیاہ ریشم چھولیا ہو۔۔۔غازیان کو وہ دن یاد آیا۔۔۔ جب اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا اس دن ہی دل میں کہیں یہ خواھش جاگی تھی کہ ان خوبصورت مشک بو زلفوں کی نرمی محسوس کرے ۔۔آج اپنی خواھش کے پورا ہونے پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔خوبصورت سے سیٹ کو اس کی خوبصورت صراحی دار گردن کی زینت بناتے غازیان کی انگلیوں نے جب اس کی گردن کو چھوا تو زینب کے سارے جسم کا خون چہرے پر اکھٹا ہوگیا ۔۔۔جب کہ اس کی نظروں نے بےاختیار اس کے سیاہ تلوں کو تلاشہ تھا لیکن قمیض کا گلہ اوپر تک ہونے کی وجہ سے ناکام لوٹ آئیں ۔۔بےحد نفیس ڈیزائن کا خوبصورت نازک سا سیٹ اس کی بے داغ گردن میں خوب جچ رہا تھا ۔۔چند لمحے آئینے میں جھلملاتے اپنے اور اس کےعکس کو نظروں کے راستے دل میں اتارنے کے بعد غازیان نے اس کا رخ نرمی سے اپنی طرف کیا ۔۔
“تھینکس ۔۔” نرم سی آواز میں کہا تو زینب نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا لیکن ایک پل سے زیادہ اس کی چمکتی نگاہوں کی تاب نہ لا سکی اور فورا نظریں جھکا گئی ۔
غازیان نے اس کے دونوں شا نو ں پر اپنے ہاتھ رکھے اور گویا ہوا ۔۔
“مجھے اچھا لگا کہ تم نے رباب بھابی کو منال کے۔۔۔ سلیپنگ ۔پلز لینے والی بات نہیں بتائی ۔۔۔” چہرے پر گہری سنجیدگی لئے بولا ۔۔تو زینب اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔
“منال ۔۔نا صرف میری کزن ہے بلکہ میری بہت اچھی دوست بھی ہے ۔۔۔حیدر کے بعد میری سب سے زیادہ دوستی منال سے ہی ہے۔ ۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے بارے میں منفی یا کچھ برا سوچے ۔۔۔میں اپنے تمام رشتوں کے معاملے میں بہت حساس ہوں ۔۔اس لئے تمہارا رباب بھابی کو اصل بات سے آگاہ نہ کرنا۔۔ مجھے اچھا لگا ۔” دھیمے لہجے میں اپنی بات پوری کرتا منال کی اہمیت اس پر واضح کرگیا ۔۔ زینب نے نظریں جھکا کر بے ساختہ اٹھایئں جب کہ لب کچھ کہنے کی کوشش میں پھڑ پھڑا کر رہ گئے ۔۔
” تم کچھ کہنا چا ہتی ہو تو بلا جھجھک کہہ سکتی ہو ۔۔”غازیان نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے حوصلہ بڑھایا ۔
“وہ ۔منال ! آئ مین۔۔ وہ اور آپ ۔آئ مین ۔۔آپ دونوں ۔۔۔ ” ۔۔زینب نے انگلیاں مڑوڑتے بے ربط سی بات کی ۔۔سمجھ نہیں آ رہی تھی رات سے دل میں جو سوال چبھ رہا تھا اسے کیسے لفظوں میں ڈھالے ۔۔جب کہ غازیان کو اس کے چہرے کے تاثرات سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی بات پر الجھی ہوئی ہے۔ ۔۔شادی کی پہلی ہی رات جس طرح کی صورت حال پیش آگئی تھی ۔۔۔غازیان جیسے سمجھدار انسان کو اچھی طرح اندازہ تھا اس کے ذہن میں کافی سوالات پیدا ہوے ہوں گے ۔۔جن کے جوابات وقت پر دینا لازمی تھا ۔۔اسی لیے وہ دانستہ اس وقت یہ موضوع نکال کر بیٹھا تھا ۔۔
“کیا پوچھنا چاہتی ہو ؟ جو بات دل میں ہے ۔ بلا جھجھک پوچھ لو ۔”غازیان اس کے مہندی سے سجے نرم و ملائم ہاتھ تھام کر بولا ۔۔انداز بہت نرم ۔حوصلہ بڑھاتا ہوا تھا ۔۔
اس کے حوصلہ دلانے پر زینب نے ہمّت کرتے ہوے کہنا شرو ع کیا ۔۔۔” منال نے کل ۔۔سلیپنگ پلز کیوں کھائی تھیں ؟ کیا منال اور آپ ۔شادی کرنا چاہتے تھے اور بڑے ابّا نے زبردستی آپ کی شادی مجھ سے کروا دی۔ “اسکی بات غور سے سنتے غازیان نے اسکی آخری بات پر چونک کر اسے دیکھا۔ وہ جو روانی سے بول رہی تھی غازیان کی نگاہوں میں تحیر ابھرتا دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئی ۔اور اس کے چہرے پر ابھرنے والے حیران کن تاثرات دیکھ کر جلدی سے وضاحت کرتے ہوے بولی ۔
“معذرت چاہتی ہوں ۔۔ اگر آپ کو برا لگا ہو تو ۔۔رات کو جو سچویشن تھی ۔۔وہ ۔۔ وہ دیکھ کر مجھے ایسا لگا ۔۔”
غازیان اگلے لمحے ہی اپنی حیرت پر قابو پاتا آنکھیں چھوٹی کرکےگہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔ ۔کم عمر ہونے کے باوجودبلا شبہ وہ گہرا مشاہدہ رکھنے والی ایک سمجھدار لڑکی تھی ۔۔زینب اس کی بولتی نظروں کی تاب نا لاتے ہوے نچلا لب دانتوں میں دباتے ہوے نظریں جھکا گئی ۔۔۔ جب کہ ہاتھ ہنوز غازیان کے ہاتھوں میں تھے ۔۔
چند لمحوں بعداس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا لب دانتوں سے آزاد کراتے بھرپور سنجیدگی سے کہنا شروع کیا ۔
“منال میرے لئے خاص فیلنگز رکھتی ہے ۔۔” زینب کا منہ کھلا ۔وہ سر اونچا کرکے اسے دیکھنے لگی ۔۔ ۔کچھ کچھ اندازہ ہونے کے باوجود اس کے اعتراف پر وہ ششدر ہوئی تھی ۔۔
” لیکن صرف منال ۔۔ میں نے اس کے بارے میں ایسا کبھی نہیں سوچا ۔۔اس لئے ایسے مت دیکھو ۔۔” غازیان اس کے تاثرات دیکھ کر اپنی بات جاری رکھتے ہوے بولا تو وہ خجل سی ہوگئی ۔
“ا گر مجھے منال سے یا کسی بھی ایكس واے زیڈ سے شادی کرنی ہوتی تو ہر حال میں اسی سے کرتا ۔۔”وہ اس کی ہلکی سبز جھیل سی آنکھوں میں جھانکتے سنجیدگی سے بول رہا تھا زینب بھی غور سے اسے سن رہی تھی ۔۔۔۔” میں نے تم سے شادی۔۔ ڈیڈ کی خواھش پر لیکن اپنی پوری دلی آمادگی سے کی ہے اور میں اس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھاؤں گا ۔۔اس لئے کبھی کوئی الٹا سیدھا خیال دل میں نہ لانا ۔”بہت آرام سے اپنی بات مکمل کرتے اس کے چہرے پر آ جانے والی لٹیں کان کے پیچھے کیں جب کہ نظریں اس کے سرخ لپسٹک سے سجے خوبصورت لبوں پر ٹکی تھیں ۔۔زینب اس کی نظریں اپنے لبوں پر محسوس کر کے کسمسا کر نظریں جھکا گئی ۔۔
“از اٹ کلئیر ناو ۔۔؟ کچھ لمحے اس کے حسین چہرے پر نظریں ٹکاے ٹکاے پوچھا۔۔۔وہ ایک دفعہ پھر اثبات میں گردن ہلا گئی ۔۔۔ اس کے لہجے کی مضبوطی اور صاف گوئی سے دل سے بوجھ ہٹتا محسوس ہوا تھا ۔ذہن بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔ غازیان کو اس وقت زینب کی الجھن دور کرنا بہت ضروری لگاتھا ۔۔وہ نہیں چاہتا تھا اس کے رشتے میں کوئی الجھن یا پیچیدگی آۓاس لئے اسے صاف صاف سب بتاگیا ۔
“اور کچھ پوچھنا یا کہنا ہے ۔۔؟ بہت دھیمے خواب ناک لہجے میں پوچھتے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام گیا ۔۔تو وہ بمشکل نفی میں گردن ہلا سکی ۔۔ اس کے پر حدت لمس پر زینب نے بلا اختیار اپنی دونو ں مٹھیاں بھینچی تھیں ۔۔۔دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دینے لگی تھی ۔۔۔یہ کسی مرد کا پہلا لمس تھا جو وہ محسوس کر رہی تھی سو دل کی دھڑکنوں کا شور مچانا تو جائز تھا ۔۔۔۔
اس سے پہلےکےاس کی پاگل کرتی قربت سے وہ بہکتا ۔۔دروازے پر ہونے والی دستک سے ان لمحوں کا فسوں ٹوٹا۔۔ وہ خود پر قابو پاتا لمحے میں اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا گیا ۔۔زینب بھی اپنی تیزی سے شور مچاتی دھڑکنوں کو قابو کرتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف رخ موڑ گئی ۔۔”یس” غازیان کے ِاجازت دینے پر ملازمہ ذرا سا اندر داخل ہوئی اور اشتیاق سے زینب کو دیکھتے بولی ۔۔
” وہ جی ۔۔سب آ پکو بلا رہے ہیں۔ ۔ دلہن بیبی کے گھر والے بھی آ گئے ۔۔”
“اوکے ۔۔ہم آ رہے ہیں۔ ۔” غازیان کے کہتے ہی ملازمہ باہر نکل گئی جب کہ وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
چند لمحوں بعد واپس آیا اور ڈریسنگ مرر میں دیکھتے اپنے کندھوں پر ڈارک براؤن شال برابر کرتے اپنے برابر میں نظر اتے زینب کے عکس کو دیکھا جو بالوں میں چھوٹا سا کیچر لگاے سر پر دوپٹہ اوڑھے تیار کھڑی انگلیوں میں رنگز پہن رہی تھی ۔۔اسی لمحے زینب نے بھی نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔آف وائٹ را سلک کے قمیض پاجامے میں ڈارک براؤن شال کاندھوں پر ڈالے اس کے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔ ۔چہرے پر ہلکی ہلکی سیاہ داڑھی سجی تھی ۔۔سلیقے سے برش ہوے گھنے سیاہ بال تھوڑے سے ماتھے پر آ رہے تھے ۔۔گہری کالی آنکھوں میں رات بھر جاگنے کی وجہ سے سرخ ڈورے تیر رہے تھے جو ۔۔ان آنکھوں کو مزید قاتل بنا رہے تھے ۔۔۔زینب چند لمحے اس کی طرف دیکھتی ہی رہ گئی پھر اس کی نظروں کی حدت خود پر محسوس کر کے جلدی سے نگاہیں نیچے جھکا گئی۔۔ جب کہ غازیان جو اب ڈارک براون لیدر کے پٹے والی گھڑی کلائی میں پہن رہا تھا ۔مسکرا گیا ۔۔۔ایک قدم آگے آ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کرتا اسکے کان کے پاس جھک کر دھیمے سے شرارتی لہجے میں بولا ۔
” اٹس اوکے ۔۔۔!! تمہارا ہی ہوں ۔۔تم مجھے دیکھ سکتی ہو ۔۔۔”زینب کا چہرہ جو پہلے ہی شرم سے سرخ تھا اسکے ہاتھ کی بے ساختہ حرکت اور اپنی چوری پکڑے جانے سے مزید سرخ ہوگیا ۔۔۔ جب کہ اس کے شرمانے پر وہ گہرا مسکراتا اس کے آگے اپنی مضبوط ہتھیلی پھیلاکر پوچھنے لگا ۔۔۔”چلیں ۔۔؟ “
زینب نے ہلکے سے گردن ہلا کر اپنی لرزتی ہتھیلی جھجھکتے ہوے اس کے ہاتھ پر رکھی تو اس کا ہاتھ تھا م کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial