میں اسیرِ محبت ہو گیا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

اسلام و علیکم صاحب جی ! وہ اپنے موبائل میں مگن تھا کہ کسی کی سوریلی اور میٹھی آواز پر بے ساختہ اس کی نظریں سامنے اٹھیں تھیں جبکہ اسی وقت اس لڑکی نے بھی اپنی جھکی پلکوں کو اٹھایا تھا ۔
کرسٹل گرین آئیز بلیک آئیز سے ملی تھیں اور باران خان کے دل کے ساتھ اس کے اردگرد کی دنیا بھی تھم گئی تھی ۔ ساکت تو سامنے والی لڑکی بھی ہوئی تھی ۔ اسے لگا تھا جیسے اس کے ارد گرد آکسیجن کی کمی ہو گئی ہو ۔ سر یہ ہے وہ لڑکی ۔ ملازم کی آواز پر باران ہوش کی دنیا میں آیا تھا جبکہ وہ لڑکی ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
ہ۔۔ہا۔۔ں ٹھیک ہے تم جاؤ ۔ باران کا لہجہ پہلی بار لڑکھڑایا تھا جبکہ اس کے جانے کا کہتے ہی وہ ملازم وہاں سے چلا گیا تھا ۔ باران کی آنکھیں ابھی بھی اس حسینہ کے چہرے پر ٹکی تھیں جو پورے مشرقی لباس میں ملبوس تھی ۔ نیوی بلیو کلر کی شلوار قمیض پہنے جس پر پنک کلر کے چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے تھے اور ساتھ سر پر اچھے سے گلابی رنگ کا ریشمی ڈوپٹہ لیے وہ باران کی نظروں کے حصار میں قید کھڑی تھی ۔
کیا نام ہے تمہارا ؟؟ باران نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے اس سے نرمی سے پوچھا ۔ یہ نرمی اس کی زات کا حصہ نہیں تھی مگر ناجانے کیوں اس وقت خودبخود اس کی زبان نے نرمی برتی تھی جبکہ باران خود حیران ہوا تھا اپنے نرم لہجے پر ۔ زحلے عمر ! اس نے کسی ٹرانس کی کیفیت میں اپنا نام بتایا تھا مگر جیسے ہی اس نے اپنا نام بتایا اسے ہوش آیا تھا ۔
او نہیں یہ کیا کر دیا تھا اس نے ۔ اسے تو اپنا فیک نام بتانا تھا یہاں مگر وہ باران کی خوبصورتی میں ایسا کھوئی کہ اپنا اصل نام بتا گئی تھی ۔ ہاں واقعی باران کی خوبصورتی نے اسے ایک پل کے لیے اپنا اثیر کر دیا تھا ۔
اس نے تصویریں دیکھیں تھیں اس کی جن کو دیکھ کر وہ پہلے بھی اس کی خوبصورتی کی تعریف کر چکی تھی مگر روبرو دیکھنے سے جیسے کوئی اسم پھونک دیا گیا تھا اس پر کہ وہ خود کو اس کی خوبصورتی میں گھومنے سے روک نہ سکی تھی ۔ زحلے عمر بہت پیارا نام ہے ۔
باران ہلکی آواز میں منہ میں بڑبڑایا ۔ کہاں سے ہو ؟؟ اٹلی کی نہیں لگتی ۔ باران نے اگلا سوال پوچھا تھا ساتھ ہی کافی کے کپ میں بچے آخری دو گھونٹ بھرتے کپ واپس ٹیبل پر رکھا تھا ۔ جی انڈیا سے ہوں ۔ اس نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ وہ پاکستان سے تھی ۔ اچھا سہی انڈیا سے ہو مگر مسلمان ہو ۔ باران نے سر ہلاتے کہا ۔
وہ جی مجھے بیلا نے بھیجا ہے یہاں وہ کہہ رہی تھی کہ یہاں کام مل جائے گا مجھے ۔ زحلے نے اس کی کام والی کا نام لیتے کہا تھا ۔ لڑکی تو بیلا نے کوئی اور بھیجی تھی مگر اس کی ٹیم اس لڑکی کو منظر عام سے غائب کر چکی تھی اور وہ خود اس لڑکی کی جگہ آئی تھی ۔ بیلا نے تو اس لڑکی کا نام ایلائس بتایا تھا ۔
باران نے آنکھیں چھوٹی کیے پوچھا ۔ جی وہ مجھے میرے پرانے مالک لوگ کہتے تھے انہیں میرا نام مشکل لگتا تھا ۔ مگر میرا سہی نام زحلے ہے ۔ زحلے نے مسکرا کر کہا ۔ اچھا ٹھیک ہے تم آجانا کل سے کام پر اور ہاں ساتھ ہی اپنا سامان لے انا رہنے کی جگہ یہاں دی جائے گی تمہیں ۔
باران اسے کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا کیونکہ اس کی نظریں زحلے کی آنکھوں سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں ۔ اور اس سے پہلے اس کا دل کسی قسم کی کوتاہی کرتا وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا ۔ جبکہ زحلے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا پلین اس ہر ہی الٹا پرنے والا تھا ۔
########@@##################
وہ اپنے فلیٹ پہنچی تو اسے غزین لاؤنچ میں نظر آیا جو کوئی میڈیکل فائیل ہاتھ میں پکڑے صوفے پر بیٹھ رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں فائیل دیکھ زحلے کے چہرے کا رنگ اڈا تھا ۔ اس سے پہلے غزین وہ فائیل کھولتا زحلے نے فورآ جا کر اس کے ہاتھ سے فائیل چھینی تھی ۔
ارے تم کب آئی ؟؟ زحلے کے اچانک فائیل چھیننے پر غزین بھی حیران ہوا تھا مگر پھر مسکرا کر پوچھنے لگا ۔ ہاں ابھی آئی ہوں ۔ زحلے نے فائیل پیچھے چھپاتے کہا جبکہ غزین حیران ہوتے اس کے گھبرائے چہرے کو دیکھنے لگا ۔ کیا بات ہے پریشان کیوں ہو ؟؟ کیا ہے اس فائیل میں ؟؟ غزین نے پوچھا تو زحلے نے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا ۔
نہیں وہ دراصل میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے چہرہ ایسا ہو رہا ہے اور یہ فائیل بھی میرے بخار کی ہے پرسوں چیک اپ کروایا تھا ۔ زحلے نے بمشکل مسکراتے کہا ۔ کیا زیادہ طبعیت خراب یے ؟؟ تم ایسا کرو شاور لو فریش ہو جاؤ میں تمہارے لیے سوپ بناتا ہوں ۔
غزین اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتا فکرمندی سے بولا ۔ اوکے میں ابھی آئی ۔ زحلے اسے کہتی فائیل کو سینے سے لگائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی جبکہ غزین ایک نظر اسے جاتے دیکھ وہاں بنے اوپن کچن میں گھس گیا تھا ۔
#############################
وہ آج دو دن بعد واپس آیا تھا اور سینہ چوڑا کیے مغرور پن سے چلتا اندر بڑھ رہا تھا کہ تبھی اس کے سامنے کالے رنگ کا خونخوار بھیڑیا آیا تھا ۔ بھیڑیے کو دیکھ اس کا سارہ مغرور پن ہوا تھا اور چیخیں عروج پر پہنچی تھیں ۔
وہ زمین پر الٹا لیٹتا زور زور سے چیخنے لگا جبکہ جانو اس کے قریب جاکر اسے سونگھتا اس کے ڈر کو اور بڑھا رہا تھا ۔ جانو ادھر آو میرے پاس ۔ اچانک سے داریہ کی آواز گونجی تو جانو فورآ بھاگ کر داریہ کے پاس پہنچا تھا جو لان میں رکھے گئے جھولے پر بیٹھی تھی ۔
بیٹھ جاؤ میری جان ادھر میرے پاس ۔ داریہ نے جانو کی بیٹھ تھپتھپاتے پیار سے کہا تو وہ فوراً نیچے بیٹھ گیا تھا ۔ اپنے پاس خطرہ محسوس نہ کرتے ذزان نے آہستہ سے اپنا سر اٹھایا تھا اور ادھر ادھر دیکھا تھا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ بھیڑیا چلا گیا یاں نہیں ۔ آہ وائفی میں تو مرنے ہی والا تھا اور تم بیوہ ہونے والی تھی ۔
وہ اپنے کپڑے جھاڑتا کھڑا ہوا اور داریہ کو دیکھتا بولا جبکہ اس کے وائفی کہنے پر داریہ نے اسے تگری گھوری سے نوازہ تھا ۔ لگتا ہے تمہیں جانو کا نوالہ بننے کا شوق چڑھا ہے ۔ داریہ نے اسے دھمکی دی تو ذزان نے جلدی سے دونوں ہاتھ نہ میں ہلائے تھے ۔ نہیں یار پلیز اسے مجھ سے دور رکھو اور پھر کچھ تو خیال کرو یار چاہے کونٹریک میرج سے ہی سہی مگر شوہر ہوں تمہارا اور تم میری وائفی ہو ۔
تو تم مجھ پر ایسا ظلم نہیں کرو گی پتا ہے مجھے ۔ ذزان نے وہیں کھڑے کہا کیونکہ داریہ کے پاس جانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا آخر وہاں جانو جو بیٹھا تھا ۔ بکواس بند کرو اور یہ بتاؤ کہاں تھے تم دو دن ؟؟ داریہ نے اپنے اصل موڈ میں آتے کہا ۔ یار تم بلکل بیویوں کی طرح پوچھ رہی ہو ۔ ڈراؤ تو نہیں ایسے اپنے غصے سے ۔
میں اپنے دوست کے گھر تھا ۔ اب اپنے خوبصورت چہرے کو ٹھیک بھی تو کرنا تھا ۔ دیکھو زرا اب کچھ قابل قبول حالت ہے میرے چہرے کی ۔ میرا دوست ایک ڈاکٹر ہے تو بس اسی سے پٹیاں شٹیاں کروائی ہیں میں نے اور کڑوی دوائیاں کھائی ہیں تب ہی آرام آیا ہے ۔ ذزان نے معصوم منہ بناتے بتایا جبکہ کڑوی دوائیوں کا زکر کرتے منہ کے زاویے بھی بگارے تھے ۔ تو داریہ نے سر جھٹکا تھا ۔
اگلی بار میری اجازت کے بنا کہیں نہیں جاؤ گے ۔ جہاں جانا ہو مجھے بتا کر جانا ۔ ورنہ جانو کے شکار سے پہلے تم میری گولی کا شکار بنو گے اور یاد رکھنا گولی چلاتے وقت میرے ہاتھ بلکل نہیں کانپتے ۔ داریہ اسے اپنی قاتل آنکھوں سے گھورتی ساتھ اسے وارن کرتی جھولے سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ جانو اس کے پیچھے پیچھے ہی تھا ۔
یا اللہ کیا لڑکی ہے یہ مجھے لگتا ہے چچا مرے نہ مرے میں ضرور مر جاؤں گا اس کے ہاتھوں اور پھر اس کے جانو کا ڈنر یاں لنچ بن جاؤں گا ۔ نہیں اللہ جی توبہ توبہ ۔ ذزان دل ہی دل میں سوچتا کانپ گیا تھا اور پھر جلدی سے خود بھی اندر بڑھ گیا ۔
#############################
یہ لو یہ سوپ پیو اور پھر سو جانا تم تاکہ صبح تک تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے ۔ وہ فریش ہو کر نکلی تو غزین سوپ اس کے کمرے میں لے آیا تھا ۔ شکریہ ! زحلے نے مسکراتے ہوئے اس سے بول پکرا تھا اور ساتھ شکریہ ادا کیا ۔ اوہ میری جان شکریہ کیوں ادا کر رہی ہو میرا آخر میرا فرض ہے یہ سب کرنا ۔ ہم دونوں کے علاؤہ ہے ہی کون ہمارا ۔
غزین نے اس کے بال بگارتے کہا تو زحلے ہس پڑی ۔ اچھا تم نے بتایا نہیں کہ آج کا دن کیسا گیا تمہارا ؟؟ مل گئی نوکری اس کے گھر میں تمہیں ؟؟ اور کہیں اسے تم پر شک تو نہیں ہوا ؟؟ غزین نے فکرمندی سے کافی سوال پوچھے ۔ ہاں بلکل مل گئی جوب اور شک بھی نہیں ہوا بس ایک غلطی سے مسٹیک ہو گئی مجھ سے ۔
زحلے نے رازدارانہ انداز میں اس کے سر کے قریب سر کرتے کہا ۔ تو غزین نے آنکھوں کے اشارے سے اس سے پوچھا تھا کہ آخر کون سی غلطی ہوئی ہے ۔ میں نے اسے اپنا اصل نام بتا دیا غزین ۔ زحلے نے ہلکی آواز میں فکرمندی سے کہا ۔
فکر تو غزین کو بھی ہوئی مگر پھر مسکرا پڑا ۔ کوئی بات نہیں یار صرف نام ہی بتایا ہے نہ کوئی مسلہ نہیں ۔ غزین نے مسکرا کر اسے تسلی دی تو زحلے نے بھی اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔
وہ شہد رنگ آنکھوں والا حسین نوجوان تھا ۔ صاف سفید رنگت اور بئیرڈ والے چہرے سے وہ کسی بھی لڑکی کا دل دھڑکا سکتا تھا مگر اس کا دل صرف زحلے عمر کے لیے دھڑکتا تھا ۔ وہ سیاہ آنکھوں سفید رنگت اور سیاہ لمبے گھنے بالوں والی حسینہ اس کی زندگی تھی اور وہ زحلے عمر کے لیے بے حد اہم تھا ۔
اس کیس کے بعد ان کا شادی کا ارادہ تھا اور پھر ہیپی کپل لائف گزارنے کا ۔ اچھا اب بس کرو ایسے نہیں دیکھو مجھے اور یہ بتاؤ کہ تمہیں جوب ملی اس کے آفس میں ۔ زحلے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے کہا تو غزین نے قہقہہ لگایا تھا ۔ ہاہاہا ہاں بلکل میں بھی کامیاب ہو گیا ہوں آج مگر اس کے آفس میں گھسنے میں نہیں بلکے اس کے گودام میں جہاں وہ سمگلنگ کے ڈرگزز اور گن رکھتا ہے ۔
غزین نے فخر سے بتایا تو زحلے نے حیران ہوتے اسے دیکھا ۔ وہ کیسے ؟؟ زحلے نے بے چینی سے پوچھا ۔ بس جیسے بھی مگر اب ہمارا کام اور آسان ہو گیا ہے ۔ پہلے تو میں بلکل سہی سے ان کے مطابق کام کروں گا اور پھر بنا کسی کی نظر میں آئے ان کے خلاف ثبوت اکھٹے کروں گا ۔
غزین نے زحلے کے ہاتھ سے سوپ کا باؤل لیتے کہا جو اب خالی ہو چکا تھا ۔ جبکہ زحلے نے محظ سر ہلایا تھا ۔
#############################
داور کل صبح کا پیرس آیا ہوا تھا اور کل رات اس نے اپنی ڈرگز کی ڈیل بھی کر لی تھی ۔ آج اسے اس آدمی سے مل کر ایگریمنٹ سائین کرنا تھا اور اس کام کے لیے وہ اس آدمی سے ایفلٹاور پارک میں ملنے والا تھا ۔ وہ اپنی ڈیلزز ایسے ہی کرتے تھے کھلے عام اور کسی کو شک بھی نہیں ہوتا تھا ۔
ایڈم نے اس کے ساتھ آنا تھا مگر پھر داور اکیلا ہی آگیا کیونکہ پیچھے سارا کام ایڈم نے دیکھنا تھا ۔ وہ اپنی ڈیل سائین کرواتے واپسی کی راہ پر چل پڑا تھا ۔
وائیٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پر آنکھوں کی رنگت جن کو بلیک گلاسزز سے چھپا رکھا تھا سے ملتا گرین لونگ کورٹ پہنے ایک ہاتھ میں ایگریمنٹ فائیل والا بیگ پکرے دوسرا ہاتھ پینٹ کی پوکٹ میں ڈالے وہ ایٹیٹیوڈ سے چلتا وہاں پر موجود لڑکیوں کا دل دھڑکا رہا تھا ۔
وہ ابھی پارک سے باہر نکلتا کہ اس کی نظر آئس کریم والے کے پاس کھڑی بچی پر پڑیں ۔ جب اس نے غور کیا تو وہ اس دن والی بچی تھی جو انہیں Duperre playground میں ملی تھی ۔ اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی تھی اور قدم خودبخود اس کی جانب بڑھے تھے ۔ ہائے نورے کیسی ہو آپ بیٹا ۔
داور اس کے پیچھا جا کر کھڑا ہوتا بولا جبکہ نورے جس نے ابھی آئس کریم والے سے آئس کریم پکری ہی تھی داور کی آواز پر حیران ہوتی پلٹی تھی ۔ آلے انتل آپ تو بئی بالے انتل ہونا دو پلے دراونڈ میں ملے تے ۔
( ارے انکل آپ تو وہی والے انکل ہو نا جو پلے گراونڈ میں ملے تھے) نورے نے داور کو دیکھ خوشی سے پوچھا تو داور گھٹنوں کے بل بیٹھتا اپنی فائیل سائیڈ پر رکھے اس کے گال کھینچتے لگا ۔
واہ آپ کو تو میں یاد ہوں مگر بیٹا آپ یہاں اکیلے کیا کر رہے ہو ؟؟ داور نے ادھر ادھر دیکھتے پوچھا۔ نئی میں اتیلی تو نئی اوں آنتی شاٹھ اے ۔ بو دیتھو بو رئی ۔ ( نہیں میں اکیلی تو نہیں ہوں آنٹی ساتھ ہے وہ دیکھو وہ رہی۔ ) زحلے نے دور سے آتی سوزین کو دیکھتے کہا تو داور نے بھی پلٹ کر سوزین کو دیکھا ۔ اچھا سہی چلو یہ اچھی بات ہے کہ کوئی ساتھ ہے آپ کے ۔
خیر مجھے کام ہے کچھ تو اب میں چلتا ہوں بائے بائے۔ داور اسے بائے کہتا کھڑا ہونے لگا مگر نورے نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اس کے فولادی بازو پکرے تھے ۔ پھر تب ملو دے ؟؟ ( پھر کب ملو گے ؟؟ ) نورے نے معصومیت سے پوچھا تو داور اس کے سوال پر مسکرایا تھا اور پھر اس نے اپنے کورٹ کی اندرونی جیب سے ایک کارڈ نکال کر اسے پکرایا تھا ۔
یہ لو اس پر میرا پرسنل نمبر لکھا ہے تو تم اس نمبر پر مجھ سے بات کر لینا جب دل کرے اور انشاللہ اگر قسمت میں ہوا تو پھر ملیں گے ہم ۔ داور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا بولا تو نورے خوش ہوگئی تھی جبکہ وہ نورے کے گال کا بوسہ لیتے کھڑا ہوا اور پھر اسے ہاتھ ہلاتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔
کون تھا وہ ؟؟ سوزین نے نورے کے پاس پہنچتے ہی پوچھا ۔ انتل تھے اتھے والے مئے دوشٹ بی ایں ۔ ( انکل تھے اچھے والے اور میرے دوست بھی ہیں ۔ ) نورے نے مسکرا کر کہا تو سوزین نے تاسف سے سر ہلایا تھا کیونکہ نورے دوست بہت بناتی تھی پھر چاہے کسی بھی عمر کے ہوں ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial