قسط 19
شام کے سات بج رہے تھے ۔۔زینب دوپہر کو زویا وغیرہ کے ساتھ ہی راحیل صاحب کیطرف چلی گئی تھی ۔۔۔اس کے جانے کے بعد جو وہ سویا تو ابھی کچھ دیر پہلے ہی اٹھا تھا۔نیم گرم پانی سے شاور لینے کے بعد وہ تولئے سے بال خشک کرتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آیا تو نظر سامنے رکھی لپسٹک، کچھ دوسرے میک اپ کے سامان اور لیڈیز پرفیوم کی جانب چلی گئ ۔۔اپنے کمرے میں ان خالصتأ زنانہ چیزوں کی موجودگی سے اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔ساتھ ہی تصور میں اس کا دلنشین سراپا بھی لہرا گیاجو اب اس کے ساتھ ساتھ اس کمرے کی ہر چیز پر مالکانہ حقوق رکھتی تھی ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سامنے رکھی لپسٹک اٹھا کر بے اختیاری میں کھول لی۔۔ گہری سرخ لپسٹک دیکھ کر نگاہوں کے سامنے اس کے بے حد خوبصورت جان لیوا کٹاؤ والے اسی لپسٹک سے سجے ہونٹ گھوم گئے ۔۔۔دل میں اسے اپنے سامنے دیکھنے کی طلب شدت سے پیدا ہوئی اسکی کمی تو وہ بیدار ہوتے ساتھ ہی محسوس کرگیا تھا ۔۔دل میں کچھ سوچتا لبوں پر انتہائی دلکش مسکراہٹ لئے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔چند منٹ بعد باہر آیا تو لائٹ براؤن جینز پررائل بلیو کلر کے خوبصورت سویٹر میں ملبوس تھا ۔۔ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے گھنے سیاہ بالوں میں برش کرکے خود پر دل کھول کر پرفیوم اسپرے کیا اور دراز سے بلیو ڈائل اور براؤن لیدر کے پٹے والی برانڈڈ گھڑی نکال کر بائیں کلائی میں سجا رہا تھا کہ توجہ فون کی بجتی بیل کی جانب مبذول ہو گئی ۔۔دھیرے سے چلتا بیڈ سائیڈ ٹیبل کے پاس آیا تو فون پر جگمگاتے منال کے نام کو دیکھ کر گہری سانس خارج کر گیا ۔۔۔لبوں پر چھائی دھیمی مسکراہٹ اب سنجیدگی میں بدل چکی تھی ۔۔کال او کے کرکےفون کان سے لگایا تو منال کی بھاری آنسو بھری آواز سنائی دی ۔۔
“ہیلو !! غازیان!! تم مجھے سن رہے ہو ۔۔؟ اپنی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف خاموشی محسوس کر کے منال نے سوال کیا ۔۔۔
“ہوں ۔۔۔سن رہا ہوں ۔۔۔بتاؤ اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ۔۔۔؟ اس کی روہانسی آواز سن کر غازیان کو بہت عجیب سا محسوس ہو رہا تھا ۔۔وہ اس وقت رو تو نہیں رہی تھی لیکن آواز سے صاف ظاہر تھا کہ کافی دیر روتی رہی ہے ۔۔وہ خود پر قابو پاتا اس کا حال پوچھ گیا ۔
“غازیان ۔۔۔میں ۔۔میں گھر سے باہر جانا چاہتی ہوں ۔۔کچھ دیر کے لئے ۔۔۔۔مجھے تھوڑی دیر تازہ فضا میں سانس لینا ہے پلیز ۔۔ممی مجھے اکیلے جانے نہیں دے رہیں ۔۔ڈیڈی بھی مجھ سے بہت ناراض ہیں ۔۔کیا ۔۔تم۔۔ تم آسکتے ہو ۔۔۔”؟ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولتی اسے بے چینی میں مبتلا کر گئی ۔۔چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ دانستہ لہجے کو بشاش کرتا بولا ۔۔
“دیٹس گڈ ۔۔میرا خود بھی باہر جانے کا موڈ ہو رہا ہے ۔۔تم ریڈی ہوجاؤ میں پندرہ منٹ میں تمہیں پک کرنے آ رہا ہوں ۔۔”
فون بند کر کے چہرے پر گہری سنجیدگی لئے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔
باہر خوب رونق لگی تھی ۔۔سب ہی جمع تھے ۔۔چاۓ کا دور چل رہا تھا ۔۔اسے تیار دیکھ کر رباب نے فورا آنکھیں نچاتے سوال داغا ۔۔
“ہاں بھئی!! دولہے میاں ۔۔کہاں کی تیاری ہے ۔۔؟ “
“اپنی دلہن کو لینے جا رہا ہوگا اور کہاں جاےگا ۔۔اتنا تیار ہو کر ۔۔”۔عائشہ پھپو نے دل ہی دل میں اپنے خوبرو بھتیجے کی نظر اتار تے کہا ۔۔
“ارادہ تو یہی تھا پہلے۔۔ لیکن فلحال منال کی طرف جا رہا ہوں ۔۔” ان کے انداز پر ہلکا سا مسکراتے بتایا اور پھپو کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا ۔
“ہاں ۔۔اچھا ہے بیٹا چلے جاؤ۔دوست ہے تمہاری ۔۔۔ہم لوگ بھی کچھ دیر پہلے ہی آ ۓ ہیں رابعه کی طرف سے ۔۔بچی تو ایک دن میں بالکل کملا کر گئی ۔۔”پھپو نے افسوس سے کہا تو غازیان کی نظر بےساختہ خاموشی سے چاۓ کے گھونٹ بھرتی امل کی طرف چلی گئی ۔۔امل نے بھی اسی لمحے غازیان کو دیکھا ۔۔دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا گۓ ۔۔
“غازیان کافی منگواوں تمھارے لیے ۔۔؟” رباب نے پوچھا تو غازیان جو اپنی سوچوں میں ڈوبا تھا حال میں واپس آیا ۔۔۔
” نہیں ۔۔بس میں نکل رہا ہوں ۔۔” رباب سے کہتا ایک دم کھڑا ہوگیا ۔۔
“واپسی پر راحیل کی طرف چلے جانا غازیان ۔۔” سہیل صاحب نے کہا۔
“ہاں بیٹا !!اب تو دوہرا رشتہ بن گیا چچا سے ۔۔۔راحیل کو اچھا لگے گا ۔۔زینب کو خود گھر لے کر آنا ۔۔”عائشہ پھپو بھی سہیل صاحب کی بات کو بڑھاتی ہوئی بولیں تو وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل صاحب کے ہاں آج سارا دن خوب رونق لگی رہی تھی ۔۔۔خوب سارے مہمان جمع تھے ۔۔۔رمشا کے سسرال والے ۔روبینہ صاحب کی فیملی ۔اکبر ماموں کی فیملی۔۔ سب ابھی کچھ دیر پہلے ہی گئے تھے ۔۔۔رمشا بھی اپنے سسرال چلی گئی تھی اور راحم بھی زویا کو ڈنر کے لئے لے کر گیا تھا ۔۔زینب کو خوب نئی دلہن والاپروٹو کول مل رہا تھا ۔۔۔غزالہ ندا اور رمشا تو صبح سے اسے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دے رہیں تھیں ۔۔ دولہناپے کا روپ لئے لبوں پر دھیمی مسکان سجآے چمکتے چہرے کے ساتھ وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ غزالہ صاحبہ تو اس کو نظر بھر کر دیکھتے ہوے ڈر رہی تھیں کہیں ان کی اپنی نظر ہی نہ لگ جائے ۔۔ غازیان کی کمی سب کو ہی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔تھوڑی دیر میں کوئی نہ کوئی اس سے غازیان کے حوالے سے بات کرتا تو وہ جھینپ جاتی ۔۔
سب کے جانے کے بعد وہ غزاله صاحبہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔اس وقت وہ دونوں لاؤنج میں اکیلی تھیں۔ ۔زین اور ندا اپنے کمرے میں گئے تھے ۔۔جب کہ راحیل صاحب بھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے ۔غزا لہ صاحبہ نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔جب سے آئ تھی ان سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا ۔۔انہوں نے شفقت سے اس کے گھنے ریشمی بالوں والے سر میں انگلیاں چلاتے پوچھا ۔۔
“زینی !! خوش ہونا میرا بچہ ۔۔؟”اس کے چاند چہرے پر نظریں جماتے پوچھا تو وہ ہلکا سا سر ہلا گئی ۔۔۔
“غازیان کیسا لگا میری بیٹی کو ۔۔۔؟”دوستانہ انداز اپنا تے پوچھا تو اس کے لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ دوڑ گئی جسے دیکھ کر غزالہ صاحبہ کے اندر اطمینان کی لہر اتر گئی ۔۔یہ وقت ماں باپ کے لیے کتنا کٹھن ہوتا ہے اس کا اندازہ ان کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا ۔۔۔اپنے جگر گوشے کو کسی اور کے حوالے کر دینا بڑے دل گر دے کا کام ہے۔ ۔ہر ماں کی طرح غزاله صاحبہ کے دل میں بھی طرح طرح کے خدشات تھے ۔۔جو بلاشبہ اس کا مطمئن، چمکتا چہرہ دیکھ کر بہت حد تک ختم ہو گئے تھے لیکن پھر بھی ابھی اسے اکیلا دیکھ کر وہ اس سے سوال کر بیٹھیں ۔۔
زینب نے ذرا کی ذرا نظر ان کی طرف اٹھا کر دیکھا اور شرماتے ہوے گویا ہوئی ۔۔
“ٹھ ۔۔ٹھیک ہیں۔ ۔اچھے ہیں ۔۔منال والے مسلے کی وجہ سے زیادہ بات نہیں ہوئی ان سے ۔۔”
“همم!! اللّه تعالیٰ اس بچی کو صحت دے ۔”زینب کے جھجھک کر بتانے پر وہ آہستہ سے بولیں ۔۔
دوپہر کو گھر انے کے بعد سب کی معنی خیز باتوں ،چھیڑ چھاڑ اور منہ دکھائی کی بابت سوال کرنے پر زینب سب کو منال کی طبیعت خرابی اور غازیان کے ہسپتال میں رات بھر قیام کا بتا کر اپنی جان چھڑاگئی تھی ۔۔
” زینب !! بیٹا غازیان کو فون کر کےپتہ توکرو وہ تمہیں لینے کب آے گا ۔۔؟”
“امی ۔۔!! یہ پوچھنامناسب نہیں لگتا ۔زینب اپنے گھر میں ہے ۔۔جب غازیان لینے آے گا چلی جاےگی ۔”
غزاله صاحبہ کے کہنے پر وہ ابھی بتانے ہی لگی تھی کہ اس کےپاس تو غازیان کا نمبر ہی نہیں ہے کہ زین کی آواز پر رک گئی جو اسی وقت لاونج میں آیا تھا ۔ زینب اس کے آنے پر دوپٹہ ٹھیک کرتی اٹھ کر بیٹھتے سرہلا گئی ۔۔غازیان صوفے پر اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے شانوں پر ہاتھ دراز کرتا بولا ۔۔
“زینی !!بیٹا تم ہو تو میری بہن لیکن تم اور زویا مجھے اپنی اولاد کی طرح ہی عزیز ہو ۔۔میں جانتا ہوں میری بہن بہت سمجھدار ہے ۔۔تم کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوگی لیکن ایک بات یاد رکھنا گڑیا ۔۔تمہارا بھائی ہمیشہ تمھارے ساتھ ہے ۔۔ اگر کبھی لگے تمھارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اپنے بھائی کو ضرور بتانا ۔۔ٹھیک ہے میرا بچہ ۔۔؟”
“جی ۔۔دھیرے سے نم لہجے میں بولتے اس کے گرد اپنے ہاتھ باندھ گئی ۔ ۔ بھائی کی محبت پے دل بھر آیا تھا۔ ۔غزا لہ صاحبہ بھی آنکھیں صاف کرتی اس کی خوشیوں کے لیے دعا گو تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال کو فاروقی ہاؤس ڈراپ کر کے وہ حیدر کا نمبر ملا گیا ۔۔۔
” ریڈی ہو جا ۔۔ میں کچھ دیر میں تیرے گھر آ رہا ہوں تجھے پک کرنے ۔۔”
حیدر کے فون اٹھاتے ہی وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا ۔
“تجھے کیا بھابی نے گھر سے نکال دیا جو میرے پاس آ رہا ہے ۔۔؟حالاں کہ اس وقت تو تجھے بھابی کے پاس ہونا چاہیے ۔۔”لہجے میں مصنوعی تشویش بھر کر بولا تو غازیان خوب ہی تپا ۔۔
“بکواس ہوگئی ہو تیری تو باہر آجا میں تیرے گھر کے باہر ہوں ۔۔”دانت کچکچاتے بولا
“ابے تو۔ تو واقعی آ گیا ۔۔۔اچھا دو منٹ ویٹ کر ۔۔میں بس آ رہا ہوں باہر ۔۔” حیدر عجلت میں کہتا فون بند کر گیا ۔۔
“خیریت ؟ بات کیا ہے ؟ ابھی تیری شادی ہوے چوبیس گھنٹے بھی پورے نہیں ہوے اور تو اپنی نئی نویلی بیوی کو چھوڑ کر میرے پاس آگیا ۔۔” گاڑی میں بیٹھتے ہی حیدر نے وہی راگ الاپا تو غازیان اسے ایک نظر دیکھ کر بولا ۔۔
“یار تو چپ ہوگا ذرا ۔” جھنجھلا ۓ سے انداز میں بولا ۔۔ ۔”میں اس وقت تجھ سے کچھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ۔”
“اوکے ۔۔ہو گیا چپ ” اس کا انداز دیکھ کر حیدر کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی بات پر الجھا ہوا ہے ۔۔اسی لیے اس بار سنجیدگی اختیار کرتا خاموشی سے بیٹھ گیا ۔۔گاڑی میں خاموشی چھائی رہی یہاں تک کےغازیان نے سی ویو پر بنے ریسٹورنٹ کے آگے کار پارک کر دی ۔۔
کچھ دیر بعد دونوں کے لئے کافی آرڈر کرکے ساری بات جس کی و جہ سے کل سے الجھا ہوا تھا حیدر کو بتاتا چلا گیا ۔۔۔
“اوہ ۔۔۔اٹس ویری بیڈ یار ۔۔آئ رئیلی فیل بیڈ فور منال ۔۔” ساری بات سن کر حیدر سنجید گی سے بولا ۔۔
” یار ۔۔وہ اتنی زندہ دل لڑکی ہے اب اسے یوں ڈپریسڈ دیکھ کر مجھے بہت گلٹی فیل ہورہا ہے ۔۔اپنا قصور نہ ہونے کے باوجود میں خود کو قصوروارمحسوس کر رہا ہوں ۔۔۔میں کبھی اس کی فیلنگز سمجھ ہی نہیں سکا “۔۔غازیان سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کپ کے بالائی کنارے پر پھیرتے سنجیدگی سے بہت آہستہ آواز میں بولا ۔۔
“ایک بات بتا ۔۔اگر تجھے منال کی فیلنگز کا پہلے پتا چل جاتا تو کیا تو اس سے شادی کر لیتا ۔۔؟ چند لمحے اسے کھوجتی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بعد حیدر نے استفسار کیا ۔۔
” کل سے ۔۔۔نہ جانے کتنی مرتبہ یہ سوال خود سے کرچکا ہوں ۔۔” غازیان نے کپ پر نظریں جما ے جماے کہا تو حیدر نے تیزی سے پوچھا
“پھر کیا جواب آیا ۔۔؟
” نو ۔۔ہر بار نو ۔” غازیان اس بار بھی بھرپور سنجیدگی سے بولا ۔۔”لیکن اس وقت شاید میرے لئے اسے ہینڈل کرنا آسان ہوتا ۔۔”
“شکر ہے ۔۔ورنہ بھابی کے ساتھ بہت زیادتی ہو جاتی “۔حیدربھرپور اطمینان کی سانس خارج کرتے بولا تو غازیان ہلکی مسکراہٹ لئے گویا ہوا ۔۔
“تو جانتا ہے بہت ساری۔ ۔لڑکیوں نے میری طرف ہاتھ بڑھایا لیکن میں نے جو۔اس کے لئے محسوس کیا ۔۔کبھی کسی کے لئے محسوس نہیں کیا ۔۔”صاف گوئی سے دو ٹوک انداز میں بولا تو حیدر نے دانت پیس کر برابر کی ٹیبل پر بیٹھی تین چار لڑکیوں کو دیکھا جو مسلسل غازیان کی طرف دیکھے جا رہی تھیں جب کہ اس نے بس ایک سرسری نظر ہی ان پر ڈالی تھی ۔۔
” کمینے !! ایک تو تیری پرسنالٹی اوپر سے تیرا یہ جان لیوا ایٹی ٹیوڈ ۔۔ذرا اپنی شادی کی خبر پبلک ہونے دے۔۔ابھی تو ایک منال سامنے آئ ہے نا پھر دیکھیو ۔۔کتنی بیچاریاں اپنی جان سے جایئں گی ۔۔ “دانت پیستے کلستے بولا تو غازیان بے اختیار دلکش قہقہہ لگا گیا ۔۔جس پر برابر میں بیٹھی لڑکیاں دل تھام گئیں ۔۔۔
“بس کردے اب کیا جان لیگا بچیوں کی ۔۔”حیدر نے شرم دلانے پر مسکراتے ہوے نفی میں سرہلا گیا ۔۔۔بلا شبہ دوست بھی اللّه پاک کا ایک انمول تحفہ ہیں ۔۔اس وقت حیدر سے بات کر کے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
” بھابی گھر پر ہیں ۔۔؟کچھ پل کے توقف کے بعد حیدر گویا نے پوچھا ۔
” راحیل چچا کی طرف ہے ۔۔ڈیڈ نے کہا تھا اسے خود گھر لےکر آؤں ۔لیکن میں منال سے ملنے کے بعد اتنا ڈسٹرب ہوا کہ وہاں جا ہی نہیں سکا ۔۔”
“دیکھ غازیان ۔۔یہ سب اچانک ہوا ہے تو ظاہر ہےمنال کے لئے اور تیرے لئے شوکنگ ہے ۔۔اس سب کو سٹیل ہونے میں تھوڑا ٹائم لگے گا لیکن اس سب میں بھابی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تو انہیں اگنور نہ کر ۔۔” حیدر نے مخلصانہ مشورے سے نوازا تو وہ گویا ہوا ۔۔
“آئ نو یار ۔۔آئ نو ۔وہ بے چاری بلاوجہ کل سے نظر انداز ہو رہی ہے ۔کل بھی ساری رات ہسپتال میں گزری ۔۔تو جانتا ہے ۔لڑکیوں کے جذبات کل رات کے حوالے سے۔ ۔شام میں سوچا تھا اس کے ساتھ ٹائم اسپینڈ کروں گا لیکن منال ۔۔۔”آہستہ سے گویا ہوا تو حیدر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتا ہو ا بولا ۔۔
“سب ٹھیک ہو جاےگا ۔۔تھوڑا ٹائم لگے گا ۔۔۔منال سمجھدار لڑکی ہے ۔جلدی سنبھل جاےگی ۔۔”
“اللّه کرے ایسا ہی ہو ۔۔مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے ۔۔وہ میری وجہ سے اس حالت میں ہے اور میں اپنی نئی زندگی شروع کر لوں ۔۔”
“هممم !! چل زیادہ پریشان نہ ہو ۔۔۔نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔۔بھابی کی فیلنگز کو بھی سمجھ ۔۔ان کو بھی ٹائم دے ۔۔”حیدر اسے تسلی دیتا بولا تو وہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھ گیا ۔۔
“اب بھابی کو لینے جائے گا ۔۔؟ ” کافی کا بل پے کر کے دونوں پارکنگ میں آ ۓ تو حیدر نے پوچھا
” نہیں یار ۔۔وقت دیکھ رات کا ایک بج رہا ہے ۔۔ادھر پہنچتے پہنچتے تو بہت ٹائم ہو جاےگا ۔وہ تو سو بھی گئی ہوگی اب تک ۔۔بلا وجہ اس کی نیند خراب ہوگی ۔۔” بے دھیانی میں کار کو پارکنگ سے نکالتے ہوے بولا تو حیدر کے چہرے پر بھرپور شرارتی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔
“اوے ہوے۔۔۔ کیا بات ہے ۔۔بڑا خیال کیا جا رہا ہے . . کبھی بیچاری ۔کبھی اسکی نیند نہ خراب ہو ۔۔ شاوا بھئی شاوا “۔۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں داد دیتے ہوے بولا
“تو ۔۔۔؟ بیوی ہے میری ۔۔تجھ کنوارے کو کیا پتا بیوی کی کیئر کیسے کی جاتی ہے “
غازیان نے گھورتے ہوے اسکی دکھتی رگ دبائی ۔جب کہ لبوں کی تراش میں خوبصورت شرارتی مسکراہٹ چھپی تھی ۔۔۔
“بہت کمینہ ہے تو ۔۔۔میرے زخموں پر نمک چھڑکتے شرم تو نہیں آ رہی تجھے ۔۔”حسب توقع حیدر خوب جل بھن کر بولا تووہ نفی میں گردن ہلا گیا ۔۔۔
” بس !دو مہینے۔ ۔دو مہینے ہیں اس کے بعد میری بھی شادی ہو جاےگی ۔۔”دانت پیستے بولا
“دیکھتے ہیں ۔۔” غازیان لاپرواہی سے بولا۔ انداز بھرپور چیلنجنگ دل جلانے والا تھا ۔۔حیدر نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور دل میں گالیوں سے نوازتا گاڑی کی ونڈو سے باہر دیکھنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کافی دیر تک وہ لاشعوری طور پر غازیان کا انتظار کرتی رہی ۔۔پھر زویا کے ساتھ باتیں ۔۔زویا جو راحم کے ساتھ پہلی بار باہر گئی تھی ۔۔اس کے پاس بہت کچھ زینب کو بتانے کے لئے تھا ۔۔وہ لبوں پر دھیمی۔ مسکراہٹ سجآے دل میں اپنی بہن کی دائمی خوشیوں کی دعا کرتے اشتیاق سے زویا کی باتیں سنتی رہی ۔۔۔راحم نے اسے خوب ساری شاپنگ بھی کروائی تھی اور زینب کے ولیمے میں۔ پہننے کے لئے انتہائی خوبصورت کام والی گولڈن میکسی بھی دلوائی تھی ۔۔پھر اپنی شاپنگ دکھانے اور ڈھیر ساری باتیں کرنے کے بعد زویا تو سوگئی لیکن زویا کو کافی دیر تک نیند نہیں آئ ۔۔۔حالاں کہ اس نے صرف چند گھنٹے ہی سسرال میں گزا رے تھے اور گزشتہ رات بھی وہ کمرے میں اکیلی ہی تھی لیکن نہ جانے کیا بات تھی آج اپنا کمرہ ہی اجنبی لگ رہا تھا ۔۔۔کئی بار غازیان کا خیال بھی آیا ۔۔نہ جانے وہ کیا کررہا ہوگا ۔۔آج اس کا سب نے ہی کتنا انتظار کیا تھا لیکن وہ نہ جانے کہاں مصروف تھا ۔۔مختلف سوچوں میں ڈوبے نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں اتری کچھ خبر نہ ہوئی ۔۔فجر کے وقت بھی زویا کے اٹھانے پر بمشکل اٹھی ۔۔۔سوتی جاگتی کفیت میں نماز پڑھ کر جو سوئی تو ابھی ساڑھے دس بجے آنکھ کھلی تھی ۔ایک نظر کروٹ موڑ کر زویا کے بیڈ کی طرف دیکھا جو خالی تھا ۔۔سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر واٹس اپ کے میسجز دیکھتی رہی ۔۔کافی دیر تک یونیورسٹی کے گروپ کے مسیج پڑھ کر رپلائ کیا کچھ کلاس فیلو ز نے نکاح کی مبارک باد دے رکھی تھی ۔۔کہ رخصتی کا تو کسی کو معلوم ہی نہیں تھا ۔۔انکو رپلائ کیا جب ہی ایک ان نون نمبرسے کال انے لگی ۔۔ وہ کال پک کرتے کرتے رک گئی ۔چند بیلز کے بعد فون بند ہو گیا ۔۔نہ جانے کون تھا ۔۔۔کال لاگ چیک کرنے پر معلوم ہوا اسی نمبر سے آدھے گھنٹے پہلے بھی کال آئ ہوئی تھی ۔۔ابھی وہ اسی سوچ میں تھی یہ کون ہو سکتا ہے کہ اسی نمبر سے واٹس اپپ مسیج موصول ہوا ۔۔۔اس نے فورا مسیج اوپن کیا جس میں لکھا تھا ۔۔
” میں ہوں غازیان ۔۔۔کال رسیو کرو ۔۔”ابھی مسیج پڑھا ہی تھا کے ایک مرتبہ پھر کال انے لگی ۔۔۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال او کے کرکے فون کان سے لگایا تو اس کی گھمبیر آواز سنائی دی ۔۔
“ہیلو ۔۔۔”
“السلام علیکم “۔۔زینب بے ساختہ سلام کرگئی ۔۔
“وعلیکم السلام ” اس کی نیند کا خمار لئے بوجھل آواز سن کر غازیان کے لبوں پے ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔
“سورہی تھیں ۔۔”؟ دھیرے سے سوال کر گیا ۔۔
“جی ۔۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی جاگی ہوں ۔۔”اس نے آہستہ سے اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے کہا ۔۔
“واہ زبردست !! میکے جاکر خوب مزے کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ایک میں ہوں رات کو دیر سے سونے کے باوجود آج جلدی آفس آ گیا ۔۔”
زینب کو سمجھ نہ آیا اس بات کا کیا جواب دے۔ ۔سو خاموش ہی رہی ۔۔”ہیلو ۔۔۔غازیان نے اس کی خاموشی کو محسوس کر کے دوہرایا ۔۔
“جی ۔۔جی میں سن رہی ہوں۔ ۔۔”جلدی سے بولی
“صرف سنو ہی نہیں ۔۔کچھ بولو بھی ۔کل سے گئی ہوئی ہو تم سے تو اتنا نہ ہوا کہ مجھے کال ہی کر لیتیں ۔۔اب میں نے کی ہے تو بات تو کرو یار ۔۔” ناچاہتے ہوے بھی شکوہ کرگیا ۔۔جب کہ زینب اس کا شکوہ سن کر پزل ہوگئی ۔۔اسے بالکل امید نا تھی کہ وہ ایسی بات کرجائے گا ۔
“وہ ۔۔میرے پاس آپ کا نمبر نہیں تھا ۔” لب چباتے دھیرے سے کہا
“وہ تو میرے پاس بھی نہیں تھا مسز ۔۔۔میں نے بھی ابھی کچھ دیر پہلے بھابی سے لیا ہے ۔۔”غازیان برجستہ بولا تو وہ چپ رہ گئی ۔۔
“اوکے لیو دس ٹوپک ۔۔۔ یہ بتاؤ ۔گھر کب آؤ گی ۔۔؟ اس کی خاموشی محسوس کرکے خود ہی موضوع بدلتا اس کا دل دھڑکا گیا ۔
” جب ۔۔جب آپ لینے آجائیں گے ۔۔”چہرے پر ہلکی سی سرخی لئے بولی ۔۔اس کا جواب سن کر غازیان کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔۔
” “اچھا ۔۔میں لینے آؤں یعنی خود نہیں آوگی ۔۔؟غازیان نے پوچھا تو اس نے بھی مسکراتے دھیمے سے لہجے میں جواب دیا ۔۔”۔آپ ۔۔لینے آئیں گے تو مجھے اچھا لگے گا ۔۔”
اس کا مسکراتا شرماتا لہجہ سن کر غازیان کا دل بےاختیار اسے دیکھنے کو مچلا ۔۔
“اوکے جناب !! جو آپ کا حکم۔۔آج رات کو تیار رہے گا ۔بندہ آپ کو لینے حاضر ہو جاےگا ۔۔”بہت ہی دل آویز لہجے میں بولتا اس کا دل دھڑکا گیا ۔ہتھلیوں میں پسینہ پھوٹ پڑا۔۔ایک دو مزید باتوں کے بعد جب فون بند ہوا تو دونوں کے لبوں پر ہی بڑی دل نشین مسکراہٹ تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر میں داخل ہوا تو رات کے بارہ بج رہے تھے ۔۔۔لاونج میں بس ابراھیم انکل اور سہیل صاحب موجود ۔۔کوئی ٹاک شو دیکھنے میں مصروف تھے ۔۔
شام کو جب وہ آفس سے نکلنے والا تھا۔اسلام آباد سے منیجر صاحب کی کال آ گئی جس میں وہ اسے اسلام آباد والے آفس میں معاملات بہت بگڑجانے کی بابت آگاہ کر رہے تھے۔۔مزدور یونین سے مسلسل مزاکرات کے باوجود حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہو رہے تھے ۔۔ ورکرز کے مسلسل ہڑتال اور احتجاج سے مالی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ساکھ بھی خراب ہورہی تھی ۔۔اندرون ملک اور بیرون ملک آرڈرز کی بروقت ترسیل میں تاخیر ہو رہی تھی ۔۔۔وہ اس وقت سے ہی مزدور یونین کے صدر کے ساتھ میٹنگ میں مصروف رہا ۔۔۔اس کے بعد منیجر صاحب کے ساتھ میٹنگزکرتے کرتے اسکے ذہن سے بالکل نکل گیا کہ زینب کو اپنے نہ آنے کے بارے میں آگاہ ہی کر دے ۔۔
ادھر بہت دیر تک انتظار کرنے کے بعد زینب غازیان کو فون کرتی رہی لیکن اس کا فون مصروف جارہا تھا ۔ ۔۔رات کے ساڑھے نو بجےکے بعد سہیل صاحب کو فون کیا تو ان کی زبانی غازیان کی بےطرح مصروفیت کا پتا چلا ۔۔سہیل صاحب کو شایان نے آگاہ کیا تھا ۔۔
اس سارے معاملے کو نمٹاتا وہ رات کے اس وقت گھر پہنچا تو سہیل صاحب اور ابراھیم صاحب دونوں اس سے آج پیش انے والی صورت حال کے بارے میں آگاہی لیتے رہے ۔۔۔
“بس یہ ولیمہ نمٹ جائے تو ایک دو دن میں اسلام آباد جاتا ہوں ۔۔اس معاملے کو بہت ڈھیل دے دی میں نے ۔۔بس اب فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ۔۔”کچھ دیر انھیں صورت حال سے آگاہ کرنے بعد غازیان اپنے دو ٹوک لہجے میں بولا ۔
“هممم ۔۔۔تم خود جا کر سارے معاملات کا جائزہ لو ۔۔مجھے تمہاری قابلیت پر پورا بھروسہ ہے تم جلد ہی ان حالات پر قابو پا لو گے۔” ۔۔سہیل صاحب بھی اس کے تھکے تھکے چہرے کو دیکھتے تسلی دی ۔۔
“اس طرح کے اتار چڑھاؤ تو بزنس میں اتے رہتے ہیں بیٹا ۔۔پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔”ابراھیم صاحب نے بھی ہمّت بڑھائی ۔
“انشااللہ۔۔۔ کل کے سب انتظامات ہو گئے ؟” دو انگلیوں سے اپنی پیشانی مسلتے ہوے سہیل صاحب سے استفسار کیا
“ہاں ۔۔۔ولیمے کےسب انتظامات ہوگئے ہیں ۔ازلان نے ایونٹ پلانر سے بات کرلی تھی وہ آج ہی فارم ہاؤس پر سب ارّنجمنٹ کروا چکے ۔۔۔۔آج میں عائشہ اور ابراھیم کے ساتھ خاندان کے قریبی لوگوں میں کارڈ تقسیم کر آیا ہوں ۔۔۔اور شہر کی معززشخصیا ت اور کاروباری حلقوں میں بھی سب کو مدعو کر لیا گیا ہے۔ ۔۔تم اس طرف سے بے فکر رہو ۔۔” سہیل صاحب نے تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ سر ہلاتا صوفے سے اٹھتا ہوا بولا
“چلیں۔ اب میں سوؤں گا ۔۔بہت ہیک ٹک دے تھا آج کا۔ آپ لوگ بھی اب ریسٹ کریں ۔۔۔۔گڈ نائٹ ۔۔”
کمرہ میں آ کر لائٹ جلائی تو خالی کمرہ اس کا منہ چڑارہاتھا ۔اس وقت زینب کی کمی بہت محسوس ہوئی ۔۔۔۔اگر وہ اسے لینے نہیں جا سکا تو وہ آج بھی نہیں آئ تھی ۔۔ وہ لب بھینچ کر سر جھٹکتا فون چارجنگ پر لگا کر واش روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔ کچھ دیر بعد فریش ہو کر سونے کے لیے لیٹنے سے پہلے موبائل میں الارم لگاکر فون چیک کیا تو زینب کی دو مسڈ کالز اور واٹس اپ پر اس کا مسیج۔ آیا ہوا تھا ۔۔۔جس میں وہ اس کے آ نے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ ۔۔اس کے بعد اس کا کوئی پیغام نہیں تھا ۔۔ اس کے علاوہ منال کا ایک مسیج اور کافی سارے دوسرے مسجز تھے۔ جنہیں نظر انداز کرتا موبائل سائیڈ پر رکھ کر سونے کے لئے لیٹ گیا ۔۔ایک تھکا دینے والے دن گزارنے کے بعد کل ایک اور تھکا دینے والا دن اس کا منتظر تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سہیل صاحب اور عائشہ پھپو کے ساتھ گھر واپس آئ تھی ۔غازیان سے کل صبح ہوئی بات کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔۔رباب بھابی اسے کچھ دیر آرام کرنے کی تاکید کر کے ابھی غازیان کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں ۔۔چند لمحے صاف ستھرے انتہائی قیمتی ساز و سامان اور اس کی مخصوص خوشبو سے معطرکمرے کا جائزہ لینے کے بعد جہازی سائز بیڈ پر آ بیٹھی جہاں گلاس وال سے نظر آتا بڑا سارا سوئمنگ پول پردے سمٹے ہونے کی وجہ سے نگاہوں کے سامنے تھا ۔۔سوئمنگ پول پے نظریں جمی تھیں جب کہ سوچوں کی پرواز گزشتہ کل کی جانب مڑ گئی ۔۔کل صبح غازیان سے فون پر بات کرنے کے بعد وہ کتنی خوش تھی ۔۔لبوں پر مستقل ایک دھیمی مسکان چپکی تھی ۔۔کتنی مشکل سے رات کا انتظار کرتے ایک ایک لمحہ گزارا ۔۔خوب دل لگا کر اہتمام سے تیار ہوئی ۔۔غزالہ صاحبہ نے بھی کھانے پر خوب اہتمام کیا تھا ۔۔ گھر میں سب ہی غازیان کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے ۔۔ وقت سرکتا رہا ۔۔یہاں تک کے رات کے ساڑھے نو بج گئے لیکن نہ وہ آیا نہ ہی ایک فون کال کرکے اسے اپنے نا آنے کی اطلاع دی ۔۔وہ زین کے چہرے پر نظر انے والی ناگواری صاف دیکھ سکتی تھی ۔۔بعد میں سہیل صاحب سے صورت حال کا پتا چلنے پر سب غازیان کی مصروفیت کا خیال کر کے مطمئن ہو گئے تھے ۔اسی لئے آج سہیل صاحب اور عائشہ پھپو اسے عزت و احترام کے ساتھ لینے گئے تو کسی نے غازیان کے نہ انے کا گلہ نہ کیا بلکہ سب کو ہی اس کی مصروفیت اور درپیش مسائل کا خیال تھا ۔۔ وہ بھی غازیان کی مجبوری سمجھتی تھی لیکن اس کے باوجود ۔۔ اس کا دل بری طرح ٹوٹ گیا تھا ۔ انہی سوچوں میں ڈوبےڈوبے بیڈ پر نیم دراز ہو گئی جب کچھ دیر بعد رباب بھابی کی کمرے میں دوبارہ آمد ہوئی ۔۔وہ اسے شاور لینے کی ھدایت کرنے لگیں ۔۔کچھ ہی دیر میں بیو ٹیشن اسے تیار کرنے آنے والی تھی ۔۔چند لمحوں بعد رباب بھابی ڈریسنگ روم سے اس کا رات میں پہننے والا ڈریس ۔۔سینڈ ل اور انتہائی بیش قیمت ڈایمنڈ سیٹ لیے چلی آئیں ۔۔بلاشبہ سب چیزیں ہی انتہائی خوبصورت اور قیمتی تھیں ۔۔ساتھ ساتھ رباب بھابی اسے یہ بھی بتاتی جارہی تھیں کہ کیسے اسکی ایک ایک چیز کی خریداری کم وقت ہونے کے باوجود غازیان نے خود کی تھی ۔۔۔یہ سب باتیں سن کر جہاں پہلے اس کے لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ بکھر جاتی تھی چہرہ شرم سے سرخ ہو جاتا تھا اب وہ مسکرا بھی نہ سکی ۔۔بس سپاٹ سے انداز میں رباب بھابی کو دیکھتی رہی ۔۔غازیان کے کسی انداز میں اسے اب تک اپنے لئے والہانہ پن یا گرمجوشی نظر نہیں آئ تھی ۔۔شاید اس کی ترجیحات میں اسکا بزنس ۔دوست ۔رشتے دار سب ۔زینب سے کہیں پہلے آ تے تھے۔اب تو اسےاتنی ہنگامی رخصتی کی وجہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔