ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 23

کیا کروں کس سے جا کر بتاٶں __ اس خط کے بارے میں__کچھ سمجھ نہیں أ رہا
مایا پورے کمرے میں پریشانی سے ٹہل رہی تھی وہ سوچ رہی تھی کہ اخر وہ کیا کرے اور کیا نہیں ۔۔۔ جب یارم کمرے میں داخل ہوا
اس کے دماغ میں الگ جنگ چل رہی تھیں کہ وہ مایا کو کیسے بتاۓ گا ارحام کے بارے میں کہ اس کے باپ کے بزنس میں ففٹی پرسنٹیج کا مالگ ہے
جبکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ جس دن وہ حویلی أیا تھا تب سے مایا اس سے تھوڑا ڈرتی تھی ۔۔۔یارم کوٹ اتار کر بیڈ پر بیٹھ کے سوچ رہا تھا
مایا سب ٹھیک تو ہے تم اس طرح ٹہل کیوں رہی ہو
یارم نے نوٹ کیا کہ وہ یہاں سے وہاں کمرے میں گھوم رہی ہے تو سوال پوچھ بیٹھا
أپ کب أٸیں
مایا کو یارم کی أمد کا پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب کمرے میں داخل ہوا
جب تم نا جانے کس کے خیال میں گم تھی تک أیا ہوں میں
یارم کے لہجے میں خفگی تھی
سوری وہ مجھے معلوم نہیں ہوا أپ کے أنے کا ویسے أج کا دن کیسے گزرا أپ کا أفس میں کیس جیت گٸے نا أپ دیکھو میں نے کہا تھا نہ کہ ضرور جیت میرے یارم کی ہوگٸی
دھیرے سے وہ بیڈ پہ تھوڑا جھکی کاغذہ کو چھپایا اس کا دھیان تو اس کاغذہ پر تھا وہ باتوں باتوں میں کیا کہہ گٸی علم ہی اس کو نہیں تھا
میرا یارم
یارم اس کے الفاظ دہراۓ اور مایا کی جانب دیکھا جو اب اس کو سمجھ أیا کہ وہ کیا بول گٸی ہے ۔۔۔وہ ہاتھوں کی أگلیوں کے ناخون دانتوں میں پریشانی کے مارے کاٹ رہی تھیں
وہ کیس جیت گٸے ہیں نا أپ بس اس ہی خوشی میں بول گٸی
نظریں جھکاۓ وہ أہستگی سے بولی اس کا ری ایکشن دیکھ کر یارم کا قہقہ گھونجا
ویسے مایا تم نے نوٹ کیا ہے۔
با مشکل ہنسی پر قابو پاتے بیڈ سے اٹھ کر مایا کے روبرو کھڑا ہوا
کیا ۔۔۔۔وہ نا سمجھی میں اسے دیکھ بولی
یہی کہ اب تم مجھے أپ کہہ کر پکارتی ہو تم نہیں کہتی اور ابھی چند منٹ پہلے تم نے میرا یارم کہا
أنکھوں میں شرارت لیٸے اس کا ہاتھ تھام کے گویا
وہ مسٹر اسلیٸے کہ میں أنٹی کو مزید خود سے بد گمان نہیں کرنا چاہتی انہوں نے ہی اس دن کہا تھا نہ کہ شوہر کو أپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہیں تو بس وہی کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ اور رہی بات کہ میں نے میرا یارم کہا تو کون سا غلط بولا ہے أپ میرے شوہر ہیں اور میں أپ کی بیوی ہوں تو ہوٸیں نا أپ میرے
وہ اس کی أنکھوں میں دیکھتی معصومیت سے بولی یارم کو اس پر ٹوٹ کر پیار أیاتھا لب اس کی پیشانی پر رکھے ۔۔ وہ أنکھیں بند کر یارم کے لمس میں دنیا جہاں کا سکون محسوس کرنے لگٸی
أنکھیں کھول یارم کو دیکھا جہاں معنی خیزی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
ویسے تمھیں پتا کیسے چلا کہ میں کیس جیت گیا ہوں
اس کی أنکھوں میں دیکھ کر حیرانی سے پوچھا کیونکہ اس نے تو مایا کو بتایا ہی نہیں تھا
مجھے پورا یقین تھا کہ کیس أپ ہی جیتے گٸے
مایا نے اپنے لب یارم کے ماتھے پر رکھتی پیار سے بولی
پھر کچھ سوچ کر استفسار کیا
یارم ___ مایا نے بہت سوچنے کے بعد اس نے بیڈ سے نیچھے کاغذہ نکال کر اس کی جانب کیا تھا یارم کو کچھ سمجھ نہیں أیا نا سمجھی میں کبھی وہ مایا کو دیکھ رہا تھا تو کبھی اس کاغذہ پہ لکھی تحریر کو
مایا نے اسے أنکھوں سے اس لکھی تحریر کی جانب اشارہ کیا اس نے وہ کاغذہ مایا سے لیا اور پڑھنے لگا جیسے جیسے وہ پڑتا گیا اس کے ہوش و حواس بے قابو ہوتے جا رہے تھے
کاغذہ سے نظر ہٹاتے وہ مایا کو دیکھنے لگا جو اس سے ہی دیکھا رہی تھیں
تمھارا پاس یہ کاغذ کہا سے أیا
یارم نے مایا کو دیکھ تعجب لہجہ میں پوچھا
خالہ بی کے کمرے میں کپڑے لینے گٸی تھی اور بیڈ کے نیچھے مجھے ایک بند صندوق نظر أیا اس پر تعلا لگا ہوا تھا پھر میں نےوہ کھولا تو وہاں سے یہ مجھے ملا
پوری تفصیل بتاٸی تھی
تم نے خالہ بی سے پوچھا اس کاغذہ کے بارے میں
نہیں کیونکہ !!! میں نے ایک بار خالہ بی سے پوچھا تھا تب دادا جان نے انہیں باتوں ہی باتوں میں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ کسی کو کچھ بھی بتاٸیں گٸ یتو ان کے لیٸے اچھا نہیں ہوگا اسلیٸے میں نے ان سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا
یارم اس میں ایسا کیا ہے____ بنا کوٸی جواب دیٸے وہ کمرے سے نکلا اور پیچھے مایا بھی اس کے پیچھے چل دی
شاہدہ بیگم کی گود میں عُروشہا سر رکھے ان سے پیار بھری باتیں کر رہی تھی
راشد کرسی پہ بیٹھا چاۓ پی رہا تھا اور باری باری ان ماں بیٹی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
بابا ___ جب ان کے کمرے میں یارم اس کے پیچھے مایا اندر داخل ہوٸیں تھے یارم نے راشد کے سامنے کھڑے ہوکر کاغذہ ان کی جانب کیا عُروشہا شاہدہ بیگم کی گود سے جھٹک کر فوراً اٹھی یارم کے چہرے پہ پریشانی کے أثار تھے بیڈ سے اٹھ کر یارم کے سامنے کھڑی ہوٸی
لالا سب ٹھیک ہیں نا __ وہ یارم کی جانب دیکھ کر پوچھا
پتا نہیں عُرو
یارم کا کہنا جہاں عُروشہا کو سمجھ نہیں أیا وہ شاہدہ بیگم اور مایا بھی نا سمجھی میں راشد کو دیکھ رہی تھیں جو وہ لکھی تحریر پڑھ رہا تھا
ان کے چہرہ کا رنگ یکدم سرخ پڑ گیا أنکھیں غصہ میں انگار برسانے لگٸیں بھاگ کر کمرے سے باہر صحن میں أیا راشد کو غصہ میں جاتا دیکھ کر وہ سب بھی نیچھے أۓ
أبا جان نیچھے أٸیں ابا جان میں نے کہا ابھی کے ابھی نیچھے أٸیں
راشد چوہدری کو کبھی کسی نے بھی اس طرح غصہ میں چلاتے نہیں دیکھا تھا پوری قوت سے چلایا کہ سب ہی رات کے وقت اتنا شور سن کر دوڑتے صحن میں پہنچھے تھے
کیا ہوا اس طرح کیوں گلا پھاڑ کر چلا رہے ہو راشد کم سے کم وقت کا ہی کچھ خیال کر لیا ہوتا
ولید بخش چوہدری مونچھوں کو گول کرتے سیڑھیوں کو پار کرتے نیچھے أیا اور راشد کو دیکھتے دھاڑا
کہ اچانک ارحام اور ضاور بھی صحن میں اندر أٸے سب ہی چپ کرکے انہیں دیکھنے لگٸے
عروشہا چلیں ___ ارحام سب کو نظراندازہ کرتا اس کے روبرو کھڑا ہوا اور اسے دیکھ کے کہا عُروشہا نے سر ہاں میں ہلایا
رکو ارحام تھوڑی دیر بعد چلے جانا
راشد ارحام سے مخاطب ہوا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا عُروشہا نے اس کا ہاتھ تھام کے أنکھوں سے نفی میں اشارہ کیا وہ اس کی أنکھوں میں امید دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا
یارم تمھارے پاس یہ خط کہاں سے أیا !!!
راشد نے یارم کی جانب دیکھ کہا تھا کہ راشد کے ہاتھ میں خط دیکھ زیبی کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوٸی تھیں
ولید بخش چوہدری کا بھی حال ایسا تھا اس نے قہر بھری نظروں سے زیبی کو دیکھا جو سر جھکاۓ کھڑی تھی
بابا مایا کو یہ خط خالہ بی کے کمرے سے ملا ہے
یارم راشد کی جانب دیکھ کہا
خالہ بی أپ کے پاس یہ خط کہاں سے أیا جبکہ ابا جان نے سیما کا پاکستان سے باہر جانے والا خط مجھے دیا تھا تو یہ پھر کہاں سے أیا أپ کے پاس
سرد لہجے میں وہ زیبی کو دیکھتے دھاڑا تھا ولید بخش کو اپنا کھیل مٹی میں ملتا نظر أیا
تمھیں کیا جانے کی پڑی ہیں راشد جو ہوا سو ہوا وہ ماضی تھا جاکر سب اپنے کمروں میں ارام کرو خامخواہ سب کو نیند سے بیدار کیا تم نے
ولید بخش چوہدری زیبی کے اگے کھڑے ہوکر راشد کو دیکھ سخت لہجے میں کہا کیونکہ اس سے ڈر تھا کہ کہیں زیبی اپنا منہ کھول نہ دے
نہیں ابا مجھے جاننا ہیں کچھ تو ایسا ہے جو مجھ سے چھپایا گیا تھا ماضی میں اور أپ بتاٸیں کیا سیما أپ کے پاس أٸی تھی جو أپ نے مجھے خط دیا تھا اور کہا کہ وہ کسی اور لڑکے سے شادی کرکے پاکستان سے ہمیشہ کے لیٸے چلی گٸی ہیں تو پھر یہ خط تو کچھ اور بیان کر رہا ہے
مجھے خالہ بی أپ سے جواب چاہیے بتاٸیں مجھے
راشد چلایا تھا کہ سب کے سب دھاڑ پہ وہی جم گٸے تھے اسے کچھ تو سچاٸی خط سے معلوم ہوٸی تھی مگر وہ انکے منہ سے اطراف کروانا چاہتا تھا
ارحام!!! تم بتاٶ کیا سیما واقعی میں کسی اور لڑکے سے شادی کرکے یہاں سے چلی گٸی تھی
راشد نے ارحام کی جانب دیکھ کہا
نہیں ___خالہ أپ اب بھی چپ ہیں گناھ کرنے والے کا ساتھ دینا بھی گناھ میں شامل ہونے کے برابر ہے ___ رب کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گٸی أپ ____ ہاں ___ میں نے کبھی کسی سے ریکویسٹ نہیں کی لیکن أج __ أپ سے کر رہا ہوں___ “‘ پلیزززز سب کو سچ بتاٸیں
ارحام چاہتا تو وہ سب کو خود سچ بتا دیتا لیکن وہ ولید بخش چوہدری کی گہنونی سچاٸی زیبی سے سُننا چاہتا تھا
زیبی یکدم رونے لگٸی کسی کو کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ أخر ہو کیا رہا ہے ____ عُروشہا نے راشد سے وہ خط لیا تیز أواز میں پڑھنے لگٸی
راشد میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں __ اور اپنی أخری سانس تک کرتی رہوں گٸی __مجھے نہیں پاتا کہ جب تمھیں میرا لکھا ہوا خط ملے گا تو میں دنیا میں ہوٶں گٸی یا نہیں___ تم سے جب میری بات ہوٸی تھی تم نے کہا تھا کہ تمھارا باپ ہمھارے راشتے کو قبول کبھی نہیں کریں گا ____ ایک دن میں تمھارے باپ سے ملنے گٸی تھی
ابا جان جب شاہدہ کو کوٸی تکلیف نہیں ہیں ہمھارے نکاح سے تو أپ کیوں منع کر رہے ہیں ___ ابا جان ایسا نہ کریں ہم ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں ___ یونیورسٹی سے لیکر شاہدہ سے راشد کبھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا __ لیکن انہیں أپ نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ شاہدہ سے شادی کر لو بعد میں أپ مجھ سے اس کی شادی کرواٸیں گٸے تو کیوں اب أپ ہمھاری شادی ہونے نہیں دیں رہے ___ أپ کیوں اپنی دی ہوٸی زبان سے مکر رہے ہیں
اے لڑکی اٹھو میرے پیر چھوڑو کہا نہ کہ جاٶ یہاں سے __ وہ تو راشد کو اسلیٸے کہا تھا تاکہ شاہدہ سے شادی کرنے پہ راضی ہوجاۓ ____
شاہدہ ہمھارے خاندان کی ہے میں کبھی خاندان سے باہر اپنے بیٹوں کی شادی نہیں کرواٶں گا
وہ مسلسل ولید بخش چوہدری کے پیروں میں اپنی محبت کی بھیک مانگ رہی تھی
اس دن راشد یہ بات میں نے بابا جان کو بتاٸی انہوں نے کہا کہ ___ تمھارا بابا بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر تم جب جب مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی میں نے تم سے بات نہیں کی ___ اچانک ایک دن میری طبیعت خراب ہوگٸی میں ڈاکٹر کے پاس گٸی مجھے بتایا کہ میں پریگنیٹ ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا ایک بار پھر میں نے سوچا کہ تمھارے باپ سے بات کروں میں نے انہیں بتایا کہ میری کوکہ میں تمھارا بچہ پل رہا ہیں پھر انہوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اور اپنے غنڈے میرے پیچھے بھیجے
عُروشہا پڑھ کر خاموش ہوگٸی کیونکہ اس خط میں بس اتنا لکھا تھا ___ راشد کی أنکھوں میں أنسوں بہنے لگٸے تھے شاہدہ بیگم کے دل کو بہت تکلیف ہوٸی کہ ان کا شوہر أج بھی اپنی محبت کو بھول نہیں پایا
اس سے اگٸے کیا ہوا تھا خط کیوں أگے نہیں لکھا ہوا
عُروشہا نے کہا ___ کیونکہ تب سیما پر حملا ہوچکا تھا
اچانک زیبی کے زبان سے ادا کیے الفاظ سب کو چونکا گٸے تھے
گل بہار بیگم سردار چوہدری کی بیوی تھی راشد سجاد چھوٹے تھے ان کو اتنی چیزوں کی سمجھ نہیں تھی ___ ان کے گزر جانے کے بعد
بس بہت ہوگیا جاٶ تم اندر
ولید بخش چوہدری زیبی کو بازٶں سے جھنجھوڑتے غرایا تھا کہ سب چونکیں تھے
نہیں أج نہیں میں سب کو بتاٶں گٸی
زیبی نے ان کے ہاتھ سے بازٶں چھوڑایا ولید بخش کو اپنی اتنی تنزلیل دیکھ با سخت اس کا ہاتھ زیبی پر پڑتا اس سے پہلے راشد نے ان کا ہاتھ ہوا میں ہی روک دیا
نہیں ابا جان بہت ہوگیا __ خالہ أپ بولیں جو کہہ رہی تھی
راشد نے بھیگی نگاہوں سے زیبی کو دیکھ کر کہا تھا
ولید بخش نے مجھ سے شادی کی تاکہ راشد سجاد کو میں سمبھال سکوں___ ایسے وقت گزرتا گیا میں نے کبھی ان سے بیوی کا حق نہیں مانگا اور نا ہی میری اتنی حصیت تھی کہ مانگ سکتی ___ راشد سجاد یوٸی بڑے ہوگٸے راشد شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیٸے گاٶں سے شہر چلا گیا چار سال کے بعد وہ اپنی پڑھاٸی پوری کرکے لوٹا تھا_____
اور سردار سے کہا کہ مجھے سیما یانے حیدر سلطان کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ___ حیدر سلطان اور سردار کی دوستی بچپن سے تھیں ہر کام ایک ساتھ کرتے تھے __ راشد نے اس بات کی مجھ سے تصدیق کی کہ میں کوشش کروں
ان کے ابا سے بات کروں___سیما کے بارے میں تاکہ وہ اس رشتہ کے لیٸے مان جاٸیں ___ حالاکہ کسی کو بھی یہ پتا نہیں تھا کہ میری شادی سردار سے ہو گٸی ہیں اور میں ان کی بیوی ہوں ___ میں بس اس حویلی کی ایک معمولی سی نوکرانی تھی ___میں نے سردار سے کہا تھا لیکن وہ نہیں مانے سیما کے لیٸے ___ ایک دن شاہدہ بیگم کے والدین سے راشد کا رشتہ اچانک جلد بازی میں طعے کر دیا ___ راشد مانے کو تیار ہی نہیں تھا کبھی بھی لیکن سردار نے اس سے یہ کہہ کر مانا لیا کہ پہلے تم شاہدہ بیگم سے شادی کرو پھر میں تمھاری دوسری شادی سیما سے کروا دو گا
اخر کار راشد مجبور ہوکر مان گیا شادی ہوگٸی اس کے بعد سردار نے اچانک سجاد کی بھی شادی ممتاز بیگم سے طعے کر دی اس کی بھی راشد کی شادی کو دو ماہ گزرے تھے کہ سجاد کی بھی شادی کروا دی مجھے کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ اتنی اخر جلدی کیا تھی لیکن میں سردار سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی
راشد سجاد کی شادی کے بعد اچانک حویلی میں ایک ساتھ خوشی گھونجی کہ شاہدہ بیگم ممتاز بیگم دونوں امید سے ہیں پھر یارم شایان پیدا ہوۓ
سردار کو لگا کہ راشد کا سیما سے وقتی لگاٶں ہیں شاہدہ بیگم سے شادی کے بعد ختم ہوجاۓ گا مگر ایسا نہیں ہوا سیما سے شادی کی بات سردار سے وہ کرتا رہا_____ مگر وہ کبھی کیا تو کبھی کیا کہہ کر بات کو ٹال دیتے تھے
اچانک ایک دن سیما حویلی أٸی شاہدہ بیگم کو سب پتا تھا اس بارے میں کہ راشد سیما سے محبت کرتا ہیں ___ روتی سرادر کے پیروں میں گری کہ راشد سے انکی شادی ہونے چاہیے وہ اس حویلی میں ایک کونے میں پڑی رہے گٸی مگر وہ نہیں مانے
زیبی رکی سانس لینے کے لیٸے سب ہی اس کو دیکھ رہے تھے اور ولید بخش چوہدری کی زیبی سے شادی والی بات سن کر سب ہی بے خبر تھے انہیں بڑا دھجکا لگا تھا کہ سب اپنی جگہوں پر سن کھڑے تھے ارحام بھی چونکا تھا اس بات سے کہ زیبی ولید بخش کی بیوی ہے
سیما یہاں أٸی أ کر کہا کہ میں راشد کے بچے کی ماں بننے والی ہوں اس بات سے حیدر سلطان اور قربان بھی نا واقف تھے
سرادر کو سیما نے کہا تو وہ اور زیادہ غصہ ہوۓ سیما کو وہی مارنے کی کوشش کی مگر قسمت اس کی اچھی تھیں کہ وہ ان کے غنڈوں سے بچتی حویلی کے کسی کونے میں چپی ___ اس دن راشد شہر گیا تھا شاہدہ بیگم ممتاز بھی گھر میں نہیں تھیں وہ اپنے ماٸکے گٸی تھیں
سجاد بھی نہیں تھا بس میں تھی اور ارحام شایان یارم دس سال کے تھے وہ اسکول گٸے ہوٸیں تھے
سیما نے مجھ سے مدد مانگی میں کیا اس کی مدد کر تھی میں تو خود کی ہی مدد نہیں کر سکی __کبھی پھر اس نے خط لکھا جو کہ اب أپ سب نے پڑھا ہیں خط لکھتے وقت وہ سردار کے غنڈوں کے ہاتھ لگ گٸی اور اس کو بے رحمی سے مار دیا گیا وہ خط میں نے چھپا دیا تھا
جب یہ بات سردار کو ناجانے کہا سے معلوم ہوٸی تو انہوں نے مجھ ایک ماہ تک بند کمرے میں رکھا جہاں صرف اندھیرا تھا
حویلی والوں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھے وہاں سے نکال تاکہ کسی کو کوٸی شک نا ہو سب کو معلوم تھا کہ میں یتیم ہوں میرا کوٸی گھر نہیں ہے____ سیما کا مجھے سے خط لیکر اس خط کی لکھاری سے ملتی جلتیں ایک اور خط لکھوایا جو سردار نے راشد کو دیا جس میں لکھا تھا
راشد میں اب تم سے محبت نہیں کرتی بلکہ میں نے کبھی بھی تم سے محبت نہیں کی میں تو تم سے بس وقت گزاری کر رہی تھی جس شخص سے میں محبت کرتی ہوں اس کے ساتھ شادی کرکے پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ کے لیٸے جا رہی ہوں
اور یہی خط سردار نے سلطان مینشن بھی بھیجا اپنے أدمی کو کہا کہ جاکر حیدر سلطان سے کہے کہ وہ سیما کو کسی لڑکے کے ساتھ بھاگتے دیکھ چکا ہے
اس بات پہ سلطان مینشن میں کسی نے بھی یقین نہیں کیا
زیبی سچ بتا کر چپ ہوگٸی ارحام کی أنکھیں نم ہوٸی تھیں
سیما بُوا کے کمرے میں ___ میں گیا تھا وہاں سے مجھے ان کی ڈاٸری ملی جس میں لکھا تھا کہ راشد تم نے مجھے دکھا دیا ہے شاہدہ سے شادی کر کے پھر ایک دن میں یارم سے ملنے حویلی أیا ولید بخش چوہدری کو اپنے پالتوں کتے سے بات کر رہا تھا ______وہ اس سے بلیک میل کر رہا تھا کہ وہ سب کو سچ بتاۓگا کہ اگر اس کی ڈیماٸڈ کے مطابق پیسے نہیں دیٸے گٸے تو ____ میں یہ سن کر حیران ہوا
میں نے نظر رکھی ولید بخش چوہدری پر کہ وہ کہاں جاتا ہے کیا کرتا ہے
وہ ایک رات اس أدمی سے ملنے گیا اور اس سے منہ بند رکھنے کے لیٸے پیسے دیٸے جب وہ چلا گیا تھا وہاں سے ___میں نے اس أدمی سے سچ پوچھا اس نے پہلے تو نہیں بتایا____ پھر میں نے کہیں زیادہ اس سے رقم دینے کا کہا تو اس نے بتایا کہ میری بُوا کو بے رحمی سے ولید بخش چوہدری نے مروایا ہے___ ان کی کچھ سانسیں چل رہی تھیں پھر اس کے اوپر مٹی ڈال کر زمین میں زندہ دفنا دیا گیا ______ میری روح کانپ گٸی یہ سب سن کر پھر میں بیگلوں چلا گیا دس سال کی عمر میں
ارحام یہ کہتا وہاں رکا نہیں تھا وہ فورا وہاں سے باہر نکلتا چلا گیا
تم لوگوں کو کیا لگتا ہیں کہ تمھارے دادا جی نے بس اتنے گناھ کیا ہیں تو تم لوگ غلط سوچ رہے ہو ___ ارحام پہ کہیں بار جان لیوا حملے اس شخص نے ہی کرواۓ ہیں
ضاور غصہ سے ولید بخش چوہدری کو دیکھ کہا اور وہاں سے چلا گیا
سب ہی شاکت تھے اتنا کچھ ماضی میں ہوا تھا اب شایان کو یارم کو بات سمجھ أٸی تھیں کہ اچانک ارحام کیوں ان سب سے اتنی نفرت کرنے لگا تھا وہ برحق تھا اپنی جگہ پر
ابا جان أپ نے سیما کو مار دیا
راشد نے روتے ہوۓ ولید بخش کو دیکھ کر کہا
ہاں ہاں !!! میں نے مارا اس کو اس بے غیرت عورت کی وجہ سے پورے خاندان میں میری ناک کٹ جاتی فساد کی جڑ کو میں نے ہمیشہ کے لیٸے اکھاڑ پھینک دیا
نفرت سے وہ چلا کر کہہ رہا تھا جب اچانک زیبی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اس کا گلا دبانے لگا
اس عورت کو بھی میں نہیں چھوڑوں گا سب اس کی وجہ سے ہوا ہے منہ بند نہیں رکھ سکتی تھی یہ اپنا
ولید بخش چوہدری نفرت سے کہتا اس کی گردن میں زور دینے گا کہ زیبی کی أنکھیں باہر نکلنے لگٸی اور ہاتھ پاٶں چلانے لگٸی تبھی سجاد راشد نے اگے بڑھ کر اسے دور کیا زیبی سے
اور کتنوں کی زندگی برباد کریں گٸے ولید بخش چوہدری
راشد زیبی کے اگے ڈال بن کر کھڑا ہوگیا اور ولید بخش کو دیکھ کر انکھوں میں نفرت لیٸے دھاڑا
راشد کا ایسا لہجے ولید بخش چوہدری کو اندر تک اگ لگا گیا تھا شاہدہ بیگم ممتاز بیگم دونوں اس سے کمرے میں لے گٸی جب سچ سامنے أیا تو انہیں بھی زیبی سے ہمدردی ہوٸی تھیں
حویلی والوں کے سب ہی افراد کے دل کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بھکر گٸے تھے
ہر کوٸی اپنی سوچ میں گم تھا عُروشہا اپنے کمرے میں کھڑکی سے چاند کی روشنی کو دیکھ رہی تھیں
اس کا دماغ ناجانے کہا تھا ارحام کا نفرت والا ہر بار لہجہ اس سے یاد أ رہا تھا
کیسے وہ ولید بخش چوہدری سے بات کرتا أیا تھا کچھ دنوں میں وہ تو اس سے غلط سمجھ رہی تھی
جب سچاٸی سامنے أٸی تو وہ اس سے کہاں بھی غلط نظر نہیں أیا تھا
اس کی پھپھوں کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کیا تھا ولید بخش چوہدری نے اس کی نفرت واجب تھی
عُروشہا تم ابھی تک سوٸی نہیں ___ وہ تو اپنی سوچوں میں مگن تھی اس سے شاہدہ بیگم کی أواز سُناٸی نہیں دی
عُروشہا __ ج ی جی امی کیا ہوا سب خیر ہیں نا
ہڑبڑی میں شاہدہ بیگم کی جانب دیکھ پوچھا
تم کیا سوچ رہی ہو ___ شاہدہ بیگم کا خود کا بھی دل دکھا تھا لیکن پھر بھی وہ عُروشہا کے کمرے میں أٸی تھی اور اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے وہ جاننا چاہتی تھی
امی میں ارحام کے بارے میں سوچ رہی ہوں __ اس کی نفرت سہی تھی امی اس سے کتنی تکلیف ہوٸی ہوگٸی جب اس سے معلوم ہوا ہوگا کہ اس کی پھپھوں کے ساتھ اتنا بُرا کیا گیا ہیں __ بچپن سے سب کی باتیں سُن کر ایسا لگتا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بُرا انسان ہیں ___
اور اب وہ تمھیں کیسا لگتا ہے
وہ خاموش ہوٸی ہی تھی کہ اچانک شاہدہ بیگم نے سوال پوچھا اسے
شاہدہ بیگم کے سامنے جب سچاٸی أٸی اس سے ایک بات کی دلی تسلی ہوٸی تھی کہ جس کے ساتھ اس کی بیٹی کی شادی ہوٸی ہے__ وہ کوٸی بُرا انسان نہیں ہے
معلوم نہیں امی ___ عُروشہا یہ کہہ کر بیڈ پر بیٹھ گٸی
عُروشہا جب کہ تم بھی اب سب سچ جان گٸی ہو کہ وہ بُرا انسان نہیں ہیں___ شوہر کو اپنے اپ سے اتنا بھی دور نہیں کرنا چاہیے ____ورنہ تمھاری جو خالی جگہ ہوگٸی نا وہ کوٸی اور أکر اس کی دل میں اس خالی جگہ کو بھر دیں گٸی ___ شوہر کو دوسری عورت کے ساتھ دیکھنا ازیت ناک ہوتا ہے ___ تمھاری ماں اس درد کو ماضی سے لیکر أج تک سہہ رہی ہیں ___
میں چاہتی ہوں تم کل ہی سلطان مینشن جاٶ یہاں رھ کر تمھاری لیٸے اگے جاکر کوٸی اور پریشان نہ کھڑی ہو جاٸیں ___ اس سے پہلے جاٶ اپنے شوہر کے پاس
شاہدہ بیگم کو ڈر تھا کہ شایان سے ملنے کے بعد عُروشہا کے دل میں اس کے لیٸے پھر سے محبت کے جزبات پیدا نہ ہوجاۓ__ انہیں زندگی کے تجربے سے وہ اس سے سمجھا رہی تھی انہیں یہ بھی ہول دل میں تھا کہ عُروشہا پہ کل کو وہ شایان کے معملے ارحام شک نہ کرے
شاہدہ بیگم نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا _ _وہ اثبات میں
سر ہلاگٸی
سو جاٶ اب زیادہ کچھ مت سوچوں
شاہدہ بیگم اس سے اللہ حافظ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گٸی تھی
وہ بھی حویلی میں نہیں رہنا چاہتی تھی اب جس طرح ارحام حویلی سے گیا تھا اس سے پریشانی ہو رہی تھی کہ وہ کہاں ہوگا گھر ہے بھی کہ نہیں
جلد بازی میں وہ اپنا موباٸل بھی گھر چھوڑ أٸی تھی
پورا أسمان رات کے وقت ستاروں سے جگمگاں رہا تھا ارحام چھت پر کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے لمبے لمبے کش بھر رہا تھا اس کی أنکھیں سرخ تھیں بال ماتھے پر بھکرے ہوۓ تھے
شرٹ کے اوپر والے تین بٹن کھولے ہوۓ تھے وہ سکون چاہتا تھا مگر وہ ہی أج اس سے ملنا مشکل تھا ماضی کے پورانی یادیں اس کو اندر سے گھاٸل کر رہی تھیں وہ اندر ہی اندر گھٹ رہا تھا
اس کا حلیہ پورا بھکرا ہوا تھا جب ضاور چھت پر أتا ہے اس کی حالت دیکھ کر اس کی أنکھوں میں نم أ جاتی ہے وہ کیسے اپنے جھگری دوست کو ایسی حالت میں دیکھ سکتا تھا وہ مظبوت مرد أج زخموں سے چور تھا
ضاور کرسی کھینج کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا
ارحام تم بھابھی کو وہاں کیوں چھوڑ أٸیں ہو
ضاور نے اس سے دیکھ کر پوچھا کرسی کے پسٹ سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا کہ اس کے سوال پہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور اس سے سرخ ہوتی أنکھوں سے دیکھا
اس سے اگر أنا ہوگا تو وہ خود أ جاٸیں گٸی __ اس کا لہجہ بے فکری تھا
مطلب تم بھابھی کو خود لینے نہیں جاٶ گٸے ___ضاور بغور اسے دیکھا اس کے دل میں کیا چل رہا ہے وہ جانے کی کوشش کی
پتا نہیں ___ کرسی سے اٹھ کر ایک نظر ضاور کو دیکھا تھا سگریٹ کو شوز سے مسلتے نیچھے چلا گیا ضاور کرسی سے ٹیک لگاۓ أسمان کو دیکھنے لگا أج واقعی ان کا دن بہت تھکا دینے والا تھا وہ بھی زہنی تھکاوٹ والا
یارم اپ عُروشہا کو طلاق دلوانا چاہتے ہیں ___ یہ أپ کیا کر رہے ہیں
وہ جو بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ أنکھیں موندے ہوا تھا أج جو کچھ ہوا وہ سب اس کے دماغ میں چل رہا تھا کہ تبھی مایا الماڑی سے فریش ہونے کے لیٸے ڈریس نکال رہی تھی کہ اس کی نظر بند لیفافہ میں پڑی کھول کر دیکھا تو اس میں ارحام عُروشہا کے طلاق کے پیپرز تھے
یہ دیکھ کر اس کو جھٹکا لگا پیپرز یارم کے اگے کرتی حیرانی سے بولی
یارم نے أنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر پیپرز کو جو اس کے ہاتھ میں تھے
ہاں یہ طلاق کے پیپرز میں نے پہلے تیار کرواٸیں تھے
سنجیدگی سے کہا
اچھا اب تو ان کی کوٸی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ارحام کی غلطی نہیں تھیں اس کی نفرت بلکل ٹھیک ہے۔۔۔
مایا وہ پیپرز پھاڑنے والی تھی جب یارم نے اس کا چلتا ہاتھ روک دیا وہ تجسس سے یارم کو دیکھنے لگی
لیکن ابھی بھی ان کی ضرورت ہے جبکہ سب مجھے پتا چل گیا ہیں کہ ارحام نے شادی بدلے کی أگ میں کی ہے تو اس کے ساتھ میں اپنی بہن کو نہیں رہنے دو گا اب تو جلد سے جلد اس کو اس زبردستی کے رشتے سے میں أزاد کرواٶں گا
مایا کے ہاتھ سے وہ پیپرز لیکر یارم نے الماڑی میں رکھے
یارم یہ أپ کیا کہہ رہے ہیں وہ اس کا شوہر ہے اور اب تو سب کلٸیر ہوگیا ہے___ تو پھر ان سب کی کیا ضرورت ہے
مایا کو کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ أخر یارم کیوں عُروشہا کو طلاق دلوانا چاہتا ہے
مایا کی بات کا جواب دیٸے بنا ہی وہ کمرے سے نکل گیا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial