قسط: 6
کہاں ہے وہ ؟؟ اس نے اپنے گھر پہنچتے ہی پوچھا تھا ۔ میم وہ ٹورچر روم میں بند ہے ۔ جینی نے بتایا تو داریہ سر ہلاتی ٹورچر روم کی جانب بڑھ گئی ۔ اندر آتے ہی اسے اس کا شکار سامنے ہی کرسی پر بندھا نظر آیا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ کون ہے یہاں کون لایا ہے مجھے ؟؟؟
کون ہو تم لوگ ؟؟ کوئی ہے یہاں ؟؟؟ کھولو مجھے ! سامنے والا اپنے بندھے وجود کو آزاد کروانے کے لیے جسم کو حرکت دیتا زور زور سے چیخ رہا تھا جبکہ داریہ کو اس کی چیخیں کانوں میں چبھی تھیں ۔
آنکھوں سے پٹی ہٹاؤ اس کے ۔ داریہ نے اس آدمی کے سامنے پڑی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے راجر سے کہا جس پر اس نے اس شخص کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے جیسے ہی پٹی ہٹی تو ایک دم سے اس کو کمرے کی روشی چبھی تھی اس لیے فورآ آنکھوں کو بند کرتے اس چبھن سے راحت پائی تھی جبکہ داریہ تو اسے دیکھ کر شاکڈ تھی ۔ تم ؟؟
داریہ نے سیدھے ہو کر بیٹھتے حیرت سے کہا تو اس نے بھی داریہ کی آواز پر پٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں ۔ اس کے خوبصورت چہرے پر ابھی بھی نیل واضح تھے جو صبح داریہ کو بچانے کے لیے ان گنڈوں سے لڑ کر اسے ملے تھے اور براؤن آنکھیں بھی سوجھی ہوئی تھیں ۔
داریہ تم یہاں ؟؟ تم نے مجھے کڈنیپ کیا ہے ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا تو داریہ واپس سے کرسی کی بیک سے ٹیک لگا کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ چکی تھی ۔ ہاں میں نے ہی تمہیں کڈنیپ کروایا ہے ۔ داریہ نے سکون سے جواب دیا تو ذزان آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔ اوہ اچھا تمہیں میری جدائی برداشت نہ ہوئی ۔
ابھی صبح ہی تو ملے تھے ہم ۔ اور کڈنیپ کروانے کی کیا ضرورت تھی مجھے کہہ دیتی میں خود آ جاتا ساتھ ہی ۔۔۔۔۔بسسسسسس ! ذزان اپنی ہی سوچ کے مطابق پٹر پٹر بول رہا تھا جب داریہ نے غصے سے اس کو چپ کروایا تھا ۔ بہت ہوگئی تمہاری بکواس ۔
مجھے کوئی شوق نہیں تھا تم سے دوبارہ ملنے کا ۔ مجھے تمہاری سپاری ملی ہے ۔ سپاری کا مطلب جانتے ہو نہ یعنی تمہاری موت میرے ہاتھوں سے لکھائی گئی ہے ۔ اس لیے تم یہاں داریہ کے سامنے بیٹھے اپنی زندگی کے آخری لمحے گزار رہے ہو ۔ داریہ نے اسے دیکھتے حد درجہ ٹھنڈے لہجے میں کہا تو ذزان کی بیک بون میں بھی سرسراہٹ ہوئی تھی ۔
م۔۔مگر مج۔۔مجھے کون مارنا چ۔۔۔چا۔۔۔ہتا ہے ؟؟ ذزان نے پوچھا ۔ تمہارے چچا کی جانب سے ملی ہے سپاری ۔ داریہ نے جینی سے کچھ تصویریں پکر اس کے سامنے کرتے کہا جن میں اس کے چچا راجر سے کچھ بات کر رہے تھے ۔ ذزان تو ان تصویروں کو دیکھ کر شاکڈ تھا ۔ اسے پتا تھا اس کے چچا بہت برے تھے مگر اس حد تک برے ہو سکتے تھے اسے اندازہ نہیں تھا ۔
اوہ تو میری جائیداد ہتھیانے کے لیے ان کا یہ پلین ہے ۔ ٹھیک ہے میں تمہارے سامنے ہوں مار دو مجھے ۔ ذزان نے دکھی انداز میں کہتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ داریہ بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ تو تمہارے چچا تمہاری جائیداد کے لیے تمہیں مارنا چاہتے ہیں ۔
داریہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا مگر ذزان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ کیا تم اپنے چچا سے بدلہ لینا چاہتے ہو ؟؟؟ داریہ نے اچانک پوچھا تو ذزان نے حیران ہوتے اسے دیکھا تھا ۔ کیا مطلب ؟؟ ذزان نے نا سمجھیں سے پوچھا ۔ کیا ہے نہ میں انڈر ورلڈ کی کوئین ہوں اور میں کسی کا احسان نہیں رکھتی ۔
تم نے صبح میرے لیے ان گنڈوں سے مار کھائی ۔ تو داریہ اس چیز کا بدلہ چکاتے تمہاری جان بخش دیتی ہے ۔ لیکن اگر تم بھی اپنے چچا کو سبق سیکھانا چاہتے ہو تو تمہیں مجھ سے ایک ڈیل کرنی ہو گی ۔ داریہ نے کرسی سے کھڑے ہوتے اس سے کہا تو ذزان سوچ میں پڑ گیا ۔ کیسی ڈیل ؟؟
ذزان نے پوچھا ۔ تمہیں مجھ سے پیپر میرج کرنی ہوگی ۔ داریہ کی بات پر ذزان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں ۔ حالت تو جینی اور راجر کی بھی ایسی ہی تھی ۔ کیا ؟؟ میں سمجھا نہیں ! پیپر میرج کیوں ؟؟ ذزان نے نا سمجھی پوچھا تو داریہ نے جینی اور راجر کو آنکھ کے اشارے سے جانے کا کہا تھا جس پر وہ دونوں خاموشی سے کمرے سے نکل گئے تھے ۔
کیا ہے نہ آج کل میرے بڑے بھائی کے دماغ میں میری شادی کی بات پر گئی ہے ۔
ابھی تو وہ بس میرے شادی کے بارے میں میرا خیال پوچھ رہیں ہیں مگر تھوڑے دنوں تک وہ ہاتھ دھو کر میری شادی کے پیچھے پر جائیں گے اور مجھے نفرت ہے اس رشتے سے جو محض دھوکہ اور فریب کا نام ہے ۔ اس لیے سوچ رہی ہوں انہیں دیکھانے کے لیے تم سے پیپر میرج کر لوں ایک سال کے لیے پھر یہ کونٹریک ختم کر دیں گے ۔ اور ان سے کہہ دوں گی کہ آپس بنی نہیں ہماری ۔
بدلے میں تمہارے چچا کو سبق سیکھنا میرا کام ۔ داریہ نے اس کے سامنے وجہ رکھی تو ذزان سوچ میں پڑ گیا ۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ ہاں کر چکا تھا جبکہ داریہ کے چہرے پر اس کی ہاں سن کر مسکراہٹ پھیلی تھی ۔
یاد رکھنا یہ میرج صرف پیپر میرج ہو گی ۔ آگے کچھ بھی مت سوچنا ورنہ وہ دن تمہارا آخری دن ہو گا دنیا میں ۔ داریہ نے اسے وارن کیا تو ذزان فورآ ہاں میں سر ہلا گیا ۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے ۔
#############################
باران داور کے کال کرنے پر فورآ لندن آگیا تھا ۔ ان تینوں بہن بھائیوں کے پرائیویٹ جیٹ تھے اس لیے کسی بھی ملک ایسے آتے جاتے تھے جیسے ساتھ والے گھر جانا ہو ۔ وہ سیدھا پولیس سٹیشن ہی گیا تھا اور ایڈم کو بڑی آسانی سے وہ رہا کروا چکا تھا ۔
اب وہ داور کے گھر آیا تھا ۔ وہ ابھی لان سے گزر کر گھر کے داخلی دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ اسے داور کے رحمان کو ڈانٹنے کی آواز آئی تھی ۔ وہ تیزی سے بھاگتے اندر بڑھا تھا ۔
#############################
کیا بات ہے رحمان آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا صبح سے ؟؟ اور میڈ بتا رہی تھی کہ تم نے اس سے بدتمیزی بھی کی ہے ۔ کیوں ضد کر رہے تم اتنی ؟؟ داور نے رحمان کو لاؤنچ کے صوفے پر اپنے پاس بیٹھاتے پوچھا ۔ مودھے نئی تھانا توچھ بی مودھے صف مما تاہیے ۔
دب تک آپ نئی لا تر ڈیٹے مان تو مما دب تک مان نئی تھائے دا تھانا ۔ ( مجھے نہیں کھانا کچھ بھی ۔ مجھے صرف مما چاہیے ۔ جب تک آپ نئی لا کر دیتے رحمان کو مما تب تک رحمان نہیں کھائے گا کھانا ۔ ) رحمان نے بگرے موڈ سے کہا تھا ساتھ ہی اپنی گرے انکھوں میں ناراضگی لیے اسے دیکھا تھا ۔ رحمان کی ایک ہی ضد نے اس بار داور کو غصہ دلایا تھا ۔ مما مما مما بھاڑ میں گئی مما ۔
اتنے دنوں سے تمہاری ایک ہی ضد سن سن کر پک گئے ہیں میرے کان ۔ بہت ہوگئی تمہاری ضد اور میرا لاڈ ۔ اب تمہاری زبان پر یہ لفظ نہ آئے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔ وہ رحمان پر چیختا ہوا بولا تو اس کے غصے اور دانٹ پر رحمان نے ڈر کر رونا شروع کر دیا تھا ۔
کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ ہمت کیسے ہوئی تمہاری رحمان کو ڈانٹنے کی ؟؟ باران نے وہاں آتے ہی روتے ہوئے رحمان کو اٹھا کر گلے لگایا تھا ساتھ ساتھ اس کی کمر تھپک کر اسے چپ کروانے لگا ۔ دماغ خراب ہوگیا ہے اس کا اور ساتھ میرا کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ حد ہوتی ہے کسی چیز کی مگر نہیں پیار نے اسے زیادہ ہی بگار دیا ہے ۔
جب دیکھو ایک ہی ضد ایک ہی ضد کہ ماں چاہیے ۔ پتہ نہیں کہاں سے یہ بات دماغ میں بٹھا کی ہے اس نے ۔ داور نے رحمان کو دیکھتے ہوئے غصے سے ہی باران کو بتایا جبکہ باران کی آنکھیں لال ہو چکی تھیں ۔ میں نے تم سے یہ سب نہیں پوچھا داور خان تم سے میں نے پوچھا ہے کہ ہمت کیسے ہوئی تمہاری اس کو ڈانٹنے کی اس پر غصہ کرنے کی ۔
باران نے داور سے دگنے غصے میں کہا تو وہ اسے حیران ہو کر دیکھنے لگا ۔ میں باپ ہوں اس کا ۔ برے بھلے کے لیے ڈانٹ سکتا ہوں اسے ۔ داور نے رحمان کی جانب اشارہ کرتے غصے سے کہا ۔ باپ ہو تو کیا تمہیں سرٹیفیکیٹ مل گیا ہے کہ تم اسے ڈانٹ سکتے ہو مار سکتے ہو ۔
میں بتا رہا ہوں داور اگر دوبارہ تم نے رحمان سے اونچی آواز میں بات بھی کی نہ تو تمہیں باران خان جان سے مار دے گا ۔ باران نے اسے وارن کرتے کہا ۔ وہ دونوں چھ فٹ کے خوبرو نوجوان ڈیڑھ فٹ کے تین سالہ بچے کی وجہ سے لڑ رہے تھے ۔ تم اپنے بڑے بھائی سے لڑ رہے ہو ؟؟
اور مجھے میرے نام سے پکار رہے ہو ؟؟ بھولو مت میں بڑا بھائی ہوں تمہارا اور جس کی خاطر تم مجھ سے لڑ رہے ہو مجھے جان کی دھمکی دے رہو وہ میرا بیٹا ہے ۔ مجھے اچھے سے پتا ہے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں ۔ داور نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔
دونوں کی ہی آنکھیں لال اور ہاتھوں کے ساتھ گردن کی نسیں ابھریں ہوئی تھیں ۔ رحمان تو ان دونوں کے لڑنے پر اور زیادہ سہم گیا تھا ۔ دیکھ لیا میں نے کہ تم کتنی فکر کرتے ہو اس کی ۔ کیا مانگ لیا ہے اس نے تم سے صرف ماں ہی مانگی ہے نہ تم سے اس نے ۔ کر لو شادی لا دو اسے ماں کوئی بہت بڑا کام تو نہیں تمہارے لیے ۔
لیکن اب بہت ہوا میں لے کر جا رہا ہوں اپنے بچے کو اپنے ساتھ ۔ خبردار جو تم اب میرے بچے کے سامنے آئے تو ۔ میں رکھ لوں گا اس کا خیال اور اس کی خواہشیں اور ضدیں بھی پوری کر دوں گا ۔ اب رحمان یہاں نہیں رہے گا ۔ باران نے اپنا فیصلہ سنایا تھا جبکہ ڈر کے مارے رحمان نے اپنے چھوٹے چھوٹے بازو اس کی گردن کے گرد کس کر گزارے ہوئے تھے ۔
لے جاؤ مجھے بھی سکون آئے گا کچھ دن ۔ جان چھوڈو میری ۔ جاؤ لے جاؤ خوشی سے ۔ داور نے ہاتھ جوڑتے کہا تو باران اس پر ایک غصے سے بھری نظر ڈالتا وہاں سے رحمان کو لیے چلا گیا تھا جبکہ داور اپنے غصے کو کنٹرول کرتا ادھر ادھر ٹہلنے لگا ۔
تھوڑی دیر بعد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسے اپنے غصے پر افسوس ہوا تھا اور رحمان کے لیے دل بے چین ہوا تھا ۔ مگر اب اسے پتا تھا باران اس کا سایہ بھی رحمان پر نہیں پڑنے دے گا۔ ۔ اسے کل پیرس جانا تھا اس لیے وہ پیرس سے واپسی پر باران کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
#############################
داریہ کا ارادہ تھا وہ اپنے اور ذزان کے نکاح کا بتا دے داور اور باران کو اس لیے اس نے باران کو کال ملائی تو آگے سے باران نے جب اسے داور کے رحمان کو ڈانٹنے کا بتایا تو وہ خود داور سے ناراض ہو گئی تھی اسی لیے اس نے ابھی اپنے اور ذزان کے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا تھا ۔
ایک تو ذزان بھی نکاح کے بعد کا ناجانے کہاں گیا ہوا تھا بنا بتائے ۔ پر داریہ کو بھی پرواہ نہیں تھی کیونکہ یہ محض ایک کونٹریک تھا ۔
#############################
آج اتوار تھا اس لیے وہ گھر پر ہی تھا جبکہ رحمان سو رہا تھا ابھی تک کیونکہ رات وہ دیر سے سویا تھا ۔ باران کچن میں کھڑا اپنے لیے خود کافی بنا رہا تھا ۔ اس کے گھر میں ڈھیروں ملازم تھے اور کچن کے لیے بھی ملازمہ رکھی ہوئی تھی مگر وہ کافی ہمیشہ خود بناتا تھا کیونکہ اسے کافی صرف اپنے ہاتھ کی پسند تھی ۔
ماتھے پر بکھرے بال بلیک کلر کی بنیان جس سے اس کے بوڈی بلڈر والے بازو نظر آ رہے تھے اور گرے ٹراؤزر پہنے کچن میں کھڑا کافی بناتا وہ بہت ہی زیادہ کول لک دے رہا تھا ۔ بلیک کلر کے مگ میں کافی ڈال کر وہ کچن سے باہر نکلا تو اس کا ایک ملازم اس کے پاس آیا تھا ۔ سر ایک لڑکی آئی ہے کہتی ہے کسی نے اسے بتایا ہے کہ یہاں ملازمہ کی ضرورت ہے ۔
ملازم کی بات پر اس نے سر ہلاتے اسے اس لڑکی کو اندر بھیجنے کا کہا ۔ اسے کچن کے لیے ملازمہ کی ضرورت تھی کیونکہ پرانی والی نے کچھ دنوں کے لیے چھٹی پر جانا تھا ۔ اس لیے اس نے اپنی پرانی والی ملازمہ سے ہی نئی کا بندوبست کرنے کے لیے کہا تھا ۔ ملازم کو بھیج وہ لاؤنچ میں رکھے صوفے پر بیٹھ کر اپنا موبائل یوز کرتے ساتھ اپنی کافی انجوائے کرنے لگا ۔
اسلام و علیکم صاحب جی ! وہ اپنے موبائل میں مگن تھا کہ کسی کی سوریلی اور میٹھی آواز پر بے ساختہ اس کی نظریں سامنے اٹھیں تھیں جبکہ اسی وقت اس لڑکی نے بھی اپنی جھکی پلکوں کو اٹھایا تھا ۔ کرسٹل گرین آئیز بلیک آئیز سے ملی تھیں اور باران خان کے دل کے ساتھ اس کے اردگرد کی دنیا بھی تھم گئی تھی ۔