قسط 3
ہلکے آسمانی رنگ کی گھٹنوں تک آتی جدید اسٹائل کی شرٹ اور آف وائٹ کیپری پہنے ۔نفاست سے میک اپ کیے کندھوں تک آتے خوبصورت ا سٹائل میں کٹے بالو ں کے ساتھ ایک ہاتھ میں فون پکڑے ۔کندھے پر برانڈڈ بیگ لٹکاے وہ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔
“چلو نا امل پلیز ۔۔۔۔میں گھر میں فارغ بیٹھبیٹھ کر بری طرح بیزار ہو چکی ہوں ۔۔۔چلو کوئی اچھی سی مووی دیکھ کے اتے ہیں ۔۔”منال نے میں منت بھرے لہجے میں امل سےکہا ۔۔۔
“نہیں بھئی ۔۔میں نے کہا نا مجھے رات کو شایان کے ساتھ ایک بزنس پارٹی میں جانا ہے ،سو میں اب لنچ کے بعد تھوڑی دیر سوؤں گی تا کہ رات کو فریش نظر آؤں ۔۔۔ میرا تمھارے ساتھ خوا ر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔”
امل نے اپنے ناخنو ں پہ نیل پالش لگاتے ہوےٹکا سا جواب دیا ۔۔۔
“گو ٹو ہیل امل۔۔ اب یاد رکھنا یہ بات ۔۔۔میں کتنی دیر سے منتیں کر رہی ہوں تمہاری لیکن تمھارے نخرے ۔۔۔۔”
وہ بری طرح چڑی۔۔۔
“منال جانو!! میں بزی ہوں نہ آج ورنہ بغیر کسی سالڈ ریزن تمہیں کبھی منہ کیا ہے۔ ۔۔؟”اب کے امل نے پیار سے پچکارا اور ساتھ ہی تجویز پیش کی “تم کسی فرینڈ کو ساتھ لے جاؤ نا ۔”
“تم اچھی طرح جانتی ہو میرے بس دو ہی بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ایک تم۔۔ اور ایک تمہارا وہ workaholic دیور ۔۔”غازیان احمد شاہ ” اور تم دونوں ہی ہمیشہ بزی رہتے ہو ۔۔ایک میں ہی پاگل ہوں جو تم دونوں کے علاوہ کبھی کسی سےکوئ خاص دوستی نہ کر سکی ۔”اس نے روہانسے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
“اچھا اچھا ٹھیک ہے اب رونے نہ لگ جانا ۔۔۔اتنی پیاری شکل خراب ہو جاےگی ۔۔ “امل نے لاڈ سے اس کے دونو ں گال کھینچتے ہوے کہا ۔۔۔
“میں ریڈی ہو کر آتی ہوں لیکن صرف دو گھنٹے ۔۔اونلي ٹو آورز میں واپس آنا ہے ہمیں۔ ۔۔باہر جا کے ہمیشہ کی طرح پھیل نہ جانا ۔۔۔”اس نے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا کے اسے دکھائی تھیں ۔۔۔
“اوکے اوکے !!تم چلو تو سہی ۔۔۔جلدی سے تیار ہو کے آؤ ۔۔۔”
منال سے اسے لیونگ روم سے با ہر دھکیلا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محفل ایک مرتبہ پھر جم گئی تھی ۔۔۔راحیل صاحب نے گرم گرم چاۓ سے لطف اندوز ہوتے ہوے سلسلہ کلام پھر سے جوڑا ۔۔۔
“ہاں تو بچوں ازلان اور رباب کے دو بچے ہیں ۔۔۔چھ سال کابے حد شرارتی نوفل اور چار سال کی پیاری سی پریشے “
” اورجیسا کہ تم سب کو پتا ہی ہے کہ وہ لوگ امریکہ میں رہتے ہیں ۔۔۔ازلان امریکہ سے ہی پڑھا ہے وہیں کا بزنس سنبھالتا ہے ۔۔۔عائشہ اور ابراھیم بھائی کا بھی دل لگا رہتا ہے ، بچوں کے ساتھ ۔۔۔”
“دوسرے نمبر پے شایان ہے ،جس کی شادی سعدیہ کی بہن رابعہ کی بڑی بیٹی امل سے ہوئی ہے ان کا فلحال کوئی بچہ نہیں ہے کہ دونو ں میاں بیوی ابھی کچھ سال لائف انجواۓکرنا چاہتے ہیں ۔۔۔”
سہیل صاحب نے کہا تودونو ں لڑکیاں جھینپ کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں ۔۔
“اس کے بعد کون ہے تایا جی ۔۔؟” ندا نے ان دونو ں کی کیفیت سمجھتے ہوے جلدی سے بات آگے بڑھائی ۔۔
“اس کے بعد ۔۔۔۔اس کے بعد میرا سب سے پیارا ۔۔میرا شہزادہ میرے گھر کی رونق ۔۔میرا غازیان ۔۔”
بڑے ابا نے محبّت سے چور لہجے میں کہا جب کہ آنکھوں کی چمک بھی کئی گنا بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
“سہیل بھائی لگتا ہے غازیان آ پ کا سب سے لاڈلا بیٹا ہے ۔۔غزالہ صاحبہ نے کہا
“ہاں غزالہ !! نہ صرف میرا بلکہ اپنے بھائیوں اور ماں کا بھی بہت لاڈلاہے ۔۔حالاں کہ لوگوں کو وہ مغرور اکھڑ اور بد دماغ لگتا ہے ۔۔۔لیکن میں جانتا ہوں میرا بیٹا بہت نرم دل اور فرما ں بر دار ہے ماشاءاللہ ۔۔۔میرے سب بیٹوں میں سب سے زیادہ قابل اور ذہین ۔۔ اس نے میرے بزنس کوکہاں سے کہاں پھنچا دیا ۔۔۔ شاہ انڈسٹریز کو انٹر نیشنل مارکیٹ میں نا صرف متعارف کروایا بلکہ ایک الگ پہچان دی ہے ۔۔نہ صرف اپنا فیملی بزنس سنبھال رہا ہے بلکہ اس نے بائیس سال کی عمر سے ہی اپنا الگ بزنس اسٹیبلش کر لیا تھا ۔۔”
سہیل صاحب فخریہ لہجے میں کہتے چلے گئے ۔۔۔ یہ سب سن کے وہاں موجود سب لوگ ہی غازیان سے متاثر ہوۓ تھے ۔
“جی بڑ ے ابا۔۔کچھ دن پہلے میں نے ٹائم میگزین میں غازیان کا انٹرویو پڑھا تھا ۔۔۔اینڈ آئ ریلی امپریسڈ ودھ ہم۔۔۔بلکہ میں نے تو اپنے آفس میں بھی کافی لوگوں کوبتایا کہ یہ بندہ میرا کزن ہے ۔۔۔”زین نے فخریہ لہجے میں کہا تو سب ہی مسکرا دے ۔۔۔۔
“بس یوں سمجھو بچو!!میرا غازیان میری جان ہے ۔۔۔”
سہیل صاحب کے لفظ لفظ میں اس شخص کے لۓمحبت ٹپک رہی تھی ۔۔۔
“بڑے ابا !!یہ تو پتا چل گیا کہ آپ کی جان غازیان بھائی ہیں لیکن ان کی جان کون ہے اب یہ بھی تو بتائیں “
زینب نے انتہائی شرارتی انداز میں پوچھا ۔۔۔۔
سہیل صاحب زور سے ہنس دیے ۔۔۔
“غازیان کی جان جگر دل سب کچھ فلحال تو بزنس ہی ہے ۔۔۔بہت کہتا ہوں ماشاءالله ستائیس سال کے ہو گئے ہو اب شادی کر کےسیٹل ہو جاؤ ۔۔۔لیکن بر خور دار کا ایک ہی جواب ۔۔”ابھی پہلے بزنس سٹیبلش ہو جاۓ شادی کے لئے فلحال ٹائم نہیں ۔” ان کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ ان کا فون بجا ۔۔۔
فون اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے پر بہت پیاری مسکرا ہٹ آئ ۔۔۔۔
سب ہی فون کی طرف متوجہ ہو گۓ تھے۔۔
“ماشاءالله بہت لمبی عمر ہے میرے بیٹے کی ابھی تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا ۔۔۔”
“السلام و علیکم ڈیڈ ۔۔۔میرا ذکر کہاں ہو رہا تھا ؟”
فون پہ ایک بھا ری دلکش مردانہ آواز گونجی۔۔
“وعلیکم السلام ۔۔۔۔جیتے رہو خوش رہو “
“بس ۔۔۔۔ہو رہا تھا کہیں ذکر ۔۔یہ سرپرائز ہے ۔تم بتاؤ پاکستان کب آ رہے ہو ؟تمہیں کسی سے ملوانا ہے ۔”سہیل صاحب نے پوچھا
“ڈیڈ !!ابھی تین دن تو ہوے ہیں مجھے آۓ ہوۓ۔۔۔۔اس بار تو مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جاۓ گا۔۔۔آئ تھنک۔۔۔خیر یہ بتائیں ملوانا کس سے ہے مجھے ؟” وہ مستفسر ہوا
“یہ تو سرپرائز ہے بر خور دار ۔۔۔۔۔”
“ویل !! آ کے ملتے ہیں آپ کے سرپرائز سے ۔۔۔فلحال تو آپ کو ایک گڈ نیوز دینی تھی ۔۔۔”وہ یو کے والی ڈیل ہمیں مل گئی” ۔۔”الحمدللہ ۔۔”
اس نے خو شی سے بھرپور لہجے میں بتایا ۔۔۔۔
“ماشاءالله !!ماشاءالله!! بہت مبارک ہو بیٹا۔ ۔۔یہ توتمہاری بہت بڑی کام یابی ہے ۔۔۔تم نے اس ڈیل کے لئے محنت بھی تو بہت کی تھی ۔۔یو ڈیزرو اٹ بواۓ۔۔۔یو ڈیزرو اٹ۔۔۔اللّه آگے بھی تمہیں ایسے ہی کامیاب کرے ۔۔۔” بڑے ابّا نے دعادی
“چلو اب ریسٹ کرو ۔بعد میں بات کرتے ہیں ۔۔اپنا خیال رکھنا “
چند منٹ بات کرنے کے بعد بڑے ابّا نے کہا ۔۔۔
“اوکے ڈیڈ ۔۔۔۔آپ بھی اپنا خیال رکھیں اور میڈیسن ٹائم پے لیتے رہیے گا ۔۔۔”
غازیان نے انھیں تاکید کی اور فون بند کر دیا ۔۔۔۔
سب نے سہیل صاحب کو بہت مبارک باد دی ۔۔۔رات گۓ ایک بھرپور دن گزار کر دوبارہ جلد ہی آنے کا وعدہ کر کے اور ان سب کو بھی اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر سہیل صاحب اپنے گھرروانہ ہوے ۔۔۔۔
جب کہ وہ لوگ رات گئے تک بلکہ اگلا سارا دن بھی بڑے ابا کی باتیں ہی کرتے رہے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل صاحب ہر دوسرے تیسرے دن راحیل صاحب کے گھر آ پہنچتے۔۔۔راحیل صاحب ک گھر کے پر رونق ماحول میں ان کا خوب دل لگتا ۔۔۔زویا اور زینب کی شرارتیں ۔ننھے علی کی قلقارياں ۔راحیل صاحب اور غزالہ صاحبہ کے ساتھ پرانے وقت کے قصّے دوہراتے ۔اماں ابا کی باتیں کرتے کب دوپہر سے رات ہوتی پتا ہی نہ چلتا ۔۔۔۔
اس دوران کبھی لوڈو کبھی کیرم کبھی شطرنج کی بازی لگتی ۔۔۔چاۓ کا دور چلتا ۔۔۔۔۔گھر میں سب سے ہی ان کی بے تکلفی ہو چکی تھی ۔۔۔زویا ،ندا ،زین سب تایا سے بے دھڑک بات کرتے ۔۔۔زینب کی تو کیا ہی بات تھی۔ ۔۔وہ تایا کی سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ ۔۔اپنی والدہ سے حیرت انگیز مشا بہت کی بنا پے سہیل صاحب بھی زینب کے لئے ایک الگ ہی محبّت اور لگاؤ رکھتے تھے۔ ۔۔۔
اذلان ،رباب سے بھی اکثرفون پے بات ہونے لگی تھی۔ ۔۔ال غرض ایک عرصے بعد دونو ں خاندان خونی رشتے کی کشش محسوس کر رہے تھے۔
سہیل صاحب جو اب بزنس کے معاملات سے تقریباً کنارہ کش ہی ہو چکے تھے ۔ان کا دل راحیل صاحب کے گھر میں خوب لگتا ورنہ چار ہزار گز پے قائم “شاہ مینشن “میں اوّل تو وہ چار لوگ ہی تھے ۔ان میں سے بھی غازیان تو بزنس کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے با ہر ہی رہتا تھا۔اکثر شا یان بھی با ہر جاتا رہتا تھا۔ گھر میں امل اور سہیل صاحب ہی ہوتے تھے ۔امل کی بھی اپنی مصروفیا ت تھیں ۔۔۔ہائی سوسائٹی کی بیش تر خواتین کی طرح وہ بھی ایک این جی او سے منسلک تھی ۔۔اس کے علاوہ کبھی میکے کے چکر ۔کبھی منال کے ساتھ شاپنگ ۔کبھی آ وٹنگ کے پروگرام بنتے رہتے ۔۔۔
ایسے میں سہیل صاحب کو خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ۔۔گھر میں بیٹھ کر سعدیہ صاحب کی یادوں سے دل بہلاتے رهتے یا اب بھا گ بھاگ کے راحیل صاحب کے گھر کا رخ کرتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گہری نیند سو رہا تھا ۔۔گھنے سیاہ بال ماتھے پے بےترتیبی سے پڑے اس کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہے تھے ۔۔۔ایسے میں اسکے موبائل کی بیل بجی ۔۔۔ اس کے مغرور نقوش سے سجے چہرے پر تناؤآیا لیکن وہ نظر انداز کئے سوتا رہا چند لمحے بج کے فون بند ہو گیا اس کے تنے نقوش بھی آہستہ آہستہ ڈھیلے پڑنے لگے ۔۔۔تب ہی ایک بار پھر فون بج اٹھا ۔۔۔اس نے نا چاہتے ہوے بھی بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مار کے فون اٹھایا اور بغیر نمبر دیکھے کان سے لگا یا ۔۔۔
“ہیلو غازیان احمد شاہ سپیکنگ “نیند کی خمار ی لئے بھاری گھمبیر بوجھل آواز ایک پل کے لئے دوسری طرف موجود منال کا دل دھڑکا گئی ۔۔۔
“وعلیکم ہیلو ۔۔منال فاروقی از ہیر”منال نے سنبھل کے شرارتی آواز میں کہا
“اوہ تم ہو ۔۔تمہیں کب تمیز آئےگی کہ کسی بندے کو صبح صبح بلا وجہ فون کر کے پریشان نہیں کرتے ۔۔”اسے لتا ڑ تے ہوے وہ دوبارہ آنکھیں موند گیا ۔۔۔
“واٹ صبح صبح۔۔ دوپہر کے بارہ بج رہے ہیں ۔تم ابھی تک پڑے سو رہے ہو ۔۔”
“دوپہر کے بارہ پاکستان میں بجے ہوں گے یہاں لندن میں تو صبح کے آٹھ بجے ہیں ابھی ۔۔۔اینڈ ڈونٹ ٹیل می تمھیں ٹائم ڈفرینس کا خیال نہیں رہا۔۔۔اس لئے بتاؤ فون کیوں کیا ہے ۔۔۔؟”وہ اپنے ازلی دوٹوک اور صاف انداز میں بولا ۔۔۔
جب کہ اس کی صاف گوئی پے منال نے زبان دانتوں میں دبائ تھی ۔۔۔
“میں تمہیں مس کر رہی ہوں غازیان ۔۔۔تم بھی تو لندن جا کے بیٹھ ہی گۓ ہو نہ کبھی فون کرتے ہو بلکہ میں فون کروں تو بھی نہیں اٹھاتے ۔۔”شکوہ کیا گیا
“لک منال !!میں یہاں کام کے لئے آیا ہوں کھیلنے نہیں ۔تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں جب کام ختم ہوگا تو آ جاؤں گا ۔۔۔”وہ بے حد خشک لھجے میں بولا تھا ۔۔
“لیکن میں اکیلی بورہو رہی ہوں ۔” وہ روھانسی ہوئی ۔۔۔
“تو یار اپنے لئے کوئی مصروفیت تلاش کرو۔ کتنی دفعہ سمجھاؤں تمہیں انکل کا بزنس سنبھالو۔امل کو توبزنس سے لگاؤ نہیں لیکن تم نے تو بزنس پڑھا ہے ۔۔سریس ہو جاؤ اپنی لائف میں ۔۔۔کب تک وقت ضائع کرو گی؟”
اس بار لہجہ نرم سمجھاتا ہوا تھا۔۔
“جاتی تو ہوں ۔۔” وہ منمنائی ۔۔۔
“کبھی کبھی ایک دو گھنٹے کے لئے نہیں بلکہ باقاعدگی سےآفس جانا شروع کرو۔انکل کو بھی سپورٹ ملے گی اور تمہاری بوریت بھی دور ہو جائے گی ۔۔۔انکل اور آنی بھی مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے کہ تمہیں سمجھاؤں۔۔” آنکھیں مسلتا اٹھ کے بیٹھا اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوے کہا ۔
“اوکے باس !!!جیسا آپ کا حکم ۔۔”وہ شرارت سے بولی ۔۔۔۔غازیان سے بات کر کے موڈ آپ ہی آپ اچھا ہو چکا تھا ۔۔۔۔
“ویسےمنال ۔۔۔ اگر تم لاسٹ ایرانکل کے دوست کے بیٹےکا پروپوزل قبول کر لیتیں تو آج یہ بوریت کا رونا نہ رو رہی ہوتیں ۔”غازیان نے بھر پور شرارتی موڈ میں مسکراتے ہوے اسے چھیڑا۔۔
“ہی ہی ہی ۔۔۔ویری فنی ۔۔۔خبردار جو اس چپکو کا نام بھی لیا ۔۔دو دفعہ ہنس کے بات کیا کر لی پیچھے ہی پڑگیا تھا ۔” وہ خوب تپی ۔۔
“چلو بس۔۔۔ اب جان چھوڑو میری مجھے آفس کے لئے تیار ہونا ہے ۔”اس نے جان چھڑائ
“ہاؤ روڈ غازیان ۔۔کتنے بدتمیز ہو تم” وہ خوب چڑی
“وہ تو میں ہوں ۔۔ یو نو بلاوجہ کسی کے نخرے نہیں اٹھاۓجاتے مجھ سے ۔۔۔چلوپھر بعد میں بات کرتے ہیں ” وہ فخریہ لہجے میں بولا اور فون بند کرنے لگا ۔۔۔
“اچھا سنو تو” وہ جلدی سے بیچ میں ٹوک گئی
“اب کیا ہے ؟”وہ جی بھر کے بیزار ہوا
“واپس کب آؤگے ؟یہ تو بتا دو ۔۔۔”
“مے بی ۔۔۔دو چار دن تک اگر کام ختم ہو گیا ۔۔بائے ۔۔آئ ایم گیٹنگ لیٹ” جلدی سےکہتے ہوۓفون کاٹ گیا۔
جب کہ منال فون کو ہلکے ہلکے اپنے ہاتھ پے مارتے ہوے کسی سوچ میں تھی جب کہ لبوں پے خوبصورت مسکراہٹ تھی ۔۔۔غازیان سے بات کرکے خود کو فریش محسوس کر رہی تھی۔
آئ تھنک مجھے غازیان کی بات پے عمل کرنا چاہیے ۔۔۔خود کلامی کرتے ہوے وارڈروب کی طرف بڑھ گئی تا کہ تیار ہو کے آفس جا سکے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بڑے ابا کا گھر کس قدر پیارا ہے ماشاءالله ۔۔۔بالکل ٹی وی ڈرامو ں میں دکھا ۓجانے والے گھرو ں جیسا۔۔میں تو ابھی تک جیسے وہیں گھوم رہی ہوں۔” زویانے آنکھیں میچ کے گویا تصور میں خود کو وہیں محسوس کرتے ہوے کہا۔۔
کل وہ سب لوگ سہیل صاحب کے گھر ڈنر پر مدعو تھے۔۔جہاں ان کی ملا قات شا یان اور امل کے ساتھ ساتھ رابعہ صاحبہ ان کے شوہر اور منال سے بھی ہوئ تھی ۔امل کا رویہ تو نارمل تھا جیسا عام طور پر گھر آے مہمانو ں کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔منال تھوڑی بہت بات چیت کے بعد سارا وقت اپنے فون میں ہی بزی رہی رابعہ صاحبہ کا رویہ رسمی سا تھا ہاں مرد حضرات بہت گرم جوشی سے ملے ۔۔۔رات دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔
“بس کرو بی بی ۔۔واپس آ جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ جوتے مار کر تمہیں با ہر نکالیں ۔۔کل سے اب تک دماغ کھا گئی ہو ۔”
زینب نے غصے سے بے ساختہ کہا تو ندا بھابی زور سے ہنس پڑیں ۔۔۔
“بھابی آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی ” زویا نے خفگی سے ندا کو دیکھتے کہا
“یہ تو ہے ہی سڑی مرچ۔۔وہاں جا کے بھی ایک ہی جگہ بیٹھی رہی میں نے کتنا بلایا کہ پورا گھر دیکھتے ہیں لیکن اپنی جگہ سے ہلی نہیں ۔۔”
“سچی زینی !!ابھی تم نے آدھا گھر تو دیکھا ہی نہیں ۔۔گیم روم اتنا بڑا جم ۔۔ غازیان بھائی کا روم تو اتنا خوب صورت کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی ۔۔۔” وہ ایک بار پھر پرجوش ہو کر بتانے لگی
“تو نا بتاؤ پلیز ۔۔۔” زینی نے بیچ میں ٹوکا ۔۔”اور مجھے نہیں شوق بلا وجہ پورے گھر میں دندناتے پھرو ۔۔۔مہمان تھے ہم اور مہمانوں کو بس ڈرائنگ روم تک ہی محدود رہنا چاہئے ۔۔۔”
“بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے زینب ۔۔۔بڑی تم ہولیکن زینب تم سے زیادہ سمجھدار ہے ۔۔مجھے بھی تمہارا منہ اٹھا کر پورے گھر میں ہرجگہ گھومنا اچھا نہیں لگ رہا تھابلکہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ رابعہ اور امل کو بھی ناگوار گزر رہا تھا تمہارا آزادانہ ہر جگہ پھرنا ۔۔۔” غزالہ صاحبہ جو ابھی لاونج میں داخل ہوئی تھیں ۔۔۔زویا کو لتاڑ تےہوے بولیں
“اوہ ہو امی ۔۔۔امل بھابی نے تو مجھے خود کہا تھا کہ آ ؤ تمہیں غازیان کا روم بھی دکھا تی ہوں ۔۔ہاں ان کی مدرذرا روڈسی بیٹھی تھیں ” زویا نے کہا ۔۔۔
“ہاں وہ تو بہت ا کڑو سی لگیں مجھے بھی ۔۔رابعہ انٹی تو آپ سے بھی رسمی سا ملیں پھپو ” ندا نے بھی اظہار خیال کیا ۔۔
“ہوں۔۔۔یہ بہنیں مجھے ایسے ہی اگنور کرتی آئ ہیں ہمیشہ ۔۔ تمہاری تائ بھی ساری زندگی مجھ سے خفا رہیں اور اب ان کی بہن کا رویہ بھی۔۔ ۔” غزاله صاحبہ آہستہ سے بولیں
“کیوں امی ؟ایسی کیا وجہ تھی ؟آپ بڑی امی سے زیادہ خوب صورت تھیں ۔۔۔کیا اس لئے ؟”زینب نے سوال کیا
“نہیں ۔میں نہیں سمجھتی کہ یہ وجہ ہوگی تمہاری تائی بھی بہت پیاری تھیں ۔۔گوری چٹی براؤن آنکھوں اور بالوں والی ۔۔سہیل بھائی اور ان کی جوڑی بہت جچتی تھی۔جب شادی ہو کے آئیں تھیں تو میں کئی دن تک ان کی تصویریں اپنی سہیلیوں کو دکھا کر داد وصول کرتی رہی تھی ۔۔۔”
غزالہ صاحبہ نے ماضی کو یاد کرتے لبوں پے ہلکی مسکراہٹ لئے کہا ۔ ۔۔اور پھر زینب سے مخاطب ہوئیں ۔۔۔”چلو ادھر آو بالوں میں تیل لگوا ؤ سارے بالوں کا حشر بگاڑ دیا ۔۔۔”
“توبہ کریں امی ۔۔۔میری کلاس فیلوز دیوانی ہیں میرے بالوں کی ۔۔کچھ لڑکیاں تو ہاتھ میں لے کے باقاعدہ پوچھتی ہیں کہ یہ اصلی بال ہیں؟ اور آپ کہہ رہی ہیں کہ حشر بگڑ گیا ۔۔۔”
“ہاں تو میری محنت ہے ۔۔۔ورنہ تم لوگ تو جھاڑ جھنکار بنا دو بالوں کو ۔۔۔بیٹا جی بال تو عورت کی خوبصورتی ہوتے ہیں ان کی خاص حفاظت اور دیکھ بھال کرنی چاہیے ۔۔۔”غزالہ صاحبہ نے زینب کے سر میں تیل کی مالش کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“تو کیا پھر تائی امی ،راحیل انکل کی شادی اپنی بہن سے کروانا چاہتی تھیں ؟”
ندا نے آنکھیں نچا کے شرارت سے بھر پور لہجے میں دوبارہ اسی موضوع پر آتے ہوۓ پوچھا تو وہ دونو ں بھی شرارت سے کھی کھی کرنے لگیں۔
“تو بہ ہے ۔۔۔الٹے سیدھے ناول پڑھ کر تم لڑکیوں کے دماغ خراب ہو گئے ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔” غزالہ صاحبہ نے انھیں گھرکا
“بات کچھ اتنی بڑی نہیں تھی ۔۔۔بس ۔۔۔بعض اوقات انسان اپنی انا کے پیچھے لگ کے اچھے بھلے رشتے خراب کر لیتا ہے یہی کچھ اللّه بخشے خالہ جان اور سعدیہ بھابی نے بھی کیا ۔۔”