میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 9

سہیل صاحب کو آج پھرگھر میں دیکھ کر سب ہی حیران رہ گئے۔ ۔۔کل جس موڈ میں وہ گئے تھی لگتا نہ تھا کہ اتنی جلدی دوبارہ ان کی آمد ہوگی ۔۔۔سب نے ہی خوشدلی سے انکا استقبال کیا ۔۔
راحیل صاحب کل سے اسی خدشے میں مبتلا تھے کہ رشتے سے انکار کرکے انہوں نے اپنے بھائی کو پھر سے دور کردیا ۔۔بڑے بھائی نے رشتے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جب کہ وہ ان کی پذیرائی نہ کر سکے ۔۔یہ احساس انھیں کل سے بے چین کیے ہوے تھا۔ ۔۔اب ان کے آ نے سے نا صرف راحیل صاحب کھل اٹھے بلکہ غزالہ اور زین نے بھی شکر کا سانس لیا ۔۔سہیل صاحب بالکل ہشاش بشا ش تھے ان کے چہرے پے کسی بد مزگی کا شائبہ تک نہ تھا ۔۔زین کو تایا کی طرف سے برد باری کا یہ مظاہرہ بہت اچھا لگا . اسے یقین ہوا کہ اب راحیل صاحب بھی جلد ہی نارمل ہو جاییں گے ۔۔۔
رسمی سی گفتگو کے بعد سہیل صاحب نےزویا سے زینب کو بلانے کا کہا اور کمرے میں موجود راحیل صاحب ،غزالہ صاحبہ اور زین کو مخاطب کیا ۔۔
“کل میں نے تم لوگوں سے جو بات کی تھی اسے بھول جاؤ ۔۔میں بھی بھول گیا ۔۔غازیان اور زویا کا ساتھ قسمت میں نہیں تھا ۔۔اور بیشک اسی میں اللّه کی طرف سے بہتری ہوگی” ۔۔۔تینو ں نے شدو مد سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔
“آج میں تمھارے پاس غازیان کے لئے زینب کا رشتہ مانگنے آیا ہوں ۔”
انہوں نے تینو ں کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوے کہا ۔۔
راحیل صاحب کے تاثرات پرسکون رہے جب کہ زین اور غزالہ صاحبہ متحیر نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔
“تم بتاؤ غزالہ۔۔کیا زینب کا رشتہ بھی تم نے کہیں طے کر رکھا ہے ؟”
انہو ں نے جتا تے لھجے میں سوال کیا تو غزا لہ گڑ بڑااگئیں ۔۔۔
“نا ۔۔نہیں ۔۔سہیل بھائی زینب تو ابھی بہت چھوٹی ہے پڑھ رہی ہے ابھی اس کی شادی کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں ۔”
راحیل صاحب نے غزالہ کو تیز نظروں سے دیکھا وہ کیا جتانا چاہ رہی تھیں ۔۔۔وہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ۔۔
“سہیل بھائی غازیان بہت اچھا قابل بچہ ہے ۔۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے زینب کے لئے ایسا سوچا ۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔”
راحیل صاحب نے ایک دم تیزی سے کہا تو غزا لہ صاحبہ تو پہلو بدل کر رہ گئیں مگر زین خاموش نہ رہ سکا ۔اور انھیں بے ساختہ ٹوک گیا ۔۔
“بابا!!! آپ ایسے ایک دم رضامندی کیسے دے سکتے ہیں؟”
برخور دار !! زینب میری اولاد ہے اور مجھے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔۔میرا نہیں خیال مجھے کسی کی اجازت درکار ہے ۔
انہوں نے خفگی بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔سہیل صاحب خاموشی سے زین اور غزالہ صاحبہ کو دیکھ رہے تھے جو ناخوش نظر اتے تھے ۔۔۔وہ ان کا مطمع نظر سمجھتے تھے۔ ۔ایک طویل عرصے سے دونوں خاندانوں کے بیچ رابطہ منقطع رہا تھا۔ ۔اب اچانک ایک دم سے نئے رشتے بناناجب کہ پرانا تعلق بحال ہوے ہی ابھی کچھ دن ہوے تھے ۔۔۔مشکل تھا ۔۔انھیں ان دونوں کا رد عمل بالکل جائز لگا ۔
“آپکو زینب کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کی نہ سہی لیکن زینب کی مرضی ضرور درکار ہے ۔۔”زین نے اکھڑے لہجے میں کہا ۔
“زینب میری بیٹی ہے ۔۔وہ میرے فیصلے سے اختلاف نہیں کرے گی ۔”
راحیل صاحب دوٹوک بولے ۔۔
“زین صحیح کہہ رہا ہے راحیل ۔۔اس طرح کے فیصلے جذباتی ہو کر جلد بازی میں نہیں کئے جاتے ۔۔تم آرام سے سوچ سمجھ لو ۔۔زینب کی بھی مرضی معلوم کرو ۔۔۔میں نے بھی اپنے بیٹے کی مکمل رضامندی سے تم سے یہ بات کی ہے ۔۔۔میری دلی خواھش ہے اپنے بچوں کے درمیان مضبوط تعلق قائم کرنے کی لیکن بہر حال میں کسی زور زبردستی کا قائل نہیں ہوں ۔” ۔سہیل صاحب نے سلجھے ہوے لہجے میں راحیل صاحب کو سمجھایا ۔۔۔اسی وقت زینب چلی آئ ۔۔
“السلام علیکم بڑے ابّا ” پاس آکر ادب سے سلام کیا
“وعلیکم السلام ۔۔جیتی رہو میری بیٹی ۔” سہیل صاحب نے محبت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا ۔اور اٹھ کھڑے ہوے ۔۔۔
“اچھا بھئی اب اجازت دو ۔۔”انہوں نے کہا تو زینب سب سے پہلے بولی۔۔ “ابھی سے کیوں جا رہے ہیں ۔۔؟ بیٹھیں نا میں چاۓ بنا کر لاتی ہوں ۔۔”
“نہیں میرا بچہ !!آج چاۓ نہیں پیوں گا ۔۔۔مجھے ایک دوست کی طرف جانا ہے۔ ۔میں تو ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لئے رکا ہوا تھا ۔اب چاۓ تب پیوں گا جب تمھارے بابا مجھے خود بلائیں گے ۔۔۔ نا صرف چاۓ پیوں گا بلکہ کھانا بھی کھاؤں گا ۔۔”
انہوں نے بہت پیار سے زینب سے کہتے ہوے جتاتی نظروں سے راحیل صاحب کو دیکھا ۔۔۔ان کی بات کا مفہوم وہ تینو ں ہی بہت اچھی طرح سمجھ گئے تھے ۔۔
بیشک سہیل صاحب ایک گھاگ بزنس مین تھے ۔۔زندگی بھر پبلک ڈیلنگ کرتے رہے تھے۔ ۔۔مقابل سے اپنی بات کیسے منوانی ہے ۔۔۔وہ اچھی طرح جانتے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اب تم دونوں ماں بیٹے کو کیا تکلیف ہے ۔۔؟” راحیل صاحب کے جانے کے بعد غزالہ صاحبہ نے زینب کو چاۓ بنانے کے لئے بھیجا ۔۔تو راحیل صاحب نے غصے سے غزالہ صاحبہ اور زین کو مخاطب کیا ۔
“بابا !!بڑے ابّا اور ہماری حثیت میں بہت فرق ہے ۔۔۔ایسا بے جوڑ رشتہ آپ کیسے جوڑسکتے ہیں ۔۔۔؟” زین نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
“صاحبزادے!! سہیل بھائی نےاس دن صاف لفظوں میں کہا تھا حثیت کو درمیان میں نہ لاؤ ۔۔بہتر ہے تم بھی اب یہ بات نہ کرو ۔۔ویسے بھی ہم نے بیٹی دینی ہے ان کی بیٹی نہیں لانی جو اپنی حثیت کو دیکھیں ۔۔میرا نہیں خیال غازیان میں کوئی کمی ہے وہ ایک انتہائی ذہین سمجھدار قابل ۔خوبرو ۔آعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی لحاظ سے مستحکم نوجوان ہے۔۔پھر انکارکا کیا جواز رہ جاتا ہے ۔۔؟راحیل صاحب نے زین کا اعتراض رد کرتے ہوے سوال کیا ۔
“بابا !! یہی تو بات ہے اس لڑکے کا طرز زندگی ہم سے یکسر مختلف ہے ۔۔نہ ہمارا گھرانہ اور نہ ہماری سیدھی سادھی زینب کچھ بھی اس کے میعار کا نہیں ہے ۔۔۔اس نے زندگی کا بیشتر حصّہ ملک سےباہر گزارا ہے ۔ ایک سے ایک ماڈرن لڑکی سے دوستی ہے اس کی ۔۔اچھی خاصی گرل فرینڈز بھی ہیں ۔” زین نے آنکھیں گھماتےطنزیہ کہا ۔۔”وہ باپ کی بے انتہا دولت کے علاوہ اپنا بھی بہت بڑا بزنس چلا رہا ہے۔۔وہ لڑکا انتہائی بد دماغ اور مغرور ہے۔ ۔۔اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا۔۔اس کا ہمارے ساتھ گزارا ممکن نہیں ۔۔۔آپ نے دیکھا نہیں تھا کل بھی وہ یہاں مارے باندھے بڑے ابّا کی زور زبردستی کچھ دیرہی بیٹھا تھا بس “۔۔۔زین تو گویا پھٹ پڑا ۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا گھڑی کی چوتھائی میں رشتے سے انکار کروا دے ۔۔۔
“تم نے شاید سنا نہیں سہیل بھائی نے کیا کہا تھاوہ غازیان کی رضامندی سے رشتے کی بات کر رہے ہیں اور ہماری زینب کسی سے کم نہیں ہے پھر ہم کیوں الٹا سیدھا سوچیں “۔راحیل صاحب تو اس کے کسی بھی اعتراض کو خاطر میں ہی نا لا رہے تھے۔ ۔”اور تمہیں غازیان کے بارے میں بہت کچھ منفی پتا چل گیا رات و رات حالاں کہ تم زندگی میں دو تین دفعہ ہی اس سے ملے ہوگے ۔۔۔” انہوں نے زین کو طنزیہ دیکھتےکہا ۔
“میں جھوٹ نہیں بول رہا بابا ۔میں لڑکا ہوں بہت کچھ پتا چلتا رہتا ہے۔ ۔آپ گوگل کر لیں ۔ کافی کچھ گوگل پر بھی موجود ہے ۔۔۔خاصی مشہورو معروف شخصیت ہیں موصوف ۔۔” زین نے بھی باپ کے طنز کا بھرپور جواب دیا
“بہرحال !!مجھے اپنے خون پر مکمل بھروسہ ہے ۔۔گوگل پے کیا ہے کیا نہیں مجھے اس سے سر و کار نہیں ۔۔” راحیل صاحب نے ہاتھ اٹھا کے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔۔زین جو کچھ اور کہنے لگا تھا لب بھینچ کے رہ گیا ۔
“میں ہرگز بھی زینب کی شادی غازیان سے نہیں ہونے دونگی ۔۔” کب سے خاموشی سے بیٹے اور شوہر کی گفتگو سنتی غزالہ صاحبہ بولیں ۔۔”ساری زندگی میں ان لوگوں کے لئےناپسندیدہ رہی اب اپنی بیٹی کو اسی اذیت میں جھونک دوں تاکہ وہ بھی نا پسندیدہ ہستی بن کر عمر گزار دے ۔۔”غزالہ صاحبہ نے دو ٹوک کہا ۔۔
“ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔فضول باتیں مت کرو ۔۔”راحیل صاحب کچھ سننے کو تیار نا تھے ۔۔
“ایسا ہی ہوگا ۔۔” وہ اپنے لفظوں پر زور دے کر بولیں
“ہم مالی لحاظ سے کمزور تھے تو ساری زندگی آپکے بہن بھائی نے ہمیں اپنے قابل نہیں سمجھا ۔۔۔ہمیں عضو معطل کی طرح کاٹ کر پھینک دیا اب یہی کچھ میری بیٹی کے ساتھ ہوگا ۔۔” ۔غزالہ صاحب نے ایک اور دلیل دی۔
“ہم مالی لحاظ سے کمزور تھے جب کہ زینب غازیان کی بیوی بن کر جائے گی جو اس گھر میں مالی لحاظ سے سب سے زیادہ مستحکم ہے ۔” راحیل صاحب تو ہر اعتراض چٹکیوں میں اڑا رہے تھے ۔۔۔
“بابا !!زینب ابھی بہت کم عمر ہے شادی جیسی ذمےداری اٹھانے کے لئے اس کی عمر مناسب نہیں ۔” زین نے ایک اور جواز پیش کیا تو غزالہ صاحبہ بھی جلدی سے بولیں ۔۔
“راحیل !! زینب ماشاءالله بہت خوب صورت ہے ۔اسے رشتوں کی کمی نہیں۔ ۔ تعلیم مکمل کر لے پھر اپنے جیسے ہی لوگوں میں اس کا رشتہ کرد یں گے۔ ۔۔ابھی اتنی جلدی کیا ہے۔ ۔۔؟
راحیل صاحب نے ناگواری سے دونو ں کو دیکھا۔۔
“زینب دو تین ماہ بعد اکیس سال کی ہو جاےگی ۔۔اور شادی کے لئے یہ عمر بالکل مناسب ہے۔۔۔” انہوں نے پہلے زین سے کہا اور پھر غزالہ صاحب کی طرف متوجہ ہوے ۔۔”میں سہیل بھائی کو رشتے سے منع کر دوں تا کہ تم اپنے کسی بہن بھائی کے ہاں زینب کو بیاہ سکو ۔۔۔ ہیں نا ؟” انہوں نے غزاله صاحب کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوے طنزیہ لہجے میں پوچھا تو وہ خفیف سی ہو گئیں ۔
“مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ تم ماں بیٹا اپنے دل میں میرے بھائی کے لئے اتنا زہر لے کر بیٹھے ہو ۔تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو غازیان کو رشتوں کی کوئی کمی نہیں ۔۔پھر بھی اگر میرا بھائی خلوص دل سے مجھ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے ۔جو تم لوگوں سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔۔ ؟
“میں نے آج تک تمہاری ہر خواھش کا احترا م کیا غزالہ ۔۔ہر فیصلے میں تمہارا ساتھ دیا ۔۔۔چاہے وہ زین کی شادی کا فیصلہ ہو یا زویا کی ۔۔۔اور تم ۔۔تم کیا کر رہی ہو ۔۔؟ ” شدید غصے کے عالم میں سوا ل کیا ۔۔
“مجھے سہیل بھائی سے کوئی پرخاش نہیں ۔میں بس اپنی اولاد کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دینا چاہتی ۔”۔غزالہ صاحبہ رو پڑیں ۔۔۔۔
“کیا غلط ہو رہا ہے تمہاری اولاد کے ساتھ ؟” وہ دبا دبا چلآے
بابا آ پکی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔۔۔زین ایک دم انکے پاس آیا۔ ۔۔
انہوں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔
“کان کھول کر سن لو ۔۔۔میں زینب سے بات کروں گا اگر اسے کوئی اعتراض نہ ہوا تو چاہے کوئی راضی ہو یا نہ ہو میں زینب کی شادی غازیان سے ہی کروں گا ۔۔۔تم میرےہر بچے کی شادی اپنے بہن بھائی کے ہاں کرو یہ ضروری نہیں ۔۔”۔انگلی اٹھا کر غزا لہ صاحبہ کو وارن کرتے کمرے سے باہر نکل گئے ۔۔۔جہاں ٹھنڈی ہوتی چاۓ کی ٹرے تھامے فق چہرے کے ساتھ زینب اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھے پریشان سی زویا کھڑی تھی ۔۔راحیل صاحب دونوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکے پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھتے چلے گئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ڈنر کے بعد چاۓ کافی کا دور چل رہا تھا جب وہ گھر میں داخل ہوا ۔۔
“آؤ برخودار !! کہاں غائب تھے ۔۔؟ ڈنر پر بھی نہیں تھے ۔۔؟” سہیل صاحب نے پوچھا ۔
“منال آگئی تھی شام میں ۔۔۔بس اس کے ساتھ پلان بن گیا “۔انہیں جواب دیتے صوفے کی پشت سے سر ٹکا یا ۔
“غازیان کافی لو گے ؟ “امل نے پوچھا
“نو تھینکس ۔۔” نرمی سے جواب دیا
“اب تم سب لوگ موجود ہو تو میں تم لوگوں کو کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔” سہیل صاحب نے کہا۔
تینوں ان کی طرف متوجہ ہو گۓ ۔۔۔
“میں نے راحیل سے غازیان کے لئے زینب کا ہاتھ مانگا ہے” ۔۔۔سہیل صاحب کے کہتے ہی امل نے چونک کر شایان کو دیکھا ۔۔اسے اسی بات کا خد شہ تھا جب کہ غازیان اسی پوزیشن میں بیٹھا رہا ۔
“ابھی اسنے سوچنے کا ٹائم مانگا ہے لیکن مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کریگا ۔۔” سہیل صاحب نے مزید کہا تو شایان نے امل کے اشارہ کرنے پر بولنا شروع کیا ۔۔
“ڈیڈ !! آپ جانتے بھی ہیں ممی۔ غزالہ چچی کو کتنا سخت نا پسند کرتی تھیں پھر آپ ان کی بیٹی سے غازیان کی شادی کیسے کر سکتے ہیں ۔۔؟”
“تمہاری ماں ہمیشہ بلاجواز نفرت کرتی رہی ۔۔مجھے بہت افسوس رہے گا کہ میں اپنے بزنس میں مصروف رہا اور اسے، اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔۔۔کبھی اسے سمجھا نے اس کی بلاجواز نفرت ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ بلاوجہ اتنے سال تک اپنے بھائی سے غافل رہا ۔۔” سہیل صاحب نےرسان سے کہا
“مگر ڈیڈ !!غازیان کی جس طرح کی پرسنیلٹی ہے اس کے ساتھ کوئی ہماری سوسائٹی کی لڑکی ہی سوٹ کریگی ناکہ زینب جیسی سیدھی سادھی لڑکی ۔۔۔”
شایان پوری تیاری سے میدان میں اترا تھا ۔۔۔امل خاموش تھی ۔۔وہ کل ہی شایان کو بتا چکی تھی کہ سہیل صاحب غازیان کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور غازیان ۔منال میں انٹرسٹڈ نہیں جب کہ منال جی جان سے غازیان کو چاہتی ہے ۔۔اب اگر وہ سہیل صاحب کو قائل کر لیتا تو غازیان کو منال سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔
سہیل صاحب نے بغور جائزہ لیتی نظروں سے تینوں کو دیکھا ۔۔امل کے چہرے پر ناگواری تھی ۔ ۔۔جب کہ غازیان پرسکون سا بیٹھا تھا جیسے اس کے نہیں کسی اور کے رشتے کے بارے میں بات ہو رہی ہو ۔۔۔
“میں نے غازیان سے پوچھ لیا تھا ۔۔وہ ہماری سوسائٹی کی کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔” سہیل صاحب نے شایان اورامل کو جتایا ۔۔انھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے سعدیہ صاحبہ کی بلاجواز نا پسندیدگی کی وجہ سے امل اور شایان اس رشتے پر ناگوا ری ظاہر کر رہے ہیں ۔۔
“رئیلی غازیان !! تم راضی ہو ۔؟” ان کے کہتے ہی امل نے تحیر سے اسے دیکھتے پوچھا ۔۔ “ہاں ڈیڈ صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔” ۔غازیان نے نہایت آرام سے جواب دیا جب کہ پوزیشن ابھی بھی تبدیل نہیں کی تھی ۔۔
“لیکن زینب تو ۔۔” امل نے مزید کہنا چاہا ۔۔۔جب غازیان نے ہاتھ اٹھا کر اسے درمیان میں ٹوک دیا
“میں نے اپنی شادی کا اختیار ڈیڈ کو دیا تھا اب جہاں وہ چاہیں کریں ۔۔۔آئ ڈونٹ ہیو اینی پرابلم ۔” کندھے اچکا تے اطمینان سے کہا
“تم جانتے ہو ممی غزالہ چچی کو پسند نہیں کرتی تھیں پھر بھی تم ۔”
اس کے بے انتہا خشک انداز کے باوجود شایان نے ایک اور کوشش کی ۔۔۔
“اس کا جواب ڈیڈ تمہیں دے چکے ہیں اور میرے لئے ایک مرے ہوے انسان سے زیادہ ایک زندہ انسان کی خواھش کا احترام کرنا زیادہ اہم ہے ۔۔” دو ٹوک جواب دیتے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔گویا یہ ڈسکشن ختم کرنے کا اعلان کیا
“ڈیڈ !! حیدر آپ کو تھینکس کہہ رہا تھا۔۔۔” سہیل صاحب کے پاس رک کر کہا ۔۔
“شہباز کو تو میں نے راضی کر لیا اب وہ اپنی بھانجی کو منا لے ۔۔” انہوں نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔
“منا لیں گے ۔زیادہ مسلہ انہی کے ماننے کا تھا ۔۔۔” گڈ نائٹ گایز” سہیل صاحب سے کہتا سب کو ہاتھ ہلاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زینب گڑیا!! تمہیں بالکل پریشان ہونےکی ضرورت نہیں ہے۔ ۔بابا تم سے تمہاری مرضی پوچھیں گے توتم صاف انکار کر دینا ۔” اس وقت زینب اور زویا کے کمرے میں زین اور غزالہ صاحبہ بیٹھے تھے ۔۔۔جب زین نے اس سے کہا ۔۔۔
زینب عجیب سی صورت حال کا شکار تھی ۔۔۔مستقبل کے حوالے سے اس کے کچھ خواب تھے وہ ایم بی اے کر کے جاب کرنا چاہتی تھی۔ ۔فلحال اس نے شادی وغیرہ کے بارے میں نہیں سوچا تھا ۔اب ایک دم سے اس کی شادی کی بات ۔۔۔وہ بھی غازیان سے ۔۔۔سوچ کر ہی اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ۔۔نگاہوں کے سامنے غازیان کی با رعب شخصیت گھوم رہی تھی ۔
“ہاں زینب!! تمھارے بابا تو بھائی کی محبت میں ہر حقیقت فراموش کیے بیٹھے ہیں ۔در حقیقت یہ انتہائی بے جوڑ رشتہ ہے۔ ۔کہاں ان کا محلوں جیسا گھر۔۔ گاڑیاں ۔۔بنگلے ۔۔فیکٹریاں۔۔نوکر چاکر اور کہاں ہم سفید پوش لوگ ۔۔رشتے ناتے اپنے جسے لوگوں میں ہی جوڑنے چاہییں ۔۔” غزالہ صاحب نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام کے کہا ۔۔
“کل میں بالکل خاموش تھا کیوں کہ میں جانتا تھا زویا کا رشتہ طے ہے ۔۔۔بابا کی کیفیت وقتی ہے۔ اس لئے کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔۔لیکن بڑے ابّا نے آج نیا شوشہ چھوڑ دیا ۔۔شایان بھائی کی بیوی بڑ ی امی کی بھانجی ہے کل کووہ بھی بڑ ی امی کی طرح تمہیں بے بنیاد نفرت کا نشانہ بناۓ۔۔۔مجھے گوارا نہیں ۔۔بابا اور بڑے ابّا دونو ں جذباتی ہو رہے ہیں ۔۔مجھے یقین ہے کہ ۔۔” زین کہتے کہتے رکا ۔۔ایک نظر زینب کو دیکھا ۔۔زویا اور غزالہ صاحب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔”غازیان کو بھی بڑے ابّا نے پریشرایز کیا ہوگا ۔۔”
“هممم ۔۔” زین نے بات مکمل کی تو غزالہ صاحب نے گہری سانس خارج کی ۔۔۔”صحیح کہہ رہے ہو۔۔اچھا خاصا ملنا ملانا ہو گیا تھا ۔۔ بس ملتے رهتے یہ نئی رشتےداریاں بنانے کا نہ جانے کیا شوق چرایا ہے سہیل بھائی کو۔۔۔خیر زینی بچے تم بغیر ڈرے یا جھجھکے صاف انکار کر دینا اپنے بابا کو ۔۔ابھی تم اپنی پڑھائی مکمل کرو ۔شادی کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔۔۔”
غزالہ صاحبہ نے اس کا ماتھا چومتے کہا ۔۔۔۔۔
“اگر تم لوگ اسے ورغلا چکے تو میں اس سے کچھ بات کر لوں اب۔۔ “
راحیل صاحب کی آواز پر سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑے بے حد غصے سے غزالہ صاحبہ کو گھور رہے تھے ۔۔۔وہ اپنی جگہ چور پر سی ہو گئیں ۔۔
“سب باہر جایئں ۔۔۔مجھے زینب سے اکیلے میں بات کرنی ہے”۔ انہوں نے کہا تو نا چاہتے ہوے بھی زین اور غزالہ صاحبہ باہر نکل گۓ ۔ راحیل صاحب نے دروازہ بند کیا اور زینب کی طرف متوجہ ہوے جو اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔غازیان جیسا اسٹایلش۔۔ اتنا ویل ایجوکٹید اور اسٹیبلش لڑکا زینب جیسی سمپل لڑکی سے شادی کرنےکے لئے کسطرح حامی بھر سکتا ہے ۔۔؟ آئ مین ان لوگوں کا رہن سہن ۔ اسٹیٹس تو دیکھو ۔۔۔”
امل جو بے چینی سے کمرے میں مسلسل چکر لگا رہی تھی ۔۔۔شایان سے بولی
“امل !! تم جانتی تو ہو غازیان ۔ ڈیڈ سے کتنا اٹیچڈ ہے اور ڈیڈ کی راحیل چچا سے حد سے زیادہ جذباتی وابستگی کا بھی معلوم ہی ہے ۔۔بس اسی لئے غازیان راضی ہو گیا ہوگا اور ویسے بھی وہ غازیان ہے ۔۔ اچانک اور ایک دم منفرد فیصلے کرنے والا ۔۔” شایان نے لیپ ٹاپ پر ا ی میل چیک کرتے ہوے کہا ۔۔۔
“هممم ۔۔۔لیکن اس سب سے منال بہت اپ سیٹ ہوگی ۔۔۔میں نے تمہیں بتایا نا وہ غازیان کو بہت پسند کرتی ہے ۔۔” منال نے متفق ہوتے کہا تو شایان بولا ۔۔”ہو سکتا ہے وہ بھی غازیان کی طرح بس ایز آ فرینڈ پسند کرتی ہو اسے ۔۔”
“نہیں شان !!میری کبھی اس سے صاف اس ٹوپک پر بات تو نہیں ہوئی لیکن وہ میری بہن ہی نہیں بہترین دوست بھی ہے ۔۔میں اچھی طرح جانتی ہوں وہ شادی کرنا چاہتی ہے غازیان سے ۔۔اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی اسے کیسے ہینڈل کروں ۔۔۔ایئ تھنک میں کل ہی اسے غازیان کے رشتے کے بارے میں بتا دوں ۔۔۔” امل نے پریشانی سے استفسار کیا
“میرا نہیں خیال تمہیں منال کوابھی کچھ بتانا چاہیے ۔۔۔دیکھو ایک بات تو طے ہے اگر غازیان نے منال سے شادی نہیں کرنی تو پھر کچھ بھی ہو جائے نہیں کریگا ۔۔تو پھر منال کو اپ سیٹ کرنے کا فائدہ ۔۔؟ حالا ت کو ان کے دھارے پر چھوڑ دو ۔۔۔جب منال کو پتا چلے گا تب کی تب دیکھیں گے” اس نے لیپ ٹاپ فولڈ کرکے سائیڈ پر رکھتے کہا ۔۔
“کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو ۔۔۔مجھے منال کو ابھی غازیان کے رشتے وغیرہ کا نہیں بتانا چاہیے ۔۔” امل نے پر سوچ لہجے میں کہا
“ہاں ۔۔۔یہی ٹھیک ہے ۔اب پلیز لائٹ بند کر کے سونے آ جاؤ بہت رات ہو گئی ۔۔۔”شایان کہتے ہوے لیٹ گیا امل بھی لائٹ بند کر کے بستر پر چلی آئ ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial