قسط 12
عابر رات کے پہر جب کمرے میں واپس لوٹا تو اسے ایسا لگا کہ منہا سو چکی ہو مگر غیر توقع وہ بیڈ کراؤن سے پشت ٹکائے آنکھوں میں آنسو لیے افسردہ بیٹھی نظر آئی عابر کچھ پل اسے نظروں کے حصار میں لیے کھڑا رہا۔
“کیوں رات کے اسوقت بلاوجہ روئے جارہی ہو”
عابر کاؤچ پر لیٹتے ہوئے اسے دیکھے بغیر پوچھنے لگ
“مجھے امی بابا کی یاد آرہی ہے”
منہا بھرائی ہوئی جواب دیتی آنسو پونچھنے لگی عابر نے اس کی جانب دیکھا
“فکر مت کرو بس کچھ دن پھر تم نے واپس وہی چلے جانا ہے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگا منہا نے اسے دیکھا جس کے چہرے پر کوئی خوف کوئی گھبراہٹ کوئی پچھتاوا نہیں تھا جیسے حقیقت سامنے آنے پر اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا
“کیا واقع وہ سب عابر نے نہی”
منہا اپنے دماغ میں آئی سوچ کر ایک پل میں جھٹک گئی
“نہیں اس کے علاؤہ اور کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے یہ صرف خود کو بچانے کی کوششیں ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہوگا”
منہا اپنی سوچ کو جھٹک کر پھر سے وہی باتیں سوچتی عابر پر نظریں جمائے ہوئے تھی
“اتنا ہینڈسم لگ رہا ہوں کہ مجھ سے نظریں ہٹانا مشکل ہورہا ہے”
عابر اس کی نظریں خود پر مسلسل محسوس کرکے لہجے میں شوخ لیے پوچھنے لگا منہا اچانک ہوش میں آئی اور اسے ڈھیروں شرمندگی نے آگھیرا
“سوچ ہے تمہاری عابر زید علی زہر کے علاؤہ تم کچھ نہیں لگ سکتے مجھے”
منہا اپنے لہجے میں وہی غصہ سجائے جواب دیتی سونے کیلیے لیٹ گئی۔
“کاش میں تمہارے دل سے اپنے لیے یہ نفرت کسی طرح ختم کرسکتا “
عابر اس کی جانب کروٹ لیتا اسے دیکھتے ہوئے دل میں کہنے لگا
“کاش عابر تم ایسا کچھ نہ کرتے تو میں آج اپنے گھر اپنی وہی سکون دہ زندگی گزار رہی ہوتی”
منہا بھی اسے دیکھتے ہوئے خود سے دل میں ہمکلام ہوئی دونوں کی نظریں بہت دیر ایک دوسرے پر جمی رہیں پھر یکدم منہا کو نیند کا جھونکا آیا اور آنکھیں بند کرگئی ہیزل گرین آنکھیں پردے میں چلی گئی عابر کے لبوں پر ہلکی سی اداس مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
وہ دونوں یونیورسٹی کیلیے تیار تھے منہا ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنا حجاب سیٹ کررہی تھی تبھی عابر فریش ہوکر باہر آیا اور اس کے عقب میں کھڑا ہوتا ہئیر برخ اٹھا کر بالوں پر پھیرنے لگا منہا کی نظر مرر سے اس پر گئی اسے اپنے پیچھے کھڑا پاکر اسے عجیب سا لگا عابر سر تا پیر مکمل جائزہ لینے لگا سفید کلر کے ٹراؤزر شرٹ میں اوپر ریڈ سٹالر کا حجاب کیے وہ اسوقت بےحد خوبصورت لگ رہی تھی یہ بھی عابر کے لائے ڈریسز میں سے ایک تھا
“تم پر یہ ڈریس اچھا لگ رہا ہے”
عابر فوراً سے اسے کمنٹ دیتے ہوئے کہنے لگا منہا نے مڑ کر اسے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا
“تم سے نہیں پوچھا میں نے مجھ پر اتنا غور مت کیا کرو”
منہا آنکھیں چھوٹی کیے منہ بسور کر اسے جواب دیتی جانے لگی جب یکدم عابر اس کے قریب ہوا منہا گھبرا کر ڈریسنگ سے لگ گئی
“مجھے تم پر غور کرنا اچھا لگتا ہے تم مجھے خود کو دیکھنے سے نہیں روک سکتی ہو”
عابر اس کے چہرے کے قریب چہرہ لائے گھمبیر لہجے میں کہتے ساتھ اس کی سانس سینے میں اٹکا گیا وہ آنکھیں زور سے میچ گئی اس میں سے آتی سٹرونگ خوشبو منہا کو بےبس کررہی تھی وہ بامشکل کھڑی تھی عابر کچھ دیر اسے اسی طرح کھڑا تکتا رہا اور پھر دور ہوا
“یو چیپسٹر اپنی یہ تھرڈ کلاس باتیں اپنے پاس رکھو کہیں نہ ہو کہ میرے ہاتھوں قتل ہوجاؤ”
منہا غصے سے سرخ چہرہ لیے شہادت والی انگلی اس کی جانب اٹھائے تپ کر کہنے لگی
“میں تو یہی چاہتا کہ میں تمہارے ہاتھوں مارا جاؤں”
عابر اسے مزید تپا نے کیلیے جان کر کہنے لگا منہا کی آنکھیں مزید بڑی ہوگئی
“عابر زید علی میں تمہیں سچ میں ماردوں گی”
منہا چلا کر کہتے ساتھ اپنے بیگ لینے کی جناب بڑھی عابر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی
“چلو اب”
منہا اسے دیکھے بغیر خفگی بھرے لہجے میں کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی عابر بھی اپنا بیگ لیتا پیچھے آیا۔
~~~~~~~~~~~
منہا آج وقت پر پہنچ گئی تھی مگر وہ لڑکا آج بھی امل کیساتھ والی جگہ پر موجود تھا منہا نے ایک نظر اس لڑکے ہر ڈالی پھر امل پر جیسے اس لڑکے کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا منہا اس کے لیفٹ میں موجود ساتھ والی چئیر پر آکر بیٹھ گئی
“اوہ منہا آ گئی تم”
امل جو کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھی منہا کو دیکھتے ہی خوشی سے کہنے لگی منہا نے اثبات میں سر ہلا دیا اور اس لڑکے کی جانب اشارہ کیا جس پر امل کندھے اچکا گئی جیسے بتانا چاہ رہی ہو وہ نہیں جانتی
“کون ہے یہ لڑکا”
کیف اور عابر ان دونوں کی کلاس سے گزر رہے تھے تو عابر منہا پر ایک نظر ڈالنے کیلیے رک گیا جو کہ امل سے باتیں کرنے میں مصروف تھی تبھی کیف کی نظر امل کے ساتھ موجود بیٹھے ہینڈسم لڑکے پر گئی جو امل کو دیکھ رہا تھا
“کیوں رکغھے کیا ہے؟”
عابر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنا ضروری سمجھا
“کچھ نہیں بس ویسے ہی پوچھا اس کیساتھ تو ہمیشہ منہا ہی بیٹھتی ہے”
کیف تھوڑا کنفیوز سا ہوکر اسے جواب دینے لگ گیا جس پر عابر سر کو خم دے گیا اور وہ دونوں آگے کی جانب بڑھ گئے
“خیریت ہے نا کیف آج کل بہت سیریس رہنے لگ گیا ہے”
عابر اس کے ساتھ چلتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا کیف نے اسے دیکھا
“یہ دن کبھی نہیں آ سکتا ہے اچانک تیری لائف جو چینج ہوئی اس لیے خاموش ہوں”
کیف اس کی حالت کو سمجھتے ہوئے کہنے لگا جس پر عابر اسے دیکھتا ہلکا مسکرا کر پیٹ تھپتھپا گیا۔
منہا کا لیکچر فری نہیں تھا مگر عجیب سی طبیعت ہونے پر وہ کلاس اٹینڈ نہیں کررہی تھی وہ گراؤنڈ میں آکر بیٹھ گئی دل عجیب سا گھبرا رہا تھا اس نے کینٹین سے پانی کی بوتل کی اور پانی پینے لگی مگر طبیعت پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ اٹھ کر گراؤنڈ میں ٹہلنے لگ گئی
“تم یہاں”
منہا اپنے پیچھے عابر کی آواز پر فوراً پلٹی اور اسے دیکھا
“ہمم طبیعت عجیب سی ہورہی ہے”
منہا اسے سپاٹ سے لہجے میں جواب دیتی گراؤنڈ پر واپس بیٹھ گئی عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“فریش جوس لادوں؟؟”
عباد فکرمند سا اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا منہا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
“عابر پلیززز یہ تو کیرنگ ہسبینڈ والی حرکتیں بند کرو ہم دونوں یونیورسٹی میں صرف سٹوڈنٹس ہیں”
منہا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے جواب دیتی پانی پینے لگ گئی جب عابر نے بوتل اس کے ہاتھ سے چھین لی
“خالی پیٹ پانی پینا نقصان دہ ہوتا ہے”
عابر بوتل کو بند کرتے ہوئے کہنے لگا منہا نے گھور کر اسے دیکھا
“میں صبح والی تمہاری حرکتیں بھولی نہیں ہوں سمجھیں “
منہا غصے سے اسے دیکھتے ہوئے یاد دلانے لگ گئی عابر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی
“گڈ اچھا ہے بھولنی چاہیے بھی نہیں “
عابر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گیا منہا نے اسے دیکھا
“انتہائی کوئی ڈھیٹ انسان ہو”
منہا ناک پھلا کر اسے دیکھتے ہوئے کہتے نظروں کا تعاقب دوسری طرف کرگئی
“تم سے کم “
عابر اسی کے انداز میں جواب دے گیا اور منہا منہ کھولے اسے دیکھنے لگی جو کتنی ہٹ دھرمی سے اسے ڈھیٹ بول گیا تھا
“مجھے کلاس لینے جانا ہے”
منہا عابر سے غصے میں کہتی بیگ کندھے پر لٹکا کر وہاں سے چلی گئی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔
یونیورسٹی کا آف ہوچکا تھا منہا گاڑی میں آکر بیٹھ گئی
“چلو”
وہ بیگ اتار کر اسے دیکھے بغیر ہی باہر ہی جانب نظریں جمائے بولی جب عابر اس کے قریب ہوا منہا کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی اس کی حالت ایک بار پھر غیر ہونے لگ گئی عابر سیٹ بیلٹ ہاتھ میں لیتا اس کی خوبصورت ہیزل گرین آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیلٹ باندھنے لگا وہ آنکھیں زور سے میچ گئی اس کی گرم سانسوں کی تپش اسے بےبس کردیتی تھی عابر سیٹ بیلٹ باندھتا واپس اپنی جگہ پر آ گیا
“یہ کیا حرکت ہے عابر”
منہا اسے دیکھتے ہوئے اب کی بار سرد لہجے میں پوچھنے لگی
“تمہاری سیفٹی کیلیے کہ ضروری تھا”
عابر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسے جواب دینے لگا
“بھاڑ میں گئی میری سیفٹی اپنی ان چیپ حرکتوں سے بعاز آجاؤ ورنہ پھر اگر میں یہ بولوں گی کہ تم جان جان کر میرے قریب آتے ہو تو تم چیخنے شروع ہوجاؤ گے”
منہا نظریں سامنے مرکوز کیے سختی سے کہنے لگی عابر گاڑی سڑک پر دوہرا گیا
“میں حق رکھتا ہوں پورا”
وہ ترکی بہ ترکی جواب دے گیا منہا نے اسے دیکھا
“میں نے تمہیں حق نہیں دیا ایسا میری نظر میں ہمارا نکاح ایک کاغذی ٹکرا ہے صرف اور تم مجھے میری اجازت کے بغیر چھونا تو دور دیکھ بھی نہیں سکتے”
منہا دو ٹوک انداز میں اسے جواب دیتی کہنے لگی
“میں دونوں کرسکتا ہوں مجھے کوئی نہیں روک سکتا “
عابر اب کی بار لہجہ سختی سجائے روعب سے کہنے لگا
“میں روک سکتی ہوں سمجھیں تمہارے قریب آنے سے بہتر ہے مجھے موت آجائے “
منہا تپ کر کہتے ساتھ نظریں ونڈسکرین سے باہر کی جانب مرکوز کر گئی عابر کے چہرے پر یکدم سختی در آئی اس نے گاڑی کی اسپیڈ ایکدم تیز کردی منہا گھبرا کر پریشان سی اسے دیکھنے لگی
“عابر سپیڈ ہلکی کرو”
منہا اسے دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہنے لگی جو عابر سنی ان سنی کرگیا اور گاڑی کی رفتار مزید تیز کرگیا منہا اسے حیرانگی سے دیکھنے لگی
بیس منٹ کا سفر اس نے سات منٹ میں طہ کیا تھا اور گھر کے باہر روکی منہا گاڑی سے اتری اور اسے سپیڈ کیساتھ وہ اسے دیکھے بغیر گاڑی واپس سڑک پر دوہرا گیا منہا اسے جاتا دیکھنے لگی تبھی کسی نے منہا کے منہ پر رومال رکھا منہا کی آنکھیں بڑی ہوگئی منہا نے مزاحمت کرنا چاہی مگر کچھ ہی دیر میں وہ بے ہوش ہو گئی وہ شخص اسے لیتا گاڑی میں ڈال کر تیز رفتار سے گاڑی سڑک پر دوہرا گیا یہ سب اتنا اچانک اور جلدی ہوا کہ گارڈ کچھ کر ہی نہیں سکا تھا
~~~~~~~~~~~
“کیا ہوا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے”
سمینہ محترمہ کمرے میں واپس آئی عنایت صاحب کو ایسا سنجیدہ اور پریشان بیٹھا دیکھ کر فکرمند سی پوچھنے لگی
“دل عجیب سا ہورہا ہے گھبرا رہا ہے اچانک”
وہ کہتے ساتھ جگ سے پانی گلاس میں ڈال کر لبوں سے لگا گئے
“آپ منہا کی وجہ سے پریشان ہورہے ہیں عنایت پلیزز ہم اس سے ایک بار جاکر مل لیتے ہیں “
سمینہ محترمہ ان کی حالت کی وجہ بخوبی جانتے ہوئے کہنے لگی عنایت صاحب نے انہیں دیکھا
“میرے میں اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے بہتر یہی ہے آپ اس متعلق بات نہ ہی کیا کریں تو اچھا ہے”
عنایت صاحب تھوڑے سرد لہجے میں جواب دیتے ساتھ واپس لیٹ گئے جس پر سمینہ بھی خاموش ہوگئی کئی دنوں سے وہ اسی طرح نڈھال سے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور یہ صرف منہا کی دوری کی وجہ سے مگر وہ ضد پر اڑے ہوئے تھے اس سے نہیں ملنے جائیں گے۔۔
~~~~~~~~~~
شام کے وقت جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اسے اکیلا دیکھ پہلے تو فہمیدہ جو حیرانگی ہوئی مگر بولی کچھ نہیں وہ بھی انہیں مکمل نظرانداز کرتا کمرے کی جانب بڑھا کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے منہا کہیں دیکھائی نہیں دی اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے
“بابا”
عابر اسے کمرے میں موجود نہ پاکر اونچی آواز میں بابا کو پکارنے لگ گیا
“جی عابر بیٹا”
وہ اسے پریشان دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگے
“منہا کو دیکھا ہے”
عابر نے انہیں دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھا وہ پریشان سے عابر کو دیکھنے لگے
“مگر وہ تو گھر ہی نہیں آئی عابر بیٹا”
بابا کے منہ سے نکلے گئے الفاظ عابر کی سانس روک گئے وہ پریشان سا بابا کی جانب دیکھنے لگ گیا
“گھر نہیں آئی کیا مطلب ؟”
وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے لہجے میں سنجیدگی سجائے پوچھنے لگا
“جی عابر بیٹا صبح وہ آپ کے ساتھ یونیورسٹی گئی تھی اس کے بعد وہ واپس گھر نہیں لوٹی”
بابا بھی پریشانی سے کہتے ساتھ وہاں سے چلے گئے اور عابر اپنی جگہ ساکت ہوگیا
“گھر نہیں آئی تو کہاں گئی اور کہاں جاسکتی ہے”
عابر کے دماغ میں سوال گردش کرنے لگا اس کی پریشانی مزید بڑھ گئی عابر نے فون اٹھایا اور اس کا نمبر ڈائل کیا مگر وہ فون سوئچڈ آف آریا تھا اس نے فون زور سے دیوار پر ماردیا منہا کی غیر موجودگی میں عابر زید علی کا سانس لینا بھی مشکل ہورہا تھا وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا وہ کہاں جاسکتی ہے۔
اسے ایک گھر میں ایک کمرے میں کرسی پر رسیوں سے باندھ دیا ہوا تھا وہ اسی طرح بےہوش حالت پر کرسی پڑی تھی جب ان دونوں نفوس میں سے ایک نے اس پر پانی پھینکا وہ بھوکلا کر ایکدم اٹھی اور آنکھوں کو جبنش دیتی ان دونوں کو دیکھنے لگی سر بہت بھاری تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
“کون ہو تم لوگ”
منہا آنکھوں میں خوف سجا کر ان دونوں ہر نظریں جمائے فوراً سے پوچھنے لگی
“خاموش بلکل خاموش رہ”
ان دو وجودوں میں سے ایک نے غصے سے اسے کہا جس پر منہا اسے دیکھنے لگی وہ منہا کی طرف گن کیے ہوئے تھا
“مم۔میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا”
وہ خوفزدہ سی کپکپاتے ہوئے لہجے میں ان سے پوچھنا ضروری سمجھنے لگی
“اس منہ سے اب ایک آواز بھی نہیں نکلنی چاہیے ورنہ اس میں موجود ساری گولیاں تجھے ماردوں گا”
وہ شخص سفاک لہجے میں کہتے ساتھ کمرے میں بلکل اندھیرا کیے دونوں وہاں سے چلے گئے اور منہا کا خوف اس اندھیرے سے مزید بڑھ گیا اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے۔
عابر اسی وقت گاڑی میں بیٹھ کر باہر نکلتا اسے ڈھونڈنے لگا وہ لاہور کی بہت سی جگہوں پر اسے تلاش کرنے لگا مگر ںےفضول رہا عابر کو وہ کہیں بھی نہیں ملی
“اگر اس کے ساتھ کچھ”
عابر خوفزدہ سا خود سے سوچتا فوراً سوچ جھٹک گیا
“نو نیور ایسا کبھی نہیں ہوگا میں اسے بچا لوں گا”
عابر خود سے کہتے ساتھ گاڑی سٹارٹ کرتا واپس گھر کو لوٹا زید علی کی نظر اس پر گئی جو بےحد پریشان لگ رہا تھا
“تمہیں کیا ہوا ہے”
زید صاحب اسے اس طرح دیکھ پریشان سے پوچھنے لگے عابر نے انہیں دیکھا
“میں اسوقت آپ سے کسی قسم کی کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں”
عابر سنجیدہ لہجے میں جواب دیتے ساتھ واپس کمرے میں لوٹا اسے رہتے رہتے بس ایک ہی خیال آرہا کہ کہاں جا سکتی اسے تو یہاں کے راستوں کا بھی معلوم نہیں تھا
“صاحب “
تبھی ایک سرونٹ دروازے پر دستک دیتے ہوئے عابر کو پکارنے لگا عابر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
“مجھے معلوم ہے منہا میڈیم کہاں ہے”
وہ ملازم اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا عابر ایکدم اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس کی جانب بڑھا
“زید صاحب کو فون پر بات کرتے ہوئے سنا تھا وہ کہ رہے تھے کہ وہ چار بجے کے قریب یونیورسٹی سے گھر آئے گی تم اسے کیڈنیپ کرلینا گارڈ کچھ نہیں کرسکے گا”
سرونٹ اسے ساری بات سے آگاہ کرنے لگا عابر کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
“آپ سے ایسے ہی گٹھیا حرکت کی امید تھی”
عابر سرخ آنکھیں غصے سے کہتے ساتھ بھاری بھاری قدم اٹھائے نیچے کی جانب بڑھا
“منہا کہاں ہے”
عابر اونچی آواز اختیار کیے انہیں سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
“مجھے نہیں معلوم تمہیں معلوم ہونا چاہیے”
زید صاحب لاپرواہ سے انداز میں اسے ایک سرسری سی نظر یکھ کر جواب دینے لگے
“خیر اگر وہ دنیا کے آخری کونے میں بھی ہوتی تب بھی میں اسے ڈھونڈ نکالتا لیکن آپ سے ایسی گٹھیا حرکت کی توقع نہیں کی تھی میں نے”
وہ اپنے لفظوں کر زور دیے تنی ہوئی رگیں لیے غصے سے چلایا
“چلاؤ مت آخر کیا ہے اس لڑکی میں ہاں بولو کیا ہے اس نے مجھ سے بدتمیزی چھوٹے سے گھر کی چھوٹی لڑکی اس کی حیثیت نہیں ہے تمہاری بیوی اور میری بہو بننے”
ابھی زید صاف اپنی بات مکمل کررہے کہ عابر نے بیچ میں کاٹ دی
“اس کی حیثیت کیا ہے وہ آپ نہیں میں بتاؤں گا وہ میرے دل میں رہتے ہے وہ بہت خاص ہے اگر اسے ہلکی سی خروش آئی نا تو میں سچ میں بھول جاؤں گا کہ آپ میرے باپ ہیں”
عابر مزید اونچی آواز میں تیش کے عالم میں چیختا لمبے لمبے ڈھک بڑھتا ٹی وی لاؤنچ عبور کرتا گراج کی جانب بڑھ گیا ٹی وی لاؤنچ میں ایک گہرا سناٹا سا چھا گیا اپنے بیٹے کی آنکھوں میں موجود وحشت اور جنون دیکھ ایک پل کو وہ بھی پریشان ہوگئے تھے فہمیدہ بس مسکرا رہی تھی اس کی بدتمیزی انہیں بےحد پرسکون کرتی تھی۔۔
وہ گاڑی چلاتے ہوئے بار بار منہا کا سوچ رہا تھا اس کی حالت کا سوچ کر وہ بےحد پریشان ہورہا تھا چند گھنٹے اپنی نظروں سے دور پاکر عابر زید علی سب بھول گیا تھا سانس لینا بھول گیا تھا اگر اسے کچھ ہوگیا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرسکے گا یہ ساری سوچیں ذہن میں لیے وہ اپنے باپ کے دوسرے گھر کی جانب گاڑی موڑ گیا۔۔۔
منہا کو اس گہرے اندھیرے میں عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا اور اس کا دل گھبرانے لگ گیا تھا وہ اپنے بازوؤں کو رسیوں سے کھولنے کی سعی کررہی تھی اس سناٹے اور اندھیرے میں اچانک کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی قدموں کی آواز کان سے ٹکراتے ہی منہا کا وجود بری طرح کانپا تھا
“ککک۔۔ککون۔۔ہے”
منہا ناچاہتے بھی لہجے میں کپکپاہٹ لیے خوف سے پوچھنے لگی
“شششش”
سامنے موجود وجود نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر خاموش کروا دیا منہا کی سانس سینے میں اٹک گئی وہ خوف سے بھری آنکھیں لیے دیکھنے لگی
وہ شخص اس کے بازوؤں پر بندھی رسی کھولنے لگا منہا ساکت سی بیٹھی تھی۔۔
“پلیززز مجھے چھوڑ دو میں نے کی”
منہا نم آنکھوں سے بھرائی ہوئی آواز میں ابھی بول رہی تھی جب عابر نے ٹارچ اس کے چہرے پر ماری منہا عابر کو دیکھ اپنی جگہ منجمند ہوگئی اور روتے ہوئے فوراً اس کے سینے سے لگ گئی اس کے سینے سے لگتے ہی عابر کی ہارٹ بیٹ کی سپیڈ یکدم تیز ہوگئی۔عابر منہا کو اپنے پاس پاکر پرسکون سا ہوا تھا
“آر یو اوکے”
عابر اس کے گرد حصار قائم کرتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کیے پوچھنے لگا
“مجھے بچا لو عابر وہ لوگ مجھے مار”
منہا اس کے سینے سے لگی سسکتے ہوئے روتی ہوئی آواز میں بول رہی تھی کہ اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے
“میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی ہلکی سی خروش بھی نہیں دے سکتا موت تو بہت دور کی بات ہے میری من”
عابر اس کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے شدت سے بولتے ساتھ اسے زور سے خود میں بھیج گیا منہا کی سانس رک سی گئی۔۔
جاری ہے۔۔۔