قسط 8
نسیم بیگم امن کا ناشتہ اس کے کمرے میں ہی لے آئی تھی تاکہ اس سے بات کرسکے کیونکہ روز ہی وہ کسی نا کسی وجہ سے جلدی مچا دیتا اور بات ادھوری رہتی جاتی اب بھی امن بالوں کو برش کرکے باہر نکلنے کی مکمل تیاری میں تھا
امن. ………….بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے
نسیم نے ٹرے میز پر رکھتے ہوۓ کہا
ابھی نہیں امی… پلیز…. میں آلریڑی بہت لیٹ ہورہا ہوں رات کو……
وہ مصروف سے انداز میں بولا اور پرفیوم سپرے کرکے کلائی پر واچ باندھنے لگا
رات کو………….رات کو گھر کب آتے ہو تم جلدی……… صبح جانے کی جلدی اور رات کو اتنی دیر کرتے ہو کہ بات کرنے کا مطلب نہیں………ایسا کونسا کام ہے جس میں تم اتنے مصروف ہوگیے کہ دو منٹ نہیں ہے تمہارے پاس اپنی امی سے بات کرنے کے لیے
نسیم نے اس کے جواب پر غصے سے کہا تو وہ پلٹ کر انہیں حیرانی سے دیکھنے لگا وہ ایک خفگی بھری نظر اس پر پر ڈال کر صوفے پر رخ پھیر کر بیٹھ گئیں
اوہو……. آپ تو ناراض ہوگئی اچھا بتائے کیا بات ہے
وہ آکر نسیم کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
نہیں جانے دو تم جاکر اپنا کام کرو
نسیم نے بنا اسے دیکھے ناراضگی سے کہا تو وہ مسکرادیا
کوئی بھی کام میری امی کی ناراضگی سے بڑھ کر نہین ہے اسلیے بتایے
اس نے گلے میں ہاتھ ڈال کر گال پر پیار کرتے ہوۓ کہا اس حرکت پر نسیم نے پہلے اسے گھور کر دیکھا پھر مسکرا کر اس کے سر پر ایک چپت لگائی
مکھن لگانا تو کوئی تم سے سیکھے…
آپ کا بیٹا ہوں نا اپنا کام نکلوانے کے لیے اگر آپ اموشنل بلیکمیلنگ کرسکتی ہے تو میں بٹرنگ تو کرہی سکتا ہو
وہ ہاتھ واپس لیتے ہوۓ بولا اور ناشتے کی جانب متوجہ ہوا
بچپنا چھوڑو اب بڑے ہوگئے ہو تم میں تمہاری شادی کرنے جارہی ہوں
اس نے پہلا نوالہ ہی لیا تھا نسیم کی بات پر اس کا چلتا منہ رک گیا اور وہ حیرت سے دیکھنے لگا
میری شادی…. یہ خرافات اچانک آپ کے دماغ میں کیسے آگئ میری مدر انڈیا
وہ نارمل ہوتے ہوۓ بولا اور ہلکا سا ہنسا
امن……….
نسیم نے اس کے سنجیدہ نا ہونے پر اسے غصے سے کہا
امی میں ابھی بچہ ہوں کہاں آپ شادی کے چکروں میں ڈال رہی ہے مجھے
تم تو عمر بھر ہی بچے رہوگے تو کیا ساری عمر شادی کا نا سوچوں…. میں نے تو لڑکی بھی پسند کرلی ہے
کیا…… اتنی جلدی…..
اسے شاک لگا لیکن اچانک ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ اگئی
اوبسلی میرا نام آتے ہی لڑکیوں کی لائن لگ گئی ہوگی ہے نا
وہ فخریہ انداز میں بولا
کوئی لائن وائن لگی میں نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی ایک ہی لڑکی ہے جسے بہت دن سے سوچا ہوا ہے تمہارے لیے
نسیم نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تو منہ بنا کر رہ گیا
کون ہے…..
تم سوچو کون ہو سکتی ہے تم اسے اچھی طرح جانتے ہو بلکہ پسند بھی کرتے ہو
نسیم نے مسکرا کر کہا تو وہ انہیں چڑنے والے انداز میں دیکھنے لگا
پسند تو میں کیٹرینا کیف کو بھی کرتا ہوں لیکن وہ تو نہیں ہوسکتی نا سپسینس کے چکر میں کیوں ڈال رہی ہیں آپ مجھے….مجھے جانا ہے بتایے نا
اخری جملہ کہتے ہوۓ وہ واقعی چڑ چکا تھا
زارا…….. اسے چنا ہے تمہارے لیے
نسیم کی خوشی ابھی تک برقرار تھی جب کہ امن کا منہ تک جاتا ہاتھ رک گیا
زارا……. کیا بات کررہی ہیں آپ امی…….
وہ پہلے حیرت اور پھر بے یقینی سے بولا
میں سچ کہہ رہی ہوں بیٹا… زارا تمہارے لیے پرفیکٹ ہے مجھے بہت پسند ہے وہ اور میں جانتی ہوں تمہیں بھی پسند ہے
.امی وہ میرے لیے بیسٹ کزن ہے بیسٹ فرینڈ ہے مگر شادی….. شادی نہیں کرسکتا اس سے
وہ پوری طرح اس طرف متوجہ ہوکر بولا
کیوں امن کیا وجہ ہے کیا کمی اس میں……
نسیم نے پہلے اسے حیرانی سے دیکھا پھر بولی
ہر بات کی کوئی وجہ نہیں ہوتی امی… کوئی کمی نہیں اس میں…لیکن اگر آپ یہ سوچ رہی ہے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں تو آپ غلط ہے وہ میری دوست سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور شادی کرنے کا خیال تو کبھی غلطی سے بھی دماغ میں نہیں آیا پتہ نہیں آپ نے کیسے…دیکھیے امی اس بات کو یہیں ختم کیجیے اور یہ خیال اپنے دل سے بھی نکال دیجیے پلیز…. میں زارا سے شادی نہیں کرنا چاہتا
وہ سنجیدگی سے بولا اور آخری جملہ فیصلہ کن تھا نسیم اسے حیرانی سے دیکھنے لگی وہ اٹھ کر بیڈ پر اگیا شاید اس کا رد عمل اتنا سنجیدہ نہیں ہوتا لیکن اب وہ جب زارا کے خیالات جان گیا تھا اور کسی بھی طرح اس کے لیے مشکل کی وجہ نہیں بن سکتا تھا اس لیے اس نے سختی سے انکار کردیا
کیا تمہیں کوئی اور پسند ہے
چند منٹوں کی خاموشی کی بعد انھوں نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا تو امن نے آنکھیں گمائی
اب اگر میں نے انکار کیا تو کیا ضروری ہے مجھے اور کوئی پسند ہوگی…….
وہ کوفت سے بولا اور ان کے پاس آکر ان کے ہاتھ اپنے یاتھوں میں لیے
ارے میری مدر انڈیا مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں ہے آپ جس سے کہے گی جاکر خاموشی سے شادی کرلونگا …لیکن زارا نہیں….اور آپ زارا سے اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں کرےگی پلیز
وہ انکی اداسی کو دور کرنے کی غرض سے اپنے لہجے کو بدل کر بولا
ٹھیک ہے زبردستی نہیں کرونگی تمہارے ساتھ اگر تمہارا یہی فیصلہ تو….
انہوں نے بمشکل مسکرا کر کہا تو وہ ان کے ماتھے پر پیار کرتا ہوا باہر نکل گیا اور نسیم کچھ سوچتی رہ گئیں جب کے باہر کھڑی زارا ایک طرف ہوکر مسکرا دی اس نے ان کی ساری باتیں سن لی تھی اور دل ہی دل میں امن کی شکرگزار تھی










صوفی کی امی بہت بیمار رہنے لگی تھی ہر وقت سوچنے سے ان کا وجود مفلوج ہوچکا تھا صوفی خود کو بہت اکیلا محسوس کررہی تھی کوئی نہیں تھا اس کا سواۓ اس کی امی کے اور وہ بھی اس حال میں پہنچ گئی تھی وہ بھی اسی کی وجہ سے بہت بے بس لاچار محسوس ہورہا تھا اسے
سوسائٹی سے انہیں فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس ملا تھا کسی کو بھی ان کا وہاں رہنا منظور نہیں تھا اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس حال میں اپنی امی کو لے کر کہاں جاۓ اس نے چند دنوں کی مہلت مانگ تو لی تھی لیکن لوگوں کی چبھتی ہوئی نظریں اور طعنے سہنا اس کے لیے مشکل تھا اس نے طے کرلیا کہ وہ واپس اپنی امی کو لے کر گھر چلی جائگی جب تک کوئی اور سالیوشن نہیں ملتا وہیں رہے گیا اور اب وہ اسی سوچ پر عمل کرنے والی تھی













زارا امن سے ملنے اس کے کمرے میں آئی تو وہ روم میں نہیں تھا
پتہ نہیں کہاں چلا گیا….
وہ سوچ کر واپس جانے لگی لیکن امن کو آتا دیکھ کر رک گئی شرارت اس کے زہن میں آئی تو واپس روم میں آکر ایک طرف چھپ گئی
ہاؤ…….
امن جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا وہ دروازے کے پیچھے سے نکل کر زور سےچینخی امن نے فورا اپنی جیب سے پستل نکال لی اور پلٹ کر اسےجکڑ لیا
امن… یہ کیا کررہے ہو ….میں ہوں
وہ گھبراکر بولی امن نے انکھیں گھمائی
باز اجاؤ تم …….
وہ گن گھما کر دوبارہ پاکٹ میں رکھتے ہوۓ بولا
اللہ ……..کتنے خراب ہو تم مار ہی دیتے ابھی مجھے …..ایسا بھی کیا جو ایک دم بندوق ہی تان دی مجھ پر ….اور یہ ……بندوق کیوں ہے تمہارے پاس
وہ کہتے کہتے ایکدم دھیان آنے پر بولی
.لائٹر ہے
وہ رک کر بولا
لائٹر بھی کیوں ہے .. سیگریٹ پیتے ہو کیا چھپ چھپ کر….. بتاؤ بڑی امی کو
زارا نے اسے انگلی دکھا کر دھمکانے کے انداز میں کہا
میرے اللہ مجھے بچالے اس بندریا سے….. یار کسی بات پر تو چھوڑ دو تم تو کلاس ہی لینے لگ گئی
امن نے کوفت سے کہا
تو بتاؤ یہ کیا ہے….
گن ہی ہے پروٹیکشن کے لیے ہے…. بس اب
امن نے بیزاری سے کہا
لیکن…
وہ دوبارہ کچھ کہنے لگی تو امن نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
شششش…..اب اگر کچھ بھی بولی نا تم تو دیکھنا تمہارے منہ پر پٹی باندھ دونگا……
وہ اسے دھمکانے لگا زارا نے اس کےہاتھ کو زور سے جھٹکا
جانور……..
وہ آزاد ہوتے ہی اسے غصے سے دیکھ کر بولی
ٹائم ویسٹ مت کرو بتاؤ کیا کام ہے….. ….
ٹائم ویسٹ مت کرو ….جیسے لینڈ لارڈ ہو نا کہیں کے
زارا نے اس کی لائن دہرا کر اسے چڑاتے ہوۓ کہا
اوکے باۓ…….
امن نے اپنا اوپری جیکٹ نکال کر اس کے منہ پر پھینکتے ہوۓ بولا اور ٹاول لے کر واش روم میں جانے لگا
امن…. سنو نا
اسے جاتے دیکھ وہ روکتے ہوۓ نرم لہجے میں بولی
تو بولو نا…
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا
ایک ہیلپ چاہیے مجھے
وہ معصوم سی شکل بناکر بولی
پتہ تھا مجھے………
امن نے ٹاول گلے میں ڈالتے ہوۓ اسے دیکھا
کیسے…..
مطلب کے وقت ہی آتی ہو نا یہاں تک اس لیے
امن نے کہا تو وہ اسے غصے سے دیکھنے لگی
اچھا بولو….
وہ سیریس ہونے کے انداز میں ہاتھ باندھ کر اسے سننے لگا
آج شام کالج میں فئیرویل پارٹی ہے… مجھے بھی جانا ہے تم امی کو منا لو نا پلیز………. ضارم نے خود انوائٹ کیا ہے
مطلب جانا ضروری ہے…..
ضارم کا نام سنتے ہی اس نے جان لیا کہ وہ جانا ہی چاہتی ہے کسی بھی طرح زارا نے سر اثبات میں ہلا دیا
اوکے تیاری کرو میں بات کر لونگا
وہ پر یقین لہجے میں بولا تو زارا کے چہرے پر ڈھیر ساری خوشی آگئی
تھینکیو تھینکیو تھینکیو……
وہ خوشی سے بولتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی










اورینج ہائ لایٹ کلر کے ڈریس پر وھائٹ خوبصورت سا دوپٹہ اوڈھے وہ ہلکے میک اپ اور ائیر رنگ کے ساتھ ادھ کھلے بالوں میں بھی بے حد پیاری لگ رہی تھی امن نے کسی طرح سے فرح کو منا لیا تھا اور خود ہی اسے چھوڑنے اور واپس لے آنے کی زمہ داری لی تھی وہ تیار ہوکر امن کے آنے کا انتظار کررہی تھی
زارا…….
وہ اسے پکارتا ہوا اندر آیا اور زارا کو دیکھتے ہی رک گیا زارا نروس سی ہوکر کھڑی رہی
ایسے کیوں دیکھ رہے ہو… اچھی نہیں لگ رہی کیا میں.
وہ خود کو اوپر سے نیچے تک جانچتے ہوۓ بولی امن ہنستا ہوا اس کے پاس آیا
تم لڑکیاں بھی کمال ہو یار…. پتہ سب ہوتا ہے سامنے ہی آئینہ ہے….. لیکن پھر بھی……. اچھی نہیں لگ رہی کیا میں….
وہ اس کی نقل اتارتے ہوۓ بولا
تمہیں سامنے والے سے اپنی تعریف سننی ہے تو سیدھا پوچھ لو نا…یہ ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے
اچھا گاڑی پر راستہ بھر مجھے گھورتی رہنا ابھی چلو دیر نہیں ہورہی ہے کیا…….
وہ اس کے مسلسل گھورنے پر اپنی کلائی آگے کرکے واچ دکھاتے ہوۓ بولا تو زارا نے اسے پیچھے دھکیل کر باہر نکل گئی
اگر مجھے پتہ ہوتا نا کہ میک اوور کے بعد تم اتنی اچھی لگوگی تو میں تمہیں ضارم کی پارٹی میں جانے ہی نہیں دیتا
زارا خاموشی سے گاڑی پر بیٹھی تھی امن اسے مزید پریشان کرتے ہوۓ بولا
یہ کیا بات ہوئی….
وہ نا سمجھی سے بولی
اور کیا میں خود ہی شادی کرلیتا نا تم سے…….
وہ تھوڑا سے پیچھے کو جھک کر بولا
یہ منہ اور مسور کی دال.. میں اور تم سے شادی…. نیور…. شکل دیکھی ہے اپنی
اس نے برا سا منہ بنا کر کہا
تمہارے ہیرو سے تو بہتر ہی ہے….
جاؤ جاؤ…. کہاں وہ اور کہاں تم…تم تو ان کے جوتے میں لگے کیچڑ کی برابری بھی نہیں کرسکتے
وہ فخریہ انداز میں بولی تو امن ہنسنے لگا
چلو ایک بات تو پتہ چلی کہ اس کے جوتے میں کیچڑ ہوتا ہے جو کم سے کم میرے جوتے میں نہیں ہوتا اسی سے سٹینڈر کا پتہ چلتا ہے بے چارے کا
امن نے اسی کی بات پر ضارم کو نشانہ بنا کر کہا
امن….
وہ غصے سے بولی
جب تم مجھ سے جیت نہیں سکتی تو کوشش کیوں کرتی ہو یار …..خواہ مخواہ بےچارے کی بھی انسلٹ کروارہی ہو …
بات نہیں کرنی مجھے تم سے……
وہ خفگی سے بولی
مت کرو ویسے بھی پہنچ چکے ہے ہم اب جاؤ اور اپنے کیچڑ دیو سے باتیں کرو….. اور ہاں میڈم کال کردینا اپکا ڈرائیور لینے اجائگا آپ کو
زارا کے اترنے پر اس نے کہا مگر زارا نے کوئی جواب نہیں دیا
باۓ چشمش…..
وہ اسے جاتے دیکھ کر ہنستے ہوۓ بولا
دڑیل……….
زارا نے آنکھیں دکھا کر کہا اور اندر چلی گئی