قسط 21
یہ منظر بیگلون کا تھا بلیک پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوٸی تھی اس چوبیٸیس سال کی نوجوان لڑکی نے بال جو کہ کندھے سے تھوڑے نیچھے تک اتے تھے انہیں پونی میں قید کیا ہوا تھا پیروں میں بلیک شوز أنکھوں میں گلاسسز لگاۓ وہ مغرور اندازہ میں سڑک کے ایک ساٸیڈ چل ری تھی اس کا دوھیا سفید رنگ کے چہرے پر گلاسسز دلکش لگ رہا تھا گلابی ہونٹ مغرور ناک جس پہ مغروریت صاف دیکھاٸی دۓ رہی تھی
وہاں کا کلچر ایسے تھا سب ہی اچھی خاصی عمر کی اور کم عمری لڑکیوں کو پینٹ شرٹ ہی پہنی ہوٸی تھیں
ہاۓ بے بی لفٹ جاٸی أٶ تمھیں ہم أرام سے گھر چھوڑ دیں
چار لڑکے باٸیک سوار تھے اور سڑک پار کر رہے تھے جب ان کی نظر اس لڑکی پر لگٸی باٸیک تیز سپینڈ میں چلاتے لڑکی کا سر سے پاٶں تک جاٸزہ لیتے گندھی نظر سے دیکھ کہا تھا
ہاۓ ہاۓ۔۔۔ کیا ایٹم ہیں یار ۔۔۔۔ أج کی رات یہ مل جاٸیں تو پوری رات حسین بن جاٸیں گٸی ہمھاری
دوسرے لڑکے نے گلیز انداز میں اس سے دیکھ کہا
او بے بی أ نہ میری بانہوں میں تیسرا لڑکا باٸیک روک کے اس کے أگے کھڑا ہو گیا اس کی أنکھوں میں صاف حواس ہی حواس جلک رہی تھیں
لڑکی نے أنکھوں سے گلاسسز اتار کر سامنے کھڑے دردندے شخص کو دیکھا جو اس سے وحشی درندا دیکھاٸی دیا
پھر وہ تین لڑکے بھی اس کے کچھ فاصلہ پر کھڑے اس چوتھیں لڑکے تک أٸیں تھے
سڑک کے أر پار لوگ لڑکی اور ان چار لڑکوں کو دیکھ رہے تھے مگر کہیں سے بھی لڑکی کے چہرہ پر خوف نہیں تھا
کم أون___
گلاسسز اتار کر گلاسسز کو پھونک مار کرجیب میں رکھا أنکھوں میں سرد تاثرات تھے وہ اگلیوں سے اپنی اور ان چاروں کو اشارہ کیا أنے کا تو وہ لڑکی کی جرات دیکھ کر قہقہ لگا کر زور سے ہنسے لگٸیں
لگتا ہے لڑکی کا دماغ سٹک گیا ہے اتنی چوہی موہی دیکھنے میں ہیں اور أکڑ تو دیکھو یار۔۔۔۔ اس اوڑھتی ہوٸی تتلی کو مسلنے میں بہت ہی مزا أنے والا ہے
ان چاروں میں سے ایک لڑکے نے لڑکی کو دیکھ کے غصہ میں کہا اور پھر چاروں لڑکے بھاگ کر اس لڑکی کے ارد گرد چوہداری گوم رہے تھے وہ انہیں چاروں کو دیکھ ہاتھ کا مکہ بنا کر لڑنے کے لیٸے بلکل تیار کھڑی تھی
ایک لڑکا أگے گیا تھا اس کے پیٹ پر زور سے گوسے اور مکہ چہرے میں کراٹوں سے اتنی مارے کے ایک سیکنڈ میں وہ درد سے زمین پر تڑپ رہا تھا
تینوں کی بھی ایسی دھولاٸی دو منٹ میں کی کسی کی ناک سے خون بہنے لگا تو کسی کا چہرہ پورا لال ہوگیا مکوں سے کسی کی ٹانگ زور سے توڑ دی
اب بولو جو پہلے بول رہے تھے بولو میں نے کہا
ایک لڑکے کا چہرہ مظبوتی سے دبوچتے گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھی تھیں اور اس لڑکے کو خونخوار انگار سی نظروں سے گھورتے زور سے دھاڑی تھی
بہن معاف کر دیں غلطی ہوگٸی پلیززز ہمھیں چھوڑ دو ۔۔۔اب سے بیگلون کی ہر لڑکی کو ہم اپنی بہن سمجھیں گٸے۔۔۔
وہ اپنے چہرے پر درد سے أنکھیں بند کرتے گھبراتے گڑگڑا رہا تھا اچانک اس کا موباٸل بجنے کی أواز نے اس سے اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔ پھر جیب سے موباٸل نکال کر سامنے کیا اسکرین پر جو نمبر تھا وہ اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔۔ جب وہ کسی کی اچھی خاصی دھولاٸی کرتی ہے تب ہی اس انسان کو کال کرنے کی سجتی ہے چبڑے بیچ کر کال ریسیو کی
ملی کہاں ہو ۔۔۔۔۔تم اور کر کیا رہی ہو۔۔۔۔۔ تم اتنی کٸیرلیس کیسے ہو سکتی ہو ۔۔۔باس نے ہمھیں میشن دیا ہے اور ناجانے ایک دن سے تمھارا کچھ اتا پتا ہی نہیں ہے۔۔اوپر سے کال کر رہا ہوں۔۔ تو وہ ریسیو بھی نہیں کر رہی
مقابل کی اواز چلانے والی تھی مگر اس پر کوٸی اثر نہیں ہوا تھا۔۔ مقابل کے چلانے کا
او ہیلو تمھیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔میں وہی کام کررہی تھی باس نے گندگی صاف کرنے کو کہاں ہیں ۔۔بیگلون میں کچرا بہت ہوگیا ہے ۔۔۔ بس وہی صاف کر رہی ہوں
وہ یہ کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کر گٸی تھی ۔۔مقابل کے الفاظ سُنے بغیر ہی وہ اپنی سُنا گٸی تھی
پھر سے بکو کیا بک رہے تھے تم جیسے گلیز گھٹیا مردو کے لیٸے۔۔۔۔ ملی تم جیسے مردو کے لیٸے موت ہے اٹھو ابھی
وہ سرد أواز میں دھاڑی تھی وہاں کھڑے لوگ اس بہادُر لڑکی کے لیٸے تالیاں بجانے لگے تھے اس کی أواز قہر کی ماندہ تھی وہ فورا ادھے موۓ ہوگے تھے پھر بھی لڑکھڑاتے ایک دوسرے کا سہارا بن کر کھڑے ہوگٸے
ملی اگے بڑھ ہی رہی تھی اور ان کی اچھی خاطر داری کے لیٸے کہ وہاں اچانک پولیس أ گٸی اور وہ تھوڑا پیچھے ہو کے کھڑی ہوگٸی
پولیس نے ان چاروں کو گھسیٹتے وہاں سے لے جا رہی تھی
تھینکس ألوٹ مس ملی
پولیس اسپیکٹر نے ملی کو دیکھ مسکراتے کہا تھا
اٍٹ از اوکے
ملی نے بس اتنا کہا تھا ۔۔ نا ہی وہ مسکراٸی کیونکہ وہ کم ہی مسکراتی تھی ہر وقت سرد تاثرات ہوتے تھے اسکے
اسپیکٹر نے بس اوکے کہا اور وہ وہاں سے چلاگیا
اس نے پھر سے أنکھوں پر گلاسسز لگاۓ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالتے مغرورنہ چال چلتی اگے بڑھ گٸی
اس لڑکی میں أخر اتنا ایکیٹیوڈ کس بات کا بھرا ہوا ہے
وہ موباٸل کی اسکرین میں اس کا نمبر دیکھ کر دانت پیستے کہنے لگا تھا
ارحام سلطان أفس میں تھا اور ونڈو سے باہر کا نظارہ دیکھ رہاتھا ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا جب اس وقت اندر ضاور داخل ہوا
ارحام اب اگے کیا کرنا ہے ۔۔ ضاور نے سنجیدگی سے پوچھا
کس بارے میں
وہ ابھی بھی اس طرح دیکھنے میں مصروف تھا
ایک ویک گزر گیا تھا ان ایک ویک میں ارحام پہ کہیں جان لیوا حملے ہوۓ تھے مگر وہ بلکل خاموش تھا اور ضاور کو کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ وہ کیوں خاموش ہے کچھ کر کیوں نہیں رہا جبکہ وہ اس کو اچھے سے جانتا تھا کہ وہ خاموش رہنے والوں میں سے نہیں ہے
تمھیں کیا لگتا ہے کہ یہ سب کس نے کیا ہے تمھاری جان کو خطرہ ہیں نا خود تم کچھ کر رہے ہو ۔۔۔اور نا ہی مجھے کچھ کرنے دیں رہے ہو
ضاور رولنگ چٸیر پہ بیٹھا تھا منہ ارحام کی جانب تھا
جانتا ہوں ۔۔۔۔ ضاور کو کچھ اداس سا لگا تھا وہ
تمھارے اور بھابھی کے بیچ میں سب ٹھیک ہیں نہ
ہاں سب ٹھیک ہے ۔۔ مختصر سا جواب دیا ٹھنڈہ سانس لیتے رھ گیا
پھر اداس کیوں ہو
ضاور کے اس سوال پر ارحام نے ضاور کو دیکھا صوفے پر براجمان ہوا
میں کچھ سوچ رہا ہوں__ کیا ___ ضاور نے تعجب سے فورا پوچھا
عُروشہا کو میں کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔جب اس سے پتا لگے گا کہ انڈر بیگرون کون ہیں ۔۔۔تو وہ کیسا ری ایکٹ کریں گٸی ۔۔۔۔ہمیشہ میں نے خود کو کسی کے قریب نہیں کیا اس ڈر سے ۔۔۔مگر ناچاہتے ہوٸیں بھی عُروشہا دن بہ دن میری کمزوری بنتی جا رہی ہیں۔۔۔اور ایسا ہونا ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔میری زندگی کا کچھ پتا نہیں کب کہاں کون سا دشمن مجھے ختم کر دیں
ارحام نے اپنے خیالات سے ضاور کو اگاھ گیا تھا
۔
یار تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو ۔۔۔تمھیں اج تک کچھ ہوا ہیں ۔۔۔۔نہیں نہ۔۔اور تمھاری پوری ٹیم تمھارے ساتھ ہے پھر
ضاور نے اسے تحمل سے سمجھایا
ضاور تم سمجھ نہیں رہے ہو مجھے اپنی جان کی نہیں پڑی ۔۔۔۔مجھے تو بس عُروشہا کی جان کی پریشانی ہیں ۔۔۔تمھیں پتا ہے کل کسی نے مجھے پھولوں کا گفٹ بھیجا تھا اور
وہ فورا اٹھ کھڑا ہوا تھا ضاور نے کبھی بھی ارحام کو اس طرح پریشان نہیں دیکھا تھا وہ خود حیران ہوا
اور کیا ۔۔۔۔ضاور اس کے سامنے کھڑا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
اس پھولوں کے گُلدستیں میں ایک چٹ تھی اور اس میں لکھا تھا
ارحام سلطان وسسہ انڈر ڈون نے چھپ کر شادی بھی کر لی اور۔۔۔۔ ہمھیں بلانا ہی بھول گٸے ہو۔۔کوٸی بات نہیں تم نے ہمھیں نہیں بلایا تو خیر۔۔۔ مگر بہت جلدی تمھاری مسسز سے ملنے أٶ گا ۔۔۔
یہ کب ہوا اور وہ چٹ کہاں سے أٸی تھی۔۔ نام وغیرہ لکھا تھا
ضاور کو جھٹکا لگا تھا کیوں کہ ارحام کی شادی کی بات گاٶں والوں کے علاوہ کوٸی نہیں جانتا تھا اور جو خط اس کو بھیجا گیا تھا وہ انگلیش میں لکھا تھا اس کا مطلب صاف تھا کہ گاٶں والوں میں سے یہ کسی کا بھی کام نہیں ہے
پاگل ہو تم ضاور وہ اتنا پاگل انسان تھوڑی ہے جو اپنا نام پتا لکھ کر بیجھے گا تاکہ ہم اس تک با أسانی سے پہنچ سکیں
ارحام کو ضاور کے سوال پر غصہ أیا
ہاں یہ بھی ہے ۔۔۔وہ بھی سہی کہہ رہا تھا ضاور سے باتوں میں لگا ہوا تھا
کہ اچانک درام سے دروازہ کھول کر کوٸی اندر أیا
تم اس أفس میں کیا کر رہے ہو __ مقابل نے أتے ہی گرجدار أواز میں دھاڑا تھا
ار ے سالے صاحب کیسے ہو ۔۔۔ أج تو اپنے جیجا کو یوں اچانک أ کر سرپراٸز دیں دیا
ارحام نے اس کے پاس کھڑا ہوا تھا اور اسکا کالر جھاڑا ہاتھوں سے ۔۔۔۔۔۔
اس کے اس درعمل پہ یارم کا غصہ أسمان پر پہنچاں دو قدم اس سے وہ پیچھے ہوا
تمھاری دوشمنی ہم سے ہیں ۔۔۔نا کہ مایا سے تو تم کیوں اس کے باپ کے أفس پر قبضا جما رہے ہو ۔۔۔
دانت پیستے اسے گھورتے بولا تھا ارحام نے اس کی بات کا جواب دیٸے بغیر اس سے اور جلانے کے لیٸے ویل چٸیر جو کہ اس پورے أفس کے مالک کی بیٹھنے کی جگہ تھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے وہاں براجمان ہوا تھا
وہ سرد نظروں سے یارم کو گھورا تھا جو کچھ وقت پہلے پریشانی سے ندھال تھا اب وہ ایسے ری ایکٹ کر رہا تھا جیسے اس سے کسی کی کوٸی پرواھ نہیں ہے
تمھاری انفارمیشن کے لیے بتا دو کہ۔۔۔۔۔۔ شاید تم نے وہ فاٸل ریڈ نہیں کی جو میرا اور شاہ زویر کا نیوں پروجیکٹ ہیں جس میں۔۔۔۔میں نے اپنا پیسہ لگایا ہوا ہے ۔۔۔اور میں بھی اس کمپنی کا اتنا مالک ہوں جتنا کہ ۔۔۔۔۔شاہ زویر ۔۔۔اور رہی بات کہ تمھاری بیوی کو میں بیچ میں نہیں لایا ۔۔۔یہ کام بغیرت مردوں کا ہے ۔۔۔اور میں سلطان ہوں۔۔۔۔۔ سلطان نا ہی کسی کا حق چھینتے ہیں ۔۔۔۔اور نا ہی اپنا حق کبھی چھوڑتے ہیں۔۔۔۔
۔ضاور
ارحام نے ضاور کو اشارہ کیا اس نے ٹیبل سے بلو کلر کی فاٸل یارم کی جانب بڑھاٸی تھی وہ فوراً اس سے ریڈ کرنے لگا چند منٹ کے بعد وہ فاٸل ریڈ کر چکا تھا مٹھیوں کو ضبط سے بند کرتے غصہ سے ارحام کی جانب دیکھا جو اس سے ہی مسکرا کر دیکھ رہا تھا
خود پر بھی اس سے غصہ أیا کہ کیسے اس کی نظر سے اتنی ضروری فاٸل نہیں دیکھی گٸی___ وہ تو کیس میں پھس تھا جو کہ اب اس نے سک کا سانس لیا تھا کہ وہ جیت گیا ہے ___
ہاں تو سالے صاحب دیکھ لی فاٸل ۔۔۔وہ جان بوجھ کر اس سے پوچھ رہا تھا
بہت جلد ہی میری بہن کے طلاق کے پیپرز تمھارے پاس پہنچ جاٸیں گٸے ___ اور تم چپ چاپ کر کے ان پیپرز پر شاٸن بھی کروں گٸے۔۔۔۔
طیش لہجے میں اسے گھور کے کہا تو یکدم ارحام کا اس کی بات پہ قہقہ کا گھونجا
یہ بھی چھوٹی کوشش کرکے دیکھ لو ___ یُو نو واٹ یارم چوہدری ___ ارحام سلطان کی قید سے اپنی بہن کو مر کر بھی نہیں نکلوا سکتے تم
یارم چوہدری وہ میری بیوی ہیں __سو دوبارہ مجھے میری بیوی سے جُدا کرنے کا خیال بھی تمھارے دماغ میں أیا تو ___ أے سوۓ تمھارا وہ حشر کروں گا کہ تمھاری چاند سی بیوی بھی تمھیں پہچان نہیں پاٸیں گٸی
وہ اٹھا کر اس کے روبرو کھڑا دھاڑا تھا _ عُروشہا کو خود سے دور کرنے کے خیال سے ہی اس کی روح تڑپ اٹھی تھی وہ کیسے اس لڑکی کو خود سے جُدا ہونے دے سکتا تھا جو کہ اب اس کی سانسوں کے لیٸے اس کا ہونا بہت ضروری ہوگیا تھا
تمھارے مرنے کے بعد تو ۔۔۔۔ تمھاری قید سے میری بہن کو رہاٸی مل جاٸیں گٸی ۔۔۔ہیں نا
یارم نے اس سے گھورتے سخت لہجے میں کہا تھا ارحام تو اس کی بات پر مسکرایا تھا مگر ضاور کو ناجانے تکلیف ہوٸی تھی
اچھا چلوں تمھاری یہ وش بھی ارحام سلطان پوری کر دیتا ہے سالے صاحب
وہ چٸیر کی پسٹ پہ دونوں بازٶں رکھ کے کھڑا اس کی أنکھوں میں نفرت دیکھ کر مسکرایا اور جیب سے فوراً گن نکال کر اس کی جانب پھینکی تھیں ۔۔۔جہاں اس کی اس حرکت پر یارم حیران ہوا تھا وہاں ضاور نے تڑپ کر ارحام کو دیکھا
ضاور اپنی جان سے بھی زیاد ارحام سے محبت کرتا تھا اس کو کوٸی تکلیف پہنچاۓ وہ اس کو ختم کر دیتا تھا مگر ارحام کے حکم کے بغیر وہ کبھی کوٸی ایسا قدم نہیں اٹھاتا تھا جس سے وہ اس پر غصہ کرے
لو سالے صاحب دیں دیا تمھیں موقع مجھے مارنے کا اب اٹھاٶں یہ گن اور فوراً شوٹ می
وہ دونوں ہانہیں پھیلاۓ سیدھا کھڑا ہوا یارم کو وہ اُکسا رہا تھا یارم کبھی زمین پر پڑی گن کو دیکھ رہا تھا تو کبھی ارحام کو جو خود مرنے کے لیے تیار کھڑا تھا
ویسے ایک بات ہے۔۔۔۔۔۔ سالے صاحب تم دنیا کے پہلے بھاٸی ہوگٸے جو اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھوں سے بیوا بناٶں گٸے
ارحام دل جلانے والی مسکراہٹ سے یارم کو دیکھ کر کہنے لگا تھا
یارم ایک گھور دار نظر سے ارحام کو دیکھ کر أفس کا دروازہ کھول کر وہاں سے چلا گیا وہ وہاں پر مزید رک کر کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا تھا
مغرورنہ چال چلتی وہ دروازہ کھول کر أفس میں پہنچھی تھی جہاں پہلے سے ہی مقابل اس کا انتظار کر رہا تھا
جاکر کرسی پہ براجمان ہوٸی
کب سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں کہاں تھی
مقابل اس سے کرسی پر ارام سے بیٹھا دیکھ کر دھاڑا تھا
أواز نیچھیں رُکو اپنی ہرش مجھے اونچی أواز میں بولنے والے لوگ زہر سے بھی زیادہ زہریلے لگتے ہیں۔۔۔جیسے کہ اب تم مجھے لگ رہے ہو
وہ اس گھورتے ہوۓ بولی
ہاں تو تم خود ہی میرا بی پی ہاۓ کرتی ہو
وہ اپنے غصہ پر بہت مشکل سے کنٹرول کرتے بولا تھا
بولو کیا ہوا ہے اتنا کیوں تپ رہے ہو
وہ مغرور انداز میں بولی کہ ہرش کو دوبارہ اس پر غصہ أنے لگا تھا ضبط سے مٹھیاں بند کرتے گردن اوپر کرکے ٹھنڈی أہ بھر کے رھ گیا اور کر بھی کیا سکتا تھا سامنے بیٹھی مغرور لڑکی أخر کراٹیں ماسٹر تھی
وقار کے أدمی نے ہمھارے نیٹ ورک ہیک کر دیٸے ہیں۔۔۔۔ وہ مجھے ٹھیک کرنے لے لیے
کچھ وقت لگٸے گا ۔۔لیکن ہمھارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔۔
کیوں۔۔۔
سپاٹ لہجے میں ملی نے اس کو دیکھ پوچھا تھا
یہ سب أپ کی مہربانی ہے میڈم ۔۔۔وقار کے أدمی کو تم نے پکڑ کر اس کو ادھا مارا بنا دیا ہے۔۔ کہ اس بیچارے نے دم توڑنے سے پہلے مجھے بس ایک ہی بات بتا پایا ۔۔۔۔۔۔ ۔
وقار کے کچھ خاص أدمی پاکستاں گٸے ہوۓ ہیں۔۔۔۔۔ان کا پلین یہ ہے کہ وہ لوگ پاکستاں سے لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں دوسرے ملکوں میں بھیجا جا رہا ہے۔۔۔اسلیۓ کب سے میں تمھیں کال کر رہا تھا۔۔۔
او وقار جیسے درندوں کو زندہ رہنے کا کوٸی حق نہیں ہے۔۔۔۔
ملی نے غصہ سے ہاتھ ٹیبل پر مارتے کہا
ہاں سہی کہا ۔۔۔لیکن ایک اور بات ۔۔ ہرش کے چہرے سے پریشانی صاف جلک ہی تھیں
کیا ۔۔حیران نظروں سے وہ اس کی جانب دیکھ کر پوچھا
ہم اگر باس ارحام سلطان کو یا پھر ضاور کو اس بارے میں انفارمیشن
نہیں دیں سکتے۔۔۔۔ اگر ہم نے دی تو وہ لوگ ہمھارا ڈیٹا ہیک کر دیگٸے جو کہ ان کو ہمھاری سب انفارمینشن مل جاٸیں گٸی کہ انڈر ورلڈ ڈون کون ہے اس کی ٹیم میں کون کون ہیں ۔۔۔۔سو بی کٸیر فُل ۔۔۔۔
ہرش نے سنجیدگی سے کہا تھا
ہاں اب کیا کرنا ہے۔۔۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں أ رہی ویسے تو تم خود کو دنیا کے بہترین ہیکر کہتے ہو اور سمجھتے ہو ۔۔۔پھر کیسے اتنی بڑی غلطی تم سے ہوگٸی کہ ان لوگوں نے ہمھارے نیٹ ورک ہیک کیے
گھور سے اسے دیکھ طنزیہ تیر چلایا
تم نے شاید سُنا نہیں کہ میں سب ٹھیک کر سکتا ہوں ۔۔۔لیکن بات یہ ہے کہ باس کو یہ انفارمیشن ہمھیں ایک دن کے اندر دینی ہے ____ نیٹ ورک کو ٹھیک کرنے میں اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے وہ بھی گارنٹی سے کچھ نہیں کہہ سکتا___ ان سب کا بس اب ایک ہی حل ہے
صوفے پر بیٹھتے وہ تیزی سے لیپ ٹاپ پہ اگلیاں چلانے لگا اور ساتھ ساتھ اس سے بتا بھی رہا تھا
کون سا ۔۔۔ ملی کو پتا تھا کہ اس سے کیا کرنا ہے ارحام سلطان کی ٹیم میں تین ہی لوگ تھے ملی ہرش ضاور مگر اس سب سے کام کو زیادہ سیریس ملی لیتی تھی وہ بلکل ارحام کی طرح سنجیدہ تھی
مگر ہرش اور ضاور تھوڑا مختلف تھے وہ کبھی کبار مزاق مستی کر لیتے تھے مگر ملی ہمیشہ ارحام کی طرح سرد تاثرات میں رہتی تھی اور یہی بات ارحام کو اس کی پسند تھی کہ وہ کام دو منٹ کا کہتا تھا تو وہ اس کے کام کو ایک منٹ کے اندر پورا کرتی تھی
کہ تم باس کے پاس جاکر سب انفارمیشن انہیں دو میں___ جا نہیں سکتا کیونکہ مجھے یہاں رھ کر یہ سب نیٹ ورک کا سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا ۔۔۔۔اگر دیر ہوگٸی تو کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی زندگی ختم ہو سکتی ہیں۔۔۔۔
ہرش اس کی جانب دیکھ کے بولا تھا
ٹھیک ہے میں أج ہی فلاٸٹ سے جا رہی ہوں پاکستان
وہ اٹھ کر أنکھوں میں گلاسسز لگاۓ گٸی تھیں ابھی وہ أفس اسے نے دروازے پر قدم رکھا ہی تھا کہ ہرش کی أواز سُن کر اس کا چہرہ غصہ سے پورا لال ہوگیا
ویسے أج تم بہت پیاری لگ رہی ہو ملی
چٹاخ۔۔
ہوا کی تیزی سے وہ اس کے پاس گٸی اور ایک زور دار تماچا اس کے گال پر رسید کیا کہ ہرش پھٹی پھٹی أنکھوں سے سامنے کھڑی لڑکی کو صدمے میں دیکھ رہا تھا اس کا ایک ہاتھ جہاں تماچا پڑا تھا اس پہ رکھا ہوا تھا
تھپڑ کیوں مارا۔۔۔ وہ پھیگی أواز میں بولا تھا اس سے تو حیریت ہوٸی کہ اس نے تو ایسا کچھ غلط نہیں بولا تھا جس کی وجہ سے اس سے تھپڑ لگا
وہ مرد مجھے زہر لگتے ہے ۔۔جو میری تعاریف کرتے ہیں ۔۔سو أگٸے سے بی کٸیر فُلی مسٹر ہرش رضوان دوبارہ اگر یہ غلطی سے بھی غلطی کی تو شاید اس سے بھی زیادہ تمھارا بُرا حال کروں ۔۔
وہ اس کی أنکھوں کو طیش سے گھورتی أنکھوں میں گلاسسز لگاۓ باہر نکلتی چلی گٸی تھی
عجیب لڑکی ہے ۔۔ اور لڑکیاں تو مرتی ہیں۔۔۔کہ کوٸی ہمھاری تعاریف کریں ۔۔۔اور ایک یہ جگلی بلی ہے جو کہ تعارف کا سلہ سیدھا منہ پر چپیڑ مار کر کرتی ہیں
وہ گال کو مسلتے جہاں سے ملی گٸی تھی اس راستے کو گھورتے دیکھ کر کہہ رہا تھا
عُروشہا حیدر قربان کے ساتھ باتوں میں لگٸی ہوٸی تھی کچھ دیر گزرنے کے بعد اس کو وقت کا علم ہوا تھا کہ بہت دیر ہو گٸی ہے ۔۔۔۔وہ ان کو اللہ حافظ کہہ کر اپنے کمرے میں أٸی تھی
واشروم کی جانب جا رہی تھی کہ اچانک بیڈ پر نظر پڑی۔۔۔۔۔ جہاں اس کا موباٸل بج رہا تھا شاید وہ ساٸلیڈ پر تھا جس کی وجہ سے أواز سُناٸی نہیں دی تھی اسے ۔۔۔۔۔اس نے موباٸل اٹھا کر نمبر دیکھا وہ نمبر رانگ تھا اس کے پاس سیوں نہیں تھا اچانک کال أنی بند ہوگٸی
نو بار اس سیم نمبر سے اسے مس کال أٸی تھیں وہ چونکی کہ یہ کس کانمبر ہے ابھی وہ اس کشمکش میں ڈوبی تھی کہ موباٸل میں پھر سے وہی اسکرین پہ نمبر جگمگا رہا تھا اس نے کچھ سوچ کر کال اٹھی
ہیلو ۔۔۔ مقابل اس کی أواز سُن کر خود کو سکون میں ڈوبا محسوس کر رہا تھا
ہیلو کون ہے ۔۔ دوبارہ سے پوچھنے پر بھی وہ مقابل خاموش تھا
ارحام أپ ہیں کیا دیکھیں پلیززز مجھے تنگ نہیں کریں ابھی مجھے اپنا ناول بھی ریڈ کرنا ہے۔۔۔۔اور أپ ہر بار ایسے جان بوجھ کر کرتے ہیں ۔۔۔تاکہ میں ناول ریڈ نہ کر سکوں اور میرا فری وقت ایسے گزر جاٸیں
کچھ دن سے ارحام اس سے الگ الگ نمبر سے تنگ کر رہا تھا جس وجہ سے وہ بہت پریشان ہوجاتی تھی ۔۔۔مقابل کے ماتھے کی نسیں غصہ میں ظاہر ہوگٸی اور غم أنکھوں سے أنسوں بن کر برسیں
فوراً کال ٹک کر گیا
کیسے عُروشہا کیسے بھول گٸی تم مجھے چند دنوں میں
بالوں کو مھٹیوں میں جھکڑتے وہ پاگلوں کی طرح سر نفی میں ہلا رہا تھا مسلسل اس کی أنکھوں سے أنسوں بہہ رہے تھے
“””””تیرے نام پہ بدنام ہم ہوگٸے ***
اور حاصل تم کسی اور ہو ہوگٸے”””**
سجاد
ممتاز بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہی شوہر کو پکارا وہ جو کرسی پہ بیٹھا کام کر رہا تھا جب سے ولید بخش چوہدری نے اس سے زمینوں کے کام میں راشد کے ساتھ کام کی زمیداری دی تھی۔۔۔۔ اب سے وہ دل لگا کر کام کر رہا تھا أخر کرتا بھی کیسے نہیں حکم جو اس کے جلاد باپ کا تھا ورنہ وہ ان کو اچھے سے جانتا تھا کہ اس کی بات نا مان کر وہ خطرہ موڑ نہیں لینا چاہتا تھا
جی ___مصروفانہ انداز میں جواب دیا
وہ لڑکی ہمھارے شایان کے لیے کیسی ہے
ممتاز بیگم کی بات پر سجاد نے ان کی جانب بغور دیکھا
کون سی لڑکی کی بات کر رہی ہو ممتاز ۔۔۔حیران کن انداز میں سجاد نے ممتاز بیگم کو دیکھ کہا تھا
تانیہ ڈاکٹر أپ کو بتایا تو تھا مجھے وہ بہت اچھی لگٸی ہیں ۔۔کل میں تارہ کو بلاکر اس کے خاندان کے بارے میں پوچھ تاب کروں گٸی
ممتاز بیگم نے خوشی سے کہا تھا انہیں تانیہ بہت اچھی لگی تھی
شایان سے پوچھو۔۔۔۔۔۔ أخر شادی اس نے کرنی ہے تمھیں لڑکی پسند أٸیں یا نہ أٸیں۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں۔۔۔۔۔۔بلکہ ضروری یہ ہے کہ شایان کو لڑکی پسند أنی چاہیے ۔۔۔پہلے ہی اس نے بہت دکھ دیکھے ہیں۔۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ مزید وہ دکھ دیکھے زندگی میں۔۔۔۔
سجاد نے سنجیدگی سے کہا تھا
ہاں تو اتنی اچھی لڑکی تو وہ ہیں۔۔۔۔۔۔ شایان کو بھی پسند أ جاٸیں گٸی
تانیہ اس کی بے رنگ زندگی میں پھر سے رنگ بھر دیں گٸی مجھے پورا یقین ہے۔۔
أپ نے نہیں دیکھا کیسے وہ پورا دن اپنے کمرے میں بند رہنے لگا ہیں ۔۔۔۔۔ اب تو اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔ عُروشہا کے سوگ میں سب میرا بیٹا بھول گیا ہے
بات کرتے وقت ممتاز بیگم کو شایان کا رونا یاد أیا تھا کیسی حالت بنا دی تھی اس نے اپنی اکثر وہ عُروشہا کے کمرے میں جاتا تھا اور گھنٹوں وہاں اس کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرتے روتا رہتا تھا
ممتاز بیگم نے کہیں بار اس سے روتے عُروشہا کے کمرے میں دیکھا تھا ماں تھی نوجوان بیٹے کی حالت ان سے دیکھی نہیں جا رہی تھیں