وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 2

“کون ہے،کہاں رہتی ہے،کس کی بیٹی ہے،کیا نام ہے مجھے آج شام تک اس لڑکی کی ساری انفارمیشن لاکردو”
عابر اپنے دوست کیف کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگا کیف حیرانگی سے اسے دیکھنے لگ گیا
“عابر تم ٹھیک ہو تم ایک لڑکی میں انٹرسٹ لے رہے ہو”
کیف بےیقین سا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا عابد نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا
“انٹرسٹ نہیں لے رہا ہوں میں بریو گرل کی آکڑ کو ختم کرنا چاہتا ہوں”
عابر اسے دیکھتا مسکراتے ہوئے کیف کو بتانے لگا کیف خاموشی سے سر کو خم دے گیا
“ٹھیک ہے”
کیف سر کو اثبات میں سر ہلا کر بولا عابر بھی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا مسکرا گیا۔۔
بریک ٹائم منہا اور اس کی فرینڈ امل کیفے ٹیریے میں موجود تھی
“تم بہت بریو ہو واقع ورنہ عابر کو اس یونیورسٹی کا “swagger boy” کہا جاتا ہے جو اس کا دل آتا ہے وہ کرتا ہے لیکن تم نے اچھا کیا “
امل منہا کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی منہا بھی مسکرادی
“ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی ہے تم بھی تو نیو ہو نا تو پھر تمہیں اتنا کیسے معلوم ہے اس کے بارے میں”
منہا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے چائے کا کپ لبوں سے لگا گئی
“میری بہن یہاں پڑھتی تھی اس نے ہی مجھے سب بتایا تھا “
امل بھی چائے کا کپ اٹھا کر اسے جواب دینے لگ گئی
“تو اب تمہاری بہن کہاں ہے؟؟”
منہا کی جانب سے ایک اور سوال آیا امل نے اسے دیکھا
“شادی ہوگئی ہے اس کی”
وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گئی منہا سر کو خم دے گئی
“ویسے ایک راز کی بات بتاؤ میرے بابا نے مجھے بہت سٹرونگ بنایا ہے لیکن میں آج بھی چھپکلی سے ڈرتی ہوں”
منہا اسے دیکھتے ہوئے تھوڑا آہستہ آواز میں ہنس کر بتانے لگی امل بھی ہنسنے لگ گئی پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا کیف یہ بات سن کر مسکرادیا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔
~~~~~~~~~~~~
عابر گھر میں داخل ہوا تو نظر زید علی پر گئی وہ آگے بڑھ کر ٹی وی لاؤنچ میں آیا
“عابر”
زید علی کی آواز پر عابر کے بڑھتے قدم رکے اس نے مڑ کر انہیں دیکھا
“جی”
عابر سپاٹ لہجے میں انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگ گیا
“تم نے پھر اپنی مام سے بدتمیزی کی ہے تم کیوں اچھے سے نہیں رہ سکتے اس کے ساتھ”
زید علی سرد لہجے میں اسے دیکھتے خفگی سے بولی عابر نے ایک نظر فہمیدہ محترمہ پر نظر ڈالی اور چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ سجا گیا
“یہ میری مام نہیں ہیں مام ایسی نہیں ہوتی ہیں”
عابر زید علی کو دیکھتے ہوئے صاف لفظوں میں بولتا اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگ گیا
“دیکھا یہ ایسے ہی مجھ سے بات کرتا ہے جیسی ماں ویسا بیٹا”
فہمیدہ محترمہ زید علی کو دیکھتے اونچی آواز میں بولی عابر نے مڑ کر سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگ گیا اور ٹیبل پر پڑا واس اٹھا کر زمین پر پٹک گیا فہمیدہ محترمہ اور زید علی دونوں سہم کر رہ گئے اور وہ غصے سے بھاری قدم اٹھائے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
عابر کمرے میں اندھیرا کیے بہت ہی دیر سے روم میں بیٹھا تھا منہ میں سگریٹ لیے وہ پینے میں مصروف تھا
“کاش ایک دفعہ آپ مجھے ملیں تو میں پوچھوں آپ سے کہ کیوں آپ نے ان لوگوں کو مجھے دے دیا”
وہ آنکھیں بند کیے دل میں خود سے کہنے لگ گیا تبھی اس کا دوست کیف اس کے کمرے میں داخل ہوا
“عابر”
کیف کمرے میں داخل ہوتا اسے پکارنے لگ گیا عابر نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا
“ہمم”
وہ ڈسٹ بین میں سگریٹ پھینک کر سر کو خم دیتے ہوئے پوچھنے لگ گیا۔
“تمہارے لیے بہترین خبر لایا ہوں وہ منہا جو ہے نا وہ چھپکلی سے ڈرتی ہے”
کیف اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بتانے لگ گیا عابر نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا
“تو میں کیا کروں یہ بتانے آئے ہو”
عابر غصے سے چیخ کر اس ے کہنے لگ گیا کیف پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا
“ہم بہت مزا چھکا سکتے ہیں اس سے اس لڑکی کو”
کیف کہتے ساتھ اسے سارا پلان بتانے لگ گیا عابر کے لبوں پر ایک گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی
“کل ملتے ہیں بریو گرل”
وہ دل میں بولتا چہرے کی مسکراہٹ کو مزید گہرا کرگیا کیف اسے منہا کے متعلق بھی تمام انفارمیشن دیتا چلا گیا
~~~~~~~~~~~
منہا اور عنایت صاحب ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے کرکٹ میچ دیکھنے میں مصروف تھے
“یس چھکا”
منہا تالی مار کر چلا کر کہنے لگی عنایت صاحب بھی خوش ہوئے تبھی سمینہ محترمہ ٹی وی لاؤنچ میں داخل ہوئی
“کتنا چیخوں گی بس کردو سر درد ہورہا ہے میرا”
سمینہ محترمہ سر پر ہاتھ رکھے ان دونوں کو دیکھ کر کہنے لگ گئی
“ماما آئیں آپ بھی کرکٹ میچ دیکھیں پاکستان جیت رہا ہے”
منہا پرجوش سی انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئی وہ اسے دیکھنے لگ گئی
“مجھے بہت کام ہے اور ایک تمہاری اور ان کی چیخوں سے سر میں درد ہورہا ہے جس کی وجہ کام نہیں کرسک رہی ہوں”
سمینہ محترمہ فوراً سے منہا کو دیکھتی کہنے لگ گئی
“ویسے بابا دادی ٹھیک کہتی تھی جس دن زیادہ کام ہوتا ہے نا اس دن ماما کے سر میں بہت درد ہوجاتا ہے”
منہا ہنستے ہوئے عنایت صاحب کو دیکھتی کہنے لگ گئی
“شکر ہے میں نے کچھ نہیں کہا”
عنایت صاحب مسکرا کر سمینہ محترمہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئے
“خود تو کچھ کرنا نہیں ہے اور زبان دیکھیں آپ اس کی کل کو اگلے گھر جائے گی تو انگلیاں تو ہم پر ہی اٹھیں گے”
سمینہ محترمہ منہا کو غصے سے دیکھتے ہوئے خفگی سے کہنے لگ گئی
“ابھی میری شادی میں تین چار سال دیر ہے تب تک کچھ نہ کچھ سیکھ لوں گی آپ لوگوں کی تربیت پر انگلیاں نہیں اٹھنے دوں گی دیکھ لیجیے گا”
منہا مسکراتے ہوئے کندھے اچکا کر بولی جس پر سمینہ محترمہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئی
“اتوار والے دن تم کچن میں نظر آنی چاہیے ہو مجھے”
کچن سے سمینہ محترمہ کی آواز آئی اور ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے عنایت صاحب اور منہا ہنس دیے
~~~~~~~~~~~~
منہا یونیورسٹی میں داخل ہوئی اپنا بیگ ٹھیک کرتی وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگی مگر کسی وجود سے وہ بری طرح ٹکرائی اور اس کے ہاتھ میں موجود کتاب زمین پر گر گئی کیف نے فوراً اس کتاب میں کچھ رکھا اور بند کرگیا
“آئی ایم سوری ریلی سوری میں نے دیکھا نہیں”
کیف اسے کتاب اٹھا کر اسے دیتے ہوئے معذرت کرنے لگا منہا اسے دیکھنے لگ گئی
“اٹس اوکے”
منہا اسے کہتے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئی اور کیف مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
منہا کلاس میں داخل ہوئی اور امل کے ساتھ خالی سیٹ پر بیٹھ گئی سر کلاس میں آ چکے تھے لیکچر شروع ہوگیا سائیڈ پر کھڑے عابر اور کیف کھڑکی سے کلاس کو جھانک رہے تھے منہا نے کتاب کھولی
“آہہہہہہ آہہہہہ دور کرو اسے سیو می”
منہا اپنی آنکھوں کے سامنے چھپکلی کو دیکھ کر گھبرا کر چیختی رونے لگ گئی سر سمیت تمام کلاس کے سٹوڈنٹس منہا کو دیکھنے لگ گئے عابر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
“سیو می “
وہ کتاب کو خود سے دور پھینکتی روتے ہوئے بولی تبھی ایک سٹوڈنٹ نے اس چھپکلی کو پکڑا اور اونچا اونچا ہنسنے لگ گیا
“یہ تو نقلی ہے”
وہ ہنستے ہوئے اونچی آواز میں بولا منہا اور سب سٹوڈنٹس نے چھپکلی کی جانب دیکھا اور منہا کو دیکھ کر ہنسنے لگ گئےمنہا شرمندگی سے سر جھکا گئی
“آپ فریش ہوکر آئیں”
سر منہا کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا وہ آنسو صاف کرتی کلاس سے باہر کی جانب بڑھ گئی
“ہیلو مس بریو گرل”
منہا اپنے کانوں سے جانی پہچانی آواز سنتی پلٹی وہ جیب میں ہاتھ ڈالے گردن ٹیڑھی رکھے اونچا اونچا ہنس رہا تھا
“اتنی بریو گرل ایک چھپکلی سے ڈر گئی چھی چھی چھی”
عابر اس کی جانب بڑھتے ہوئے ہنس کر کہنے لگ گیا منہا اس وقت کوئی جواب دینے کی کنڈیشن میں نہیں تھی اس لیے بس غصے سے اسے دیکھتی پیر پٹک کر وہاں سے چلی گئی وہ ہنستے ہوئے اسے جاتا دیکھ رہا تھا
منہا فریش ہوکر واپس کلاس روم میں آئی اور بغیر کسی کو دیکھے خاموشی سے لیکچر لینے لگ گئی امل اسے دیکھ رہی تھی۔
“کسے معلوم ہوا اس کا یہ سب کس نے کیا”
امل اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگی
“اس پاگل انسان کے علاؤہ اور کون کرسکتا ہے چپ تو میں بھی نہیں بیٹھوں گی اس بےعزتی کا بدلہ میں ضرور لوں گی”
منہا غصے سے پاگل ہوتی عابر پرایک سرد نگاہ ڈال کر آگے کی جانب بڑھنے لگ گئی
لیکچر لینے کے بعد امل اور وہ کیفے ٹیریے کی جانب بڑھنے لگ گئی۔
عابر کیفے ٹیریے میں داخل ہوا تو سٹون بالز پر پاؤں رکھتے ہی وہ ان بیلنس ہوتا زمین پر گر گیا منہا سمیت سب نے زوردار قہقہہ لگایا عابر حیران سا یہ سب دیکھ رہا تھا
“ہیلو swagger boy#”
منہا اس کے پاس آتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چہرے پر دلفریب مسکراہٹ سجائے مزاحیہ انداز میں اسے بولی عابر نے اسے سرد نگاہوں سے دیکھا منہا اٹھ کر چلی گئی عابر اسے سرخ آنکھوں سے جاتا دیکھنے لگ گیا کیفے ٹیریے میں۔ قہقوں کی آواز گونج رہی تھی وہ غصے سے اٹھ کر ایک کرسی پر لات مارتا ہر ایک کی سانس روک گیا وہ سب ایکدم خاموش ہوگئے اور عابر غصے سے منہا کے پیچھے کی جانب بڑھا اور اس کا بازو پکڑ کر مضبوط گرفت حائل کرتا اسے دیوار سے پن کر گیا منہا ایک پل کو گھبرا گئی
“جو تم نے کیا ہے نا آج یہ بہت مہنگا پڑے گا تمہیں”
عابر سرخ انگارہ برستی نگاہوں سے اسے دیکھتا غصے سے غرایا
“اوہ میں تو ڈر گئی”
منہا ہنستے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگ گئی عابر اسے دیکھ رہا تھا
“ڈرتی تو میں کسی سے بھی نہیں عابر زید علی لیکن بہت مزا آنے والا ہے سی یو سون”
منہا چہرے پر مسکراہٹ سجائے چیلنجنگ انداز میں اسے بولتی ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی
“تم بہت پچھتاؤ گی”
وہ غصے سے دیوار پر مکہ مارتا کہنے لگ گیا مگر قسمت میں کیا ہونا تھا اس سے دونوں ہی انجان تھے۔
عابر اپنے دوست کیف کے ساتھ یونیورسٹی کی گراؤنڈ میں موجود تھا
“یار یہ لڑکی تو ہماری سوچ سے بھی زیادہ پہنچی ہوئی ہے”
کیف عابر کو دیکھتے ہوئے پریشان سا کہنے لگ گیا عابر نے سرخ نگاہوں سے اسے دیکھا
“شیٹ ایپ جسٹ شیٹ شیٹ ایپ”
عابر سخت تیور لیے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا جس پر کیف گھبرا گیا
“سوری یار”
وہ شرمندہ سا سر جھکا کر بولا عابر سگریٹ لبوں سے ہٹاتا کیف کو دیکھنے لگ گیا
“وہ جانتی نہیں ہے اس نے کس کے ساتھ منہ ماری کی ہے بہت مہنگی پڑنے والی ہے اس کو یہ دشمنی بس تھوڑا صبر کرے”
عابر کیف پر اپنی سرد نگاہیں گاڑھے لفظوں پر زور دیے سر ہلاتے ہوئے کہنے لگ گیا کیف اسے دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ خاموش تو نہیں بیٹھنے والا تھا
“تو بےفکر رہ وہ ہمیں ابھی جانتی کہاں ہے اس سے زیادہ مزا چھکائیں گے اسے ڈونٹ وری”
کیف اسے تسلی دیتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگ گیا عابر نے اسے دیکھا
“بہت اچھا سبق سیکھاؤں گا جسٹ ویٹ اینڈ واچ”
عابر چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ کر بولا کیف بھی مسکرا دیا۔۔
~~~~~~~~~~~~
ماضی۔۔۔
سندس محترمہ اسی طرح روتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی انہیں ایسا لگا وہ بلکل ختم ہوچکی ہے ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے گئے
“اے میرے مالک میرے گناہوں کی اتنی بڑی سزا نہ دیں مجھے مجھ پر ترس کھا میرے مالک”
سندس محترمہ اوپر سر کیے بےبسی سے روتے ہوئے بولی
“مجھے معاف کردیں مجھے میرا بیٹا دے دیں اللہ تعالیٰ میں جانتی ہوں میں نے بہت زیادہ گناہ کیے ہیں لیکن اتنی بڑی سزا نہ دے مجھے”
سندس محترمہ روتے سسکتے ہوئے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی معافی مانگ رہی تھی مگر شاید ان کے گناہ بہت تھے جس کی وجہ سے سالہ نے انہیں اس اذیت میں ڈالا تھا ان سے ن کی اپنی اولاد کو دور کردیا ایک ماں کیلیے اپنی اولاد سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا وہ اسی طرح زمین پر بیٹھی بےجان وجود کے ساتھ روتی چلی گئی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial