ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 15

کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ واشروم سے باہر أٸی تھی پنک کلر کی میکسی اس کے اوپر گولڈن کلر کا بھاری کام کیا ہوا تھا ستاروں اور موتیوں سے پورا سوٹ جھڑا ہوا تھا____ گولڈن کلر کا چوڑیدار پجامہ ڈوپٹہ بھی گولڈن کلر کا تھا ڈوپٹہ پہ ستاروں موتیوں کا بھاری اس پہ بھی کام کیا گیا تھا جتنا اس کا وزن نہیں تھا اس سے کہیں زیادہ اس کے لٸے وہ سوٹ بھاری تھا
اففففف یا اللہ اس ڈریس میں تو میرا دم گھٹ جاٸیں گا ____
با مشکل ڈریس کو سمبھال کر ڈریسنگ ٹیبل کے أٸینے میں اپنا عکس دیکھا تھا رونے کی وجہ سے أنکھیں سوجی ہوٸی تھیں___
جان بوجھ کر اتنا ہیوی ڈریس لے کر أیا ہے تاکہ اس میں میرا دم نکل جاٸیں ____
ڈریس کو دیکھتے چڑ کے بولی _____
ٹکٹکٹک ____ دروازے پہ ہونے والی دستک نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچا تھا ___
أ جاٶ دروازہ کھولا ہے __سامنے دیکھے بینا ہی میکسی کو پاٶں سے اوپر سمبھال نے میں لگی تھی___
میم ___ فیمیل کی أواز پر وہ ڈریس کو چھوڑ کے سامنے دیکھنے لگٸی __
میم میرا نام شازیہ ہے پالر سے خاص طور پر أپ کے لیۓ مجھے تیار کرنے کے لیۓ بُلایا گیا ہیں۔۔۔۔۔
اچھا ویسے أپ کو بُلایا کس نے ہیں أ ۓ مین نام کیا ہے جس نے أپکو میرا کمرے کا پتا دیا ۔۔۔۔
اس سے پتا تھا کہ ارحام سلطان نے ہی بیوٹیشن کو اسے تیار کرنے کے لیۓ بُلایا گیا ہے وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا تھا تاکہ چوہدریوں کا خون جلا کر خود کو سکون میسر کر سکے__ لیکن پھر بھی تجسس تھا کہ کنفرم کروں
جی وہ سر ارحام سلطان نے ۔۔۔۔۔ بیوٹیشن والی لڑکی کو کچھ سمجھ نہیں أیا کہ وہ پوچھا کیوں رہی ہے
ہممممم سہی____ وہ بیوٹیشن والی لڑکی کو انکار کرنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی ارحام سلطان کو کچھ وقت میں ہی وہ اتنا جان تو گٸ تھی کہ وہ شخص کچھ بھی کر سکتا ہے اسلیۓ خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی ______
بیوٹیشن والی لڑکی نے اس سے تیار کرنا شروع کیا پہلے بالوں کا جوڑا بنایا تھا اور پھر میکب کرنا شروع کیا
میم ڈریس کے احساب سے تیز لپسٹیک ٹھیک رہے گٸی أپ اسے اتاریٸے نہیں پلیزززز میم__
تیز پنک کلر کی بیوٹیشن والی لڑکی نے اس کے لبوں پہ لپسٹیک لگاٸی تھیں جو کہ اس کو زرا بھی پسند نہیں أٸی اور اپنے ہونٹوں کو رگڑتے أتاری دی
تم مجھے دو میں خود لگاٶں گٸی میرے ہونٹوں سے زیادہ تو تم نے لپسٹیک تھوپ دی ہے_____
اس کے ہاتھ سے لپسٹیک لیتی غصہ میں بولی ایک تو اس سے میکب پسند نہیں تھا اوپر سے ہیوی ڈریس سے وہ تنگ أ گٸی تھی اتنا زیادہ میکب دیکھ کر اس سے جھنجھلاہت ہو رہی تھی _____ أٸینے میں خود کو دیکھ کر ہلکی لپسٹیک لگاٸی _____ بیوٹیشن والی لڑکی خاموش کھڑی اس کی ساری کارواٸی دیکھ رہی تھیں ______
تم جاٶ اب_____ وہ اس سے حکم دینے لگٸی
پر میم ابھی أپ کا میکب کمپلیٹ نہیں ہوا ہیں پلیزززز میم سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔ خاص ہدایت دی ہے۔۔۔۔۔ سر نے کہ أپ کو بہت اچھے سے تیار کروں۔۔۔ اور کہا کہ اگر أپ کو تیار کرنے میں مجھ سے تھوڑی بھی چوک ہوٸی تو میری خیر نہیں ۔_____ وہ بیوٹیشن روہانسی ہوتی بول رہی تھی عُروشہا نے اس کی أنکھوں میں ڈر دیکھا ۔۔۔۔۔۔پہلے تو اس کو اس بیچاری پر ترس أیا لیکن جیسے ہی اس نے ارحام کا نام لیا عُروشہا کا غصہ ساتویں أسمان پر پہنچھ گیا ______
میں نے کیا کہا تم نے سُنا نہیں کہ جاٶ یہاں سے لیو می ألون_____
پوری قوت سے چلاٸی تھی کہ بیچاری بیوٹیشن ہڑبڑی میں اپنا سامان ڈریسنگ ٹیبل سے أٹھا کر کمرے سے جان بچا کر بھاگی ____ وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب وہ سلطان مینشن میں دلہن کو سجانے کے لیٸے لاٸی گٸی تھی___ ایک طرف ارحام تھا جس نے اس کو دھمکی دی تھی کہ عُروشہا کو تیار کرنے میں کوٸی کمی نہیں رہنی چاہیے ____ اور دوسری جانب عُروشہا تھی جو کہ ارحام سلطان کا غصہ اس بیچاری بیوٹیشن والی لڑکی پہ نکال رہی تھی
وہ بھاگتی ہوٸی با سخت مقابل سے زور دار ٹکراٸی سانسیں پھولنے لگٸ تھی ہڑبڑی اور بھاگنے کی وجہ سے سامنے دیکھا___
أپ اس طرح کیوں بھاگ رہی ہیں سب خیریت تو ہے____ ضاور نے اسے گھبراتا دیکھ تعجب سے پوچھا
چ چ چڑیل ____ بیوٹیشن کے منہ سے با سخت الفاظ نکلا کپکپاتی زبان سے ایک منٹ بھی نہیں لگایا اور وہاں سے ایسے بھاگٸی جیسے گدھے کے سر سے سینگ _____
ضاور فکشن کے لیۓ بلکل تیار تھا _ أسمانی رنگ کا کُڑتا پہنا ہوا تھا جس کے اوپر بلیک رنگ کی واسکوٹی زیب تن کی ہوٸی تھی ____ وہ بیوٹیشن والی لڑکی کی بات پر چونکا تھا
ہنی چڑیل____ وہ حیران کن انداز میں کہتا جہاں سے وہ بھاگتی أ رہی تھی وہاں جاکر دیکھنا چاہتا تھا کہ اخر اس لڑکی کو کیا ہوا___
چلتے ہوۓ أگٸے کی جانب گیا — جہاں سامنے ہی اس کو عُروشہا کا کمرہ نظر أیا کچھ سوچ کر اس نے أپنے قدم اس کے کمرے کی جانب کیٸے کہیں وہ کسی مشکل میں تو نہیں ہے__
بھابھی أپ ٹھیک ہیں نہ ___ دروازے کے قریب پہنچھ کراس نے أواز دی اچانک أواز پہ عُروشہا جو اب پوری سجی سنواری بیڈ پہ بیٹھی بلی کو گود میں لیٸے اس سے باتیں کر رہی تھی _____
جی ___ اس سے کچھ سمجھ نہیں أیا کہ ضاور ایسا کیوں پوچھ رہا ہے بس یکطرفہ جواب دیا
جواب ملتے ہی ضاور کو کچھ تسلی ہوٸی کہ سب ٹھیک ہے اب وہ باہر کی جانب چل دیا ____
یارم ایک بات پوچھوں____ مایا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی نظر أٸینے پہ جماۓ بال بنا رہی تھی۔۔۔۔ ریڈ کلر کا فراک چوڑیدار بچامہ ہم کلر کا ڈوپٹہ کندھے کی ایک ساٸیڈ پہ رکھا ہوا تھا ______ ڈریس کے اوپر ہلکی سی کڑاہی کا کام کیا ہوا تھا ۔۔۔۔شاید وہ شام کے فکشن کے لیۓ تیار ہو رہی تھی____ یارم خود جاکر مایا کے لیٸے شام کے فکشن کے لیۓڈریس اور جولری وغیرہ سامان لیکر أیا تھا______ مایا کو کہا تھا کہ ساتھ چلو مگر اس نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ میرا دل نہیں شاپنگ پہ جانے کا____ اسے ایک خوشی تھی کہ وہ عُروشہا کو اپنی أنکھوں کے سامنے دیکھے گٸی ورنہ جیسے اس سے ارحام سلطان لے کر گیا تھا عُروشہا کے لیٸے وہ بہت پریشان تھی______ یارم بیڈ پہ بیٹھا لیپ ٹاپ میں کام میں مشغول تھا
ہمممم کہوں___ اس کی جانب دیکھے بغیر ہی لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ نظر رکھے اگلیاں لیپ ٹاپ کے بٹن پر چلاتے مصروفانہ انداز میں جواب دیا___
یہ ارحام سلطان کون ہے_____ یارم نے اس کے سوال پہ اس کی جانب تبیہ نظروں سے دیکھا
تم کیوں پوچھ رہی ہو___ وہ حیران ہوا تھا
وہ خالہ بی کسی اور نوکرانی کو کہہ رہی تھی کہ عُروشہا کی جس کے ساتھ اس کی شادی ہوٸی ہیں اس کا نام ارحام سلطان ہے اور وہ حویلی والوں کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے اسلیۓ أپ سے پوچھا کیا واقعی یہ بات سچ ہیں_____
اب وہ بال بنا چکی تھی لال کلر کی چوڑیاں سفید کلاٸی میں پہنتی یارم کی جانب دیکھ کر پوچھا____
ہاں وہ ہمھارا دشمن ہیں____ اتنا کہتے وہ پھر سے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ کر اگلیوں سے کچھ ٹاٸپ کر رہا تھا____
مایا مکمل تیار ہوکر اس کے سامنے بیڈ پہ بیٹھی ____ لیکن کیوں ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے وہ أپ کا دشمن بنا
جب سے ارحام سلطان حویلی سے عُروشہا کو لیکے گیا تھا تب سے ہی اس کے دماغ میں کہیں سوالوں نے جنم لیا _____ اس گھر کے افرادو سے وہ اتنا ہچکچاتی تھی کہ کس سے دل میں ہول مچلتے سوال وہ پوچھتی _____ بہت سوچنے کے بعد اس نے یہ طعے کیا کہ وہ یارم سے سوال پوچھے گٸی اور جانے گٸی کہ ایسا کیا ہوا تھا ____
مجھے اتنا نہیں پتا لیکن ہمھارے دادا جان اور ارحام سلطان کے دادا حیدر سلطان کی بچپن سے لیکر ان کے بڑے ہونے تک بہت گہری دوستی أپس میں رہی____ یہاں تک کہ ان کے گھر ہمھارا اور ان کا أنا جانا بھی بہت ہوتا _______
اچانک وہ چپ ہوگیا تو مایا نے اسے بغور دیکھا
پھر ____
میں شایان اور ارحام بچپن کے دونوں میں ساتھ کھیلتے تھے ہمھارے اچھی دوستی تھیں ہم تینوں ہم عمر تھے ____ _____ تو پتا نہیں ایک دن ارحام سلطان ان کا دادا اور باپ حویلی أیا تھے اور حیدر سلطان قربان سلطان جو کہ ارحام کا باپ ہیں ______ میں شایان چھت پر کھڑے نیچھے دیکھ رہے تھے _____ دادا جان بابا سے بہت بتمیزی کر رہے تھے اس دن بہت بڑا جھگڑا ہوا بھڑوں کے بیچ جب تک ہم نیچھے أٸیں ۔۔۔۔۔۔ تب تک وہ جا چکے تھے
دادا جان اور حیدر سلطان کی دوستی اس دن کے جھگڑے کے بعد ختم ہوٸی تھی وہاں سے دوشنی کا أغاز ہوا _______
تم اور شایان اوپر سے سب دیکھ رہے تھے لیکن جھگڑے کے وقت گھر کے سب افراد وہاں موجود تھےکہ نہیں ۔۔۔۔۔ مایا کے دماغ میں ایک اور سوال أیا
یارم ان دنوں کو یاد کرتے اداس ہوگیا _____ لیپ ٹاپ بیڈ سے اٹھا کر صوفے پہ رکھ دیا
سب گھر کے افراد موجود تھے ۔۔۔۔۔ وہ کمرے سے جانے لگا کہ کچھ یاد أنے پر رُکا تھا اور مایا کو دیکھ کہا
ہاں اور خالہ بی بھی وہاں موجود تھی ۔۔۔۔۔۔۔ یارم نے سنجیدگی سے کہا
ایسا کیا ہوا تھا یارم کیا باتیں ہوٸی تھی بھڑوں کے بیچ میں ____ یارم کمرے سے باہر جانے لگا تھا کہ مایا اس کے سامنے کھڑی ہوتی سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا
مجھے نہیں پتا مایا کہ پوری بات أخر تھی کیا کہیں بار ارحام کی نفرت کی وجہ میں نے بابا سے پوچھی لیکن انہوں نے نہیں بتایا اور امی سے پوچھا تو امی نے بس اتنا کہا کہ گھڑے مردیں نہ اکھاڑو _____ اور دادا جان نے حویلی میں اس بات کا ذکر کرنے سے بھی سب کو روک دیا تھا
یارم باہر چلا گیا وہ تیار تھا فکشن میں جانے کے لیۓ لیکن وہ بہت اداس ہو گیا تھا اب پہلے اس سے عُروشہا کی پریشانی کھاۓ جا رہی تھی اور اب یوں ماضی کی باتیں کرتے وہ ان میں کھو گیا تھا____
اس کا مطلب سترہ سال پہلے جو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔۔ اس بات کا خالہ بی کو سب پتا ہے _____ مجھے پہلے یہ پتا کرنا ہوگا کہ خالہ بی کو کیا۔۔۔۔ کیا پتا ہے ۔۔۔
وہ خود سے کہنے لگٸ _____ مایا کو شک تھا ۔۔۔ جس طرح ارحام سلطان ان سب سے نفرت کرتا ہے اس کو اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ وجہ بہت بڑی ہے پر کیا بس وہ جاننا چاہتی تھی _____ لیکن وہ یہ بھی بھول رہی تھی کہ جو راز ولید بخش چوہدری چھپا رہا ہے ____ اس سے سامنے لانے کے لیۓ وہ کتنے بڑے خطرے کو موڑ لے رہی ہے___
شام کا وقت ہوگیا تھا سلطان مینشن میں فکشن اپنے عروج پہ تھا ۔۔۔ عُروشہا اور ارحام سفید کلر کی شیروانی زیب تن کی ہوٸی تھی ____ سب لڑکیاں عُروشہا کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں ___ جس کے قسمت میں اتنا ہیڈسم پرکشش شخص لکھا گیا تھا عُروشہا خود بھی حُسن کی ملکہ تھی ____ حال میں سٹیج بنایا گیا تھا وہ دونوں کرسیوں پہ بیٹھے کہیں لوگوں کی أنکھ کا تارا بنے تھے تو کہیں لوگ ان کو حسد کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے
حویلی کے سب ہی لوگ سلطان مینشن میں قدم رکھ رہے تھے ______
ارحام سلطان تو بس ان کا ہی انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ لوگ أۓ گٸے جیسے ہی اس کی نظر حویلی کے لوگوں پہ گٸی
یکدم عُروشہا کا ہاتھ پکڑ کر اس کے قریب بیٹھ گیا عُروشہا ویران أنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھیں __ جب اچانک ارحام اس کے قریب بیٹھا اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ چونکی
کیا أپ کو بار بار ہاتھ پکڑنے کی بیماری ہیں____ وہ اس سے گھورو سے نوازہ تھی بولی
جی ہاں ہیں کیوں تمھیں کوٸی پرابلم ہے اس سے___ سپاٹ لہجے میں کہتا اس سے دیکھا ____ وہ بیٹھا وہاں اس کے قریب تھا مگر ایک بار بھی اسے دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا ____ جب دیکھا تو مانو بینا پلکیں چپکاۓ اپنی سانسیں روک کے اس سے تکنے لگا ____
جھیل سی أنکھیں جن میں کاجل أس کا بے سخت دل زور سے دھڑکا گٸی تھیں
اسکی أنکھوں سے نظر ہٹاٸی تو ناک کی نوز پن پہ گٸی دل میں اچانک خواہش جھاگی کہ اس سے ہونٹوں سے چھو لے ____ گلابی ہونٹوں پر گٸی تو وہ یکدم أنکھیں بند کر گیا اور فوراً ٹھنڈی أہ بھر کے رھ گیا تھا ____ خود کو اس کے أگٸے گھٹنے ٹیکتے اسے محسوس ہوۓ تھے ____
نہیں ارحام سلطان ___ وہ دل میں أنکھیں بند کرتے گویا تھا عُروشہا اس کا اچانک چہرہ پھیرنے پر چونکی تھی ____
عُروشہا __ مایا اس کی جانب بھاگتی أٸی اور فوراً اٹیج پر چھڑتے ہی اس سے پکارا
بھابھی ____ عُروشہا کرسی سے اٹھ کر نم أنکھوں سے دیکھ کے جھٹکے سے اس کے گلے لگٸی____ مایا کے گلے لگ کے اس کا دل چاہا رونے کو لیکن وہ رو کر اپنے گھر والوں کو تکلیف اور ارحام سلطان کو ایک نیاں موقع نہیں دینا چاہتی تھی ___ اپنے أنسوٶں کا گلا گھوٹتے مایا سے الگ ہوٸی
مایا کی پلکیں بھی نم ہوٸی تھیں____ تم ٹھیک تو ہو نہ ___ مایا نے اس سے دیکھ فکرمندہ ہو کر پوچھا ____
عُروشہا کا من بھاری ہو رہا تھا کیسے وہ اس سے بتاتی کہ میں ٹھیک نہیں ہوں ___ جی بھابھی میں ٹھیک ہوں أپ بتاٸیں أپ کو بھاٸی زیادہ تنگ تو نہیں کرتے نہ ____
خود کے درد کو سمیٹتے مسکان چہرے میں لاۓ ایک انکھ ونگ کرتے کہا تو مایا نے اچانک یارم کی جانب دیکھا ____ شاید کوٸی جان پہچان والا انسان اسے مل گیا تھا اس سے باتوں میں وہ مشغول تھا _____
نہیں عُرو تمھارا بھاٸی بہت اچھا ہیں وہ مجھے تنگ نہیں کرتا وہ میرے لیٸے مسیحا کی ماندہ ہے جو میری مشکلوں میں میری ڈال بنا ہیں_____
نظروں کے حصار میں وہ یارم کو لیۓ ہوٸی تھی بے دھیانی میں اپنے دل کی بات کہہ گٸی ____
واہ جی اتنی تعاریف بھاٸی کی ہو رہے ہیں ۔۔۔ کیابات ہے بھابھی ۔۔۔۔کیا کبھی بھاٸی سے اظہارۓ محبت کیا _____
وہ مایا کے اگٸے چپٹی بجاۓ اس سے یارم کی اور سے جھٹکا کر اپنی طرف متوجہ کیا _____ مایا چونکی کہ وہ نا جانے کیا کہہ گٸی ہے
عُرو کیسی ہیں میری چاند سی بیٹی____ شاہدہ بیگم ان دونوں کے بیچ أگے کھڑی ہوکے اور نم أنکھوں سے دیکھ کر باہیں پھیلاۓ اس کے أگٸے کھڑی ہوٸی
جھٹکے سے ماں کے گلے لگ گٸی اور مایا نے شکر کیا کہ وہ أگٸی ورنہ وہ کیا جواب دیتی _____
امی میں ٹھیک ہوں أپ کیسی ہیں ____ عُروشہا شاہدہ بیگم سے دور ہوتے کہا
میری بیٹی ٹھیک ہے تو میں بھی ٹھیک ہوں____ شاہدہ بیگم أنکھوں کی نمی کو صاف کرتی دھیمی سی مسکان چہرے پہ لاۓ کہا ___
یارم چلتا ہوا سٹیج پہ أیا اس کی نظر ارحام پہ گٸی جو ضاور سے بات کر رہا تھا ____ اس کا لہجہ سرد اس سے دیکھاٸی دیا تھا
سترہ سال پہلے جو کچھ ہوا کاش وہ نہ ہوا ہوتا تو اج ہم سب کے حالات مختلف ہوتے____ ناجانے کیوں لیکن یارم کو شاید أج بچپن کی یاد أٸ تھیں باسخت منہ سے ارحام کو دیکھ ۔۔۔ اس کے دل نے کہا _____
اور اس ہی پل ارحام کی نظر یارم سے ٹکراٸی ____ اس کے دیکھنے سے وہ فوراً اپنی نظریں پھیر گیا عُروشہا کی جانب بڑھ گیا
عُرو کیسی ہیں میری پیاری سی گڑیا _____ مسکراتا اس سے دیکھ کہا تھا عُروشہا بھاٸی کے گلے لگٸی تھی اس کا دل چاھ رہا تھا رونے کو مگر وہ رو کر سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ____ یارم نے اس کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا
بھاٸی میں ٹھیک ہوں أپ کیسے ہو___ عُروشہا یارم سے الگ ہوتی مسکراتے کہا
ٹھیک ہو میں بھی ___یارم کا لہجہ دھکی تھا
سالے صاحب ہم سے بھی مل لوں___ ارحام سلطان عُروشہا کے ساتھ کھڑا ہوکے یارم کی جانب دیکھ کہا ___
یارم اس کی بات کو نظر انداز کرتا سٹیج سے نیجھے اتر گیا
حیدر سلطان کی اچانک نظر ولید بخش چوہدری کی جانب گٸیں اور اس پل ولید بخش چوہدری نے بھی ان کی جانب دیکھا ____ ان دونوں کو وہ دوستی والے مسکراتے دن یاد أۓ حیدر سلطان کی أنکھیں نم ہوٸی لیکن ولید بخش چوہدری کی أنکھوں میں کوٸی پچھتاوا نہیں تھا البتہ وہ حیدر سلطان کا قصوروار تھا _____ حیدر سلطان وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا ______
سسُر جی کیسے ہیں أپ ۔۔۔۔۔ ارحام سلطان سٹیج سے نیچھے اتر کے راشد کی جانب أیا ۔۔۔۔۔۔ وہ اکیلا کھڑا عُروشہا کو دیکھ کر سوچ میں لگا ہوا تھا کہ اس سے ملو کہ نہیں لیکن ہمت نہیں جھٹا پا رہا تھا
تب ہی ارحام نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے دل جلانے والی مسکان سے کہا ۔۔۔۔۔ وہ خاموش نظروں سے ارحام کو دیکھنے لگا
یہی تو میں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ سسُر جی أپ کی انہیں أنکھوں میں بے بسی کی انتہاں کو ۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہیں کتنی تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔۔ جن سے ہم محبت کرتے ہیں نہ ان رشتوں کو تکلیف میں دیکھنا ۔۔۔۔ اور أپ کے ہاتھ کٹے ہوں۔۔۔۔۔ أپ چاھ کر بھی مدد اپنے پیارے کی نہ کر سکیں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کے کہنے کا لہجہ سرد تھا ۔۔۔۔مگر اس کی باتوں کا مطلب راشد چوہدری بخوبی سمجھ گیا تھا
ارحام میری بیٹی نے بہت کچھ سہاں ہے بچپن سے ۔۔۔۔۔۔۔ میں اس قابل تو نہیں ہوں ۔۔۔لیکن پھر بھی ایک بیٹی کے باپ کی حصیت سے کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ کہ میری بیٹی بے قصور ہیں ۔۔۔۔۔ سترہ سال پہلے جو کچھ ہوا ۔۔۔۔اُس میں اسے کا کوٸی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ تمھارا قصور وار میں ہوں۔۔۔۔ تم جو چاہے مجھے سزا دیں سکتے ہو ۔۔۔۔ میری بیٹی کو ان سب سے دور رکھو۔۔۔۔۔
ارحام سلطان نے پہلی بار راشد کی أنکھوں میں پچھتاوا دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔شاید انہیں اپنی کی گٸی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگ وقت پر سمبھل جاتے ہیں ۔۔۔اور کچھ تو پوری زندگی غلطیاں کرنے کے بعد بھی بینا کوٸی پچھتاوے کے ساتھ زندگی گزاتے ہیں۔۔۔۔۔
جب اپنے پیارے رشتے پہ بات أٸی تو ۔۔۔۔۔۔۔راشد چوہدری تمھیں درد کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔۔ سترہ سال سے میں پل پل ازیت کا شکار ہوا ہوں۔۔۔۔ ایک ایک منٹ سیکنڈ میں تڑپا ہوں۔۔۔۔۔ اتنی جلدی تو تمھیں معافی نہیں ملے گٸی ۔۔۔۔۔۔
غصہ سے کہتا وہاں سے سٹیج پہ چلا گیا ۔۔۔۔۔ پیچھے راشد چوہدری کو افسوس ہوا کہ ان کی بیٹی ان چاہے گناہوں کی سزا کی قید میں أگٸی ہے۔۔۔۔۔۔
عُروشہا ڈریس ہیوی اور جولری پہنھ کر ایک جگہ بیٹھ کے تھک گٸی تھی
سب سے اللہ حافظ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ اچانک شایان نے اس کی کلاٸی پکڑتے ایک کونے میں لے گیا _____ یہ سب اچانک ہوا کہ وہ کچھ سمجھ نہیں پاٸی
شایان یہ کیا حرکت ہے____ غصہ سے کہا
واہ عُروشہا اتنا جلدی تم بدل گٸی ہو مجھے تو یقین ہی نہیں أ رہا ____ صرف کلاٸی پکڑی تو تمھیں بُرا لگا ____ میری محبت ختم ہوگٸی لگتا ہے ۔۔۔۔ کیا میری محبت اتنی کمزور تھی ۔۔۔۔۔ جو تمھیں ارحام سلطان کے نکاح سے انکار بھی نہ کرواسکی ___
زخمی مسکان سے طنزیہ کے تیر چلاتا عُروشہا کے دل کے ٹکڑے کر گیا تھا ____ تم ایسا کیسے سوچ سکتا ہو وہ صرف سوچ کے رھ گٸی تھی ۔۔۔۔۔ شایان کو بس بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں
ہٹو میرے راستے سے شایان میں بہت تھک گٸی ہوں ارام کرنا چاہتی ہوں_____ شایان ابھی بھی عُروشہا کی کلاٸی پر اپنا ہاتھ حاٸل کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس سے اپنی کلاٸی چھوڑوانے کے لیٸے مسلنے لگی لیکن شایان تو بس اس کا حسین چہرہ تکنے لگا
یہ سجناں سورنا ارحام سلطان کے لیۓ ہے۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا۔۔۔۔۔۔ ویسے لگ بہت پیاری رہی ہو ______ دیوانگی سے کہتا وہ اس کے تھوڑا اور قریب ہوا تھا ___
شایان ___
اس سے خود کے قریب دیکھ روہانسی أواز سے کہا اس کی أنکھیں نم ہوٸی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی أنکھوں میں پیارے سے موتی دیکھ شایان کچھ قدم کے فاصلے پہ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ کوٸی انہیں اتنے قریب دیکھ کے ۔۔ ۔۔۔اس کے جسم میں أگ کے شولے ابھر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحام سلطان کی أنکھیں لال تپش سے جل رہی تھیں مٹھیوں کو ضبط سے بند کرتے اس کی جانب قدم بڑھ گیا
بولو نہ یہ سجناں سورنا اس کے لیۓ ہیں نہ _____ وہ دھکی لہجے میں بول رہا تھا ____ شاید دل تھا کہ یہ سُن چاہتا تھا نہیں شایان تم غلط سمجھ رہے ہو ایسا کچھ نہیں ہے مگر عُروشہا کی خاموشی اس سے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی____عُروشہا کی أنکھوں میں اب اس کے اس طرح سوال پوچھنے پہ أنسوں أگٸے تھے
ہاں میرے لیۓ ہیں کیونکہ میں اس کا ہسبنڈ ہوں____ ارحام نے سختی سے عُروشہا کی کلاٸی شایان کے ہاتھ سے کھینچ لی کہ عُروشہا کے منہ سے درد بھری منہ سےچیخ نکلی ____
دھیان سے عُرو ___ ارحام سلطان کی بات کو اگنور کرتے وہ عُروشہا کو دیکھا جو درد سے تڑپ اٹھی تھی
عُروشہا کے لیٸے شایان کی فکر دیکھ ارحام کا خون گھول اٹھا
شایان چوہدری میری واٸف سے دور رہو ورنہ تمھارے لیۓ اچھا نہیں ہوگا _____ دانت پیستے کہا اور عُروشہا کی کلاٸی کو مظبوتی سے پکڑ کے اپنے کمرے میں چلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ شایان أنسوٶں کو گال سے صاف کرتے سلطان مینشن سے بے دڑک باہر چلا گیا
کمرے میں اندر أتے ہی ارحام نے عُروشہا کی کلاٸی چھوڑی۔۔۔۔۔۔۔ فوراً دروازہ لاک کیا ۔۔۔۔۔قہر بھری نظروں سے عُروشہا کی جانب قدم بڑھا رہا تھا وہ أس کے أنکھوں میں دیکھتی پیچھے ہوتی دیوار سے جالگٸی۔۔۔۔۔۔
تمھیں تو میں نے اس کا نام لینے سے روکا تھا ۔۔۔۔۔۔اور تمھاری جُرات تو دیکھو ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے اس کی باہوں میں جھول رہی تھی مس عُروشہا ارحام سلطان ۔۔۔۔۔۔
وہ دانت پیستے الفاظ چبا چبا ادا کرتے اس کے چہرے کے قریب دھاڑا تھا کہ وہ أنکھیں بند کرتی دیوار کے ساتھ چپک گٸی۔۔۔۔
بولو اب کیوں خاموش بُت بنی کھڑی ہو ۔۔۔۔۔
عُروشہا کو خاموش دیکھ کر ہاتھ کا مکہ بنا کر زور سے اس کی ساٸیڈ پر دیوار پہ مارا ۔۔۔۔۔عُروشہا سسکیاں لیتی رونے لگٸی اب
شایان ک کو ک کہا ک کہ م میرا ہ ہاتھ چ چ چھوڑو مگر و وہ نہ نہیں
ہچکیاں لیتی سوسو کرتی رونے لگٸی تھی ____ ارحام نے دیکھا وہ بہت زیادہ ڈر گی ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے دور ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اور ٹیبل سے گُلدستاں اٹھا کر زور سے زمین پہ پھینکا۔۔۔۔۔۔ اسے با بار شایان کا عُروشہا کے اتنے قریب کھڑے ہونے والا سین دماغ کی رگیں تن کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کا غصہ سے بُرا حال ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
گُلدستاں فرش پر گرنے سے چکنا چور ہوگیا کانچ کے ٹکڑے کمرے میں ہر جگہ پھیل گٸیں_____ پہلے ہی عُروشہا کا ڈر سے بُرا حال تھا اوپر سے یوں توڑ پوڑ دیکھ کہ زارو زارو روتی زمین پہ بیٹ گٸی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ ہونٹوں پہ رکھ کر اپنی سسکیاں روکنے میں نا کام ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اس کی ٹانگوں میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ مزید کھڑی رھ پاتی ۔۔۔۔۔۔
مس عُروشہا ارحام سلطان پہلی اور أخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں أٸی سمجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوبارہ اگر کچھ ایسا ہوا تو میں تمھیں جان سے مار دو گا۔۔۔۔۔
اس کا نازک چہرہ اپنی مظبوت گرفت سے دبوچتے ۔۔۔۔۔۔۔گرجدار أواز میں غرایا تھا کہ اس کی أواز پورے کمرے میں گونجی تھی۔۔۔ اس سے دھکا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھکے کی وجہ سے وہ لڑکھڑاتی زمین پہ جاکے اس کا سر لگا ____ انتا تیز دھکا نہیں تھا ورنہ اس کو بہت بُری طرح چھوٹ لگتی ۔۔۔۔۔۔ غصہ سے وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
پیچھے وہ دونوں ہاتھ فرش پہ دیٸے سر نیچھے جھکاۓ رونے لگی۔۔۔۔۔
میرے الفاظوں سے عشق تھا کبھی اس سے🍁
أج ہے وہ انجان میرے حال و درد سے ❣️
تیری کمی تا عمر رہے گٸی میرا دل میں🌿🌿
بس یہ سوچ کے زندگی گزا دو گا میں 🍂
زندگی دو پل کی بس مہمان ہے 🔥
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial