ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 20

رات کے وقت وہ شرٹ لیز بیڈ پہ ایک ساٸیڈ سو رہا تھا نیند میں کسی کے رونے کی أواز بار بار اس کے کان کی پسٹ سے ٹکرا رہا رہی تھیں
وہ بار بار أواز کو اگنور کر رہا تھا شاید وہ أج روز مروز سے زیادہ تھکا ہوا تھا
جو بس سونا چاہتا تھا کچھ وقت تک یوٸی چلتا رہا أخر کار أواز پر بیزار ہوکر أٹھ بیٹھا
پورے کمرے میں نظر پھیری صوفے پہ سوتے وجود کو دیکھا شاید رونے کی أواز وہاں سے أ رہی تھی وہ بیڈ سے أٹھا اور صوفے کے قریب گیا
اور صوفے پہ سوتے وجود کو بغور دیکھا جو أنکھوں پر ہاتھ رکھ کے ہاتھ سے سسکیوں کو روکنے کی نہ کام کوشش کر رہی تھی
وہ جبڑے بیچ گیا وہ ہر بار غصہ میں اس کو چوٹ پہنچان جاتا تھا اور جب غلطی کا احساس ہوتا تو بھی وہ سنگدل انسان اپنی غلطی مانتا کہاں تھا
عُروشہا ۔۔
پیارے بھرے لہجے سے پکارنے پر أنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا اور فوراً اسے نظر پھیر گٸی ۔۔ اٹھ کر دوسری جانب منہ موڑ لیا
ارحام کو کچھ سمجھ نہیں أیا کہ وہ یکدم منہ کیوں پھیر گٸی ہے
کیا وہ اب اس سے نفرت کرنے لگٸیا ہے یا پھر وہ ناراض ہے
ارحام کے دل نے اس سے کہی سوال کیے تھے
وہ تعجب سے اس سے دیکھ رہا تھا
پلیزز شرٹ پہنیں،،
منہ دوسری طرف کرتے أہستگی سے کہا تھا
ارحام نے خود پہ نظر کی جہاں وہ شرٹ لیز کھڑا تھا
کیوں ۔۔ لاپرواھی سے کہا
کیونکہ مجھے شرم أ رہی ہیں
ابھی بھی وہ منہ موڑ کے بیٹھی تھی
اس میں کیسی شرم ۔۔۔ وہ جان بوجھ کر اب اس سے زچ کرنے لگا تھا
أپ کو شرم نہیں أتی تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ مجھے بھی نہیں أتی
اس کی بات پہ ارحام سلطان کا دل کیا کہ قہقہ لگا کر ہنسے مگر وہ اپنا مغرور سپاٹ لہجے قاٸم رکھنے کے لیۓ ہنسی دانتوں میں دبانے لگا
ویسے ایک راز کی بات بتاٶں
وہ اس کے کان کے قریب جاکر دھیمی سی سرگوشی کرنے لگا اس کی گرم سانسوں سے عُروشہا پوری طرح لرز اٹھی تھی اوپر سے اس کے کہنے کا انداز ہی اتنا خوف دلانے والا تھا
ک ک ی کیا۔۔۔ کپکپاتی زبان سے بس اتنا بول پاٸی تھی اس کی گھبراہٹ دیکھ کر ارحام کو مزا أنے لگا تھا
مگر شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ ڈاکٹر نے اس سے کیا کہا ہے کہ عُروشہا کو ڈر سے دور رکھے
جس رات تم بیھوش ہوگٸی تھی۔۔۔ اور بہت کوشش کرنے کے بعد بھی تم ہوش میں نہیں أٸی ایک تو رات کا ایک بج رہا تھا اور اس وقت کون سا ڈاکٹر مجھے ملتا تم ٹھنڈہ میں کانپ رہی تھی کمبل بھی میں نے تمھارے اوپر اچھے سے اوڑھایا لیکن تمھاری ٹھنڈہ کم ہونے کا نام نہیں لیں رہی تھی۔۔ پھر مجبورن
وہ کہتے اچانک رُکا تھا اس کے رکھتے ہی عُروشہا کو اپنے کان میں خطرے کی گھنٹی سُناٸی دی
پ پ پھر۔۔۔ ڈر کے مارے اس کا پورا وجود کپکپا رہا تھا ارحام سطان نے ایک منٹ بھی اسے اپنی نظر نہیں أٹھاٸی تھیں وہ ابھی منہ موڑ دوسری جانب کیے بیٹھی تھی
تم ناراض تو نہیں ہوگٸی نہ اگر میں نے کچھ کیا بھی ہوگا تو
وہ مزید اس سے ڈرانے پر تُلا تھا پھر سے وہ اس کے کان کے قریب ہوتے بولا
ارحام أپ کو جو کہنا ہیں صاف صاف کہیے
اب وہ سختی سے بولی خود کو من ہی من میں تسلی دینے لگٸی کہ وہ مزاق کر رہا ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے
اگر میں تمھیں سب صاف بتاٶں گا تو تمھیں شرم نہیں أٸیں گٸی
اب وہ ارام سے بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ تکیہ کو باہوں میں بھرکے اس سے مزے سے دیکھ رہا تھا
نہیں مجھے شرم نہیں أٸیں گٸی أپ بتاٸیں
ابھی بھی وہ دوسری طرف چہرہ کیے ہوٸی تھی
ٹھیک ہے پھر جیسے تمھاری مرزی وہ رات میری زندگی کی حسین ترین راتوں میں سے ایک تھی تمھاری مہکتی خوشبوں میرے وجود میں سماٸی تھی۔۔۔۔ اس رات نے ہمھارے درمیان جتنی ساری دوریاں تھی انہیں سب کو میٹا دیا ۔۔اور تمھارے گلابی ہونٹ پہ میں نے اپنے لب رکھے تمھاری گردن اور
بس ____وہ اس کی بے باک کُھلی باتین سن کر زمین میں دھس نے والی ہوگٸی تھی اور اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کچھ اگٸے سن سکتی
چلاٸی تھی ۔۔۔ ارحام اس کا ری ایکشن دیکھ اپنی ہنسی کو روکنے کی بھرپور کوشش کرنے لگا
کیا بس____ شروع یہ ٹاپک تم نے کیا ہیں اور اس کو ختم میں کروں گا
وہ تھوڑا سخت لہجے میں گویا تھا عُروشہا کی چلتی زبان کو یکدم بریک لگا أخر وہ شخص کیا تھا جب بھی وہ اس سے بات کرتا تھا اس سے حیران ہی کر کے رکھ دیتا تھا
ہاں تو میں کہاں تھا۔۔۔ وہ سوچ اندزہ میں ماتھے سے بالوں کو ہٹاتے أٸبروں چپکاۓ پھر سے بولے کو شروع ہوا
وہ اپنی کم عقلی کو کوس رہی تھی کہ کیوں اس سے مزید پوچھا
تمھاری شرٹ کی ڈوری کھولی وہ کسک کر بازٶں سے ن
وہ بے باک باتوں کی حد پار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ عُروشہا کی روح فنا کرگیا تو جیسے جیسے بولتا جا رہا تھا اس کے ہوش و حواس خطا ہو رہی تھے
ایکدم سے اپنی جگہ سے اٹھ بھاگ کے ارحام کے لبوں پہ اپنا نازک ہاتھ رکھا وہ اس کا نازک ہاتھ کی خوشبوں سے ارحام کا پورا وجود مہک اٹھا تھا وہ اس کی جھیل سی أنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں أنسوٶں کا پانی تھا
عُروشہا کو ارحام کی تپش سانسیں ہاتھ پر محسوس ہوٸی اور فورا اپنا ہاتھ پیچھے کیا وہ اپنی حرکت پہ شرمندہ ہوٸی اور ہاتھ پیچھے کر دیا
پلٹ کر جانے لگٸی ہی تھی کہ ارحام نے اس کی کلاٸی پہ ہاتھ ڈال کر اس سے اپنی طرف کھینچا وہ درام سے اس کے اوپر أ گری
ارحام پلیززز چھوڑیں
وہ مچل رہی تھی اس کے حصار سے نکلنے کے لیے وہ اس کی کمر پہ دونوں ہاتھ رکھے اس کا پڑپڑھنا مزے سے دیکھ رہا تھا
ایک منٹ ضاٸع کیے بغیر وہ اس کے اوپر أگیا وہ نازک سی گڑیا اس کا بھاری وزن برداش کر ہی نہیں پا رہی تھی
ارحام میرا سانس بند ہو رہا ہے پلیزززز نہ ہٹیں میرے اوپر سے
اس کو خود پر پورا حاوی ہوتا دیکھ گھبرا کر بولی
شششش ۔۔۔ وہ اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ گی اور اس کی بولتی بند کرگیا اس کی ارد گرد اسے باہوں میں بھر گیا عُروشہا شدد سے اس کا لمس گردن پہ محسوس کرتی اسے کرنٹ لگا وہ اس سے خود سے دور دھکیلا رہی تھی مگر ارحام تو اج اس کے اوپر پورا حاوی اس سے اپنے حصار میں بھر گیا
پوری رات وہ اس کی شدتوں سے تڑپتی رہی پر ارحام نے اس سے چھوڑا نہیں تھا
یوٸی پوری رات گزر گٸی صبح جب اس کی أنکھ کھولی عُروشہا کے بال بکھرے وہ پوری بکھری اس کے قریب سو رہی تھی وہ اس کے چہرے کو تکنے لگا کچھ پل یوٸی وہ لیٹ ہوا اس سے دیکھنے میں مصروف تھا پھر اس کی پیشانی پہ اپنی محبت کی مہر لگا گیا گھڑی میں وقت دیکھا جہاں صبح کے ساتھ بج رہے تھے دھیرے سے عُروشہا کا ہاتھ جو کہ ارحام کے مظبوت سینے پر تھا اس سے ارام سے تکیہ پر رکھتے اٹھا اور مسکرا کر عُروشہا کو دیکھ بالوں میں ہاتھ پھیر واشروم میں گس گیا
فریش ہوکر أٸینے کے سامنے بال بنا کر باہر نکل گیا
مایا بیٹا یہ سوپ تم شایان کو دیں کر أٶ گٸی ۔۔۔مایا جیسے کچن میں داخل ہوٸی ممتاز بیگم نے اس سے سوپ کا پیالا اگٸے کرتے کہا
ممتاز بیگم اور شاہدہ بیگم کچن کا کھانے پینے کا کام خود کرتی تھیں باقی جو کام تھے وہ نوکرانیوں سے کرواتی تھیں
جی چچی جان
سوپ کا پیالا ممتاز بیگم سے لیتے مسکرا کر کہا تھا ممتاز بیگم مایا سے اب اچھے سے بات کرتی تھی ان کو پہلے بھی مایا سے کوٸی تکلیف نہیں تھی
شاہدہ بیگم ابھی مایا سے بدگمان تھی اب مایا نے تان لیا تھا کہ وہ ان کا دل جیت کے رہے گٸی چاہے کچھ بھی کرنا پڑے
مایا کے لیے یارم نے بہت کچھ کیا تھا اب اس کی باری تھی اب تو وہ یارم کو دل سے قبول بھی کر چکی تھی کیونکہ وہ شخص اس کے باپ کی پسند بھی تھا اوپر سے وہ مایا کا بچوں کی طرح خیال کرنا اس سے پسند کرنے پر مجبور کر گیا تھا
مایا ہچکچاں رہی تھی شایان کے کمرے میں جانے سے لیکن اس نے ہاں کی تھی ممتاز بیگم سے تو اس اب جانا تو تھا
کمرے پہ دستک دی
أ جاٶ۔۔۔۔۔ شایان کی أواز سن دھیرے سے دروازہ کھولا وہ بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ سر کو مسلنے لگا تھا شاید اس سے درد ہو رہا تھا
سر اٹھا کر دروازے کی اور دیکھا مایا نے کبٹ کے ٹیبل پہ جو کہ بیڈ کے قریب تھا اس پر سوپ کا پیالا رکھا
شایان چچی جان نے تمھارے لیے سوپ بھیجا ہیں ۔۔ اس سےتمھارا درد کچھ کم ہوگا گرم پی لینا
قدم باہر کی جانب بڑھاۓ تھے کہ کچھ یاد أنے پر پلٹ کر شایان کو دیکھا وہ ابھی أنکھیں موندے ہوا تھا
شایان ایک بات کہوں ۔۔۔ مایا نے اس سے دیکھ کے کہا تو وہ أنکھیں کھول کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
میں رب کی بہت زیادہ شکر گزار ہوں۔۔۔ کہ میری قسمت میں یارم جیسا ہمسفر لکھا ہے ۔۔۔ اور میں اس کے ساتھ اب بہت خوش ہوں بلکہ اب اس سے محبت بھی کرنے لگٸی ہوں جانتے ہو عورت اس انسان سے محبت جلدی کرنے لگ جاتی ہیں ۔۔۔جو اس کا ہاتھ بُرے وقت میں بھی نہیں چھوڑتا اس کی دل و جان سے عزت کرتا ہیں ۔۔۔۔ تم سوچ رہے ہوگٸے۔۔۔کہ میں تمھیں یہ سب کیوں بتا رہی ہوں ۔۔۔۔۔ میں اسلیٸے تمھیں بتا رہا ہوں ۔۔۔کہ تمھیں ایسا نہ لگے کہ میرے دل میں تمھارے لیے أج بھی کچھ ہے یونی کے لاسٹ سمسٹر میں ۔۔۔
میں نے تم سے اپنے دل کی بات کی تھی ۔۔۔پر تم نے صاف یہ کہہ دیا کہ تم عُروشہا سے محبت کرتے ہو ۔۔ہاں تب میرا دل ٹوٹا تھا ۔۔۔مگر اس دن کے بعد دل میں جو کچھ تمھارے لیے تھا ۔۔۔ وہ میں نے تب ہی نکال پھینکا تھا ۔۔۔۔۔تمھیں شاید یہ لگتا ہے کہ أج بھی میرے دل میں تمھارے لیٸے کچھ ہے ۔۔تو تم غلط ہو ۔۔۔۔ ہاں مجھے تمھاری اس بات کا شدید دکھ ہوا تھا ۔۔۔جب میں پہلی بار یہاں أٸی تھی اور میرے ڈیڈ دنیا سے چلے گٸے تھے تب بھی تم نے ایک بار بھی مجھ سے نہ ہی ڈیڈ کا پوچھا اور نہ ہی میرا حال دریافت کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔
ہمھارے بیچ اچھی دوستی تھی لیکن تم اس طرح دوستی نھباٶں گٸے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ۔۔۔ایک بار دوستی کی لاج رکھ لیتے اور اکر میرا حال پوچتے کہ کیسی ہو مایا ۔۔۔۔۔ بس مجھے اس بات کا دکھ ہے
اج بھی شاید یہ میں تم سے نہیں کہتی لیکن میں اپنی نٸی زندگی شروع کرنے سے پہلے سب کے دل میں اپنے لیے صاف کرنا چاہتی ہوں اسلیۓ أج تم سے دل کھول کر بات کی ۔۔۔۔ تم أج بھی میرے اچھے دوست اور یارم کے کزن ہو اور میرے لیے یارم کا ہر رشتہ احترام و قابل ہے ۔۔۔۔
سوری مایا ۔۔۔۔ مایا دل کا بار ہلکا کرنے کے بعد چپ ہوٸی تو شایان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ عُروشہا اور اپنے رشتے میں اس طرح کھو گیا تھا کہ مایا پر دھیان ہی نہیں دیا وہ سر جھکاۓ شرمندہ ہوکر أہستگی سے کہنے لگا
اس کی کوٸی ضرورت نہیں ہے شایان ۔۔۔لیکن ہاں ایک بات دوست کے ناتے تم سے کچھ کہنا چاہوں گٸی۔۔۔۔ میں اپنی زندگی میں أگے بھڑ چکی ہوں اور عُروشہا بھی ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ ہمھاری مرزی پہلے شامل نہیں تھی جو ہوا شاید ہمھاری قسمتوں میں ایسا ہی لکھا تھا ۔۔۔
تم بھی اگے بھڑ جاٶں اور کسی اچھی لڑکی کا ہاتھ تھام لوں ۔۔۔۔دوست اور یارم کی بیوی ہونے کی حصیت سے سمجھا رہی ہوں ۔۔۔باقی ایز یو وش
وہ یہ کہتی کمرے سے نکل گٸی تھی اپنے کمرے میں اکر أج وہ خود کو انجانی زنجیروں سے أزاد سمجھ رہی تھی
کیا ہوا مایا تم ٹھیک تو ہو
کمرے میں اکر خاموشی سے وہ بیڈ پر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ اس نے سہی کیا کہ نہیں یارم کی أواز پہ سوچ کی دنیا سے باہر أٸی
وہ أٸینے میں بال سٹاٸل سے سیٹ کر رہا تھا پینٹ شرٹ پہنے وہ شاید أج کیس کے سلسلہ میں کورٹ جا رہا تھا
وہ اس کے پیچھے کھڑی ہوگٸی
یارم مجھے تمھیں ایک بات بتانی ہے
مایا نے سوچ سمجھ کر بات کا أغاز کیا
ہاں بولو۔۔۔ أٸینے سے مڑ کر اس کے سامنے کھڑے ہوکر مایا کا ہاتھ تھام کر بولا
یونی کے دنوں میں ۔۔۔
وہ ہچکچاں رہی تھی اور اس کی یہ ہچکچاہٹ بخوبی یارم نے محسوس کی
مایا تمھیں مجھ پر یقین نہیں ہیں۔۔۔یارم اس کی أنکھوں میں جھاکتے نرمی سے گویا مایا نے اسے دیکھا اور سر ہاں میں ہلایا
ہاں تو پھر جو بات ہے بینا ججک کر کہو
یارم نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کے پیار سے بولا تو یکدم مایا کی أنکھوں میں أنسوں أۓ تھے
افففف یار تم لڑکیاں اتنے أنسوں لاتی کہاں سے ہو ۔۔۔۔جو ہر وقت رونے کے بعد بھی ختم ہی نہیں ہوتے
یارم نے چڑ کر کہا مایا اس سے دیکھ کھلکھلاٸی تھی
اب ہوٸی نہ مسز یارم چوہدری کی بیوی والی بات ہمیشہ مسکراتی رہا کرو تمھیں روتا دیکھ مایا ٹرسٹ می میرا دل۔کرچیوں کی طرح ٹوٹ کے بکھر جاتا ہے
وہ مایا کی أنکھوں میں دیکھ کر پیار سے بولا تھا اس کی أنکھوں میں مایا اپنے لیٸے محبت عزت دیکھ کر اپنی قسمت پر رشک کرنے لگٸی تھی بینا مانگے اللہ پاک نے اس کو یارم جیسا انسان جو بے پناہ اس کو چاہتا تھا اس کے نصیب میں لکھ دیا تھا
اب کہو مسز جی ۔۔کیا اب تم بھی پہلے زمانے کی بیوی کی طرح ۔۔۔۔۔ شوہر کو خود أفس کے لیے دیر کرٶاں گٸی ۔۔۔۔۔ پھر ان سے ملنے کے بھانے سے ٹیفن باکس میں کھانا پیک کر کے ان کے لیے جاتی تھی ۔۔۔ تمھارا بھی ایسا کچھ کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے
ایک أنکھ ونگ کرتے مزاق انداز میں کہا تھا مایا نے أنکھ دیکھاٸی اور ایک ہی جھٹکے سے اس کا ہاتھ اپنے گالوں سے جھٹکے سے دور کیا
پہلے زمانے میں أفس کہاں تھا ۔۔۔أٸبرو چپکاۓ وہ اسے گھور کر پوچھا
او یار یہ تو میں بھول گیا لیکن کام تو تھا نہ کچھ تو کرتے ہوگٸے وہ بھی
یارم منہ بنا کر بولا ۔۔مایا اس کی بات کو نظراندازہ کر گٸی
دوسری جانب منہ موڑ کے کھڑی ہوگٸی ۔۔۔۔شاید یہ اس کا ناراض ہونے کا سٹاٸل تھا
اچھا بابا سوری اب پلیززززز پھر سے نہیں رونا
یارم اس کا منہ پھولاۓ دوسری جانب کھڑے ہوتے دیکھ کر بولا
یارم میں تم سے ناراض کبھی نہیں ہوسکتی
مایا اس کی اور مڑ کے أنکھوں میں محبت سموے لہجے میں کہا یارم اس کی أنکھوں میں محبت دیکھ کے دل سے مسکرا کے دیکھا
اچھا اب بتاٶ کیا کہنا چاہتی تھی تم
یارم نے پھر سے اس سے ٹاپک کو دہرایا مایا سنجیدہ ہوٸی
یوٸی کے دنوں میں۔۔میں شایان کو پسند کرتی تھی ۔۔۔یا یہ کہوں کہ محبت کرتی تھی ۔۔۔میں نے اس سے پرپوز کیا تھا مگر اس نے صاف انکار کیا اور کہا کہ میں عُروشہا کو پسند کرتا ہوں۔۔۔اسی دن سے میں نے شایان کو دل سے نکال دیا تھا ۔۔مگر تھوڑی بہت فیلگس تھی میرے دل میں اس کے لیٸے ۔۔۔۔۔لیکن تمھاری زندگی میں أنے سے پہلے کہ بات ہے ۔۔جب تم سے میرا نکاح ڈیڈ نے اچانک کہا تو میں پوری ہلگٸی تھی ۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا ۔۔۔لیکن اب سوچ رہی ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے کہ ڈیڈ نے میرے لیٸے ۔۔دنیا کا سب سے اچھا مرد میرے لیٸے پسند کیا
میں ہمھارے رشتے کو أگے بڑھانے سے پہلے ماضی کا سچ تمھیں بتانا چاہتی تھی۔۔۔مجھے نہیں پتا تم کیسے ری ایکٹ کرو گٸے یہ سب جان کے ۔۔۔لیکن یارم سچ میں اب میرے دل میں صرف تم ہو۔۔۔۔۔ دل کے کسی بھی کونے میں شایان کا نام و نشان نہیں ہ پلیززززز میرا یقین کرو
مایا کو ڈر تھا کہ کہیں سب سچ جانے کے بعد یارم اس سے چھوڑ نہ دے چھوڑنے کی بات سے وہ تڑپ اٹھتی تھی مگر ماضی تھا اگر وہ اج اس سے نہیں بتاتی تو کبھی نہ کبھی یہ سچ یارم کے سامنے أ ہی جاتا اگر کسی دوسرے سے اس سے معلوم ہوتا تو شاید وہ اور زیادہ اس سے بدگمان ہوجاتا اور وہ یہی نہیں جاتی تھی کہ وہ اس سے بدگمان ہو
یارم ایک دم خاموش تھا مایا کو اپنا ڈر سچ سابت ہوتا محسوس ہوا
یارم تم مجھے چھوڑو گٸے تو نہیں نہ پلیززز یارم میں تمھارے بینا جی نہیں سکوں گٸی ۔۔ چاہیے تم مجھےسزا دیں دو لیکن پلیزز خدارا أپ نے أپ سے مجھے دور مت کرنا ڈیڈ کی جداٸی برداش کر گٸی تمھاری نہیں کر پاٶں گٸی
مایا نم أنکھوں سے یارم کو خاموش کھڑا دیکھ کر اس کے بازٶں سے جھنجھوڑتے کہا تھا اس کی خاموشی مایا کا ننہا سا دل توڑ رہی تھی
مایا میں ۔۔۔۔یارم اس سے پہلے کچھ کہتا وہ اس کے پیروں میں گر کے بلک بلک کے رونے لگٸی
مایا یہ تم کیا کر رہی ہو اٹھو نیچھے سے
وہ مایا کے اس ری ایکشن پہ پورا حیران ہوگیا وہ بازٶں سے اسے تھام کے ارام سے بیڈ پر بیٹھایا اور گلاس پانی کا تھمایا
یہ لوں تھوڑا سا پانی پیوں ریلیکس کچھ نہیں ہوا
وہ اس کا کندھا سہلانے لگا مایا رو رہی تھی اس کو ڈر کھاٸے جا رہا تھا کہ یارم اب اس سے چھوڑ دے گا نفی میں سر ہلانے لگی
مایا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی یارم نے اس بار سختی سے اس سے پکارا تھا
وہ اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر ایک گھونٹ حلق میں اڈھیل گلاس واپس یارم کو دیا وہ گلاس رکھ اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا مایا کے دونوں ہاتھوں کو تھام کے اس کی تھوڑی اوپر کر اس کی پھیگی پلکوں کو دیکھنے لگا
یہ سب تمھیں بتانے کی ضرورت نہیں تھی مایا ۔۔۔میں سب پہلے سے جانتا ہوں۔۔ ۔۔اور تب سے جانتا ہوں۔۔۔ جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے کہ تم شایان کو پسند کرتی ہو۔۔۔۔ اسلیۓ جب انکل نے ایک دن مجھے گھر بُلایا اور اپنے کینسر کا بتایا تھا ۔۔۔میں نے انہیں بہت اسرار کیا کہ وہ تمھیں مجھے بتانے دیں۔۔۔ مگر انہوں نے مجھے اپنی قسم دیں کر روک دیا ۔۔۔۔اچھے اچھے ڈاکٹرز کو دیکھایا مگر ان کا بچنا ھنڈریٹ پرسنٹیج
سے لیکر ففٹی تھا ۔۔۔ اور انکل نے مجھے تم سے شادی کرنے کا کہا تھا میں نے انہیں کوٸی جواب نہیں دیا ۔۔۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ۔۔۔ تم شایان کو پسند کرتی ہو ۔۔۔پھر ایک دن انکل نے کہا کہ شایان سے بات کرنے کے بعد اس نے انکار کیا کہ وہ تمھیں صرف دوست کی نظر سے دیکھتا ہے
ا
پھر سے انکل نے مجھے تم سے شادی کا کہا ۔۔۔۔بس میں نے انہیں اتنا کہا ۔۔۔تھا کہ اگر تمھاری دل سے رضامندی شامل ہے تو ٹھیک ہے ۔۔۔ ہمھاری اس بات کو ایک ویک ہوگیا تھا ۔۔اور ایک دن تم نے اچانک ھوسپیٹل بُلایا اور وہاں پھر جو کچھ ہوا ۔۔ وہ تم اچھے سے جانتی ہو
یارم کی بات سن کر وہ حیران ہوٸی تھی اس سے ڈر تھا کہ جب یہ سب یارم کو پتا چلے گا تو ناجانے وہ کیا کرۓ گا ۔۔۔۔۔۔اب جاکر اس کی بے چین روح کوسکون ملا تھا
وہ فورا یارم کے گلے لگ گٸی اور پھوٹ کر رونے لگٸی وہ اس کی پیٹ سہلانے لگا تھا
لگتا ہے ساری دنیا کے أنسوں میری بیوی کے پاس ہیں۔۔۔اسلیٸے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے یہ۔۔۔۔
یارم نے بڑا سا منہ بنا کر کہا وہ یکدم أنسوں أنکھوں سے صاف کرتی اسے گھورنے لگٸی
تو کیا اب ہم اپنے أنے والے بچوں کی تیاری کریں ۔۔۔معنی خیزی لہجے میں کہا مایا کے گال سرخ ہوگٸے
أے لو یو مایا وہ جھک کر اس کے کان میں دھیمی سے سرگوشی کرتا فورا نیچھے سے اٹھ کے کھڑا ہوا ۔۔۔اور ہاتھ مایا کے جانب بڑھایا ۔۔۔۔۔سر اٹھا کر اس کی أنکھوں میں دیکھ مسکرا کر اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ تھام لیا یارم نے اس سے کھینچ کر سینے سے لگایا
یارم أپ کو اج أفس نہیں جانا کیا دیر ہو رہی ہے أپ کو
یار جانے کو دل نہیں کر رہا ۔۔۔۔وہ فوراً مایا کو گود میں اٹھا کر بیڈ پہ ارام سے لیٹایا
یارم جاٸیں أپ کو دیر ہو رہی ہیں۔۔۔ مایا بلش کرتی اس سے خود پہ جھکنے کی تیاری دیکھ کے بولی
یارم نے گھڑی پر وقت دیکھا اس سے واقعی میں دیر ہو رہی تھی
اگر أج میرا جانا ضروری نہیں ہوتا نہ تو تمھیں أج مجھ سے کوٸی نہیں بچا پاتا مسز یارم چوہدری
وہ مسکراتے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا مایا بیڈ سے اٹھ جہاں سے یارم گیا تھا اس جگہ کو دیکھ کے مسکرانے لگٸی
سورج کی روشنی کھڑکی کو پار کرتیں بیڈ پر سوۓ وجود کے چہرے پر پڑھ رہی تھیں کسمساں کر أنکھیں کھولی اس کا پورا جسم درد سے چور ہو رہا تھا دھیرے سے خود کو گھیسٹ کر بیڈگراٶڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھی پورے کمرے کا جاٸزہ لیا اس کی نظر زمین بوس پڑے اپنے ڈوپٹہ پر گٸی تھیں
یکدم اس کی أنکھوں میں پانی جما ہوا ساری رات گزری اس کی أنکھوں میں چل رہی تھیں بامشکل بیڈ سے اٹھتے زمین سے اپنا ڈوپٹہ کندھے کی ایک ساٸیڈ پر رکھ الماڑی سے سادہ رنگ کا بلیک فیراک چوہڑیدار پجامہ نکال واشروم میں بند ہوٸی کچھ دیر کے بعد وہ واشروم سے نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی أٸینے میں خود کا عکس دیکھنے لگٸی
اچانک اس کی نظر گردن پہ گٸی جہاں ارحام کے لمس کے نشان تھے
أپ بہت بُرے ہیں ارحام ۔۔۔۔ ہمیشہ تکلیف دیتے ہیں مجھے
وہ گردن کے نشان کو دیکھتی پھیگی أواز میں خود سے ہمکلام ہوٸیی
ڈوپٹے کو کندھے پر سہی سے رکھا تھا اس نے وہ نشان چپا لیا
اپنا حلیہ بال چہرے پہ ہلکا میکب کا ٹچ دیا تاکہ کسی کو رونے اور ارحام کے لمس کے نشان نظر نہیں أۓ
تیار ہوکر نیچھے چل دی
مایا تم نے سہی کہا ۔۔یارم بہت اچھا ہے شکر ہیں ۔۔کسی کو تو خوشی ملی ۔۔شاید میں ہی بہت بُرا انسان ہوں۔۔۔اسلیۓ تو عُروشہا میری نہیں ہوٸی
بیڈ پر لیٹا ہوا تھا چھت کے کسی غیر نقطہ کو گھورتے خود سے ہمکلام ہوا تھا ۔۔۔۔مایا کے جانے کے بعد اور عُروشہا کا بچھڑنا اسے رھ رھ کر ازیت دے رہا تھا
شاہدہ ۔۔ شاہدہ بیگم شام کو کچن میں چاۓ بنا رہی تھی جب ممتاز بیگم کچن میں أنے کے بعد اس سے دیکھ کے پکارا
جی ۔۔ شاہدہ بیگم چاۓ بنا چکی تھی اب وہ کپ میں ڈال رہی تھی مصروفانہ انداز میں جواب دیا
وہ جو ڈاکٹر تانیہ شایان کو چھوڑ کے گٸی تھی وہ کیسی ہیں
ممتاز بیگم نے خوش ہوتے شاہدہ بیگم سے راۓ جانی
اچھی ہے ۔۔۔ شاہدہ بیگم کپ ٹرے میں رکھتی بولی
مجھے وہ لڑکی شایان کے لیٸے بہت اچھی لگٸی ہیں ۔۔سوچ رہی ہوں کہ تارہ کو بلاٶ اور اس کے خاندان کا پتا کریں کہ کیسے لوگ ہیں تم کیا کہتی ہو
ممتاز بیگم پہلی بار شاہدہ بیگم سے راۓ جان رہی تھی وہ چونک کر ممتاز بیگم کو حیریت سے دیکھنے لگی
شاہدہ میں مانتی ہوں ہم دونوں میں بھی ہمیشہ تھناٶں رہا ہے لیکن مجھے بھی عُروشہا کا دکھ ہے ۔۔۔ہاں مانتی ہوں کہ ۔۔مجھے عُروشہا کچھ خاص پسند نہیں تھی ۔۔۔لیکن میں ایسا بھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی شادی وہاں ہو ۔۔
ممتاز بیگم نے سنجیدگی سے اسے دیکھا کہا
مجھے نہیں پتا ممتا کہ تم میری بیٹی کے بارے میں۔۔کیا سوچتی ہو کیا نہیں۔۔۔اللہ پاک کا شکر ہے اس کی شادی ایک ایسے مرد سے ہوٸی ہے۔۔جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا ۔۔أنکھوں میں أنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔۔شکر ہے کوٸی بزدل انسان کے ساتھ نہیں ہوٸی کیونکہ وہ روز مرتی ۔۔اور تمھیں پتا ہیں میں اور راشد اسے دیکھ کر أٸیں ہیں ۔۔وہ بہت خوش ہیں۔۔وہاں۔۔۔۔ بھاٸی صاحب تو اس سے بیٹی کی طرح رکھ رہے ہیں ۔۔جو پیار کے لیٸے وہ حویلی میں ترسی تھی شکر ہے وہی پیار اس سے وہاں مل رہا ہے۔۔۔
شاہدہ بیگم خوشی سے بولیں ممتاز بیگم کو بزدل مرد والی بات سمجھ گٸی کہ وہ کس کے لیٸے انہوں نے کہا تھا ممتاز بیگم کا چہرہ اتر سا گیا
وہ لڑکی اچھی ہے شایان بیٹے اور اس کی جوڑی ایک ساتھ بہت اچھی لگٸے گٸی
أخر میں شاہدہ بیگم ممتا بیگم کو دیکھ کر مسکراتے کہتی ٹرے لیتی کچن سے باہر چلی گٸی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial