قسط 8
یارم کرسی کی پیشٹ سے ٹھیک لگاۓ بیٹھے ہی کب اس سے نیند نے اپنی أغوش میں لے لیا تھا اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہی بیٹھے ہی سو گیا تھا أدھے بازٶں کرسی سے نیچھے تھےتو ادھے اوپر مایا کو نیندکی انجکشن دی گٸی تھی تاکہ اس کے دماغ کوسکون مل سکے اس کے لیۓ أرام بہت ضروری تھا وہ بھی سو رہی تھی

تو نے جب بھی دیٸے زخم ہی دیٸے ہے



عُروشہا بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ ناول پڑھنے میں دنیا جہان سے بیگانی ہوگٸی تھی وہ یہ بات بھی بھول گٸی تھی کہ اسے شایان سے بات کرنی تھی دروازے پہ ہونے والی دستک نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچا
اس وقت کون ہوسکتا ہے
وہ کشمکش میں ڈوبتی تھی اور ناول کو بیڈ پہ رکھتی ڈوپٹہ جو کہ کندھے کے نیچھے تک سرکا ہوا تھا اسے سلیقے سے سر پر اوڑھتی ہوٸی دروازہ کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولا
امی أپ اس وقت سب خیریت تو ہے
پریشانی کی عالم میں پوچھا شاہدہ بیگم نے اس کی بات کا کوٸی جواب نہیں دیا تھا اور کمرے میں اندر داخل ہوتی ہی اسکی الماڑی کی جانب بڑھی بیگ نکال کے بیڈ پر رکھا تھا اور ہڑبڑاھی میں عُروشہا کے کپڑے الماڑی سے نکال کر بیگ میں رکھنے لگٸی تھی ان کا چہرہ خوفزدہ تھا اسے سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ اس کی ماں کر کیا رہی ہے وہ ماں کی ساری کارواٸی شاکت کی حالت میں کھڑی ہوکے دیکھ رہی تھیں
امی یہ أپ کیا کر رہی ہیں میرے کپڑے اس میں کیوں رکھ رہی ہیں
حیران کن انداز میں وہ شاہدہ بیگم سے پوچھنے لگی مگر وہ نہیں رکی اس کے سوال کا پھر بھی کوٸی جواب نہیں دیا تھا بس اپنے کام میں لگی رہی
امی میں أپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں کچھ تو بولیں مجھے پریشانی ہو رہی ہے
شاہدہ بیگم اس کے سب کپڑے پیک کر چکی تھی اب وہ بیگ کی زپ بند کرتے ہی عُروشہا کی جانب نم أنکھوں سے دیکھا
عُرو میری بات دھیان سے سُنو تمھاری خالہ سے بات کر لی ہے تمھیں لینے اٸیر پورٹ پر شانوازہ أٸیں گا اور تم ابھی اس ہی وقت
اسلام أباد جا رہی ہو سب کے جھاگنے سے پہلے یہاں سے تمھیں نکلنا ہے
وہ گھبراتی اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتی نم أنکھوں سے اسے دیکھ کہا تھا مگر عُروشہا اُلجھی نگاہ سے ماں کو دیکھ رہی تھیں
امی یہ أپ کیا کہہ رہی ہیں میں کہیں نہیں جا رہی ہوں أپ کو چھوڑ کر
شاہدہ بیگم کو دیکھ کہا اور بیڈ سے بیگ سے کپڑے نکالنے لگٸی
عُروشہا جو میں کر رہی ہوں اس میں تمھاری بھلاٸی ہے تم کچھ نہیں جانتی تمھاری زندگی کو یہ لوگ جہنم بنانے پر تولے ہیں
شاہدہ بیگم نے اس کا ہاتھ بیگ سے کپڑے نکال نے کے لیۓ روکا تھا وہ جاچتی نظروں سے ماں کودیکھنے لگٸی تھیں وہ سوچنے لگٸی کہ أخر ایسی کون سی قیامت أگٸی ہے جو اس کی ماں اس سے رات کو نکال رہی ہے
أخر امی أپ بولناں کیا چاہتی ہیں جو کہنا چاہتی ہیں صاف بات بولیں أپ کا یوں اس طرح اچانک یہ سب کرنا میری پریشانی
میں اضافہ کر رہا ہے
اچھا سہی جب تک تم پوری بات نہیں جان لیتی تب تک تم میری بات نہیں مانو گٸی تو سُنو یہ لوگ تمھاری شادی ایک پاگل انسان سے کرواں رہے ہیں
پھر شاہدہ بیگم نے ایک ایک بات اس کو بتاٸی جب سب سچاٸی جانے گٸی تھی فورا اس کے لبوں پر زخمی مسکان أٸی
تو کیا تم ابھی بھی یہاں رہنا چاہتی ہو
شاہدہ بیگم تعجب سے پوچھا
ہاں
اس نے فورا جواب دیا شاہدہ بیگم نے حیرانی سے اپنی کم عقل بیٹی کو دیکھا جس کی أنکھیں ہر جزبات سے خالی تھیں
پاگل ہوگٸی ہو تم میں تمھیں اس جہنم سے نکال رہی ہوں اور خود تم یہاں رہنا چاہتی ہو
شاہدہ بیگم اب سخت سے اونچی أواز میں چلاٸی تھی بیٹی کے دماغ پر شک ہوا تھا کیونکہ وہ اس کے اندازہ سے پاگلوں والی باتیں کر رہی تھی
جی امی کیونکہ میں خود غرض بیٹی نہیں ہوں اسلیۓ اگر یہاں سے میں أج گٸی تو کل کو یہی لوگ أپ کی پرورش پر سوال اٹھاٸیں گٸے
اور بدکردار ہونے کا مجھ پر الزام بھی لگاٸیں گٸے اور أپ پر ظلم کریں گٸے تو کیا أپ پھر بھی یہی چاہتی ہیں کہ میں یہاں سے چلی جاٶں
عُروشہا ماں کا ہاتھ تھام کے سمجھانے والے انداز میں بولی
عُروشہا تم میری فکر نہیں کر مجھے کچھ نہیں ہوگا اور رہی بات پرورش پر اُگلی اٹھانے کی تو مجھے پتا ہے کہ میری پرورش کیسی ہے پھر لوگ چاہےکچھ بھی کہے مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا
تم پر الزام نہیں لگاٸیں گٸے میں خود سب کو سچ بتا دو گٸی کہ تمھیں حویلی سے میں نے بھاگنے کا کہا تھا یہ تم سب چھوڑو اور یہاں سے جلد سے جلد نکالوں تمھارا پاسپورٹ ٹکٹ میں نے تمھارے بیگ میں رکھ دی ہے
شاہدہ بیگم بیڈ پہ پریشانی کی حالت میں بیٹھ گٸی تھی کیونکہ ان کی بات سن نے کو عُروشہا کسی صورت میں تیار نہیں ہو رہی تھی وہ کیسے اپنی أنکھوں کے سامنے بیٹی کو بھلا جہنم میں جاتا دیکھ سکتی تھی
امی أپ سمجھنے کی کوشش کریں حویلی سے جانا سب مساٸل کا حل نہیں ہے بلکہ یہاں رھ کر ہر مصیبت کا سامنا کرنا مشکل کا حل ہے ناکہ بزدلوں کی طرح بھاگنا
نہیں امی میرا نصیب لوگوں نے نہیں لکھا
جو بُرا ہوگا میرے ساتھ میرا نصیب تو اللہ پاک نے لکھا ہے جو مجھ سے سترہ ماٶں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے اگر میرے نصیب میں میرے اللہ پاک نے پاگل انسان لکھا ہیں تو یقین مانو مجھے اپنے رب سے کوٸی شکوہ نہیں میں اس کے ہر فیصلے پر دل سے راضی ہوں
گھٹنوں کے بل بیٹھ کر شاہدہ بیگم کا ہاتھ تھام کر ان کی أنکھوں میں دیکھ کر اطمینان سے بولی تھی
عُروشہا تم سمجھ کیوں نہیں رہی
شاہدہ بیگم أخری بار اس کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگٸی
امی سمجھنے کی أپ کو ضرورت ہے أپ کو میری قسم ہے اب کچھ نہیں بولیں گٸی أپ جب اب میرے کمرے میں أٸی گٸی ہیں تو کیوں نہ مجھے گوڈ میں سلاٸیں گٸی بہت دن ہوگٸے ہیں أپ کی گوڈ میں نہیں سوٸی
شاہدہ بیگم کے بار بار اسرار کرنے پر جب وہ نہیں مان رہی تھی اسلیۓ مجبورن عُروشہا نے ان کو قسم دۓ کر چپ کروایا تھا
عُروشہا یارم سہی کہتا ہیں کہ امی عُروشہا بہت شرارتی ہوگٸی ہے اپنی ہر بات منوالیتی ہے قسم دے کر
شاہدہ بیگم بیڈ پہ اوپر بیٹھی عُروشہا نے ان کی گوڈ میں اپنا سر رکھ دیا تھا
ہاہاہاہا جب أپ کو اور لالا کو پتا ہے کہ میں اپنی بات منوانے کی عادی ہوں تو پھر بھی أپ دونوں کوشش کرتے ہو تاکہ میں أپ کی بات مانوں
وہ ماں کی جانب دیکھتے کھلکھلاتی بولی تو یکدم شاہدہ بیگم اس کا چہرہ دیکھتی مسکراٸی تھی ماں کو پتا بھی نہیں لگنے دیا تھا کہ وہ کتنے کرب سے گزر رہی ہے شاہدہ بیگم کے الفاظ اس کے اندر کے سکون کو چین لے گٸے تھے وہ ایسی ہی تھی خود چاہے کتنی بھی تکلیف سے کیوں نہ گزر رہی ہو پر ماں کو زرا بھی احساس ہونے نہیں دیتی تھی
اچھے سے جانتی ہوں عُرو تم چاہے جتنا بھی کوشش کرلوں خوش دیکھانے کی مگر میں تمھاری ماں ہوں تمھاری تکلیفوں سے واقف ہوں ہوسکے تو اپنی ماں کو معاف کر دینا تمھارے لیے کچھ نہیں کر پارہی
یا اللہ میری چاند سی بیٹی کا نصیب بھی چاند جیسا ہو اس سے ان لوگوں کی چالاکیوں مکاریوں سے محفوظ رکھنا أمین
میری معصوم بیٹی نہ واقف ہے لیکن تو ہر چیز سے واقف ہے میں اپنی بیٹی کا معملا تیرے سپرد کرتی ہوں تو بہترین فیصلے کرنے والا ہے یا رب
شاہدہ بیگم عُروشہا کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے اس کو دیکھ کے دل میں دعا کرنے لگٸی تھی
پرندوں کی أوازیں صبح ہونے کا پتا دے رہی تھی تکیہ منہ پر دیٸے ہوا تھا کروٹ بدلتے اس نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے موباٸل اٹھا کر تکیہ کو ساٸیڈ پر رکھتے وقت دیکھا تھا
جہاں پورے چھ بج رہے تھے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا پھر واشروم میں بند ہوگیا چند منٹ کے بعد باھر أیا جینز شرٹ زیب تن کی ہوٸی تھی ڈریسنگ ٹیبل سے کنگی لیکے أٸینہ میں بال سیٹ کیے باھر أیا تھا حال میں بلکل ہی خاموشی تھی شاید نوکر سب سو رہے تھے وہ جوگنگ کرنے کے لیے باھر چلاگیا تھا میدان پر بھاگ رہا تھا جب اچانک اس کی أنکھوں میں پنجاٸیت والا سین یاد أیا
بڑی سی چادر میں لپٹی وہ نازک سی حسینہ جس کی أنکھیں قاتل تھیں اس کا عکس لہرایا وہ یکدم رُکا
کیا ہوا رُک کیوں گٸے
پیچھے سے أتے ضاور نے اسکا چہرہ دیکھ کر کہا جس کے چہرے کا رنگ اوڑھا ہوا تھا
کچھ نہیں
نفی میں سر ہلاتے پھر سے اپنا راٶڈ پورا کرنے لگا
تم نے پولیس والے کو معاف کردیا ہے
ضاور نے بھاگتے بھاگتے راٶڈ لگاتے ہی پوچھا
نہیں
سٹاپ لہجہ جیسے ہر وقت ہوتا تھا اسکا
تو پھر اب تک یہ طویل خاموشی کیوں
ضاور جانا چاہتا تھا کہ اس کے من میں کیا چل رہا ہے جو اتنے وقت سے خاموش بیٹھا ہے جب کہ وہ اتنا تو سمجھ چکا تھا یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا أغاز ہے
ارحام سلطان غلطی معاف کر سکتا ہے مگر گناھ نہیں اور گناھ کرنے والوں کو تو میں اتنی أسانی سے موت بھی نہیں دیتا
سرد لہجے میں کہتا ایک دم رُکا اور ضاور کی جانب دیکھا
مجھے کل کا شدید سے انتظار ہے بس کل پھر شروع ہوگا ارحام سلطان کا کھیل جس میں پورا چوہدری خاندان روٸیں گا ولید بخش چوہدری کو لگتا ہے کہ میں نے ابھی تک اس کے خلاف کیوں کچھ نہیں کیا خاموش کیوں بیٹھا ہوں کیا وجہ ہو سکتی ہے
پانی کے بوتل کا ایک گھونٹ بھرتے اصطراب لہجے میں کہا
مجھے بھی یہی لگتا ہے
ضاور نے أہستگی سے بڑبڑایا تھا مگر ارحام سلطان نے بخوبی اس کی بات سن لی تھی
لگنا بھی چاہیے شیطان کی سوچ بھی وہاں نہیں جاتی جہاں میری جاتی ہے میرے جگری یار اتنا صبر کیا ہے تو تھوڑا سا اور کر لیں بس کل کا دن پھر چوہدریوں کی بربادی شروع اور ارحام سلطان کا بدلا بھی
سردار جی أپ کا قربان صاحب ناشتہ پر انتظار کر رہے ہیں
ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ جب نوکر نے أکے اطلاح دی تھی
جی
نوکر کو جانے کا اشارہ کیا اور وہ وہاں سے چلا گیا
ارحام کبھی کبھی تو مجھے تم سے بھی ڈر لگتا ہے
وہ دونوں مینشن گھر کے اندر داخل ہو رہے تھے جب ضاور نے ڈرتے کہا اسکا چہرہ دیکھ کر ارحام سلطان زور سے قہقہ لگا کر ہنسا تھا
ضاور ابھی تو میں نے صرف کہا ہے اور تمھارا یہ حال ہے جب دیکھو گٸے تو پھر تمھارا کیا حال ہوگا جب میں اپنی چال چلو گا نہ شطرنج کی ایسی بازی ماروں گا کہ ولید بخش چوہدری گنچکر ہو جاۓ گا اور اس بار اس کا مقابلا عام انسان سے نہیں بلکہ ارحام سلطان سے ہے وہ ارحام جس کے نام سے بڑے گینسٹر ڈر کر کانپ جاتے ہیں
ضاور اس کی أنکھیں دیکھنے لگا جہاں خون سوار تھا أگ تھی بدلے کی روم روم میں ارحام کے ضاور کو ایسا طوفان أتا نظر أ رہا تھا جو سب کچھ اپنے ساتھ اوڑھا کے لیجاۓ گا
ارحام سلطان سیڑھیاں عبور کرتے کمرے میں فریش ہونے گیا تھا کچھ دیر کے بعد وہ فریش ہوکر نیچھے أیا جہاں ڈراٸنگ ٹیبل پہ حیدر سلطان قربان سلطان اس کا ہی انتظار کر رہے تھے وہ مغرونہ چال چلے کرسی کو پیچھے دھکیلتے بیٹھ گیا تھا
نا کسی سے سلام دعا کی بس ناشتہ کے لیے جوس کا گلاس اٹھایا اور لبوں سے لگاتے بڑے گھونٹ بھرنے لگا تھا
حیدر سلطان اور قربان سلطان اس کو یوں انہیں نظر اندازہ کرنا بہت بُرا لگا تھا اس کا یوں اپنوں سے انجان بن کے رہنا ان کو اب کٹکنے لگا تھا
ارحام کیا اب تم سلام بھی کرنا گوارہ نہیں کرتے ہم سے
حیدر سلطان نے سختی سے کہا مگر اس پر ان کی کسی بات کااثر نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ ان کا ساٸیڈ لیتے تھے جو ارحام کے دشمن تھے
جی سوری دادا جی وہ دراصل مجھے دیر ہو رہی ہےنہ اسلیۓ أپ نے جو زمیداری دی ہے مجھے وہ ہی پوری کرنے جا رہا ہوں بیگلون جانے سے پہلے یہ سب کام پورے کرنا چاہتا ہوں میں
سرد لہجے سے کہا حیدر قربان الجھی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر ارحام کو دیکھنے لگۓ ان کی أنکھوں میں الجھن دیکھنے لگا
مطلب تم یہاں سے جانا چاہتے ہو واقعی میں
قربان نے حیران کن انداز میں پوچھا انہیں یقین نہیں أ رہا تھا کہ ان کا سمجھدار بیٹا سلطان مینشن کا اکلوتا چشم چراغ بے وقوفوں والی باتیں کرے گا زرا بھی انہیں اس سے امید نہیں تھی
باپ کی بات پر صرف سر اثبات میں ہلایا اور اٹھ کھڑا ہوتے باھر کی جانب چل دیا تھا اور انہیں کشمکش میں ڈال گیا تھا وہ کیا کر رہا تھا یا پھر کیا کرنا چاہتا تھا کسی کو بھنک تک نہیں پڑنے دے رہا تھا اخر وہ وجہیہ شخص کیا تھا کوٸی اس سے سمجھ نہیں پاتا تھا یہاں تک کہ اس کا سگا باپ دادا بھی اس انسان کو جان نہیں پا رہے تھے
ضاور تمھیں کچھ پتا ہے اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہیں
حیدر نے ضاور کی جانب دیکھ پوچھا
نہیں دادا جی مجھے بھی نہیں پتا بس جو أپ نے اسے گاٶں والوں کی پریشانیاں حل کرنے کی اور سردار کے کون سے فراٸض پر پورا اترنا چاہیے وہ سب کر رہا ہے
باقی اسے نے یہ کہا کہ وہ کسی بھی حال میں چوہدریوں سے اپنا بدلا سود سمیت لیں گا پر کیسے کب کیا کرنے کا وہ سوچ رہا ہے مجھے نہیں پتا وہ کچھ نہیں بتاتا اوکے انکل میں چلتا ہوں ارحام انتظار کرتا ہوگا میرا اللہ حافظ
ضاور نے سچ بتایا تھا انہیں مگر مکمل سچ نہیں بتایا کیونکہ وہ ارحام سلطان کو اچھے سے جانتا تھا کہ اگر وہ بتادیتا تو اس کی خیر نہیں تھی اوپر سے دوستی کا بھی سوال تھا اسلیۓ وہاں سے اٹھنے میں ہی اپنی بھلاٸی سمجھی
ارحام کو یہاں بلا کر مجھے اپنے فیصلے پر شدید افسوس نہ کرنا پڑے وہ بدلے کی أڑہ میں اپنی زندگی داٶں پر لگا رہا ہے
حیدر نے قربان کی جانب دیکھ کر پریشانی سے کہا
اللہ پاک نہ کریں ابا ہم پہلے سے بہت کچھ کھول چکے ہیں اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو دینے کی
غمگین ہوتے کہا حیدر سلطان کو بھی یہی ڈر تھا
عُروشہا کچن سے چاۓ لیکے أج راشد چوہدری کو خود دینے جا رہی تھی پتا نہیں کیوں اس کا من چاھ رہا تھا کہ ایک بار باپ کے سامنے جاۓ ہوسکتا ہے اس سے دیکھ کر ان کا دل پگھل جاۓ اور وہ رشتے کو روک دے
کٹکٹکٹ ۔۔۔اس نے دروازے پر دستک دی
دروازہ کھولا ہے أجاٶ
اندر سے جواب ملتے ہی اس نے دروازہ کھولا راشد چوہدری أنکھوں پر چشمہ لگاۓ کبٹ میں سے کچھ ڈھونڈہ رہا تھا دروازے کی جانب انہوں نے نہیں دیکھا تھا کہ کون ہے
شاہدہ میری کتاب کہاں رکھی ہیں وہ کتاب جس میں میں حساب لکھتا ہوں
راشد کو لگا کہ شاہدہ بیگم کمرے میں أٸی ہے اسلیۓ بینا دیکھے ہی کہاجب جواب سامنے سے نہیں ملا تو نظروں کا مرکز دروازے کی جانب کیا تھا جہاں عُروشہا کے ہاتھ میں چاۓ کا کپ تھا ڈوپٹہ سر پر اوڑھے ہوٸی تھی أنکھیں باپ کو دیکھ کر یکدم نم ہوٸی جلدی سے أنکھوں کی نمی کو صاف کیا اور ٹیبل پر چاۓ رکھی
بابا میں ڈھونڈہ دو أپ کو وہ کتاب امی کچن میں کام کر رہی ہیں یا انہیں بلا کر لاٶں
وہ اپنے سگے باپ سے ہچکچاں رہی تھی کیونکہ باپ نے کبھی پیار سے سر پر ہاتھ جو نہیں کھا تھا باپ کے ہوتے ہوۓ بھی وہ باپ کے پیار سے بچپن سے لیکر اب تک محروم تھی راشد نے بیٹی کو کچھ نہیں کہا تھا بس اس طرف سے منہ موڑ گیا
عُروشہا کا نہنہ سا دل ہر روز ٹوٹتا تھا رونا نہیں چاہتی تھی پھر بھی باپ کی بے رُخی برداش نہیں ہوٸی اور بے دڑک اس کی أنکھوں نے اس سے بے وفاٸی کی اور أنسوں گال پر أگٸے تھے کمرے سے جانے کے لیۓ قدم باھر کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے راشد کی أواز پر پلٹ گٸی
میں نے أج تک تم سے کچھ نہیں کہا نہ ہی کچھ مانگا ہیں اگر أج کچھ مانگوں گا تو مجھے امید ہے شاہدہ کی پرورش پر تم انکار نہیں کروگٸی
ان کے لہجہ میں کہیں سے بھی نرمی نظر نہیں أ رہی تھی بس نظر أیا تو حکم جو وہ اس کو دینا چاہتا تھا اسے نے سر ہاں میں ہلایا تھا
جس لڑکے سے ابا جان نے تمھارا نکاح طعہ کیا ہے اس سے نکاح بینا سوال جواب کیۓ کر لینا مجھے سب کے سامنے شرمندہ اور رسواہ نہیں ہونے دینا
راشد کے الفاظ تھے یا تیر جو سیدھا عُروشہا کے دل کو چیر کرکے اس کو بے جان کر گیا تھا اس کا باپ کس طرح اس سے بات کر رہا تھا کیا وہ نہیں جانتا تھا سامنے والی لڑکی غیر نہیں اس کی اپنی سگی بیٹی ہے
بابا أپ نے جو میرے لیے انتخاب کیا ہوگا وہ جیسا بھی ہوگا چاہے وہ لگڑا بہرہ گونگا کالا اندھا یا پھر کوٸی پاگل ہی کیوں نہ ہو میرے لیۓ أپ کا حکم سر أنکھوں پر أپ کی بیٹی مر جاٸیں گی بابا مگر کبھی أپ کی عزت پر أنچ نہیں أنے دے گٸی۔۔۔۔ میرے بابا ہیں أپ میرا بُرا تھوڑہی چاہیے گٸے ۔۔۔۔أپ سے بس میری ایک خواہش ہے وہ پوری کر دیجٸے گا
وہ کہتی راشد چوہدری کے روبرو کھڑی نم أنکھیں لیے ایک ایک الفاظ یقین دلانے والا کہا تھا راشد دو منٹ کے لیے اس سے نظریں ہٹانے پر مجبور ہوگیا
بولو
عُروشہا کو خاموش کھڑی باپ کو دیکھ رہی تھیں جب راشد کی أواز پر چونکی
مولوی میری اجازت لینے أۓ تو اس وقت نکاح کی ہامی بھرتے وقت أپ کا ہاتھ میرے سر پر ہو تاکہ میرے پیر ڈگمگاں نہیں جاٸیں پلیزززز بابا
وہ اب رونے کے در پر تھی باپ کا جواب سننے بغیر ہی وہاں سے روتی سسکیاں لیتی بھاگ گٸی اور اپنے کمرے میں بند ہوٸی گٸی تھی بیڈ پر لیٹے چہرہ کو تکیہ میں دیٸے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے گٸی تھی
اس کے اندر کیا کچھ نہیں ٹوٹا تھا مان وہ جو اس کے اپنے باپ پہ تھا یا وہ جو خود نکاح کی ہامی بھر أٸی تھی بیڈ کی چادر کو مٹھیوں میں کھینچ کے جکھڑ لیا تھا کیا تھی اس کی تقدیر صرف رونا اپنوں کی نفرت کا شکار ہونا بے گناھ ہوکے بھی گناھ کی طرح سزا کاٹنا یا پھر ساری زندگی اپنوں کے پیار کے لیے ترسنا تھی
راشد وہی عُروشہا کے الفاظ پر بے سود کھڑا تھا جیسے دماغ ان کا کام کرنا بند ہوگیا ہو
مایا کو ہوش أگیا تھا یارم نے اس کو حقیقت سے أگاھ گیا تھا وہ اگر چھپانا بھی چاہتا تو بھی نہیں چھپا پاتا ۔۔۔۔۔ایسا نہیں کر سکتا تھا یارم نے با مشکل اس کو کھانے کے کچھ نوالہ کھلاٸیں تھے وہ تو اتنی خاموش تھی کہ جیسے اس کا دماغ ماف ہوگیا تھا وہ بے جان وجود بن گٸ تھی
یارم سوچ میں پڑگیا تھا کہ اس کو اتنے بڑے شہر میں اکیلا چھوڑ نہیں سکتا تھا اور حویلی جاکے کیا کہتا سوچ سمجھ کے اس نے مایا کو حویلی لے جانے کا اراد کیا تھا کیونکہ وہ سب کو سچ بتانے کا اراد کر چکا تھا پھر چاہے جو بھی ہوجاۓ
مایا تمھیں میری حویلی دیکھنا کا بہت شوق تھا نہ أج یہ تمھارا شوق بھی میں پورا کرنے جا رہا ہوں ہم حویلی جا رہے ہیں
مایا خاموش بیٹھی بے دماغکی سے کار کی ونڈو سے باھر کے نظارہ دیکھ رہی تھیں جب یارم نے بات کی شروعات کی کیونکہ اس کا موڈ ٹھیک کرنا چاہتا تھا
مایا نے اس کی طرف ویران أنکھوں سے دیکھا اور پھر منہ موڑ کے ونڈو کی جانب کر لیا تھا