میں اسیرِ محبت ہو گیا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

ڈریک نے کیا جواب دیا ہے ؟؟ کب تک مال تیار ہوگا پرسوں ہمیں اس کو سمگل بھی کرنا ہے ۔ باران جو BK کمپنی والے اپنے آفس میں بیٹھا تھا اپنے سیکرٹری سے پوچھنے لگا جو اس کا سمگلنگ وغیرہ کا بھی کام دیکھتا تھا ۔
جی سر رات تک سارا مال آ جائے گا اور ساتھ میں تیس کلو ڈرگزز بھی بھیجیں گے وہ لوگ جو گنزز کے ساتھ ہی کوریا میں سمگل کرنے ہیں ۔ اس کے سیکرٹری نے جواب دیا تو باران نے سر ہلانے کے ساتھ اسے ہاتھ سے آفس سے جانے کا اشارہ کیا جس پر سیکرٹری سر ہلاتے اس کے آفس سے نکل گیا تھا ۔
سیکرٹری کے جاتے ہی باران نے اپنا وجود ڈھیلا چھوڈتے آفس چئیر کی بیک سے ٹیک لگائی تھی اور پھر اپنے موبائل کی گیلری آپن کرتے کوئی تصویر نکالی تھی ۔ تصویر کسی لڑکی کی تھی جو اپنے خوبصورت چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی ۔
آئی مس یو ! باران نے محظ یہ تین الفاظ کہتے اس تصویر پر ہونٹ رکھے تھے اور پھر اپنی کرسٹل گرین آنکھوں کو تکلیف سے بند کیا تھا ۔
#############################
تمہیں لگتا تھا کہ تم مجھے دھوکہ دے سکو گے ۔ میں تمہیں شکل سے پاگل لگتا ہوں جو تمہاری باتوں میں آجاؤں گا ۔ میں داور خان ہوں جو اڈتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے ۔ بتاؤ کس ایجنسی کے بندے ہو ۔ داور اپنی بیسمنٹ میں کرسی پر بندھے آدمی سے مخاطب تھا جس کی حالت بہت بری تھی کیونکہ پچھلے دو گھنٹوں سے لگاتار وہ داور کا ٹارچر سہہ رہا تھا ۔
اس کی انگلیوں کے سارے ناخن داور نے پلاس سے کھینچ دیے تھے منہ سے خون نکل رہا تھا جبکہ جسم پر بھی تشدد کے نشان تھے ۔ م۔۔میں ک۔۔کسی ای۔۔جنسی کا بندہ ن۔۔ن۔۔نہیں ہوں ۔ اس آدمی نے اپنے خون سے بھرے منہ سے بامشکل الفاظ ادا کیے ۔
ابھی بھی جھوٹ واہ بڑی ہمت ہے تم میں ۔ داد دیتا ہوں تمہاری ہمت کی کہ پکرے جانے کے باوجود داور خان سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ اب اس کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ داور نے اس کی گردن پر پیچھے سے ہاتھ ڈال کر اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کرتے پر اسرار لہجے میں کہا اور پھر وہ اپنے پاس پری ٹیبل سے پیچکس اٹھا چکا تھا ۔
م۔۔م۔۔میں سچ ک۔۔ہ رہ۔۔ا ہوں میں کوئی ایجنسی ک۔۔کا آ۔۔ دمی نہیں ۔ وہ آدمی داور کے ہاتھ میں پیچکس دیکھ گھبراتے ہوئے بولا ۔ ٹھیک ہے نہیں ہو تم کسی ایجنسی کے آدمی مگر میرے گھر میں گھس کر مجھ پر نظر رکھنے کی سزا تمہیں ملے گی ۔
داور سفاک لہجے میں کہتے اگلے ہی پل اپنے ہاتھ میں پکڑا پیچکس اس کی آنکھوں میں مار چکا تھا جس پر پورے بیسمنٹ میں اس آدمی کی چیخیں گونجیں تھیں ۔ ڈیوڈ لے جاؤ اس آدمی کو اور جا کر پولیس سٹیشن کے باہر پھینک او ۔ ساتھ میں میرا پیغام ضرور بھیجنا کہ دوبارہ ایسے کتوں کو شیر کی کچھار میں نے بھیجیں ورنہ اگلی بار وہ کتے اندھے نہیں مردہ ملیں گے ۔
داور ٹیبل پر پیچکس واپس رکھتے وہاں پر پرا کپڑا اٹھا کر اس سے اپنے ہاتھ صاف کرتا اپنے خاص آدمی ڈیوڈ سے بولا جس پر ڈیوڈ نے اوکے سر کہتے سر ہلایا تھا ۔ جون سے فون کر کے کہو میرا پرائیویٹ جٹ تیار کرے مجھے روسیا جانا ہے رحمان کو لینے ۔
کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گیا ہے اس بار وہ ۔ بیسمنٹ سے نکلتے داور نے ڈیوڈ کو ایک اور حکم دیا تھا جس پر ڈیوڈ نے فورآ اس کا حکم بجا لاتے فون نکالا تھا جبکہ وہ ایجنسی کا آدمی آنکھوں کی تکلیف نہ برداشت کرتے بے ہوش ہو چکا تھا ۔
#############################
تاتو مودھے تاتلیٹ تھانی ایں ۔ لے تر دو مودھے ۔ ( چاچو مجھے چاکلیٹ کھانی ہے لے کر دو مجھے ) باران بھی داریہ کے پاس آگیا تھا رحمان کے وہاں ہونے جا سن کر اور اس وقت وہ داریہ کے گھر میں بنے اپنے کمرے میں رحمان کو اپنے پاس بیٹھائے اس کی فرمائشیں سن رہا تھا ۔ میں لے کر آیا ہوں نہ اپنے بیٹے کے لیے چاکلیٹس بہت ساری ۔
ابھی باران اس کے گال پر پیار کرتا جواب دیتا کہ تبھی داور نے انٹری دیتے کہا جبکہ ہاتھ میں چاکلیٹس کا ڈبہ تھا ۔ دندے بابا تلے جاؤ جاں شے مان تو آپ نئی تاہیے او ۔ ( گندے بابا چلے جاؤ یہاں سے رحمان کو آپ نہیں چاہیے ہو ) رحمان نے داور کو دیکھ غصے سے کہا ۔ غصے میں تو وہ اپنے باپ سے بھی آگے تھا ۔ چاکلیٹس لایا ہوں جان آپ کے لیے ۔
داور نے اس کے پاس بیڈ تک پہنچ چاکلیٹس کا ڈبہ سامنے کرتے کیا جسے رحمان نے فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا ۔ تاکلیٹس لے لوں دا پڑ آپ شے ناض آؤں ابئی بی ۔
( چاکلیٹس لے لوں گا پر آپ سے ناراض ہوں ابھی بھی ) رحمان چاکلیٹس کا ڈبہ لے کر بیڈ سے نیچے اتر کر داور کو اپنی گرے آنکھوں سے گھورتے ہوئے اپنے گورے ملائم پھولے گالوں کو اور پھیلاتے بولا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا ۔
باران تب سے ہونٹوں پر میٹھی بنا کر رکھے بیٹھا سنجیدگی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔ دیکھا تم نے کیسے باپ کو باتیں سنا کر گیا ہے وہ ۔ داور نے باران کو رحمان کی شکایت لگائی تو باران بیڈ سے کھڑا ہوتا اس کے پاس آیا ۔ تو مان لو اس کی بات ۔ ماں ہی مانگ رہا ہے وہ ۔
آخر اس کو بھی ضرورت ہے ماں کی ۔ باران کی بات پر داور نے اسے گھورا ۔ تم اس کی اتنی سائیڈ لے رہو تو خود شادی کر کے اس کو چاچی لا دو ۔ داور نے کہا تو باران نے اپنی کرسٹل گرین آئیز کو اس کی گرین آنکھوں میں گاڑا تھا ۔ وہ دنوں بلکل سیم قد آور جسامت کے تھے ۔ اسے ماں چاہیے چچی نہیں اور مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے ۔
تم بھی یہ بات جانتے ہو بھائی ۔ باران نے سخت لہجے میں کہا تو داور کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ۔ اتنا دور بھاگتے ہو شادی سے اگر کبھی پیار ہو گیا کسی سے تو ؟؟ داور نے ائیبرو اٹھائے پوچھا تو باران نے بھی جوابی دائیں آبرو اچکائی تھی ۔ کیا کہا پیار ؟؟
سوری میرے پاس ان فضولیات کے لیے وقت نہیں کیونکہ پیار محبت سب کچھ بکواس اور فضول چیزیں ہیں ۔ زندگی میں کچھ بننا ہے تو انسان کو دل کی نہیں دماغ کی سنسنی چاہیے ۔ پیار محبت سے دور رہنا چاہیے اور مجھے اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے ابھی اسی لیے میرا فوکس اپنے کام پر ہے ۔
تم بتاؤ تمہیں ہوئی تھی محبت اس سے ؟؟ ایک سال وہ تمہارے پاس رہی تھی تمہارے بےحد قریب تمہارے بیٹے کو جنم دیا تھا اس نے تو کیا تمہیں اس سے محبت ہوئی تھی ؟؟ غزان نے پوچھا تو داور کو وہ گرے آنکھوں والی حسینہ یاد آئی تھی جبکہ گردن خود بخود نہ میں ہلی تھی ۔ بلکل یہی بات کہ نہیں ہوئی تھی تمہیں محبت تو پھر مجھ جیسے پتھر دل کو بھی محبت نہیں ہو گی ۔
ہم تینوں بہن بھائی محبت کے لیے ہیں ہی نہیں کیونکہ ہم صرف سفاکیت اور حیوانیت رکھتے ہیں اپنے اندر محبت نہیں ۔ باران کی باتوں پر داور نے ہستے ہوئے اسے گلے لگایا تھا ۔ ہاں بلکل ہمیں دور رہنا ہے اس سب سے ۔
کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ داریہ جو کمرے میں آئی تھی داور اور باران کو گلے لگا دیکھ حیرت سے پوچھنے لگی ۔ کچھ نہیں بس ویسے ہی تم بتاؤ رحمان کہاں ہے ؟؟ داور نے اسے ٹالتے رحمان کا پوچھا ۔ وہ تو جانو کے پاس ہے ۔
اسے چاکلیٹس کھلا رہا ہے ۔ داریہ کے جواب پر باران اور داور دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔ کیا ؟؟ وہ تمہارے جانوں کو یعنی ایک بھیڑیے کو چاکلیٹس کھلا رہا ہے ؟؟ باران نے حیرت سے پوچھا تو داریہ نے کندھے آچکا دیے ۔
وہ پچھلے ایک ہفتے سے یہاں ہے اور اس ایک ہفتے میں اس نے جو جو کھایا ہے میرے جانو کو بھی کھلایا ہے چاہے وہ چاکلیٹس ہو ، لیز ہو ، آئس کریم ہو یاں پوپ کورن ہوں ۔ اور مزے کی بات یہ کہ میرا جانو سب کچھ مزے سے کھا بھی رہا ہے ۔ داریہ نے مزے لے لے کر بتایا تو داور کو اپنے بیٹے کی حرکت پر بے تحاشہ ہسی آئی تھی جبکہ باران نے تاسف سے سر ہلایا تھا ۔
#############################
تمہاری جوب کیسی جا رہی ہے ؟؟ ہمیرہ نے اپنی دوست سوزین سے پوچھا جو کچن میں کھڑی پاستا بنا رہی تھی جبکہ ہمیرہ کچن میں پڑے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی تھی ۔ وہ دونوں ایک ہی فلیٹ میں رہتی تھیں کیونکہ ان دونوں کا ہی کوئی نہیں تھا اس دنیا میں ۔
ہاں اچھی جا رہی ہے تم بتاؤ کہ تمہاری سپورٹس اکیڈمی کیسی جا رہی ہے ؟؟ سوزین نے پاستے کے نیچے آنچ ہلکی کرکے رکھتے اس کے پاس جا کر بیٹھتے پوچھا ۔ اچھی جا رہی ہے اور پرسوں ہمارا ٹرپ جا رہا ہے باسکٹ بال ٹیم کے بچوں کے ساتھ duperre playground میں ۔
تم چلو گی ؟؟ ہمیرہ نے مسکرا کر بتاتے ساتھ سوزین سے بھی جانے کا پوچھا تھا ۔ نہیں میں نہیں جا سکوں گی کیونکہ میرا آفس ورک بہت ہے ان دنوں ۔ سوزین نے انکار کیا تھا ۔ اچھا چلو تمہاری مرضی ۔ میں نورے کو ساتھ ہی لے کر جاؤں گی ۔ ہمیرہ نے سامنے پرے پانی کے گلاس سے گھونٹ بھرتے بتایا تو سوزین سر ہلاتی کھڑی ہوگئی اور پاستا کو چیک کرنے لگی ۔
#############################
اس ویک اینڈ کوئی کام ہے تمہیں ؟؟ داور باران اور داریہ پیلس والے خان ہاؤس جمع تھے کیونکہ مہینے کا آخر چل رہا تھا ۔ وہ سب ڈائیونگ ہال میں بیٹھے تھے کہ تبھی داور نے پوچھا ۔ نہیں کچھ خاص نہیں مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟؟ باران نے پوچھا ۔
اگر کوئی کام نہیں تو پھر کل آوٹنگ پر چلیں گے ۔ رحمان کو گھما پھرا لائیں گے اور کچھ ہم بھی فریش ہو جائیں گے ۔ داور کی بات پر باران نے سر ہلاتے جامی بھری تھی جبکہ آوٹنگ کا سن داریہ خوشی سے اچھلی تھی ۔ ٹھیک ہے پھر میں تو اپنی تیاری کروں جا کر صبح کے لیے ۔
آخر آوٹنگ پر جانا یے ۔ وہ ان سے کہتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی جبکہ داور اس کی خوشی پر ہس پڑا تھا ۔ داریہ کو آوٹنگ کا بہت شوق تھا ۔ اور اس سے بھی زیادہ تیار ہونے کا ۔ اسی لیے تو وہ بھاگ کر گئی تھی تاکہ اپنے صبح تیار ہونے کا سامان نکال کر رکھ لے ۔ اچھا تو میں بھی چلتا ہوں رحمان کو سلانا ہے اور اس کے ساتھ ڈیزنے مووی بھی دیکھنی ہے ۔
داور باران سے کہتا رحمان کے کمرے میں چل پڑا جبکہ پیچھے ہلکی سی مسکراہٹ نے باران کے چہرے پر جھلک دیکھائی تھی ۔ ہاں اسے اپنے بھائی پر ہسی آئی تھی جو اتنا بڑا گینگسٹر ہوکر اپنے بیٹے کے ساتھ کارٹون موویز دیکھتا تھا اور وہ بھی ڈیزنے موویز ۔
#############################
تم پاگل ہو گئی ہو جو اس طرح سے موت کے کنویں میں جانا چاہتی جو ؟؟ میں تمہیں کہہ رہا ہوں ہم تہ کیے گئے طریقے سے ہی کیس لڑیں گے بس ۔ میں جاوں گا وہاں جاسوسی کرنے تم نہیں ۔
غزین نے فون پر اسے سمجھاتے ہوئے کہا مگر دوسری طرف بھی ضدیوں کی سردار تھی ۔ میں بھی کہہ چکی ہوں پہلے ہی کہ کیس میں اپنی مرضی سے دیکھوں گی ۔ مجھے بڑے آفیسرز نے بھی اجازت دے دی ہے ۔
اب پلیز غزین آپ مت مجھے روکو کیونکہ مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔ تم میرے سینئر ہو مگر مجھے اوپر سے پرمیشن مل چکی ہے کہ میں غیر قانونی طریقے چھوڈ جس طریقے سے چاہوں کیس لڑ سکتی ہوں بس باران خان کو جیل کے پیچھے ڈالنا ہے مجھے ۔
تو میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے ۔ پلیز آپ مجھے مت روکیں میں نہیں سنوں گی آپ کی ۔ خدا حافظ ۔ وہ ایک ہی سانس میں ساری بات کرتی کال کٹ کر گئی جبکہ غزین اس کی عقل اور ضد ہر ماتم کرتا رہ گیا تھا ۔ مجال تھی کہ وہ لڑکی اس کی کبھی پوری بات سنتی ۔ بس اپنی بول کر کال کٹ کر دیتی تھی ۔
#############################
اوہ تو تم اٹلی کے گینگسٹر ہو مگر تم تو کہیں کے شہزادے لگتے ہو ۔ بلکہ میرے شہزادے لگتے ہو ۔ آہ باران خان تم میری پہلی نظر کی محبت ہو جو سانسوں کی آخری ڈور تک میرے دل میں نظر بند رہے گی ۔
وہ باران کی تصویر کو دیکھتی اس سے باتیں کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ وہ باران سے جلد ملنے کا ارادہ بھی بنا رہی تھی ۔ اب دیکھنا تھا کہ وہ بن پاتی تھی باران کی محبت یاں پھر اس کے قہر کا نشانہ بننے والی تھی وہ ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial