قسط: 5
سر ایک لڑکی ملنے آئی ہے آپ سے ۔ وہ ابھی اپنے آفس پہنچا ہی تھا کہ تبھی اس کے سیکرٹری نے اسے اطلاع دی ۔ کون ہے ؟؟ اس نے پوچھا ۔
پتا نہیں سر کہہ رہی ہے آپ اسے جانتے ہیں ۔ حیام نام بتا رہی ہے وہ اپنا ۔ سیکرٹری کی بات پر اسے حیرت ہوئی تھی مگر پھر اس لڑکی کو بھیجنے کا کہتے آفس روم کی طرف بڑھ گیا ۔
#############################
ابھی اسے آفس میں بیٹھے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ آفس کا دروازہ کھلا تھا اور ٹک ٹک کی آواز آفس میں گونجی تھی ۔ باران نے فائیل سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ایک خوبصورت لڑکی پنک شرٹ اور وائٹ پینٹ پہنے بالوں کو ٹیل پونی میں قید کیے اور لائیٹ میک اپ پر ڈارک لیپسٹک لگائے اسے مسکرا کر دیکھ رہی تھی ۔
اسے دیکھ کر باران نے سوالیہ انداز میں آئی برو اچکائی تھی ۔ کون ہو تم ؟؟ میں تو تمہیں نہیں جانتا ۔ کس لیے ملنا چاہتی تھی ؟؟ باران نے ایک ساتھ تین سوال پوچھے جبکہ وہ لڑکی تو اس کے منہ سے میں تمہیں نہیں جانتا سن کر شاکڈ تھی ۔ ارے ہم ابھی تین ہفتے پہلے ہی تو ملے تھے ایک کلب میں ۔ میرا نام حیام ہے میں ترکی کی رہنے والی ہوں ۔
یاد نہیں آپ کو آپ نے مجھے کچھ لوگوں سے بچایا تھا جو میرے بابا نے بھیجے تھے ۔ وہ اس کے ٹیبل کے پاس پہنچ اپنا ہاتھ میں پکڑا کلچ ٹیبل پر رکھتی فر فر انگلش بولتی اسے یاد کروانے کی کوشش کرنے لگی مگر باران کے چہرے پر بے زاری پھیلی یوئی تھی ۔
تم حیام ہو یاں بادام ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔ باران نے بے زاری سے اردو میں کہا تو حیام نے ناسمجھی اور پریشانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا ۔ سوری کیا کہا ؟؟ مجھے یہ زبان نہیں آتی ۔ حیام کی بات پر باران سیدھا ہو کر بیٹھتا ٹیبل پر اپنے بازو رکھ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا ۔
میں نے کہا ہے مس کہ مجھے سروکار نہیں کہ تم کون ہو کہاں سے آئی یو اور کب میں نے تمہاری ہیلپ کی تھی ۔ مجھے بےفضول کسی سے بات کرنا اور اسے اپنے سر پر چڑھانا پسند نہیں۔ تم جا سکتی ہو یہاں سے ۔ باران نے اس بار اسے ترکش زبان میں جواب دیا تھا ۔
جبکہ وہ لڑکی جہاں اس کے منہ سے ترکش زبان سن کر حیران ہوئی تھی وہیں اس کے الفاظوں نے اسے ہرٹ کیا تھا ۔ مگر میں تم سے سپیشلی ملنے آئی ہوں کیونکہ جب سے تم سے ملی ہوں مجھے تمہارے علاؤہ کسی چیز کے بارے میں نہیں سوجھتا ۔
ہر وقت تمہاری ہی یاد آتی ہے تمہاری خوبصورت کرسٹل گرین آئیز والا چہرہ میرے زہن کے پردوں پر ایسا بیٹھا کہ مجھے کچھ اور دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ حیام نے ڈائریکٹ اپنی فیلنگ بتائیں تھیں جبکہ باران کا تو اس کی باتوں پر دماغ خراب ھو رہا تھا۔
بس بہت ہو گئی بکواس ۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔ تمہاری جان بچائی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہیں پسند کرنے لگا ہوں یاں کرنے لگوں گا ۔ تم پہلی لڑکی نہیں ہو جس نے باران خان کو چاہا ہے لاکھوں لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر مگر باران خان تم جیسوں ہر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا ۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔
باران نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے کھڑے ہو کر کہا تو اس کی غصے پر حیام بھی بری طرح ڈری تھی ۔ پر میں ۔۔۔۔ بس میں نے کہا نہ بہت ہو گیا دفع ہو جاؤ ۔ حیام نے آنکھوں میں موٹے موٹے انسوں لیے کچھ کہنا چاہا مگر باران نے اس کو بیچ میں ہی روک کر کہا ۔
تم بڑی بے دردی سے ٹھکرا رہے ہو نہ میری محبت کو تو جاؤ میں بھی تمہیں بدعا دیتی ہوں باران خان کہ تمہیں بھی محبت ہو بلکہ عشق تاکہ تمہیں بھی درد کا پتا چلے ۔ اور جیسے تم میری محبت کو ٹھکرا رہے ہو نہ ویسے ہی وہ تمہارے عشق کو ٹھکرائے اور تم اپنی خوبصورتی کے غرور کے ساتھ منہ کے بل گرو ۔
جاؤ بدعا ہے تمہیں میری ۔ وہ غصے اور دکھ سے اسے بدعا دیتی اپنا کلچ اٹھا کر روتے ہوئے اس کے آفس سے نکل گئی تھی جبکہ پیچھے باران نے اپنا سر جھٹکا تھا ۔
#############################
وہ ریسنگ ایریا پر پہنچ گئی تھی ۔ اس نے بلیک کلر کی بائیک ریسنگ کٹ پہن رکھی تھی جبکہ اس کے بوٹ ہیل والے ہی تھے ۔ اسے ہیل کی اتنی عادت تھی کہ وہ نارمل سول پہن ہی نہیں سکتی تھی ۔ اور پھر ہیل پہن کر اس کی کی جانے والی ایٹییوڈک واک لڑکوں کو آہیں بھرنے پر مجبور کر دیتی تھی ۔
ابھی تھوڑی دیر میں اس کی ریس سٹارٹ تھی جبکہ آج اسے ایک سپاری بھی ملی ہوئی تھی ۔ ریس کو ختم کرنے کے بعد وہ وہیں جانے والی تھی ۔ تقریبآ پانچ منٹ بعد ہی ریس سٹارٹ ہونے لگی تو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ وہاں اس کے علاؤہ صرف ایک اور پارٹیسپنٹ ہی تھا ریس کے لیے باقی کوئی نہیں تھا ۔
اوئے ادھر آو نہ زرا ۔ اس نے ریس کو منعقد کرنے والے انسان کو بلایا جو ڈرتا ڈرتا اس کے پاس آیا تھا ۔ یہ آج صرف دو لوگ کیوں ہیں کسی اور نے حصہ کیوں نہیں لیا ؟؟ اس نے سخت آواز میں پوچھا جبکہ اس آدمی کی تو اس کے پاس کھڑے ہوتے بھی جان جا رہی تھی ۔
وہ داریہ میڈم دراصل کوئی بھی آپ کے ساتھ ریس نہیں لگانا چاہتا انہیں ڈر لگتا ہے آپ سے اور پھر آپ ہر بار جیت جاتی ہیں ۔ یہ لڑکا بھی نیا آیا ہے یہاں شاید اسی لیے آپ سے ریس لگانے کے لیے تیار ہے ۔ اس آدمی نے ڈرتے ڈرتے ادب سے بتایا تو داریہ کا موڈ خواب ہوا تھا ۔
کیا یار سارا مزہ ہی کرکرا کر دیا ریس کا ۔ میں نہیں لگا رہی ریس ایک آدمی کے ساتھ ۔ اسے تم ویسے ہی رقم دے دو انعام کی ۔ میں جا رہی ہوں ۔ داریہ نے برے موڈ کے ساتھ کہتے قدم آگے بڑھائے تھے کہ کسی کی آواز نے اس کے قدم روکے تھے ۔
میں بلکل نہیں لوں گا یہ رقم اگر میں جیت کر نہ لے سکا تو ۔ اگر تم ریس لگاؤ میرے ساتھ تو تمہیں ہرا کر میں خوشی سے جیت کی رقم لوں گا ۔ اسی ایک پارٹیسپنٹ نے داریہ کو دیکھتے کہا۔
شاید وہ ان کی باتیں سن چکا تھا جبکہ اس کے چیلنج پر جہاں ریس کا آنر پریشان ہوا تھا وہیں داریہ نے اپنی گرین آنکھوں سے داد بھری نظروں سے اسے دیکھا اور ڈارک مہرون رنگ کی لیپ سٹک سے سجے اپنے خوبصورت ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی تھی ۔
تمہارا کونفیڈنس اچھا لگا مجھے ۔ چلو گیم کا مزہ تو آئے گا ۔ داریہ نے چیلنج ایکسیپٹ کرتے کہا اور اپنا ہیلمٹ سر پر پہنتی اپنی بائیک پر جا کر بیٹھ گئی تھی جبکہ وہ لڑکا بھی اس کے پیچھے ہی چلتا اپنی بائیک تک پہنچا تھا ۔ ون ٹو تھری سٹارٹ سنتے ہی وہ اپنی بائیکوں کو ریس دیتے آگے بڑھا چکے تھے ۔
داریہ بائیک کو بہت سلو چلا رہی تھی جبکہ وہ لڑکا تیز سپیڈ سے چلاتا اس کے کافی دور پہنچ گیا تھا ۔ داریہ تو ایسے چل ہو کر بائیک چلا رہی تھی جیسے اسے جیتنے سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔ وہ لڑکا جب کافی آگے پہنچ گیا تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو داریہ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔
اپنی جیت کا سوچتے اس نے بائیک کو اور ریس دی تھی مگر اگلے ہی پل تیر سے بھی زیادہ تیزی سے داریہ کی بائیک اس کے پاس سے گزر کر آگے بڑھی تھی ۔ داریہ کو اچانک سے یوں آتے دیکھ وہ کافی حیران ہوا تھا ۔ جبکہ داریہ نے اس سے آگے جا کر بائیک کی سپیڈ پھر سے سلو کر دی تھی ۔
وہ لڑکا اپنی سپیڈ اور بڑھاتا داریہ کو پیچھے چھوڈ چکا تھا جبکہ تھوڑی دیر بعد داریہ پھر سے اس سے آگے تھی مگر پھر سے اس نے آگے جا کر سپیڈ سلو کر دی تھی ۔ یہ کھیل چار سے پانچ بار کھیل چکی تھی وہ ۔
ایسے جیسے اسے مزہ آرہا تھا ایسے کر کے ۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی تھی سامنے والے کو جیت کے قریب کے جا کر ہراتی تھی ۔ اب فنشنگ لائین بلکل سامنے نظر آ رہی تھی اور وہ لڑکا بہت خوش تھا اپنے جیتنے کا سوچ کر مگر پھر سے داریہ کی بائیک سپیڈ سے اس کی بائیک کو اوور ٹیک کرتی گزری تھی اور فنشنگ لائین کو کراس کر گئی تھی ۔ وہ لڑکا بلکل حیران اور پریشان تھا کہ ہوا کیا آخر ۔
جبکہ داریہ نے اپنی بائیک سے اتر کر اپنا ہیلمٹ اتارا اور اپنے سر کو ہلاتے بالوں کو سہی کیا تھا جبکہ وہ لڑکا جو ابھی ہارنے پر دکھ میں تھا داریہ کی اس ادا کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔ ہیلمٹ بائیک پر رکھ کر داریہ نے اپنی مغرور چال اس کی جانب بڑھائی تھی ۔ کیسا لگا ہار کر پیارے ؟؟ کیا ہے نہ داریہ نے کبھی ہارنہ سیکھا نہیں ہے ۔
پہلے ہی مان جاتے تو اچھا تھا مگر اب وہ رقم میری ہے ۔ داریہ اسے کہتی اسے آنکھ مار کر وہاں سے آگے بڑھ گئی جبکہ وہ لڑکا بھی بائیک سے اتر کر داریہ کے پیچھے بھاگا تھا ۔
#############################
سنیں مس آپ کا نام کیا ہے ؟؟ بات سنیں ! بات تو سنیں ! وہ لڑکا داریہ کے پیچھے بھاگتا ہوا بول رہا تھا جبکہ داریہ اس کے بلانے پر بھی مڑ کر نہیں دیکھ رہی تھی ۔ ارے ایک بار بات تو سن لو میری ۔ وہ تیزی سے بھاگ کر داریہ کے سامنے آتا بولا ۔ کیا مسلہ ہے تمہارا ؟؟
ریس ختم تو جان پہچان بھی ختم ۔ داریہ نے غصے سے کہا ۔ نہیں بس آپ کا نام ہی پوچھنا ہے مجھے ۔ وہ لڑکا مسکرا کر بولا تو داریہ نے لمبا سانس کھینچ کر غصے کو قابو کیا تھا ۔ داریہ خان نام ہے میرا سن لیا اور کچھ ؟؟ داریہ نے منہ پر پھینکنے والے انداز میں نام بتایا تو وہ لڑکا ہس پڑا ۔
میرا نام ذزان شاہ ہے میں نیا آیا ہوں روسیا میں ۔ ویسے میں پاکستان سے ہوں آپ بھی پاکستان سے ہیں کیا ؟؟ ذزان نے اس کے سامنے ہاتھ کرتے اپنا انٹرو دیتے پوچھا تو داریہ نے اس کے ہاتھ کو پہلے خاموشی سے دیکھا پھر اگلے ہی پل جھٹک دیا تھا ۔ نام پوچھنا تھا تم نے تو پوچھ لیا اب دفع ہو جاؤ اور میرے راستے میں مت انہ ورنہ اپنے لیے خطرہ تم خود بنوں گے ۔
داریہ نے غصے سے کہتے قدم آگے بڑھائے تھے مگر تبھی سامنے سے کچھ گنڈے ہاتھوں میں ہتھیار پکڑے آئے تھے ۔ انہیں دیکھ کر داریہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اس کی مخالف پارٹی کے بندے تھے ۔ ضرور انہیں داریہ کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ آہ لگتا ہے آج جانو کے لیے بہت سارا کھانا اکٹھا ہو گا ۔
داریہ اپنی انگلیوں کے پٹاکے نکالتی ساتھ ساتھ گردن کو ادھر ادھر کرتے لڑنے کے کیے تیار ہوتی ہلکی آواز میں بولی ۔ اس کی آواز اتنی ہلکی تھی ذزان کو نہیں سنی تھی ۔ اس سے پہلے وہ آگے بڑھ کر ان گنڈوں کو دھول چٹاتی ذزان نے اسے بازو سے پکر کر اپنے پیچھے کیا تھا ۔ تم ادھر رہو داریہ ان کو تو میں سبق سیکھاتا ہوں ۔
ذزان گنڈوں کو دیکھتا اپنے ہاتھوں کے پنچ بناتا بولا تو داریہ کو اس ہر ہسی آئی تھی ۔ تم مجھے بچاؤ گے ان سے ؟؟ اور خود لڑو گے ؟؟ داریہ نے تنزیہ پوچھا مگر اس کے لہجے کو بنا جانے ذزان نے ہاں میں سر ہلایا تھا اور پھر ان گنڈوں کی جانب بڑھتا ان سے لڑنے لگا ۔ داریہ کو یہ منظر بہت دلچسپ لگا تھا اس لیے نیچے زمین پر ہی چونکڑی مار کر بیٹھتی ان کو لڑتا دیکھنے لگی ۔
سامنے والے گنڈے دس بارہ تھے جبکہ ذزان اکیلا تھا ۔ اس لیے وہ مار کم اور کھا زیادہ رہا تھا ۔ آخر اس کو اتنا مار کھاتا دیکھ داریہ کپڑے اور ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ اوئے اس سے کیوں لڑ رہے ہو ؟؟ مارنے کے لیے تمہیں مجھے بھیجا گیا ہے تو مجھے مارو نہ آ کر ۔ داریہ نے انہیں للکارا تو وہ ذزان کو چھوڈ داریہ کی طرف بڑھے تھے ۔ نہیں داریہ وہ تمہیں چوٹ پہنچا سکتے ہیں ۔
ذزان نے داریہ کو باز رکھتے کہا مگر داریہ اس کی کیوں سنتی اور پھر پانچ منٹ میں وہ ان سب کو ڈھیر کر چکی تھی اور جینی کو کال کرکے اس جگہ کا پتا بھی بتا چکی تھی تاکہ وہ آکر ان سب کو لے جا سکے ۔ واؤ تمہیں فائٹنگ بھی آتی ہے ۔ ذزان منہ سے نکلتا خون صاف کرتا اس کے پاس آتا بولا تو داریہ نے کندھے آچکا دیے ۔
تم نے میرے لیے اتنی مار کھائی اسلیے یہ پکرو پیسے اور علاج کروا لینا اپنا ۔ داریہ اس کی بات کا جواب دیے بغیر اس کو زبردستی پیسے پکراتی بولی اور پھر بنا پیچھے سے دی جانے والی اس کی آوازوں کی پرواہ کیے آگے بڑھ گئی ۔ جبکہ ذزان بس اسے پکارتا ہی رہ گیا ۔
#############################
سر ایڈم کو پولیس نے پکر لیا ہے ۔ ڈیوڈ نے داور کے پاس آکر کہا تو داور کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ کیوں اسے کیسے پولیس نے پکر کیا ؟؟ داور نے پوچھا ۔
سر آپ نے جو ڈرگز دوسری پارٹی تک پہچانے کے لیے دیے تھے وہی لے جاتے وہ پکرا گیا ۔ پولیس نے وہ سارے ڈرگز بھی پکر لیے ہیں ۔ ڈیوڈ نے پریشانی سے بتایا مگر داور کے چہرے پر ہلکی سی بھی پریشانی کی جھلک نظر نہیں آ رہی تھی ۔ اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ میں کرتا ہوں کچھ ۔ کل پرسوں تک معملہ کورٹ میں جانے سے پہلے نپٹا لوں گا ۔
داور نے ڈیوڈ کو کہا تو وہ سر کو خم دیتا وہاں سے چلا گیا ۔ اس کے جاتے ہی داور نے باران کو کال ملائی تھی ۔ کیونکہ اب یہاں کام ان کے وکیل یعنی باران کا تھا ۔ باران کے پاس ہر ملک میں کیس لڑنے کا سرٹیفیکیٹ تھا اس لیے داریہ اور داور کا وکیل وہی تھا ۔
#############################
یہ وہ فائیل ہے جس میں باران خان کے بارے میں میں نے سب کچھ ایڈ کر دیا ہے ۔ اس کے بارے میں ایک ایک بات لکھی ہے کہ اسے کون سی چیز پسند ہے کون سی نہیں ۔
اسے کیسے لوگ پسند ہیں وہ کس وقت کہاں جاتا ہے کب سوتا ہے کب اٹھتا ہے سب کچھ میں نے پتا کروا کر لکھ دیا ہے ۔ غزین کے ساتھ کا ساتھی اس کے سامنے فائیل کرتے بولا ۔ اس سے پہلے غزین وہ فائیل پکرتا اس نے وہ فائیل پکر لی تھی ۔ یہ فائیل میرے کام کی ہے غزین تم نے اس کے آفس میں گھسنا ہے اور میں نے اس کے گھر میں ۔ وہ اپنی میٹھی آواز میں فائیل کو دیکھتی بولی۔
ابھی بھی سوچ لو یار میں وہاں جاؤں گا تمہیں وہاں خطرہ ہو سکتا ہے ۔ غزین اس کی فکر کرتا بولا۔ کیا ہو گیا ہے غزین تمہیں ؟؟ میں کوئی دبو سی لڑکی نہیں ہوں ۔ انٹیلیجنس ایجنسی کی ہونہار کیپٹن ہوں ۔ بہت سے مجرموں کو پکر چکی ہوں بہت سے کیس حل کیے ہیں میں نے میں نہیں ڈرتی کسی سے ۔
اور ویسے بھی سنا ہے وہ عورتوں بچوں کو کچھ نہیں کہتا تو اس لیے میں جاوں گی تم اس کے آفس جاؤ گے ۔ وہ تھوڑے چڑتے ہوئے بولی تو غزین خاموش ہو گیا ۔ وہ سہی کہہ رہے ہیں میم یہ بہت مشکل ہوگا کیونکہ وہ باران خان ہے اسے ہم کیسے الجھائیں گے ۔ ان کو پاگل بنانا بہت مشکل ہے ۔
ان کے ساتھی نے پریشانی سے کہا ۔ جیمن تم جانتے ہو کہ انسان کو کسی چیز کی طرف اٹریکٹ کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟؟ اس نے پوچھا تو جیمن نے نہ میں سر ہلایا تھا ۔ اگر تمہیں کسی کو کسی چیز کی جانب متوجہ کرنا ہے تو اسے اس چیز کو اس طرح سے دیکھاو کہ وہ پہلی ہر چیز سے مختلف ہو ۔
انسان جس چیز کو دیکھتا رہے گا اس کی دلچسپی اس میں ختم ہو جائے گی اور جس چیز کو اس نے پہلے کبھی دیکھا نہیں ہوگا وہ چیز اسے اپنی جانب متوجہ کر ہی لے گی ۔ بس میرا پلین بھی کچھ ایسا ہے ۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا تو جیمن نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا ۔ ٹھیک ہے مگر مجھے تمہاری فکر رہے گی ۔
غزین اسے محبت سے دیکھتا بولا تو وہ ہس پڑی ۔ تم میری فکر نہ کرو میں سب سنبھال لوں گی اور خود کی بھی حفاظت کر سکتی ہوں ۔ بس تین دن اور پھر ہمارا مشن سٹارٹ ہوگا اور بہت جلد باران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہاتھوں پیروں میں بیڑیاں ڈالے بیٹھا ہوگا ۔
اور اٹلی کی سڑکوں اور گلیوں سے مافیا کا راج ختم ہو جائے گا ۔ یہ زحلے عمر کا وعدہ ہے ۔ اس نے ایک عہد سے کہا تو غزین اور ان کے ساتھی جیمن نے مسکرا کر تالیاں بجاتے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا ۔