وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 9

“بابا پلیزز ایسا مت کریں میری بات سنیں”
منہا نما آنکھیں لیے انہیں بےبسی سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی عنایت صاحب نظریں سامنے جمائے ہوئے تھے
“آج شام تمہارا نکاح ہے عابر کے ساتھ اس کی تیاری کرو”
وہ سرد اور سپاٹ لہجے میں عابر پر ایک نظر ڈال کر منہا کو بغیر دیکھے کہنے لگے منہا ان کے پیروں پر بیٹھ گئی
“بابا ایسی مت کریں میری بات سنیں میں آپ کی بیٹی آپ کا غرور منہا ہوں آپ میرا یقین کریں”
منہا ان کے پیروں پر بیٹھی گڑگڑاتے ہوئے بھرائی آواز میں بولی وہ خاموش بیٹھے رہے
“عابر تم کیوں خاموش ہو کچھ بولو تمہاری وجہ سے ہوا ہے سب گٹھیا انسان سب کرکے کیسے خاموش کھڑے ہو”
منہا عابر کے پاس آکر غصے سے چیخ کر اسے کہنے لگی عابر خاموش سا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا
“میں تم جیسے انسان سے کبھی بھی نکاح نہیں کروں گی میرا کوئی قصور نہیں ہے ایسا کچھ نہیں ہے میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں عابر پلیزززز پلیززز ایسا مت کرو میرے بابا کو سچ بتاؤ “
منہا اس کے سامنے ہاتھ جوڑے روتے ہوئے منت بھرے لہجے میں کہنے لگی عابر نے کرب سے آنکھیں بند کرلی
“منہا تمہارا اور عابر نکاح ایک گھنٹے میں ہے اگر تم نے انکار کیا تو سمجھنا میں ہمیشہ کیلیے تمہارے لیے مر گیا”
عنایت صاحب گرج دار آواز میں منہا پر سخت نگاہیں گاڑھے حکمیہ لہجے میں کہتے وہاں سے اٹھ کر چل دیے منہا بےیقینی سے مردہ نگاہوں سے اپنے باپ کو جاتا دیکھ رہی تھی عابر خاموش کھڑا منہا کو تک رہا تھا وہ روتے ہوئے کمرے میں چلی گئی
وہ کمرے میں بیٹھی تھی تبھی سمینہ محترمہ اس کے روم میں آئی منہا نے ان کی طرف دیکھا
“بچپن سے لے کر آج تک میری ہر بات مانی ہے مجھے آزادی دی مجھے سپورٹ کیا لیکن مجھے جب سب سے زیادہ آپ لوگوں کے اعتبار اور آپ لوگوں کی ضرورت تھی آپ دونوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا”
منہ نم آنکھیں لیے زمانہ محترمہ کو دیکھتے لہجے میں بےبسی لیے کہنے لگی سمینہ محترمہ اسے دیکھنے لگ گئی
“بچپن سے لے کر آج تک جو تم نے کہا جو تم چاہا ہم نے بغیر کوئی سوال کیے تمہاری ہر خواہش کو پورا کیا ہم یہ نکاح کرکے ہماری عزت کو پامال ہونے سے بچا لو”
سمینہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ کمرے سے چلی گئی وہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی
“عابر تو ہوش میں ہے تو نے ہامی کیوں بڑھی “
کیف اس کے سر پر کھڑا اسے دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگا عابر نے اسے دیکھا
“پتہ نہیں “
عابر کیف کو دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گیا
“عابر تو پاگل کے تو انکار کردے جاکر یہ سب نہیں ہوسکتا ہے شادی گڈا گڈی کا کھیل ہرگز نہیں ہے یہ ساری زندگی کا فیصلہ ہے “
کیف اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے لگا عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“تمہارے ڈیڈ پاکستان میں نہیں اور تمہاری مام کو معلوم ہوگا”
کیف ابھی بول رہا تھا جب عابر نے اسے فوراً ٹوک دیا
“ماں نہیں ہے وہ میری”
عابر نے فوراً سے اسے بتانا ضروری سمجھا
“دیکھ عابر انکار کر جاکر اندر انکل کو معلوم ہوا تو وہ ناجانے کیا کر بیٹھیں گے تیرے ساتھ”
کیف اسے سمجھاتے ہوئے تحمل سے کہنے لگا جس پر عابر نے اسے دیکھا
“آئی ڈونٹ کئیر لیکن اسوقت ہر چیز سے زیادہ امپورٹنٹ میرے لیے منہا کی عزت ہے میں یہ نکاح کروں گا”
عرید کہتے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گیا کیف اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
کچھ دیر میں مولوی صاحب وہاں موجود تھے
“منہا عنایت خان ولد عنایت خان آپ کا نکاح عابر زید علی ولد زید علی کیساتھ حق مہر تیس لاکھ کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے”
منہا خاموشی سے آنکھوں میں نمی لیے بیٹھی تھی اس کے کانوں سے یہ الفاظ ٹکرائے وہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہی
“منہا عنایت خان ولد عنایت خان آپ کا نکاح عابر زید علی ولد زید علی کیساتھ حق مہر تیس لاکھ کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے”
ایک بات پھر مولوی صاحب نے اس سے پوچھنا چاہا وہ اسی طرح بغیر کوئی حرکت کیے ساکت بیٹھی رہی سب اسے دیکھ رہے تھے
“”منہا عنایت خان ولد عنایت خان آپ کا نکاح عابر زید علی ولد زید علی کیساتھ حق مہر تیس لاکھ کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے”
مولوی نے تیسری بار اس سے پوچھنا چاہا
“قبول ہے بولو”
عنایت صاحب کی سرد آواز کانوں سے ٹکرائی تو وہ ہوش میں آتی ایک خالی نگاہ عنایت صاحب پر ڈال گئی
“قبول ہے قبول ہے قبول ہے”
منہا نے سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا
“عابر زید علی ولد زید علی آپ کا نکاح منہا عنایت خان ولد عنایت خان سے حق مہر تیس لاکھ کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے”
مولوی صاحب نے اب کی بار عابر سے پوچھا عابر نے منہا پر ایک نظر ڈالی
“قبول ہے”
وہ فوراً سے جواب دے گیا مولوی صاحب نے دو بار مزید اس سے پوچھا اس نے قبول ہے بول دیا اور اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں آ گئے ایک ہی دن میں ان دونوں کی زندگیوں نے کیا رخ پھیرا تھا مولوی صاحب نکاح پڑھاتے چل دیے اور عابر بھی اٹھا منہا بھی ساتھ اٹھی
“اللہ حافظ اب میں اس گھر میں تب قدم رکھوں گی جب میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گی کیونکہ مجھے معلوم ہے میں غلط نہیں ہوں”
منہا عنایت صاحب اور سمینہ محترمہ کو دیکھے بغیر اٹل لہجے میں کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گئی
“انکل آپ کی بیٹی بہت اچھی ہے سب سے مختلف میں بس آپ کو یہ کہ سکتا ہوں جذبات میں آکر آپ نے بہت غلط فیصلہ کرلیا ہے مجھے نہیں معلوم میں اسے خوش رکھ بھی سکوں گا یا نہیں”
عابر عنایت صاحب کو دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ منہا کے پیچھے آیا کیف اور امل بھی خاموشی سے چلے گئے۔۔
ان سب کے جانے کے عنایت صاحب نڈھال سے صوفے پر بیٹھے آنکھوں میں نمی آئی
“کیوں جانے دیا آپ نے اسے کیوں کروایا زبردستی اس کا نکاح”
سمینہ محترمہ انہیں دیکھتے ہوئے مایوسی سے کہنے لگی جس پر انہوں نے سمینہ محترمہ کو دیکھا
“آج کے بعد اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی “
عنایت صاحب سرد لہجے میں کہتے ساتھ وہاں سے چلے گئے اور سمینہ محترمہ انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی
~~~~~~~~~~
پورا راستہ خاموشی سے طہ ہوا تھا وہ لوگ عابر کے گھر پہنچ چکے تھے اسوقت شام کے پانچ بج رہے تھے اور گھر میں ملازم کے علاؤہ کوئی موجود نہیں تھا
“یہ کون ہے عابر بچے”
بابا عابر کیساتھ اس لڑکی کو آتا دیکھ فوراً سے پوچھنے لگے
“میری بیوی ہے بابا”
عابر انہیں نارمل لہجے میں جواب دینے لگ گیا وہ خاموشی سے چلے گئے
“اوپر روم ہے میرا اسے لے جاؤں”
عابر امل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر منہا کو اپنے ساتھ لیے اس کے روم کی طرف بڑھ گئی وہ دونوں روم میں داخل ہوئے منہا بلکل خاموش کھڑی تھی امل اسے خاموش دیکھ کر پریشان ہوئی تھی
“تم ہی تو کہتی ہوں منہا کہ کبھی کبھی زندگی میں ایسا ہوجاتا ہے جو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا مگر وہی ہمارے لیے بہترین فیصلہ ہوتا ہے کیا پتہ عابر کا ساتھ تمہارے لیے بہتر ثابت ہو کیا پتہ تم عابر کیساتھ خوش رہو”
امل اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگی منہا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
“میں چلتی ہوں بہت دیر ہوگئی ہے”
امل کہتے ساتھ کمرے سے چلی گئی منہا بیڈ پر بیٹھ گئی۔
“منہا اس نکاح کیلیے بلکل بھی تیار نہیں تھی یہ بات ہم چاروں جو معلوم ہے اور اگر یہ بات یونیورسٹی میں کسی پانچویں کو معلوم ہوئی تو پھر انجام کی زمہدار تم ہوگے”
عابر سخت لہجے میں کیف اور امل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا وہ اس کی بات سمجھ کر اثبات میں سر ہلا گئے
“ہمیں چلنا چاہیے امل میں تمہیں ڈراپ کردوں گا”
کیف اسے کہتے ساتھ عابر ہر ایک نظر ڈالتا خاموشی سے چلا گیا امل کیف کو دیکھ کر پریشان اس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کیف کبھی اس حد تک بھی سنجیدہ اور چپ ہوسکتا ہے۔
~~~~~~~~~~~
وہ کمرے میں داخل ہوا تو اسے ٹہلتے ہوئے پایا اس کی آنکھوں میں نمی تھی جو عابر سے نہ چھپ سکی
“منہا”
عابر اسے دیکھتے ہوئے پکارنے لگا منہا نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا
“نام مت لو میرا تم نے جو کیا ہے تم بہت گٹھیا بہت بےغیرت آدمی ہو عابر تم نے اپنی چھوٹی سی انسلٹ کی وجہ سے میری زندگی برباد کرکے رکھ دی میرے ماں باپ کو مجھ سے چھین لیا یہ مت سمجھنا مجھ سے نکاح کرکے تم جیت گئے میں تمہاری زندگی جہنم بنا دو گی تم نے منہا سے پنگلہ لیا ہے تمہیں نہیں چھوڑو”
منہا سرخ آنکھیں لیے اسے دیکھتے چلا کر کہنے لگی جب اچانک عابر نے اس کا منہ دبوچ لیا اور اسے دیوار سے پن کیا منہا اچانک اتفاد پر بھوکلا گئی
“پچھلے پانچ منٹ سے میں تمہاری فضول بکواس سنے جارہا ہوں تمہیں بولنے دے رہا ہوں اس لیے بول رہی ہو اپنی زبان اور اپنا دماغ کم چلاؤ کیونکہ ضرورت سے زیادہ چلتے ہیں ورنہ اگر میں غصے میں کچھ کرگیا تو تمہیں پسند نہیں آئے گا”
وہ اس ے منہ پر دباؤ دیے آنکھوں میں سرخ سجائے غصے سے غرایا منہا ایک پل کو گھبرائی سرخ ہیزل گرین آنکھیں سرخ ڈارک براؤن آنکھوں سے ٹکرائی تھی
“جس دن میں نے یہ ثابت کیا کہ جو سب ہوا ہے تمہارے ساتھ وہ میں نے نہیں کیا اسی دن تمہیں خود تمہارے گھر چھوڑ کر آؤں گا”
عابر اس کے منہ سے ہاتھ ہٹا اس سے دور ہوتا کہنے لگا
“مجھے کمزور لڑکی سمجھنے کی ہرگز کوشش مت کرنا میں تمہاری دھمکیوں یا تم سے بلکل ڈرنے والی نہیں ہوں”
منہا اسے دیکھتے ہوئے اسی انداز میں بات کرتی اسے بولی
“تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو ورنہ اگر میں اپنی پر اتر آیا نا تو تمہارے لیے بہت برا ہوگا”
عابر اسے وارن کرنے والے انداز میں کہتے ساتھ بھاری قدم اٹھائے کمرے سے چلا گیا منہا اسے جاتا دیکھنے لگ گئی
“نفرت ہے مجھے تم سے شدید نفرت”
منہا چلاتے ہوئے آنکھوں میں نمی لیے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی
وہ لان میں ٹہل رہا تھا منہا کی باتیں اس کیلے ذہن میں گردش کررہی تھی اس نے فون پر نمبر ڈائل کیا
“تم اس وقت گھر آ سکتی ہو”
عابر فون کان سے لگائے کہنے لگا دوسری طرف موجود وجود کو حیرت ہوئی
“خیریت ہے نا؟”
وہ پریشانی سے اس سے پوچھنے لگی
“خیریت ہے نا”
دوستی طرف سے فوراً پوچھا گیا عابر نے ایک گہرا سانس لیا
“تم آجاؤ “
عابر نے کہتے ساتھ فون بند کردیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا
کچھ دیر بعد ٹی وی لاؤنچ میں عابر کی بہن ازنا موجود تھی
“کیا ہوا ہے کیوں اتنا اچانک بلایا ہے مجھے”
وہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“میں نے نکاح کرلیا ہے”
عابر نے اسے سنجیدگی سے جواب دیا اور ازنا کا قہقہ چھوٹ گیا عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“تم مذاق کیوں کررہے ہو عابر”
ازنا نے اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہا عابر اسے دیکھ رہا تھا
“میں مذاق نہیں کررہا ہوں میں واقع نکاح کر چکا ہوں اور وہ اسوقت میرے روم میں موجود ہے”
عابر لہجے میں بھرپور سنجیدگی سجائے کہنے لگا جس پر وہ بھی فوراً سیریس ہوئی
“اتنا اچانک نکاح مگر کیوں”
ازنا اب پریشان سی اس سے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگی
“بہت لمبی کہانی پھر سناؤ گا اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوا تم جاکر اسے کھانا کھلادو”
عابر فکرمند سے لہجے میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا ازنا نے اسے دیکھا
“تو تم کیوں نہیں کھلاتے ہو؟”
ازنا فوراً سے اس سے پوچھنے لگ گئی
“وہ شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہے میری میں لے کر جاؤں گا تو کبھی بھی نہیں کھائے گی شاید تمہاری بات مان جائے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گیا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی
ازنا کھانا لے کر عابر کے روم میں آئی وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی سر اٹھا کر اسے انجان نظروں سے دیکھا
“میں عابر کی بہن ازنا ہوں مجھے نہیں معلوم کیا ہوا ہے لیکن وہ جو نیچے بیٹھا ہے سخت ہے تھوڑا بدتمیز اور غصے کا تیز بھی ہے مگر برا نہیں ہے”
ازنا اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہنے لگی منہا اسے دیکھ رہی تھی
“کھانا کھا لو”
وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی منہا نفی میں سر ہلا گئی
“دیکھنی میں پڑھی لکھی سمجھدار لگتی ہو دوسری کی دی ہوئی تکلیف تو سمجھ آتی ہے مگر ہم خود کو کیوں تکلیف دیتے ہیں سمجھ سے باہر ہے بھوکے رہنے سے صرف تمہارا نقصان ہوگا کسی اور کا نہیں تو بہتر کھا لو “
ازنا اسے دیکھتے ہوئے اب کی بار سنجیدگی سے کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی منہا اسے جاتا دیکھنے لگی اور خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئی
~~~~~~~~~~~
“آپ کھانا کھا لیں آپ نے رات سے کچھ نہیں کھایا ہوا”
سمینہ محترمہ عنایت صاحب کے پاس آتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگی انہوں نے اسے دیکھا
“پتہ نہیں منہا نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں”
وہ اداسی سے نم آنکھیں لیے کہنے لگے سمینہ محترمہ کرسی کھسکا کر بیٹھی۔
“جب اتنی فکر اور اتنا پیار کرتے تھے تو کیوں کیا خود سے دور”
وہ اسے دیکھتے ہوئے لہجے میں مایوسی سے پوچھنے لگی
“مجھے نیند آرہی ہے میرے خیال سے مجھے سوجانا چاہیے”
یہ کہتے ساتھ وہ کرسی کھسکا کر وہاں سے اٹھ کر چل دیے اور سمینہ محترمہ انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی اور خاموشی سے ٹیبل پر نظریں جما گئی۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے بیڈ پر بیٹھی تھی
“تم اپنی سٹڈی کنٹینو رکھ سکتی ہو مجھے کوئی ایشو نہیں بس یونیورسٹی میں ہم دونوں نے یہ شو نہیں کرنا کہ ہم دونوں کا نکاح ہوا ہے”
عابر وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالتے ہوئے اسے دیکھے بغیر کہنے لگا منہا جواباً خاموش رہی
“میں تم سے بات کررہا ہوں “
عابر گردن موڑ کر سخت لہجے میں اسے بتانا ضروری سمجھا منہا جواب دیے بغیر بلینکٹ منہ پر ڈالتی لیٹ گئی عابر اسے دیکھنے لگ گیا اور اس کی حالت کو سمجھتا خاموش ہوگیا
“بابا آپ نے بہت غلط کیا میرے ساتھ اپنی منہا کا اعتبار نہیں کیا میری زندگی برباد کردی آپ نے”
عنایت صاحب سورہے تھے جب منہا کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا وہ ایکدم اٹھ بیٹھے ان کے دل بری طرح کانپا اور وہ اٹھ کر باتھروم کی طرف بڑھ گیا وضو کرکے جائے نماز بچھاتے نماز ادا کرنے لگ گئے
“اللہ تعالیٰ میں غلط نہیں ہوں مجھے اسوقت یہی ٹھیک لگا اگر یہ سب میں غلط کررہا ہوتا تو یہ رک جاتا لیکن نہیں رکا آپ کی رضا بھی اسی میں شامل تھی”
عنایت صاحب سلام پھیر کر دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے آنکھوں میں آنسو لیے کہنے لگے
“بس میری دعا ہے کہ آپ میری بیٹی کو خوش اور اس کی حفاظت کرنا”
وہ دل سے دعا کرتے ہوئے اپنا سر سجدے میں دے کر رونے لگ گئے۔
~~~~~~~~~~
صبح جب عابر کی آنکھ کھلی تو نظر اس پر گئی وہ شلوار قمیض میں ملبوس ڈریسنگ کے سامنے کھڑی شاید یونیورسٹی جانے کیلیے تیار تھی
“سوری میں لیٹ ہوگیا مجھے پانچ منٹ دو”
عابر اس پر ایک نظر ڈال کر فوراً سے کہتے ساتھ پیروں پر چپل گھساتا باتھروم کی طرف بڑھنے لگا اور اسے دیکھا جو خاموش تھی
“گونگی وونگی ہوگئی ہے کیا”
وہ دل میں سوچتے ہوئے کہتے ساتھ باتھروم میں چلا گیا
تیار وغیرہ ہوکر وہ دونوں نیچے کی طرف بڑھے تو ڈائننگ ٹیبل پر فہمیدہ بیگم نظر آئی اور ان کی عابر اور اس کے ساتھ موجود لڑکی پر نظر گئی
“استغفر اللہ ہوٹلز کے روم تک تو ٹھیک تھا یہ سب اب گھروں میں بھی یہ حرکتیں ہوں گی تمہیں شرم نہیں آئی کسی ہوٹل میں لے جانا تھا”
فہمیدہ بیگم منہا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی
“جس بات کا معلوم تو انسان کو بولنا نہیں چاہیے ویسے غلطی آپ کی بھی نہیں گٹھیا سوچ کا کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے بیوی ہے میری نکاح کرکے لایا ہوں میں آپ کییہ فضول باتیں بعد میں سنوں گا ابھی یونیورسٹی کیلیے دیر ہورہی ہے چلو “
وہ سرد لہجے اختیار کیے غصے سے انہیں دیکھتے ہوئے بدتمیزی سے کہنے لگ گیا اور وہ دونوں باہر کی طرف بڑھ گئے
“میں سمجھی یہ صرف میرے ساتھ بدتمیز ہے یہ تو اپنی ماں کیساتھ بھی ایسا ہے”
منہا گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دل میں کہنے لگی
“پہلے تم اترنا اس کے پانچ منٹ بعد میں آؤں گا ٹھیک ہے”
وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اسے بتانا ضروری سمجھنے لگا منہا نے اسے دیکھا منہا بغیر کوئی جواب دیے ونڈ سکرین سے باہر دیکھنے لگ گئی
“اتنی خاموشی یقیناً طوفان کے آنے کے بعد کی خاموشی ہے”
وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ساتھ دل میں خود سے سوچنے لگ گیا۔
گاڑی یونیورسٹی کے باہر رکی اور وہ گاڑی سے اتر کر یونیورسٹی کے اندر چلی گئی سامنے ہی امل کھڑی نظر جو اسی کے انتظار میں کھڑی تھی
“کیسے ہو تم”
امل اس سے گلے ملتے ہوئے پوچھنے لگی
“کیسی ہوسکتی ہے خیر کلاس ہے میری مجھے جانا ہے”
وہ امل سے کہتے ساتھ کلاس کی طرف بڑھ گئی امل بھی اس کے پیچھے آئی
“منہا خود کو نارمل رکھو یار جیسے تم رہتی ہو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے تم اپنا چہرہ دیکھو”
امل اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دیکھ کر فوراً سے سمجھانے کیلیے کہنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“آسان نہیں ہے”
وہ کہتے ساتھ کلاس کی طرف بڑھ گئی اور امل بھی خاموشی سے کلاس میں چلی گئی
یونیورسٹی کا اوف ہو چکا تھا وہ کلاس سے باہر نکلی تو سامنے ہی کیف آتا دیکھائی دیا
“ہیلو منہا کیسا رہا تمہارا دن میرے دوست کے گھر”
کیف خوشگوار سے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“مجھے لگا وہ صرف میرے ساتھ بدتمیزی سے بات کرتا ہے وہ تو اپنی ماں سے بھی ایسے ہی بات کرتا ہے”
منہا کیف کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگی کیف پریشان سا اسے دیکھنے لگ گیا
“کون سی ماں وہ اس کی ماما نہیں ہے”
کیف فوراً سے منہا کی بات سمجھتا کہنے لگا تو منہا کیف کو دیکھنے لگی اسے سمجھ نہیں آیا تبھی اس کے موبائل پر رنگ ہوئی
“میں ویٹ کررہا ہوں تمہارا آجاؤ”
عابر کا میسیج ریڈ کرتی وہ خدا حافظ کرکے باہر کی طرف بڑھ گئی
وہ یونیورسٹی کے گیٹ سے باہر آئی تو اس کی نظر دور کھڑی عنایت صاحب کی گاڑی پر گئی اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی وہ کچھ دیر گاڑی کو دیکھتی خاموشی سے عابر کی کار میں آکر بیٹھ گئی
“چلیں”
عابر اس کے بیٹھتے ہی پوچھنے لگا منہا جواب دینے کے بجائے رونے لگ گئی عابر پریشانی سے اسے دیکھنے لگ گیا
“کیا ہوا ہے تمہیں ؟”
عابر فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا جس پر منہا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
“وہ آئے ہوئے ہیں”
منہا روتے ہوئے بھرائی آواز میں اسے دیکھے بغیر جواب دینے لگی
“کون؟”
عابر ناسمجھی سے پریشان ہوتا پوچھنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“بابا تم بہت برے ہو عابر بہت زیادہ تمہاری وجہ سے میں نے اپنے بیسٹ فرینڈ کو کھو دیا اپنے بابا کو کھو دیا”
وہ زاروقطار روتے ہوئے لہجے میں خفگی سجائے کہنے لگی عابر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور اس کی حالت کو سمجھتا بغیر کچھ کہے گاڑی سڑک پر دوہرا گیا۔
راستے کے بیچ میں ہی وہ خود کو نارمل کرچکی تھی اس کے بعد ان دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ایک گہری خاموشی گاڑی میں چھائی ہوئی عابر نے گاڑی گراج میں داخل کی اور دونوں اتر کر اندر کی طرف بڑھے
وہ دونوں ٹی وی لاؤنچ میں پہنچے تو سامنے ہی زید علی کو موجود پایا وہ عابر کیساتھ اس لڑکی کو گھور کر دیکھنے لگے
“میں نے سنا ہے تم نے نکاح کرلیا ہے؟”
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے مقابل میں آکر کھڑے ہوتے ہوئے پوچھنے لگے
“جی تم اوپر جاؤ”
عابر انہیں لفظی جواب دیتا منہا کو اوپر جانے کا کہنے لگا
“ہمیں بتاتے تمہیں معلوم ہے لوگ کیسی کیسی باتیں کریں گے تم جانتے ہو میرا کیسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہھ”
زید صاحب سرد لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے
“آئی ڈونٹ کئیر آپ کی سیاست اور آپ کے بزنس کے لوگوں کو میں جواب دہ نہیں ہوں میں تمہیں کہ رہا ہوں کمرے میں جاؤ”
عابر اسی کے انداز میں جواب دیتے سختی سے کہنے لگا
” کس حق سے بیڈروم جائے کون ہے ناجانے کہاں رہتی ہے کیسا بیگ گراؤنڈ ہے “
زید علی منہا پر ایک ناگوار نظر ڈال کر کہنے لگے اس سے پہلے عابر بولتا منہا بول پڑی
“کیا مطلب ہے کس بیگ گراؤنڈ سے بہت اچھے گھر سے ہوں آپ میرے بیگ گراؤنڈ یا مجھے بولنے والے ہوتے کون ہے آپ نے کسی کو کچھ کہنا تو اپنے بیٹے سے کہیے سمجھیں”
منہا غصے سے زید علی کو جواب دیتے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
“لو جی سونے پر سہاگا ہوگیا یہ تو بیوی بھی اپنی جیسی بدتمیز لے کر آیا ہے”
فہمیدہ مذاقیہ انداز میں کہنے لگی عابر نے گھور کر اسے دیکھا اور پھر ایک نظر اپنے باپ پر ڈال کر چلا گیا جو خاموشی سے اس لڑکی کو اور پھر عابر کو جاتا دیکھ رہے تھے
“منع کیا تھا تمہیں میں بات کررہا تھا نا”
عابر کمرے میں آتے ہوئے اسے دیکھ کر لہجے میں تھوڑی سختی اختیار کیے کہنے لگا
“وہ میرے بیک گراؤنڈ کے متعلق میری فیملی کے متعلق بات کررہے تھے مجھے اپنے لیے لڑنا آتا ہے مجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے عابر”
منہا اسے دیکھتے ہوئے اسی کے انداز میں اسے جواب دینے لگی
“تمہیں بلاوجہ بولنے کی ضرورت نہیں تھی اگر میں نہ کچھ بولتا تم پھر بولتی “
عابر اسے دیکھتے ہوئے اب کی بار تھوڑا نرمی سے کہنے لگا منہا اسی کو دیکھ رہی تھی
“مجھے تمہارے سہارے کی تو بلکل ضرورت نہیں ہے “
منہا اسے گھور کر کہتے ساتھ باتھروم کی طرف بڑھ گئی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial