قسط 9
وہ خود کو کافی اکیلا محسوس کرررہی تھی کیونکہ شزا وہاں موجود نہیں تھی حالانکہ اس کی کلاس میٹ لڑکیاں موجود تھی اور وہ انہیں کے درمیان کھڑی تھی لیکن پھر بھی اسے سب کچھ بہت بورنگ لگ رہا تھا شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ضارم نے ویلکم تو دور ہاۓ تک نہیں کیا تھا اب تک ہال کو بلیو اور وھائٹ رنگ کے غباروں سے سجایا گیا تھا میوزک پر کپل ڈانس ہورہا تھا اور کہیں کھانے سے انصاف کیا جارہا تھا ضارم اسٹیج کے ایک طرف کھڑا کسی سے مسکرا کر بات کررہا تھا بلیک ڈنر سوٹ میں وہ اور بھی ڈیشنگ لگ رہا تھا لیکن اس نے زارا کی جانب دیکھا تک نہیں جس سے زارا کا دل بجھ سا گیا اور اس نےگھر جانے کا طے کرلیا حالانکہ اسے آۓ ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا اس نے امن کو فون لگانے کا سوچا اور ایک طرف جانے لگی
پلیز اٹینشن ایوری ون……..
ضارم کی مائک میں گونجتی آواز پر اس کے قدم رک گئی اور باقی سب کی طرح وہ بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئی
اس کالج میں آج ہمارا آخری دن ہے….. اخری دن ہے جب ہم سب ساتھ ہے اس کے بعد تو پتہ نہیں کون کہاں اور کون کہا دوبارہ اس طرح اکٹھے کبھی ہو بھی پائنگے یا نہیں..ایک دوسرے کو ملنے کا بھی وقت ہوگا کہ نہیں لیکن. میں ریکویسٹ کرونگا کہ سب اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر اپنی دوستی کو بھی دیں کیونکہ یہ انمول دولت ہے ہر چیز سے بڑھ کر ہے
وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا اور سب غور سے اس کو سن رہے تھے
….. اس کالج سے بہت سی یادیں جڑی ہے جو شاید کبھی بھولی نا جاسکیں کیونکہ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت عرصہ ہے میں نے بہت سے دوست بناۓ بہت کچھ سیکھا ہے اس عرصے میں لیکن سب سے بڑی بات جو میں آج آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں آج سب کے سامنے اس لڑکی کے بارے میں جس سے میں محبت کرتا ہوں
اس کی بات پر سب ہی ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے اور سرگوشی سی کرنے لگے جب کے زارا کو جیسے کسی نے پتھر بنا دیا ہوا
بہت بار کوشش کی کہ کہہ دوں اس سے……….. لیکن اتنی اجنبیت تھی کہ کبھی ہمت ہی نہیں کرپایا لیکن آج اپنے دل کو مضبوط کرکے آیا ہوں کہ چاہے جو ہو آج تو کہنا ہی ہے کیونکہ آج نہیں تو شاید پھر کبھی نہیں ……
زارا کا دل جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھرنے لگا اس کے پاس لڑکیوں کا ہجوم رہتا تھا وہ کیوں بھلا زارا کو پسند کرتا اج اسے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہورہا تھا اس کی انکھوں مین ڈھیر سارا پابی اگیا تھا جس سے ضارم کا چہرہ دھندلا سا ہوگیا تھا
اس لڑکی کا نام ہے….. زارا یوسف ……
اس نے رک کر کہاں جہاں سب کے سب حیران ہوۓ وہیں زارا کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے لیکن ضارم کی نگاہیں جو اسی کی طرف تھی اس کے دماغ کی نفی کررہی تھی
جس کی سادگی نے مجھے مجبور کردیا ہر بناوٹ کو نظر انداز کرنے پر
جس کی آنکھوں کی معصومیت نے میرا دل اپنی جانب کھینچ لیا اور مجھے اتنا بےبس کردیا کہ لاکھ کوشش کے باوجود محبت کرنے سے نہیں روک پایا خود کو
وہ مسلسل زارا کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگا جب کہ زارا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ضارم سٹیج سے اتر کر مائک ایک لڑکے کے ہاتھ میں دیتے ہوۓ زارا کی جانب بڑھا سب ہی اسے دیکھ رہے تھے
میرے دل کو تو اپنا بنا ہی لیا ہے اب مجھے بھی اپنا بنالو……. کیا تم میری محبت قبول کروگی زارا
اس کے مقابل آکر وہ اپنا ہاتھ بڑھاۓ بولا زارا چند پلوں تک اسے سنجیدگی سے دیکھتی رہی پھر دھیرے سے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ میں دے دیا ضارم نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور جیب سے ایک ڈائمنڈ رنگ نکال کر اس کی تیسری انگلی میں پہنادی ہال تالیوں کی زور دار آواز سے گونج اٹھا زارا سہمی سی نظریں جھکاے کھڑی تھی









وہ اب تک بے یقین سی تھی ضارم اپنے دوستوں کے درمیان کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا اور وہ خاموش سب کے درمیان کھری تھی کافی دیر تک بس کسی کی بات کا جواب دیتی ہھر دوبارہ خاموش ہوجاتی بہت سارے سوالات تھے اس کے دل میں جس کا جواب بھی خود میں ہی ڈھونڈ رہی تھی جیسے ہی ضارم کو اکیلی نظر آئی وہ فورا اپنے دوستوں کو اکسکیوز کہہ کر اس کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے گیا اور وہاں لے آیا جہاں اس کی گاڑی پارک تھی وہاں پہنچنے پر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ اسے اپنی جانب دیکھتے پاکر نظر نیچے کرگئی حالانکہ وہ ایسے نیچر کی تھی نہیں جو بات بات پر شرما جائے لیکن ضارم کی موجودگی جانے کیوں اسے مجبور کردیتی تھی
کچھ کہوگی نہیں……..
ضارم نے اس کے قریب کھڑے ہوکر گاڑی سے بیک ٹکاتے ہوۓ کہا
کیا …..
وہ بنا اسے دیکھے بولی
کچھ بھی ………تمہیں برا تو نہیں لگا
وہ اسے دیکھتے ہوۓ بات کرنے لگا
برا لگا…….
وہ اس کی جانب دیکھنے سے اب بھی گریز کررہی تھی
کیوں ………
وہ خفا سی انداز میں بولی تو ضارم نے دھیرے سے پوچھا
ایسے سب کے سامنے……….. کیا سوچ رہے ہونگے سب
کسی کے سوچنے سے کیا فرق پڑتا ہے فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ تم کیا سوچتی ہو
زارا خاموش ہوگئی وہ اسے مسلسل دیکھتا رہا زارا نے اسے دیکھا تو مسکرا دیا
بولو…
وہ دھیمے سے بولا
کیا بولوں
زارا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
وہی جو میں سننا چاہتا ہوں
مجھے کیا پتہ آپ کیا سننا چاہتے ہیں
زارا نے ایک بار پھر نظریں پھیر لیں
سچ میں نہیں پتہ
وہ تھوڑا سا اس کی جانب جھک کر بولا
نہیں۔…….
ٹھیک ہے مت بولو میں انتظار کرلوں گا
زارا نے کہا تو وہ پیچھے ہوکر بولا
میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولا تو زارا نے اسے حیرانی سے دیکھا
میں کینیڈا جانے والا ہوں ڈیڈ چاہتے ہیں جانے سے پہلے میری شادی کردیں…. اور میں چاہتا ہوں تم ہاں کردو
وہ اس کی حیرانی دور کرتے ہوۓ بولا اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا
میں کیا کہوں مجھے تو اب بھی یقین نہیں ہورہا …………آپ تو ایک خواب کی طرح ہے جسے میں حقیقت میں چھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی
وہ کچھ نا کہتی لیکن ضارم کی مسلسل نظروں نے اسے کہنے پر مجبور کردیا
لیکن تم تو میری زندگی کی حقیقت ہو …….. جس دن سے تمہیں دیکھا ہے تب ہی سے ایک احساس جنم لے چکا ہے دل میں لیکن کبھی بات نہیں کرپایا کیونکہ تم ان بے باک لڑکیوں کی طرح نہیں ہو جنھیں کسی لڑکے کے بات کرنے سے اعتراض نا ہوتا جتنا تمہیں سمجھا ہے میں نے اس کے بعد سوچتا تھا کہیں برا نا مان جاؤ مگر پھر بھی خود کو روک نہیں پاتا تھا تمہیں دیکھنے سے تم سب سے الگ ہو زارا
وہ پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا تو زارا نظر جھکا گئی
اپنے مام ڈیڈ کو تمہارے گھر کب بھیجوں…..مجھے آج اپنے ڈیڈ کو جواب دینا ہے اس لیے جلدی کررہا ہوں تم اپنے پیرینٹس سے بات کرلوگی نا
اس نے دوبارہ کہا تو زارا کے ماتھے پر ڈھیر ساری لکیریں ابھر آئی
کیسی باتیں کررہے ہیں آپ میں کیسے ان سے بات کرسکتی ہوں اور کہوگی کیا کہ امی ضارم کے ڈیڈ آپ سے بات…….
وہ اپنی مخصوص ٹون میں بولتے ہوۓ ایک دم رک گئی اور شرمندہ سی ہوکر اسے دیکھنے لگی تو وہ مسکرا رہا تھا
آج پہلی بار مجھے میرا نام اتنا خوبصورت لگا میں جانتا ہوں تم نہیں کہہ سکتی لیکن کسی کو تو یہ کرنا ہوگا نا
وہ پرسوچ لہجے میں بولا تو زارا کے ذہن میں امن کا چہرہ ابھرا
امن……… امن سے بات کرلیجیے آپ………..
وہ فورا بولی
امن……. ایک بات کہوں
وہ سوچتے ہوۓ بولا تو زارا نے سر ہلکا سا ہلا کر ہاں کہا
امن کو تمہارے ساتھ دیکھ کر مجھے کئی بار لگا کہ
وہ کہتے کہتے رک گیا لیکن زارا اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی
ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ میرا کزن ہے اور میرا سب سے اچھا دوست بھی ہم دونوں ایک دوسرے سے کبھی کوئی بات نہیں چھپاتے سب کچھ شیر کرتے ہیں ویسے تو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے بنا رہتے بھی نہیں چاہے کوئی بھی وجہ ہو ہم کبھی ایک دوسرے کا دل نہیں دکھاتے حالانکہ میں کبھی کبھی غصے میں آکر اسے بہت کچھ برا بھلا کہہ جاتی ہوں لیکن وہ کبھی پل. دو پل سے زیادہ ناراض نہین ہوتا مجھ سے جتاتا نہیں ہے لیکن میری خوشی کے لیے سب کچھ کرسکتا ہے مجھے امی ڈانٹ سے بچاتا ہے اور کبھی تو میری ڈانٹ بھی خود ہی…………… اسی لیے وہ میری لائف میں بہت امپورٹینس رکھتا ہے
زارا امن کے بارے میں ایک ایک بات اسے سچائی سے بتانے لگی
اور میں…..میری کتنی امپورٹینس ہے اس لائف میں
وہ اسے غور سے دیکھ کر بولا تو وہ ایک بار پھر شرما کر سر جھکا گئی
لگتا ہے کچھ بھی نہیں ہے
وہ پیچھے ہوکر بولا
ایسی بات نہیں ہے
وہ فورا بولی
تو پھر کیسی بات ہے
اب کے ضارم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کرنے کی کوشش کی
بہت دیر ہورہی ہے مجھے جانا ہے
وہ ہاتھ چھڑا کر بولی
چلو میں ڈراپ کردوں
نہیں……. بہت دیر ہورہی ہے نا اچھا نہیں لگے گا میں امن کے ساتھ چلی جاؤنگی
اس نے فرح کی ڈانٹ کا سوچ کر کہا جس نے مشکل سے امن کی وجہ سے اجازت دی تھی
ٹھیک ہے…. لیکن جانے سے پہلے مجھے میرے سوالوں کا جواب تو دے دو.ورنہ مجھے چین نہیں آۓ گا… ….. ڈو یو لو می…
اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا شاید وہ سمجھ چکا تھا اس نے زارا سے سوال کرکے پرامید نطروں سے اسے دیکھا تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا
آۓ لو یو ٹو…..
وہ اپنا موبائل نکالتے ہوۓ بولا اور ایک طرف ہوکر کسی سے بات کرنے لگا اتنی دیر میں زارا نے امن کو آنے کے لیے میسیج کردیا اور امن نے اسے جواب بھی دے دیا
تم اتنی شاۓ لگتی نہیں ہو ویسے جتنا آج شرمارہی ہو
وہ موبائل واپس رکھتے ہوۓ بولا وہ ہلکا سا مسکرادی اندر سے ایک لڑکا آیا اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں کچھ پیسٹریز اور کولڈڈرنک کے گلاس تھے ضارم نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لے کر گاڑی کے بونٹ پر رکھی زارا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی
تم نے کھانا نہیں کھایا نا اسلیے
وہ اپنے ہاتھ سے ایک پیس اس کے منہ مین ڈالتے ہوۓ بولا
.تھینکیو
زارا نے دھیرے سے کہا ضارم نے مسکرا کر دوسرا بائٹ کھلانا چاہا لیکن زارا نے اسے روک کر خود ہی کھانے لگی
زارا …………….
امن نے گیٹ کے باہر سے ہی آواز لگائی تو اس نے ضارم کو دیکھا اور دونوں چل کر باہر آۓ
امن ماۓ کزن….
اس نے ضارم سے امن کا تعارف کرایا
ہیلو امن آۓ ایم ضارم حسین
ضارم نے خود آگے بڑھ کر ہاتھ بڑھایا تو امن نے اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوۓ ہاتھ ملایا
آپ کو کون نہیں جانتا………..نائس ٹو میٹ یو
وہ مسکرا کر بولا
چلیں زارا……. ایکچولی مجھے کچھ کام ہے
وہ. زارا کو کہہ کر ضارم سے معذرت طلب لہجے میں بولا تو وہ نے سر خم. کرکے مسکرایا
او نو اتنی سردی ہے تمہیں ٹھنڈ لگ جاۓ گی میں اپنی جیکٹ بھی لینا بھول گیا تم ٹھیک سے دوپٹہ لے لو
اس نے صرف ٹی شرٹ ہی پہنی ہوئی تھی زارا کو تنبیہ کرتے بولا تو وہ اسے حیرانی سے دیکھنے لگی کہ اچانک اتنی فکر جب کہ ٹھنڈ اتنی بھی زیادہ نہیں تھی اور اس سے پہلے کے وہ اس حیرانی کو ظاہر کرتی ضارم نے اپنا اوور کوٹ نکال کر زارا کے او پر ڈال دیا
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے
زارا نے انکار کرنا چاہا
اٹس اوکے …..ٹیک کئیر
تھینکیو………
امن نے کہا اور بائک اسٹارٹ کرکے آگے بڑھالی امن نے کان میں موجود بلوتوتھ کے زریعے کسی سے کال پر بات کی اور اسے آنے کا کہہ کر فون بند کردیا
کیا بات ہے آج تو تمہارا کرش رش کی طرح تمہارے ارد گرد منڈرا رہا تھا…… …اور تم اتنی چپ کیوں ہوں کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہیں اس سے جدا ہونے کا غم لگ گیا ……..
کافی دیر وہ خاموش ہی رہی امن کی بات پر بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا گھر پہنچنے پر اس نے گاڑی روکی تو زارا اتر گئی
ہاں اب ہم سے کیوں بات کرینگی آپ ………آج تو آپ کے ماۓ ڈیر ہیرو سے بات کرکے دل بھر گیا ہوگا نا …
وہ دوبارہ بائک سٹارٹ کرنے لگا لیکن پھر زارا کو دیکھ کر رک گیا زارا کا چہرہ اسے کچھ اداس سا لگا
زارا….آر یو اوکے
وہ جانے لگی تو امن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی
امن اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے.وہ بھی سب کے سامنے کہا اس نے….. مجھے یقین نہیں آرہا اپنی قسمت پر کہ جس سے میں بات کرتے ہمت نہیں کرتی تھی آج وہ مجھے اپنی زندگی کا حصہ بننے کے لیے خود کہہ رہا ہے میں تمہیں بتا نہیں سکتی امن کہ میں کتنی خوش ہوں
وہ کہتے کہتے رودی امن اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ اس کے دوپٹے سے آنسو صاف کیے
خوش ہو تو یہ رونا کیسا…….
وہ اسے غور سے دیکھتے ہوے بولا
بہت خوش ہوں نا اسلیے شاید برداشت نہیں ہورہا
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوۓ بولی اس کے چہرے پر خوشی اور انسو دونوں کا رنگ تھا
تو اس خوشی کو کم کرلو مگر یہ آنسو نہیں دکھنے چاہیے سمجھی…رلانے والی خوشی بھی کس کام کی یار
وہ اخری جملہ مسکرا کر بولا زارا مسکرادی
اچھا اب جاؤ اندر…… بہت سردی ہے یہاں
وہ اسے سنبھلتے دیکھ کر بولا واقعی اب سردی میں اضافہ ہوچکا تھا زارا اندر چلی آئی