قسط 10
ضارم نے امن سے بات کرلی اور امن کے ہی زریعے سے اپنے پیرینٹس کو لےکر زارا کے گھر آیا تھا نسیم کو اس بات پر حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوا تھا وہ تو زارا کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھی لیکن ان کے بیٹے نے ہی ان کا منہ بند کردیا تھا اور یہ بات انہوں نے فرح سے بھی ظاہر کردی تھی جس سے فرح کا بھی دل اداس ہوگیا تھا لیکن زارا کے لیے وہ خوش تھی کیونکہ انھیں بھی بچوں کے ساتھ زبردستی والا معاملہ پسند نہیں تھا اور جب وہ دونوں ہی نہیں چاہتے تھے تو وہ کیا کرسکتیں تھی آج دونوں نے ہی ضارم کی فیمیلی کا خوشدلی سے ویلکم کیا تھا
امن کسی وجہ سے لیٹ گھر پہنچا تھا وہ انور کے ساتھ جب گھر میں آیا تو سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے بات چیت کررہے تھے انور نے ضارم کو دیکھتے ہی آنکھیں حیرت سے بڑی کرلی
بھیا یہ تو
انور نے امن کے قریب سر کرکے ضارم کو دیکھتے ہوۓ کچھ کہنا چاہا تو امن نے اسے ہاتھ دکھا کر روک دیا
مجھے پتہ ہے….. تم کچھ کہنا مت
وہ دھیمی اواز میں اسے سمجھاتے ہوئے بولا انور کو ضارم کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کیونکہ وہ ملک حسین کا بیٹا تھا اور یہ بات اسے تب پتہ چلی جب امن اور وہ اس کے متعلق معلومات حاصل کررہے تھے اسے مزید حیرت ہوئی جب اندر آنے پر اس نے ملک حسین کو دیکھا امن اندر آکر سب سے ملنے کے بعد ضارم کے پاس بیٹھ گیا
ڈونٹ وری پاس ہوجاؤگے تم
وہ ضارم کو الجھن میں دیکھ کر دھیرے سے بولا تو ضارم ہنس دیا
تم نے بتایا نہیں کہ تمہاری بہن بھی ہے
ملک حسین کے بغل میں ایک تیس بتیس سالہ خاتون کو دیکھ کر بولا کیونکہ جہاں تک اسکے علم. میں تھا ضارم. ملک حسین کی اکلوتی اولاد تھا
وہ میری بہن نہیں میری مام ہے
ضارم دھیرے سے بولا تو امن اسے حیرت سے دیکھنے لگا پھر دوبارہ سامنے دیکھا وہ جو میک اپ اور سٹائلنگ کے بعد ضارم سے چھوٹی لگ رہی تھی اس کی مام تھی
سٹیپ مام ہے…..
امن کی حیرانگی دور کرتے ہوۓ کہا تو امن نے او کی شکل میں منہ کھولا
فرح زارا کو لے کر اندر آئی تو ضارم بے ساختہ اسے دیکھنے لگا پنک لانگ کرتی اور لیگن پر گولڈن کامدار دوپٹہ سر پر اوڑھے ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ضارم کا دل ہی نہین چاہ رہا تھا کہ نظر اس پر سے ہٹاۓ لیکن بڑوں کا خیال کرکے وہ سنبھل گیا زارا کو یوسف کے بغل میں بٹھا کر فرح خود بھی دوسری جانب بیٹھ گئیں ملک صاحب زارا سے اس کا نام وغیرہ پوچھ رہے تھے اور امن زارا کی دھیمی آواز میں جواب سن کر بمشکل اپنی مسکراہٹ روک رہا تھا کیونکہ اس کے سامنے تو وہ ہر وقت لڑتی جھگڑتی چلاتی رہتی تھی اور اب آرام سے سر جھکاۓ بیٹھی تھی وہ زارا کو دیکھ رہا تھا جب کہ کسی اور کی نظریں مسلسل اس پر جمی ہوئی تھی
ہمارے لیے تو ہمارے بیٹے کی خوشی سب سے بڑھ کر ہے ہمیں یہ رشتہ منظور ہے آپ لوگ چاہے تو سوچ کر ہمیں جواب دیجیے لیکن جواب ہاں ہوگا تو بڑی خوشی ہوگی ہمیں
ملک صاحب نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ مسکرا کر کہا تو یوسف بھی کھڑے ہوگئے اور اثبات میں سر ہلا دیا اور دونوں نے مصافہ کیا سب ہی ایک دوسرے سے ملے
امن اور انور باہر تک ان سب کو چھوڑنے آیے ضارم اور ملک صاحب کچھ بات کرنے لگے تو امن ان کی پرایویسی کا خیال کرکے ایک طرف ہوگیا
اگر فرصت مل گئی ہو تو ہم سے بھی سلام دعا کرلیجیے
ضارم کی مام نے اس کے مقابل اکر مسکرا تے ہوۓ کہا تو وہ بھی مسکرا دیا
میرا نام شائنہ ہے
اس نے ہاتھ بڑھا کر کہا تو امن نے اس سے ہاتھ ملایا ملک حسین کے آواز دینے پر وہ اس طرف بڑھ گئی
بھیا یہ تو وہی ہے نا اس کے بیٹے کا رشتہ زارا بی بی کے لیے کیوں آیا ہے
انور اب تک بمشکل اپنے سوالوں کو روکے ہوۓ تھا ان لوگوں کے جاتے ہی امن سے سوال کرنے لگا
کیونکہ وہ زارا کو پسند کرتا ہے
امن اب بھی ان کی. جاتی ہوئی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا
تو کیا آپ زارا بی بی کی شادی ایک مجرم کے بیٹے سے کروادینگے
انور اس کے نارمل انداز ہر مزید حیران ہوکر بولا تو امن نے اس کی جانب دیکھا
انور ……ضارم کی کوئی غلطی نہیں ہے اگر اس کا باپ مجرم ہے تو…. ضارم کسی طرح ان کاموں میں شامل نہیں ہے وہ ایک اچھا لڑکا ہے بلکہ خود بھی اپنے باپ کی حقیقت سے ناواقف ہے وہ زارا لیے صحیح ہےاور سب بڑی بات ہے زارا کی خوشی….
اس نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا تو وہ چپ ہوگیا
بھیا کیوں نا ہم زارا بی بی کے زریعے اس کے گھر تک پہنچ جائے اور پھر کسی طرح سے اس کے گھر میں وہ چپ ڈھونڈ لیں
انور نے اسے صلاح دی
نہیں انور ہم اپنے کام کے لیے زارا کا استعمال نہیں کرینگے اور جہاں تک گھر تک پہنچنے کا سوال ہے تو اب وہ خود اپنے رشتے داروں کو گھر بلاۓ گا ہی………
وہ پرسوچ لہجے میں بولا










ملک حسین نے تو گرین سگنل دے دیا تھا لیکن ابھی دوسری جانب سے جواب آنا باقی تھا جس کے لیے زارا بےچین تھی اب لاکھ دل چاہ رہا ہو لیکن خود جاکر تو کہہ نہیں سکتی تھی کہ ہاں کردو یوسف مرزا کو رشتے سے تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن وہ اتنی جلدی بیس سال کی عمر میں زارا کی شادی کے لیے راضی نہیں تھے ان کے مطابق ابھی زارا کو پڑھائی کرنی تھی جب کہ ملک صاحب نے دو ہی مہینے میں شادی کی بات کہہ دی تھی کیونکہ ضارم کو وہ جلد سے جلد کینیڈا شفٹ کروانا چاہتے تھے اس لیے یوسف مرزا اس پر سوچ میں پڑ گئے تھے لیکن امن نے زارا کی ٹینشن کو دیکھتے ہوۓ انہیں سمجھا بجھا کر تسسلی دے دی تھی کہ وہ آگے کی پڑھائی بعد میں بھی کرسکتی ہے اور اس کے علاوہ انکار کی کوئی وجہ نہیں تھی ان کا خاندان شہر بھر میں مشہور تھا اور ضارم بھی کہیں سے رجیکٹ کرنے لائق نہیں تھے اسلیے وہ راضی ہوگئے اور ملک حسین کو جواب دے دیا ملک حسین کو اس بات سے تو اعتراض تھا کے وہ لوگ ان کے برابری کے نہیں ہے لیکن ضارم نے انہیں سمجھا بجھا کر کنوینز کرلیا تھا اور انہوں نے بے نیازی دکھاتے ہوۓ ہاں کہہ دی تھی وہ خود اب تک تین شادیاں کرچکے تھے بیٹے کو کس منہ سے انکار کرتے زارا کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دی تھی امن تو فیالحال اس بات سے پریشان تھا کہ ضارم کی مام اس میں کچھ زیادہ کی دلچسپی لے رہی تھی جب بھی سامنا ہوتا امن کو اپنی شامت آتی محسوس ہوتی
سلام ایوری ون………
سب ساتھ ہی ڈنر کررہے تھے اسی وقت ادنان نے آکر بلند آواز میں سب کو سلام کیا
ادنان……..
نسیم حیرت اور خوشی سے اسے دیکھ کر بولی جب کے امن جلدی سے اٹھ کر اس سے گلے ملا
وہاٹ آ پلیزینٹ سرپرائز بردر
امن نے خوش ہوتے ہوۓ کہا
کیسے ہو بیٹا
نسیم نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوۓ پیار سے پوچھا
بلکل ٹھیک ……
وہ انکے گلے لگتے ہوۓ بولا اپنے بیٹے سے ملنے کی خوشی نسیم کے انسوؤں کی شکل میں نظر آرہی تھی
کتنے کمزور ہوگئے ہو تم ٹھیک سے کھاتے نہیں ہونگے نا
نسیم نے الگ ہوکر اسے دیکھتے ہوۓ بھیگی آواز میں کہا جس پر ادنان نے مسکرا کر سر نفی میں ہلا دیا
ڈونٹ وری یہ ہمارا نیشنل ڈائلاگ ہے جو ہر ماں بولتی ہے
امن ادنان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تو نسیم نے اسے گھورا
نسیم کے بعد وہ باری باری سب سے ملا چھ سال سے وہ ہاسٹل میں ہی رہتا تھا اور سال میں چند دن ہی ان سب سے مل پاتا تھا سب کی خواہش تھی کہ وہ خوب پڑھ لکھ جاۓ جس کے لیے اس کی دوری بھی ان لوگوں کو قبول تھی اس بار نسیم. کے کہنے پر وہ زارا کی منگنی کے لیے چند دن کی چھٹی لے کر آیا تھا
تھینک گاڈ تم آگئے مجھے لگا آؤگے ہی نہیں ……….
زارا نے مسکرا کر کہا
تمہاری منگنی ہے نا نہیں آتا تو تمہاری باتیں سننی پڑجاتی……..
ادنان نے کہہ کر امن کی جانب دیکھا
اور کیسے نہیں آتا بندروں کی منگنی دیکھنے کا موقع بار بار تھوڑی ملتا ہے
امن نے ادنان کو دیکھ کر کہا تو زارا نے دانت پیستے ہوۓ اسے گھورا
بس اب تم دونوں شروع مت ہوجانا ……..ابھی ابھی آیا ہے وہ اسے اپنی مہابھارت پھر کبھی دکھا دینا …ابھی چین کی سانس لینے دو اسے… اجاؤ بیٹا
فرح نے زارا کے کچھ کہنے سےپہلے ہی اسے چپ کروادیا










چند دن…… بس چند دن لگے تھے اس کی زندگی کو بکھرنے میں وہ برباد ہوچکی تھی اب کچھ نہیں بچا تھا اس کے پاس کیونکہ اس کی امی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی کیسے برداشت کرپاتی وہ اتنی بے عزتی لوگوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی انہیں نیچا دکھانے میں سالوں جس عزت کو انہوں نے سنبھال کر رکھا تھا اسے اس طرح نست ونابود ہوتا دیکھنے کے بعد ان کا دل دھڑکنا چھوڑ گیا اس نے اپنے ماموں اور خالاؤں کو بلایا تھا اپنی بہن کی اس اچانک موت کی پہلے تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن لوگوں کی باتوں نے انہیں سب سمجھا دیا اور انہوں نے جاتے وقت صوفی کو اچھی طرح جتادیا کہ ان کی بہن کے ساتھ وہ بھی ان کے لیے مر چکی ہے
اس کی ایک اپنی. …سہیلی….. اس کی امی ہی تو. تھی اور آج وہ انہیں بھی کھوچکی تھی وہ شاید اپنی بھی جان دے دیتی اگر اس کے اندر ایک اور زندگی کا احساس نا ہوتا وہ چاہ کر بھی اسے قتل نہیں کرسکتی تھی
آج اس کی امی کو گزرے دس دن ہوچکے تھے ان دنوں میں اتنا روئی تھی کہ اب تو اس کے آنسو بھی سوکھ چکے تھے اسے نا سمجھانے والا کوئی تھا نا آنسو صاف کرنے والا وہ بیگ میں اپنے کپڑے اور چند ضروری چیزیں ڈال کر گھر سے نکلی تھی یہاں تو وہ رہ نہیں سکتی تھی اور اپنوں کے دروازے اس کے لیے بند ہوچکے تھے اب وہ صرف کسی ہاسٹل میں جا سکتی تھی لیکن اس کے پہلے وہ ہاسپٹل آئی تھی چند فارمیلیٹیز پوری کرنے اور یہاں آکر ایک بار پھر اسے اپنی امی کی یاد آنے لگی جب وہ انہیں بےجان حالت میں لے کر یہاں ائی تھی اور روز خدا سے ان کے لیے دعا کرتی تھی لیکن شاید ابھی اسے خدا نے بھی معاف نہیں کیا تھا
اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور چہرہ صاف کرکے باہر نکلنے لگی لیکن اس کی نظر سامنے دیوار پر لگی ٹی وی پر پڑی تو اس کے قدم رک گۓ اور وہ غور سے اس نیوز کو دیکھنے لکھی جس میں امن سنجیدگی سے کسی مسلے پر بات کررہا تھا
واقعی اب وقت اگیا ہے کچھ چہروں سے شرافت کا نقاب ہٹانے کا
اس نے سنجیدگی سے کہا اور ایک فیصلہ کرکے وہاں سے نکلی اب اسے ہاسٹل نہیں کہیں اور جانا تھا













زارا کو آج نسیم نے تیار کیا تھا آج ضارم سے اس کی منگنی تھی اور وہی جانتی کہ وہ کتنی خوش ہے چھوٹا سا فنکشن تھا اسلیے گھر کے باہر لان میں ہی سارا انتظام کیا گیا تھا لیمن یلو کامدار لہنگے پر گولڈن نیٹ کا دوپٹہ سر سے ہوتے ہوۓکاندھے پر ڈالے میک اپ اور ڈائمنڈ جویلری میں سیڑھیاں اترتے وقت وہ کسی ریاست کی رانی کی طرح لگ رہی تھی امن نے کچن کی جانب جاتے ہوۓ اسے سراہتی نظروں سے نیچے آتے دیکھا تو زارا نے اپنی چال کو مزید شاہانہ بناتے ہوۓ نزاکت سے چلنے لگی امن مسکرا کر اس کی حرکت کو نوٹ کررہا تھا نیچے آکر اخری سیڑھی پر وہ رک گئی امن اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا
ایسے کیا دیکھ رہے ہو
وہ انکھیں گھما کر اتراتے ہوۓ بولی
سوچ رہا ہوں…… تمہیں کڈنیپ کرکے لے جاؤ
اتنی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہوں
وہ اندر ہی اندر بہت خوش ہوتے ہوۓ بولی
نہیں……. بس دل کررہا ہے آج کسی بے چارے کو مصیبت سے بچالوں
وہ سنجیدگی سے بولا اور ہنسنے لگا جب کے زارا اسے گھورنے لگی
یار تم یہ اٹیٹیوڈ جاکر نا اپنے ہیرو کو دکھانا میں تو تمہیں تب سے جانتا ہوں جب تمہیں اپنی ناک تک صاف کرنی نہیں آتی تھی کتنی بار تو میں خود کرکے دیتا تھا
وہ اس کے گھورنے پر بولا زارا نے برا سا منہ بنایا
چھیی… گندے کہیں کے………..
اس نے کہنے کے ساتھ ہی اسے زور کا دھکا دیا وہ پیچھے کی جانب گرتے گرتے بچا
کیا کررہی ہو یار……….
وہ سنبھلتے ہوۓ بولا
بڑی امی……
نسیم کو کمرے سے نکلتے دیکھتے ہی زارا نے آواز لگائی
کیا ہوا….
بڑی امی دیکھیے نا کیسی باتیں کررہا ہے یہ ….اج کے دن بھی مجھے پریشان کررہا ہے
نسیم پاس آئی تو وہ رونی شکل بنا کر بولی
امن……..
نسیم نے اسے غصہ سے دیکھتے ہوۓ کہا تو سر کھجاتے ہوۓ دوسری جانب دیکھنے لگا
کوئی بات نہیں زارا تم تو جانتی ہو نا بدتمیز ہے یہ تم چلو میرے ساتھ میں تمہاری نظر اتاردیتی ہوں
نسیم اسے سمجھاتے ہوۓ بولی تو زارا نے سر ہلادیا
فارمیلیٹی کے لیے اتار دیجیے حالانکہ لگنے والی تو ہے نہیں……..
وہ نسیم کے پیچھے جانے لگی تو امن نے جان بوجھ کر اسے چڑھاتے ہوۓ کہا جس پر اس نے پہلے امن کو پھر شکایتی نظروں سے نسیم کو دیکھا
جی بس ابھی آیا……….
اس کے پہلے کہ نسیم کی ڈانٹ پڑتی وہ جلدی سے بولا اور باہر نکل گیا