قسط 12
کھانے کے بعد سب ہی اپنے کمروں میں چلے گٸے تھے یارم کو کسی کی کال أٸی تو وہ باہر چلا گیا تھا کال پک کرنے اور مایا کمرے میں چلی گٸی تھی
عُروشہا نے جو کپڑے اس کے لیۓ بیجھے تھے ان میں سے کوٸی ٹی شرٹ جیسا مایا ڈھونڈہ رہی تھی
اففففف ایک بھی ڈریس اچھا نہیں جو میں پہنہ کر سو سکو
وہ ڈریسز کو دیکھ کے پریشانی سے بولی
اب کیا کروں
شھادت کی اگلی دانتوں میں دیٸے وہ یہاں سے وہاں دیکھتے ہوۓ سوچ رہی تھی
جی جلد از جلد وہ پیپرز مجھے چاہیے أگر کوٸی گڑبڑی ہوٸی تو اچھا نہیں ہوگا أپ سمجھ رہے ہیں نہ میں کیا کہہ رہا ہوں
یارم کسی سےکال پر بات کرتے کمرے میں داخل ہوا تھا اور کبٹ کی طرف گیا
جی بتاٸیں
کبٹ سے پین کتاب نکال کر مقابل نے جو کچھ بتایا تو وہ اس کتاب میں لکھ رہا تھا
سہی اوکے
وہ کال رکھ گیا تھا وہ کتاب پہ لکھی تحریر کو بغور دیکھنے لگا مایا نے تکیہ اٹھا کر زور سے اس کے سر پر مارا
أہہہہہہ ۔۔۔۔۔اس کے منہ سے با سخت نکلا پیچھے مڑ کر دیکھا وہ اسے ہی کچا چبا جانے والے انداز میں گھور رہی تھی
ظالم بیوی بنو گٸی کیا اس طرح اپنے معصوم شریف شوہر کو ماروں گی تو۔۔۔۔۔ سر کو مسلتے گویا تھا
معصوم شریف تم کہاں سے ہو ایک نمبر کے چہچورے لوفر ہو نیچھے کیا حرکت کر رہے تھے
ایک ہاتھ کمر پر رکھتے بلکل لڑنے کو تیار کھڑی اس گھور رہی تھیں
کونسی حرکت۔۔۔ یارم جان کر بھی انجان بننے کی ایکٹنگ کرنے لگا
ابھی بتاتی ہوں میں تمھیں رُکو زرا۔۔۔۔۔۔۔بیڈ سے دوسرا تکیہ اٹھاکر اس کی طرف اچلانے والی تھی کہ یارم نے اسے مخاطب کیا
کیا ۔۔۔۔ کیا ہے یار مار کیوں رہی ہو جان سے مار دو گٸی کیا ۔۔۔۔۔۔۔
تکیہ اچلانے کی اسے کی تیاری دیکھ کر یارم فوراً بھاگ کے بیڈ پر چھڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری بار اس کو انجان بنتا دیکھ کر مایا کا خون گھول اٹھا تھا ایک سیکنڈ نہیں لگایا تھا اور تکیہ یارم کو دے مارا وہ نیچھے جھکا اور اس کے حملے سے بچ گیا
یارم کے بچے ۔۔۔۔۔۔ اپنا وار نہ کام جاتا دیکھ کر اسے اور زیادہ غصہ أیا بیڈ کی دوسری جانب سے وہ لپکی مگر وہاں سے وہ فوراً نیچھے اتر گیا تھا
یارم کو اسے تنگ کرنے میں اب بہت مزہ أرہا تھا
میرے بچے کہاں سے ہوگٸے تم کچھ کرنے دو گٸی تو ہی ہوگٸے نہ وہ دنیا میں أنے کو بے تاب ہورہے ہیں یار
یارم کی بے باک سی حرکتوں پر أنکھیں دیکھاٸی اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بات پر مایا کے چلتے قدموں کو یکدم بریک لگی تھیں وہ یارم کو اب قہر بھری نظروں سے دیکھ کر پھر سے تکیہ کا حملا کیا تھا مگر یارم کی خوش نصیبی سے وہ پھر سے بچ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں یوٸی چوہے بلی کی طرح کبھی بیڈ کے داٸیں ساٸیڈ تو کبھی باٸیں ساٸیڈ بھاگ رہے تھیں
تمھارا خون پی جاٶں گٸی میں ۔۔۔۔۔دانت پیستے وہ دوبارہ زمین سے تکیہ اٹھا کر اس کی اور اچلایا وہ سیدھا یارم کو منہ پر لگا تھا اس کے ایک ہاتھ میں ایک تکیہ تھا اور دوسرے ہاتھ میں دوسرا
کیوں ڈاٸن ہو کیا تم جو میرا خون پی جاٶں گٸی۔۔۔۔۔۔۔
ڈاٸن الفاظ پر تو مانو وہ أگ بگولی ہورہی تھی اس کو مارنے کے لیۓ بھاگی رہی تھی کہ اچانک اس کا پیر سیلپ ہوا تھا اس سے پہلے کہ وہ بُری طرح زمین پر گر جاتی اور اس سے چوٹ لگتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یارم بھاگ کر اسے کی کلاٸی پکڑ کے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔وہ اس حملے کے لیۓ تیار نہیں تھی جاکر یارم کے مظبوت سینے سے لگٸی
وہ أنکھیں بند کیۓ اپنے گرنے کا انتظار کر رہی تھی جب چند منٹ یوٸی گزریں تو وہ دھیرے سے اپنی جھکی پلکیں کھول گٸی تھیں
۔۔ یارم جو اس کے چہرے کو فرست سے تک رہا تھا اس کا ایک ہاتھ مایا کی کمر پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے نزیک تھی اس کی جان لبوں پہ أٸی تھی ۔۔۔۔۔۔۔خود کو اس کی گرفت سے أزاد کرنے کے لیۓ مچل رہی تھی مگر یارم کی پکڑ مظبوت ہونے کی وجہ سے اس بیچاری کی یہ ننہی سی کوشش نا کام رہی۔۔۔
یارم تمھاری بات ہوٸی کامران س س۔۔۔
شایان نے درد کی میڈیسن لی تھی اس کے جسم کا درد پہلے سے بہت کم تھا جیسے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا ان دونوں کو قریب دیکھا کر یکدم نظریں پھیر گیا
أواز پر ان دونوں کی نظر سامنے دروازے پہ گٸی جہاں منہ موڑ کر شایان کو جاتے دیکھا
ایک دوسرے سے 180 کی رفتار سے الگ ہوٸیں
میں بعد میں أتا ہوں۔۔۔۔ نظریں پھیرتے وہاں سے جانے لگا تھا مایا یکدم اس طرح واشروم میں بھاگی جیسے گدھے کے سر سے سیگ یارم زمین سے تکیۓ اٹھاکر بیڈ پر رکھنے لگا
نہیں شایان تم أٶ ۔۔۔وہ سر ہلاتا اس کے سامنے کھڑا ہوا
کام ہوا کہ نہیں ۔۔۔ شایان نظریں چراتا گویا تھا اس بہت عجیب فیل ہو رہا تھا وہ شرمندہ تھا کہ بینا لاک کے وہ ان کے کمرے میں چلا أیا
ہاں ہوٸی تھوڑی دیر پہلے یہ لو اس نے ایڈریس دیا ہے تمھاری طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ میں خود چلا جاٶں گا تم اس کام کو رہنے دو اور أرام کرو
وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے فکرمندہ ہوکر کہا تھا
نہیں یار پہلے سے ٹھیک ہوں اب درد بھی اتنا نہیں ہے میں چلا جاٶں گا ۔۔۔ اس نے بھی تسلی دی
ایک بات کہوں ۔۔ شایان نے یارم کی جانب دیکھتے کہا
ہممممممم۔
تم مایا کو ہنی مون پر کیوں نہیں لیجاتے اس سے بھی کچھ وقت مل جاٸیں گا انکل کے صدمے سے نکلنے کے لیۓ اور تم بھی گوم پھر أٶں گٸے
تمھاری بات ٹھیک ہیں شایان لیکن ابھی گومنے کا وقت نہیں ہے۔۔۔ انکل کے بزنس کا مسٸلہ پہلے ہینڈل کرنا ہوگا تم اس انسان سے ملوں جو ہمھارا کیس لڑ سکے میں نہیں چاہتا ۔۔۔۔کہ مایا کے باپ کا بزنس اس گھٹیا انسان کے ہاتھ لگے وہ اپنی پوری جی جان لگا دیٸے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو کچھ انکل کے پاس اس کے شیٸرز تھے وہ اس سے دیٸے ہیں مگر وہ تو مانو انکل کی پوری جاٸیداد ہڑپ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔
تم اس انسان سے مل کر ڈساٸیڈ کرو کیس کی پہلی سنواٸی کب ہوگٸی تب تک مایا بھی کچھ نارمل ہوجاٸیں گٸی پہلے سے بہتر ہے اب وہ ۔۔۔۔۔۔
اس نے سنجیدگی سے کہا شایان اثبات میں سر ہلاتا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ واشروم کے دروازے سے لگ کر کان دروازے پہ لگاۓ وہ ان کی سب باتیں سن گٸی تھی
یکدم اس کی پیاری سی أنکھوں سے موتی بہنے لگٸیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر کے یارم اس کے لیۓ کیا کیا کر رہا ہے تاکہ اس کے باپ کی خون پسینے کی کماٸی کو کوٸی ہڑپ نہ لے ۔۔۔۔
سب ہی بیڈ پر کمبل اوڑھے خواب خرگوش کے خوب مزۓ لے رہے تھے
کھڑکی سے چاند کی روشی اس کے چہرے کو مزید روشن کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا دودھیا سفید رنگت گلابی ہونٹ بالوں کی کچھ لٹیں اس کے چہرے کے ارد گرد پھیلی ہوٸی تھی
کھڑکی میں کسی نے چھلاگ لگاٸی اور دھیرے دھیرے سے وہ اس کے سر پہ مقابل کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔چہرے پر نقاب لگایا ہوا تھا وہ اس کے چہرے کو کتنی دیر تک دیوانو کی طرح اس کے ہر نُقس کو تکتا رہا کبھی اس کی بند پلکوں کو غور سے دیکھتا تو کبھی گلابی ہونٹوں کو ۔۔
یکدم اس کو کمرے میں کسی کی موجود گی کا احساس ہوا تھا أنکھوں کو مسلتے أٹھ کر بیٹھ گٸی اور ڈوپٹہ گلے میں ڈالا پورے کمرے پر نظر دوڑاٸی تھیں پر مقابل اسے کے اٹھنے سے پہلے ہی بیڈ کے نیچھے چپ گیا تھا
کون ہے
یہاں وہاں دیکھتے اس نے لیمپ اون کیا تھا پورے کمرے میں روشنی پھیل گٸی
لگتا ہیں میرا وحم ہے۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی سونے ہی لگٸی تھی کہ اچانک لاٸٹ چلی گٸی اور یکدم کمرے میں اندھیرا ہوگیا تیز ہواٶں سے کھڑکیاں اور پڑدوں میں شور مچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اب خوف أنے لگا تھا کمبل کو جلدی میں خود پر اوڑھتی وہ خود میں سیمٹ کے سوگٸی نیند تھی کہ أنے کا نام نہیں لے ہی تھی اوپر سے کسی کی موجودگی کا احساس اسے اور مزید خوف میں مبتلا کر رہا تھا
یااللہ پاک بھوت سے بچالیں اب سے میں ہر وقت کی نماز پابندی سے پڑوں گٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈر کی وجہ سے اسکی پوری پیشانی پسینہ سے شل ہوگٸی دل میں دعا کرتے أیت الکرسی کا زور زور سے ورد کرنے لگٸی تھی مقابل نیچھے سے اٹھ کر اس کی ساری کارواٸی پر دھیمہ سا ہنس پڑا تھا
پاگل ایک نمبر کی بلکُل نہیں بدلی۔۔۔ ۔۔دل میں کہتا وہ پھر سے کھڑکی سے جیسے أیا تھا ویسے ہی باہر چلاگیا
رات گزر گٸی تھی اور دن نے اپنا بسیرا قاٸم کیا حویلی کے لوگ سب ہی لوگ اپنے کام میں لگٸے ہوۓ تھے شاہدہ بیگم ممتاز بیگم نے ڈراٸینگ ٹیبل پہ ناشتہ لگا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔عُروشہا ابھی تک أج سو رہی تھی ورنہ وہ اس وقت جھاگ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔ لیکن رات ڈر کی وجہ سے اسے نیند نہیں أٸی تھی دیر تک کرویٹیں لینے کے بعد جا کر اس سے نیند نے اپنی أغوش میں لیا تھا اسلیۓ وہ کمبل اوڑھے مزے سے سو رہی تھی۔۔۔
مرد احضرات حال پر کرسیوں پہ بیٹھے تھے یارم شایان ان سے الگ تھلگ بیٹھے تھے کیونکہ وہ جو باتیں کر رہے تھے وہ چاہتے تھے کسی کو اُس بارے میں بھنک بھی نہ پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مایا کی أنکھ ابھی کھولیں تھیں اٹھ کر بیٹھ گٸی اور بالوں کو کیچر میں قید کیا تھا اور الماڑی کی جانب بڑھی
اس کو اب الماڑی منہ چڑا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ عُروشہا کے کپڑے دیکھ کر وہ خود بھی ایسے پہنتی تھی لیکن وہ اس بات سے ناگواریت ہوٸی کہ وہ اس کے کپڑے نہیں بلکہ کسی اور کے پہنے ہوۓ ہے
ناچاہتے ہوۓ بھی سفید کلر کا چوڑیدار پجامہ ہم کلر ڈوپٹہ لیتی فریش ہونے واشروم میں چلی گٸی تھی ۔۔۔ چند منٹ بعد وہ واشروم سے باہر أتے ہی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بالوں کو سکھانے لگٸی ۔۔۔۔
وہ وہاں ہو کر بھی نہیں تھی اس کی سوچ کا مرکز یارم تھا کیسے اس کے باپ کو مان تھا اس پر کہ اگر وہ نکاح کا کہے گا تو وہ ہاں کرۓے گا نہ کیوں نہیں کیا تھا اس کے دماغ میں سوچیں چل ہی تھیں بے خیالی میں وہ برش کی جگہ پر پرفیوم کی بوتل بالوں میں چل رہی تھی
یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔۔
اچانک پیچھے سے أنے والی أواز پر وہ اچھل کر پیچھے مڑی کہ ہاتھ سے پرفیوم کی بوتل زمین پہ گر کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گٸی
مایا أگے مت أنا ورنہ تمھارے پاٶں میں کانچ چب جاٸیں گا ۔۔۔۔۔
دھڑکتے دل کو سمبھال کر اس کی جانب قدم بڑھایا ہی تھا کہ یارم نے اسے روک دیا پتا نہیں وہ کس دنیا میں تھی کہ کانچ کے ٹکڑوں پہ اپنے پاٶں رکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
یارم نے اپنا ہاتھ اس کے أگٸے کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ کبھی وہ اس کے ہاتھ کو دیکھتی تو کبھی اس کا چہرہ جہاں اس کے لیے فکر صاف جلک رہی تھی
یار اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ہاتھ دو ۔۔۔۔
وہ اس کے تکنے پر تھوڑا سخت لہجے میں کہا
فوراً ہی اپنا کانپتا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا وہ یارم نے اس کا سفید ہاتھ فوراً تھام لیا تھا۔۔۔ اور اس کو اپنی طرف کھینچا وہ سیدھا اس کے چوڑی دار سینے سے جا لگٸی تھی
تم ٹھیک ہو
وہ اس کا چہرہ اوپر کرتا أنکھیں اس کی أنکھوں میں گاڑتے فکرمندی سے پوچھنے لگا تھا
میں ٹھیک ہوں تم میری اتنی فکر کیوں کرتے ہو
ناجانے کیوں پر بے خیالی میں اپنے دل میں مچلتا سوال وہ پوچھ بیٹھی تھی وہ اس کے سوال پر دھیمہ سا مسکرایا
کیوں کہ تم میری سب کچھ ہو پہلے تم سے صرف دوستی کا رشتہ تھا لیکن اب تو تم میری شریکہ حیا بھی ہو۔۔۔۔۔۔ فکر کرنا تو بنتا ہے نہ۔۔۔۔۔
نرم لہجے سے جواب دیا وہ اس کا ہاتھ پکڑتے پیار سے بیڈ پہ بیٹھایا تھا
وہ بس مقابل کو دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھی کیا کوٸی اتنا بھی خوش نصیب ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔جتنی وہ ہے وہ چاہتا تو شاہ زویر کو جواب میں انکار کر کے اسے دنیا میں تنہاں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا تھا یارم اس کا ہاتھ چھوڑ کر دروازہ کی جانب لپکا تھا
خالہ بی ۔۔۔۔۔۔ اس نے زیبی کو پکارا تو وہ فورا چلی أٸی
جی یارم بابا ۔۔۔۔۔۔ خالہ بی اندر أٸیں
وہ اس سے اندر أنے کا کہتا جہاں کانچ کے ٹکڑۓ تھے وہاں کھڑا ہوا تھا۔۔ وہ سر ہلا کر کمرے کے اندر أٸی تھی
خالہ بی یہ صاف کروا دیں کہیں کسی کو لگ نہ جاٸیں۔۔۔۔
سنجیندگی سے انہیں کہا تھا خالہ بی فورا وہاں کی صفاٸی کر کے چلی گٸی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔یارم مایا کی طرف بڑھا وہ ابھی بیڈ پر بیٹھی اس کی جانب دیکھ رہی تھیں
چلو مس یارم ناشتے کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔لگتا ہے أج أپ نے تو مجھ تکتے ہی پیٹ برھ لیا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے تو بھوک لگٸی ہے
وہ اس کے دیکھنے پر ٹونٹ کرتا اسے بازٶں سے اٹھا کر سامنے کھڑا کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ڈوپٹہ اس کے سر پر سہی سے اوڑھتے چھوٹے بچوں کی طرح ہاتھ پکڑ کے نیچھے کی اور چل دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی کیٸر بچوں کی طرح کر رہا تھا جیسے وہ کوٸی چھوٹی سی بچی ہے مایا کے چہرے پر مسکان رقس کر گٸی تھی ۔۔۔۔۔
جب وہ ڈراٸینگ ٹیبل پہ أٸیں وہاں سب ہی موجود تھے بس ان کے أنے کا انتظار ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسی کھینچ کر پہلے یارم نے مایا کو بیٹھایا پھر خود اس کی ساٸیڈ والی کرسی پہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر کا پہلا مرد تھا جس نے بیوی کے لیۓ خود بیٹھنے سے پہلے اس کی کرسی کھینچ کر اس سے بیٹھایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مایا مسکراتے اس پہ بیٹھ گٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی یہ مسکراہٹ شاہدہ بیگم کو بُری لگٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے اس در عمل پہ سب کی أنکھیں حیریت سے کھولیں تھیں
عُروشہا دل ہی دل میں بھاٸی اور بھابھی کے لیے خوش رہنے کی دعا کرنے لگٸی ۔۔۔۔۔۔۔
سب ہی ناشتہ کے ساتھ انصاف کرنے لگٸے
أپ اندر نہیں جاسکتے۔۔۔۔
چوکیدار نے سامنے کھڑے لوگوں کو اندر جانے سے صاف منع کیا تھا
ہم تم سے اجازت طلب نہیں مانگ رہے حکم دیں رہے ہیں ہمھارے راستے سے ہٹو ورنہ اپنی موت کے زمیدار تم خود ہوگٸے۔۔
مقابل لال أنکھوں میں تیش سے دیکھ کر گویا تھا چوکیدار کو اندر تک اس کی دھمکی ڈرا گٸی تھی ۔۔۔۔وہ یکدم ان کا راستہ چھوڑ گیا تھا اور وہ بینا دڑک اندر چل دیٸے تھے ۔۔۔۔
چوہدری خاندان ناشتہ کرنے میں مصروف تھا کہ وہ مغرور چال چلتا حال تک پہنچاں اور جاکے ولید بخش چوہدری کی جو کہ شان والی کرسی تھی اس پر روعب دار انداز میں بیٹھا
اس کے گارڈ ارد گرد پھیلے ہوۓ تھے ضاور دوسری کرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے وہ بھی شان سے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔شور کی أواز پر سب نے حال کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو سب کی ہی أنکھیں پھٹی رھ گٸی۔۔۔۔۔۔
صبح صبح ہی ارحام سطان نے ان کی حویلی میں ڈیرا جمایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ولید بخش چوہدری کی شان والی کرسی جس پہ کسی بھی حویلی والے کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ باہر کا أیا ہوا بچہ اس کی برابری کر رہا تھا۔۔۔۔ خون تو ان کا گھولنا بنتا تھا سب ہی بھاگ کر اس کی جُرت دیکھنے صحن میں أ کھڑے ہوۓ تھے
یہ کیا بتمیزی ہے اور تمھیں اندر أنے کس نے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔زید زید
ولید بخش چوہدری کا غصہ أسمان کو چھو رہا تھا اس نے چوکیدار کو گرجدار أواز میں پکارا تھا وہ بھاگتا ہوا ان کے سامنے سر جھکاۓ ہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا
ج جی سردار جی۔۔۔ کانپتے وجود کے ساتھ گویا تھا
یہ اندر أٸیں کیسے ۔۔۔۔۔۔ان کی دھاڑ کی أواز پوری حویلی کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔
سردار ہم نے بہت روکا پر یہ لوگ خود گُسے چلے أٸیں
وہ سر جھکاۓ بول رہا تھا ۔۔۔ تم جاٶ
ولید بخش چوہدری نے اسے جانے کی اجازت دیتے ارحام کو قہر سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو أج پیٹ شرٹ میں ملبوس تھا شاید پہلے سردار جو تھا اسلیۓ اپنے انہیں ڈریس پر خود پابندی لگاٸی تھی مگر جیسے وہ اس زمیداری سے أزاد ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو بیگلون میں جیسے وہ رہتا تھا ویسا حلیہ اب اپنا لیا تھا
۔۔۔۔ بال جیل سے سیٹ کیۓ ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔کچھ بال ماتھے پر جھول رہے تھے أنکھیں ہمیشہ کی طرح سپاٹ سرد لہجے میں تھیں۔۔۔۔۔ ان أنکھوں میں بدلے کی أگ جل رہی تھی۔۔۔۔ بلیک کلر کی پینٹ شرٹ اس کے اوپر بلو کلر کا کوٹ پہنے ہوا تھا پرکشش کی حد سے زیادہ وہ مغرور انسان دلکش لگ رہا تھا جتنی اس کی تعاریف کی جاٸے اتنی ہی کم تھی
کیوں صبح صبح اپنی منحوس شکل دیکھانے أٸیں ہو۔۔۔۔
ولید بخش چوہدری دھاڑا تھا وہ انہیں اس طرح نظر انداز کر رہا تھا جیسے وہ گھر کے نوکر ہو اور وہ خود اس گھر کا مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد چوہدری خاموش تھا نہ ہی ان کے چہرے پہ غصہ تھا اور نہ ہی ہمدردی کسی سے بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس شخص سے اب وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ جس کو بیٹی دیٸے چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔انکو ڈر تھا کہ ان کے کچھ کرنے سے ان کی بیٹی کے لیۓ مشکلات پیدا نہ ہوجاۓ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی وہ اسے بہت مشکلات میں ڈال چکا تھا مگر اب وہ ایسا ہر قیمت پہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
وہ اس دن کے لیۓ بھی تیار تھا ۔۔۔۔۔اب ان کی بیٹی کا نکاح ہوا تھا اس شخص سے تو کیسا تکرار بنتا تھا۔۔۔۔۔۔ سجاد بھی چپ تھا کیونکہ جو اس کی عزت کی دھجیاں اوڑھاٸی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیۓ وہ اس سے بدلا لینا ضروری چاہتا تھا بس سہی وقت کے انتظار میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید بخش چوہدری کی بات کا اس نے جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیب سے سگریٹ نکال ضاور کے اگٸے کیا تھا اس نے لاٸٹر سے اس کو جلایا ۔۔۔۔۔۔ سگریٹ کو لبوں سے لگایا اور اس کے بڑے قش بھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عُروشہا کی نظر میں پہلے بھی وہ شخص گھٹیا مانا جاتا تھا۔۔۔۔ جو کچھ وہ حویلی والوں سے اس کے بارے میں تعاریفہ اور اکثر قصے سُنتی أرہا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ غریبوں کا حق دن دی ھاڑے چین لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ دن بھر غنڈہ گردی کرتا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ حرام چیزوں کو ہاتھ لگاتا ہے لڑکیوں کو پیار کے جال میں پساتا ہے اور پھر ان کو استعال کرنا ارحام سلطان کا پسندید کام ہے۔۔۔۔
جیسے حویلی کے خود مرد تھے ویسے وہ ارحام سلطان کے بارے میں کہتے رہتے تھے اسلیۓ دنیا کے گھٹیا ترین لوگوں میں سے وہ اس سے ایک سمجھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری جی جاکر پہلے ناشتہ کریں بات تو بعد میں ہوجاٸیں گٸی
دل جلانے والی مسکراہٹ لیۓ اس دیکھ کر کہا تھا
کیوں أٸیں ہو یہاں۔۔
اب کی بار یارم أگٸے أکر اسے سختی سے کہتا ہے۔۔۔ مایا تو ارحام سلطان کو نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہے اور سب اسے کیوں اس طرح بات کر رہے ہیں بس بُت بنی تماشہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے أنے کی وجہ وہاں کھڑے چند لوگ بخوبی سمجھ گٸے تھے
اپنی امانت لینے۔۔۔
دو ٹوک یارم کی جانب دیکھ کہا تھا اس کے جواب پہ وہ چونکا تھا یہی حال شایان کا بھی تھا۔۔۔
بکواس بند کرو تم اپنی اور تمھاری یہاں کوٸی امانت نہیں ہے۔۔۔
شایان کو اب غصہ أنے لگا تھا انکے گھر أکر وہ اس طرح روعب سے بیٹھا تھا اور ان کا خون جلا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ چلایا تھا
أواز نیچھیں رکو شایان چوہدری ورنہ بولنے کے قابل نہیں چھوڑو گا تھمیں ۔۔۔۔۔
وہ اندھے طوفان کی طرح شایان کے سامنے کھڑے قہر نگاہوں سے دیکھ کر دانت پیستے دھاڑا تھا
أواز تم اپنی نیچھیں رکو ہمھارے گھر میں کھڑے ہو تم ۔۔۔۔۔۔یارم بھی سختی سے دانت کو پیس کر کہا تھا
ویسے چوہدری جی مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ أپ نے أپنے پوتوں کو اس بات سے بیخبر رکھا ہیں
وہ ولید بخش چوہدری کی قمیص کے کالر کو جھاڑتا گویا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس کی اس حرکت پہ شایان یارم اسے مارنے کے لیۓ أگے بڑھے ہی تھے۔۔۔۔ کہ اس کے گارڈ نے بندوق دونوں کے سر پر طانی سب ہکا بکا رھ گٸے اس کی حرکت پر۔۔۔۔
چلو میں ہی بتا دیتا ہوں کہ یہاں میری کون سی امانت ہیں اور وہ میں ابھی اسی وقت اپنے ساتھ لے جاٶں گا۔۔۔۔۔۔
سب پر نفرت سی بھری أنکھیں ڈالتا چلتا ہوا وہ عُروشہا کے پاس کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس کی نظروں کا پیچھا کرتے سب نے ارحام سلطان کو عُروشہا کے سامنے کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
عُروشہا نے ضبط سے مٹھیاں بیچی تھیں وہ کس طرح ان کے گھر دادا گیری کر رہا تھا نفرت سے وہ ارحام کو دیکھنے لگٸی ارحام نے بغور اس کا سر سے پاٶں تک جاٸزہ لیا تھا بچپن کے بعد وہ اس سے أج اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
پنک کلر کی شرٹ جو گھٹنوں سے تھوڑی اوپر تک أتی سفید ڈوپٹہ جو کہ اس کے سر پر اوڑھا ہوا تھا سفید پجامہ بالوں کو پونی سے باندھ ہوا تھا اس کی کچھ لٹیں اس کے چہرے پر لہر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
گلابی پنکھڑیوں کی طرح ہونٹ جھیل سی سنہری أنکھیں جن میں ہلکا کاجل لگایا ہوا تھا ابھی ان أنکھوں میں اس نے اپنے لیۓ بھلا کی نفرت دیکھی وہ اس کی أنکھوں میں دیکھ کر دھیما سا مسکرایا تھا
دور رہوں میری بہن سے ۔۔۔
یارم اسے عُروشہا کے سامنے دیکھ کر اس کے تن بدن میں أگ لگ گٸی تھی ۔۔۔
عُروشہا یہاں أٶ تم۔۔۔
اب کے بار شایان کو ارحام کا یوں اس کو تکتا دیکھ کر دل میں جلن ہوٸی تھی ۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہیں ابھی تو میں نے اپنی بیوی کو جی برھ کر دیکھا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
وہ ان دونوں کی جانب پلٹ کر شیطانی مسکان سب کی جانب پھینکتے گویا تھا بیوی الفاظ جہاں یارم کو جھٹکا لگا تھا وہی شایان کو اپنا وجود بے جان محسوس ہوا تھا
اپنی گندھی زبان سے میری بہن کے بارے میں واحیات مت بکو ورنہ تمھارا أج أخری دن ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
گارڈ کو دھکا دۓ کر اس کی طرف جا ہی رہا تھا ۔۔۔۔۔اس کا پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑ لیا تھا پلٹ کر دیکھا تو مایا اسے نفی میں سر ہلانے لگٸی تھی وہ ڈر گٸی تھی پہلی بار یہ سب دیکھ جو رہی تھی
شاہ زویر نے اسے ہمیشہ لڑاٸی جھگڑوں سے دور رکھا تھا پھر یہاں اکر یہ سب اس کے لیۓ نہ قابل برداش تھا وہ سہم لگٸی تھی ۔۔۔۔۔
اوپر سے أرحام سلطان کے باڈی بلڈر جیسے گارڈ جو کہ پہلے سے ان کے سر پہ بندوق رکھے کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یارم پیچھے ہوا مایا کی أنکھوں میں خوف دیکھ کر۔۔۔۔