قسط 13
دادا جان یہ بکواس پہ بکواس کیۓ جا رہا ہے اور أپ اس کی بکواس سُن رہے ہیں کچھ کہہ کیوں نہیں رہے ۔
شایان چلایا تھا ولید بخش چوہدری کو خاموش کھڑا دیکھ کے اس کا خون گھول اٹھا تھا وہ یہ سننے کو تیار تھا کہ ولید بخش چوہدری کہہ دے کہ یہ سب جھوٹ ہے ایسا کچھ نہیں ہے پر ان کا یوں خاموش ہونا شایان کے دل کی دھڑکنوں کو روک رہا تھا اس کا ایک ایک لمحہ سانس لینے کو بھاری ہو رہا تھا
چوہدری جی کچھ کیسے بولیں گٸے انہوں نے ہی تو اپنی پوتی کا سودا کیا ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ارحام سلطان کے الفاظ تھے یا تیر وہاں سب کے دلوں کو بُری طرح چیر کر گیا سب ہی شاکت کھڑے تھے
کمینے انسان تمھاری زبان میں کاٹ دوگا ۔۔۔
یارم مایا کا ہاتھ چھوڑا کر اسکا گربیان پکڑ لیا تھا یہ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ گارڈ کو کچھ سمجھ ہی نہیں أیا کہ کب یارم ارحام تک پہنچاں تھا ارحام سلطان نے ایک زور دار مکہ اس کے منہ پر رسیدہ کیا اور وہ اپنا کالر ٹھیک کرنے لگا تھا
یارم زمین بوس ہوگیا تھا اور اس کی ناک سے ہلکا خون بہنے لگا کہ شاہدہ بیگم مایا اس کو زمین سے اٹھنے لگٸی تھیں
لال أپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔۔
بھاگ کے عُروشہا یارم کے پاس أٸی تھی نم أنکھوں سے وہ اس کی جانب دیکھ پوچھا
جی میری گڑیا میں ٹھیک ہوں تم کمرے میں جاٶ
اس کے گال پہ پیار کرتے تسلی دیتا اسے کمرے میں جانے کا حکم دیا تھا سر اثبات میں ہلا کر وہ وہاں سے جانے لگی تھی کہ اس کا راستہ ارحام نے روک دیا ۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان کہیے نہ کہ یہ جو بول رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے
۔۔۔
شایان کو ولید بخش چوہدری کا چپ رہنا ارحام کے الفاظوں کو سچ ثابت کرنے پر مجبور کر رہا تھا
تم ابھی میرے ساتھ چلوں گٸی ۔۔۔۔ ارحام نے عُروشہا کی کلاٸی میں ہاتھ ڈالا اور سرد لہجے میں کہا تھا
اس سے پہلے کہ شایان ارحام کو مارتا راشد اس کے بیچ میں کھڑا ہوگیا تھا اور بے یقینی کے عالم میں شایان نے راشد کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔
یہ سب سہی کہہ رہا ہیں عُروشہا کا نکاح اس سے ہو گیا ہے اور اب وہ اس کی بیوی ہیں ۔۔
راشد نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔۔ شایان کو دھجکا لگا لڑکھڑاتا زمین پہ گرنے لگا تھا کہ سجاد نے اس سے تھام لیا
لیکن أپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں اور یہ ہوا کب
یارم نے باپ دادا کی جانب دیکھ کر گرب سے پوچھا
راشد نے پنجاٸیت میں ہونے والی تمام سچاٸی انہیں بتاٸی ممتاز بیگم کو بھی دھجکا لگا تھا کیونکہ جب ان کا نکاح ہو رہا تھا وہ کمرے میں تھی یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ کوٸی سمجھ نہیں سکا تھا راشد سچاٸی کہہ کر چپ ہوا تھا
مطلب دادا جان أپ نے چچا جان کے غلط کاموں کی برپاٸی میری بہن کی پھیٹ چڑھا دی واہ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو مجھے معلوم تھا کہ أپ میری بہن کو نہ پسند کرتے ہیں مگر مجھے أپ سے ایسی امید کبھی نہیں تھی کہ أپ اس حد تک جاٸیں گٸے۔۔۔۔۔۔ میں نے کبھی خیال میں بھی نہیں سوچا تھا
دھکی لہجے میں کہتا نم أنکھوں سے ولید بخش چوہدری کو نفرت سے گھورا تھا
سب گاٶں والے میرے خلاف ہوجاتے تو میں کیا کرتا اوپر سے سجاد کی جان کو خطرہ تھا مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا
ولید بخش چوہدری سخت مزاج میں کہتا کرسی پہ بیٹھ گیا
یہ کیسا انصاف تھا أپ کا گہناھ کیا ایک نے اور اس کی سزا ملی کسی بے قصور کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔بابا جان أپ اس حد چلے گٸے کہ کسی عورت کی عزت کو نوچ دیا ۔۔۔۔۔۔اور اسکو زمین میں چہہہہی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو أپ کو اپنا باپ کہتے ہوۓ بھی شرم أ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں یتیم ہوتا ۔۔۔۔۔ میرا کوٸی باپ نہیں ہوتا تو کم سے کم یہ درد ازیت تو نہیں ملتی۔۔۔۔۔ کہ میرے باپ کی گہناھ کی سزا میرے پیار کو کھو کر مجھے چکانی پڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔
شایان سجاد کا ہاتھ خود سے جھٹک دیا تھا اور گھورتے گرب سے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی أنکھیں نم تھیں اس کے دل پہ جو گزر رہی تھی یہ تو صرف وہی جانتا تھا ۔۔۔۔۔
کیسے وہاں بے جان کانپتے وجود سے کھڑا تھا دل تھا کہ اس کے اتنے ٹکڑے ہوۓ تھے کہ کوٸی جوڑ سکتا نہیں تھا ریت کی طرح بکھرا تھا اس کا وجود۔۔۔۔۔۔۔ وہ مظبوت مرد أج پوری طرح بکھر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون کہتا ہے مرد نہیں روتا ۔۔۔۔ مرد اپنی من پسند عورت کو کھو کر روتا ہی نہیں بلکہ پورا بکھر جاتا ہے
شایان بیٹا میں نشے میں تھا سچ میں میرا یقین کرو ۔۔۔۔
سجاد چوہدری بیٹے کی أنکھوں میں أنسوں دیکھ کے اور اس کے الفاظ سن کر اس کی روح تڑپی تھی
کیا کرو یقین ہاں بتاٸیں کیا ۔۔۔۔۔ شایان حلق کے بل چلایا تھا اس کی أنکھیں درد کے انتہاں پر تھیں
سب ہی خاموش کھڑے باپ بیٹے کو دیکھ رہے تھے مگر ارحام سلطان کے لبوں پر مسکان تھی
شایان بات کو سمجھنے کی کوشش کرو
ولید بخش چوہدری نے اسے تحمل سے سمجھنے کی کوشش کی تھی
شایان سہی کہہ رہا ہیں دادا جان أپ کی اور چچا جان کی غلطی معافی کے لاٸق ہرگز نہیں ہیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ یارم قہر بھری نگاہوں سے جبڑے بیچھتے دھاڑا تھا
غلطی أپ نے کی ہیں اور اسے سُدھارو گا میں اب ۔۔۔۔۔۔۔ یارم نے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔ اور ولید بخش چوہدری سجاد کو دیکھتے وہ ارحام سلطان کی جانب قدم بڑھا گیا ۔۔۔
تم ابھی میری بہن کو طلاق دو۔۔۔ رہی بات چچا جان کی تو واقعی میں انہوں نے گھٹیا حرکت کی ہے ان کو سزا ضرور ملے گٸی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصے اور أنسوں پر قابو پاتے یارم نے ارحام سلطان کوسخت نگاہ سے دیکھ کر کہا تھا
ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔ ارحام کا فزاٶں میں زور دار قہقہ گھونجا تھا
ویسے تم چوہدری بھی کمال کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔ ایک نکاح کرواتے ہیں اور دوسرے اس کو تھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگ سمجھتے کیا ہو أخر۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ ہر بار تم اپنی منمانی کرو گٸے ۔۔۔۔۔۔ تو رونگ ہو تم اس بار یارم چوہدری مر کر بھی ارحام سلطان تمھاری بہن کو طلاق نہیں دے گا اب ۔۔۔۔۔۔
وہ یارم کو أنکھیں دیکھاتے ڈھٹاٸی سے بولا تھا۔۔
ارحام سلطان سب کو تپش بھری نگاہوں سے گھورتا عُروشہا کا ہاتھ سب کو جلانے کے لیۓ پورے حق سے اپنے مظبوت ہاتھ میں تھام گیا تھا ۔۔۔۔
ولیمے کا انویٹیشن کارڈ بیجواں دو گا۔۔۔ سب کو أنا ہیں۔۔۔۔ اور ہاں کوٸی بہانا نہیں سُنو گا میں ۔۔۔۔
عُروشہا کو لیکر شایان کے سامنے کھڑا ہوتے مسکراتے کہا تھا عُروشہا کی أنکھوں میں أنسوں أگٸے تھے
اور سالے صاحب أپ کو تو ضرور أنا ہیں ہمھارے ولیمے پر۔۔۔۔۔ أپ کا أنا تو ضرور بنتا ہیں أ فٹرول میری واٸف کے بھاٸی جو ٹھرے أپ ۔۔۔۔۔
عُروشہا کا ہاتھ کھینچتے اب وہ دل جلانے والے اندازہ میں کہہ رہا تھا
یارم نے غصہ سے مٹھیاں ضبط سے بند کی تھی ایک ٹھنڈی أہ بھرتے رھ گیا
سُنا ہے ۔۔۔۔ سالے صاحب أپ نے چھپ کر شادی کی ہیں یا پھر لڑکی کو بھگا کر لاۓ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
ارحام کی نظر مایا پہ پڑی وہ اس کی جانب قدم بڑھا گیا تھاوہ طنزیہ تیر جلاتا یارم کو اندر تک أگ لگا گیا تھا۔۔۔۔۔ ابھی اس کے ہاتھ میں عُروشہا کا نازک ہاتھ تھا اس سے بہت درد ہو رہا تھا کیونکہ کہ ارحام نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑا ہوا تھا نم أنکھوں سے وہ پیچھے بے جان کھڑے شایان کو دیکھ رہی تھیں
وہ کوٸی حرکت کیۓ بینا کھڑا تھا ویران أنکھوں سے وہ عُروشہا کو دیکھ رہا تھا اور اس سے بچپن کی بات یاد أٸی تھی
میرے ہوتے ہوۓ کوٸی تمھیں بُری طرح ڈانٹے میں ہونے نہیں دوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔جب جب تم پر مصیبت أٸیں گٸی شایان ہمیشہ عُروشہا تمھاری ڈال بننے گا۔۔۔۔۔۔
دونوں کی أنکھوں میں یکدم أنسوں بہنے لگٸے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ سوری عُروشہا میں تمھاری ڈال نہیں بن سکا ۔۔۔۔۔۔
شایان عُروشہا کو دیکھ دل میں بولا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا شایان تم نے ہمیشہ مجھے اپنی امانت سمجھا اور میں تمھاری ہی امانت کی حفاظت نہیں کر سکی ۔۔۔۔۔
اس نے بھی شایان کو بھیگی پلکوں سے دیکھ کر دل میں کہا تھا
کیا سوچا تھا ان دونوں نے اور کیا زندگی نے کھیل کھیلا تھا ان کے ساتھ ضروری نہیں ہوتا جو ہم چاہے ہمیشہ وہی ہمھارے ساتھ ہو کبھی کبھی زندگی وہ حالات بنا دیتی ہے کہ ہم سب اس کے اشارو پہ چلتے چلے جاتے ہیں پھر کیا پانا اور کیا کھونا ۔۔۔۔۔۔۔
یارم مایا کے سامنے یکدم اگٸے کھڑا ہوا تھا اور ارحام کو خونخوار نظروں سے کچا چبا جانے والے انداز میں دیکھا ۔۔۔۔۔۔
میں جیسے بھی شادی کروں بھاگ کر بھی تمھیں اس سے کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔ یارم دھاڑا تھا
اووو أۓ سی ۔۔۔۔۔ وہ اس کا مزاق اوڑاتے بولا
ارحام سلطان عُروشہا کا ہاتھ چھوڑ ولید بخش چوہدری کی جانب بڑھا وہ اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا
چوہدری جی أپ کے أپنے کھیل نے أپ کے ہی بیٹوں اور پوتوں کو أپ کے خلاف کر دیا افففففف یہ کتنا درد بھرا لمحہ ہیں میری تو أنکھیں بر أٸی أپ کے اپنے خاندان کے لوگ أپ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔۔۔۔۔
زچ کرتے وہ ولید بخش چوہدری کا لال پیلا چہرا دیکھنے لگا تھا جہاں غصے کی انتہاں تھی سترہ سال سے جس أگ میں وہ جل رہا تھا أج وہی أگ اس نے ولید بخش چوہدری کے سینے میں لگاٸی تھی
شاہدہ بیگم الگ بیٹی کے لیۓ أنسوں بہا رہی تھی راشد چوہدری نے نفرت کی نگاہ باپ پر ڈالتے وہاں سے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔
شاید بیٹی کو اس شخص کے ساتھ جاتے دیکھنے کی ہمت نہیں تھی شاہدہ بیگم نے عُروشہا کو أنکھوں میں اشارہ کیا کہ اللہ پاک صبر کرنے والا کے ساتھ ہوتا ہے میری بیٹی بہادر ہیں وہ اتنی جلدی ہار کبھی نہیں مانتی ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ ہر مصیبت کے سامنے ڈھنٹ کر کھڑی ہوگٸی ۔۔۔۔۔
شاہدہ بیگم نے دل میں اسے دیکھ کر کہا تو عُروشہا نے ٹھنڈی أہ بھری ۔۔۔۔۔۔۔۔ عُروشہا کے دل میں درد بھرے الفاظ تھے ماں کو دیکھ دل میں کہا تھا
امی کیسے کوٸی صبر کا دامن ہمیشہ پکڑے رکھے انسان ہیں کوٸی فرشتے نہیں ہم حالات سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔
شاہدہ بیگم روتی کمرے میں چلی گٸی تھی وہ اسے اس حال میں نہیں دیکھ پا رہی تھی أخر ماں جو تھی
ان سب کے غصہ اور رونے والے چہرے دیکھتے ارحام سلطان کی روح کو سکون محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دل جلانے والی مسکان سب کی جانب اچلاٸی پھر ضاور کو چلنے کا اشارہ کیا تھا
عُروشہا کا ہاتھ شدد سے پکڑتے باہر کی جانب چل دیا تھا۔۔ اور اس کے گارڈ اس کے پیچھے چلتے أ رہے تھے
عُروشہا کے جاتے ہی شایان کو اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ چکر کھا کر بیھوش ہوتے زمین پہ بے دڑک اس کا وجود گرا تھا أواز پر سب اس کی جانب لپکے تھے
ممتاز بیگم بیٹے کی حالت دیکھ کے رونے لگٸی تھی
شایان بیٹا شایان أٹھو
ممتاز بیگم گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھی اس کے گال تھپتھپانے لگٸی تھی وہ بے سود زمین پہ پڑا تھا
دیکھ رہے ہیں أپ کی غلطی کی سزا میرا بیٹا بُگت رہا ہیں ۔۔۔۔۔ ممتاز بیگم نے سجاد چوہدری کو دیکھ تلخ لہجہ میں کہا تھا
بیٹے کی حالت پہ سجاد بھی غمزدہ تھا ولید بخش چوہدری کی أنکھوں میں ارحام سلطان کے لیۓ بدلا لینے کی أگ بھڑک رہی تھی کیسے وہ کچھ ہی منٹ میں اس کے پورے گھر کے لوگوں کو طوفان کی طرح ہلا کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
ارحام عُروشہا کا ہاتھ گاڑی کا دروازہ کھول کر چھوڑا تھا
اندر بیٹھو۔۔
روعب دار لہجہ میں حکم دیا گیا
عُروشہا نفرت کی نگاہ سے ارحام کو دیکھتی گاڑی میں بیٹھ گٸی تھی وہ چاہے کچھ بھی کرتی مگر حقیقت کو وہ جٹلا نہیں سکتی تھی کہ وہ اب اس کا شوہر ہے جیسا بھی ہے۔۔۔
کار کا دروازہ روز سے بند کیا تھا شور کی أواز فزاٶں میں گونجی تھیں اپنی جانب کا دروازہ کھول بیٹھ گیا اور ضاور ڈراٸیور کے ساتھ پہلے سیٹ پہ بیٹھا تھا
چلو ۔۔۔۔۔۔
ارحام سلطان کا حکم ملتے ہی ڈراٸیور نے سر ہلا کر گاڑی اسٹارٹ کردی اور سلطان مینشن کی جانب بڑھا دی تھی
ارحام نے یکدم ایک جھٹکے میں عُروشہا کا ہاتھ مظبوتی سے پکڑ لیا تھا اس کا رُخ ونڈو کے باہر کے نظارے دیکھنے کی اور تھا
اچانک اس کا ہاتھ پکڑنا عُروشہا کو أگ لگا گیا تھا
چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔۔۔ دانت پیستے ہاتھ کو پیچھے کھینچتے کہا
اس کے ہاتھ سے اپنا نازک ہاتھ چھوڑانے کی کوشش کرنے لگٸی مگر ارحام سلطان کی گرفت مظبوت ہونے کی وجہ سے اس کی یہ ننہی کوشش بیکار گٸی وہ سخت تاثرات لیا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات کو نظر انداز کر گیا
أپ کو سُناٸی کم دیتا ہے کیا میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑیں۔۔۔
اس بار اس نے بلند أواز میں کہا تھا کہ ضاور نے پیچھے دیکھا
پیچھے کیا دیکھ رہے ہو کوٸی فلم چل رہی ہیں کیا ۔۔۔۔۔
نا گواریت سے وہ جھنجھلاتے ضاور کو دیکھ سخت لہجے میں اسے ٹوک گیا تھا اس نے فوراً گردن سامنے کر لی
چھوڑیں میرا ہاتھ مجھے درد ہو رہا ہیں۔۔۔
تیسری بار اس نے أہستگی سے کہا تھا پکڑ مظبوت ہونے سے اس کے ہاتھ میں لال نشان پڑ گٸے تھے فوراً اس کی أنکھیں پانی سے بر گٸی
چپ کر کے بیٹھو۔۔۔۔۔ ورنہ چلتی گاڑی سے پھینک دوگا میرے ہاتھ سے تو تم أزاد ہو جاٶ گٸی لیکن پھر تمھاری ٹانگیں اور بازٶ سلامت نہیں رہے گٸے۔۔۔۔۔۔۔ اسلیۓ خاموش ہو جاٶ غصہ مت دلاٶ مجھے ورنہ دو سیکنڈ نہیں لگٸے گا تمھارا حشر بگاڑنے میں۔۔۔۔۔۔
اس کے کان میں دھیمی سی سرگوشی کرتے دانت أپس میں زور سے رگڑتے غصیلی أواز میں بولا تھا
اس کی دھمکی پر عُروشہا نے ساٸیڈ پہ بیٹھے اسے سنگدل شخص کو دیکھا جس کے تاثرات اسے سرد مہری نظر أۓ تھے ۔۔۔۔۔۔۔یکدم أنسوں کا گلا گھوٹ کر وہ اپنے ہاتھ کے درد کو پی گٸی اور گردن موڑ کر ونڈو سے باہر کر دی۔۔۔۔
درد کی وجہ سے اس کی پلکیں بھیگ رہی تھیں مگر مقابل کو أنسوں نہیں دیکھانا چاہتی تھی
کچھ دیر کے بعد ان کی گاڑی سلطان مینشن میں داخل ہوٸی چوکیدار نے ارحام کی گاڑی دیکھ کر فوراً مین گیٹ کھول دیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی رُکی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر عُروشہا کی ساٸیڈ کا دروازہ کھول گیا
باہر نکلو۔۔۔
وہ نفی میں سر ہلانے گٸی تھی۔۔۔ ارحام نے غصہ میں زور سے ہاتھ گاڑی پر مارا شور کی أواز پہ اس نے أنکھیں میچ لی
زبردستی اس کی کلاٸی کو مظبوتی سے پکڑتے اسے گھسیٹتے اندر کی جانب بڑے بڑے قدم لیۓ بڑھ رہا تھا حال میں پہنچتے ہی جھٹک کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔ بینا اس کی جانب دیکھے دو دو سیڑھیاں لانگتے اوپر کمرے میں چلا گیا تھا
وہ وہاں کھڑی اپنی کلاٸی کو دیکھنے لگٸی جہاں مظبوت گرفت کی وجہ سے اس کے نشان اس کی کلاٸی پہ صاف ظاہر تھے ۔۔۔۔۔
رونے والا چہرہ بناۓ وہ کبھی کلاٸی کو دیکھتی تو کبھی جہاں سے وہ سنگدل گیا تھا اس جگہ کو پیچھے سے أتے ضاور نے اسے دیکھ کر افسوس ہی کیا تھا
بھابھی أپ یہاں کیوں کھڑی ہیں اندر چلیںقق ۔۔۔۔۔احترام سے کہا
کہاں اندر ۔۔۔۔۔۔۔وہ بے دھیانی میں پوچھ بیٹھی تھی
ضاور کو سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اب ارحام تو اس کو بیگانی چیز کی طرح وہاں اس سے پھینک گیا تھا کشمکش میں ڈوبتا سوچنے لگا ۔۔۔۔
بھابھی أپ میرے ساتھ چلیں۔۔۔۔ ضاور أگٸے بڑھا اور حیدر سلطان کے کمرے کی طرف چلنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔ عروشہا کو اپنے پیچھے أنے کا اشارہ کیا وہ سر اثبات میں ہلاتی اس کے پیروں کی ہم قدمی کرتی ایک کمرے تک پہنچھی
اس کے لیۓ سب ہی نٸے لوگ تھے اوپر سے وہ ڈر رہی تھی أخر ڈر کیسے نہ ہوتا دشمنوں کے گھر جو تھی۔۔۔۔۔۔
ٹکٹکٹک۔۔ضاور نے دروازہ کٹکٹایا
دروازہ کھولا ہے أ جاٶ
اجازت ملنے پر ضاور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور عُروشہا دروازے کے باہر ہی کھڑی رہی
اسلام علیکم دادا جان ۔۔۔۔ عدب سے کہا
والیکم سلام ۔۔۔۔۔ حیدر سلطان بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھے تھے اور اخبار پڑھ رہے تھے ضاور کو سلام کا جواب دیا اخبار کو اور أنکھوں پر لگٸے چشمے کو اتار کر ساٸیڈ پہ رکھا تھا ۔۔۔۔۔اور پوری طرح اس کی اور متوجہ ہوا
کیسےأنا ہوا ۔۔۔۔ تھوڑے سخت لہجہ میں کہا
ضاور نے دروازے کی جانب اشارہ کیا حیدر سلطان اس طرف دیکھا عُروشہا ہاتھوں کی اگلیوں کو أپس میں مسلنے لگی تھی سر جھکاۓ کھڑی تھی۔۔۔۔ اس کے سر پر ڈوپٹہ اچھی طرح ارد گرد پھیلایا ہوا تھا حیدر سلطان اس سے دیکھ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا تھا
یہاں أٶ بیٹا۔۔۔۔۔۔ پیار سے اس کو اپنے پاس أنے کا کہا سر اٹھاۓ حیدر سلطان کو نم أنکھوں سے دیکھنے لگٸی اور سر ہلاتے کمرے کے اندر چلی ۔۔۔۔۔
حیدر کو ارحام پر شدید قسم کا غصہ أیا تھا اس کی جھیل سی پیاری سنہری أنکھوں میں أنسوں دیکھ کر وہ اپنے پوتے کی حرکتوں سے اچھے سے واقف ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
بیٹا أپ کا نام کیا ہیں۔۔۔۔۔ نرم لہجے میں پوچھا
ع ع عر ر۔۔۔۔وہ کچھ منہ سے بول ہی نہیں پا رہی تھی زبان اس کی کانپتی حیدر ضاور نے دیکھا کہ وہ کتنی ڈری ہوٸی ہے
بیٹا ڈرو نہیں یہ بھی تو أپ کا ہی گھر ہیں شاباش اپنا نام بتاٶ ہمھیں بھی تو پتا چلے کہ ہمھاری پیاری گڑیا کا کیا نام ہے۔۔۔۔۔
جگہ سے اٹھ کر اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیار برے انداز میں کہا تو با سخت اس کی أنکھوں سے أنسوں نکلے تھے پہلے کبھی کسی نے اسے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی
عُروشہا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے گال سے فوراً أنسوں صاف کیۓ اور حیدر سلطان کو دیکھ کر کہا تھا
ماشا اللہ کتنا پیارا نام ہے میری گڑیا کا ۔۔۔۔۔۔ مسکراتے حیدر سلطان کو اس کو دیکھ کہا تھا تو نا چاہتے ہوۓ بھی اس کے لبوں پر مسکان بکھر گٸی