ہمنوا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7

ہاۓ زارا………
زارا نے آج کالج میں سب کی نظروں میں حیرت کے ساتھ ساتھ اپنے لیے تعریفیں دیکھی تھی وہ اور شزا ابھی آف پریڈ میں کینٹین میں آکر بیٹھی تھی جب ضارم کی آواز نے اسے چونکا دیا
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں…..
ضارم نے مسکرا کر پوچھا تو اس نے گردن ہلا کر اجازت دے دی
ہم لوگوں نے کل شام ایک گیٹ ٹو گیدر اریج کی ہے میں آپ دونوں کو انوائٹ کرنا چاہتا ہوں
وہ زارا کی جانب دیکھ کر بولا
ہمیں……
شزا نے حیرانی سے پوچھاتو وہ اس کی جانب دیکھنے لگا
جی…. سمسٹرس مکمل ہو چکے ہے اب کالج کو الواداع کہنے کا وقت اگیا ہے اسلیے سوچا جانے سے پہلے سب دوستوں کے ساتھ ایک تقریب ہوجائے
اس نے شزا کو تفصیل سے بتایا زارا اسے غور سے دیکھنے لگی سفید رنگت پر اٹھتا ہوا بلیک شرٹ اور آف وہائٹ پینٹ…. نفاست سے بال سٹائل کیے ہوۓ کلائی پر مہنگی واچ باندھے وہ اتنا دلکش تھا کہ دل اس کی جانب کھینچتا چلا جائے وہ زارا کی نظریں خود پر محسوس کررہا تھا لیکن پھر بھی پوری مصروفیت سے شزا سے بات کر رہا تھا
یہ تو اچھی بات ہے لیکن آپ نہیں ہونگے تو کالج میں رونق نہیں ہوگی ہے نا زارا
شزا کے ہاتھ پکڑنے پر وہ ہوش میں آئی اور ہلکا سا سر ہلایا جس پر ضارم ہنسنے لگا
ٹھیک ہے پھر کل شام آپ دونوں کا انتظار رہے گا
وہ دونوں کو باری باری دیکھ کر بولا اور اٹھ کر باہر کی جانب چلا گیا
کیا بات ہے زارا تیرے ہاتھ تو سیدھے لوٹری کا ٹکٹ لگ گیا اس نے سامنے سے تجھے دعوت دے دی
شزا اس کے قریب ہوکر بولیتو زارا مسکرائی
مگر شام کو…… اگر امی نے منع کردیا تو
زارا نے خیال آتے ہی پریشان ہوکر کہا
تو کیا امن ہے نا اس سے کہہ دے نا وہ خود کوئی چکر چلا کر تیرا کام بنا دیگا تیرے پاس تو چراغ کا جن ہے تجھے کس بات کی ٹینشن
شزا نے اس کی مشکل کا حل بتا دیا تو وہ مسکرادی
اور تم تم نہیں آؤگی کیا….
نہیں میں تو پہلے ہی جانتی ہو میری امی نے سنتے ہی بوال کھڑا کردینا ہے اسلیے پوچھنے کا بھی مطلب نہی۔ آتا
وہ بے چاری سی شکل بنا کر بولی
کم آن شزا اگر تم نہیں آئی تو میں اکیلی کیا کرونگی آکر
اب تم اکیلی کہاں اب تو پرنس چارمنگ ہوگے وہاں تمہارا ویلکم کرنے کے لیے
شزا نے شرارت سے کہا تو زارا نے اس کے کاندھے پر مارا
💜💜💜💜💜💜💜💜💜
کہتے ہے کہ لاکھ چھپالو مگر کچھ باتیں کبھی نہیں چھپتی صوفی اور اس کی امی مارکیٹ سے لوٹے تھے گھر کے لیے کچھ خریدی کرکے تب ایک عورت نے انہیں راستے میں ہی روک لیا جو ان کی پڑوسن تھئ صوفی اور اس کی امی حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی
باجی…… آپ کی لڑکی پیٹ سے ہے نا…….. شوہر کہاں ہے اس کا…… نکاح ہوا بھی ہے یا نہیں
اس عورت نے طنزیہ کہا
آپ کو لگا آپ لوگ چھپاۓ گے تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلے گا ارے جس ڈاکٹر کے پاس گئی تھی نا یہ علاج کروانے وہ بھانجی ہے میری اس نے بتایا مجھے……… آپ نے تو کہا تھا یہ کنواری ہے تو یہ بچہ کہاں سے اگیا دیکھیے باجی یہ شریفوں کا محلہ ہے یہاں شریف لوگ رہتے ہین آپ اپنی بدچلن بیٹی کو لے کر کہیں اور جائے
وہ نفرت سے بولی امی کے پاس اس عورت کا منہ بند کرنے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں تھا
دیکھیے
صوفی نے اسے روکنا چاہا لیکن اس عورت نے انکھیں اور ہاتھ دکھا کر اسے روک دیا
چپ کر …..
وہ زور سے بولی تو پاس سے گزرتی ہوئی دو عورتیں بھی رک گئی
کیا ہوا زینت…….
ان میں سے ایک نے پوچھا تو زینت نے تمام کہانی دونوں کو سنادی دونوں منہ پر ہاتھ رکھے اس کی مرچ مسالہ لگائی گئی باتوں کو سننے لگے صوفی کو لگا اس کی امی پتھر بن گئی اور اس پتھر سے انسو بھی نکلنے بند ہوگۓ ہے وہ خود ہی ان کا بازو پکڑ اندر کی جانب لے جانے لگی
ڈوب مرنا چاہے ایسی ماں کو جس کی اولاد اتنی بدکار نکلے اور شرم تو اتی نہیں دیکھو کیسے معصوم بنی پھرتی ہے جیسے بڑی دودھ کی دھلی ہے اسے یہاں سے نکال دینا چاہیے ایسی لڑکیاں اگر ہمارے محلے میں رہے گی تو ہمارے بچوں پر کیا اثر پڑے گا
جاتے ہوۓ ان کے کانوں میں ان لوگں کی آواز پڑی
بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم……….
💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜
زارا……….
زارا فریش ہوکر کمرے کے باہر آئی تو ڈائنگ ٹیبل پر یوسف مرزا نے اسے آواز دی آج ان کی طبیعت ناساز تھی اسلیے انھوں نے دکان سے چھٹی کرلی تھی
ادھر آؤ بیٹا……….
زارا آکر ان کے پاس والی چئیر کا فاصلہ کم کرکے اس پر بیٹھ گئی
کبھی تھوڑا وقت نکال کر اپنے ابو کے پاس بھی بیٹھ جایا کرو……..
ابو کے پاس ہی وقت نہیں ہوتا ورنہ تو مجھے کتنی باتیں کرنی ہے آپ سے….
وہ ان کے بازو سے چہرہ لگاتی لاڈ ڈالتے ہوۓ بولی
چلو آج سارا وقت ہماری بیٹی کا کرلو جو باتیں کرنی ہے
انھوں نے ہلکا سا ہنستے ہوۓ کہا
کوئی فائدہ نہیں چاچو اس کی باتیں سن کر آپ کی چھٹی خراب ہوجاۓ گی خواہ مخواہ کیوں اپنا سر درد کروانا چاہتے ہیں باتیں کرنی ہے تو مجھ سے کیجیے نا
امن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر انکی دوسری جانب بیٹھتے ہوۓ بولا جس پر وہ ہنس دیے زارا نے اسے گھور کر دیکھا
ہاں یہ تو جیسے علامہ اقبال کا رشتے دار ہے نا جسے سننے کو لوگ ترستے ہیں
وہ سیدھی ہوکر انکھیں بڑی کرتے ہوۓ بولی
ترستے تو نہیں ہے لیکن سسنا پسند ضرور کرتے ہیں…. اور چاچو اسے اس کام کے لیے انوائٹ کرنا مطلب اپنے پیروں پر خود کلہاڈی مارنا
وہ اسے پر زور دیتے ہوۓ بولا تو زارا نے اسے زبان دکھائی
ان دونوں کو تو بس موقع چاہیے لڑنے کے لیے……آپ آرام کرلیجیے میں دوائی لے کر آتی ہوں
فرح بیگم کچن سے کھانے کی ٹرے لے کر آئی زارا امن کو بولنے کے ساتھ ہی یوسف مرزا کو کہا تو وہ اٹھ کر اندر جانے لگے
چاچی میں لڑائی نہیں کررہا ہوں میں بس سچ کہتا ہوں اب کڑوا لگ جاتا ہے تو میں کیا کروں
وہ جلدی سے پلیٹ لے کر کھانا شروع کرتے ہوۓ بولا
یہ رپورٹر گری نا جاکر ٹی وی پر ہی کرنا ہم لوگوں کو کوئی انٹریس نہیں پتہ نہیں اسے لے کیسے لیا ان لوگوں نے……… بولتا ہے تو لگتا ہے رو رہا ہے روتا ہے تو لگتا سورہا ہے
زارا نے ہنسی روک کر کہا تو فرح نے جاتے ہوۓ اسے آنکھیں دکھائی
اےےےے…اور جب تم روتی ہو تو پتہ ہے کیسی لگتی ہو بندریا وہ بھی افریقن بندریا
وہ اپنی چئیر سے اس کے پاس والی چئیر پر بیٹھتے ہوۓ بولا جہاں پہلے یوسف مرزا بیٹھے تھے
اسلام علیکم..
انور کی آواز پر دونوں نے دیکھا
آیے جہاں پناہ……..
امن نے اسے اشارہ کرکے بلایا
بیٹھو بیٹا ناشتہ کرو
فرح واپس آئی تو انور کو دیکھ کر بولیں وہ زارا کے بازو والی کرسی پر بیٹھ گیا فرح بھی آکر سب کے ساتھ بیٹھ گئیں
انور بھائی ایک بات بتایے زرا
زارا نے انور کی جانب رخ کرکے کہا
جی…..
انور نے غور کرتے ہوۓ بولا
آپ نے کبھی کسی گینڈے کو ٹی وی پر رپورٹنگ کرتے دیکھا ہے
وہ. مکمل سنجیدگی سے بولی امن ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگا زارا اسے دیکھ کر ہنسی تو وہ اسے گھورنے لگا
نہیں زارا بی بی ہم نے تو نہیں دیکھا لیکن کیا سچ میں ایسا ہوتا ہے
انور نے بڑی حیرت جتاتے ہوۓ پوچھا تو امن نے اس کی بیوقوفی پر اسے سنجیدگی سے دیکھا
بلکل ہوتا ہے آپ آج شام سات بجے آجاۓ گا میں آپ کو لائو شو دکھاؤنگی اس کا
زارا نے فورا کہا تو فرح نے اسے گھورا
زارا چپ کرکے کھانا کھاؤ
فرح نے سختی سے کہا تو وہ چپ ہوگئی
💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜
چاچو…….
امن ان کے روم میں آیا تو وہ رجسٹر ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے
آؤ بیٹا……میں یہ دکان کا حساب دیکھ رہا تھا
وہ رجسٹر بند کرتے ہوۓ بولے
چاچو مجھے دیجیے……….
امن ان کے ہاتھ سے رجسٹر لیتے ہوئے بولا.
آج سے آپ یہ سب نہیں کرینگے…….
وہ ان کے پاس بیٹھ گیا
کیوں ……..
کیونکہ اب آپ کے نہیں آپ کے بیٹے کے کام کرنے کا وقت ہے بہت کام کرلیا اپ نے اب آپ صرف ارام کرینگے اور جو بھی کام ہو خود کرنے کی بجاۓ مجھے ارڈر دینگے ایک بادشاہ کی طرح…. اور یہ شاپ کی فکر بھی آپ چھوڑ دیجیے میں سنبھال لونگا
اگر تم دکان سنبھالو گے تو اس چینل کی نوکری کا کیا ہوگا…….
کچھ نہیں ہوگا میں نے دکان سنبھالنے کے لیے ایک لڑکا ڈھونڈ لیا ہے وہ سب دیکھ لے گا
اس نے یہ پریشانی کا حل بتایا تو وہ ہنس دیے
اور میں کیا کرونگا
آپ…. آآپ……. آپ میری وارڈروب پر قبضہ کرلیجیے اور ہیرو بن کر تفریح کیجیے
وہ سوچ کر مسکرا کر بولا
ذمہ داریاں نبھانے میں بہت وقت گزار دیا آپ نے اب کچھ وقت خود کو اور چاچی کو بھی دیجیے اپنی زندگی کا……….
اس نے سنجیدگی سے کہا اسے اچھی طرح سے احساس تھا کے اس کے ابو کے گزرنے کے بعد سے وہ دوگنی محنت کرتے تھے ان سب کی ضرورتوں کو بنا کسی اعتراض کے پورا کرتے تھے جو شاید کوئی سگا باپ بھی نا کرے
میں تو کہتا ہوں آپ اور چاچی یورپ کے ٹور پر چلے جایے بہت مزا آئگا
وہ مسکرا کر بولا یوسف نے کچھ کہنا چاہا تو امن نے ہاتھ دکھا کر روک دیا
کچھ نہیں کہے گے آپ کوئی بہانا نہیں سنوگا میں جو کہہ دیا سو کہہ دیا کل سے یہ سب اگر آپ کے پاس دیکھا نا میں نے تو میں آپ سے ناراض ہو جاؤنگا……..
وہ جانتا تھا کہ وہ انکار کرینگے اسلیے پہلے ہی دھمکی دے دی کیونکہ وہ پہلے بھی بہت بار کوشش کرچکا تھا اس کی دھمکی سن کر وہ صرف مسکرادیے
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial