ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 6

رو رو کے اس نے اپنا بُرا حال بنا لیا تھا شدید رونے سے اس کی چھوٹی سی ناک لال ہو رہی تھی بار بار اسکو ممتاز بیگم کے زہریلے الفاظ کان میں گونج رہے تھے بیڈ پہ اندھے منہ لیتی چہرہ تکیہ میں چپاۓ ابھی بھی رونے کا مشغولا فرما رہی تھی
عُروشہا نیچھے أٶ کچن میں میرا ہاتھ بٹواٶں
شاہدہ بیگم دروازے کے باھر کھڑی کہہ رہی تھی مگر ابھی بھی وہ رونے میں لگی تھی
عُروشہا تم سن رہی ہو نہ کہ میں تم سے کچھ کہہ رہی ہوں
اندر سے جواب نہ ملنے پر شاہدہ بیگم تھوڑا سختی سے کہا
جی امی بس پانچ منٹ میں أٸی أپ چلیں میں أ جاٶں گٸی تکیہ سے منہ نکال کے جواب دیا
عُرووشہا تمھاری أواز کو کیا ہوا ہے طبیعت ٹھیک ہیں نہ تمھاری دروازہ کھولوں
شاہدہ بیگم کو اس کی أواز بھیگی لگی منکرمندی سے پوچھا
میں ٹھیک ہوں امی وہ بس تھوڑا سا سر میں درد ہے دواٸی لی ہیں أرام کروں گٸی تو ٹھیک ہو جاٶں گٸی أپ میری فکر نہیں کریں۔۔۔
وہ شاہدہ بیگم کو پوری طرح مطمٸن کرنا چاہتی تھی اسلیۓ تسلی دی
شاہدہ بیگم سمجھ گٸی تھی کہ کچھ تو ایسا ہوا ہے جو یوں کمرے میں بند ہوگٸی ہے صبح سے دوپہر ہو رہی تھی اسے یہ بات زیادہ کٹکی تھی
عُروشہا ماں سے کتنا بھی ناراض ہوجاتی فوراً دروازہ کھول دیتی تھی أج اگر اس کی طبیعت بھی ٹھیک ہے جیسے کہ وہ کہہ رہی ہے پھر بھی دروازہ کیوں کھول نہیں رہی شاہدہ بیگم کشمکش میں ڈوبی تھی
عُرو أگر تمھای طبیعت بلکل ٹھیک ہیں تو پھر دروازہ کھول میں خود اپنی أنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمھاری واقعی میں طبیعت سہی ہے یا پھر صرف اپنے ماں کو جھوٹی تسلی دینے کے لیۓ ایسا بول رہی ہو
وہ تو ایک ماں تھی اولاد چاہیے جتنی کوشش کر لے پتا نہیں اللہ پاک نے ماٶں کو ایسی کونسی از غیبی طاقت سے نوازہ ہے کہ انہیں اولاد کا معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے
امی پلیزز جاٸیں نہ أپ میں ٹھیک ہوں ویسے بھی أپ کو کچن میں کام ہے
بی بی جی أپ کو راشد صاحب کمرے میں بلا رہے ہیں
شاہدہ بیگم عُروشہا کےکمرے کے باہر کھڑی اس کی فکر میں نڈھال ہو رہی تھی کہ زیبی نے أکے اطلاح دی
عُرو میں زیبی کے ہاتھوں جوس بھیجواں رہی ہوں وہ پی کر أرام کرنا
شاہدہ بیگم ریبی کو اس کے لیے کچن میں سے جوس لانے کو کہا اور خود اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸی تھی
دروازہ کھول کر جیسے شاہدہ بیگم کمرے کے اندر داخل ہوٸی تھی راشد چوہدری کرسی پہ بیٹھے زمینوں کے کام میں مصروف تھے
کتاب میں زمینوں کا حساب کتاب لکھ رہا تھا
جی أپ نے بلایا
شاہدہ بیگم شوہر کے سامنے کھڑی ہوتی کہا
شام کو دادا جان کے کچھ خاص مہمان أرہے ہیں ان کے لیے کھانے پینے میں خاص انتظام کرنا ہے اور ہاں دھیان رکھنا کہ کسی بھی چیز کی ان کی قدمت میں کمی نہیں ہونی چاہیے
راشد چوہدری بیوی کی جانب بینا دیکھتے کہا ان کی بات سن شاہدہ بیگم کے رونٹھے کھڑے ہوگٸے تھے
وہ دل میں اللہ پاک سے دعا گھوہی کرنے لگٸی تھی کہ جس بات کا انہیں ڈر ہے اللہ نہ کریں کہ وہ سچ ہو
شاہدہ بیگم کو گم سم کھڑا دیکھ راشد چوہدری کام سے نظر ہٹاۓ اپنی بیوی کو دیکھا جو بُت بنی کھڑی تھی اس کے چہرے سے پریشانی صاف انہیں نظر أرہی تھی
سُنا بھی ہے جو میں نے کہا یا پھر بس خیالوں میں گم ہو
سرد لہجے سے کہتا وہاں سے اٹھ کر کتاب لیے کمرے سے باہر چلاگیا شاہدہ بیگم نے شوہر کی بات میں سر ہلایا
کون لوگ ہیں اور کیوں أرہے ہیں کیاجو میں سوچ رہی ہوں یہ وہ لوگ تو نہیں ہے نہیں نہیں میں بھی شاید کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں ایسا بھی تو ہوسکتا ہے وہ سب میرا وحم ہو
وہ خود سے ہمکلامی ہوٸی تھی اور یکدم اپنے خیال کو اس در پر چھوڑا کہ ایسا نہیں ہوگا اپنے من کے خیال کو جھٹکتے کچن کی طرف بڑھ گٸی تھی کیونکہ اسے أج بہت کام تھا اوپر سے عُروشہا کے لیے فکرمند ھی تھی جلد سے جلد وہ کچن کا کام نپٹا کے اس کے پاس جانے کا ارادہ رکھتی تھی
یہ لڑکا فون کیوں نہیں اٹھا رہا کچھ ماں کا ہی خیال کرتا نہیں ایسے ہی پتا نہیں کہاں چلا گیا ہے مجھے پرشانی میں چھوڑ کے چلا گیا یا اللہ پاک سب خیر ہو جب سے گیا ہے تب سے فون کیۓ جا رہی ہوں لیکن مجال ہے جو ایک بار فون اٹھاۓ
ممتاز بیگم کی جب سے شایان سے بات ہوٸی تھی تب سے وہ گھر پر موجود نہیں تھا پورا ایک دن گزر گیا تھا مگر نہ تو وہ گھر أ رہا تھا اور نہ ہی کال اٹھا رہا تھا ممتاز بیگم اپنے کمرے میں پریشانی میں چکر لگا رہی تھی
اس کی فکر میں تڑپ رہی تھیں کہ کس حال میں اور کہاں ہوگا
کمرے سے نکلتی جب وہ نیچھے أرہی تھی تک اسے اسٹور روم جو اکثر ترین بند ہوتا تھا کھولا نظر أیا اپنے قدموں کا رُخ اس طرف کرگٸی تھی
جیسے وہاں پہنچھی اسٹور روم کا تھوڑا سا دروازہ کھولا تھا اندر جھانکا اپنے شوہر کی کرتوتے دیکھ رہی تھیں
حویلی کی ملازمہ کے بہت قریب کھڑا تھا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے محبت بری باتیں کرنے میں مصروف تھا اور وہ ملازمہ بھی خوش ہورہی تھی سجاد کی بے تاب باتوں سے وہ اسے دیوار سے لگاۓ کھڑا تھا کہ اچانک دھاڑ سے دروازہ کھول کر ممتاز بیگم اس کے روبرو کھڑی ہوتی انہیں گھورنے لگٸی تھیں
بجلی کے کرنٹ کی اسپینڈ سے وہ ملازمہ سجاد سے دور ہوٸی تھی اور اپنا حلیہ ٹھیک کرتی نظریں ممتاز بیگم سے چوراتے باہر نکلتی چلی گٸی
سجاد چوہدری نے بیوی کا چہرہ دیکھا جہاں ان کا غصہ ساتوے أسمان کو چھو چکا تھا اسے کہاں فرق پڑتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے یاسوچے وہ چونکا اسلیۓ تھا کہ وہ اچانک اندر داخل ہوٸی تھی
اس طرح کیا گھور رہی ہو اپنی نظریں نیچھیں رکھو شوہر ہوں میں تمھارا ایسے گھور رہی ہو کہ قتل کردوگٸی ۔۔۔سرد لہجے میں غرایا تھا
أپ کو مجھے یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ أپ شوہر ہے میرے لیکن یہ أپ شاید بھول رہے ہیں کہ أپکی ایک بیوی اور بیٹا بھی ہیں
وہ بیٹا جو پتا نہیں کہاں ہے کس حال میں ہیں ایک دن سے اسکا کچھ اتا پتا نہیں مسلسل فون کیۓ جا رہی ہوں کبھی کال جاتی ہے تو اٹھاتا نہیں ہے کبھی اس کا نمبر بند جاتا ہے أپ کو اپنے ان کاموں سے فرست ملے تو زرا بیٹے کو دیکھ لیں
ممتاز بیگم تلخ دار لہجے میں بولیں کیونکہ وہ عادی ہوگٸی تھی شوہر کی مار پیٹ اور غیر عورتوں سے تعلق دیکھ کے ان کی زبان پر ہر وقت تلخ جملات ہوتے تھے
یہی کہی کسی دوست کے گھر گیا ہوگا تم خامخواھ بات کو بھڑا رہی ہو ۔۔۔سنجیدگی سے کہا ان کے چہرے پر کہیں بھی بیٹے کے لیے فکر نہیں تھی
أپ ایک بار اس کے دوستوں سے پوچھو میرا دل بیٹھا جا رہا ہے ۔۔۔۔
ممتاز بیگم بیٹے کی فکر میں نڈھال ہوگی تھی بس رونے کو تھی اب مانو جیسے
اچھا ٹھیک ہے تم ایسے فکر کر رہی ہو جیسے وہ کوٸی تین سال کا چھوٹا بچہ ہو۔۔
سجاد کا انداز بلکل جزبات سے عاری تھا ممتاز بیگم اور بحث نہیں کرنا چاہتی تھی شوہر سے اسلیۓ نفی میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گٸی تھی
شام ہو رہی تھی عُروشہا اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی کیونکہ وہ ممتاز بیگم کو دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی رو نے سے جب اس کے دل کا سارا غُبار نکل گیا تو وہ اٹھی اور واشروم میں بند ہوگٸی تھی
جھیل سی أنکھیں شدید رونے سے سرخ ہورہی تھیں
امی عُرو کہی نظر نہیں أرہی اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے
یارم جب سے گھر أیا تھا ناشتے کے بعد عُروشہا کو کہیں نہیں دیکھا تھا اسے ڈھونڈتے ہوٸیں کچن میں چلا أیا جہاں شاہدہ بیگم تمام مختلف کھانے کی چیزیں بنانے میں محو تھی شاہدہ بیگم نے یارم کے سوال پر اس کی جانب دیکھا
اپنے کمرے میں صبح سے بند ہے
شاہدہ بیگم نے مختصر جواب دیا پھر کام کی جانب متوجہ ہوٸی تھی
امی اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے کہیں پھر سے دادا جان نے کچھ کہا ہے اس سے ۔
یارم نے شاہدہ بیگم کو دیکھ کر تجسس سے پوچھا تھا
بیٹا معلوم نہیں دروازہ بھی بند کر کے بیٹھی ہیں طبیعت کا پوچھا تو بس اتنا کہا کہ میرے سر میں درد ہے تم جاکے دیکھ لو گٸے اسے میں یہاں کا کام نپٹاکے پھر جاٶں گی اس دیکھنے
أپ پریشان نہیں ہو امی اس کے سر میں درد ہوگا اسلیۓ أپ کا دروازہ نہیں کھولا میں دیکھ کے أتا ہوں ۔۔شاہدہ بیگم اثبات میں بس سر بلایا
یارم عُروشہا کے کمرے کے باہر نوک کیا
عُرو کیا میں اندر أسکتا ہوں
کمرے کا دروازہ کھولا ہوا تھا یارم نے اجازت لینا ضروری سمجھا الماڑی میں کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی کہ یارم کی أواز پر نظر اٹھاتے دروازے کی جانب دیکھا
لالا أپ کو مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے أپ اندر أٸیں
عروشہا کے ہاتھ میں کچھ تھا بیڈ پر رکھا چہرے پر ہلکی مسکان سجاۓ بولی تو وہ مسکراتا بیڈ پہ بیٹھا اسے بھی اشارہ کیا اپنے ساٸیڈ میں بیٹھنے کا جھوٹی مسکراہٹ چہرے پے سجاۓ وہ بیٹھ گٸی
عُرو تمھارے سر میں اگر درد تھا تو مجھے کال کر لیتی میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا
بڑے پیار سے اس کے گال تپھتھپاتے کہا
لالا اتنا بھی سر درد نہیں تھا کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی نویت ہو اسلیۓ أپ کو نہیں بتایا میرا موباٸل پانی میں گر کے خراب ہوگیا ہے
یارم سے نظریں پھیرتی بولی چہرے پہ اداسی چھاٸی ہوٸی تھیں
دادا جان نے کچھ کہا ہے یا کوٸی اور بات ہے جو تم مجھ سے چپا رہی ہو ۔۔۔ یارم اس کی اداسی فوراً پہچان گیا تھا نہیں لالا دادا جی نے کچھ نہیں کہا لالا أپ میری بے وجہ فکر کر رہے ہیں میں ایک دم ٹھیک ہوں پہلے سر میں درد تھا دواٸی لی اور سو گٸی تھی تو اب پہلے سے بہتر فیل کر رہی ہوں
تسلی سے یارم کو دیکھا کھلکھلاتے کہا تو وہ اپنی بہن کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اپنے اندر تک سکون محسوس کیا تھا
عُرو تم کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتی لاپراھ ہوتی جا رہی ہو دیکھوں کیسے سوکی لکڑی ہوگٸی ہو
اسے چھیڑتے کہا اس کی بات سے عُروشہا شاکت ہوگٸی تھی منہ کھولے وہ یارم کو تکنے لگٸی
کیا لالا میں سوکی لکڑی صدمہ سے اس کی زبان مانو بولنا بند ہوگٸی تھی
اس کی حالت سے لطف انداز ہوتا یارم ہنسی دانتوں میں دبانے کی پرپور کوشش کر رہا تھا
ہمممم ہاں عُرو سچ میں تم بچپن میں موٹی ہوتی تھی رُکو میں تمھیں تھمارے بچپن کی تصویریں دیکھتا ہوں
مزاقانہ انداز میں کہتا اپنے کمرے میں گیا الماڑی سے بھڑا سا البم اٹھا کر دو منٹ نہیں گزرے تھے کہ وہ واپس عُروشہا کے کمرے میں اس کے سامنے أ بیٹھا وہ اس ہی طرح بیٹھی اسے نظر أٸی تھی جیسے وہ چند منٹ پہلے یہاں سے اپنے کمرے میں گیا تھا
یارم نے البم کھولا اور ایک تصویر پہ اگلی رکھی جو کہ پانچ سال کی موٹی سی بچی کی تھی جس کے ہاتھ میں ڈھیر ساری کینٹین ایک ہی ساتھ منہ میں ڈال رہی تھی
عُرو تمھارے بچپن کی تصویر اس میں تم موٹی ہو اور اب دیکھو خود کو سوکی لکڑی کی ماند بن گٸی ہو
اسے نے یارم کے ہاتھ سے البم لیا وہ بڑی حسرت سے تصویر کو دیکھتی مسکراتی رہی کبھی تصویر کو چھونے لگی تو کبھی یارم کی جانب دیکھ مسکراتی اب مانو وہ دل سے مسکراٸی تھی ورنہ یارم کو دیکھ بس ایک فریبی مسکراہٹ سجاۓ ہوٸی تھی
لالا یہ میں ہوں
کھلکھلاتی یارم کی اور دیکھ کہا
ہاں یہ میری پیاری گول مول پرنسسز ہیں کتنے چھوٹے ہاتھ ہیں تمھارے اور اس تصویر میں تم امی سے ناراض ہوکے بیٹھ گٸی تھی
ایک ایک تصویر یارم اسے دیکھا رہا تھا کبھی وہ منہ پھولاۓ بیٹھی تھی تو کبھی کھیلونوں سے کھیلتی نظر أٸی البم کھولتی جا رہی تھی اس کا پورا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا تھا مانو جیسے بچپن کی وادیوں میں پھر سے چلی گٸی تھی ممتاز بیگم کی باتیں جیسے اب وہ بھول گٸی تھی
لالا أپ اور شایان ہو یہ
ایک تصویر پر اگلی رکھتے اسے نے یارم کی جانب دیکھ کر بولی
ہاں شایان میں ہر اچھے بُرے کام میں ایک ساتھ ہوتے تھے بچپن میں بہت مرتبہ ہمھاری لڑاٸی بھی ہوٸی تھی کبھی میں کہتا تھا کہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرنا تو کبھی شایان ایسا کہتا تھا لڑتے جھگڑتے مناتے ناجانے وقت کیسے گزر گیا پتا ہی نہیں چلا اور ایسے ہم بڑے ہوگٸے
یارم بچپن کی یادوں میں کھو گیا تھا اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب اس کی أنکھوں میں نمی اتر أٸی عُروشہا غور سے یارم دیکھ مسکراتی رہی
لالا أپ رو رہے ہیں
اس کی أنکھیں نم دیکھ فکرمند سے پوچھا
نہیں پگلی بس بچپن کی یادیں اتنی انمول و خوبصورت ہوتی ہیں کہ جب وہ مناظر یاد أجاتے ہیں خد بہ خد أنکھیں خوشی سے بھر أتی ہیں
یارم نم أنکھوں کو صاف کرتے بولا عُروشہا کی بھی أنکھیں نم ہوٸی بھاٸی کی باتوں سے وہ یوٸی بہت دیر تک البم میں تصویریں دیکھتے خوش ہوتے رہے بچپن کی یادوں میں اتنے کھوۓ ہوۓ تھے کہ انہیں وقت کے گزرنے کا علم ہی نہیں ہوا تھا
جن مہمانوں کا انتظار تھا صحن میں کرسیوں پہ پراجمان تھے ولید بخش چوہدری کرسی پہ اپنے روعب دار اندازہ میں بیٹھا ہوا تھا راشد چوہدری سجاد چوہدری بھی ان کے داٸیں باٸیں والی کرسیوں پر پراجمان تھے ممتاز بیگم شاہدہ بیگم دونوں اپنے شوہر کی کرسی کی ساٸیڈ پر کھڑی تھیں
ولید بخش چوہدری کے اصولوں میں سے یہ بھی ایک اصول تھا کہ جب کوٸی گھر کا مہمان أتا تھا تو ان کے بیٹے بھڑے شان سے بیٹھے ہوتے اور ان کی بیویاں کھڑی ہوتی تھی جیسے کوٸی غلام اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہوتا ہے ویسے ان کی بیویوں کو کھڑا ہونے کا حکم تھا ولید بخش چوہدری کا کہنا تھا کہ عورت کبھی مرد کی برابری نہیں کر سکتی عورت ہر لحاظ سے مرد سے پیچھے رہے
معاشرے کے کچھ مرد کہتے ہیں عورت ہمیشہ مرد کی براری کرتی ہے میرے لحاظ سے عورت نے کبھی بھی مرد کی برابری کرنے کا سوچا ہی نہیں ہے وہ تو بس اپنے حق کے لیے أواز اٹھاتی ہے اور اس اواز کو لوگوں نے درجہ یہ کہہ کر دیا کہ عورت مرد کی براری کرتی ہے مگر سچ تو یہ ہے عورت نے کبھی مرد کے برار کھڑے ہونے کا سوچا تک نہیں ہے
جو مہمان أۓ تھے اچھی خاصی عمر کی ایک خاتون تھی انکا شوہر اور بیٹا تھا وہ لڑکا اپنے باپ کی عمر سے تھوڑا کم عمری تھا رشتہ کر والنے والی عورت تارہ بھی تھی
چوہدری سردار جی یہ تو ہمھاری خوش نصیبی ہے کہ أپ ہمھارے گھر سے رشتہ جوڑ رہے ہیں أپ نے اپنی پوتی کے لاٸق میرے بیٹے کو سمجھا
بات کا أغاز لڑکے کے باپ نے کیا ولید بخش چوہدری کو دیکھ خوشی سے کہا اس أدمی کی أنکھوں میں لالچ ٹپک رہی تھیں
ہممم جس سے ہم بات کریں وہ خوش نصیب ہی ہوگا اور یہ موقع ہم چند ہی لوگوں کو دیتے ہیں
ولید بخش چوہدری کے الفاظ کہتے وقت بھلا کا غرور تھا عیش و عشرت میں وہ اندھا ہوکر غرور کر رہا تھا غرور تو رب کی ذات پر جچتا ہے ہم مٹی کے انسانوں کو تو یہی غرور مٹی میں لے ڈوبتا ہے
نکاح کی پھر کون سی تاریخ رکھیں چوہدری سردار کیا کہتے ہیں أپ
اب یہ عورت نے جلد بازی کرتے کہا شاید اس لڑکے کی ماں تھی دنیا کا أٹھواں عجوبہ دیکھنے میں لگا تھا ان کے انتظام کے لیے فروٹ سموسہ جوس اور بھی بہت سی چیزیں ٹیبل پر ان کے لیے رکھی گٸی تھیں
کبھی فروٹ کبھی سموسہ جوس جو جو جیزیں ٹیبل پر تھی وہ کھانے میں لگا ہوا تھا وہ نارمل انسان کی طرح ن حرکتیں نہیں کر رہا تھا اس کی ماں بار بار اسے چپ کرکے بیٹھنے کا کہہ رہی تھی مگر وہ پھر دو منٹ کے بعد وہی در عمل کرتا تھا
ن نکاح کس کا اور کس سے
راشد نے شاہدہ بیگم کو کچن میں کیر لانے کا کہا تھا اسلیۓ اسے کی غیر موجودگی میں جو باتیں ہوٸی تھی ان سب سے بے خبر تھی کچن سے نکلتے وقت ان سب کے پاس أنے سے اس نے نکاح کا نام سُنا اور کچھ نہیں ٹیبل پر کیر رکھ کے من میں زیر لب بڑبڑاٸی اور نہ سمجھی میں شوہر کی جانب دیکھا
پرسو جمعہ کے دن نکاح رُخصتی کے ساتھ
ولید بخش چوہدری مونچھوں کو گول کرتے کرسی سے یکدم اٹھ کھڑا ہوا تھا اور سب بھی کرسی سے اٹھیں تھے
جیسے أپ کا حکم چوہدری سردار أپ فکر نہیں کریں گا ہم أپ کی پوتی کو بہو نہیں بیٹی بنا کر رکھے گٸے
لڑکے کی ماں نے خوشی سے کہا لڑکے کے ماں باپ کا توخوشی سے سانس پھولا جا رہا تھا اخر ہوتا ایسا کیوں نہیں ان کے پاگل بیٹے کے لیۓ چوہدری پوتی دینے رہا تھا وہ بھی امیر جس کے أنے سے وہ مالا مال ہو جاۓ گٸے
ان کے الفاظ شاہدہ بیگم کے سر پر بم پھوڑا تھا کتنا وقت لگ انہیں سب کچھ سمجھنے میں لڑکے کی جانب دیکھا ان کی أنکھیں بیٹی کے لیۓ أنسوں أگٸے تھے
کتنے پتھر دل کے لوگ تھے وہ بھی اس کے سگے رشتے ولید بخش چوہدری جلد از جلد عُروشہا نامی بھلا کی مُصیبت سر سے اتار پھینک دینا چاہتا تھا وہ جلدی اسلیۓ کر رہا تھا کیونکہ ارحام سلطان نے پنجاٸیت میں عُروشہا کو دیکھ دل جلانے والی مسکراہٹ سے ان کے دل کے اندر خوف پیدا کردیا تھا ان کو ڈر تھا کہ کہیں عُروشہا کی وجہ سے اس کا گاٶں والوں پہ راج ختم نہ ہوجاۓ
یارم عُروشہا خوشگواری موڈ میں بچپن کی یادوں میں اس قدر مگن تھے کہ نیچھے أۓ مہمانوں کی أمد سے بےخبر رہے
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial