قسط 3
منہا لیکچر لے کر کلاس سے باہر نکلی تھی اسے کچھ نوٹس بنانے تھے وہ اور امل کیفے ٹیرے کی جانب بڑھ گئے کیفے ٹیرے میں بہت رش تھا
“امل ایسا کرو کہ تم جوس اور سینڈوچ لائبریری میں لے آؤ میں وہی نوٹس بنانے جارہی ہوں”
منہا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی وہ اثبات میں سر ہلا کر کیٹین کی جانب بڑھ گئی اور منہا لائبریری کی طرف قدم بڑھا گئی
وہ لائبریری میں داخل ہوئی تو سامنے ہی نظر عابر پر گئی جو ایک لڑکی کے بےحد قریب تھا وہ لڑکی منہا کو دیکھ کر گھبرا گئی اور عابر نے بھی نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا
“تمہیں شرم نہیں آتی ہے ایک لڑکی کے ساتھ کیا حرکتیں کررہے ہو تم ہاں”
منہا فوراً سے اس کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے غصے سے عابر کو دیکھتی بولی
“ہوگیا تمہارا کچھ پتہ نہیں ہے اور بلاوجہ ہی بکواس کیے جارہی ہو”
عابر ناگوار سا اسے دیکھتا تپ کر بولا منہا کا دل کیے اسے کوئی چیز دے مارے
“لسن مسٹر اگر میں بات کر بھی رہی ہوں تو تمیز کے دائرے میں کررہی ہوں تمہاری مام نے تمہیں تمیز نہیں سیکھائی کیا”
منہا اسے غصے سے دیکھتی سینے پر بازو باندھ کر بولی
“جسٹ شیٹ ایپ مجھ سے دور رہو تم اپنے کام سے کام رکھو میرے معاملوں میں دخل مت دو اور تم کیوں کھڑی ہو چلو میرے ساتھ”
عابر سرد لہجے میں منہا سے کہتے ساتھ سائیڈ پر کھڑی لڑکی کو دیکھتا بولا وہ فوراً عابر کے پیچھے چل دی منہا اسے جاتا دیکھتی لائبریری سے باہر کی جانب بڑھ گئی
“ہم یہی کرلیتے ہیں کام”
منہا کیفے ٹیریے واپس آتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی امل نے اسے دیکھا
“کیوں”
امل پریشانی سے اسے دیکھتی پوچھنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“وہ پاگل انسان استغفرُللہ کسی لڑکی کے ساتھ تھا “
منہا امل کو دیکھتے ہوئے منہ بنائے بولی امل ہنس دی
“میں اسے صرف زبان کا بدتمیز سمجھتی تھی مگر وہ تو کردار کا بھی برا ہے”
منہا کرسی پر بیٹھتے ہوئے پین ہاتھ میں پکڑے امل کو بولی
“خیر ہمیں کیا منہا ان کی قبر ان کے جواب”
امل اسے فوراً سے بولتی جوس پینے لگ گئی منہا بھی سر کو خم دے گئی۔۔
~~~~~~~~~~~
عابر اسوقت اپنے روم میں اندھیرا کیے بیڈ پر گہری نیند سونے میں مصروف تھا
“یہ میری اولاد نہیں ہے یہ ایک کوٹھے والی کی اولاد ہے “
عابر کے کانوں میں اچانک یہ آواز گونجی اور وہ پسینے سے شرابور فورآ نیند سے جاگا اور اٹھ کر بیٹھ گیا عابر گہرے گہرے سانس لیتا۔ ڈریسنگ کی سائیڈ پر موجود پانی گلاس میں پڑا اٹھا کر لبوں سے لگاتا ایک کی سانس میں پی گیا
گلاس واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھتا عابر چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا اس قدر مشکل سے اسے نیند آئی تھی اور نیند پھر ٹوٹ گئی تھی
وہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر واپس لیٹتا سونے کی کوشش کرنے لگا نیند آنکھوں سے بہت دور تھی سوچیں اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی
وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھتا آنکھیں بند کرتا سونے کی کوشش کرنے لگ گیا
~~~~~~~~~~~~
منہا یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور نظر ارد گرد گھمائی
“شکر ہے آج میرا سامنا نہیں ہوا”
وہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے خود سے بولتی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب قدم بڑھا گئی۔
“منہا چلیں کلاس میں”
امل اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی
“تم جاؤ مجھے لائبریری سے کچھ بکس لینی ہے میں وہ لے کر آرہی ہوں”
منہا اسے کہتے ساتھ لائبریری کی طرف قدم بڑھا گئی اور امل کلاس کی جانب بڑھ گئی
منہا لائبریری میں بکس ڈھونڈنے لگی عابر اسے لائبریری میں جاتا دیکھ چکا تھا
“اپنی کل کی انسلٹ کا بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے”
عابر چہرے پر شاطر مسکراہٹ سجائے خود سے بولتے ساتھ لائبریری کی جانب بڑھا لائبریری میں کوئی بھی نہیں تھا شاید اسوقت سب لوگ لیکچرز لینے میں مصروف تھے منہا اکیلی تھی عابر نظریں ادھر ادھر گھما کر لائبریری کو لاک کرگیا
منہا اپنی بکس لیتی کلاس لینے کیلیے لائبریری سے باہر آنے لگی دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر نہیں کھلا
“دروازہ کھولو کون ہے باہر دروازہ کھولو “
منہا دروازے کو پیٹ کر آوازیں لگانے لگی باہر موجود عابر اس کی آوازیں سن کر مسکرانے لگ گیا
“افف اللہ کلاس مس ہو جائے گی میری کس نے یہ حرکت کی ہے”
منہا پھر سے دروازہ پیٹ کر خود سے سوچنے لگی اچانک اس کے تیز ذہن میں عابر کا خیال آیا
“آج تم نہی بچو گے میرے ہاتھوں عابر زید علی”
منہا غصے سے دانت پیس کر بولتے ساتھ بیگ سے فون نکال کر امل کو کال کرنے لگ گئی مگر وہ فون اٹھا نہیں رہی تھی شاید کلاس لینے کی وجہ سے سائلنٹ پر کیا ہوا تھا
“فون اٹھاؤ امل”
منہا ٹہلتے ہوئے بولی مگر امل نے کال اٹینڈ نہیں کی وہ مایوسی سے کال کٹ کر گئی
منہا کو اندر کھڑے کھڑے چالیس منٹ ہوچکے تھے اب اس کی برداشت ختم ہورہی تھی
“اتنا بہت ہے بریو گرل کیلیے اب میرے ساتھ بدتمیزی نہیں کرے گی”
عابر ریسٹ واچ پر نظر ڈال کر کہتا لائبریری کا لاک کھولتا وہاں سے تیزی سے آگے بڑھ گیا منہا نے یوں اچانک ہی لائبریری کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلا ہوا تھا وہ فوراً باہر نکلی اور نظر اپنی بائیں جانب ڈالی عابر کو جاتا دیکھ اس کا شک یقین میں بدل گیا
” تم نے اچھا نہیں کیا عابر”
منہا اسے کہتے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے کیفے ٹیریا میں گئی عابر چئیر پر آکر بیٹھا تھا منہا اس کے پاس آئی اور سامنے ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے منہ پر پٹک دیا عابر یکدم گھبرا گیا
“عابر زید علی بدلہ پورا ہوا میں یہاں پڑھنے آئی ہوں مجھے تمہارے ساتھ کسی کی کوئی گیم نہیں کھیلنی ہے تو اب ایسی کوئی حرکت مت کرنا سمجھیں تم اپنے راستے میں اپنے راستے”
منہا اسے وارن کرنے والے انداز میں بولتی وہاں سے جانے لگی
“اور ہاں میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو تمہارے پیچھے دم ہلاتی پھرتی ہے”
منہا مڑ کر اسے دیکھتی غصے سے بتانا ضروری سمجھتی چلی گئی
~~~~~~~~~~~~
عابر اسوقت اپنے روم میں کھڑا تھا اور منہا کی باتیں سوچ رہا تھا
“اب میں کچھ نہیں کرنے والا بس بہت کرلیا بدلہ پورا ہوچکا ہے میں اپنے راستے اور وہ اپنے راستے “
عابر دل میں خود سے بولتے ہوئے سر کو خم دے گیا اور کافی کا ملک لبوں سے لگا گیا
منہا ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی عابر کے متعلق سوچ رہی تھی
“منہا بس بہت ہوگیا ہے اب وہ کچھ کرے گا بھی نہیں میں نے کوئی جواب نہیں دینا کر کر کے ایک نہ ایک بار تھک جائے گا اور ویسے بھی میں وہاں اسٹڈی کرنے کیلیے جاتی ہوں اور میں نے بابا کی عزت کو خراب نہیں کرنا اس لیے بس اپنے تک محدود رہنا ہے منہا”
منہا خود کو سمجھاتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے بولی سمینہ محترمہ نے اسے دیکھا
“یونیورسٹی جاکر پاگل ہوگئی ہو کیا خود سے ہی بولی جارہی ہو”
سمینہ محترمہ اسے دیکھتی فوراً سے کہنے لگی منہا ہوش میں آئی اور سر پر ہاتھ رکھا
“ماما آپ کا کوئی ڈرامہ نہیں لگنا ہے یار”
منہا انہیں دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی سمینہ محترمہ اسے دیکھنے لگی
“بلکل دادی پر گئی ہے یہ”
سمینہ محترمہ منہ بنائے کہنے لگی منہا نے انہیں دیکھا
“دادی چلی گئی لیکن ماما اور دادی کی نہیں بن سکی”
منہا نظریں جھکائے دل میں کہتے ساتھ لیز کھانے لگ گئی اور سمینہ محترمہ ٹی وی دیکھنے لگ گئی
~~~~~~~~~~~~
تمام جونئیرز اور سینئرز کو اڈیٹوریم میں بلایا گیا تھا منہا اور امل دونوں اڈیٹوریم کی جانب بڑھے تبھی نظر عابر پر گئی جو جیب میں ہاتھ ڈالے گردن تیرچھی کیے کھڑا تھا منہا نے ایک نظر اسے دیکھا اور امل کے ساتھ آگے بڑھ گئی
“اسلام و علیکم سٹوڈنٹس جونیئرز اور سینئیرز کیلیے بہت اچھا موقع ہے خود کو ثابت کرنے کا کیونکہ ہم ایک ایسا پروجیکٹ دے رہے ہیں آپ کو جس میں ہر جونئیرز اور سینئیرز حصہ لے سکتا ہیں ٹیمز بنائیں جائیں گی ایک جونیئر اور ایک سنئیر ہوگا نوٹس بورڈ میں لسٹ لگ چکی ہے آپ سب جاکر اپنے پارٹنرز دیکھ سکتے ہیں یہ پروجیکٹ کمپلیٹ کرنے کیلیے آپ کے پاس تین دن ہیں “
سر مائک پر اناؤسمنٹ کرتے ہوئے بتاتے چل دیے اور سب سٹوڈنٹس نوٹس بورڈ کی جانب بڑھ گئے
منہا اور عابر بھی نوٹس بورڈ کی جانب بڑھے اور منہا اپنا نام ڈھونڈنے لگ گئی
“منہا عنایت اینڈ عابر زید علی”
منہا آنکھیں بڑی کیے حیرانگی سے نام پڑھنے لگ گئے اور منہا نے سر پیٹ دیا
“لے گئے”
عابر بھی نوٹس بورڈ پر نظریں جمائے بولا منہا نے ایک نظر اسے دیکھا اور عابر نے بھی اسے دیکھا
“میں یہ پروجیکٹ تمہارے ساتھ نہیں کرسکتی ہوں”
منہا عابر کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی عابر اسی کو دیکھ رہا تھا
“جیسے میں تو تمہارے ساتھ پروجیکٹ کرنے کیلیے مرا جارہا ہوں”
عابر فوراً سے غصے سے بولتا اپنے بال ماتھے سے ہٹانے لگا
“چلو پھر سر کے آفس میں”
منہا اسے اشارہ کرتی بولی عابر اس کے ساتھ چل دیا
وہ دونوں آفس کی جانب بڑھے اجازت لیتے اندر داخل ہوئے
“سر ہم دونوں اپنا پاٹنر بدلنا چاہتے ہیں ہم یہ پروجیکٹ ساتھ نہیں کرسکتے”
منہا سر کو دیکھتی ایک نظر عابر پر ڈال گئی سر نے انہیں دیکھا
“تو پروجیکٹ ختم کردیں”
سر نے فوراً سے انہیں جواب دے دیا منہا اسے دیکھنے لگی
“نہیں سر میرا فرسٹ پروجیکٹ ہے”
منہا فوراً سے سر کو کہنے لگ گئی عابر خاموشی سے دیکھ رہا تھا
“اور کسی کو کوئی ایشو نہیں ہے اپنے پاٹنرز سے اور اپنی پرسنل لائف سائیڈ پر رکھیں اور آپ تو اپنے کالج کی شائن اسٹوڈنٹ تھی تو کیوں ڈر رہی ہیں آپ منہا “
سر اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے سنجیدگی سے بولے منہا انہیں دیکھنے لگ گئی
“میں کسی سے نہیں ڈرتی میں یہ پروجیکٹ کروں گی”
منہا فوراً سے سر کو جواب دے گئی اور عابر اسے دیکھنے لگا
“یہ پھر شروع ہوگئی”
عابر اسے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلاتا باہر کی جانب بڑھ گیا منہا بھی اس کے پیچھے آئی۔
“پریزنٹیشن میں بناؤں گی”
باہر نکلتے ہی منہا اسے دیکھے بغیر فوراً سے کہنے لگ گئی عابر کے بڑھتے قدم رکے
“ایکسکیوز می پچھلے دو سال سے میں اس یونیورسٹی میں ٹاپ کررہا ہوں”
عابر فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا
“ہاں معلوم ہے رشوت دے کر”
منہا منہ بنائے طنزیہ لہجے میں اسے بولی عابر اسے دیکھتا رہ گیا
“تم پاگل تو نہیں ہو کون رشوت لے گا یونیورسٹی میں “
عابر غصے سے اسے دیکھتا سرد لہجے میں بولا منہا دانتوں تلے لب دے گئی
“پھر بھی میں بناؤں گی پریزینٹیشن”
منہا ڈٹ کر اسے جواب دینے لگ گئی عابر اسے دیکھ رہا تھا
“دونوں بنائیں گے اس کے بعد جس کی پسند آئے گی دونوں کو وہی ڈن کریں گے”
عابر بات ختم کرتے ہوئے کہنے لگ گیا منہا ایک نظر اس پر ڈالتی آگے کی جانب بڑھ گئی
“اوہ ہیلو”
عابر اسے جاتا دیکھ کر جیب میں ہاتھ ڈالے جواب دینے لگ گیا
“کیا”
منہا مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی
“نمبر دو اپنا کوئی کام بھی پڑسکتا ہے”
عابر فون جیب سے نکال کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا منہا اسے آنکھیں چھوٹی کیے دیکھنے لگ گئی
“کیوں کیوں دو میں تمہیں اپنا نمبر ہاں”
منہا فوراً سے سینے پر بازو باندھ کر بولی عابر نے اسے حیرانگی سے دیکھا
“پروجیکٹ ساتھ کررہے ہیں تو کوئی کام پڑے گا تو کیسے کروں گا بات”
عابر اسے اونچی آواز میں اپنی بات سمجھاتے ہوئے بولا منہا اسے دیکھنے لگ گئی
“ایک شرط پر تم تین دن بعد میرا نمبر بلاک کردو گے”
منہا اسے دیکھتی شرطیہ انداز میں بولی عابر ایک پل کیلیے اکتا گیا
“میں تمہارا نمبر رکھ اپنے فون کی توہین کرنا بھی نہیں چاہتا”
عابر بھی اسے دوٹوک جواب دے گیا منہا کو مجبوراً اسے نمبر دینا پڑا عابر نمبر سیو کرتا فون واپس جیب میں ڈال گیا منہا خاموشی سے وہاں سے چلی گئی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
“آئی ڈونٹ نو کیا ہے یہ لڑکی؟”
عابر اسے جاتا دیکھ کر خود سے بولتا آگے کی جانب بڑھ گیا
~~~~~~~~~~~~
منہا کمرے میں اندھیرا کیے گہری نیند سورہی تھی تبھی اس کا فون چیخنے لگ گیا منہا نیند سے جاگتی سائیڈ ٹیبل کی جانب ہاتھ بڑھا کر فون اٹھاتی کان سے لگا گئی
“کون ہے”
منہا آنکھیں مسل کر نیند میں بڑبڑاتے ہوئے بولی
“عابر اٹھو”
عابر اسوقت اپنے روم کی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا شاید اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھا
“کیا مصیبت ہے رات کو اس پہر فون کرنے کا کوئی جواز”
منہا اٹھ کر بیٹھتی بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے فوراً سے کہنے لگ گئی
“مجھے نہ اپنے کام جلدی کرنے کی عادت ہے اس لیے اٹھو اور بک میکانکس کا پیچ نمبر 76 پر جو ٹوپک ہے نا اس کی تصویر بنا کر میرے نمبر پر سینڈ کرو میری بک سے وہ ٹوپک مس ہے”
عابر کتاب پر نظریں مرکوز کیے فوراً سے بولا منہا نے گھڑی پر نظر ڈالی اور منہ بسور کر رہ گئی
” بدھ کو سبمٹ کروانا ہے ہم نے”
منہا اسے بتانا ضروری سمجھنے لگی عابر نے ایک نظر فون پر ڈالی
“مجھے کام فوراً کرنے کی عادت ہے تصویر بنا کر فوراً بھیجو”
عابر نے یہ کہتے ساتھ فون بند کرگیا اور منہا فون کو دیکھتی رہ گئی اور منہ کے زاویے بگاڑتی وہ اٹھ کر بیگ سے کتاب نکال کر اس ٹوپک کی تصویر کھینچ کر عابر کے نمبر پر سینڈ کر گئی
“میں اب اپنا فون سوئچ آف کررہی ہوں کیونکہ صبح اتوار ہے اور مجھے میری نیند پوری کرنی ہے دوبارہ فون مت کرنا”
منہا وائس ناٹ کرتی اسے سینڈ کرکے فون بند کر گئی عابر نے تصویر دیکھی اور وائس نوٹ آن کیا لبوں پر ناچاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ سج گئی