قسط 3
امن اور زارا دونوں ہی بچپن سے کزن سے زیادہ بیسٹ فرینڈ تھے ایوب مرزا اور یوسف مرزا دو ہی بھائی تھی انکا اپنا چھوٹا سا کاروبار تھا بے حد امیر نا سہی لیکن وہ درمیانی حیثیت رکھتے تھے دونوں بھائیوں میں جتنی محبت تھی اتنی ہی محبت دونوں دیورانی جیٹھانی میں بھی تھی شروع سے ہی وہ لوگ ساتھ رہتے تھے
ایوب اور نسیم کے دو بیٹے امن اور ادنان تھے جب کے یوسف مرزا کی ایک ہی بیٹی زارا تھی ادنان اور امن میں صرف ایک سال کا فاصلہ تھا جب کہ زارا اس سے چھ سال چھوٹی تھی …ادنان بچپن سے ہی الگ طبیعت کا مالک تھا اس لیے اس کی دوستی ادنان سے زیادہ امن کے ساتھ تھی اور کچھ امن کا مزاج بھی ایسا تھا جس سے وہ اس کے زیادہ کلوز تھی
ایک دن اچانک کار ایکسیڈنٹ سے امن کے والد کی ڈیتھ ہوگئی اس وقت وہ صرف پندرہ سال کا تھا سب کو ہی بری طرح صدمہ لگا تھا اس اچانک موت پر لیکن یوسف صاحب تو بھائی کی موت پر ٹوٹ کر رہ گۓے تھے نسیم بھی صدمے سے بیمار رہنے لگی تھی اس وقت فرح نے ان کا اور بچوں کا ماں کی طرح خیال رکھا وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ٹھیک تو ہوگیا لیکن وقت وقت پر ان لوگوں کو ایوب مرزا کی کمی محسوس ہوتی رہتی کاروبار اور گھر کی ساری زمہ داری یوسف پر آگئی جسے نبھانے میں انھوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی
اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک دوست کے زریعے سے امن نے ایک نیوز چینل میں جاب شروع کردی تھی جو وہ ہمیشہ سے چاہتا تھا جب کہ ادنان ہوسٹل میں رہ کر اپنی اگے کی پڑھائی پوری کررہا تھا امن اور زارا کے درمیان سارا وقت ایک جنگ چھڑی رہتی تھی لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے









صوفی ……
وہ کلاس سے نکل.کر کوریڈور میں ہی تھی کہ راج کی آواز پر. رک کر ناگواری سے گہری سانس لی اس کا دل تو راج کے لیے پگھل. چکا تھا مگر وہ دل. کی بات زبان پر. نہیں لاتی تھی
تم پھر اگۓ……..
وہ پاس آیا تو بےزاری سے بولی راج نے مسکرا کر آنکھیں گھمائی
تم اخر میرے ہی پیچھے کیوں پڑے ہو کوئی اور لڑکی نظر نہیں آتی تمہیں
وہ دونوں ہاتھ باندھتے ہوۓ بولی
آتی ہے مگر کیا کروں میں اپنی امی کا بہت اچھا بیٹا ہوں اور انہیں جس طرح کی لڑکی میرے لیے چاہیے تم بلکل ویسی ہو… اب اپنی امی کی خواہش پورا کرنا غلط ہے کیا
وہ. معصوم چہرہ بنا کر بولا
یہ دن میں خواب دیکھنا چھوڑدو… میں تم جیسے آوارہ لڑکے کو کبھی نوکر نا رکھو
صوفی نے اسے ہاتھ دکھا کر کہا راج نے اس کا ہاتھ پکڑ کر قریب کھینچ لیا
آوارہ…. ابھی تم نے میری اوارگی دیکھی ہی کہاں…. تمہارے لیے تو شرافت سیکھنے لگا ہوں… ورنہ ایک موقع دے کر تو دیکھو بتادونگا آوارگی کسے کہتے ہیں
وہ اسے اپنی گرفت میں لے کر شرارت سے دیکھتے ہوۓ بولا صوفی اسکی مضبوط گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی
اتنا آسان نہیں ہے اس محبت کی گرفت سے آزاد ہونا
وہ اس کے چہرے کو نظروں میں قید کرکے بولا
مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے….
وہ بمشکل اپنے لہجے
دماغ کہتا ہے کہ تمہاری باتوں کا یقین کرلوں مگر تمہاری انکھیں تو کچھ اور کہتی ہے…….مجھ سے بات کرتے ہوۓ تمہارے ہونٹوں کی یہ جھجک تو کچھ اور کہتی ہے… میرے چھونے پر. تمہارے جسم کی یہ کپکپاہٹ تو کچھ اور کہتی ہے
وہ رومانوی انداز میں اس کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ بولا صوفی اس کے اتنے قریب ہونے پر ہوش میں آئی اور اسے زور کا دھکا دیا
بس کرو…. یہ ہیرو گری جاکر کہیں اور دکھاؤ میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی
وہ اسے انگلی دکھا کر بولی اور باہر آگئی وہ پلر سے ٹیک لگاکر اسے جاتے ہوۓ دیکھنے لگا
صوفی…….
ہر وقت کی طرح وہ اب بھی اسی کو یاد کرکے اپنی قسمت پر آنسو بہارہی تھی جب اپنی امی کی آواز سن کر انہیں اندر آتا محسوس کرکے اس نے فورا اپنے آنسو پونچھ کر نارمل ہونے کی کوشش کی
جی امی……..
اس کی امی اندر آئی تو وہ دھیرے سے بولی
طبیعت ٹھیک نہیں ہے نا تمہاری….
امی نے بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ کر اس کی سرخ انکھوں کو دیکھ کر کہا
میں ٹھیک ہوں امی………..
وہ دھیرے سے بولی
مان لیا کہ ٹھیک ہو مگر میری تسلی کے لیے ہی ایک بار ڈاکٹر کر بتادو کم سے کم میرے دل کا ڈر تو دور ہوجاۓ
آخری جملہ انہوں نے بہت دھیرے سے کہا وہ ماں تھی بخوبی سمجھتی تھی بیٹی کا اس طرح بیمار رہنا کھانے سے طبیعت خراب ہوجانا اداس رہنا رونا……. کافی کچھ سمجھ آرہا تھا انہیں لیکن وہ سب کچھ جھٹلا دینا چاہتی تھی وہ اپنے شک کو یقین نہیں بنانا چاہتی تھی صوفی انہیں بہت غور سے دیکھ رہی تھی
مجھے غلط مت سمجھنا بیٹا میں جانتی ہوں تم میری بہت اچھی بیٹی ہو میرا بھروسہ کبھی نہیں توڑوگی کبھی کچھ غلط نہیں کروگی.. لیکن….
اس کی مسلسل نظروں پر امی نے کہا
نہیں امی……. آپ غلط ہے میں نے آپ کا بھروسہ توڑ دیا ہے میں نے آپ کے یقین کو غلط ثابت کردیا ہے…….میں نے ایک ایسے شخص سے محبت کی جس نے محبت کے نام پر مجھے بدنامی کی صورت بنا شادی کے ماں بننے کا تحفہ دیا ہے ایسا بدنما داغ میرے دامن پر. لگا دیا کہ جسے کسی بھی طرح صاف نہیں کیا جاسکتا …..اور خود وہ اتنی دور جا چکا ہے کہ اس کا سایہ بھی اس کی زندگی پر نا پڑ سکے
وہ ان کی بات کاٹ کر بیچ میں بول پڑی لیکن کتنی ہمت سے اس نے یہ بات کہی تھی وہی جانتی تھی اپنی امی کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ زمین میں سما جاۓ امی نے ایک کے بعد ایک کئی تھپڑ مار کر اس کے سرخ رخسار کو مزید سرخ کردیا تھا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا کیونکہ احساس جیسے مر ہی چکا تھا
بے عیرت شرم نہیں آئی تجھے کچھ نہیں تو کم سے کم میرے مرنے تک کا انتظار کرلیتی……….
وہ غصے سے بولیں اور پھر بے آواز رونے لگی
چھ سال کی تھی تم جب تمہارے ابو کا انتقال ہوگیا تھا ایک اکیلی عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اس کا جینا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ جاننے کے باوجود میں نے کبھی اپنی آگے کی زندگی کا نہیں سوچا لاکھ کہا سب نے شادی کرلو مگر میں نے فیصلہ کرلیا کہ تمہیں کبھی اکیلا نہیں کرونگی. صرف تمہارے لیے جیونگی تمہاری خوشیوں کو پورا کرنے کے لیے……….. اتنے سالوں تک کسی کی نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہین ہوئی آج انہیں لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع دے دیا میری اپنی ہی بیٹی نے………یا اللہ یہ دن دکھانے سے پہلے مجھے موت کیوں نہیں دے دی
اخری جملے کہتے ہوۓ وہ بے بسی سے روپڑی صوفی کا دل تڑپ اٹھا اپنی امی کو اس حال میں دیکھ کر کتنے ناز اٹھاۓ تھے انہوں نے اس کے کتنی آزادی دی ہوئی تھی اسے کیونکہ انہیں بھروسہ تھا لیکن صوفی نے اپنے ہاتھوں اس بھروسے کو توڑ کو رکھ دیا تھا اور ساتھ ہی اپنی امی کو بھی
امی آپ مجھے ماریے….. مجھے بددعائیں دیجیے…. میری جان لے لیجیے……….. میں کبھی غلط نہیں سمجھونگی آپ کو آپ جو کرینگی وہ سہی ہی ہوگا لیکن میری بھی غلطی نہیں ہے اس میں…….. میں نے تو محبت کی تھی اعتبار کیا تھا…… دھوکہ تو اس نے دیا…. بے وفائی تو اس نے کی……. میں نے اپنی عزت اس کے سپرد نہیں کی تھی بس ایک غلطی ہوگئی مجھ سے…….. امی مجھے مار دیجیے کیونکہ میں خود سے مر بھی نہیں سکتی…
وہ شرمندگی سے بولتے ہوۓ رو پڑی
تجھے مار کر اگر سب ٹھیک ہوسکتا تو ضرور مار دیتی مگر افسوس……..کچھ چیزیں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں ملتی….. جیسے کہ عزت….. جب لوگوں کو معلوم ہوگا
وہ سنجیدگی سے کہنے لگی اور اچانک رک گئی ایک ڈر نے انہیں بری طعح خوفزدہ کردیا
…. جب لوگوں کو معلوم ہوگا تب کیا ہوگا صوفی ……….میرے ابو کی سالوں کو عزت خاک میں مل جائگی جنھیں لوگ یاد کرکے بھی عزت سے نام لیتے ہیں جب یہ حقیقت سامنے آئگی تب کیا ہوگا اس عزت کا میری امی تو اپنی جان ہی دے دیگی جن بھائیوں نے اتنے سال میری زمہ داریاں اٹھائی میری ہی وجہ سے ان کے اور ان کے بچوں کی زندگیاں تباہ ہوجائگی
وہ دیوانہ وار ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ بولی
نہیں….. ہم یہاں نہیں رہے گے صوفی ہم ان سب کی زندگی سے بہت دور چلے جائنگے جہاں ہمارا کالا سایہ بھی ان پر نا پڑے ہم یہاں نہیں رہے گے
صوفی ایک پل کے لیے ان کی حالت سے ایسا لگا جیسے وہ صدمے سے اپنا آپا کھو بیٹھی ہے جس کی زمہ دار وہ خود تھی وہ ان کے گلے لگ کر انھین چپ کروانے لگی
امی………………….. امی…….. امی
انہیں سنبھالنے کی کوشش میں وہ خود ہی اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی












امن کو اج کمشنر سے ملنے جانا تھا اسلیے وہ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوگیا بلیک شرٹ پر بلیک ہی جینس پہن کر بالوں کو جلدی جلدی برش کیا اور پرفیوم سپرے کرکے اپنی تیاری مکمل کی نیچے آیا تو ناشتہ لگ چکا تھا اس نے کھڑے کھڑے ہی بریڈ پر مکھن لگایا اور جلدی جلدی بائٹ لیتے ہوۓ ڈھیر سارا منہ میں بھر لیا
امن یہ کیا کر رہے ہو بیٹا تمیز سے بیٹھ کر کھاؤنا
نسیم نے جھنجلا کر کہا
امی… مجھے جانا ہے
وہ بمشکل بول پایا اور جوس کا سپ لے کر دوسرے بریڈ پر بٹر لگانے لگا اور اسے بھی منہ میں بھر کر ٹشو سے ہاتھ صاف کیے اور شوز نکال کر پہنے لگا زارا بھی کالج کے لیے تیار ہوکر باہر آگئی
گڈ مارننگ ٹو آل
وہ باہر نکلتے ہوۓ خوش دلی سے بولی لیکن امن کو جانوروں کی طرح ناشتہ کرتے دیکھ اس نے برا سا منہ بنایا
چھی ی ی ی……. گندہ
وہ اسکے آگے منہ برا کرکے بولی امن نے گھرکنے کے انداز میں سر جھٹک کر اس انکھیں دکھائی وہ خاموشی سے آکر کرسی پر بیٹھ گئی
امن بیٹا زارا کو بھی کالج چھوڑ دینا جاتے جاتے
نسیم نے اسے کام بتایا تو وہ جھنجلا کر سر نفی میں ہلاتا ہوا اپنے موبائیل پر میسیج دیکھنے لگا
امن وہ اکیلی کیسی جائیگی بیٹا………اج شزا بھی نہیں جارہی ہے… . راستے میں ہی تو ہے چھوڑ دو جاتے جاتے
نسیم نے دوبارہ کہا تو اس نے بےزاری سے دیکھا اور پانی پی کر زارا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور کھینچ کر لےجانے لگا زارا نے جلدی سے کرسی سے بیگ اٹھایا
مجھے ناشتہ تو کرنے دو
نہیں مجھے دیر ہورہی ہے بعد میں کرلینا چلو ابھی
امن……….
نسیم اسے آواز دیتی رہ گئی لیکن وہ بنا رکے چلا گیا تو تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی
موٹو کہیں کے خود تو ٹھوس ٹھوس کر کھالیا اور مجھے جوس تک پینے نہیں دیا
امن نے بائک سٹارٹ کی تو زارا بیٹھتے ہوۓ غصے سے بولی
تمہیں کھانے کی کیا ضرورت ہے تمہارا پیٹ تو اپنے ہیرو کو دیکھ کر ہی بھر جاۓ گا
وہ بہت تیزی سے بائیک چلانے لگا کیونکہ کمشنر سے ملنے اسے کافی دور جانا تھا اور وہ بھی جلدی
ویسے اتنی جلدی میں اتنا سج دھج کر کہاں جارہے ہوں تم
زارا نے اس کی جلدبازی پر پوچھا
اپنی محبوبہ سے ملنے…
وہ مسکرا کر بولا زارا نے او کی شکل میں منہ کھولا
کون بےچاری پاگل خانے سے بھاگ کر اگئی تمہاری محبوبہ بننے
اڑالو مزاق لیکن دیکھنا ایک دن سوچو گی کہ کاش مجھے بھی امن جیسا کوئی ملتا ……سمارٹ ہینڈسم…. انٹیلیجنٹ
اس نے عادتاً بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا
لکھ کر لے لو وہ دن کبھی نہیں آۓ گا
تم خود کو کیا ایشوریا راۓ سمجھتی ہو
نہیں تمہیں شکتی کپور…..
زارا نے اس کے کان کے قریب ہوکر کہا امن اسے پاس پاکر زور سے چلایا زارا کان سہلانے پر مجبور ہوگئی
پاگل………
وہ غصے سےبولی اور چپ کرکے بیٹھی رہی کیونکہ چاہے وہ جو کہہ لیں یا کرلیں امن سے جیت پانا مشکل تھا کالج پہنچنے پر امن نے گاڑی روکی
اوکے باۓ ٹیکسی سے گھر چلی جانا…….
وہ جلدی سے بولا اور بجلی کی تیزی سے بائیک اڑا لے گیا
جانور ہے ایک نمبر کا…………
زارا نے اسے جاتے دیکھ کر کہا اور اندر چلی ائی