میں اسیرِ محبت ہو گیا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

یہ کہانی ہے تین گینگسٹرز کی جن کا پوری مافیا دنیا میں راج تھا ۔ وہ تینوں پورے گینگسٹر ورلڈ کو اپنی انگلیوں پر نچاتے تھے ۔ ان کے نزدیک کسی کے احساسات اور درد کی اہمیت نہیں تھی ۔ وہ تینوں بے حد سفاک اور بے ر حم ۔
کہتے ہیں کہ مافیا کہ دنیا وہ دنیا ہے جہاں آپ ایک بار قدم رکھ دیں تو واپس آپ کی لاش ہی نکلتی ہے ۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں انسانوں کی نہیں بلکہ طاقت اور پیسے کی حکومت ہوتی ہے ۔ جہاں لوگوں کی سانسوں کی ڈور کو کاٹنا اور خواہشوں کو کچلنا بلکل ایسے ہے جیسے کسی کیڑے کو کچلنا ہو ۔ وہاں سب کچھ پیسہ اور طاقت ہے ۔ جس نے اپنی طاقت سے خود کو منوا لیا وہ مافیا کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن کر راج کرنے لگا ۔
وہ تینوں بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی طاقت سے سب کچھ حاصل کیا تھا ۔ قتل و غارت خون بہانا گھروں کے گھر تباہ کرنا ان کے لیے کوئی بڑا کام نہیں تھا ۔ سمگلنگ کی دنیا میں ان کے نام کا سکہ چلتا تھا ۔ وہ جہاں چاہتے وہاں خود کو منوا کر راج کرتے تھے ۔
اسی لیے لوگ انہیں تھری ڈیمنز کہتے تھے کیونکہ ان کے لیے طاقت ہی سب کچھ تھی اور انسانیت سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا ۔
وہ تینوں بہن بھائی تھے دو بھائی اور ان کی لاڈلی اکلوتی بہن ۔ ان تینوں کو اپنے باپ سے بے حد نفرت تھی لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے باپ کے ہی نقش قدم پر چل رہے تھے ۔
لوگ انہیں دیکھ نظریں اور سر جھکا لیتے تھے کیونکہ وہ تینوں اپنے سامنے سر اٹھانے والے کی گردن کو دھڑ پر رہنے ہی نہیں دیتے تھے اور جو ان سے آنکھیں ملا کر بات کرتا اس کی بینائی کا وہ آخری لمحہ ہوتا تھا ۔
انہوں نے آج تک کوئی کام چھپ کر نہیں کیا تھا پھر چاہے وہ سمگلنگ ہو یاں پھر قتل و غارت ۔ وہ ہر کام کھلے عام کرتے ہیں تھے مگر حیرت کی بات یہ تھی پھر بھی کوئی بھی ثبوت اور گواہ نہیں ملتا تھا کسی کو ۔ مختلف ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ان کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے کی جدو جہد میں تھیں مگر تھری ڈیمنز کو پکر کر جیل میں ڈالنا آسان تھوڑی تھا ۔
#############################
لندن وہ شہر جہاں جگہ جگہ تاریخ کے چھپے پہلو اور داستانیں نظر آتی ہیں وہ جگہ جہاں بکنگھم پیلس کی بلندی اور لندن آئی کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی ہے ۔ وہ شہر جہاں آپ کو ٹاور آف لندن کی تاریخی کہانیوں کے ساتھ بریٹش میوزیم میں تاریخی خزانے ملتے ہیں یعنی لندن کو اگر تاریخی شہر کہا جائے تو غلط نہیں مگر اب وہی شہر مافیا کا بہت بڑا اڈا بن چکا ہے ۔
جہاں پہلے لندن کے سڑکوں پر صرف خوبصورتی اور ہستی کھیلتی زنگی ملتی تھی اب انہیں سڑکوں پر مافیا کا زندگی اور موت کا کھیل نظر آتا ہے ۔ اس مافیا راج کی وجہ سے لوگ ہر وقت خوف اور خطرے کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہ پورا مافیا سسٹم جس کا خوف اور دہشت پورے لندن میں پھیلی تھی اس سسٹم کو چلانے اور قابو میں رکھنے والا تھا تھری ڈیمنز میں سب سے بڑا بھائی داور خان ۔
وہ صرف نام کے مطلب سے حاکم نہیں تھا بلکہ وہ تو پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہوا تھا ۔ جیل سے ہر وقت سیٹ کیے گئے براؤن بال گورا رنگ ہری آنکھوں تیکھی ناک اور باریک عنابی لب جن کے گرد بئیرڈ نے اپنی موجودگی سے اس کے حسین چہرے کو اور دلکشی بخش رکھی تھی ۔ وہ بے حد حسین تھا مگر اتنا ہی سفاک بھی ۔ دنیاوی دیکھاوے کو وہ گاڑیوں کے شورومز کا مالک تھا مگر تھا ایک گینگسٹر ۔
گاڑیوں اور ڈرگزز کی سمگلنگ اور قتل و غارت کرکے لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھانا اس کو پسند تھا ۔ اس کی زندگی تین لوگوں کے گرد گھومتی تھی ۔ اپنے سے ایک سال چھوٹے بھائی اپنی بہن جو اس سے چھ سال چھوٹی تھی اور اس کے جگر کے ٹکرے یعنی اس کے بیٹے کے ۔ ان تین لوگوں کے علاؤہ اسے کسی سے عشق تھا تو وہ اس کی گاڑیاں تھیں ۔
اس کو اپنی گاڑیوں سے اتنا عشق تھا کہ اس کے ملازم سے ایک بار گاڑی دھوتے ہوئے ہاتھوں میں پہنی انگوٹھیوں کے سبب گاڑی کے بونٹ پر سکریچ پر گئے تھے جس پر غصے میں آکر داور نے اس ملازم کے ہاتھ کاٹ دیے تھے یہ سوچے بغیر کہ اس کے ہاتھ کاٹنے کے بعد اس آدمی کے گھر والوں کا کیا ہوگا ۔
یہ تو ہو گیا کہانی کا پہلا ولن اب چلتے ہیں دوسرے ولن کی جانب جو اٹلی کی حسین صاف سڑکوں اور خوبصورت وادیوں میں اپنا مافیا راج چلا رہا تھا ۔
باران خان جسے مافیا کی دنیا میں داور خان سے بھی زیادہ سفاک اور بےرحم مانا جاتا تھا ۔ وہ اٹلی کے مشہور شہر روم میں رہتا تھا ۔ روم وہ شہر جس کی خوبصورتی کو دیکھ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پوری دنیا کی خوبصورتی روم میں سما چکی ہو ۔
اٹلی کی ترقی میں سب سے اہم اور بڑا کردار رکھنے والا شہر مگر جیسے ہر کہانی میں خوبصورت جگہ پر ایک دیو اپنی حکومت جما لیتا ہے بلکل اسی طرح روم اور اٹلی کا دیو باران خان تھا ۔ اس کی آنکھوں کی رنگت کرسٹل گرین تھی اور ناک بلکل داور جیسی تیکھی جس ہر ہمہ وقت غصہ اور غرور رہتا تھا بئیرڈ کے درمیان میں شان سے رہتے گلابی کٹدار ہونٹ شاید ہی کبھی مسکرائے تھے کھل کر ۔
براؤن سلکی بال ہمیشہ ماتھے پر بکھرے رہتے تھے وہ جتنا مرضی انہیں سیٹ کرتا مگر وہ اپنی من مانی کرتے اس کے ماتھے پر بکھرے رہتے تھے ۔ سفید رنگت میں کھلی سرخی جہاں اس کی خوبصورتی بڑھاتی تھی وہیں ہمہ وقت چہرے پر رہنے والی سنجیدگی اس کی خوبصورتی کو اور زیادہ دلکش بناتی تھیں ۔ داور کی طرح وہ بھی سمگلنگ کرتا تھا مگر ڈرگز کے ساتھ گنزز کی سمگلنگ ۔
اس نے وکالت کی ڈگری لے رکھی اور وہ ڈگری صرف اپنے بہن بھائی کے کیس کے لیے استعمال کرتا تھا ۔وہ ایک بھی کیس نہیں ہارا تھا آج تک ۔ باتوں میں الجھانا اس پر ختم تھا ۔ وہ اٹلی کے مشہور BK پرفیوم برانڈ کا مالک تھا مگر خود اسے خون کی بو پسند تھی ۔ اس کا فیورٹ کلر بلیک کے بعد بلڈی ریڈ تھا کیونکہ خون کو دیکھ اسے سکون ملتا تھا ۔
اس کی زندگی کا ایک ہی اصول تھا فیصلہ ہمیشہ موت کی صورت میں کرو زندگی بخش کر سرکشی کو بڑھاوا مت دو ۔ دھوکے سے اسے بے حد نفرت تھی اتنی کہ اس نے اپنے سمگلنگ پاٹنر کو خود کو دھوکہ دینے پر اسے اس کے گھر سمیت زندہ جلا دیا تھا ۔ صاف لفظوں میں وہ سفاکیت میں داور سے بھی دو نہیں چار ہاتھ آگے تھا ۔ اب آتے ہیں ان کی لاڈلی بہن کوئین آف گینگسٹر اینڈ دا ڈیمن لیڈی کی طرف ۔ وہ داریہ خان تھی بھائیوں کی لاڈلی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی ۔
گولی چلاتے وقت اس کے ہاتھ زرا نہیں کانپتے تھے ۔ اسے بھی بھائیوں کی طرح خون بہا کر سکون ملتا تھا ۔ خوبصورتی ایسی کی سامنے والے کو دنیا بھلا دے ۔
اس پر نظر پڑتے ہی انسان نظروں کا زاویہ بدلنا بھول جائے ۔ اس کی آنکھیں بلکل داور جیسی تھیں گرین کلر کی ۔ لمبا قد خوبصورت فگر جو پینٹ شرٹس میں اور نمایا ہوتا تھا سفید گلابی رنگت چھوٹی سی مغروری ناک اور پنکھڑی گلاب کی جیسے ہونٹ جو قدرتی سرخ رنگت رکھتے تھے مگر پھر بھی وہ انہیں سرخ لیپ سٹک سے سجا کر اور زیادہ دلکش بنا لیتی تھی ۔
وہ قدرتی حسن کی مالک تھی اور اس حسن کو وہ اور بناؤ سنگھار کرکے قاتل بنا دیتی تھی ۔ وہ روسیا کے شہر ایلان جو موسقوع کے بعد بڑا شہر ہے اس میں رہتی تھی ۔ ایلان یورپ اور ایشیاء کے بیچ میں واقع ہے جس کی آبادی 5.2 ملین سے بھی زیادہ ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے شیروں میں سے ایک ہے ۔ داریہ روسیا کے سب سے بڑے کلیکشن آف بیوٹی مال ( فرضی نام ) کی آنر تھی ۔
اور انڈر ورلڈ کی دنیا میں وہ ہیروں کی سمگلنگ کرتی تھی ۔ داور اور باران کی طرح وہ ڈرگز کی سمگلنگ نہیں کرتی تھی کیونکہ داور نے اسے اس چیز کی اجازت نہیں دی تھی اس لیے وہ صرف ہیروں کی سمگلنگ کرتی تھی ۔ وہ داور کی بے حد لاڈلی تھی حتیٰ کہ اس کا نام بھی داور نے رکھا تھا جو اس کے نام سے ملتا تھا ۔ تھی تو وہ باران کی بھی لاڈلی مگر داور سے اس کا الگ ہی پیار تھا ۔ ہیل کی کلیکشن اس کا بہت بڑا شوق تھا ۔
اس کے ڈریسنگ روم میں ایک پوری دیوار کے سائز کی الماری بنی تھی جس میں اس نے ہر رنگ کی ہیل کی کلیکشن رکھی تھی ۔ اس کے مال میں جو بھی ہائی ہیل آتی سب سے پہلے اسی کے پاس آتی تھی ۔ اسے پیار ویار سے سخت چڑ اور نفرت تھی ۔
اس کے یونی کے دنوں میں اس کے کلاس فیلو جس کو اس کے بارے میں کچھ نہیں تھا اس نے داریہ کو پرپوز کر دیا تھا جس کی سزا کے طور پر داریہ نے اسے اپنے جانو کے ساتھ کمرے میں بند کر دیا تھا اور وہ بیچارہ اس کے جانو کے خوف سے پانچ دن بے ہوش رہا تھا کیونکہ اس کا جانو ایک خونخوار بھیڑیا تھا جس سے اسے بے حد محبت تھی ۔
اسے یہ بھیڑیا باران نے لا کر دیا تھا جب داریہ کی سالگرہ تھی ۔ اور وہ سیاہ رنگ کا بھیڑیا داریہ کو اولاد کی طرح عزیز تھا کیونکہ اس نے اسے بلکل بچوں کی طرح پالا تھا ۔ تینوں بہن بھائی سیاہ رنگ کے دیوانے تھے ۔ جیسے ان کے دل سیاہ تھے ویسے ہی ان کے گھر اور ان میں رکھی ہر چیز سیاہ تھی ۔ عرض یہ کہ تینوں بہن بھائی بے حد حسن رکھنے کے ساتھ بے حد سفاک اور درندہ صفت کے تھے ۔
سنا تھا کہ حسن ظالم ہوتا ہے مگر یقین نہیں تھا پر ان تینوں کو دیکھ اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ ہاں واقع حسن ظالم ہوتا ہے ۔ وہ ولنز تھے اور ولنز کے دل میں رحم نہیں ہوتا ۔ وہ تینوں الگ الگ ملک میں رہتے اپنا مافیا سسٹم چلا رہے تھے مگر ملکوں کے فاصلوں کو ان تینوں نے کبھی دلوں اور رشتوں کا فاصلہ بننے نہیں دیا تھا ۔
پیرس میں ان تینوں نے ایک گھر بنوایا تھا جس کی نیم پلیٹ پر خان فیملی لکھا تھا ۔ وہ ہر ماہ کے آخر میں ایک ہفتہ اسی گھر میں اکھٹے ہوتے تھے اور وہ ہفتہ صرف ان کا ہوتا تھا ۔
#############################
رحمان بیٹا ادھر دیکھو میری جان ۔ کیوں ناراض ہے میرا بچہ مجھ سے ؟؟ داور نے اپنے بیٹے کے کمرے میں آتے اسے پکارا تھا جو صوفے پر بیٹھا اپنے ٹوائے سے کھیل رہا تھا مگر اسے دیکھ اپنا منہ موڑ گیا تھا ۔ مودھے نئی باٹ ترنی آپ شے داؤ جاں شے ۔
( مجھے نہیں بات کرنی آپ سے جاؤ یہاں سے ) رحمان نے منہ پر ناراضگی سجائے ہونٹ بگاڑے کہا ۔ اور کیوں بات نہیں کرنی مجھ سے آپ نے ؟؟ داور نے اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے اس کے گرد بازو پھیلائے پیار سے کہا جبکہ رحمان نے اس کے بازوں کو اپنے کندھے سے ہٹایا تھا ۔ میری جان ناراضگی کی وجہ تو بتا دو مجھے کیوں آخر ناراض ہے میرا جگر مجھ سے ؟؟
داور نے اس کا منہ اپنی طرف کرتے پوچھا ۔ مما تاہیے ( مما چاہیے ) رحمان نے معصومیت سے کہا تو داور اسے دیکھ کر رہ گیا تھا کسی کی بھولی بسری صورت دماغ کے پردے پر لہرائی تھی ۔ کیوں چاہیے مما ؟؟ بابا ہیں تو آپ کے پاس ۔ داور نے صوفے سے اٹھ کر اس کے پاس نیچے بیٹھے کہا ۔ وہ حیران ہوا تھا اس کے مطالبے پر کیونکہ رحمان نے پہلے کبھی اس سے ایسی خواہش نہیں کی تھی ۔
بابا بابا ہیں مان تو مما تاہیے ( بابا بابا ہیں رحمان کو مما چاہیے ) وہی تو جان میرے رحمان کو مما کیوں چاہیے ؟؟ داور نے اس کے معصوم چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے پوچھا ۔ تیونتہ مما شاڑا ڈن پاش رہٹی ہے ۔ بابا شاڑا دن پاش نہیں رہتے ( کیونکہ مما سارا دن پاس رہتی ہے بابا سارا دن پاس نہیں رہتے ) رحمان نے معصومیت سے اسے وجہ بتائی تو داور مسکرایا تھا ۔
ہاں واقع وہ سارا دن رحمان کے پاس نہیں ہوتا تھا کام کے سبب اور یہی وجہ تھی کہ وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا ۔ سوری جان پر بابا اب آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھیں گیں سارا دن بٹ مما والا کام مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ داور نے اسے مناتے ہوئے کہا تو رحمان نے غصے سے ناک پھولایا تھا ۔ دندے بابا او آپ مان تو نئی باٹ ترنی مان کٹی ہے آپ شے ۔ مان تو بش مما تاہیے ۔
( گندے بابا ہو آپ رحمان کو نہیں بات کرنی رحمان کٹی ہے آپ سے رحمان کو بس مما چاہیے ) ۔ رحمان غصے بولتا کمرے سے بھاگ گیا تھا جبکہ پیچھے داور اسے جاتا دیکھتا رہ گیا تھا ۔ دنیا بھر کو اپنی انگلی کے اشارے پر چلانے والا وہ شخص اپنے بیٹے کے سامنے بے بس ہو جاتا تھا ۔
#############################
دوبارہ بولنا زرا کیا کہا تم نے مجھے سنا نہیں سہی سے ؟؟ داریہ جو بار میں بیٹھی ڈرنک کر رہی تھی کہ تبھی ایک نشے میں دھت آدمی نے اس کے پاس آکر کچھ کہا تھا ۔ آج کی رات میرے نام کر دو ڈارلنگ تمہارے اس حسن کو خراج بخشنا چاہتا ہوں ۔ منہ مانگی قیمت دوں گا ۔
اس آدمی نے نشے کی وجہ سے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا تو داریہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی ایک خطرے سے بھری مسکراہٹ ۔ جینی اس کی ساتھی جو اس کے ساتھ تھی اس کی مسکراہٹ دیکھ اسے سامنے والے آدمی پر افسوس ہوا تھا ۔ اچھا تو تمہیں میرے حسن کو خراج دینا ہے ہاہاہا اچھا چلو آؤ چھو کر دیکھاو مجھے ۔
داریہ نے ہستے ہوئے سرسراتے لہجے میں کہا تو جینی کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے مگر نشے میں دھت وہ انسان بنا اس کے لہجے کو سمجھے آگے بڑھتے اس کے بازو کو چھونے لگا تھا مگر تبھی وہ ایک دم سٹول سے کھڑی ہوتی اس کے گردن کو دبوچ چکی تھی ۔ اس کے یوں گردن دبوچنے ہر اس آدمی کا سارا نشہ چھو منتر ہوا تھا ۔ چھوڈو مجھے چھوڈو لڑکی ۔
وہ آدمی گڑگڑاتا ہوا بولا تو داریہ نے مسکرا کر اس کا ترپنا دیکھا تھا ۔ ارے میرا بچہ کیا ہوا اب کیوں کہہ رہے ہو چھوڈو اب تو میں نے تمہیں خود ہاتھ لگایا ہے تو پھر اب میرے حسن سے کوئی سروکار نہیں کیا تمہیں ؟؟ داریہ نے طنز کرتے کہا ۔ اس سارے تماشے سے بار میں موجود سب لوگ ان کی جانب متوجہ ہو گئے تھے ۔ پلیزز چھوڈ دو مجھے پلیززز ۔
وہ آدمی گڑ گرایا تھا مگر داریہ نے اسے اگنور کرتے جینی کو دیکھا تھا ۔ جینی میرے جانو کو انسانی گوشت کھائے کتنے دن گزر گئے ؟؟ داریہ کے سوال پر جینی نے ترس بھری نگاہوں سے اس آدمی کو دیکھا جس کا اب آخری وقت تھا اور تھوڑی دیر بعد وہ داریہ کے جانو کا نوالہ بننے والا تھا ۔ ایک ماہ ہونے والا ہے میم ۔ جینی نے ادب سے جواب دیا ۔ اوہ مطلب آج میرے جانو کی عید ہے ۔
داریہ نے ہستے ہوئے کہا اور پھر سفاکیت بھری نظروں سے سامنے والے کو دیکھا تھا ۔ کیا ہے نہ تمہیں خود ہی اپنی زندگی پیاری نہیں تو میں کیا کروں ۔ اگر تمہیں زندگی تھوڑی سی بھی پیاری ہوتی تو تم کبھی بھی مجھ تک نہ پہنچتے ۔
ویسے اچھا ہی ہوا کہ تم نے سوئی ہوئی شیرنی کو جگایا کیونکہ ایک ماہ ہونے والا ہے کسی کی سپاری نہیں ملی مجھے اور میرے جانو نے انسانی گوشت نہیں چکھا تو آج میرے ہاتھوں میں ہو رہی خارش بھی مٹے گی اور میرے جانو کی بھوک بھی ۔
داریہ نے اسے کہتے ہی گلے میں پہنے بلیڈ کو دانتوں میں دبایا تھا اور اگلے ہی پل اس آدمی کی گردن چھوڈ اسے سنبھلنے کا موقع دیے بنا اپنا چہرہ اس کی گردن کے پاس کرتے تیز رفتار میں اس کی گردن پر منہ کے زریعے بلیڈ پھیر ڈالا تھا ۔ ان تینوں بہن بھائیوں کے مارنے کا ایک ہی طریقہ تھا ۔ وہ بہت کم گن یوز کرتے تھے زیادہ تو لوگوں کی گردنوں کو ہی دھڑ سے الگ کرتے تھے ۔
اس کے یوں کرنے پر جہاں وہ آدمی ایک لاش کی صورت میں زمین پر گرہ تھا وہیں پورے بار میں چیخ و پکار شرع ہو گئی تھی ۔ سب کے چیخنے پر داریہ نے اپنی سفاک قاتل نگاہوں سے سب کی جانب دیکھا تو اس کے خوف سے سارے بار میں ایک دم پن ڈروپ سائیلنس ہوا تھا ۔ مر گیا ایک اور نفس کا پجاری خیر کسی نے کچھ دیکھا یہاں ؟؟ داریہ نے پہلے اس آدمی کی لاش کو ٹھوکر مارتے کہا اور پھر اپنی خوبصورت شیپ میں تراشی گئی آئیبرو اچکائے پوچھا تو سب کی گردنیں فورآ نہ میں ہلی تھیں ۔
اچھی بات ہے اگر دیکھا بھی ہے تو اپنی آنکھوں کے پردوں کے پیچھے ہی محفوظ کر لو زبان پر لانے کی کوشش کی تو نہ تو آنکھیں دیکھنے کے قابل رہیں گیں اور نہ زبان بولنے کے قابل رہے گی ۔ داریہ کی دھمکی پر سب نے چہرے پر آئے پسینے کو صاف کرتے ہاں میں گردن ہلائی تھی ۔ جینی راجر سے کہو میرے جانو کا ڈنر لے جائے اور چھوٹے چھوٹے پیس میں کاٹ کر پیش کرے اسے ۔
اور ہاں اس بار کوئی ہڈی نہ ہو پچھلی بار میرے جانو کا منہ زخمی ہو گیا تھا ۔ داریہ جینی کو ہدایت دیتی بار سے نکل گئی تھی جبکہ جینی اس کے کہے گئے الفاظوں پر عمل کرتی راجر کو کال ملانے لگی ۔
#############################
میں تمہیں منہ مانگی قیمت دوں گا بس میری بیوی کا کام تمام کر دو ۔ وہ آدمی باران کے سامنے بیٹھتا بولا جبکہ باران اپنی سنجیدہ کرسٹل گرین آنکھیں اس پر جمائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ کیوں مارنا چاہتے ہو اسے ؟؟ باران نے پوچھا جبکہ اس کا لہجہ ایسا تھا کہ سامنے والے کو خوف زدہ کر گیا تھا ۔ کیونکہ وہ میری خواہشوں میں رکاوٹ ہے ۔
وہ بہت پیسے والی تھی اس لیے اس سے شادی کی مگر وہ عورت مجھے ترسا ترسا کر پیسے دیتی ہے اور اس کی وجہ سے میں اپنی گرل فرینڈز سے بھی نہیں مل پاتا تو بس اس کو مروا کر اس کی ساری دولت پر راج کروں گا اور اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ مزے کروں گا ۔ وہ آدمی اٹیلن زبان میں فر فر بول رہا تھا جبکہ اس کی باتیں سن باران کے چہرے کی سختی میں نہ جانے کیوں اضافہ ہو رہا تھا ۔ ہم بچوں اور عورتوں کو مارنے کا کام نہیں کرتے یہ ہمارے رولزز میں نہیں تم جا سکتے ہو ۔
باران نے خود پر ضبط کرتے کہا ۔ مگر کیوں ؟؟ میں منہ مانگی قیمت دوں گا ۔ وہ آدمی حیران ہوتا بولا ۔ کہا نہ نہیں تو مطلب نہیں اب دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ اگلے دس سیکنڈ میں تمہاری لاش اٹھے گی یہاں سے ۔ باران نے غصے سے کہا تو وہ آدمی ڈر گیا مگر اسے لگا باران بس دھمکی دے رہا ہے ۔ میں نے سنا تھا کہ تم ہر کسی سپاری لے لیتے ہو ۔ دیکھو میں سچ میں تمہیں ۔۔۔۔۔۔ ٹھاہ ۔
ابھی وہ آدمی بول رہا تھا کہ تبھی کمرے میں گولی کی آواز گونجی تھی اور ساتھ ہی اس آدمی کا بے جان وجود نیچے گرہ تھا جس کے ماتھے کے بیچوں بیچ گولی کا نشان تھا جہاں سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا ۔ تم نے شاید یہ نہیں سنا کہ باران خان کے دس سیکنڈ کا مطلب پانچ سیکنڈ ہوتا ہے کیونکہ باران خان کو انتظار قبول نہیں پھر چاہے کسی کو مارنے کا ہی کیوں نہ ہو ۔
پسٹلز کو ٹیبل پر پھینک وہ سفاکیت سے بولا اور پھر کمرے کے کونے میں کھڑے اپنے ایک آدمی کی جانب پلٹا تھا ۔ اس نے جو کچھ کہا ہے اس کی ریکارڈنگ اس کی لاش کے ساتھ اس کی بیوی کو بھیج دینا تاکہ وہ اس کمینے کے غم میں فضول نہ روئے ۔ اپنے آدمی سے کہتے وہ کمرے سے نکل گیا تھا جبکہ پیچھے اس آدمی کی لاش سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial