قسط 20
جلدی جلدی کرنے کے باوجود بھی اسے آفس سے گھر اتے آتے دیر ہو گئی تھی ۔۔سب ہی تقریبا تیارتھے ۔۔۔دسمبر کے آخری دن تھے ۔۔سورج بھی جلدی غروب ہو جاتا تھا ۔۔کراچی میں شام کے اس پہر کچھ سردی بھی ہوہی جاتی تھی ۔۔وہ تیزی سے کمرے کا دروازہ کھول کر اپنے دیہان میں اندر داخل ہوا،جب ہی نظر سامنے آئینے کے آگے بیٹھی اس اپسرا سے ٹکرائی اور پلٹنے سے انکاری ہوگئی ۔ ۔اس کی خود کی ہی پسند کردہ بہت ہلکے گلابی رنگ کی سلور کام سے بوجھل ٹخنو ں تک آتی میکسی میں جس کا رنگ اس کی جلد کے ہم رنگ لگ رہا تھا ڈائمنڈ جیولری اور بے انتہا دلکش میک ا پ سے سجی ، بالوں کا خوبصورت سا ہیئر سٹائل بناے پورے وقار اور تمکنت کے ساتھ براجمان اسے سیدھی دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔ غازیان نے بہت مشکل سے اپنی نظر اس پر سے ہٹائ اور آہستہ سے بیوٹیشن کے سلام کا جواب دیتا ایک گہری بھرپور نظر اس پر ڈالتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر زینب نے بس ایک سرسری نگاہ اس پرڈال کرنظر دوبارہ جھکالی تھی ۔۔لیکن اس ایک سرسری نظر میں بھی اسےاندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایش گرے کلر کے تھری پیس سوٹ میں غضب کا ہینڈ سم لگ رہا تھا۔۔
“یہ آپ کے ہز بینڈ ہیں ۔۔ ؟” دوپٹہ سیٹ کرتے بیوٹیشن نے لہجے میں بھرپور ستائش لئے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔
” ماشاءالله ۔۔بہت ہی ہینڈسم ہیں ۔۔” زینب نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو جلدی سے بولی ” آپ دونوں کی جوڑی بہت شاندار ہے ماشاءالله ۔۔ ایسی جوڑیاں کم کم نظر آتی ہیں ۔۔اللّه نظر بد سے محفوظ رکھے ۔۔” قدرے بڑ ی عمر کی بیوٹیشن نےدعا دی تو زینب نے صدق دل سے”امین” کہا ۔
وہ مکمل تیار ہوچکی تھی ۔۔جب ہی فریش ہوکر غازیان کے کمرے میں آنے پر بیوٹیشن باہر چلی گئی جب کہ وہ مرر کے سامنے بیٹھی چوڑیوں کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑکر رہی تھی۔۔غازیان باریک نیٹ کے کام والے دو پٹے سےمیکسی میں نمایاں ہوتی اس کی پتلی نازک کمر پر ایک نظر ڈالتا خود بھی ڈریسنگ مرر کے سامنے آ گیا ۔۔چند پل وہ ایسے ہی نظر جھکآے اپنے کام میں مصروف رہی ۔۔وہ بالوں میں برش کرنے کے بعد اب گلے میں لائٹ پنک اسکی میکسی کی ہمرنگ ٹائی باندھنے میں مصروف تھا جب کہ نظریں گاہے بگاہےاس کانچ کی گڑیا پر بھی اٹھ رہی تھیں جو چوڑیوں کے بعد اب اپنی نازک کلائی میں پہنے وائٹ اور لائٹ پنک بیحد دلکش گجرے سے طبع آزمائی میں مشغول آج کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی تھی ۔۔ٹائی باندھنے کے بعد غازیان ہاتھ بڑھا کر اس کی نازک مہندی اور چوڑیوں سے سجی کلائی تھام کر اس کے گجرے کا ہک بند کرگیا ۔۔زینب نے اس کے جھکے چہرے کی طرف بس ایک لمحے کے لئے ہی دیکھا اور اسے اپنا دل ہتھیلیوں میں دھڑکتا محسوس ہوا ۔۔چارکول ڈنر سوٹ میں آف وائٹ شرٹ پر اس کے سوٹ سے میچ کرکے لائٹ پنک ٹائی لگاے وہ اس کا دل دھڑکا گیا تھا ۔۔گجرے کا ہک بند ہوتے ہی وہ كسمسا کر اپنی پسینے سے بھیگی ہتھیلی کھینچ کر کھڑی ہوگئی ۔۔جب کہ غازیان نے اس کا ہاتھ ایک مرتبہ پھر تھام لیا ۔۔ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔۔زینب کو اس خاموشی سے گھبراہٹ ہونے لگی ۔۔اگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت سے اور بڑ ی ہوکر پھٹنے والی ہوگئیں جب وہ اس کی صراحی دار گردن پر چمکتے دمکتے سیاہ تلوں کو اپنے لمس سے معتبر کرگیا۔۔جنہوں نے کتنی دیر سے اسے بے چین کر رکھا تھا ۔۔زینب نے بے ساختہ اس کے مضبوط سینےپر ہاتھ رکھ کر خود کو لڑکھڑانے سے بچایا تھا ۔۔جب کہ غازیان بھی ایک ہاتھ اسکی کمر کے نیچے رکھ کر اسے سنبھال گیا ۔۔اس کے چہرے پر پھوٹتے حیا کے دلکش رنگ دیکھ کر اس سے پہلے کہ وہ مزید بےقابو ہوتا اسے نرمی سے خود سے الگ کرگیا ۔۔نگاہیں بار بار اس کی بے داغ گردن پر چمکتے سیاہ تلوں کے جوڑے سے الجھ رہی تھیں جن کی چمک اس کی گردن میں پہنے ہیروں کی چمک کو ماند کرتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔اس کی شفاف گردن میں سیاہ اور سفید ہیروں کا خیرہ کن کومبینیشن دیکھ کر اچانک اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا وہ خود کو کوس کر رہ گیا۔اسے اس پل شدت سے احساس ہوا پچھلے دو دنوں میں وہ نا چاہتے ہوے بھی اس نازک احساسات و جذبات رکھنے والی لڑکی کی حق تلفی کرچکا ہے ۔ اسے شرمندگی ہوئی ۔کچھ سوچتے ہوے اس نے پینٹ کی جیب سے فون نکال کر کسی کو مسیج کیا۔۔ اس دوران ایک نظر زینب پرڈالی ۔۔ جو سرخ چہرے کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی اس کی اتنی سی قربت سے اپنی اتھل پتھل ہوئی سانسوں پر قابو پانے میں مصر وف تھی۔۔غازیان کے لبوں پے دلکش مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔فون کوٹ کی جیب میں رکھتااس کے آگے اپنی مضبوط چوڑی ہتھیلی پھیلا گیا ۔۔زینب ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر اپنی نازک چھوٹی سی ہتھیلی اس کے مضبوط مردانہ ہاتھ میں تھما گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیع و عریض رقبے پر پھیلے غازیان کی ذاتی ملکیت اس فارم ہاؤس میں ولیمے کی شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا ۔۔جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی جن میں سیاست دان ،صحافی ،پاکستان کے معروف ٹی وی چینلز کے مالکان ،شو بز کی شخصیا ت، کھلاڑی ،بڑے بڑے بزنس مین۔۔ غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے ۔۔آخر سہیل احمد شاہ کے لاڈلے بیٹے اور بزنس کی دنیا کے درخشاں ستارے غازیان احمد شاہ کی تقریب تھی ۔۔شاہ فیملی کا شمار پاکستان کے نامی گرامی کاروباری خاندانوں میں ہوتا تھا ۔
تقریب کا مرکز و محور غازیان اور زینب ہی تھے ۔۔ہر آنکھ میں ان کے لئے ستائش تھی ۔۔۔جہاں غازیان اپنی غضب کی مردانہ وجاہت کے ساتھ پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا وہیں زینب اپنا پریوں جیسا حسن اور نازک کانچ ساوجود لیے ہرآنکھ کو خیرہ کررہی تھی ۔۔۔زینب کے گھرسے بھی سب لوگ آ چکے تھے اور بلاشبہ تقریب کی چکا چوند دیکھ کر ششدر تھے ۔۔اپنی بیٹی کی شان و شوکت دیکھ کر غزاله صاحبہ کی تو آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔وہ نہ جانے کتنی دفعہ زینب پر آیت الکرسی اور نظر بد سے محفوظ رہنے کی دعا پڑھ پڑھ کر پھونک چکی تھیں ۔۔غازیان بھی سب کے ساتھ بہت احترام کے ساتھ پیش آرہا تھا۔
زینب کا شہزادیوں جیسا حسن دیکھ کر فرحین صاحبہ کو بے اختیار اپنا بیٹا یاد آرہا تھا جو اس کے فراق میں تاحال ہجر کاٹ رہا تھا ۔۔جانے وہ کب گھر واپس آتا ؟ وہ کتنے دن سے اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کو ترس رہی تھیں جوان سے سخت خفا تھا ۔۔ اریب کا منیب کے دوست سے جس کے گھر اجکل وہ مقیم تھا مسلسل رابطہ تھا۔۔اکبرصاحب سے تمام بات چھپالی گئی تھی ۔۔منیب اجکل جتنا بد لحاظ ہو رہا تھا فرحین صاحبہ نہیں چاہتی تھیں کہ باپ بیٹا مد مقابل آئیں ۔۔
غازیان زیادہ تر وقت اپنے ملنے ملانے والوں کے ساتھ ہی مصروف رہا ۔ابھی کچھ دیرقبل زینب کے ساتھ آ کر بیٹھا تھا ۔۔مہمان مبارکباد دینے آرہےتھے ۔۔وہ دونوں سب سےخوش دلی سےمسکرا کر ملتے رہے ۔۔مختلف مہمانوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائی جاتی رہیں ۔۔ ہرکوئی ان کی جوڑی کو سراہ رہا تھا ۔۔تب ہی حیدر کی فیملی اسٹیج پر چلی آئ ۔۔غازیان نے سب کا تعارف زینب سے کرایا تو حیدر کی والدہ اس سے مخاطب ہوئیں ۔
” غازیان بیٹا !! بیوی تو چاند کا ٹکڑا ہے ماشاءالله ۔۔دل خوش ہو گیا دیکھ کر ۔۔” زینب کی بلائیں لیتی بولیں تو وہ ایک پیار بھری نظر اس کے شرماے شرماے چہرے پر ڈال گیا ۔
“ماما !! اپنے غازیان بھائی کو بھی تو دیکھیں ۔۔یہ کسی چاند سے کم ہیں کیا ۔۔” حیدر کی چھوٹی بہن حوریہ جسے غازیان بالکل حیدر کی طرح ہی عزیز تھا اور وہ بھی حیدر سے بڑھ کر اس کے لاڈ اٹھاتا تھا ۔۔غازیان کے بازو میں ہاتھ ڈال کر ایک دم بولی تو سب ہی اس کی بات کی تائید کرتے مسکرانے لگے ۔۔
غازیان کی وارفتہ نگاہیں بار بار زینب کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔۔وہ بھی اس کی نظروں کے پیغام بخوبی سمجھ رہی تھی ۔۔ہر بار غازیان کی والہانہ نظروں کے جواب میں اس کے چہرے پر ہلکی سی شرمگیں مسکراہٹ آ جاتی ۔۔
غازیان کے آفس کا بھی سارا اسٹاف مدعو تھا ۔۔۔جن سے غازیان آج بہت دوستانہ ماحول میں بات چیت کر رہا تھا ۔۔جس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کرتےزینب کو غازیان کی سخت گیر طبیعت کے بارے میں بتایا تھا ۔۔
آنکھوں میں نمی لئے سوگوار سی منال بھی اپنے والدین کے ساتھ آج کی تقریب میں شریک تھی ۔۔جس پر غازیان نے بھرپور اطمینان کا سانس لیا تھا ۔۔فاروقی صاحب اور رابعہ صاحبہ دونوں ہی منال کو اس معاملے میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہ تھے ۔۔فاروقی صاحب نے اسے ،اس کی حرکت پر بڑ ی مشکل سے معاف ہی اس شرط پر کیا تھا کہ وہ غازیان کو اپنی زندگی کا ایک تلخ باب سمجھ کر جلد از جلد آگے بڑھ جاےگی ۔۔ غازیان اپنی زندگی میں سیٹ ہو گیا تھا تو وہ بلا وجہ اپنی بیٹی کو یک طرفہ محبت کی آگ میں جلتے زندگی برباد کرنے نہیں دے سکتے تھے۔۔۔ اس وقت وہ الگ تھلگ ایک قدرے تاریک گوشے میں نظریں ان دونوں پر ٹکا ےکھڑی تھی ۔غازیان کے چہرے سے اس کی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا ۔۔۔اور زینب ۔۔۔وہ خوش کیوں نہ ہوتی ۔۔غازیان جیسے انسان کا ساتھ پا کر بھلا کون لڑکی ہوتی جو خود کو خوش نصیب تصور نہ کرتی ۔۔بلاشبہ وہ لوگ خوش تھے ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔بے حد خوش ۔۔بیحد مکمل ۔۔ان دونوں کو دیکھتے آنکھوں میں نمی لیے وہ رخ موڑ گئی ۔۔امل جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔فورا اس کے پاس آئ ۔۔
“منال!! ۔۔میری جان۔۔ پلیز خود کو سنبھالو ۔۔۔”
منال نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی اور کہنےسے روکا اور اپنی آنکھیں صاف کرتی بولی
“میں ٹھیک ہوں ۔۔تم پریشان نہ ہو ۔۔”
امل فورا اس کے پاس ہوکر اس کے ہاتھ تھام گئی ۔
“منال پلیز ۔۔اس طرح غیروں کی طرح بات نہ کرو مجھ سے۔ ۔۔تمہاری یہ بے رخی مجھے چین نہیں لینے دے رہی ۔۔۔یقین کرو میں نے جو کچھ کیا تمہاری بھلائی کے لیے ہی کیا ۔۔”روھانسے لہجے میں بولتی چلی گئی ۔۔
“مجھے تم سے۔۔بلکہ کسی سے بھی کوئی شکوہ نہیں ۔۔۔یہ سب میرے نصیب میں لکھا تھا تو یوں ہی ہونا تھا ۔۔ مجھے نارمل ہونے میں کچھ ٹائم لگے گا پلیز ۔۔۔تم لوگ بھی یہ بات سمجھو ۔۔میں نے سالوں ۔۔۔سالوں محبت کی ہے اس سے ۔۔۔بھلانے میں کچھ دن تو لگیں گے نا ۔۔”امل کے ہاتھ تھام کر بھرآے لہجے میں بولی جب کہ دائیں آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کے بکھرا تھا ۔۔
“اللّه کرے تمہیں اتنا اچھا ۔۔اتنا چاہنے والا نسان ملے جس کی محبت تمہارے سارے زخم بھر دے ۔۔”
امل نے اس پل شدت سے اس کا دکھ محسوس کرتے اسے گلے لگا لیا اور دل سے دعا دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر خوشی کے تاثرات سجآے کمرے کو دیکھ رہی تھی۔جو وائٹ اور پنک خوبصورت پھولوں سے سجا بیحد خوبصورت لگ رہا تھا۔ ۔۔ولیمے سے واپسی پرابھی رباب اسے کمرے میں چھوڑ کرگئی تھی ۔غازیان ابھی باہر ہی حیدر اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ مصروف تھا۔۔زینب کو آج پھر کمرہ سجا دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔وہ آہستہ سے چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئ ۔ اتنے گھنٹوں سےبھاری لباس اور جیولری کی وجہ سے بے حد تھکی ہوئی ہونے کے باوجود پھولوں سے سجے مہکتے کمرے نے اس کی طبیعت پر بہت خوش گوار اثر ڈالا تھا ۔۔اس نے پیروں کو نازک سی سلور سینڈل سے آزاد کیا ۔۔اور کان کا آویزا اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔کانوں کو بھاری آویزوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کے بعد ہاتھوں میں پہنی قیمتی انگوٹھیاں ایک ایک کر کے اتاریں اس کے بعد دونوں کلایوں سے چوڑیاں اتارنے لگی ۔۔ابھی چوڑیاں اتارکر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ہلکی سی آہٹ سے دروازہ کھول کر غازیان کمرے میں داخل ہوا ۔۔اسے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا دیکھ کرلپک کر اس کے پاس چلا آ یا ۔۔
“تم یہاں ۔۔یہ کیا کر رہی ہو ؟ اسے زیورات اتارتے دیکھ کر حیرت سے استفسار کیا ۔۔ زینب کو اس کے سوال کا مقصد سمجھ نہیں آیا ۔۔
“مطلب ۔۔؟ یہ سب اتار رہی ہوں ۔۔” ناسمجھی سے اپنی سیاہ خمدار پلکیں اٹھا کر اسے دیکھتی۔ آہستہ سے بولتی ہوئی غازیان کو بہت معصوم لگی ۔۔
“یہی تو پوچھ رہا ہوں ۔۔اتنی جلدی یہ سب کیوں اتار رہی ہو ؟ نرمی سے کہتا ہوا اس کی پشت پر آیا ۔۔ “میرا انتظار بھی نہیں کیا ۔۔؟ اس کے کندھے پر اپنی تھوڑی ٹکا کردھیمے بوجھل سے لہجے میں پوچھا تو زینب گرنے والی ہوگئی ۔۔جب ہی وہ مزید بولا ۔ ۔”اس دن ہماری اسپیشل نائٹ اسپوئل ہوگئی تھی۔ اسی لیے آج یہ سب ری کرییٹ کرلیا ۔۔” آئینے میں نظر آتے اپنے اور اس کے عکس پر نظریں جماے آہستہ سے اپنے دونوں بازواس کے پیٹ پر باندھ کر دل آویز لہجے میں بولتا اس کا دل دھڑکا گیا ۔۔اسکی قربت زینب کے حواس مختل کرنے لگی جب کہ چہرہ شرم سے سرخ ہو کر بھاپ چھوڑنے لگا تھا ۔۔بڑ ی مشکل سے لرزتی آواز میں بولی ۔”م ۔۔ مجھےاس سب سے الجھن ہو رہی تھی اس ۔۔اس لئے “
“همم۔۔” غازیان چند لمحے دلچسپی سے آئینے میں نظر آتے اس کے ہوشربا سراپے کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے دوپٹے پر لگی پنیں نکالنے لگا ۔۔
” میں کرلیتی ہوں ۔۔” جھجھک کرآہستہ سے بولی
“اوں ہوں ۔۔ میں کررہا ہوں ۔۔” نرمی سے کہتا ساری پنیں الگ کرتاگیا ۔
زینب سانس روکے سن ہوتے وجود کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔سب پنیں نکالنے کے بعد سر سے دوپٹہ اتر کر نیچے تو آگرا لیکن ابھی بھی اس کے تن سے جدا نہیں ہوا تھا ۔۔۔غازیان نے دوپٹہ ہلا کر دیکھا تواندازہ ہوا کندھے پر ایک پن سے جڑا ہوا تھا ۔۔اصل میں تو زینب کی جان پر تب بنی جب اس نے کندھے کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔اسکی انگلیوں کا لمس اپنے کندھے پر محسوس کرکے وہ جو سانس روکے کھڑی تھی اپنی مٹھیاں بھینچ گئی ۔۔جب کہ اس کے تاثرات کو نظر انداز کرتا وہ اپنے کام میں مصروف رہا ۔۔ آخری پن ہٹا کر دوپٹہ اس کے وجود سے الگ کرکے بیڈ پر رکھا اور اب اس کے بالوں میں لگے پھول نکالنے کے بعد ایک ایک کرکے بالوں سے ہیئر پینز نکالنے لگا ۔۔۔زینب اسکے سامنے دوپٹے کے بغیراتنی فٹنگ والی میکسی میں ملبوس شرم سے کٹنے کو تھی ۔۔اللّه اللّه کرکے بالوں سے ساری پینز نکلیں ۔۔۔غازیان نے بےخودی کے عالم میں اس کے نرم بیحد سیاہ ریشم سے ملائم بالوں میں ہاتھ پھیرا اور آئینے میں نظر آتے اس کے سراپے پر گہری خاص نظر ڈالی ..اس کے چہرے پے حیا کے ڈھیروں دلفریب رنگ بکھرے تھے ۔۔ ۔لائٹ پنک خوبصورت کام والی قیمتی میکسی میں سیاہ بالوں اور سبز آنکھوں کے ساتھ وہ کوئی نازک سی گڑیا لگ رہی تھی ۔۔زینب نے مرر میں نظر اٹھائی تو وہ اس کی پشت پر کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔وہ فورا ہی پلکیں جھکا گئی ۔۔غازیان نے سارے بال نرمی سے ایک سائیڈ پر ڈال کر گلے سے نیکلس اتارا اور نرمی سے اس کےکندھے کو اپنے لبوں سے چھو گیا ۔۔اس کے لبوں کا لمس محسوس کرکے وہ لرز کر رہ گئی ۔۔۔۔غازیان بمشکل اس کے سحر سے خود کو آزاد کرا تا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا تو زینب کی جان میں جان آئ ۔۔”اف اس شخص کی سحر انگیز قربت ۔۔وہ کیسے برداشت کر پاے گی ۔۔” وہ سوچ کر رہ گئی ۔۔چندلمحوں بعد ہی غازیان ہاتھ میں سیاہ رنگ کا لمباسا مخملی باکس لئے چلا آیا۔۔۔”یہ تمہاری منہ دکھائی ۔۔”۔باکس اس کی جانب بڑھا کر نرمی سے بولا ۔
زینب نے نگاہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں موجود باکس کو دیکھا اور جھجھک کر باکس تھام لیا ۔۔کھول کر دیکھا تواندر ایک بہت نازک سی وائٹ گولڈ کی چین کے درمیان میں وائٹ گولڈ کا ہی پتلا سا رنگ تھا۔۔ رنگ میں ایک موٹا سا ڈائمنڈ اٹکا تھا یعنی ڈائمنڈ رنگ کے درمیان حرکت کر سکتا تھا ۔۔زینب کی نگاہوں میں ستائش اترآئی۔غازیان جو اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا ہاتھ بڑھا کر باکس سے چین نکال کر ایک مرتبہ پھر اس کی پشت پر آگیا ۔۔ اس کے بال ہٹا کر آگے شانے پر ڈالے اور نازک سی چین اور لاکٹ کو احتیاط سےاس کے گلے کی زینت بنا دیا ۔
“اسٹننگ ” ۔۔(بہت آعلیٰ )کان کے پاس بھیگے سے لہجے میں سرگوشی کی تو زینب جو اپنے گلے میں لٹکے لاکٹ کو دیکھنے میں محو تھی ، چونک گئی ۔۔غازیان نے نرمی سے اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔۔سفید گلابی بے داغ نرم و ملائم گردن کے عین درمیان میں لٹکتا وائٹ ڈائمنڈ اور اس سے ذرا سا نیچے ابھرے ہوے دو موٹے سے سیاہ چمکدار تل ۔۔۔سفید اور سیاہ ہیروں کا کومبینیشن کمال تھا ۔۔وہ بے خود ہوتا پوری شدت سے اس کی گردن پر جھک گیا ۔۔۔اپنی گردن اور اس پر موجود دونوں تلوں پر جابجا اس کا پرحدّت لمس محسوس کرکے زینب کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی جب کہ چہرہ جیسے لہو چھلکانے لگا ۔۔اس سے پہلے کہ وہ اس کے لمس کی شدت سے گرجاتی اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کے دونوں کندھے تھام گئی ۔۔غازیان اس کی گردن سے سر اٹھا کر اس کے لہو چھلکاتے چہرے کومسکراتی نظروں سے دیکھتا اسکی پشت پر اپنے بازووں کا حصار باندھ کر اس کے بالوں میں چہرہ چھپا گیا ۔۔زینب اپنے سن ہوتے وجود کے ساتھ آنکھیں میچے اس کے حصار میں قید کھڑی تھی ۔۔اس سے پہلے کہ اس کی مدہوش کن قربت سے پاگل ہو کر وہ مزید بہکتا ۔۔غازیان کا موبائل بج اٹھا ۔۔زینب لمحے کی تاخیر کئے بغیر اس کا حصار توڑتی اسے دور ہٹاگئی ۔۔
“آ ۔۔آپ کا فون ۔۔” غازیان جو اس کے بالوں سے اٹھتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو سے مدہوش ہوا کھڑا تھا ایک دم ہوش میں آیا اور اس بے وقت کی مداخلت پر سخت بد مزہ ہوتا ایک مسکراتی نگاہ اس کے گھبراے گھبراے سر اپے پر ڈالتا اپنے فون کی جانب بڑھ گیا ۔موبائل پر بلنک کرتااسلام آباد کے آفس کے منیجرصاحب کا نمبر دیکھتے ہی اس کی بھنویں اکھٹی ہوئی تھیں اور نظر بے اختیار اپنی کلا ئ میں موجود گھڑی پر گئی جو رات کے سوا دو بجا رہی تھی ۔۔
“ہیلو “۔۔۔سنجیدہ تاثرات لئے فون کان سے لگا گیا ۔۔فورا منیجر صاحب کی پریشان سی آواز سنائی دی ۔۔
“سر !! بہت معذرت چاہتا ہوں ۔۔اتنی رات کو آپ کو ۔۔۔”
“اٹس اوکے ۔۔۔آپ بولیں کیا بات ہے ۔۔” منیجرصاحب کو درمیان میں ہی ٹوک گیا ۔۔۔
” واٹ ۔۔۔” مگر کیسے ۔۔؟ دوسری طرف کی بات سن کر بے یقینی سے بولا ۔۔
“اوکے ۔۔اوکے ۔۔آپ فورا وہاں پہنچیں ۔۔میں ایس ایس پی کو کال کرتا ہوں ۔۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔میں بھی پہنچ رہا ہوں ” پیشانی کو اپنی دو انگلیوں سے مسلتےجلدی جلدی ھدایات دیتے فون بند کیا تو زینب اس کے چہرے پر پریشان کن تاثرات دیکھ کر اس کے پاس چلی آئ ۔۔
“کیا ہوا ۔۔؟ سب خیریت ہے ۔۔؟ لہجے میں تفکر لئے پوچھا
وہ جو موبائل پر ایس ایس پی کا نمبر ملا رہا تھا سر اٹھا کر اسے دیکھا اور ہلکے سے گردن نفی میں ہلاتا بولا ۔۔
” اسلام آباد کی فیکٹری میں ورکرز نے آگ لگا دی ۔۔توڑ پھوڑ ہنگامہ آرائی جاری ہے ۔۔”
“یہ ۔۔کک کیسے ۔۔؟”زینب اس کی بات سن کر ششدر رہ گئی ۔۔آنکھوں میں شدید حیرت لیے استفسار کیا ۔۔
“بہت دنوں سے مسلہ چل رہا تھا ۔۔معاملات خراب ہوتے ہوتے اس نہج پر پہنچ گئے ۔۔ بٹ آئ ول سورٹ دس اوٹ ۔۔(لیکن میں اس مسلے کو حل کرلونگا )۔۔۔مجھے ابھی جانا ہوگا ۔”
عجلت میں اپنا کوٹ پہنتے اور موبائل کوٹ کی جیب میں رکھتے بولا ۔۔
زینب پریشان کھڑی تھی ۔
غازیان نے جلدی سے لیپ ٹاپ کا بیگ اٹھایا اور اس کے پاس آیا جو پریشان صورت لئے کھڑی تھی ۔۔
“ڈونٹ یووری ۔۔سب ٹھیک ہوجاےگا ۔۔ “ہلکے سے اسکا گال تهپک کر نرمی سے ‘اللّه حافظ’ کہتا جیب سے موبائل نکال کر ڈرائیور کو کال ملا تا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔
“اللّه حافظ ” زینب نے بھی آہستہ سے کہا اور کمرے کے دروازے سے اسے اس وقت تک جاتا دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے