ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 3

جیسے جیسے وہ کالے لمبے کوٹ والا أدمی اس کے قریب أتا گیا وہ اور زیادہ خوف میں مبتلا ہوٸی تھی
کو کون ہو دیکھو میرے پاس مت أنا ورنہ میں
وہ أدمی اس کی دھمکی پہ بھی نہیں رُکا تھا اور اسنے اپنے قدم اس کی طرف جاری رکھے ایک تو اتنا اندھیرا تھا اسٹور روم میں جو سامان پڑا تھا اس سے سہی سے نظر ہی نہیں أرہا تھا
زور سے چلانے ہی لگی تھی کہ اس أدمی نے ہاتھ سے اس کی چیخوں کا گلا گھوٹ دیا
عُرو عُرو میری جان میں ہوںق أپ کا لالا ادھر دیکھوں
ڈر سے اس کا پورا وجود لرز رہا تھا ہاتھ پاٶں یکدم ٹھنڈے ہونے لگٸے تھے یارم اس کے گال تھپتھپانے لگا اس کے وجود سے سانس نکلنے لگی دھیرے دھیرے اس کی أنکھیں بلکل بند ہوگی تھیں
عُروشہا اٹھو دیکھوں أپ کا لالا أپ کو یہاں سے نکالنے أیا ہیں اٹھو عُرو أنکھیں کھولوں عُرو
بہت کوشش کرنے کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں أٸی یارم اسے اٹھا کر اسٹور روم کے دروازے کو زور سے بجانے لگا
دروازہ کھولوں میں نے کہاں أو پن یُو ور ڈور اگر میری بہن کو کچھ بھی ہوا نا تو میں کسی کو بھی نہیں بخشوں گا مار دوگا سب کو کھولوں دروازہ
اندر سے مرد کی أواز کیسے أرہی ہے قید تو لڑکی ہے پھر
دروازے کے باھر کھڑا أدمی جو کہ چوکیدار بن کھڑا تھا یارم کی أواز سناٸی دی تو وہ تعجب سے سوچ نے لگا
پہلے سے زیادہ أوازیں اندر سے أنے لگی اس أدمی نے دروازہ کھولا
اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو سب سے پہلے میں تم دونوں کو نہیں چھوڑو گا
یارم عُروشہا کو لیے ان دو أدمیوں کو دیکھ کے دھاڑا دھمکی سے وہ تر تر کاپنے لگٸے تھے
یارم عُروشہا کو اس کے کمرے میں لایا أرام سے بیڈ پر لیٹایا کمبل اس کے پورے وجود پر سہی سے اوڑھتے جیب سے موباٸل نکالی اور ڈاکٹر کو کال کرنے لگا
زیبی وہاں سے گزر رہی تھی جب اسکو عُروشہا کے کمرے سے أوازیں سناٸی دیں
عُروشہا بی بی کے کمرے میں اس وقت کون ہیں وہ تو نہیں ہو سکتی پھر کون ہوسکتا ہے جاکے دیکھ لو نہیں نیں زیبی بڑے سردار نے دیکھ لیا تو
ابھی وہ اس کشمکش میں ڈوبی ہوٸی تھی کہ یارم نے اس کے أگٸے ہاتھ لہرایا
خالہ أپ کس دنیا میں گم ہیں میں کب سے أپ ہی سے بات کر رہا ہوں اور ایک أپ ہیں کہ جواب نہیں دۓ رہی جاکے امی کو بلاکر لاٸیں عُروشہا کی طبیعت خراب ہے وہ اسٹور روم میں بیھوش ہو گی ہیں جلدی جاٸیں أپ اور امی کو لیکر أۓ
کیا بابا عُروشہا ب بی بی بیھوش
زیبی کو مانو اپنے کانوں پر یقین نا أیا ہو اسلیۓ دوبارہ سوال پوچھا
خالہ میں نے کہا أپ امی کو بلا کر لاٶ عُرو بیھوش ہوگی ہے اب أپ نے سنا کہ نہیں یا میں تیسری بار اپنے الفاظ دہراٶں
یارم دانت پیستے ہر ایک الفاظ پر زور دیتے ادا کیے تھے
زیبی پریشانی سے شاہدہ بیگم کو بلانے گٸی تھی ایسے پوری حویلی میں بات پھیل گٸی
عُروشہا کے کمرے میں ڈاکٹر اسکا چیکب کر رہی تھی شایان چوہدری کا پریشانی اور خوف سے بُرا حال ہوگیا تھا اخر بُرا حال تو ہونا بنتا تھا کیونکہ وہ معصوم حسینہ اس کا عشق جو تھی
پورے کمرے میں یہاں سے وہاں چکر لگانے لگا
ڈاکٹر عُروشہا کیسی ہیں کوٸی گھبرانے والی بات تو نہیں ہے
سب سے پہلے شایان ہی ڈاکٹر کے روبرو کھڑا ہوکر پوچھنے لگا تھا کہ ڈاکٹر شایان کی جلد بازی اور پریشانی دیکھ دھیمی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پہ أٸی تھی اس کی حالت سے کوٸی بھی یہ انداہ لگا سکتا تھا کہ وہ اس حسینہ سے بے پناھ عشق کرتا ہے
گھبرانے والی بات نہیں ہے مسٹر چوہدری
ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا
تو پھر وہ بیھوش کیوں ہوٸی ہیں
اب یارم ڈاکٹر کو نظروں میں لیے پوچھا
ڈر کی وجہ سے وہ بیھوش ہوٸی ہے کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں اندھیرے سے ڈرتے ہیں یا کوٸی ایسی بات جس کا انکو بہت گہرا صدمہ پہنچاں ہو کچھ لوگ ایسی سچویشن برداش نہیں کر پاتا اور بیھوش ہوجاتا ہیں جیسے کہ عُروشہا راشد چوہدری ہوٸی ہے
ڈاکٹر پوری بات تفصیل سے بتاٸی وہ اللہ حافظ کہہ کر چلی گٸی
شاہدہ بیگم عُروشہا کے پاس بیٹھی أنسوں بہا رہی تھی
یہ سب دادا جان کی وجہ سے ہوا ہے نہ وہ ایسی سزا عُرو کو دیتا نا ہی وہ ایسے بیھوش ہوتی اخر انہیں کیا تکلیف ہے عُرو سے
یارم ماتھے پہ بل ڈالے شایان کی جانب دیکھ کر سوال کیا
یار مجھے خود نہیں پتا لیکن اس بار دادا جان نے بہت غلط کیا ڈر کی وجہ سے وہ بیھوش ہوٸی ہے اللہ نا کریں اس سے کچھ ہوجاتا تو میں کیسے جیتا اس کے بغیر سب کچھ میرا عُروشہا ہیں
خود کو سمبھالوں شایان اللہ پاک نے سب خیر کیا ہے
شایان کے لہجے میں عُروشہا کو کھونے کا خوف تھا
ہممم اثبات میں سر ہلا گیا شاہدہ بیگم تو ایک منٹ بھی بیٹی سے دور نہیں ہوٸی
ایک نٸی صبح کا أغاز ہوا تھا
ارحام ضاور دونوں ہی جوگینگ کے لیے گھر کے دوسرے ساٸید پر جو کہ ارحام سلطان نے اپنی جوگینگ کے لیے میدان بنوایا تھا دونوں اپنی جوگینگ میں مشغول تھے
کیا سوچ رہے ہو
وہ دونوں میدان میں بھاگ رہے تھے جب ضاور نے ارحام کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھتے پوچھا
ملی کے بارے میں سوچ رہا ہوں اس کو جو کام کا کہا تھا وہ ہوا کہ نہیں
ارحام سلطان اپنی ٹیم کو کچھ کام دے اور وہ وقت پر نا ہو أج تک ایسا ہوا ہے جو اب ہوگا ملی نے مجھے کال کی تھی کہا کہ تمھیں بتا دو اس نے تمھیں جیمیل بھیجی ہے اگر فرست ملے تو دیکھ لینا سردار جی
ضاور مزاقانہ انداز میں کہا ایک مُکا ارحام نے اس کی کمر پر مارا
اتنی زور سے بھی کوٸی مارتا ہے کیا
معصومانہ چہرہ بناۓ بولا
جی افکورس اس سے زیادہ بے رحمی سے ارحام سلطان لوگوں کی دھلاٸی کرتا ہے کہوں تو ٹیلر دیکھاٶں
ضاور کو دیکھ کر دونوں ہاتھ اپس میں مسلتے مارنے کی تیاری کر رہا تھا کہ ضاور اس کے پیروں میں گر گیا
معاف کر دے میرے یار اب سے میں کچھ نہیں بولوں گا
ضاور اٹھوں أج تمھیں ایک ضروری کام کرنا ہے بہت ڈھیل دے دیں ہے چوہدریوں کو اب مزید انتظار مجھ سے نہیں ہوتا
غصہ میں اس کی پیشانی بازٶں کے نسے ابھر أٸی تھی بدلے کی أگ اس کے خون میں دوڑ رہی تھیں ضاور کو اس سے خوف محسوس ہوا
ارحام تمھارے دماغ میں کیا چل رہا ہے
جاجتی نظریں اس پر ڈالے پوچھا جو کہیں دنوں سے اس کے دل میں سوال تھا اخر وہ پوچھ لیا
وہی جو تم سوچ رہے ہو
ارحام یار میں اتنی حیثیت نہیں رکھتا کہ تمھیں کسی چیز سے رکُو لیکن جو تم کرنے والے ہو وہ سہی نہیں ہے تمھارے قصور وار جو ہیں بس انہیں سزا دو بے گہناھ کو نہیں
وہ ڈرۓ لہجے میں بولا ارحام سلطان اس کی بات پر زور دار قہقہ لگا کر ہنسا
ضاور شاید تم نے وہ بات سنی نہیں ہے کہ جنگ میں سب کچھ جاٸزہ ہوتا ہے اور شطرنج کی لڑاٸی میں بادشاھ وزیر کے ساتھ پیادۓ بھی ماریں جاتے ہیں
مگر وہ بے قصور ہے
اب اتنی بھی نہیں
ارحام کا انداز بلکل جزبات سے عاری اور لاپرواھ تھا
ارحام کوٸی اور راستہ دیکھیں گٸے مگر یہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا تم کبھی بے قصور کو تکلیف نہیں دیتے تو پھر أج ایسا کیوں کہہ رہے ہو
ضاور تم میرے بہت اچھے دوست ہو اسلیۓ سوال پر سوال کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہو تمھاری جگہ کوٸی اور ہوتا تو جانتے ہو نا میں اس کے ساتھ کیا کرتا
ضاور کا کالر جھاڑتے الفاظ نرم تھے مگر اسکا لہجہ سخت دھمکی دینے والا تھا اسکے کہنے کا مطلب ضاور اچھے سے سمجھ گیا تھا
ضاور صرف ہامی بھرتے رھ گیا
ولید بخش چوہدری اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھے راشد چوہدری اور سجاد چوہدری بھی جو اپنے باپ کی ایک ایک حرکت نقس دیکھ رہے تھے
ان کے چہرے کی رنگت بتا رہی تھیں کہ وہ کتنے غصہ میں ہے
ابا جان أپ نے ہمھیں یاد فرمایا سب خیریت تو ہے اچانک کیوں بلایا یا کوٸی خاص وجہ ہے
ان دونوں کو ولید بخش چوہدری نے اچانک بلایاتھا راشد زمینوں کے کام سے شہر گیا تھا اور سجاد کہاں گیا تھا یہ ولید بخش چوہدری اچھے سے جانتا تھا
ہممم سجاد تم کہاں سے أرہے ہو راشد کو تو میں نے شہر کام کے سلسلے میں بھیجا تھا پر تم کہاں تھے صبح سے نظر ہی نہیں أۓ
ولید بخش چوہدری کو پہلے ہی سجاد پر غصہ تھا اوپر سے وہ صبح سے غاٸب تھا
وہ و ابا ج جان میں ہاں وہ اپنے جس أدمی کا کہا تھا میں بس وہی کام کرنے کے لیے گیا تھا پر أپ کیوں پوچھ رہے ہیں
سجاد نے اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتے گویا کیونکہ جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کا حال ایسا ہوتا ہے جیسا ابھی سجاد چوہدری کا تھا
ولید بخش چوہدری سجاد چوہدری کے جواب پر اپنی جگہ سے طیش میں کھڑا ہوا تھا اور ایک روزدار تماچا سجاد کے چہرے پر رسید گیا ایک ہاتھ گال پر رکھیں ولید بخش چوہدری کو بے یقینی کے عالم میں تکنے لگا
پہلے بار انہوں نے بیٹے پر ہاتھ اٹھایا تھا راشد کا حیریت سے منہ کھولا کا کھولا رہ گیا
ابا جان أپ نے بھاٸی جان کو مارا
راشد کو اپنی أنکھوں پر یقین نہیں ہوا جو اس نے دیکھا تھا وحم ہے یا سچ
ہاں کیوں میں اسے مار نہیں سکتا
ولید بخش چوہدری نے اب رُخ راشد کی جانب دیکھا جھنجھلا کر پوچھا
نہیں ابا جان أپ مار سکتے ہیں میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ایسا کونسا کام ہوگیا ہے بھاٸی جان سے کہ أپ نے پہلی بار انہیں تھپڑ مارا
راشد سر جھکاۓ پیار سے پوچھنے لگا
سجاد نے جو غلطی کی ہے یہ تھپڑ اس کے أگٸے کچھ بھی نہیں ہے اس کی تو اگر میں جان لیتا تو بھی میری نظر میں کم تھا ۔۔۔ وہ سجاد کو سرد أنکھوں سے دیکھ گویا
حویلی کی کنیزیں کیا کم پڑ گٸی تھی جو سلطان کی نوکرانی کو بستر کی زینت بنایا کیا اخر ضرورت تھی اندر میں اتنی أگ جل رہی تھی
حویلی کی کنیزوں سے دل بھر گیا تھا تو جاکر گوٹھے پر منہ کالا کرتے جہاں سے کچھ وقت پہلے نکلے ہو مگر نہیں ۔۔۔۔۔ دانت پیسے ایک ایک الفاظ چباکر ادا کیۓ
لیکن ابا جان حضور سچ میں مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ عورت سلطان کے گھر کی نوکرانی ہے میں راستے سے اسے جاتا دیکھا تو مجھے سے رہا نہیں گیا اور وہ سب ہوگیا
سجاد کہہ ایسے رہا تھا جیسے اسے اپنی غلطی پر پچھتاوا ہو اس سے تو جیسے مانو شرمندگی چھو کر بھی نہیں گزری تھی
اب جو غلطی کر بیٹھا تھا سزا سے صرف ولید بخش چوہدری ہی بچا سکتا تھا ورنہ وہ حیدر سلطان کے چشم راغ ارحام سلطان کے خون گرم کو اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کسی قیمت پر اس سے نہیں چھوڑیں گا
ٹھیک ہے بس کروں اب تمھاری ایک چھوٹی سی غلطی مجھے سردار کے تخت سے ہٹا سکتی ہے جاٶ جس أدمی کا پتا بتایا تھا اس ابھی میرے سامنے لاٶ
ولید بخش چوہدری ایسا تھا کہ اسکو اولاد کی بڑی غلطی بھی چھوٹی لگتی تھی ایک عورت جس کے ساتھ زیادتی کی گٸی تھی اور زندہ زمین میں دفنا دیا گیا تھا یہ بات ولید بخش چوہدری کو عام سی چھوٹی غلطی لگی تھی
جی
سجاد چوہدری نے جلدی میں سر ہلاتے ایک نوکر کو بلا کر حکم دیا کہ جو حویلی کے دروازے پر شخص کھڑا ہے اسے اندر لے أٶ کچھ منٹ کے بعد وہ أدمی ولید بخش چوہدری کے أگٸے سر جھکاۓ دونوں بازٶ باندھے کھڑا تھا
جی سردار أپ نے بلایا
ہمم افسد تمھیں میرا ایک ضروری کام کرنا ہے ویسے مجھے تمھیں بتانے کی ضرورت نہیں ہیں پہلے سے تم جانتے ہو لیکن پھر بھی جس لڑکی کے ساتھ بد سُلوکی کی گٸی ہے اس کیس کو تم دیکھ رہے ہو
افسد وہاں کا بڑا پولیس اسپیکٹر تھا ولید بخش چوہدری ہر جتن کرنے کو تیار تھا کہ ارحام سلطان کو کوٸی ایسا ثبوت نا ملے جس سے وہ ایک تیر سے دو نشانے بناٸیں یا اس کے بیٹے کی جان کو خطرہ ہو
ولید بخش چوہدری کی اصلیت سب اچھے سے جانتے تھے کہ وہ انسان کتنا گرا ہوا ہے اور کس حد تک جا سکتا ہے مگر اس جلاد کے أگٸے أواز اٹھانے کی طاقت کس میں نہیں تھی
جی سردار أپ بے فکر رہیں میں سمجھ گیا ہوں أپ کیا کہنا چاہتے ہو میں سب ثبوت میٹاں دوگا أپ کے بیٹے کا نام نہیں أٸیں گا سردار تھوڑی پیسوں کی مدد مل جاتی تو میرا گزر سفر أسان ہو جاتا
افسد اسپیکٹر پلتا ہی ولید بخش چوہدری کے پیسوں پر تھا غلط کاموں میں وہ بھی ہر طرح سے ملا ہوا تھا ان کے ساتھ
پولیس اسٹیشن پہنچھنے سے پہلے تمھاری رقم تمھیں مل جاٸیں گی لیکن دھیان رہے ارحام سلطان کے ہاتھ میں بھول کر بھی کوٸی ثبوت ہاتھ میں نہیں لگنا چاہیے اگر ایسا ہوا تو مجھ سے تمھیں کوٸی نہیں بچا سکتا
دھمکی أمیز دار لہجے میں کہا
جی سردار أپ بے فکر رہیں
اسپیکٹر وہاں سے خوش ہوتا چلا گیا اخر ولید بخش چوہدری نے من مانگھی قیمت جو دۓ دی تھی
عُروشہا ہوش میں أگٸی تھی مگر اس کا دماغ گزرے پورے واقعے میں رھ گیا تھا وہ بلکل خاموش کمرے کی کھڑکی سے باھر کا نظارہ ویران أنکھوں سے تک رہی تھیں
اب صحت کیسی ہیں تمھاری
اپنے پیچھے کسی کی جانی پہچانی أواز پہ موڑ کے سامنے والے شخص کو دیکھا ایک ٹھنڈی أہ لی شاید وہ خود کو سکون دینا چاہتی تھی جو کہ حویلی میں رھ کر اسکو میسر نہیں تھا
ٹھیک ہوں زندہ بھی ہوں اور تمھارے سامنے بھی کھڑی ہوں
لہجہ سخت بے رُخی والا تھا عُروشہا کے الفاظ لہجہ شایان کے دل کو چبہ تھا
اس طرح کیوں بات کر رہی ہو
کھڑکی سے دور ہوتے ہی بیڈ پر بیٹھتے بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاٸی أنکھیں موندہ گٸی تھیں شایان کو وہ تھکی تھکی سی لگی
عُروشہا تم مجھ سے ناراض ہو یا مجھ سے کوٸی غلطی ہوٸی ہے تو تم مجھے چاہیے غلط ہی سمجھو مگر پلیزززز ایسا رویہ تو نہ رکھو میں تم سے۔۔۔۔۔۔ شایان أگٸے کچھ بولتا کہ عُروشہا کے الفاظ سن کے وہی رکا
شایان یہاں سے جاٶ نہ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی کسی اور سے سو پلیزز مجھے تنہاں چھوڑ دو
اچھا ٹھیک ہے مت سُنو تم میری بات تمھیں ویسے بھی میری پرواھ کہاں ہے میں جیو یا مرو جس سے دیکھو سب ہی اپنی کرتے رہتے ہیں
رنجیدہ سے بولا کمرے سے جا ہی رہا تھا کہ عُروشہا بیڈ سے اٹھا کے اسکے سامنے کھڑی ہوٸی
اب کیا ہوا ہٹو میرے راستے سے تمھیں تو بات نہیں کرنی تھی نہ تو اب کیوں میرے راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو
شایان منہ دوسری طرف کر گیا یہ اسکا ناراض ہونے کا طریقا تھا
اچھا نہ بابا سوری اب منہ تو ٹھیک کروں سڑے کریلے کی طرح لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔
مزاق اڑاتی خود ہی اس پر ہنس نے لگی شایان جو دوسری طرف منہ کیۓ کھڑا تھا اس کو مسکراتا دیکھ اس کی ہنسی سے پل میں کھو گیا دنیا جہان سے بے خبر پاگلوں کی طرح کتنی ہی دیر تک اس کو تکتا رہا ہوش تو تب أیا جب عُروشہا نے اس کے بازٶں کو جھنجھوڑا
کیا ہوا اس طرح کیوں مجھ معصوم کو ہلا رہی ہو میں کوٸی أم کا پیڑ تھوڑہی ہوں جس کو ہلا نے سے أم ٹوٹ کر تمھاری جولی میں أ گرے گٸے
دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پے سجاۓ گویا
تم أم کا پیڑ ہو بھی نہیں سکتے
وہ یکدم سے بولتی تکیہ گود میں اٹھاکر بیڈ پر بیٹھی
کیوں نہیں ہو سکتا میں أم کا پیڑ
شایان جان بوجھ کے اسے تنک کرنے لگا اس کا موڈ پہلے سے کافی حد تک اچھا ہوگیا تھا بس اسکا دھیان شایان رات کے واقعے سے دور کرنا چاہتا تھا اس کو گھورتی أنکھوں سے دیکھا
جی جی تم نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ بہت زیادہ میٹھا ہیں اور تم افففففف کھڑوۓ کریلے کی طرح ہو
نچھلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر ہنسی کنٹرول کر رہی تھی اس کو اب مزا أنے لگا تھا شایان کو تنک کرنے میں اس کا منہ کھولا رھ گیا
اوووو اچھا بٹ میں بہت میٹھا اور بہت پیارا ہوں اگر یقین نہیں أتا تو کس کر کے دیکھ لو
أنکھوں میں شرارت لیے بیڈ پر دونوں ہاتھ رکھ کے تھوڑا اس پر جھکا وہ اپنے دل کی بے تاب ڈھڑکنوں کو قابو میں کرتی پیچھے کسک نے لگی
ش شای شایان میرا ایک کام کرو گٸے
ڈرتی با مشکل بولی کیونکہ عُروشہا چپک کے بیڈ گراٶڈ سے لگ رہی تھی اس کے شایان کے درمیان کم ہی فاصلا تھا اس کی گھبراہٹ دیکھ شایان کے لبوں پر دل فریب مسکراہٹ أٸی
تمھارے سارے کام کر دوگا جو جو بولوں گی بس ایک بار حکم تو کرو
وہ ابھی ایسی اندازہ میں کھڑا تھا اسے کی جھیل سی أنکھوں میں جھانک کر گویا کہ عُروشہا تکیہ اٹھا کر اس کے منہ پر مارا یکدم حملے سے چند فاصلے پر جا پہنچاں
عُرو ایسے کون مارتا ہے وہ بھی اپنے ہونے والےشوہر کو
جھنجھلا کے بولا
میں اور کون
وہ فورا ہامی بھرتی مسکراٸی
مجھے دیر ہو رہی ہے اللہ حافظ ۔۔۔۔۔کمرے سے جانے لگا پھر عُروشہا نے أواز دیں
میرا کام بھی کرکے أنا ۔۔۔۔۔۔ اچھا تمھارا کون سا ایسا کام ہے جو بار بار کہہ رہی ہو
تبیہ نظروں اسے دیکھ کے پوچھا
مجھے ناول خرید کے دو وہ جو نیوں أیا ہے ۔❣️❣️❣️❣️ ❣️فنا ہوۓ تیرے عشق میں ❣️یہ نام ہیں اس ناول کا
کیا یہ تمھارا ضروری کام ہے
شایان کا تو سر چکرانے لگاتھا ایک ہاتھ سر پے مارا
ہاں کیوں تم کچھ اور سمجھ رہے تھے
سوالی نظروں سے اس کے پاس أکے پوچھا
اور کچھ نہیں بس تم لڑکیوں کو ناول پڑھنے سے اخر ملتا کیا ہے بس وقت ویسٹ کرتی ہو یہ وقت اگر گھر کے کام سیکھنے میں لگاٶ گٸی نہ تو یقین مانو اپنی ہونے والی ساس کا دل جیت لوگی پر نہیں
شایان چڑ کے بولا کیونکہ عٰروشہا کا ناول پڑنا اس سے بلکل پسند نہیں تھا
تم اگر نہیں لے کر دیں رہے تو صاف انکار کردو باقی میرے ناولز کے بارے میں میں ایک غلط الفاظ نہیں سُنو گٸی ایک یارم تھا دُبٸ کا ڈیول تھا اس نے روح کے کہنے پر اسکو چھوٹا سا پیارا کُتا لیکے دیا تھا اور ایک تم ہو کہ میرے لیے ایک ناول نہیں لاسکتے
پھر داوۓ عشق کے بھی نہ کیا کرو کہ عُرو میں تم سے عشق کرتا ہوں
عشق تو وہ ہے جو سالار سکندر نے امام سے کیا
تم کیا جانو عشق کےبارے میں
منہ بنا کے وہ ناول کے بارے میں بولنا شروع ہوٸی تو چُپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
اچھا بابا معاف کر دو غلطی ہوگٸی تمھارے ناولز کے بارے میں نہیں بولوں گا اب خوش اوکے واپس أتے ہوۓ لے أٶں گا
عروشہا خوشی میں سر اثبات میں ہلا گٸی کیونکہ اسے ناول جو مل رہا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial