ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7

سب کچھ طعے کرنے کے بعد مہمان حویلی سے جانے لگٸے ہی تھے جب اندر أتے شایان کی نظر ان عجیبوں و غریب لوگوں پر گٸی تھیں ولید بخش چوہدری سجاد راشد جیسے ان سے باتیں کر رہے تھے اس کا شک یقین میں بدلا کہی نہ کہی اسے ممتاز بیگم کی باتوں پر شک تھا کہ عُروشہا کے رشتے کولیکے وہ ایک امید جو اسے کھونے کی تھی لگتا تھا وہ بھی اس نے کھو دی تھی
اس کا حلیہ بہت بُرا تھا بال ماتھے پر جھول رہے تھے شرٹ کے اوپر والے بٹن کچھ کھولیں ہوۓ تھے شدید رونے کی صورت میں أنکھیں سرخ ہو رہی تھیں منہ سے سگریٹ کی بدبُو أ رہی تھی ایسے حلیہ میں کوٸی اس سے دیکھ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ پہلے والا شایان ہے وہ کہی سے بھی پہلے والا شایان چوہدری نہیں لگ رہا تھا سب نے اسے نظرانداز کیا وہ مہمان چلے گٸیں تھےممتاز بیگم دوڑتی شایان کے پاس أٸی
شایان بیٹا کہاں تھے تم میں تمھیں لیکر کتنی پریشان خوفزادہ تھی تم انداز بھی نہیں لگا سکتے تمھیں ایک بار بھی ماں کا خیال نہیں أیا
روتی شکوہ کرتی بولی یکدم شایان کو اپنے گلے سے لگایا
میرے بچے تم ٹھیک تو ہونا کہاں غاٸب ہوگٸے تھے کیا حال بنا رکھا ہےتم نے اپنا
ممتاز بیگم اسے الگ ہوتی شایان کے گال پر پیار سے ہاتھ پھیرتی بولی اس نے ایک منٹ نہیں لگایا تھا اور ممتاز بیگم کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا
شایان
سجاد چوہدری اونچی أواز میں چلایا تھا لاکھ اختلاف سہی بیوی سے مگر جیسے وہ گھر کے اندر داخل ہوا تھا شایان کو ممتاز بیگم کا اس طرح ہاتھ جھٹکنا نہ گوارہ لگا تھا
لگتا ہے احترام کرنا بھی بھول گٸے ہو تم سجاد اس کے روبرو کھڑے ہوتے گھور دار نظروں سے نوازتے دھاڑے تھے ولید بخش چوہدری راشد بھی اندر أ گٸے تھے
احترام کرنا أپ لوگ بھول گٸے ہیں اس حویلی کی پہلی لڑکی عُروشہا چوہدری کو کبھی بیٹی سمجھ کر أپ لوگوں نے اس سے احترام دیا ہے نہیں دیا تو کس منہ سے أپ یہ کہہ رہے ہو کہ میں احترام کروں
مٹھیوں کو بھیچتے منہ سے انگار برساۓ چلایا تھا اس نے ایک ایک جملا چباتے ادا کرتے سجاد راشد ولید بخش چوہدری کو تیش بری نظروں سے دیکھ کر کہا تھا
اتنے شور میں یارم عُروشہا بھی کمرے سے باھر نکلتے جاچتی نظروں سے سب کو دیکھتے سیڑھیوں سے نیچھے اتر أٸیں شاہدہ بیگم الگ أنسوں کا گولا حلق میں اتار رہی تھی ان سب سے بلکل ہی بخبر یارم عُروشہا تھے جن کو سمجھ نہیں أرہا تھا کہ اخر ہوا کیا ہے یا ہو کیا رہا ہے
شایان میری نرمی کا غلط فاٸدہ مت اٹھاٶ ورنہ مجبورن مجھے تمھارے معملے میں کوٸی سخت قدم اٹھانا پڑے گا
ولید بخش چوہدری جبڑے بیچ کر مشکل سے اپنا لہجہ ٹھنڈھ رکھتے اس سے دیکھ کہا
کم سے کم أپ دادا جان کیا کریں گٸے مار دیں گے یا پھر جیسے عُروشہا کو اسٹور روم میں بند کیا تھا ویسے مجھے بھی کریں گٸے یا اپنی جاٸیداد سے ہاکھ کر دیں گٸے یا پھر گھر سے نکال دیں گٸے
أج پہلے والا شایان یہ شایان نہیں لگ رہا تھا ولید بخش چوہدری سے کبھی بھی اس نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی جس طرح أج وہ بھوکے شیر کی طرح ان پہ سوار ہو رہا تھا
ممتاز بیگم بیٹے کی اتنی حماکت پر شاکت رھ گٸی تھی اور یہی حال باقی سب کا بھی تھا عُروشہا پہلی بار ایک نٸے شایان کو دیکھ رہی تھی اوپر سے اس کا حلیہ بتا رہا تھا کتنے کرب سے وہ گزر رہا ہے
یہ تو بچوں والی سزاٸیں ہیں شایان اس سے بھی بڑھ کر دۓلیں سکتا ہوں میں کیونکہ جو میرے فیصلے کے أگے أۓ گا چاہے وہ میرے پوتے ہی کیوں نہ ہو ان کا انجام بہت برا ہوگا میرے کمرے میں أٶں
ولید بخش دھمکاتے شایان کو أنکھوں میں دیکھ کر کہا وہ نہیں ڈرا تھا اس بار شاید اس کا سب سے بڑا ڈر اپنے عشق کو کھونے کا تھا اس کےأگٸے وہ کسی سے اب ڈرتا نہیں تھا
ولید بخش چوہدری نے أنکھوں سے اشارے سے کہا تو وہ چپ چاپ ان کے کمرے میں چلا گیا سجاد ممتاز بیگم کو دیکھ پہلی بار ان کے دل میں بیوی کے لیے ہمدردی پیدا ہوٸی تھی وہ اسے کمرے میں لے گیا
راشد نے جیسے اپنے کمرے کا رُخ کیا شاہدہ بیگم ان کے پیچھے کمرے کی اور چل دی
عُروشہا یارم ابھی وہی بے سود کھڑے رہے یارم عُروشہا کے روبرو کھڑا ہوا
عُرو تم کیوں پریشان ہوگٸی ہو جیسے بچپن میں شایان دادا جان کے غصہ سے ناراض ہوجاتا تھا بعد میں دادا جان اس کو کمرے میں بلا کر منع لیتے تھے ایسا کرو تم مجھے أپنا موباٸل لاکے دو شہر جاکے ٹھیک کروا کے أٶں گا مایا تمھیں یاد کرتی ہیں اس سے بات کر لے نہ ٹھیک ہے جب موباٸل ٹھیک کروا کے دو تو
ٹھیک ہے لالا
عُروشہا بس اتنا کہتی کمرے میں جاکے موباٸل اٹھاکے لاٸی تھی اور یارم کو ٹھیک کروانے کے لیے دیا
موباٸل اس کے ہاتھ سے لیتا دھیمی سے مسکراہٹ کے ساتھ باھر چلا گیا یارم گاڑی میں بیٹھ کر اندر جو کچھ ہوا سوچ نے لگا
شایان کبھی دادا جان پر اس طرح غصہ نہیں ہوتا اگر ہوا ہے تو ضرور کوٸی بڑی بات ہے پر کیا
وہ خود سے ہمکلامی کرتا گاڑی اسٹاٹ کرتا شہر کی جانب چل دیا کیونکہ اس کو مایا کی کال أٸی تھی وہ بہت گھبراٸی ہوٸی تھی اسلیۓ ابھی اس کا وہاں پہچناں سب سے زیادہ ضروری تھا
ایسا کونسا طوفان أگیا جو تم اس طرح ہگامہ کر رہے تھے اس بات کا بھی لحاظ نہیں کیا کہ وہاں نوکر بھی موجود ہیں
ولید بخش چوہدری کا اشارہ ریبی کی جانب تھا کیونکہ حویلی والوں کے لیے وہ نوکر سے بڑھ کر تھی مگر ولید بخش چوہدری کے لیۓ وہ ابھی نوکرانی تھی وہ اسے سخت نہ پسند کرتا تھا بے وجہ اس پہ غصہ کرتا تھا وہ بھی اچھی خاصی عمر کی عورت تھی مگر کبھی اس نے ولید بخش چوہدری کی بات کا برا نہیں مانا تھا گھر کے اور ملازم سے ولیدبخش چوہدری کو کوٸی خاص تکلیف نہیں تھی بس ریبی سے تھی کسی میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ کوٸی ولید بخش چوہدری سے سوال پوچھنے کی غلطی کرتا
دادا جان میں أپ سے اس طرح ہرگز بات نہیں کرتا لیکن أپ نے ہی مجھے مجبور کیا
شایان نے گھمبیر لہجے میں کہا
میں نے مجبور کیا واہ برخودار ان کا لہجہ طنزیہ تھا
جی جب کہ أپ کو پتا ہے عُروشہا کو میں پسند کرتا ہوں تو کیوں أپ نے جان بوجھ کے اس کا رشتہ ایک پاگل انسان سے طعہ کردیا ہے
شایان کا ابھی بھی غصہ کم نہیں ہوا تھا ولید بخش کی أنکھوں میں جھانک بے دھڑک کہا
کیونکہ میں چاہتا تھا یہ تم اپنے منہ سے اطراف کرو کہ تم اس لڑکی کو پسند کرتے ہو
شایان دو منٹ میں کشمکش کا شکار ہواتھا کیونکہ ولید بخش چوہدری نے چال جو ایسا پھینکا تھا
واقعی دادا جان أپ سچ کہہ رہے ہو اس کا مطلب عُروشہا کا کسی اور کے ساتھ رشتہ نہیں ہو رہا
شایان کا غصہ جوأسمان سے کچھ وقت پہلے بات کر رہا تھا ولید بخش چوہدری کی بات پر چھو منتر ہوگیا تھا
ہاں میں اپنے پوتے سے بہت پیار کرتا ہوں اسلیۓ بہت سوچ نے کے بعد میں نے فیصلا کیا ہے تمھارا عُروشہا کا نکاح جمعہ کے دن ہوگا اور رُخصتی اس کے پیپر پورے ہونے کے بعد کوٸی اچھی سی تاریخ دیکھ کے کر دیں گٸے اب تو تم خوش ہو نہ
ولید بخش چوہدری چہرے پر فریبی مسکان لیۓ گویا تھا اور اسے گلے لگنے کا کہا تو وہ یکدم چپک کر ان کے لگے لگا
ولید بخش چوہدری تاس کے پتوں کی طرح ان سب کے دماغ کے ساتھ کھیلنے کا ہنر رکھتا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ کس حد تک جا سکتا ہے
رات کے کھانے پر سب موجود تھے سواۓ یارم کے اس نے شاہدہ بیگم کو کال پر بتا دیا تھا کہ وہ أج نہیں أسکتا کسی ضروری کام میں پس گیا ہو اسلیۓ اس کا انتظار نہیں کریں
خاموشی میں کھانا کھایا گیا تھا سب اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے شایان خود کو منزل کے بہت قریب دیکھ رہا تھا اس کا موڈ خوشگوار تھا ولید بخش چوہدری نے اس سے منع کیا تھا کہ وہ حویلی میں کسی کو ابھی کچھ نہ بتاۓ سو وہ چپ تھا وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا اس کا بس چلتا تو وہ پوری دنیا کو چٍلا کر بتا دیتا کہ عُروشہا صرف اس کی ہے
عُروشہا ٹھیڑی نظروں سے اسے اتنا خوش دیکھ تعجب سے سوچ میں پر گٸی تھی کھانا کھانے کے بعد وہ اسے بات کرنے کا اراد رکھتی تھی
سب کھانے کے بعد سونے کے لیۓ اپنے اپنے کمروں میں گٸیں تھے
شاہدہ بیگم کچن کا تھوڑا بہت کام ختم کرکے جیسے کمرے میں أٸی تھی راشد رات کے وقت بھی کتاب میں کچھ لکھ رہا تھا شاید زمینوں کا حساب وہ بیڈ پہ بیٹھ گٸی تھی کتنا وقت یوٸی ان دونوں میں خاموشی کا راج رہا راشد نے نظر اٹھا کر ایک بار شاہدہ بیگم کو دیکھا تھا پھر دھیان جھٹک کے اپنے کام میں مگن ہوا تھا
أپ سے ایک بات پوچھوں
شاہدہ بیگم نے بات کا أغاز کیا
ہممم
مصروفانہ انداز میں جواب دیا
أج جو لوگ أٸیں تھے کیا وہ ہمھاری عُروشہا کے رشتے کے لیۓ أۓ تھے
اسے نے اپنے دل میں مچلتاں سوال پوچھا
ہاں
راشد نے یکطرفہ جواب دیا انہونے ایک مرتبہ بھی شاہدہ بیگم کو نظر اٹھاکر دیکھنا گوارہ نہیں سمجھا تھا
أپ اور ابا جان کو پوری دنیا میں میری پھول جیسی بیٹی کے لیۓ وہ پاگل ہی ملا تھا کیا
اس بار شاہدہ بیگم شوہر کے سر پر کھڑی ہوٸی تھی انکا لہجہ سخت تھا
وہ پاگل نہیں ہے شاہدہ بس تھوڑا اس کا دماغ ٹھیک نہیں ہیں اس کا علاج وہ لوگ بہتری ڈاکٹر سے کروا رہے ہیں پہلے سے کافی سدھار أیا ہے جلدی وہ ٹھیک بھی ہوجاٸیں گا اور لوگ بھی تو دیکھو کتنے اچھے تھے عزت دار خاندان سے رشتہ ہو رہا ہے اور تمھیں کیا چاہیے اپنی بیٹی کےلیے
راشد نے بیوی کی جانب دیکھ سنجیدگی سے کہا
حیریت ہو رہی ہے مجھے أپ پر أپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں عُروشہا أپ کی بیٹی ہے
شاہدہ بیگم نے دانت پیستے کہا
بد قسمتی سے
راشد کے زہریلا لہجہ اپناتے کہا تھا شاہدہ بیگم کو دھجکا لگا کہ وہ ابھی زمین پر گر جاۓ گی شوہر کے الفاظ پر مانو
ک کی کیا کہا ب بد بد قسمتی سے شاہدہ بیگم کی زبان لڑکھڑانے لگی تھی اس سے سہی سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا وہ اپنے حواس کھوبیٹھی تھی راشد بیوی کو نظرانداز کرتا بیڈ پہ لیٹ گیا ساٸیڈ سے لیمب بند کرتے شاہدہ بیگم کو یوٸی چھوڑتے خود أرام سے لیٹ گیا تھا
کمرے میں گہرا اندھیرا ہوگیا تھا شاہدہ بیگم کمرے میں ہچکیوں کا گلا گھوٹ رہی تھی
راشد أپ کو ایک دن ضرور احساس ہوگا کہ بیٹی بد قسمت نہیں ہوتی وہ تو اللہ پاک کی بھیجی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہوتی ہیں اتنے سنگدل کیسے ہو سکے ہیں أپ وہ خود سے أنسوں بہاتے شوہر کی جانب دیکھ بولیں
یارم کی گاڑی ہواٶں سے تیز بات کرتی ہوسپیٹل پہ یکدم بریک لگاتے رُکی تھی گھبراتے وہ گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب دوڑ لگا گیا تھا
دور سے کرسی پہ پریشانی کی حالت میں مایا سر ہاتھ میں دیٸے بیٹھی نظر أٸی اسے وہ اس طرف أ کر رکا
مایا سب خیریت تم یہاں کیا کر رہی ہو اور مجھے اتنی جلدی کیوں بلایا
اس نے یارم شایان دونوں کو کال کی تھی یارم نے یکدم اس کی کال پک کی شایان کا موباٸل ساٸلیڈ پر ہونے کی وجہ سے اس نے کال نہیں اٹھاٸی تھی فکر مندی سے پوچھا
یا یام یارم ڈیڈ اندر أ سی یو میں وہ بولتی ہوٸی یکدم سسک کر رونے لگی ۔۔ تم فکر نہیں کرو انکل ٹھیک ہو جاٸیں گا دیکھنا
یارم نے مایا کو تسلی دینے لگا تھا جاکر جلدی سے پانی کی بوتل لایا اور مایا کی طرف بڑھاٸی تھی وہ فوراً نفی میں سر ہلا گٸی تھی
مایا میری بات سُنو تھوڑا سا پانی پیوں کچھ بہتر فیل کروگٸی اس طرح تمھارے رونے سے تمھاری طبیعت خراب ہو سکتی ہے پھر انکل کو میں کیا منہ دیکھاٶں گا کہ ان کی بیٹی کا خیال نہیں رکھ سکا پلیزززز انکل کے خاطر تھوڑا سا
رو رو کے مایا نڈھال ہوگٸ تھی یارم کو ڈر تھا کہ اگروہ اس طرح روتی رہی تو یقیناً اسکی طبیعت خراب ہوسکتی ہے گھٹنوں کے بل بیٹھا وہ بچوں کی طرح اسے سمجھا رہا تھا اتنے اسرار کی وجہ سے بوتل اس کے ہاتھ سے لے کے بس ایک گھونٹ بھرتے واپس اس نے یارم کو دی
ششششش بس بہت رو لیا اب مجھے سہی سے بتاٶں اچانک انکل کو کیا ہوا ہے
اس سے چپ کرواتے سوال کیا مایا نے بھیگی نگاہوں سے اسے دیکھا
میں اور ڈیڈ شام کے وقت ہر روز ہم دونوں کی پروٹین ہوتی تھی کہ ایک ساتھ چاۓ پینے کی أج بھی ہم ساتھ میں خوشگوار موڈ میں چاۓ پی رہے تھے کہ جب اچانک ڈیڈ کو تکلیف ہوٸی اور وہ بیھوش ہوگٸے
میں نے تمھیں اور شایان کوبہت کالز کی مگر تب تم میں سے کسی نے کال پک کرنا ضروری نہیں سمجھا اور پھر میں خود ڈیڈ کو ہوسپیٹل لے أٸی جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ ڈیڈ کو ہوا کیا ہے مگر وہ کہہ رہے ہیں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ٹریٹمینٹ چل رہا ہے یارم بس دعا کرو ڈیڈ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ایک وہ ہی تو ہیں مام کے جانےکے بعد میرا سب کچھ
وہ ہچکیاں لیتی بولی
تم فکر نہیں کرو مایا اللہ پاک سے دعا کرو انکل کو کچھ نہیں ہوگا اور یار میں نے موباٸل پر جیسے تمھاری کالز میسیج دیکھے دوڑتا ہوا یہاں پہنچاں ہوں
یارم نے مایا کو تفصیل سے بتایا وہ نہیں چاہتا تھا کہ مایا یہ سمجھے کہ اس کی کوٸی ویلیوں ان کے أگٸے نہیں ہے وہ اس سے بد گمان اپنی طرف سے نہیں کرنا چاہتا تھا
ڈاکٹر وارڈ روم سے جیسے باھر نکلا یارم مایا دونوں ان کی جانب دیکھنے لگٸے
ڈاکٹر انکل کو ہوا کیا ہیں وہ ٹھیک تو ہے نہ
یارم نے فکرمندی سے کہا
یہ کب سے کینسر کی دواٸی لے رہے ہیں ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا بم جو ان دونوں کے سر پہ پڑا تھا مایا تو ہلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی
کینسر یارم نے حیرت کی نگاہ مایا پر ڈالتے زیر لب بڑبڑایا ڈاکٹر ان دونوں کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ اس بارے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں پتا شاہ زویر کی بیماری کا
جی کینسر بہت وقت سے انہیں کینسر ہے انہوں نے شاید اپنا علاج بھی کروایا ہوگا مگر اب جو ان کی رپورٹ سے ہمھیں معلوم ہوا ہیں کہ ان کا لاسٹ اسٹیج کینسر کا ہے انہیں بچانا بہت مشکل ہے أپ دعا کریں باقی زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم اپنی پوری کوشش کریں گٸے اور ہاں
ڈاکٹر وہاں سے جانے لگا تھا کہ کچھ یاد أنے پر پیچھے مڑا
وہ مایا نام بار بار پکار رہے ہیں ہو سکے تو انہیں بلا لیجٸے شاید پیشنٹ ان سے ملنا چاہتا ہیں
ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا تھا مایا بے جان وجود لیۓ دنیا جہان سے بے خبر زمین پہ بیٹھی ویران أنکھوں سے زمین کو گھور رہی تھیں یارم کو سمجھ نہیں أرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے وہ اس کے پاس زمین پر بیٹھا
مایا مایا میری طرف دیکھو
وہ اسے بازٶں سے جھنجوڑتے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا یارم کی أنکھوں میں مایا کی حالت دیکھ أنسوں أگٸے تھے یارم نے مایا کے گال تھپھپانے لگا یارم کی أنکھوں میں دیکھنے لگی
مایا انکل تم سے ملنا چاہتا ہیں اٹھوں انکل کے پاس جاٶ
ی ی ا م ڈیڈ کو ک ک ینسر ہے کب ہوا یہ
وہ روتی سسکتی یارم کو دیکھتے لڑکھڑاتی زبان سے بولی
مایا انکل سے نہیں ملوں گٸی اسے نے سر ہاں میں ہلایا وہ اسے زمین سے باہوں کا حصار بنا کے اسے کے بازٶں سے تھام وارڈ روم کے دروازے کی طرف بڑھا جیسے اندر داخل ہوۓ شاہ زویر بیڈ پر لاتعداد مشینوں میں جکھڑا ہوا انہیں نظر أیا تھا یارم کے بازٶں کو دور کرتی بھاگتی ان کے سینے سے جا لگی اور بلک بلک کر رونے لگی
ہچکیوں کی أواز سے شاہ زویر نے ہلکی سی أنکھیں کھولی تھیں بیٹی کو خود کے سینے میں روتا دیکھ ان کی أنکھیں بھر أٸی
میری پیاری گڑیا کیوں اس طرح رو رہی ہیں
شاہ زویر نے با مشکل الفاظ ادا کیۓ ان کی حالت بہت خراب تھی مایا سر اٹھا کر باپ کو دیکھا
ڈیڈ أپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات کیوں چُپاٸی وہ شکوہ کن لہجے میں بولی
اسلیۓ کہ میں اپنی گڑیا کو اداس نہیں کرنا چاہتا تھا میری گڑیا تو ہنستی ہوٸی اچھی لگتی ہے ناکہ روتی ہوٸی
شاہ زویر نے کوشش کرکے بیڈ سے ہاتھ مایا کے گال پر رکھتے پیار سے گویا تھا
ڈیڈ میں أپ سے ناراض ہوں أپ کو کچھ نہیں ہوگا دیکھنا أپ ٹھیک ہو جاٶں گٸے جیسے روز کی ہمھاری پروٹین ہے پھر سے وہی رہے گٸی
ابھی وہ بول رہی تھی کہ نرس اندر أٸی کچھ فاملیٹیز أپ کو پوری کرنی ہیں یہ أپ کریں گٸے یا میں ان کو دو
نرس کے ہاتھ میں کاغذات تھے اس نے یارم کی جانب دیکھتے کہا اور پھر مایا کی جانب
میں کر دیتا ہوں یارم نے مایا شاہ زویر کو باتوں میں لگٸے دیکھ کر خود نرس سے کہا
اوکے پھر أ جاٸیں نرس اسے وارڈ روم سے باھر لے کے گٸی تھی
مایا میں تم سے کچھ مانگ نہ چاہتا ہوں مجھے پوری امید ہیں کہ میری گڑیا اپنےباپ کو مایوس نہیں کریں گٸی
أنکھوں میں مان لیۓ مایا کی طرف دیکھتے کہا اس نے اثبات میں سر ہلایا
مجھ سے وعدہ کرو جو کہوں گا اس کے لیے تم انکار نہیں کرو گٸی
شاہ زویر نے امید بری نظروں سے کہا
جی ڈیڈ أپ جو کہو گٸے وہ میں کروں گٸی أپ میری جان بھی مانگھے گٸے تو وہ بھی میں خوشی خوشی دیں دوگٸی
مایا کرسی پہ پراجمان ہوتی شاہ زویر کا ہاتھ تھام پرپور یقین دلاتے گوٸی تھی
ابھی اس ہی وقت تم میرے سامنے یارم سے نکاح کرو گٸی
یکدم مایا کرسی سے اٹھ کھڑی ہوٸی
پر ڈیڈ میں شایان سے ابھی وہ اگٸے کچھ کہتی اس سے پہلے یارم وارڈ روم میں داخل ہوا تھا اس کی چلتی زبان کو یکدم بریک لگی ان دونوں کی نظریں یارم پر ٹکی ہوٸی تھیں
اس سے محسوس ہوا کہ باپ بیٹی کوٸی ضروری بات کر رہےتھے جو اس کے أنے سے ادھوری رہ گٸی ہے
میں بعد میں أتا ہوں
اس نے قدم باھر جانے کے لیۓ بڑھایا ہی تھا کہ شاہ زویر نے اسے اپنے پاس بلایا
یارم بیٹا ادھر أٶ مجھے تم سے ضروری کام ہیں
یارم سر ہلاتے ان کے پاس أیا مایا کرسی سے دور ہوٸی تھی اور یارم کو بیٹھنے کا شاہ زویر نے اشارہ کیا وہ کرسی پر چپ کرکے بیٹھ گیا
یارم بیٹا میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں
اسے نے مایا کی جانب دیکھا یارم سے بات کا أغاز کیا وہ اسے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی مگر شاہ زویر نے بیٹی سے نظریں پھیر گیا تھا
جی انکل أپ ایک بار منہ سے کچھ ادا تو کریں یہ أپ کابیٹا أپ کو نہ امید نہیں کریں گا
مجھے تم سے یہی امید تھی بیٹا میری سانسیں رکنے سے پہلے میری خواہش ہے کہ میں مایا کو اپنے گھر کا کردو
ان کی بات کا مطلب یارم سہی سے نہیں سمجھاتھا اسکے پیچھے موڑ کے مایا کو الجھتی نظر سے دیکھا پھر شاہ وزیر کی طرف منہ کرلیا
مطلب انکل میں أپ کی بات نہیں سمجھا۔
ہممم میرے کہنے کا مطلب تھا کہ تم ابھی اس ہی وقت مایا سے میرے سامنے نکاح کروں میں مرنے سے پہلے میں اپنی بیٹی کو کسی مظبوت کندھے کا سہارا دینا چاہتا ہوں اکیلی لڑکی کو دنیا والے جینے نہیں دیتے مایا کو میں نے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیں اس کے پاس بیک بیلنس بہت ہے وہ رھ سکتی ہے اکیلی مگر کچھ لوگ درندھے ہوتے ہیں جو اکیلی لڑکی کو جینے نہیں دیتے کیا تم
شاہ زویر تحمل سے کہا مگر اچانک رکے تھے کیونکہ یارم کو خاموش دیکھ کر
انکل پر،،،،۔۔ وہ جھنجھلایا تھا
کیا بیٹا تم کسی اور کو پسند کرتے ہو
شاہ زویر نے تعجب سے پوچھا
نہیں انکل ایسی کوٸی بات نہیں ہے أپ مایا سے اس کی رضامندی جانی ہیں
یارم نے مایا کودیکھا جو خاموش کھڑی تھی اگر وہ بولتی بھی کیسے جب زندگی اپنی چال چلتی ہے تو ہر انسان اپنی سمجھ سے باھر ہو جاتا ہے جیسے مایا ہوٸی تھی اس نے تو یارم کو اچھے دوست کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا تھا پھر اچانک وہ نکاح کی ہامی کیسے بھرتی ایک طرف اس کے باپ کی خواہش تھی دوسری طرف اس کے بے مول خواب
بیٹا وہ راضی ہے تم جلدی سے مولوی صاحب کو لیکر أٶ میرے پاس وقت کم ہے
یہ بولتے ہی شاہ زویر کی یکدم دل کی دھڑکنیں تیز ہوگٸی
انکل أپ ٹھیک ہیں ڈیڈ أپ چاہتے ہیں نکاح ابھی ہو تو ٹھیک ہے ہم دونوں راضی ہیں
یارم شاہ زویر کو کندھے سے ہلانے لگا کہ ان کی کانسی رک جاۓ یکدم مایا أگٸے أٸی تھی اور جلدی گھبراتی بولی یارم چونک اسے دیکھا
شکریہ میری گڑیا میری بات کا مان رکھنے کے لیۓ اور یارم بیٹا تمھارا بھی
ان دونوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ان دونوں کو دیکھ ان کی أنکھوں میں چمک لہراٸی تھیں پھر یارم ہوسپیٹل سے نکل گیا چند گواہ مولوی کا انتظام کرنے گیا تھا مایا کو اپنی ایک ایک سانس اس لمحہ بھاری لگنے لگی تھی
دس منٹ کےبعد یارم کچھ گواہ مولوی ہوسپیٹل لے أیا تھا ہوسپیٹل میں نکاح کی اجازت یارم نے ڈاکٹر سے پوچھی انہوں نے ہاں کہا اب شاہ زویر کے وارڈ روم میں یارم کے کچھ دوست جو گواہ کے طور پر وہاں موجود تھے اور مولوی بھی مایا نے اپنے ڈوپٹے کا گھونگٹ کیا تھا
مولوی نے نکاح پڑھنا شروع کیا کچھ أیات پڑھنے کے بعد مولوی نے یارم کی جانب دیکھ کہا
یارم راشد أپ کا نکاح مایا شاہ زویر سے دو لاکھ روپے پر طعے کیا جاتا ہے کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
مولوی کے سوال پر یارم نظر اٹھا کر مایا کو دیکھا جو گھونگٹ میں چہرہ چپاۓ بُت بنی بیٹھی تھی
جی قبول ہے اس طرح تین بار یارم نے مایا کو قبول کیا اب باری مایا کی تھی مولوی مایا سے پوچھنے کے لیۓ دوسری ساٸیڈ پر گیا
مایا شاہ زویر أپ کا نکاح یارم راشد سے دو لاکھ روپے پر طعے کیا جاتا ہیے کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
مولوی کے پوچھنے پر اس نے کوٸی جواب نہیں دیا سب ہی اسے بغور دیکھ رہے تھے جب مولوی نے دوبارہ پوچھنا ضروری سمجھا
مایا شاہ زویر أپ کا نکاح یارم راشد سے دو لاکھ روپہ پر طعے کیا جاتا ہے کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
اس بار مایا نے نظر اٹھا کر باپ کو دیکھا جو أنکھوں میں مان امید بھروسہ لیۓ اسے دیکھ رہا تھا اس کی أنکھوں سے أنسوں ٹوٹ کے رخسار پہ بہہ گیا اس نے أنکھیں ضبط سے بند کی تھیں
قبول ہے
مایا کی طرف سے بھی تین بار کی رسم ادا کی گٸی تھی
چند گھنٹے میں وہ دونوں پاکیزہ رشتہ میں بندھ گٸے تھے
مایا شاہ زویر سے اب وہ یارم مایا چوہدری بن گٸی تھی نٸی زندگی کا سفر انکا شروع ہوگیا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ ان کا سفر کیسا رہتا ہے
سب نے یارم کو مبارک دی اور ڈھیر ساری دعاٶں سے نوازہ انہیں مبارکباد کا سلسلہ ختم ہوا تویکدم شاہ زویر کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گٸی تھی
ڈیڈ دیکھیں میں نے أپ کا کہا مانا ہیں نہ تو أپ بھی میری بات مانے مجھے چھوڑ کر نہیں جاٸیں گٸے ڈیڈ میں أپ کو جانے کی اجازت نہیں دیتی ڈیڈ أپ سن رہے ہیں نہ میں کیا کہہ رہی ہوں
شاہ زویر کا سانس اوپر نیچھے ہو رہا تھا مایا روتی اسے کا بازٶں چھوٹے بچے کی طرح پکڑی ہوٸی تھی کتنی بار یارم کو ڈاکٹر نے مایا کو باھر لے جانے کا کہا مگر وہ کہاں ہوش میں تھی باپ سے دور ہونے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھی
یارم نے با مشکل اسے وارڈ روم سے باھر لے گیا تھا
یارم ڈیڈ کو کچھ نہیں ہوگا نہ ہیں نہ وہ ٹھیک ہو جاٸیں گٸے میرے ساتھ گھر چلے گٸے اور میرے ہاتھ کی ڈیڈ کو چاۓ بہت پسند ہے وہ بنا کر پلاٶں گٸی یارم ڈیڈ تمھاری بات ضرور مانتے ہیں انہیں کہو کہ وہ مجھے چھوڑ ک ک ن جاٸ
مایا مایا ڈاکٹر اچانک مایا کا وجود سے جان نکل گٸی تھی وہ بھوش ہوتی یارم کی باہوں میں جھول رہی تھی جب یارم نے ڈاکٹر کو أواز دی وہ اس سے دوسرے وارڈ روم میں لے گٸے تھے
شاہ زویر از نو مور
یارم مایا کے وارڈ روم کی جانب بڑھا ہی تھا کہ ڈاکٹر نے وہی کھڑے اس کے سر پرأسمان گرایا تھا کتنا وقت لگا تھا اسے خود کو سمبھالنے میں
یارم نے رسم ادا کرتے ہمیشہ کے لیے شاہ زویر کو اس دنیا سے اس دنیا تک پہنچایا تھا مگر مایا کو اب تک ہوش نہیں أیا تھا وہ خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا اچانک ان کی زندگی چینج ہوگٸی تھی مایا کے وارڈ روم کے اندر کرسی پی سر دیٸے بیٹھا مایا کو تکنے لگا گال پر رونے کے شدید نشان تھے اس کو بہت تکیلف ہوٸی تھی مایا کی حالت دیکھتے ہوۓ
اچانک بدل جاۓ اس کو ہی تو زندگی کہتے ہیں جو ہم سوچتے ہے ویسا نہیں ہوتا زندگی میں کچھ موڑ ایسے بھی أتے ہیں جہاں ہمھارا دل نہیں بلکہ روح کانپ جاتی ہے اپنوں کو کھو کر ہم زندہ ہوکر بھی مردہ کی ماندہ ہوجاتے ہیں
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial