قسط 4
امن جلدی جلدی ریسٹورانٹ میں پہنچا جو شہر سے کچھ دوری پر ایک گاؤں میں مین چوک پر تھا ریسٹورانٹ معمولی سا تھا لیکن وہاں کافی بھیڑ تھی سب سے کونے والی ٹیبل کے پاس سول ڈریس میں کمشنر حیدر بیٹھے سیگریٹ پھونک رہے تھے
اسلام علیکم سر……….. امن مرزا
امن ان کے پاس آکر بولا تو انہوں نے سگریٹ بجھا کر ٹرے میں رکھی
پلیز سٹ…..
انہوں نے امن کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اطراف کا جائزہ لیا کہ کوئی ان کی جانب. متوجہ تو نہیں تسلی کرکے انہوں نے دوبارہ امن کی جانب دیکھا
کے کے نے مجھے بتایا آپ کے بارے میں …..
جب اس نے آپ کی بات کی ..اس وقت مجھے لگا تھا کہ کوئی چالیس پینتالیس سال کا سنجیدہ آدمی ہوگا لیکن آپ تو ماشااللہ…… جوانی میں عشق محبت کی جگہ یہ کیا شوق پال لیے اپ نے
کمشنر نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اپنی حیرانی ظاہر کی امن ہلکا سا ہنسا
عشق محبت ہی ہے سر….. عشق کام سے اور محبت وطن سے
وہ اپنے سن گلاسیس میز پر رکھتے ہوۓ بولا کمشنر نے قہقہہ لگایا
…. لگتا ہے ابھی تک کوئی ڈرانے دھمکانے والی آئی نہیں ہے لائف میں …….
ابھی تک تو نہیں ائی لیکن ہوسکتا اب کوئی چورنی ٹکرا جاۓ اور اسے سدھارتے سدھارتے خود بگڑ جاؤں
وہ مسکراتے ہوۓ بولا کمشنر اس کی بات پر ہنس دیا
اچھا مطلب فلموں کے شوقین ہو……
اس کی باتوں سے انہوں نے آسانی سے اندازہ لگا لیا امن مسکرا دیا ویٹر ارڈر لینے آیا تو دونوں نے کافی کا کہا
سر اپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا مطلب شہر سے دور اس جگہ…….. کیا کوئی پرابلم ہے
ویٹر کے جانے کے بعد امن نے سنجیدگی سے پوچھا تو کمشنر نے ایک گہری سانس لی
ہاں ……..جب سے میں نے یہ کیس اپنے ہاتھ میں لیا ہے تب سے ہی مجھ پر نظر رکھی جارہی ہے
ان لوگوں کی پہنچ کافی اوپر تک ہے انہیں بہت اسانی سے ہر بات کا پتہ چل جاتا ہے ہم سے پہلے انہیں ہر بات کی خبر مل جاتی ہے میں نے بہت کوشش کی لیکن ان لوگوں نے میرے انویسٹیگیشن کرنے پر بھی روک لگوادی ہےلیکن میں پھر بھی سیکریٹلی اس کیس پر کام کرتا رہا شاید ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے اسی لیے مجھے شک ہے کہ اب بھی ان کی نظر ہے مجھ پر…………. تمہیں ہہاں اس لیے بلایا کیونکہ میں یہاں اپنی وائف کے ریلیٹیو کی شادی پر آیا کسی طرح سے یہاں پر پہنچا ہوں تاکہ تم سے ملتے ہوۓ کوئی دیکھ نا لے
یہ فائل….
انہون نے پاس رکھی ایک فائل اسے دی اور ساتھ ہی آس پاس بھی نظر دوڈائی امن نے فائل میز پر رکھ کر کھولی پہلے صفحے پر ہی کسی کی تصویر لگی ہوئی تھی
یہ ملک حسین ہے…… . ایم. ایل.اے………. اگر کسی طرح ہم اسے ایکسپوز کرنے میں کامیاب ہوگۓ تو کچھ لوگوں کے بھید تو خود ہی کھل جاۓ گے کیونکہ یہ ان سب کا سربراہ ہے اس کے متعلق میرے پاس تو زیادہ جانکاری نہیں ہے لیکن شکیل احمد اسی پر کام رہا تھا اور اپنی جان کی بازی لگا کر اس نے حسین کے خلاف ثبوت بھی حاصل کرلیے تھے اگر اس رات اس کا قتل نا ہوا ہوتا تو اج وہ حسین سلاخوں کے پیچھے ہوتا
ان کے لہجے میں غصے کے ساتھ افسوس بھی تھا
لیکن سر وہ ثبوت……..
وہ سب ایک کمپیورٹر چپ میں ہے لیکن وہ کہاں ہے یہ صرف شکیل جانتا تھا جس رات اس کا قتل ہوا مجھے اس کا فون آیا تھا اور اس نے کہا کہ اسے ملک حسین کے خلاف سارے ثبوت مل گۓ ہے لیکن حسین کو اس بات کا پتہ چل گیا اس لیے اس نے ان ثبوتوں کو اسی کے گھر میں کہیں چھپا دیا ہے حسین کے لوگ اس کے پیچھے ہی تھے اس نے کسی طرح مجھ سے بات کرکے مجھے اطلاع دی وہ مجھ سے بات ہی کر رہا تھا تب ہی کسی نے اس پر فائیرنگ کی اور…..
وہ تفصیل بتاتے بتاتے رک گۓ امن نے ان کے لہجے سے اداسی صاف محسوس کی
شکیل صرف ایک ایماندار افسر نہیں بلکہ میرا بہت اچھا دوست بھی تھا میرے کہنے پر ہی وہ یہ کام کررہا تھا ……………. اسے تو پروکٹیکٹ نہیں کرپایا میں لیکن اس قاتل کو سزا ضرور دے کر رہونگا تب ہی میرے دوست کی روح کو سکون ملے گا اور اس میں مجھے تمہاری مدد چاہیے تم آج کل اسی پر کام کررہے ہو اسے ایکسپوز کرنا چاہتے ہو نا بس سمجھ لو دونوں کا مقصد ایک ہی ہے تم میرا کام کردو……. حسین سے جڑی ہر خبر اس کے ایک ایک جرم کی جانکاری میں دونگا تمہیں ثبوتوں کے ساتھ ادھر میڈیا کے زریعے وہ ایکسپوز ہوگیا تو کوئی اس کے خلاف کاروائی کرنے سے روک نہیں سکتا مجھے
بلکل سر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں….. کسی بھی طرح میں آپ کو اس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرکے دونگا چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے
امن نے بھی انھیں یقین دلایا تو انہوں نے اس کی جانب دیکھ کر سر کو جنبش دی
لیکن سنبھل کر رہنا ہوگا تمہین کیونکہ اس کام میں بہت رسک ہے اس وقت وہ الرٹ ہے بہت سخت انتظامات کیے ہوگے اس نے……. اس لیے پکڑے جانے کا خطرہ ہے اور ہاں اس بیچ تم مجھ سے کوئی کانٹیکٹ نہیں کروگے نا مجھ سے ملوگے نا فون پر …….یہ دیکھو…..
انہوں نے اپنے فون پر ایک تصویر دکھاتے ہوۓ کہا وہ کوئی لڑکا تھا جو بتیس دانت نکال کر ہنس رہا تھا
یہ میرا بھانجا ہے انور…….. ….یہ کچھ دن تمہارے ساتھ رہے گا تمہاری ہیلپ بھی کریگا اور تمہیں اگر مجھ سے کوئی کانٹیکٹ کرنا ہے تو وہ اسی کے زریعے ہوگا یہ یہی گاؤں میں رہتا ہے اور پڑھائی کے لیے شہر آنے والا ہے اس پر کسی کو شک نہیں ہوگا یہ کچھ دن ہاسٹل کی بجاۓ تمہارے ساتھ رہے گا
انہوں نے اس کے بارے میں بتاتے ہوۓ کہا
شکل سے لگتا ہے کہ اس کی ہیلپ تو نہیں ملے گی بلکہ کام اور مشکل کرے گا
امن نے تصویر کو بغور دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا
میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو….
کمشنر اسے خاموش پاکر بولے تو وہ ہڑبڑا کر انہیں دیکھنے لگا
دیہاتی ہے کچھ باتوں میں بےوقوف بھی ہے لیکن بھروسہ کرسکتے ہو تم اس پر ٹینشن مت لو پریشان نہیں کریگا تمہیں
وہ اس کے چہرے کے زاویوں سے اس کی سوچ کا اندازہ لگا چکے تھے جس پر امن شرمندہ ہوا
نو سر آۓ ڈڈنٹ مین دھیٹ ……..
وہ شرمندہ ہوکر صفائی دینے لگا تو انہون نے مسکرا کر اسے روکا
اٹس اوکے اٹس اوکے…….
انہوں نے فون بند کرکے جیب میں رکھا
تو پھر ٹھیک ہے آپ لگ جایئے کام سے کل انور اجاۓ گا آپ کے گھر
وہ اٹھتے ہوۓ بولے تو امن بھی اٹھ گیا
اوکے سر تھینکیو
وہ ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا
خدا حافظ
کمشنر خدا حافظ کہہ کر نکل گئے لیکن وہ وہیں بیٹھ گیا












زارا کینٹین میں بیٹھی تھی اج شزا نہیں تھی اسلیے وہ بور ہورہی تھی کیونکہ کافی دیر سے اس نے ضارم کو بھی نہیں دیکھا تھا وہ بے دلی سے سینڈوچ کھارہی تھی جب کوئی اکر اس کے سامنے رکا تھا اس نے دیکھا تو وہ ضارم تھا اس کی نظریں وہیں جم گئی ضارم کسی سے فون پر بات کر رہا تھا بے حد ہی مصروف انداز میں اور اپنے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس نے ٹیبل پر رکھا اور خود بھی وہیں کرسی پیچھے کرکے بیٹھ گیا اس نے زارا کی جانب نہیں دیکھا جب کے زارا کی سانسیں بہت تیز چلنے لگی اس نے پہلی بار اسے اتنے قریب سے دیکھا تھا وہ اس کا ایک ایک نقش بہت عورءسے دیکھ رہی تھی ضارم کچھ لکھنے کے لیے اپنے جیبوں میں پین تلاش کررہا تھا لیکن اسے نا ملا زارا کے پاس میں پین دیکھا تو وہ زارا سے مخاطب ہوا
پین…..
اس نے زارا سے پین مانگا وہ مدہوشی کے عالم. میں اس کی جانب پین آگے بڑھانے لگی ضارم نے جلدی سے پین لے کر کاغذ پر کوئی نمبر لکھا اور فون پر بات کرتے ہوۓ ہی پین کی کیپ لگا کر زارا کی جانب بڑھائی زارا نے اسکے چہرے کودیکھتے ہوۓ ہی اس سے پین لینا چاہا تب اس کی انگلیاں ضارم کی انگلیوں سے ٹکرائی تو زارا کو جیسے کرنٹ چھو گیا ضارم بنا اس کی جانب دیکھے ہی اٹھ کر چلا گیا جب کے زارا دور تک اسے جاتا دیکھتی رہی پھر جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی اور شرما کر مسکرادی
چند پل. کا ہی ایک سحر تھا جو اسے دس گنا خوشی دے گیا تھا








زارا کے کل سے سیمیسٹر شروع ہونے والے تھے وہ بیٹھی تو پڑھائی کرنے تھی لیکن پڑھائی تو تب کرتی جب اس کا زہن جگہ پر ہوتا زہن تو کہیں اور ہی ضارم کے خیالوں میں بھٹکا ہوا تھا دن کا وہ لمحہ جب ضارم کو اس نے قریب سے دیکھا تھا وہ اسی لمحہ میں قید تھی وہ ضارم کے ایک ایک نقوش کو دھیان کرکے مسکرا رہی تھی
امن گھر واپس آیا تو سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے ہی اس نےایک نظر زارا کے کمرے کی جانب دیکھا تو وہاں لائٹ جل رہی تھی اس نے گھڑی پر نظر ڈالی تو وہ رات دیڑھ بجا رہی تھی وہ حیران ہوتا اس کے کمرے کی جانب بڑھا کیونکہ زارا کو اتنی رات تک جاگنے کی عادت نہیں تھی وہ روم کا دروازہ دھیرے سے کھول کر اندر آیا اور زارا کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا جو کہ کسی اور ہی دنیا میں کھوئی تھی
اے چشمش…….
امن نے اسے پکار کر ہوش دلایا تو وہ اسے دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گئی امن اس کی حرکت پر مسکرایا اور چئیر کو پلٹا کر دونوں پیر ارد گرد رکھ کر بیٹھ گیا
سوئی نہیں اب تک……..
وہ اسے دیکھ کر بولا
کل پیپر ہے… پڑھنا ہے
وہ کتاب اٹھا کر منہ بناتے ہوۓ بولی
لیکن جب میں نے دیکھا تب تم پڑھ نہیں رہی تھی
وہ معنی خیزی سے بولا تو وہ نظر چرا کر ہلکا سا مسکرادی
ارے واہ تم تو بلش کررہی ہو
امن ہنستے ہوۓ بولا تو وہ اسے خفگی سے دیکھنے لگی
اچھا بتاؤ کب سے چل رہا یہ سب…
وہ کرسی کی بیک پر تھوڑی ٹکاتے ہوۓ بولا
کیا سب…….
یہی تمہارے ہیرو کا چکر…….
امن……
وہ اسے گھور کر بولی
کوئی چکر وکر نہیں ہے….. بلکہ….. اج تک تو میں نے ان سے بات تک نہیں کی
وہ پہلے جتاتے ہوۓ پھر رک رک کر بولی
آر یو سیریس….. تو پھر
امن بے یقینی سے بولا
بس انہیں دیکھنا اچھا لگتا ہے بات کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی
وہ شرما کر بولی تو امن نے اپنا سر پیٹ لیا
تو ایک کام کرو تم کالج میں واچ میں کی جاب کے لیے اپلاۓ کردو پھر ساری عمر دیکھتی رہنا
امن نے اس کی بیوقوفی پر طنز کیا تو وہ اسے گھورنے لگی
ارے ہاں لیکن وہ ہمیشہ کالج میں تو نہیں رہے گا پڑھائی ختم ہونے کے بعد تو چلا جائگا مطلب کچھ اور سوچنا پڑے گا
وہ اسے مزید جلانے لگا
امن….
وہ اس ے گھور کر بولی
ایکزیکٹلی…. اگر صرف دیکھنا ہی ہے تو ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا
زارا نے منہ دوسری طرف کرلیا تو امن مسکرا دیا
اچھا بتاؤ اب کیا……
مجھے…. مجھے لگتا ہے… مجھے ان سے محبت ہوگئی ہے
اس نے رک کر کہا تو امن اسے بہت غور سے دیکھنے لگا
ایسے کیا دیکھ رہے ہو
اس کی خاموشی پر زارا نے حیرت سے کہا
کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ تمہیں اس سے محبت ہوگئی ہے
وہ سنجیدگی سے بولا تو زارا نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی اور کچھ سوچنے لگی
مجھے نہیں پتہ……
وہ جھنجلا کر بولی اور کرسی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس اگئ
لیکن وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں……. ان کا ہر انداز ان کی ہر بات بہت اچھی لگتی ہے مجھے اگر وہ کسی دن نا ہو تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا بہت اداس دن لگتا ہے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو من کرتا ہے بس ان کی باتین سنتی رہوں
وہ باہر لان میں لگے پھولوں کو دیکھتے ہوۓ بولی امن بس خاموش اس کے چہرے کو دیکھتا رہا شاید یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ زارا کہ چہرے پر زیادہ خوشی ہے یا اس کے لہجے میں
ایسا تو محبت میں ہی ہوتا ہے نا امن
وہ اس کی جانب دیکھ کر بولی تو امن نے دوسری طرف دیکھ کر ایک گہری سانس لی اور اٹھ کر اس کے پاس آیا
ایک بات بولوں….
وہ اسے دیکھتے ہوۓ سنجیدگی سے بولا زارا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
مجھے اس طرح کے پیار محبت پر بلیو ہی نہیں ہے
اس نے سنجیدگی سے کہا لیکن زارا نے اسے گھورا
سیریسلی….. میں اپنی سوچ کے مطابق بتا رہا ہوں…. یہ بنا دیکھے ……….آواز سن کر محبت ہوجانا……. پہلی نظر میں کسی کے عشق میں پاگل ہوجانا…بنا کسی کو جانے پہچانے پیار کا یقین ہوجانا یہ سب مجھے کتابیں باتیں لگتی ہے
پیار تو وہ ہوتا ہے جو ماں باپ ور اولاد کے درمیان ہوتا ہے بھائ بہن…… شوہر بیوی کہ درمیان ہوتا ہے…… کیونکہ اس پیار میں ایک دوسرے کے لیے عزت ہوتی ہے فکر ہوتی ہے بھروسہ ہوتا ہے ڈمانڈس نہیں ہوتی لیکن زمہ داری ہوتی ہے ایک جائز رشتہ ہوتا ہے جس میں محبت خود خدا پیدا کرتا ہے اسلیے وہ اس پہلی نظر کی محبت سے کہیں ذیادہ مضبوط ہوتی ہے نامحرم سے محبت جتنی آسانی سے ہوسکتی ہے اتنی آسانی سے ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
مجھے نہیں پتہ کہ میں کتنا سہی ہوں اور کتنا غلط لیکن مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے
ہاں اسے غلط نہیں سمجھتا میں میرے مطابق اسے کسی رشتے کی شروعات کہا جا سکتا ہے محبت کی جانب پہلا قدم کہا جاسکتا ہے ……..کسی پرسنالیٹی یا. خوبصورتی سے امپریس ہوکر اس کی جانب اٹریکٹ ہونا ایک نارمل سی بات ہی اٹس آ ہیومن بیہویر….بٹ. نوٹ لو
اور دل تو کبھی کبھی بے جان چیزوں کے بغیر نہیں لگتا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہمیں ان سے محبت ہے…. سمپل
وہ پوری تفصیل سے اسے بتاتا رہا زارا غور سے اسے سن رہی تھی اس کی بات ختم ہونے پر بولی
جو بھی ہے….. مجھے وہ سب تو نہیں پتہ بس مجھے وہ اچھے لگتے ہیں
وہ خاموش ہوکر سوچنے لگی واقعی وہ خود نہیں جانتی تھی کہ یہ محبت ہے یا کچھ اور وہ تو اسے محبت ہی سمجھتی تھی لیکن امن کی بات بھی اسے غلط نہین لگی تھی
اے چشمش………..
اسے گم دیکھ کر امن نے اس کے آگے چٹکی بجائی
اتنا مت سوچو ورنہ بلاسٹ ہوجائگا
وہ اس کے سر پر چپت مارتے ہوۓ بولا
اوچ….. جانور
اس کی ہلکی سی چپت بھی زارا کو زور سے لگی تو وہ سر سہلاتے ہوۓ بولی
بہت رات ہوگئی ہے سو جاؤ اب……
نہیں مجھے پڑھنا ہے…. ورنہ میں فیل ہوجاؤنگی
وہ فورا اکر اپنی جگہ بیٹھ گئی لیکن امن نے اسے ہاتھ پکڑ کر واپس اٹھایا اور کھینچتے ہوۓ بیڈ کے پاس لے آیا
الریڑی بیٹری ہو اگر اس طرح رات رات بھر پڑھوگی تو ڈبل بیٹری ہوجاؤگی
وہ اس کا چشمہ نکالتے ہوۓ بولا زارا نے اسے غصے سے دیکھا وہ بس کبھی کبھی ہی پڑھتے وقت چشمہ پہنتی تھی پھر بھی وہ اسے ہمیشہ چڑھاتا تھا
سو جاؤ… اور اگر پیپر میں کوئی پرابلم سمجھ ناآۓ تو لکھ دینا کہ میرے فیل ہونے کی وجہ مسٹر ہیرو ہے جو سارا وقت میرے زہن پر سوار رہا اور مجھے پڑھنے نہیں دیا
وہ مسکرا کر بولا تو زارا نے اسے مارنے کے لیے تکیہ اٹھایا لیکن اس کے پہلے ہی وہ روم سے باہر نکل گیا
گڈ نائٹ چشمش………
اس نے دروازے سے جھانک کر کہا تو زارا نے تکیہ پھینک کر مارا
گڑ نائٹ دڑیل…..
زارا بھی زور سے بولی اور بستر پر لیٹ گئی













دونوں الگ ہاسٹلس میں رہتے تھے لیکن کالج ایک ہی تھا صوفی نے میڈیکل. میں ایڈمیشن کیا تھا اس کی امی کا خواب تھا کہ وہ ایک بہت اچھی ڈاکٹر بنے وہ بچپن سے ہی باپ کی محبت سے محروم ہوگئی تھی لیکن اس کی امی نے کبھی اسے یہ کمی محسوس نہیں ہونے دی انہوں نے ہر قدم پر دونوں کا فرض نبھایا وہ صوفی کی ماں سے زیادہ اس کی سہیلی تھی ہر بات ان سے شئیر کرتی تھی
کالج کے پہلے دن سے ہی اس نے راج کو نوٹس کیا تھا اس کا دیکھنا مسکرانا پھر دھیرے دھیرے اس سے بات کرنے کی کوشش پہلے پہلے تو صوفی کو بہت غصہ آتا تھا اس پر وہ اسے جانے کتنی ہی باتیں سناتی تھی لیکن وہ کچھ نہیں کہتا جواب صرف ایک دیتا تھا مجھے تم سے محبت ہے اور اس جواب پر صوبی مزید آگ بگولہ ہوجاتی تھی اس کے لیے اس نے پرنسپل سے بھی کمپلینٹ کی اور راج کو کافی ڈانٹ پڑی لیکن اس پر کچھ خاص اثر نہین ہوا بلکہ وہ مزید شاعرانہ ہوکر اس کے پیچھے گھومنے لگا صوفی کو بھی اس کی کچھ حرکتوں پر نا چاہتے ہوۓ بھی ہنسی اجاتی اور پھر اس کے دل میں خود بخود ہی راج کے لیے جگہ بن گئی لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ اپنا ذہن پڑھائی کے علاوہ فیالحال کسی اور جگہ صرف نہیں کرنا چاہتی تھی…..لیکن راج نے اس کی انکھوں میں محسوس بھی کرلیا تھ کالج میں ہر کوئی اسے صرف اسی نام سے جانتا تھا وہ بہت ہی ہینڈسم تھا لیکن پڑھائی میں اس کا دل بلکل نہیں تھا لیکچرس کے نام سے بھاگتا پھرتا تھا پاس کس طرح ہوتا تھا رب ہی جانے …….صوفی کے لیے کبھی دیواروں پر نام لکھنا کبھی چپکے سے پھول دینا کبھی سب کے سامنے گانا گاتے ہوۓ اسے حال دلل سنانا اس طرح کی پاگل حرکتیں کرتا تھا کہ ہر کسی میں مشہور ہوچکا تھا……..
ایک وقت ایسا بھی آیا جب صوفی نے کو اظہار محبت کرنا ہی. پڑا ورنہ وہ چلا جاتا اور صوفی پچھاتی رہتی اسے یقین ہوچکا تھا راج محبت پر اس لیے جب راج نے کالج چھوڑنے کا فیصلہ کیا تب صوفی نے اسے روکنا چاہا وہ رک تو گیا لیکن صرف صوفی کے لیے اور اس وقت سے ان کی کہانی شروع ہوئی وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت ضروری ہوگیے وقت کے ساتھ محبت گہری ہوتی گئی لیکن پھر اچانک صوفی نے اس میں بدلاؤ محسوس کیا وہ حد سے زیادہ سیریس ہونے لگا تھا اس کے زہن پر اب پیسہ کامیابی… شہرت کا جنون سا چڑھ گیا تھا جن لوگوں کے صحبت میں وہ رہنے لگا تھا ان لوگوں نے اسے شارٹ کٹ کا راستہ دکھایا اور وہ آنکھیں بند کیے اس راستے پر چلنے لگا اب وہ ان لقگوں کے درمیان رہ کر بندوق چلانا مارپیٹ کرنا اور نا کانے کیا کیا سیکھ چکا تھا صوفی نے اسے بہت سمجھایا کہ کوئی غلط کام نا کرے لیکن اب اس کے لیے کچھ غلط نہیں تھا جو تھا سہی تھا کم سے کم صوفی کو اس بات کی تسلی تھی کہ وہ اس کے ساتھ تو ہے اور امید بھی کہ ہمیشہ ساتھ رہے گا مگر بہت ڈیادہ وقت نہیں لگا اس امید کو ٹوٹنے میں