میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 4

غزالہ افضل اپنے والدین کے بڑھاپے کی اولاد تھیں ۔۔۔ان کے آنے کی خبر ملی تو نگار بیگم کئی دن تک منہ چھپا کے روتی رہیں ۔۔۔۔کوئ ایسا ڈاکٹر حکیم نا رہا جس کے پاس انہوں نے چکر نہ لگایا ہو ۔۔۔کون سی ایسی پھکی معجون تھی جو انہوں نے نہ پهانكی ہو حالاں کہ افضل صاحب بہت سمجھا تے رہے”ارے نیک بخت ۔۔۔اولاد تو اللّه کی نعمت ہے اس میں کیسی شرم ۔۔۔اولاد کی قدر بے اولاد جوڑ وں سے پوچھو ۔۔”۔وغیرہ وغیرہ
لیکن ہر با ر ان کا ایک ہی جواب “جوان بچوں کے ہوتے اس بڑھاپے میں میں نۓ سرے سے بچہ پالتی پوتڑے دھوتی دودھ پلاتی اچھی لگوں گی بھلا؟آتی گرمیوں میں اکبر سولہ سال کا ہوجاےگا اور ایک مہینے بعد روبینہ چودہ سال کی۔۔۔ “وہ بری طرح پھوٹ پھوٹ کے رو دیتیں ۔۔اور افضل صاحب گہری سانس بھر کے رہ جاتے ۔۔۔
اسی طرح وقت گزرتا گیا اور اپنے ٹائم پے جس روح کا آنا اللّه نے طے کر رکھا تھا وہ نگار بیگم کی لاکھ مرضی نا ہونے کے باوجود آ کے رہی۔ ۔
بچی کی موہنی صورت دیکھ کے ماں کی ازلی محبّت بیدار ہوئی اور کلیجے سے لگا کے پیشانی چوم گئیں ۔۔۔
افضل صاحب نے بہت مذاق بھی اڑایا کل تک تو اسے کسی طرح دنیا میں آنے نا دینا چاہتی تھیں ۔۔اب کیا ہوا نیک بخت ؟؟
وہ افضل صاحب کو گھور کر رہ گئیں ۔۔۔
بچی انتہائی خوبصورت تھی ۔۔۔نرم و نازک گڑیا جیسی گلابی ۔۔۔بڑی بڑی کالی آنکھوں والی ۔۔افضل صاحب نے بچی کا نام غزالہ رکھا ۔۔۔
روبینہ بھی اپنی پیاری چھوٹی بہن کو پا کے پہلے تو کچھ حیران ہوئیں لیکن پھر اس کی موہنی صورت دیکھ کے اس کو پیار کرنے لگیں ۔۔۔
البتہ ا کبر کا رویہ نارمل ہی تھا مطلب نہ وہ خوش تھا نہ ہی ناخوش ۔۔۔لیکن جیسے جیسے غزالہ بڑی ہوتی گئ اس کی معصوم حرکتوں اور بھولی بھالی باتوں کی وجہ سے اسے اپنی یہ چھوٹی بہن روبینہ سے بھی زیادہ پیاری ہو گئی ۔۔
غزالہ گھر بھر کی لاڈلی تھیں لیکن افضل صاحب کی تو جیسے جان بستی تھی غزالہ میں ۔۔۔شام کو کام سے آ تے تو غزالہ کے لئے الگ سے کھا نے پینے کی چیزیں لے کر آتے ۔۔۔اکبر اور روبینہ کی تو کیا ہی مجال، نگار بیگم کو بھی غزالہ سے اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت نہ تھی ۔۔۔اتنے لاڈ پیار نے بھی غزالہ کو بگاڑا نہ تھابلکہ وہ بہت تمیزدار اور با ادب بچی تھی ۔۔۔ تو یہ نگار بیگم اور افضل صاحب کی تربیت ہی تھی۔۔غزالہ سات برس کی تھی جب ایک دن بیٹھے بٹھاۓ افضل صاحب کو سینے میں درد اٹھا ۔۔۔نگار بیگم اور اکبر ہسپتال لے کر بھاگے ۔۔جہاں ایک گھنٹے بعد ہی افضل صاحب نے دم توڑ دیا ۔۔۔پہلا ہارٹ اٹیک ہی جان لیوا ثابت ہوا ۔۔۔
نگار بیگم کی تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی ۔۔۔انہیں کتنے دن تک تو یقین ہی نہ آیا کہ اتنا چاہنے والا شوہر اب دنیا میں نہیں رہا ۔۔۔اکبر اور روبینہ کی بھی بری حالت تھی ۔۔۔لیکن غزالہ جو افضل صاحب کی بہت لاڈ لی تھی سب سے بری حالت اس کی تھی۔ ۔۔باپ کو نہ پا کے ہفتہ بھر بخار میں پھنکتی رہی ۔۔۔ اس کا ننھا ذہن یہ قبول ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ اتنے چاہنے والے باپ کو وہ اب اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے گی۔ ۔۔وہ کبھی تو کھیلنے لگتی کبھی ضدکرتی کہ ابّا کو بلاؤ اور پھر ایسے روتی کے اپنے ساتھ سب کو رلا دیتی ۔۔۔۔
وقت کا کام ہے گزرنا ۔۔۔وہ گزرتا گیا ۔۔آہستہ آہستہ افضل صاحب کے گھر والوں کو بھی صبر آ ہی گیا ۔۔۔
غم کی اس گھڑی میں زینب بیبی نے اپنی بہن کا بہت ساتھ دیا ۔۔عثمان صاحب اور ان کے والدین بھی نگار بیگم کے غم میں برابر کے شریک رہے ۔۔
افضل صاحب سرکاری ملازم تھے ۔۔۔کچھ ان کی پنشن آتی تھی پھر ان کے محکمے سے رقم بھی ملی ۔۔۔مین مارکیٹ میں اچھے وقتو ں کی لی ہوئی چھ دکانیں بھی تھیں ۔۔۔ جن کا ہر ماہ کرایہ آتا تھا اس طرح کوئی مالی تنگی نہ ہوئی ۔۔
افضل صاحب کے انتقال کے بعد نگار بیگم اپنی زندگی کی طرف سے بہت بے یقینی۔ کا شکار ہو گئیں ۔۔۔اسی لیے افضل صاحب کے انتقال کے ایک سال کے بعد ہی عثمان صاحب کے دوست کے بیٹے سے روبینہ کو بیا ہ دیا ۔۔۔ جو شادی کے بعد دبئی چلی گئیں اور بعد از اں لندن ۔۔۔
نگار بیگم کی اپنی طبیعت بھی اچھی نہ رہتی تھی ۔۔۔اکبر یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا ۔۔۔وہ پڑھائی میں مصروف رہتا ۔۔۔غزالہ اکیلے گھر میں بولائی بولائی پھرتی ۔۔۔کبھی رونے لگتی ۔۔۔وہ آٹھ سال کی بچی زندگی میں اچانک انے والی تبدیلیوں کو قبول نا کر پا رہی تھی۔ ۔۔ایسے میں جب کبھی زینب خالہ آ جاتیں توغزالہ کی گویا عید ہو جاتی ۔۔۔عائشہ آپی مزے کے چپس بنا کے دیتیں تو راحیل یا سہیل بھائی بازار سے ڈھیروں چیزیں دلا کے لاتے ۔۔۔
ایم کام۔ کرنے کے بعد جیسے ہی اکبر کی اچھی کمپنی میں ملازمت لگی نگار بیگم کو اس کے سر پےسہرا سجانے کی لگ گئی ۔۔۔اکبر نے ایک دو سال کی مہلت مانگی لیکن نگار نے انکار کر دیا بقول ان کے وہ موت کی آہٹ سن رہی ہیں اور چاہتی ہیں کے کم از کم دونوں بالغ بچوں کو اپنی زندگی میں ہی سیٹ کر دیں ۔۔غزالہ کے بارے میں وہ بےبس تھیں ۔۔یوں جب اکبر چھبیس سال کا ہوا اور غزالہ دس برس کی تھی ،تواکبر کی خواھش پے ہی اس کے دوست کی بہن فرحین اس کی دلہن بن کے چلی آئ. ۔فرحین اچھے مزاج کی سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ ۔۔اس نے آ تے ہی گھر سنبھال لیا۔ ۔۔نگار کی عزت کرتی اور غزالہ سے پیار ۔۔۔نگار بیگم کو بھی دلی سکون ھوا کہ اگر ان کی آنکھ بند ہو بھی جاتی ہے تو فرحین گھر کا اور غزالہ کا خیال رکھے گی ۔۔
دو سال بعد اکبر کو اللّه تعالی نے چاند سے بیٹے سے نوازا ۔۔۔روبینہ تاحال اولاد کی نعمت سے محروم تھیں ۔۔۔اکبر کا بیٹا چار ماہ کا تھا جب ایک دن چپکے سے نگار بیگم کی آنکھ بند ہوگئی ۔۔۔زینب بیبی تو سہیلی جیسی بہن کو کھو کے با لکل ڈھے گئیں ۔۔۔غزالہ کی حالت دیکھی نہ جاتی ۔۔زینب بیبی غزالہ کو دیکھ دیکھ کے کڑھتیں ۔۔۔ما ں باپ کی لاڈلی ساڑھے بارہ سال کی عمر میں ما ں باپ کےساۓ سے محروم ہو گئی تھی ۔۔۔ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔۔۔انہو ں نے عثمان احمد شاہ اور اپنے ساس سسر کی رضا مندی سےغزالہ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے اکبر سے بات کی لیکن وہ نہ مانا ۔۔۔اسے گوارا نہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوے اس کی بہن کسی اور کے گھر پرورش پاے پھر چاہے وہ ما ں جیسی خالہ ہی کیوں نہ ہو۔ ۔۔۔
دن یوں ہی گزرتے رہے ،زینب اکثر ہی اکبر کے گھر کے چکر لگاتی رہتیں ۔۔۔وہ بھی ایک عام سا سردیوں کا دن تھا جب شام کے وقت وہ پہنچیں ۔۔ ۔غزالہ نے دروازہ کھولا تو عجیب گندے میلے حلیے، گیلے لباس، بکھرے بالو ں میں نظر ای۔ ۔۔زینب اندر آئیں تو گھر بھی بہت گندہ ہورہا تھا ۔۔زینب بی بی اس کی حالت اور گھر کی حالت دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کہ فرحین ایک نفاست پسند لڑکی تھی ۔۔۔باورچی خانے کا حال بھی بہت خراب تھا ۔سنک کی نالی بند تھی ۔۔اس میں اوپر تک پانی جمع تھا ۔۔جس میں چاۓ کی پتی ۔دودھ کی بالائ۔سالن میں ڈلے ہویے ٹماٹر کے ٹکڑے تیر رہے تھے جب کہ اسی پانی میں ہاتھ ڈال ڈال کے غزالہ برتن دھونے میں مصروف تھی ۔۔۔زینب کی طبیعت یہ منظر دیکھ کر مکدر ہو گئی ۔۔۔انہو ں نے غزالہ سے پوچھا کہ فرحین کہاں ہے ؟
“منے کو کل سے بخار ہے ۔بھابی کو بہت تنگ کر رہا ہے کوئی کام نہیں کرنے دے رہا ۔بھابی ابھی دوائی پلا کے اسے سلانے گئی ہیں تو مجھے کہا کہ تم برتن دھو لو میں آ کے گھر کی صفائی کرتی ہوں اورکھانا پکاتی ہوں ۔۔۔ “غزالہ نے تفصیلی جواب دیا ۔۔۔
“ہوں ۔۔.چلو تم ہٹویہاں سے اور جاؤ جا کر گرم پانی سے نہاؤ ۔بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے بیمار نہ پڑ جانا بلکہ پہلے مجھے جھاڑو کا ایک تنکا لا کے دو تا کہ یہ نالی تو کھولو ں ۔۔۔”زینب بی بی نے اسے بھیجا اور خود برتن اکھٹے کرنے لگیں ۔۔۔
جب ہی فرحین چلی آئیں ۔۔وہ گھر کی ابتر حالت میں زینب کی موجودگی سے گھبرا گئیں ۔ساتھ یہ بھی احساس تھا کہ انہو ں نے سخت سردی میں غزالہ کو برتن دھوتے دیکھ لیا ۔۔۔
“خالہ جان آپ ہٹیں۔۔ میں کرتی ہوں ۔۔دراصل منا بیمار ہے کوئی کام ۔۔۔۔ ” انہوں نے ہچکچا کر وضاحت دینی چاہی
“کوئی بات نہیں بیٹی ۔چھوٹے بچے کے ساتھ اکثر ایسا ہو جاتا ہے ۔۔”انہو ں نے غزاله کے ہاتھ سے تنکا لیتے ہوے بیچ میں ٹوکا ۔۔
“تم گھر کی صفائی کر لو میں جب تک برتن دھو کے چاۓ بناتی ہوں اکبر میاں کے آ نے کا ٹائم ہے اچھا نہیں لگتا مرد کام سے لوٹے تو گھر کی حالت خراب ہو ۔۔”
انہوں نے رسان سے کہا تو فرحین صفائی کرنے چلی گئیں ۔۔۔۔
جب فرحین صفائی کر کے فارغ ہوئیں تو زینب نا صرف برتن دھو چکی تھیں بلکہ رات کے کھانے کے لئے طاہری کا مسالا اور غزالہ کے لئے فرنچ فرائز بھی بنا چکی تھیں ۔۔”چلو جاؤ۔۔ اب تم جلدی سے جا کے نہا دھو لو ۔ اکبر کے گھر آ نے کا وقت ہے ۔”۔فرحین نے ممنون نظروں سے انہیں دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔۔
اکبر گھر آیا تو خالہ کودیکھ کر بہت خوش ہوا ۔۔
وہ افضل بھائی کی طرح تھیلی بھر کے غزالہ کے لئے کھا نے پینے کی چیزیں لایا تھا ۔۔زینب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔
خوشگوار ماحول میں چاۓ پینے کے بعد ۔۔بچے کے رونے کی آواز سن کر فرحین کمرے میں چلی گئی ۔۔۔
“غزالہ جاؤ بٹیاتم جا کے با ہر کھیلو ۔۔۔”غزالہ کو بھیجنے کے بعد وہ اکبر سے مخا طب ہوئیں ۔۔۔
“اکبر مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔۔”
“کہئے خالہ جان ۔۔” وہ متوجہ ہوا
“دیکھو بیٹا!! میری بات تحمل سے سننا ۔۔۔”
“کیا بات ہےخالہ جان ؟سب خیریت تو ہے ؟”
اکبر متفکر ہوا ۔۔۔
“ہاں سب خیریت ہے ۔۔اللّه کا شکر ہے ۔۔۔بات یہ ہے کہ ۔۔۔
غزالہ عمر کے جس حصے میں ہے، اسے تربیت کی بہت ضرورت ہے ۔۔۔فرحین ماشاءالله سمجھدار بچی ہے ،غزالہ کا مقدور بھر خیال بھی رکھتی ہے، لیکن چھوٹے بچے اور گھر کی ذمے داری کے ساتھ وہ غزالہ کو وہ توجہ نہیں دے سکتی جس کی وہ متقاضی ہے ۔۔۔اللّه رکھے آگے اور بچے بھی ہوں گے فرحین کی زمےداریوں میں اضافہ ہوگا ۔ایسے میں اس پہ غزالہ کی تربیت اور شخصیت سازی کا بوجھ ڈال دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے ۔فرحین خود ابھی بائیس تئیس سال کی لڑکی ہے جب کہ غزالہ کو قدم قدم پر رہنمائی کے لئے ایک تجربہ کار عورت کی ضرورت ہے ۔۔۔”
اکبر غور سے ان کی بات سن رہا تھا اور دل میں ان سے متفق بھی تھا ۔۔
“اس لئے میں چاہتی ہوں کہ میں غزالہ کواپنے گھر لے جاؤں اور اس کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے سکوں ۔۔۔اللّه تمہیں سلامت رکھے تم اس کے سرپرست ہو اپنے ہاتھ سے اس کی ذمے داری پوری کرنا انشااللہ ۔۔۔بس یوں سمجھو کہ میں اس کی زندگی میں نگار آپا اور افضل بھائی کا کردار ادا کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔”
ان کی بات مکمل ہوئی تو اکبر نے گہری سانس لی ۔۔۔
انہیں بھی کئی مرتبہ یہ محسوس ہوا تھا کہ فرحین ،غزالہ پہ توجہ نہیں دے پا رہیں ۔۔۔۔خاص طور پر اس کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ ۔۔گزشتہ ایک ماہ میں اس کے اسکول سے دو دفعہ شکایت موصول ہو چکی تھی ۔۔۔ایسے میں زینب خالہ کا فیصلہ غزالہ کے لئےبہترین اور وقت کی ضرورت لگا انہیں .
ایسا نہیں تھا کہ فرحین بری بھابی تھی ۔۔۔وہ غزالہ کا مقدور بھر خیال رکھنے کی کوشش کرتی تھی لیکن پہلی بار ما ں بننے کا تجربہ پھر ساس کا اچانک انتقال گھر بھر کی ذمے داری ان ساری چیزوں نے اسے بوکھلا کے رکھ دیا تھا ۔۔۔
“ٹھیک ہے خالہ جان !!یہ بھی آپ کا مجھ پے احسان ہی ہے کہ آپ غزالہ کی ذمےداری اٹھا رہی ہیں ۔۔اما ں ابّا کے بعد آپ نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ بے شک آپ غزالہ کی بہترین تربیت کرینگی ۔۔”انہوں نے گلوگیر لہجے میں کہا ۔۔۔۔
“ہش ۔۔۔خبر دار جو ایسی غیروں والی باتیں کیں۔تم تینو ں میرے اپنے بچے ہو ۔۔۔تم جب دل چاہۓ بہن سے ملنے آنا وہ بھی آتی جاتی رہے گی ۔۔۔چلو اب فرحین کو بلاؤتا کہ میں اس سے بھی طریقے سے بات کروں کہیں بچی کے دل میں کوئی غلط بات آ جائے کہ میں نے اس پے بھروسہ نہیں کیااور پھر مجھے گھر چھوڑ کے آؤ ۔۔”
اور یوں وہ غزالہ کو اپنے ساتھ گھر لے آئیں ۔۔۔گھر میں نہ صرف عثمان صاحب بلکہ ان کے ساس سسر نے بھی ان کے فیصلے کو سراہا۔۔۔۔وہ خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھیں کہ جس نے انہیں ایسا مثالی گھرانہ دیا جو ہر قدم پر ان کا ساتھ دیتا تھا۔ ۔۔
غزالہ اپنی خالہ کے گھر آ کے بہت خوش تھیں ۔۔۔عائشہ آپی سے اس کی خوب بنتی تھی ۔۔۔
سہیل صاحب نے اس کا داخلہ گھر کے نزدیکی اسکول میں کروادیا ۔پڑھائی میں کبھی راحیل صاحب کبھی عائشہ اس کی مدد کرتے ،تو دوسری طرف زینب بیبی اسے ایک سلیقہ مند لڑکی بنانے پہ کمربستہ تھیں ۔۔
یوں زندگی کے کئی سال گزر گئے، یہاں تک کہ زینب بیبی کے ساس سسر کا انتقال ہو گیا اور گھر میں سہیل صاحب کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے چوتھا دن تھا لگاتار آفس اتے ہوۓ۔۔۔فاروقی صاحب بہت خوش تھے کہ بلاخر وہ بزنس کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے ۔۔۔
“منال بیٹا یہ فائل سٹدی کر لینا ۔۔کل ہمارے نۓ بزنس پارٹنر کے ساتھ میٹنگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم یہ میٹنگ میرے ساتھ اٹینڈ کرو ۔۔۔”
“اوکے ڈیڈی !!!ا ای ول سٹڈی دس ۔۔۔اب میں جاؤں ؟ بہت تھک گئی آج ۔۔۔۔”اس نے اپنی گردن کو دائیں بائیں حرکت دیتے پوچھا
“ہاں جاؤ ۔۔۔جا کے ریسٹ کرو میری جان ۔۔”فاروقی صاحب نے پیار سے کہا
“آپ نہیں آ رہے ۔۔۔؟” ٹیبل پے سے اپنا بیگ اٹھاتے ان سے پوچھا ۔۔
“نہیں میری ابھی مینیجر صاحب کے ساتھ ایک میٹنگ ہے اس کے بعد نکلوں گا ۔۔”
“اوکے بائے ۔۔۔۔سی یو ۔”
آفس سے با ہر نکل کے پارکنگ کی طرف جاتے ہوے واٹس اپپ کھول کے غازیان کی چیٹ کھولی ۔۔۔اس کے کۓ گۓ میسیجز دیکھے جا چکے تھے لیکن حسب تو قع اس کے میسیجز کے جواب میں بھی کوئی میسج نہیں تھا ۔۔۔نفی میں سر ہلاتے ہوے اسے میسج کیا ۔۔۔
“کیسے ہو ؟ پاکستان واپس کب آو گے ۔۔۔؟ آئ ایم مسنگ یو ۔۔”
اور گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
آج کتنی بری طرح ہرایا نہ میں نے اور بابا نے تم لوگوں کو ۔”۔رات کو سونے کے لئے لیٹتے ہوۓ زویا نے ایک مرتبہ پھر اس کے زخموں پر نمک چھڑکا ۔۔۔
آج بھی سہیل صاحب کے ساتھ لوڈو کا دور چلا تھا ۔۔اور ہمیشہ کی طرح سہیل صاحب اور زینب ۔۔جب کہ دوسری طرف راحیل صاحب اور زویا پارٹنرز تھے ۔۔
آج خلاف معمول زویا ،راحیل صاحب جیت گیے تھے۔ ۔اور زویا بار بار ذکر کر کے اسے چڑا رہی تھی۔۔۔
“اتنا مت اچھلو ۔۔۔زویا بیبی۔ کل تمھارے نصیب میں پھر ہار ہے ۔۔۔”اس نے بھرپور جوابی کاروائی کی . . .
“کل کس نے دیکھا ہے ۔۔۔آج کی خوشی بھرپور انجوآے کرنی چاہیے . . ” زویا نے کہا
“اچھا اب بہت انجوآ ے کر لیا اب سونے دو ۔۔مجھے صبح یونی بھی جانا ہے ۔۔۔تم تو فارغ ہو ۔۔”منہ پے چادر تان کے سونے لیٹ گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعدیہ صاحبہ ایک اچھے مزاج کی ہنس مکھ خاتون تھیں ۔۔۔سسرال کے ماحول میں جلدی گھل مل گئیں ۔۔۔عائشہ سے تو بہت جلدی دوستی ہو گئی تھی ۔۔عائشہ کو بھی اپنی امیر کبیر فیشن ایبل بھابی بہت اچھی لگتیں۔۔سعدیہ بھی عائشہ کو جدید فیشن کے بارے میں بتاتیں تو کبھی دونوں مل کے طرح طرح کے ماسک منہ پے لگاتیں کبھی کچن میں گھس کر نت نئی ڈشز بناتی رہتیں ۔۔ دونوں کی دوستی اس وقت اور گہری ہو گئی جب ۔۔۔سعدیہ کے پھوپی زاد بھائی جو امریکہ میں ملازمت کرتےتھے اور ان کی شادی میں شریک نہیں ہوے تھے ۔۔پاکستان آے تو سعدیہ اور سہیل کو شادی کی مبارکباد دینے ان کی سسرال آے اور ایک نظر میں ہی عائشہ کی موہنی صورت پہ دل ہا ر بیٹھے ۔۔۔ دو دن بعد ہی اپنے والدین کے ساتھ رشتہ لے کر حاضر ہو گیے ۔۔عثمان صاحب اور زینب بی بی کو بھی ابراھیم علی بہت بھا ے لیکن اکلوتی بیٹی کو اتنی دور بھیجنے کو دل نہ مانتا تھا ۔۔۔اسلئے انہوں نے انکار کر دیا ۔۔۔ابراھیم صاحب بہت دل برداشتہ ہوۓ ۔۔۔عائشہ بھی خاموش خاموش سی تھیں ۔۔انہیں بھی لمبے چوڑے سنجیدہ سے ابراھیم اچھے لگے تھے لیکن مشرقی لڑکی تھیں اپنے گھر والوں کی رضامیں راضی تھیں ۔۔
ایسے میں سعدیہ ہی تھیں جنہوں نےناصرف گھر میں سب کو منایا۔۔عطاء اللّه صاحب سےبھی ابراھیم کی ہر طرح کی ضمانت دلوائ ۔۔یوں عثمان احمد شاہ کو ہاں کرتے ہی بنی ۔۔۔ سعدیہ نے ہی ابراھیم کی خوا ہش کے مطابق پندرہ دن کے اندر نکاح کے لئے سب کو منایا ۔۔۔یوں چھے مہینے کے اندر اندر عائشہ بیاہ کے امریکا چلی گئیں ۔۔۔
شادی کے بعد تو عائشہ سعدیہ کی اور گر ویدہ ہو گئیں ۔۔بلا شبہ سعدیہ کی کوششوں سے ہی انہیں اتنا اچھاچاہنے والا شوہر ملا تھا ۔۔عائشہ کے لئے سعدیہ کی کسی بات سے اختلاف کرنا گناہ بن گیا ۔۔
جہاں سعدیہ کا رویہ سب کے ساتھ دوستا نہ تھا وہیں انہیں غزالہ سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔۔۔گھر میں مالكانا حقوق سے رہنا۔۔۔ ہر بات میں بولنا۔۔۔ سب گھر والو ں کا غزالہ کو سگی بیٹی جیسی اہمیت دینا ۔۔۔سہیل اور راحیل کا غزالہ کے لاڈ اٹھانا سعدیہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا ۔۔کئی مرتبہ سہیل صاحب سے اس بات پے بحث ہو چکی تھی ۔۔ان کا کہنا تھا کہ اپنا گھر بار ہوتے ہوے وہ خالہ کے ہاں کیوں پڑی ہے اپنے گھر جائے ۔۔۔ایک دو مرتبہ زینب بی بی سے بھی تلخ کلامی ہو چکی تھی ۔۔۔زینب بیبی کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ غزالہ۔ کے وجود پے سوال اٹھایا جائے ۔۔۔اتنے سال اسے ماں بن کے پا لا تھا ۔۔جب ان کے شوہر اور ساس سسر نے کوئی اعتراض نہ کیا تو یہ کل کی آئ لڑکی اعتراض اٹھانے والی بھلا کون ہے ؟
اسی بات پے دونو ں ساس بہو کے درمیا ن کشید گی پیدا ہوگئی ۔۔۔نہ زینب بی بی معاملہ فہمی سے اس معاملے کو حل کرنے پے تیار تھیں نہ ہی سعدیہ دل میں وسعت پیدا کر سکیں ۔۔۔سہیل صاحب نے بھی دونو ں کو سمجھا نے کی کوشش کی پھر انہیں ان کے حال پے چھوڑ دیا ۔۔۔ویسے بھی وہ اجکل اپنے بزنس میں بے انتہا مصروف تھے ۔۔۔
کراچی میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی تو سہیل صاحب نے بزنس کو فیصل آباد شفٹ کر دیا کیوں کہ وہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو عروج تھا ۔۔۔اور تین مہینے بعد سعدیہ اور بچوں کو بھی وہیں بلا لیا ۔۔بس پھر زمینی فاصلوں کے ساتھ دلوں میں بھی فاصلے بڑھتے گئے ۔۔۔سعدیہ کے والد کی تو وفات ہو چکی تھی رابعہ بھی بیاہ کے لاہور چلی گئیں تو سعدیہ کا کراچی آنا بالکل ہی ختم ہو گیا ۔۔عثمان صاحب کی وفات پے سعدیہ ہفتہ بھر کراچی رہنے آئیں ۔۔
دو چار مہینے بعد سہیل صاحب ماں اور بھائی سے کھڑے کھڑے ملنے آ جاتے ۔۔بعد میں یہ دو چار مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے ۔۔۔رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب زینب بیبی نے بیٹیوں جیسی بھانجی کو بہو بنانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔سعدیہ بیگم نے نا صرف خود کھل کے مخا لفت کی بلکہ راحیل صاحب کو بھی اس شادی سے انکار کرنے پے اکسایا ۔۔۔جس سے زینب بیبی سعدیہ کے اور خلاف ہو گئیں ۔۔عائشہ سعدیہ کی ہر معاملے ہمنوا تھیں ۔۔۔اس طرح سعدیہ عائشہ کا الگ گروپ بن گیا اور راحیل صاحب غزالہ سے شادی کرنے کی پاداش میں الگ کر دیے گئے ۔۔۔سعدیہ کو نا گوار نہ گزرے اس لئے عائشہ نے بھی چھوٹے بھائی اور سگی بہنو ں جیسی غزالہ سے نا ہونے برابر تعلق رکھا ۔۔۔سعدیہ کے بچے بھی دادی اور چچا کی فیملی سے دور ہو گئے ۔۔بلکہ چچا کی فیملی کے بارے میں تو بنیادی باتیں بھی نہ جانتے تھے ۔۔۔کہ سعدیہ کو اپنے گھر میں غزالہ کا ذکر تک کرنا پسند نا تھا ۔۔اوائل عمر فیصل آباد میں گزار کے سہیل صاحب بچوں کو آعلیٰ تعلیم کے لئے لندن اور امریکا بھیج دیتے ۔۔۔خود بھی چھٹیاں گزارنے پوری فیملی امریکا یا لندن چلی جاتی ۔۔۔اس طرح بچے ددھیال میں بس پھوپی سےمانوس تھے ۔راحیل احمد کے ساتھ اتنا بیگانو ں والے سلوک پہ زینب بیبی کڑھتی رہتیں ۔۔۔اور اسی غم کو ساتھ لے کر ایک دن دنیا سے چلی گئیں ۔۔۔ان کے انتقال کے بعد سہیل صاحب کا کبھی کبھار کا آنا بھی ختم ہو گیا اور رابطہ بس فون تک ہی محدودہو کر رہ گیا۔۔حالاں کہ چند سال پہلے وہ واپس اپنے آبائی شہرشفٹ ہوچکے تھے ۔ ۔راحیل صاحب نے شروع میں میل جول کی کوشش کی پھر انھیں احساس ہوا کے ان کے امیر کبیر بہن بھائی غریب بھائی سے ملتے ہوے شرم محسوس کرتے ہیں ۔۔تو وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ۔۔۔۔۔
ازلان کے لئے جب سعدیہ نے رباب کا ہاتھ مانگا تو عائشہ کھل اٹھیں ۔۔اور سعدیہ کے آگے اور زیر بار ہوگئیں کہ انہوں نے اپنے لائق فائق خو برو بیٹے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی چھوڑ کے ان کی بیٹی کا انتخاب کیا ہے ۔۔۔ڈھائی سال پہلے جب سعدیہ کو کینسر ڈا یگنوز ہوا تو زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔۔پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود سعدیہ صاحبہ نا بچ سکیں ۔۔ اور چھ مہینے میں ہی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔۔سہیل صاحب ان کے انتقال کے بعد بہت زودرنج ہو گئے ۔۔۔گزرے ماہ و سال کا حساب کرنے بیٹھے ۔۔۔۔
تو احساس ہوا کہ نہ صرف چھوٹے بھائی کے ساتھ زیادتی کر چکےبلکہ بیوی کی بلا وجہ کی نفرت میں چھوٹی بہنوں جیسی بھابی کے ساتھ بھی غلط کر گئے ۔۔۔ نا ہی ماں کی خدمت کر کے بیٹا ہونے کا فرض نبھایا ۔۔۔
پاکستان واپس آ نے کے کافی مہینوں بعد بھائی کے گھر آنے کی ہمّت کر پاے ۔۔جہاں ہمیشہ ان کی محبت کو ترسے بھائی نے کھلے دل سے انھیں گلے لگا لیا ۔
…………………………………………………………………………………………
“ڈیڈ اب آپ نے مکمل ریسٹ کرنا ہے ۔۔۔موم کی ڈیتھ کے بعد آپ نے اپنا خیال رکھنا بالکل چھوڑ دیا۔۔”شایان نے سہیل صاحب کا بلنکٹ درست کرتے ہوے کہا ۔۔
سہیل صاحب کی شام سے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ۔۔ابھی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر شایان نے ڈاکٹر کو کال کر کے بلالیا ۔۔جس نے شوگر اور بلڈ پریشر بہت ہائی بتایا۔۔۔ذہنی دباؤ سے بچنے اور مکمل ریسٹ کرنے کاکہا ۔۔۔
“یار میرا دل گھبراتا ہے خالی گھر کاٹ کھا نے کو دوڑتا ہے ۔۔۔۔تم سارا دن آفس میں ہوتے ہو ۔۔۔تمہاری ماں تھی تو کوئ بات چیت کرنے والا تھااب تو سارا دن دیواریں تکتے گزر جاتا ہے۔۔” سہیل صاحب نے گلوگیر لہجے میں کہا ۔۔۔
“انکل آپ فکر نہ کریں ہم سب آپ کے پاس ہیں ۔۔۔میری رباب بھابی سے بات ہوئی ہے وہ بتا رہی تھیں کہ وہ لوگ بھی جلد ہی پاکستان کا چکر لگائیں گے ۔۔۔۔”امل نے جو ابھی سوپ کا پیالہ لے کر آئ تھی ۔۔سہیل صاحب کو بتایا ۔۔تو وہ خوش ہو گئے ۔۔
“ارے واہ بیٹا !!یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے ۔۔”
“بچو!!غازیان اور ازلان کو نہ بتانا میری طبیعت کے بارے میں ۔بلا وجہ پریشا ن ہوں گے دونوں ۔۔۔اور ہاں راحیل کا فون آے تو اسے بھی نہ بتانا شایان ۔”سہیل صاحب نے ھدایت دی ۔۔۔
“اوکے ڈیڈ ۔”شا یا ن نے سر ہلایا
” راحیل انکل کا فون بس انے ہی والا ہے۔ ۔آج آپ گئے نہیں نا ں ان کی طرف ۔۔”امل مسکراتے ہوے بولی
“ماشاءالله ایسی رونق رہتی ہے راحیل کے گھر میں۔ ۔۔بھرا پورا گھر ہے ۔بچیاں چھوٹا سا پوتا اس کا خوب رونق لگا ے رکھتے ہیں ۔۔اب تم دونوں بھی مجھے دادا بنانے کے بارے میں سوچو کچھ ۔۔۔بہت فارغ پھر لئے ۔۔۔”
سہیل صاحب کے کہنے پے شا یا ن نے معنی خیز نظروں سے امل کو دیکھا جب کہ وہ جھینپ کے رہ گئی ۔۔۔
“غازیان سے بات ہوئی شایان وہ کب آ رہا ہے ؟کچھ بتایا اس نے ؟”سہیل صاحب نے استفسار کیا
“بس بزنس کے امور پے ہی بات ہوئی ہے۔۔آنے کا کچھ نہیں بتایا ۔۔کافی بزی ہے وہاں وہ ۔۔ا یک دو نیو پڑوجیکٹس پے کام کر رہا ہے ۔۔۔”شایان نے تفصیل سے جواب دیا
“انکل آپ غازیان کی شادی کروا دیں اب تا کہ گھر میں کچھ نئی تبدیلی آ ے اور اس کا بھی گھر میں دل لگے ۔۔۔”امل نے مشورہ دیا ۔۔۔
“ہوں۔۔۔ٹھیک کہہ رہی ہو بیٹا لیکن وہ مانے تو سہی شادی کے لئے ۔۔۔اب آے تو بات کرتا ہوں اس سے ۔۔”سہیل صاحب نے ہنکارا بھرا اور پرسوچ لہجے میں کہا ۔۔۔
” ڈیڈ اب آپ ریسٹ کریں ۔۔۔” شا یا ن نے سہیل صاحب کو غنودگی میں جاتے دیکھ کے کہا اور امل کو ساتھ لیتا کمرے کی لائٹ بند کر کے با ہر نکل گیا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial