ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 9

تین گھنٹے کے سفر طعے کرنے کے بعد وہ حویلی پہنچے تھے یارم نے گاڑی کو یکدم بریک لگایا تو وہ جو سیٹ سے ٹیک لگاۓأنکھیں موندے ہوٸی تھیں یکدم فورا جھٹکا کھا کر أنکھیں کھول یارم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
حویلی أ گٸی
یارم نے سامنے أشارہ کیا تھا تو مایا نے اس کی اگلی کا جاٸزہ لیتے سامنے دیکھا جہاں بڑی سے شاندار خوبصورت حویلی تھیں وہ باہر سے دیکھنے میں ہی اتنی خوبصورت اور بڑی تھیں یارم نے اس کو خاموش نظروں سے بینا کوٸی حرکت کیے حویلی کو تکتے دیکھا خود گاڑی سے باہر نکل کر مایا کا درواہ کھولا
موسٹ ویلکم حویلی میں مایا تمھارا أٶں
یارم نے اپنا ہاتھ اس کے أگٸے کیا تھا اور تھوڑا اس کی جانب جھک کر خوشی سے کہا تو وہ ڈرے کے مارے سیٹ سے چپک سہم گٸی تھی اس کو یوں خود سے خوف کھاتا دیکھ کر یارم کو مایا کی حرکت چبی تھی کیا وہ اس پر اب بھروسہ نہیں کرتی کیا وہ اسکو اپنا اب دوست نہیں مانتی ناجانے یارم کے دل میں مایا کے اس رویہ نے کتنے ہی وسوسوں نے جنم لیا تھا وہ پیچھے ہوا تاکہ مایا کنفرٹیبل خود کو محسوس کرے
اچانک اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی أ گٸی تھی جس کا وہ خواب میں بھی کبھی تصور نہیں کر سکتی تھی وہ دھیرے سے گاڑی سے اتری وہ بے دماغکی میں اگٸے اگٸے چل رہی تھی یارم اس کے پیچھے وہ اس کا پورا دھیان رکھ رہا تھا کہ کہیں اس کو کوٸی چکر نہ أ جاۓ
حویلی کے اندر وہ دونوں پہنچھے مایا ڈر کے مارے پیچھے یارم کے کھڑی تھی وہ پوری حویلی کو جاچتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں
ولید بخش چوہدری اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ صحن میں بیٹھا کوٸی زمینوں کا کام کررہا تھا شاہدہ بیگم ممتاز بیگم زمین پر سندل پر بیٹھی دال چاول صاف کر رہی تھیں
عروشہا نیچھے أ رہی تھی اس کی أنکھیں سرخ تھیں چہرہ مرجھایا ہوا تھا شایدہ بہت روٸی تھی اس نے سیڑھیوں پر پیر رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے شایان نے اسکو مخاطب کیا
عروشہا مجھے تم سے بات کرنی ہے
وہ پیچھے پلٹی نہیں تھی
کیا بات کرنی ہے شایان تمھیں مجھ سے
وہ اس کی جانب بینا دیکھے اس سے کہہ رہی تھی شایان کو اس کو خود سے ایسا رویہ دیکھ کر حیران ہوا تھا
تمھیں کچھ ہوا ہے یا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہیں نہ
شایان اس کے بازٶں سے تھام کر اپنے سامنے اس کا چہرہ کیا تو وہ ناجاہتے ہوۓ بھی اپنی نظریں شایان کے چہرہ پر گاڑ گٸی تھی شایان نے جیسے اس کی جھیل سی سنہری أنکھوں میں دیکھا جو سرخ ہو رہی تھیں شایان کے دل کو مانو کسی نے بے دردی سے جکڑ لیا تھا
عروشہا تم روٸیں ہو کیا ہوا کسی نے تم سے حویلی میں کچھ کہا ہیں بتاٶ مجھے
ہاتھوں کے پیالے میں اس کے چہرے کو تھام کر فکر مند لہجہ میں پوچھا تو عروشہا نے خود پر کس طرح اور اپنے ٹوٹے دل کو سمیٹ کر بہادری کا مظاہرہ کیا تھا یہ تو بس وہی جانتی تھی وہ بہت دیر تک شایان کی أنکھوں میں نہیں دیکھ پاٸی اور جھٹکے سے اسے دور ہوٸی
میں ٹھیک ہوں کسی نے کچھ نہیں کہا
وہ نظریں چراتے أسے دیکھتی بولی اس سے پہلے کہ شایان کچھ کہتا عروشہا پر سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی شایان کو غصہ أیا أخر کیوں وہ اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر رہی ہے ایک جھٹکے سے عروشہا کووہ دیوار سے لگاگیا یہ حملا اتنا اچانک ہوا تھا کہ عروشہا أنکھیں زور سے میچ گٸی تھیں اس کے ارد گرد شایان نے اپنا حصار بنا لیا تھا ان کے بیچ میں تھوڑا سا فاصلا تھا شایان کی أنکھوں میں درد تھا
کیوں کر رہی ہو تم ایسا کیا مجھ سے کوٸی غلطی ہوگٸی ہے عروشہا تم اچھے سے جانتی ہو تمھاری بے رخی میری جان لے لیتی ہیں پھر بھی تم ایسا کر رہی ہو
شایان نے عروشہا کی بند أنکھوں کو دیکھ کر جزبات لہجہ میں کہا تھا کہ دھیرے سے عروشہا نے اپنی أنکھیں کھولیں شایان کو خود کے اتنے نزیک دیکھ کر اس کے دل نے بغاوت کرنا چاہا کہ وہ شایان کوسب کچھ بتا دے وہ اتنا تو اس کے لہجہ سے جان گٸی تھی کہ شایان اس کے نکاح والی بات سے بے خبر ہے اور وہ یہ اس کو بتانا چاہتی بھی نہیں تھی اس کا ماننا تھا کہ خود تو میں تکلیف سے گزر رہی ہوں شایان کو تو دور رکھوں اوپر سے وہ مجبور بھی تھی کیونکہ اپنی ہی محبت کا گلا وہ خود گھوٹ کر أٸی تھی باپ سے نکاح کی ہامی بھر کر
شایان پلیزز
شایان کے بازٶں کو پیچھے دھکیلی روہانسی أواز میں بولی تو شایان اس کی حالت کو دیکھ اسے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا وہ خود بھی غصہ میں بے خبر ہوگیا تھا کہ وہ عروشہا کے اتنے نزیک کھڑا ہے وہ بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا
ان دونوں کو اتنا ایک دوسرے کے قریب دیکھ کر مایا کی أنکھوں سے ٹوٹ کر أنسوں گرا تھا کیا قصور تھا اس کا جو وہ ان حالتوں کا شکار ہوٸی تھی
یارم تمھارے ساتھ یہ لڑکی کون ہیں
جیسے ہی شاہدہ بیگم کی نظر صحن کے دروازے پر کھڑے یارم کے پیچھے کھڑی مایا پر پڑی تو وہ ان دونوں کے سامنے کھڑی تعجب سے پوچھنے لگٸی ان کے الفاظ پر سب ہی نے سامنے دراوزے کی جانب دیکھا سب مرد حضرات بھی اپنا کام چھوڑ کر ان کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے شایان عروشہا نے یارم کے پیچھے کھڑی مایا کو دیکھا تو وہ دونوں تو اس کو پہنچان گٸے تھے
عروشہا جب بھی پیپرز دینے شہر جاتی تھی تو وہ اکثر مایا کے ساتھ باقی کا وقت گزرتی تھی ان دونوں کی أپس میں بہت اچھی دوستی بھی ہوگٸی تھیں
مایا ۔۔
شایان عروشہا نے حیران کن لہجے میں یک زبان میں کہا اور دونوں چلتے ہوۓ نیچھے أٸیں تھے
امی ! میں أپ کوسب سچ بناتا ہوں وہ ہوا یہ تھا کہ
پھر یارم نے جو کچھ شروع سے اب تک ہوا تھا سب بتایا مایا سر جھکاۓ کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی جب کہ اس کا کوٸی قصور نہیں تھا
میں اس کو اپنی بہو کبھی نہیں مانوں گٸی یارم تمھیں ایک بار بھی اپنی ماں کا خیال نہیں أیا
شاہدہ بیگم دکھ سے یارم کو دیکھتی کہا تو یارم اگٸے بڑھ کر شاہدہ بیگم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پیار سے لٸے استفسار کیا
امی أپ سمجھنے کی کوشش کریں یہ سب میں نے اپنی خوشی سے نہیں کیا بس اچانک حالت ایسے ہوگٸے تھے کہ نہ جاہتے ہوۓ بھی مجھے ایسا قدم اٹھانا پڑا لیکن أپ سمجھنے کی کوشش تو کریں اور مایا کو میں کس کے سہارے شہر چھوڑ أتا أپ ہی بتاٸیں مجھے
یارم شاہدہ بیگم کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ رکھ کے تحمل سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مایا سر جھکاۓ کھڑی ٹھیری نظروں سے ماں بیٹے کو دیکھ بھی رہی تھیں باقی سب خاموش کھڑے تھے
شاہدہ بیگم حقارت سے مایا کو سر سے پاٶں تک دیکھا تھا ان کی بھی أگر دیکھا جاۓ تو غلط نہیں تھی ماں تھی اس کے کتنے ہی خواب تھے بیٹے کی شادی کے جو کہ یارم نے مجبوری کے طور پر ہی سہی لیکن وہ چکنا چور کر گیا تھا
شاہدہ بیگم نے یارم کے ہاتھ جھٹک دیٸے تھے
میں کبھی اس لڑکی کو بہو نہیں مانوں گٸی یارم چاہیے کچھ بھی ہو جاۓ تمھیں زرا بھی اپنی ماں کا خیال نہیں أیا
شاہدہ بیگم یہ کہتی روتی کمرے کی جانب چل دی
تمھاری ماں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں یارم راشد ایک سرسری نگاہ یارم اور مایا پر ڈال کے کمرے کی جانب چلا گیا تھا یارم نے افسوس نگاہ سے سب کو دیکھا ولید بخش چوہدری نے یارم کے سر پر ہاتھ رکھ کے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا اس کو تو بس عروشہا سے تکلیف تھی اور کسی سے بھی نہیں ان کے پوتے چاہیے کتنی بھی غلطی کرے انہیں معاف کر دیا جاتا تھا
عرو اپنی بھابھی کو کمرے میں لیں جاٶ
عروشہا کو گم سہم سا کھڑا دیکھ کر یارم نے کہا سر ہاں میں ہلاتی مایا کے ہاتھ تھام کر اس کو سیڑھیاں عبور کر کے کمرے میں لے گٸی وہ اتنی ڈری ہوٸی تھی اوپر سے حویلی کے لوگوں کے تلخ لہجے بھی اس کے اندر جو ڈر تھا اس میں اضافہ کر گیا تھا
مایا میں بہت خوش ہوں کہ تم میری بھابھی بنی ہو ہاں انکل کا سُن کر شدید دکھ بھی ہوا ہے تمھارے لٸے کچھ کھانے کو لاٶں
مایا کو بیڈ پر بیٹھاتی عروشہا نے پہلے جملات خوشی میں کہے بعد میں اس کا لہجہ دکھ ظاہر کرنے والا تھا
مایا نے بس نفی سر ہلایا اور بیڈ پر کمبل خود پر اوڑھ کر سو گٸی عروشہا کو مایا کے رویہ سے دکھ ہوا تھا لیکن پھر اسے نے اس کی حالت سمجھ کر کمرے سے نکل گٸی یارم کسی سے کال پر بات کر رہا تھا کال ڈسکنیکٹ کرتے وہ اپنے کمرے میں أیا وہ شاہدہ بیگم کو کل منانے کا سوچ رہا تھا ابھی وہ مایا کو دیکھنا چاہتا تھا کہ کہیں وہ ڈری ہوٸی تو نہیں ہے
کمرے میں أتے بیڈ پر مایا کو کمبل اوڑھ کر سوتا دیکھ کر اس نے ٹھنڈہی أہ بھر کے رھ گیا تھا وہ خود بھی دماغ جسم سے تھکا ہوا تھا
شایان ولید بخش چوہدری کے کمرے کی جانب جا رہا تھا وہ جلد سے جلد عروشہا کو نکاح میں لینا چاہتا تھاتاکہ اس کی بے رُخی اور سب شکوے اور شکایت ختم ہو جاۓ شایان نے دروازے نوک کیا تو ولید بخش چوہدری کی اجازت ملتے ہی سر ہلا کر کمرے کے اندر داخل ہوا تھا ولید بخش چوہدری کرسی پر بیٹھا أنکھوں میں چشمہ لگاۓ کتاب میں کچھ لکھ رہا تھا شایان کو اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر چشمہ أنکھوں سے ہٹاۓ اس کی اور متوجہ ہوا
دادا جان أج جمعہ ہے اور أپ نے کہا تھا کہ جمعہ کو عروشہا میرا نکاح ہوگا
ولیدبخش چوہدری نے ضبط سےمٹھیاں میچ لی کیا اس کا پوتا ابھی اپنی ضد میں اٹکا ہوا تھا بہت مشکل سے ولید بخش چوہدری نے اپنے غصہ پہ قابو کیا تھا
ہاں تم مولوی کو شہر سے لیکر أٶں تب تک میں سب کو نکاح کے بارے میں بتاتاہوں
ولید بخش چوہدری نے اپنی شیطانی چال چلی
دادا جان شہر سے مولوی کو لانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہمھارے گاٶں میں بھی مولویوں کی کمی نہیں ہیں
شایان تعجب سے ولید بخش چوہدری کو دیکھ کر پوچھا
ہاں یہاں بھی مولوی ہیں لیکن مجھے شہر والے مولوی یہاں کے مولویوں سے زیادہ اچھے لگتے ہیں
اوکے دادا جان جیسے أپ کو ٹھیک لگے میں ابھی مولوی کو لیکر أتا ہوں
شایان خوشی سے کہتا باہر چلا گیا تھا ولید بخش چوہدری نے کال کرکے لڑکے والوں کو پیچھے سے نکاح کے لٸے حویلی بلایا وہ باہر أیا أتے ہی سجاد چوہدری راشد چوہدری کو کہا کہ لڑکے والے نکاح کے لٸے أ رہے ہیں تو وہ تھوڑے بہت انتظامات دیکھنے لگٸے کچھ دیر گزرنے کے بعد لڑکے والے مولوی کو ساتھ ولید بخش چوہدری کے کہنے پر لاۓ تھے صحن میں بیٹھے تھے ممتاز بیگم کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی انہیں ہلکا بخار تھا تو وہ اپنے کمرے میں أرام کر رہی تھی اور ان سب چیزوں سے وہ واقف تھی لیکن یوں اچانک نکاح سے بھی بے خبر رہی
مولوی نے لڑکے سے نکاح کی رضامندی پوچھی تھی اور وہ لڑکا پاگل سہی سے اس نے ہامی بھی نہیں بھری یہ تو اس کے ماں باپ نے اس پر زور دیتے کہا کہ بیٹا ہاں کہوں تو وہ ہاں بولا بس
شاہدہ
راشد چوہدری نے شاہدہ بیگم کو عروشہا کو لانے کا کہا تو وہ أنسوں أنکھوں میں لٸے بیٹی کو لینے گٸی تھی درواز کھول کر اندر داخل ہوٸی تھی عروشہا جو کہ ناول پڑھ رہی تھی فورا ماں کے أجانے سے سیدھی ہوٸی
کاش عرو تم یہاں سے چلی جاتی میری بات مان لی ہوتی تو أج تمھاری شادی ایک پاگل انسان سے ہونے سے تو بچ جاتی
شاہدہ بیگم نے گرب سے کہتے اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھا وہ سمجھ گٸی تھی کہ نکاح کا وقت ہوگیا ہے
اس نے شاہدہ بیگم کو جواب نہیں دیا وہ ان کے ساتھ چلی سیڑھیاں عبور کرکے نیچھے أٸی تھی شاہدہ بیگم نے اس کو کرسی پر بیٹھایا
مولوی نے نکاح کے لیے اس سے رضامندی پوچھی وہ سر جھکاۓ خاموش بیٹھی أنسوں بہا رہی تھی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial