ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5

شام سے لے کے رات ہونے کو تھی یارم ابھی وہی سمندر کے کنارے ایک پتھر کے ٹکڑے پہ بیٹھا تھا مایا بھی اس کے ساٸیڈ والے ٹکڑے پہ بیٹھی تھی بار بار وہ یارم کی جانب دیکھ رہی تھیں کیونکہ وہ بلکل خاموشی سے سمندر کی لہروں کو تک رہا تھا
یارم کچھ ہوا ہے کیا أج سے پہلے میں نے کبھی تمھیں اس طرح خاموش نہیں دیکھا طبیعت تو ٹھیک ہے تمھاری کہیں بخار ٶخار تو نہیں ہوا
یارم کے پیشانی پہ مایا نے جھٹ سے ہاتھ رکھ کے بخار چیک کرنے کیا یارم اسے اپنے لیے فکر میں دیکھ کے اس کے لبوں پے دھمی سی دل فریب مُسکراہٹ ابھر أٸی تھی یارم نے مایا کا ہاتھ اپنی پیشانی سے دور کیا
مایا مجھے کوٸی بخار نہیں ہے بلکہ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا تم خامخواھ میری فکر کر رہی ہو میں بلکل ٹھیک ہوں اور تمھارے سامنے بیٹھا ہوں میں تمھیں کہاں سے بیمار دیکھاٸی دیں رہا ہوں
یارم نرمی سے کہتا اس کی طرف سے نظریں پھیر گیا اس کی بات سے مایا کو کچھ تسلی ملی کہ یارم ٹھیک ہے پھر سے جاکے اپنی جگہ پہ بیٹھ گٸی تھی اسے نے اپنے نازک سے سفید پاٶں سمندر کے پانی میں رکھ لیے تھے
کچھ دیر تک وہ دونوں یوٸی چپ رہے دوبارہ مایا نے تجسس سے یارم کی جانب دیکھتے استفسار کیا
جبکہ تمھاری طبیعت کو کچھ ہوا نہیں تو پھر اتنی گہری خاموشی کیوں اپناٸی ہوٸی ہیں کوٸی بات تو ہے یارم چاہیے تم مجھے نہیں بتاٶں کیونکہ جس یارم کو مایا جانتی ہیں وہ اتنا خاموش طبیعت کا مالک تو نہیں ہیں
سوچ انداز سے اس کی جانب دیکھتی بولی
میں عُروشہا کے لیے پریشان ہوں مایا ۔۔ یارم نے اخر اس کے اتنے اسرار پر اپنے دل میں چپی بات کہی
کیوں عُروشہا کو کیا ہوا وہ ٹھیک تو ہیں مایا فکرمندی سے پوچھنے لگی عُروشہا پیپر کے لیے شہر أتی تھی یارم نے عُروشہا کو مایا سے ملوایا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ایک یونیورسٹی میں پڑھی ہیں جب بھی وہ گاٶں سے شہر پیپر دینے أتی تھی مایا خود اسے ملنے أجاتی
تھی ان دونوں کی أپس میں اچھی خاصی دوستی ہوگی تھیں
اررر بابا وہ ٹھیک ہیں تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے وہ میری نہیں تمھاری بہن ہے ۔۔ اس کے چہرے کی اوڑھی رنگت دیکھ کر یارم مزاقانہ انداز میں کہا تو وہ بچوں کی طرح منہ پھیلاۓ اس کی جانب سے رُخ موڑ کر دوسری طرف کر گٸی تھی
اچھا نہ سوری ادھر تو دیکھوں ۔
دونوں ہاتھ کان میں رکھتے بلاکی معصومیت چہرے پہ سچاۓ بولا ٹھیڑی نظروں سے اسے دیکھا تو مایا کی ہنسی نکل گٸی
جاٶ معاف کیا تم بھی کیا یاد کروں گٸے یارم چوہدری مایا شاہ زویر کو میرا دل بھڑا ہیں
وہ یارم کی جانب دیکھتے اکڑ سے بولی تو یارم اس کے اس انداز پہ اپنی ہنسی دانتوں میں دبا کے رھ گیا
اب بتاٶ گٸے یا میں گھر جاٶں ویسے بھی اب بہت دیر ہوگٸی ہے یار بابا پریشان ہوجاٸیں گٸے اسلیۓ جلدی بولوں جو بولناں ہے
ہممم تو سُنو
پھر یارم نے ولید بخش چوہدری نے جو سزا عُروشہا کو دی وہ ساری بات اسے نے بتاٸی مایا کی تو انکھیں پھٹی رھ گٸی
عُروشہا کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا یارم تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا وہ میری بھی دوست ہیں مجھے بھی اس کی فکر ہیں
مایا یارم سے سامنے کھڑی گھورتی بولی
سوری یار اتنا کچھ ہو گیا کہ میرا دھیان ہی اس بات پہ نہیں گیا مایا سچ میں میرا دماغ کام کرنا بند ہوگیا تھا اسلیۓ میں گاٶں سے یہاں أیا ہوں کیونکہ مجھے بہت زیادہ دادا جان پر غصہ أ رہا تھا
سرد لہجے میں کہا
تم انہیں روکتے نہ اوپر سے عُروشہا اتنی نرم دل کی مالک ہے اس کو سزا نہ دیں ہوتی اور تم اپنے دادا جان کو کیوں نہیں کہتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کتنا غلط ہے
تمھیں کیا لگتا ہے میں نے دادا جان سے نہیں کہا ہوگا میں جانتا ہوں میں اپنی أنکھوں سے بچپن سے دیکھتا أرہا ہو چاہیے وہ غلط فیصلا کیوں نہ کریں اوپر سے وہ مار پیٹ کے وہ اپنا فیصلا منوا لیتے ہیں کیا کروں !
چاہیے جیسا بھی ہے مگر ہیں تو میرا۔۔۔۔۔ یار دادا جان میں بہت پیار کرتا ہوں ان سے اسلیۓ میں چاہتا ہوں کہ انہیں خود ریلاٸز ہو کہ وہ غلط ہے مجھے یقین ہے ایک دن ایسا ضرور أۓ گا بس بہت دیر نہ ہوجاٸیں اس ہی بات کا ڈر ہے اوپر سے عُرو کی پریشانی الگ ہے مجھے
أٸبرو اچکاۓ بالوں کو ہاتھ سے ایک ساٸیڈ پر پھیرتے اسٹاٸل سے سیٹ کرتا تھکے لہجے میں بولا
یارم کیوں نہ تم عُروشہا کو پیپر کے بہانے شہر لے أٶ اس ماحول سے دور رہے گٸی تو خود کو کچھ بہتر فیل کریں گٸی ۔۔ نہیں مایا میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ دادا جان ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں تمھیں بھی دیر ہو رہی ہے میں پہلے تمھیں گھر چھوڑ دو بعد میں گاٶں چلا جاٶں گا
یارم نے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر وقت دیکھا جہاں بہت دیر ہوگٸی تھی اسلیۓ یکدم سے اپنی جگہ سے اٹھا مایا نے اور کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اسلیۓ اس کی بات پر سر ہلا گٸی تھی
رات کے تقریباَ دس بجے کا وقت ہو رہا تھا وہ چت پہ کھڑا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا بلو کلر کی جیٸز سفید کلر کی شرٹ زیب تن کی ہوٸی تھی چاند کی روشنی میں اس کا دودھیا سفید رنگ چمک رہا تھا
ارحام
کسی کی أواز اس کے کان سے ٹکراٸی تو اس نے پلٹ کر سامنے دیکھا جہاں قربان سلطان چلتا ہوا اس کے ساٸیڈ میں أ رکا تھا
اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو نیند نہیں أرہی أج جو یہاں چاند کو دیکھنے میں میرا شیر بیٹا مصروف نظر أ رہا ہیں
قربان سلطان نے ارحام سلطان کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو ایک ہی جھٹکے میں اس نے کندھے سے ہٹایا چت کی دیوار سے ٹھیک لگاۓ دونوں بازٶں باندھے سپاٹ نظروں سے باپ کی جانب دیکھ رہا تھا یا اور کچھ ان کی نظروں میں ڈھونڈہ رہا تھا ارحام کا یوں قربان کا ہاتھ جھٹکنے سے غم زادہ ہوا تھا
ڈیڈ أپ کو أۓ تھنک میرا ایک رات کا جاگنا دیکھاٸی دۓ رہا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے دراصل میری تو دس سال کی عمر میں نیند ہمیشہ کے لیے مجھے الوداع کر گٸی تھی میں اس سے واپس اپنے پاس بولناں چاہتا ہوں لیکن أپ اور دادا جان بھیچ میں کھڑے ہو جاتے ہو
اس کی باتوں کا مطلب قربان اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاھ رہا ہے
ارحام میرے شیر ہم تمھاری نیند کے بھیچ میں نہیں کھڑے میں اور تمھارا دادا جان بس اتنا چاہتے ہیں جو ہوا سو ہوا سب باتوں کو بھول جاٶں ۔۔۔ نرمی سے وہ ارحام کو سمجھانے لگٸے مگر ان کی بات سن اس کے لبوں پہ زخمی مسکراہٹ أٸی تھی أنکھوں میں اچانک غصہ ابھر أیا
أپ دادا جان سب بھول سکتے ہیں مگر میں کبھی نہیں جب تک میں چوہدریوں سے بدلا نہیں لے لیتا تب تک مجھے سکون کی نیند نہیں أۓ گٸی پتا نہیں أپ دادا جان انہیں معاف کیسے کر سکتے ہو أۓ ڈونٹ بلیو می میں أپ دونوں سے کچھ نہیں کہنا چاہتا أپ یہاں سے جا سکتے ہیں
بے رُخی سے کہتا دیوار کے نیچھے جھاکتا اپنا منہ ان سے موڑ گیا
تمھیں جو کرنا ہے کرو اب ہم تمھیں نہیں رُکے گٸے قربان سلطان وہاں سے یکدم نکلتے سیڑھیوں سے اتر رہے تھے کہ سیڑھیاں عبور کرتا ضاور انہیں نظر أیا وہ اس کو نظرانداز کرتا نیچھے چلا گیا تھا
ضاور سیڑھیوں پر کھڑا ابھی جہاں سے قربان سلطان گیا تھا اس ہی جگہ کو تک رہا تھا پھر اپنا خیال جھٹکتے اوپر کی جانب قدم بڑھا گیا
جیسے وہ اوپر أیا ارحام اس ہی پوزیشن میں چت کے نیچھے کے مناظر کو دیکھ رہا تھا جب ضاور نے اسے پکارا
ارحام یہ لو تمھاری فوریٹ کڑکہ بلیک کافی ارحام کو ضاور کے ہاتھ کی بنی بلیک کافی بہت پسند تھی وہ اکثر اس سے بلیک کافی بنانے کا کہتا تھا جو کہ أج بھی اس کے کہنے پر وہ بنا کے لیکر أیا تھا وہ دو بلیک کافی کے کپ تھے جو ضاور چلتا ہوا ٹیبل کی جانب کپ رکھتے خود ارحام کی جانب متوجہ ہوا اس کے بولانے سے بھی اس نے کوٸی در عمل ظاہر نہیں کیا تھا وہ اس کے روبرو کھڑا تھا اس کو جاچتی نگاہوں سے دیکھنے لگا
انکل نے کچھ کہا ہے
اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھتے پوچھا جہاں اس کے تاثرات سخت دیکھاٸی دیے
ڈیڈ دادا جان کو مجھ سے صرف ایک ہی بات کا ذکر کرنا ہوتا ہے کہ چوہدریوں کو معاف کردو ازیت تکلیف کیا ہوتی ہے انہیں شاید پتا نہیں اسلیۓ وہ ایسا کہتے ہیں ضاور تم میرے اچھے دوست کے ساتھ بزنس پاٹنر بھی ہو کیا تمھیں بھی ایسا لگتا ہے
ناجانے ارحام کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ ضاور کو سمجھ نہیں أیا اخر اسے جواب کیا دو کیونکہ نہ تو وہ غلط انسان تھا بلکہ بہت اچھا انسان تھا مگر جب چوہدریوں کی بات أتی تو وہ ہر حد پار کرنے کو جی جان لگا دینے کو تیار تھا
یار یہ باتیں تو ہوتی رہے گیٸ پہلے چل کر کافی پیتے ہیں ورنہ ٹھنڈھی ہوجاۓ گٸی
ارحام سے نظریں پھیرتے وہ جاکے کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا وہ بھی چپ چاپ دوسری کرسی پر بیٹھ گیا دونوں کافی پینے میں محو ہوگٸے تھے جب ضاور کے دل میں کچھ سوال تھے جن کا جواب ارحام سلطان کے پاس تھا وہ اس کشمکش میں ڈوبا تھا کہ پوچھو یا نہیں ٹھیڑی نظریں اس پے گاڑے ہوا تھا
کچھ پوچھنا چاہتے ہو
اچانک ارحام کے سوال پر وہ چونکا پھر سر ہاں میں ہلایا
پوچھو
تم نے اس پولیس والے پہ یقین کیسے کر لیا کیا گیرنٹی ہے کہ وہ اپنی کہی بات سے نہیں مکرے گا أخر ہے تو اس ولید بخش چوہدری کا ہی أدمی جن کی رگ رگ میں فریب نظر أتا ہے
ضاور نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے دل کی بات کہہ دیں وہ اس کے سوال پر دھیمہ سا مسکرایا
ہممم سہی کہا تم نے ضاور کہ افسد ولید بخش چوہدری کا پالتوں کُتا ہے لیکن تم ایک بات بھول رہے ہو کہ ارحام سلطان کوٸی کام کچا نہیں کرتا جہاں تک ایسے انسانوں کو میں جانتا ہوں تو وہ اپنی جان بچانے کےلیے اپنے وفادار شخص سے بھی غداری کر سکتا ہیں
ہمیشہ کی طرح سرد لہجے میں کہتا کافی کے گھونٹ کو حلق میں اترانے لگا
ہاں لیکن وہ ہمھیں بھی تو دُھوکا دۓ سکتا ہیں
ناجانے کیوں پر ضاور کو افسد جیسے انسان پر چاھ کر بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا
اتنی کسی میں ہمت نہیں جو کوٸہ ارحام سلطان کو دُھوکا دیں سکیں پھر بھی تمھاری تسلی کے لیے بتا دو یہ دیکھو
ارحام نے ٹیبل سے لیپ ٹاپ اٹھایا اس کی اگُلیاں لیپ ٹاپ کے بٹن پر چلنے لگٸی کچھ وقت کے بعد اس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین کی جانب اشارہ کیا جہاں پولیس اسٹیشن کی لاٸوے ویڈیو چل رہی تھی
جہاں صاف نظر أرہا تھا۔کہ افسد بہت پریشانی کی حالت میں ماتھے پر سر دیۓ بیٹھا تھا
واٶ یہ کب کیا
خوشی سے جلکتے حیران کن انداز میں بولا
کہا تھا نہ کہ ارحام سلطان کے لیے دنیا کا کوٸی کام کرنا مشکل نہیں ہے جب میں افسد سے بات کر رہا تھا تب ہی میں نے اپنے خاص أدمی کو کہہ کر وہاں چوہداری طرف کمیرا لگانے کا اشارہ کیا تھا سب باھر تھے اندر تم میں افسد اور میرا وہ خاص أدمی تھا
ایک أٸبروں اچکاۓ اس دیکھتے ساری تفصیل بتاٸی
گڈ باس مانا پڑے گا أپ کو ۔۔ضاور نے ایک أنکھ ونگ کرتے کہا
گڈ ناٸٹ میں کمرے میں جا رہا ہوں تمھیں کچھ اور پوچھنا ہے تو ابھی بتاٶں
ارحام کرسی کو پیچھے سے دکھیلتے اٹھا کھڑا ہوا تھا پر جاتے ہوۓ ضاور کے طرف پلٹتے کہا وہ مسکراتے نفی میں سر ہلا گیا
جیسے وہ اپنے کمرے میں أیا الماڑی کی جانب لپکا الماڑی میں بند تعجوری تھی اگُلیوں سے حرکت کرتے پاسورڈ کھولنے لگا تھا
جب وہ کھول گیا اس میں کچھ چیزیں تھی البم فوٹو کا تھا اور کچھ دی گر چیزیں جیسے ہاتھ میں البم اٹھایا اور کھول کے ایک ایک تصویر دیکھنے لگا اچانک اس وجہیہ مرد کی پلکوں میں غمی اپھر أٸی کوٸی اسے اس طرح دیکھتا تو یقین کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی وحشت روعب سے لوگ ڈر جاتے ہیں
أپ کا بدلا میں ان چوہدریوں سے لے کے رہوں گا چاہے دادا جان ڈیڈ کتنی بھی کوشش کریں میرے دل کو موم کرنے کی مگر کر نہیں پاۓ گٸے
جس طرح أپ روٸی تھی اسی ہی طرح انہیں رلاٶں گا جس طرح أپ تڑپی تھی اس طرح انہیں تڑپاٶں گا
جس طرح انہوں نے أپ کے أنسوٶں کی قدر نہیں کی اس طرح انہی کے أنسوں روندہ دو گا میرا أپ سے وعدہ ہے أپ دیکھتی جاٸیے گا ولید بخش چوہدری تمھیں أپنے راج پاٹ سے بہت محبت ہیں نہ اس کے دم پہ تم مظلوموں کو اپنی جوتی کے برابر سمجھتے ہو نہ
ارحام سلطان یہی تمھاری پیاری چیز بہت جلد تم سے چھینے گا
کچھ وقت پہلے جو أنکھیں نم تھیں أب انہیں أنکھوں میں بدلے کی أگ جل رہی تھی۔۔
صبح کے وقت سب ہی ناشتے میں موجود تھے أج عُروشہا بھی سب کے ساتھ مل کر ناشتہ کر رہی تھی اس رات کے بعد ولیدبخش چوہدری نے عُروشہا کو کچھ نہیں کہا تھا لیکن وہ اس سے أہنکار سے دیکھتا تھا
خاموش ماحول میں سب نے ناشتہ کیا أہستہ سب ہی اپنے کام پر چل پڑے شاہدہ بیگم کچن میں خالی برتن لے گٸی تھی ممتاز بیگم بھی برتن سمیٹ رہی تھی عُروشہا جب اپنے کمرے کی طرف رُخ کیا تو ممتازبیگم اس کے سامنے أ کھڑی ہوٸی تھی
تم جیسا سوچ رہی ہو ایسا میں ہونے نہیں دوگٸی
سخت لہجے میں ممتاز بیگم نے عُروشہا کو دیکھ کے کہا تھا و نہ سمجھی میں ممتاز بیگم کودیکھنے لگٸی
ہوا کیا ہے چچی جان میں سمجھی نہیں اپ کہنا کیا چاہتی ہیں
أٸبرٶں اچکاۓ ڈوپٹے کو سر پہ رکھ رہی تھی جو کہ اسکا ڈوپٹہ صیفون کا تھا اسلیۓ اس کے سر پر ٹک ہی نہیں رہا تھا بار بار سیٹ کر رہی تھی بلو کلر کا سوٹ چوڑیدار پچامہ پہنا ہوا تھا دودھیا سفید رنگ بلو رنگ پر کھل اٹھا تھا
یہ بھولے بننے کا ناٹک میرے ساتھ نہیں کرو میں تمھاری چال بازی میں
پسنے والی نہیں ہوں اور تم کیا سمجھتی ہو کہ جو تم چاہو گٸی ویسا ہوگا تم میرے بیٹے کو اپنی جال میں پسانے میں کامیاب ہو جاٶ گی
ممتاز بیگم منہ سے زہر اگلتی ہولیں ابھی بھی عُروشہا سمجھ نے کی کوشش میں تھی کہ ممتاز بیگم أخر کیا کہنا چاہتی ہے اور اس کی باتوں کا کیا مطلب ہے
چچی جان أپ کیا کہہ رہی ہیں سچ میں مجھے کچھ سمجھ نہیں أ رہا أپ کو جو کہنا ہے صاف کہیں میرے پیپر اسٹاٹ ہونے والے ہیں مجھے ان کی تیاری کرنی ہے
تم جو خواب سجاۓ بیٹھی ہو میری بہو بننے کے وہ میں کبھی پورے ہونے نہیں دوگٸی میرے بیٹے کو پیاری میٹھی باتیں کر کے تمھیں نے اسے پاگل بنا دیا ہیں تمھارے لیے سب کے خلاف جاکے تم سے شادی کرنا چاہتا ہے ایسا کون سا جادو کیا ہے تم نے میرے بیٹے پر کہ وہ اپنی ماں کی بات تک سننے کو تیار نہیں ہیں
ممتاز بیگم نفرت کی سب حدیں پار کر ہی گٸی تھی
جیسے ممتاز بیگم کی باتوں کا مطلب سمجھ أیا وہ بے یقینی کی علم میں ممتاز بیگم کو دیکھ رہی تھی کتنا زہر تھا ان کی باتوں اور لہجے میں جو عُروشہا کو اندر سے گھایل کر گیا تھا اس کی چچی جان اتنی گھٹیا لڑکی سمجھتی تھی اس سے أج اس کی أنکھوں سے پھٹی ہٹھی تھی اس کو تو یہ لگتا تھا کہ اسے صرف ولید بخش چوہدری اس کا چچا جان سجاد اور سگا باپ ہی نفرت کرتے ہیں مگر أج اس نے ممتاز بیگم کی باتوں نے اس کی روح پہ گہرے زخم دیٸے تھے
چ چ چچچچی جان أپ غلط سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے ہاں یہ بات سچ ہے کہ میں اور شایان ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں مگر میں نے اس سے جال میں پسایا نہیں ہیں
خود أپ کے بیٹے نے مجھے کہا ہے وہ بھی ایک بار نہیں ہزار مرتبہ کہ عُرو میں تم سے عشق کرتا ہوں اگر أپ کو مجھ پر یقین نہیں أرہا تو أپنے بیٹے سے جاکے پوچھ لیں
وہ اپنے أنسوٶں کا گلا گھوٹ دینا چاہتی تھی
اس وقت کیونکہ ممتاز بیگم کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی اس کا دل ٹوٹا تھا مگر خود کو مضبوط دیکھا رہی تھی بھاگتی سیڑھیاں عبور کرتی جاکے کمرے میں دروازہ کھول زور سے بند کیا دروازے کو ٹیک لگاۓ وہی کسکتی زمین پر بیٹھی چہرے کو ہاتھوں میں چپاۓ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگٸی تھی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial