قسط 6
“کیف”
عابر اس کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر مخاطب کرنے لگا کیف نے اسے دیکھا
“ایک کام کرو ایک چاکلیٹس بکے لے کر آؤ ابھی”
عابر کیف کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگا
“چاکلیٹس بکے کس کیلیے ؟”
کیف فوراً سے مسکرا کر اس سے پوچھنے لگا عابر اسے ہی دیکھ رہا تھا
“تمہیں جو کہا ہے اتنا کرو “
عابر اسے گھور کر دیکھتے ہوئے کہنے لگا کیف منہ بنا گیا
“میں پہلے کچھ کھا لوں بہت بھوک لگی ہے اس کے بعد لے آؤں گا”
کیف پیٹ پر ہاتھ رکھتا اسے کہنے لگا عابر اسے دیکھ رہا تھا
“ابھی جاکر لے کر آ ورنہ کچھ بھی کھانے کے قابل نہیں رہے گا”
عابر اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے بولا جس پر اسے دیکھنے لگ گیا
“عجیب کمبختی ہے دے پیسے”
کیف منہ بنائے روتی شکل بنا کر کہتے ساتھ بولا عابر نے اسے پیسے دیے اور وہ یونیورسٹی سے چل دیا اور عابر کلاس لینے کیلیے آگے بڑھ گیا۔
منہا اور امل کلاس سے باہر نکلے تبھی کیف منہا کی جانب آتا دیکھائی دیا
“یہ تمہاری طرف کیوں آرہا ہے”
امل کیف کو آتا دیکھ منہا سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“پتہ نہیں مجھے”
منہا بھی ناسمجھی سے نفی میں سر ہلا گئی
“منہا یہ عابر نے تمہارے لیے بھیجا ہے”
کیف اس کی جانب چاکلیٹس بکے کیے فوراً سے کہنے لگ گیا منہا نے چاکلیٹس بکے تھاما اور اس پر پڑی چٹ کو کھولا
“تھینک یو منہاswagger boy#”
منہا چٹ پر لکھا پڑھنے لگی پڑھتے ہی لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
وہ گراؤنڈ کی جانب بڑھ گئے اسے عابر سامنے سامنے کھڑا نظر آیا
“اس کی ضرورت نہیں تھی میں سچائی کا ہمیشہ ہی ساتھ دیتی ہوں”
وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی عابر اسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا
“لیکن مجھے لگا ضرورت تھی اینڈ سوری فار ایوری تھنگ”
عابر عام سے لہجے میں ایکسکیوز کرتے ہوئے کہنے لگا کیف اس کے سوری کرنے پر حیرت سے منہ کھول گیا
“چٹکی کاٹ یہ تو ہی ہے نا”
کیف اس کے پاس آتے ہوئے صدمے سے بولا عابر نے منہ والا تھپڑ مارتا کیف منہ بسورے گال پر ہاتھ رکھ گیا
“تو عابر ہی ہے”
وہ منہ بنائے کہنے لگا عابر کے ہونٹ تھوڑا اوپر کو اٹھے۔
“نہیں سوری کی ضرورت نہیں ہے اس کا حساب میں ساتھ ساتھ لیتی رہی ہوں”
منہا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی عابر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اس کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوا
“ویسے تم اتنے برے بھی نہیں ہو جتنا سوچا تھا میں نے”
منہا عابر کو دیکھتے ہوئے ایک چاکلیٹ کھول کر کھاتے ہوئے بولی
“تم بھی ویسی نہیں ہو جیسا سوچا تھا”
عابر اسی پر نظریں مرکوز کیے جواب دینے لگا
“تم دونوں کی باتیں ہوگئی ہوں تو کینٹین چلیں”
کیف فوراً سے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہنے لگا عابر اور منہا دونوں نے اسے دیکھا
“تمہیں بھوک لگی ہے تو تم چلے جاؤ نا”
عابر کیف کو دیکھنے ہوئے بولا جو اسی کو دیکھ رہا تھا
“وہ پیسے نہیں ہیں میرے پاس”
کیف چہرے پر معصومیت سجائے بولا عابر نے اسے دیکھا
“کہاں گئے پیسے”
عابر اسے دیکھتا فوراً سے سوال کرنے لگ گیا
“ڈیڈ نے میرا ڈیبٹ کارڈ فریز کروا دیا ہے”
وہ پھر سے روتی شکل بنائے کہنے لگا منہا مسکرا گئی اور وہی امل اسے دیکھنے لگی۔
“یہ لے جا”
عابر اسے پیسے دیتے ہوئے کہنے لگا وہ مسکراتے ہوئے چلا گیا منہا اور امل بھی وہاں سے چلی گئی
“اگر میں یہ گھر لے کر گئی تو میری اماں نے میرا بینڈ بجا دینا ہے اسی لیے ان چاکلیٹس کو بیگ میں رکھ لیتی ہوں مفت کی چاکلیٹس وہ بھی اتنی ساری کوئی پاگل ہی ہوگا جو چھوڑے گا”
منہا خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے کہتے ساتھ بیگ میں رکھنے لگ گئی
~~~~~~~~~~~~~
آج رات ان کا ٹرپ نکلنا تھا اور منہا پیکنگ کرنے میں مصروف تھی سمینہ محترمہ اس کے ساتھ بیٹھی آنسو بہا رہی تھی
“اتنی رات کو جائے گی اکیلے “
وہ روتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر منہا انہیں دیکھنے لگ گئی
“امی دو دن کی بات ہے اور اکیلی نہیں جارہی آدھے سے زیادہ یونیورسٹی ٹرپ پر جارہی ہے”
منہا انہیں بتاتے ساتھ کپڑے بیگ میں رکھتی اسے بند کر گئی اور اب مزید ضرورت کی اشیاء رکھنے لگی
“پھر بھی اتنی رات کو جانا ضروری نہیں تھا”
وہ روتے ہوئے اسے بولی تبھی عنایت صاحب کمرے میں داخل ہوئے
“سمینہ نیو جنریشن ہے بےفکر رہو کچھ نہیں ہوگا یہی ایج ہے اور ویسے بھی مجھے میری بیٹی پر پورا بھروسہ ہے”
وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگے جس پر سمینہ محترمہ انہیں دیکھنے لگ گئی
“کچھ ایسا ویسا نہ کرکے آجانا خیر سے جانا”
سمینہ محترمہ منہ بنائے اسے کہنے لگی منہا مسکرا گئی
“نہیں کرتی ہوں”
منہا انہیں فوراً سے جواب دینے لگ گئی اور منہا اب ریڈی ہونے کیلیے باتھروم کی جانب بڑھ گئی
عابر شاور لے کر کمرے میں داخل ہوا اور ڈریسنگ پر آکر کھڑا ہوتا مرر میں خود کو دیکھتا ہاتھوں کی مدد سے بال ٹھیک کرنے لگ گیا اچانک اسے منہا کا عکس شیشے میں دیکھائی دیا وہ پریشانی سے گردن موڑ کر دیکھنے لگا مگر وہاں کوئی نہیں تھا یعنی وہ اس کا خیال تھا
“نو عابر ایسا کچھ مت سوچو کوئی لڑکی نہ تمہارے ساتھ اور نہ میں اس کیساتھ رہ سکتا ہوں”
عابر خود کو یاد دلاتے ہوئے کہتے ساتھ تیار ہونے لگ گیا ٹی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے بڑھی ہوئی بئیرڈ میں وہ اسوقت بےحد ڈیشنگ لگ رہا تھا وہ زینے اتر کر ٹی وی لاؤنچ میں آیا تو فہمیدہ اور زید علی بیٹھے ہوئے تھے
“کہاں جارہے ہو؟”
زید علی اس کے ہاتھ میں موجود بیگ دیکھ پوچھنے لگے عابر نے ان کی جانب دیکھا
“ٹرپ جارہا ہے یونیورسٹی کا”
وہ انہیں دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بتانے لگ گیا جس پر وہ اٹھ کھڑے ہوئے
“ٹرپ جارہا ہے اور تم نے مجھے بتانا ضروری بھی نہیں سمجھا کہ تم بھی جارہے ہو ہاں”
زید صاحب اسے دیکھتے ہوئے درشتی سے کہنے لگے
“پہلے کب آپ نے پوچھا ہے مجھ سے جو اب میں آپ کو بتاتا”
عابر بھی تیز لہجے میں جواب دینے لگ گیا جس پر فہمیدہ مسکرائی
“خیر مجھے دیر ہورہی ہے”
وہ کہتے ساتھ جیب میں ہاتھ ڈالے ٹی وی لاؤنچ سے باہر کی جانب قدم بڑھا گیا
“بہت شوق تھا بیٹا پیدا کرنے کا گندہ ہی خون پیدا کیا ہے”
فہمیدہ طنزیہ لہجے میں زید علی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی
“چپ کرو فہمیدہ میرا خون ہے وہ “
وہ چلا کر کہتے ساتھ وہاں سے چلے گئے فہمیدہ انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی
~~~~~~~~~~
عابر اور بہت سے سٹوڈنٹس یونیورسٹی پہنچ چکے تھے وہ گیٹ کی جانب نظریں کیے ہوئے تھا
“کس کا انتظار کررہا ہے”
کیف اس کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا عابر نے اسے دیکھا
“کسی کا نہیں”
عابر اسے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا کیف مسکرا گیا
“مجھے معلوم ہے تو کس کا انتظار کررہا ہے آتی ہی ہوگی ویسے تجھے پیار تو نہیں ہوگیا”
کیف اسے تنگ کرتے ہوئے بولا عابر نے اسے دیکھا
“پٹ جائے گا میرے ہاتھوں معلوم ہے نا میں کبھی ایک لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کروں گا “
عابر غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولا جس پر وہ خاموش ہوگیا اور عابر دوبارہ نظریں گیٹ کی جانب کرلیں تبھی منہا آتی دیکھائی دی پرپل رنگ کی لانگ شرٹ میں ساتھ میں جینز پہنے سر پر بلیک سٹالر کیے چہرہ بلکل سادہ میک ایپ سے پاک مگر پھر بھی بےحد خوبصورت لگ رہی تھی عابر اسے آتا دیکھ مسکرا گیا اس کے ہونٹوں پر موجود ڈمپل ایک بار پھر نمودار ہوا اور اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی
“کہیں مجھے واقع تو پیار نہیں ہوگیا”
عابر خود کی کیفیت سے انجان کہنے لگا اور فوراً نفی میں سر ہلا گیا
تمام بسز جانے کیلیے ریڈی تھی منہا اور امل ایک بس پر خاموشی سے اکٹھے بیٹھ گئے اور انہیں کے سامنے والی سیٹ پر عابر اکیلا بیٹھا ہوا تھا
“ایکسکیوز می میں یہاں بیٹھ جاؤ”
ایک لڑکی عابر کے پاس آتے ہوئے بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتی پوچھنے لگی
“میرے خیال سے پیچھے بہت سی سیٹس خالی ہیں آپ وہاں بیٹھ جائیں”
عابر اسے صاف جواب دیتے ساتھ نظریں دوسری سمت کر گیا اور لڑکی خاموشی سے پیچھے موجود سیٹ پر بیٹھ گئی منہا نے عابر کی جانب دیکھا اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی
“تم کیوں بلاوجہ مسکرا رہی ہو “
امل کی نظر منہا پر گئی وہ فوراً سے اس سے پوچھنے لگی منہا نے اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلا گئی
“تم سناؤ تمہارا بیسٹ فرینڈ کیف کہاں ہے”
منہا ہنستے ہوئے اسے چھیڑتی کہنے لگی امل اسے گھورنے لگی تبھی کیف بس میں مسکراتے ہوئے آیا
“ہیلو امل”
وہ مسکراتے ہوئے امل کو دیکھتے ہوئے فوراً اسے ہاتھ ہلانے لگ گیا
“شیطان کا نام لیا شیطان حاضر”
امل فوراً سے کہنے لگی منہا قہقہ لگا گئی اور کیف عابر کیساتھ خالی سیٹ سنبھال گیا
سفر شروع ہوچکا تھا اور سب لوگ گانے وغیرہ کرکے انجوائے کررہے تھے مگر عابر ایک سائیڈ پر الگ کانوں میں ہینڈ فری لگائے ہوئے بیٹھا تھا
“یار عابر انجوائے تو کر ایک سائیڈ پر ہوگیا ہے”
کیف اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے کہنے لگا عابر نے اسے دیکھا
“چپ کرکے جو کررہا ہے وہ کر ورنہ یہی اتر جاؤں گا اور تجھے بھی ساتھ لے جاؤں گا”
عابر گھور کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا کیف سیدھا ہوا
“اچھا اچھا نہیں تنگ کرتا تجھے”
کیف اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے بولتے ساتھ پھر سے گانے گانے لگ گیا
ہلکی ہلکی روشنی ہونا شروع ہوچکی تھی منہا نے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر نظر ڈالی تو پانچ بج رہے تھے اسے شدید نیند آرہی تھی وہ اپنا سر سیٹ سے ٹکا کر خود کو اچھے سے کور کرتی آنکھیں بند کر گئی اور فوراً ہی اسے نیند آ گئی عابر نے ایک چور نگاہ اس پر ڈالی وہ خود کو مکمل کور کیے سونے میں مصروف تھی ہیزل گرین آنکھیں پردے میں تھی وہ بہت دیر اسے نظروں کے حصار میں لیے بیٹھا رہا
آٹھ بجے کے قریب ناشتے کیلیے بس کو ایک جگہ پر روکا تھا ان سب نے ناشتہ وغیرہ کیا تھا منہا اب پہلے سے زیادہ فریش دیکھ رہی تھی
“اچھی جگہ ہے نا”
امل اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی جس پر منہا بھی اثبات میں سر ہلا گئی
عابر کھڑا ایک سائیڈ پر چائے پی رہا تھا
“جو بھی ہے ہماری کلاس کا سب سے ٹائٹ پیس منہا ہی ہے”
دو لڑکے ساتھ کھڑے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے بولا عابر کی آنکھیں سرخ ہوگئی اور وہ چائے کا کپ پھینک کر غصے سے آنکھوں میں سرخی لیے اس کی جانب بڑھا
“کیا بکواس کررہا تھا ہاں”
عابر ماتھے پر بل لیے گرج آواز میں اس کا گریبان پکڑے پوچھنے لگا وہ لڑکا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگ گیا
“گرل فرینڈ ہے کیا “
وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا عابر نے اس کا گلا فوراً دبوچ لیا اور وہ شخص حیرت سے اسے دیکھنے لگ گیا
“میں جو بھی ہوں منہا کا آج کے بعد اگر یہ تیری گندی نظریں اسکی جانب اٹھی بھی تو تیرے ساتھ وہ کروں گا کہ تیرے اپنے گھر والے تجھے پہچاننے سے انکار کردے گا یاد رکھیں”
عابر اس کی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑھے وارن کرنے والے انداز میں کہتے ساتھ اس کا گلہ چھوڑتا وہاں سے چلا گیا اور وہ شخص پیچھے کھڑا کھانسنے لگ گیا۔
~~~~~~~~~~
آدھے گھنٹے کے سٹے کے بعد وہ لوگ پھر سے سکردو کیلیے چل پڑے اور چار گھنٹے کے مزید سفر کے بعد وہ لوگ سکردو پہنچ چکے تھے رہنے کیلیے ایک فارم ہاؤس لیے تھا دوپہر کے قریب وہ لوگ سکردو پہنچ گئے ہر روم میں چار چار سٹوڈنٹس سٹے کرنے والے تھے ابھی منہا امل اور ان کیساتھ مزید دو یونیورسٹی کی لڑکیاں اپنے روم میں آئی وہ باری باری فریش ہوئی اور تھوڑا ریسٹ کرنے کیلیے بیڈ پر لیٹ گئی
“لنچ کیلیے آپ کو نیچے بلایا جارہا ہے”
کچھ دیر بعد ہی ایک عورت آتے ہوئے انہیں پیغام دیتی چلی گئی
“یار کتنا مزا آئے گا نا یاہوو”
کیف پرجوش سا عابر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا عابر نے اسے دیکھا
“تو ایسے ری ایکٹ کررہا ہے جیسے پہلی دفعہ آیا ہے یہاں”
عابر اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہنے لگا جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گیا
“بات تو ٹھیک ہے لیکن لڑکیاں بھی ہے نا “
وہ فوراً سے ہنس کر کہنے لگا عابر نفی میں سر ہلا گیا جیسے بتانا چاہ رہا ہو تیرا کچھ نہیں ہوسکتا۔
سب سٹوڈنٹس فارم ہاؤس کے لان میں پہنچ چکے تھے وہاں چار چار چیئرز کی ٹیبل لگائی ہوئی تھی کیف کی نظر امل اور منہا پر گئی
“یار وہ دیکھ امل اور منہا وہی چلتے ہیں”
کیف اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہتا اس طرف بڑھ گیا عابر بھی خاموشی سے اس کے پیچھے آیا
“امل میں یہاں بیٹھ جاؤ”
کیف چئیر پر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا
“تم بیٹھ چکے ہو کیف”
امل نے اسے ایک نظر دیکھ کر جواب دیا اور عابر بھی خاموشی سے ساتھ والی چئیر پر بیٹھ گیا
“تمہیں پوری جگہ میں اور کوئی ٹیبل نہیں نظر آئی”
امل اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے پوچھنے لگی کیف نے اسے مسکرا کر دیکھا
“نہیں مجھے تمہارے ساتھ بیٹھنا تھا”
کیف اسے تنگ کرنے کیلیے بولا امل نے گھور کر اسے دیکھا منہا ہنس گئی عابر کی نظر اس پر گئی اس کی مسکراہٹ واقع بہت پیاری تھی
“اس کی باتوں پر مت ہنسو یہ تھوڑا ابنارمل ہے”
عابر فوراً سے اسے مکہ مار کر کہنے لگا امل عابر کی بات ہنس دی
“نہیں مجھے تو ابنارمل نہیں لگتا مجھے بہت اچھا لگتا ہے کیف”
منہا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی کیف مسکرا کر اسے دیکھنے لگ گیا
“تم کتنی اچھی ہو یار تھینکیو”
کیف فوراً سے منہا کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگ گیا جس پر منہا پھر سے مسکرادی
کچھ ہی دیر میں انہیں لنچ میں دیسی کھانا کھانے کو ملا تھا بریانی رائتہ سلاد اور ساتھ کڑاہی موجود تھی
“گھر میں یہ کھائیں اور یہاں بھی یہی کھائیں کچھ الگ ہونا چاہیے تھا”
کیف منہ بسورے کھانے کو دیکھ کر کہنے لگا منہا کھانا شروع کرچکی تھی
“جیسی تمہاری شکل ہے نا تم یہ بھی کھانا ڈزرو نہیں کرتے”
امل گھور کر اسے کہنے لگی کیف نے اسے دیکھا
“اے شکل پر مت جانا میری مام مجھے بہت پیارا کہتی ہیں”
کیف اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے بولا جس پر امل اسے دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی منہا ایک بار پھر قہقہ لگا کر ہنسی
“مجھے اب واقع لگ رہا ہے میرا ٹرپ پر آنے کا ڈیثین غلط نہیں تھا”
منہا ہنستے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی کیف مسکرا کر اسے دیکھنے لگا عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“سٹوڈنٹس کچھ ہی دیر میں آپ سب کو سٹپارہ لیک گھمانے لے کر جائیں گے سو ریڈی ہوجائیں”
سر ان سب کو اطلاع دیتے ہوئے کہتے ساتھ وہاں سے چلے گئے وہ سب لنچ کھاتے ہی واپس اپنے رومز کی جانب بڑھ گئے