Luta hai dil ko teri ada ny

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

آج ڈرائیور چاچا چھٹی پر تھے اور گھر میں کوئی تھا نہیں جو اسے چھوڈ آتا یونی کیونکہ سب مرد صبح صبح آفس جا چکے تھے اور اس نے کسی کو کہا بھی نہیں تھا چھوڈ آنے کا – یونی جانے کے لیے وہ گیٹ سے باہر نکلی تو باہر گلی میں سامنے والے گھر کی فاطمہ باجی کی دس سالہ بچی کو کھیلتے دیکھ اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ دس کا ٹائم ہو رہا تھا اور اس وقت تو سب بچے سکول ہوتے تھے –
حیرت اس کی زیادہ اس لیے تھی کیونکہ فاطمہ باجی کبھی بھی اپنے بچوں کو چھٹی نہیں کرنے دیتی تھیں – لالے ایدھر آو – اس نے سامنے کھیلتی بچی جس کا نام لاریب تھا اسے اس کے نیک نیم سے بلاتے ساتھ ہاتھ سے آنے کا اشارہ بھی کیا تھا –
جی معصومہ باجی ؟ وہ بھاگ کر اس کے پاس اتی بولی – باجی کی کچھ لگتی اج سکول کیوں نہیں گئی تم ؟؟ اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے پوچھا – باجی ہمیں چھٹیاں ہیں – اس نے اپنی چھوٹی سے سمائل دیتے کہا جس سے اس کے گال پر ڈمپل نمائیاں ہوا تھا – وہ تو سہی ہے مگر کیوں ہوئی ہیں چھٹیاں ؟؟
اس نے ایک اور سوال کیا – باجی ہماری ٹیچر صدمے میں ہیں – اس بچی نے معصوم سا منہ بناتے کہا – اووو اللہ خیر کرے پر کس بات کا صدمہ ہے اسے ؟؟ اسے واقع دکھ ہوا تھا – معصومہ باجی ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے – لالے نے تھوڑا سا آگے ہوتے ایسے بتایا جیسے بہت راز کی بات ہو – اوہو بہت افسوس ہوا –
اللہ صبر دے انہیں – اچھا تو ایسا کرو ان کے گھر جا کر ان سے کہو کہ میری باجی کہہ رہی تھیں کہ آپ شوہر کی قبر کی مٹی تھوڑی سے لے کر پانی میں گھول کر پی لیں اس سے انہیں صبر آ جائے گا – اس نے اظہارِ افسوس کرتے ساتھ ایک صلاح بھی دی تھی – پر آپی وہ تو صدمے میں ہیں نہ اس لیے گھر سے نہیں نکلتیں –
لالے نے پریشانی سے کہا – جبکہ معصومہ کو اس کی بات سمجھ نہیں ا رہی تھی – اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی لالے سے تین سال بڑی اس کی بہن بھی آ گئی تھی – یہ کیا بول رہی ہے اریبہ ؟؟ اس کی ٹیچر کو ہوا کیا ہے ؟؟ معصومہ نے الجھتے ہوئے اریبہ لالے کی بہن سے پوچھا – آپی وہی جو شوہر کے مرنے کے بعد عورت جس میں ہوتی ہے – اریبہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے کہا –
اففف خدایا لالے میں کیا کروں تمہارا ؟؟ صدمے میں نہیں پاگل عدت میں ہے تمہاری ٹیچر – جب اسے اصل بات سمجھ آئی تو ماتھے پر ہاتھ مارتی وہ لاریب سے بولی جو اس کے ڈانٹنے پر دانت نکال رہی تھی – اریبہ اتنی گرمی میں تم نے یہ موٹے کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں ؟؟ اب اس نے اریبہ کو اگست میں کھدر پہنے دیکھ پوچھا –
کہاں آپی لُدر پہنی ہے – اریبہ نے منہ بگارتے کہا جبکہ اس کے جواب پر معصومہ نے پہلے سولیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر جب بات سمجھ آئی تو اسے ہسی کے ساتھ ساتھ خود پر غصہ بھی آیا جو ان دونوں بہنوں سے بات کرنے کھڑی ہو گئی تھی – او پاگل لڑکی لُدر نہیں ہوتا گھدر ہوتا ہے – اس نے آنکھیں نکالتے اسے کہا –
وہی آپی جو بھی ہو – اریبہ نے لاپرواہی سے کہا – بھاگ جاو یہاں سے دونوں چلو بھاگو صبح صبح دماغ خراب کر رہی ہو دونوں – اس نے دونوں کو انگلی سے جانے کا اشارہ کرتے کہا جس پر وہ دونوں بھاگ بھی گئی تھیں – ان کے جاتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا – وہ دونوں بہنا ایسی ہی بونگیاں مارتی ہی رہتی تھیں –
ابھی پچھلی بکرا عید کی رات کی ہی تو بات تھی جب اریبہ اس کے پاس اکر بولی تھی ” معصومہ آپی باہر ہر جگہ لینڈے ہی لینڈے نظر آ رہے ہیں “ معصومہ کا تو ہس ہس کر برا ہال ہو گیا تھا اس کی بات پر جو لیلے ( بکرے ) کو لینڈے کہہ رہی تھی –
اور لالے کی تو الگ ہی بات تھی – ایک بار اس نے لاریب سے پہیلی پوچھی تھی کہ نیکا جیا سپاہی اودی کھیچ کے پینٹ لائی – جس کا جواب لالے نہ مولوی دیا تھا اور اس کا ہس ہس کر ایسا برا ہال ہوا تھا اتنا برا کہ وہ ہستی ہستی کرسی سے نیچے گر گئی تھی – وہ خود شرارتوں کی پُڑیا تھی اسی لیے محلے کے سب شرارتی بچوں سے اس کی بنتی تھی –
وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن مسکراتی ہوئی گلی کی نکر پر پہنچی ہی تھی کہ تبھی سامنے سے ایک گاڑی اتی اس کے پاس آ کر رکی تھی اور اس میں سے اس کا تایا زاد شہریار نکلا تھا – شیری تم اس وقت یہاں کیسے ؟؟ تم تو آفس چلے گئے تھے صبح – اس نے حیرت سے پوچھا –
ہاں گیا تھا پر مجھے پتا تھا کہ ڈرائیور انکل نہیں ہیں گھر اور تم اس وقت خوار ہوتی یونی جا رہی ہو گی تو میں جلدی سے اگیا تمہیں ڈراپ کرنے – شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا –
او یار شکریہ شکریہ پتا میں دعا کر رہی تھی کہ کوئی آ ہی جائے تاکہ چل کر پندرہ منٹ کا سفر نہ کرنا پڑے – معصومہ نے مسکراتے ہوئے کہا – بس دیکھ لو اسی لیے میں کہتا ہوں کہ
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
اور
پٹاخہ پھٹے تو..
ٹھاہ ہوتی ہے –
شہریار نے مسکراتے ہوئے ادھا جملہ بولا تھا جبکہ آخری جملہ دونوں نے مل کر بولا تھا اور پھر ہستے ہوئے ہائے فائے کرتے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے – گاڑی میں بیٹھتے ہی شہریار گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا اور اس کی گاڑی کا رخ معصومہ کی یونی کی طرف تھا –
:::::::::::::::::’::::::::::::: ::::::::::’:::::
آئیے آپ کو ملاتے ہیں شاہ مینشن کے لوگوں سے – سب سے پہلے اکرم شاہ اور ان کی بیوی سفینہ بیگم جن کے چار بچے ہیں –
تین بیٹے اور ایک بیٹی – سب سے بڑے بیٹے کا نام اسفند شاہ اور ان کی بیگم کا نام روزینہ جن کے تین بچے ہیں – بڑا بیٹا عارش جو کہ بقول معصومہ کے کھڑوس طبعیت دوسرا بیٹا شہریار جولی پرسن اور تیسری بیٹی مریم کیوٹ سی ہس مکھ مزاج –
پھر آتے ہیں اکرم صاحب کے دوسرے بیٹے جن کا نام ہےاحسن شاہ اور ان کی بیوی آسیہ ان دونوں کا ایک ہی بیٹا ہے جس کا نام علی شاہ شہریار کی طرح جولی – تیسرے نمبر پر اکرم صاحب کی بیٹی تھی جس کا نام تھا ثمینہ مگر کچھ سال پہلے وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں اور ان کی ایک بیٹی کنزہ شاہ مینشن میں ہی رہنے لگی –
جس کی کسی سے نہیں بنتی تھی کیونکہ وہ بقول معصومہ کے اکڑو مزاج کی تھی اور اسی کے بقول عارش اور کنزہ کی جوڑی اگر بنے تو بیسٹ بنے – پھر آخر میں اکرم صاحب کے چھوٹے بیٹےاظہر شاہ اور ان کی بیوی رابعہ جن کے تین بچے ہی ہیں – سب سے بڑا بیٹا عرش جو کہ بلکل نیچر میں عارش جیسا کیونکہ عارش کا بیسٹ فرینڈ ہے لیکن کچھ حد تک مزاق کر لینے والا –
دوسرے نمبر پر پریزے جو کہ کم گو اور سب کا خیال رکھنے والی لڑکی اور تیسرے نمبر پر معصومہ جس میں گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کی جان تھی سوائے عارش اور کنزہ کے کیونکہ عارش کو اس کی بچپنے بھری حرکتیں بری لگتیں تھیں اور کنزہ ویسے ہی سڑیل تھی – یہ سب تھے شاہ مینشن کے لوگ –
:::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
وہ کمرہ بند کیے بیڈ پر گھٹنوں پر سر رکھے آنکھوں میں آنسوں سجائے غم کی مورت بنی بیٹھی تھی اس گزرے ڈیڑھ سال میں اس کی زندگی بد سے بدتر گزری تھی اور گزر رہی تھی – اس کو اس کے بابا کے نا کردہ گناہ کی سزہ مل رہی تھی – اس ڈیڑھ سال میں اس کی ہر رات قیامت اور ہر دن سولی پر گزرتا تھا –
وہ اس ستم گر کے ستموں کو یاد کرتی اپنی قسمت پر رونے میں مصروف تھی کہ تبھی اس کے پاس بے بی کاٹ میں پڑے اس کے تین ماہ کے بیٹے کی رونے کی آواز نے اسے سوچوں سے باہر نکالا تھا – کیا ہوا مما کی جان کو ؟؟
بس بس چپ میری جان – وہ جلدی سے اپنے آنسوں پونچھ کر اپنے بیٹے کو گود میں اٹھاتی اسے چپ کروانے لگی مگر شاید اس ننھی جان کو بھوک لگی تھی اسی لیے وہ جلدی سے اسے فیڈ کروانے لگی – اس پل اپنے بیٹے میں مگن وہ سارے دکھ سارے زخم بھلا گئی تھی جو اس ستم گر کے دیے گئے تھے –
وہ اچھے سے جانتی تھی کہ جب اس کے شوہر نے آ جانا تھا تو اس کی جان کا عزاب پھر شروع ہو جانا تھا اس لیے کچھ پل وہ اپنے بیٹے کے ساتھ سکون کے گزار سکتی تھی –
:::::::::: :::::::: ::::::::: :::::::::: ::::::::::: ::::::::::::::
تمہیں کیا ہوا ہے ؟ منہ کیوں لٹکا ہوا ہے تمہارا ؟؟ وہ جو لاونچ میں اداس سی بیٹھی تھی مریم نے اس کے پاس جا کر حیرت سے پوچھا کیونکہ معصومہ اور خاموشی سے کہیں ٹک کر بیٹھ جائے یہ تب ہی ہوتا تھا جب وہ اداس ہوتی یا کسی سے ناراض ہوتی- اس وقت سب عورتیں اپنے اپنے کمروں میں تھیں جبکہ سب مرد آفس میں تھے لیکن معصومہ بی بی اداس سی لاونچ میں بیٹھی تھیں –
ہٹلر آ رہا ہے واپس – اس نے بنا اوپر دیکھے زمین پر ہی نظریں جمائے آہستہ آواز میں کہا – ہٹلر یعنی عارش بھائی؟؟ مریم نے آنکھیں چھوٹی کرتے پوچھا – ہاں تو اور کیا وہ ہی تو ہیں ہٹلر اور کون ہو سکتا ہے – اتنے مزے کے گزر رہے تھے یہ دن میرے جو ایک ہفتہ وہ میٹنگ کے لیے اسلام آباد گئے ہوئے تھے مگر اب واپس آ رہے ہیں –
سارا سکون غارت کرنے – میرا بس چلے نہ تو میں ان کو کہیں دوررررر بھیج آوں تاکہ سکون سے ساری زندگی گزاروں کم سے کم ان کی ہر وقت ڈانٹ سسنے کو تو نہیں ملے گی نہ – ہر وقت مجھ پر غصہ کرتے ہیں کہ یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو ، ایسے بیٹھو ، ایسے چلو ، ایسے ہسو اور جو ہر وقت ان کی زبان پر لفظ ہوتا ہے وہ یہ کہ بچی نہیں ہو اب بڑی ہو جاو تمیز سیکھو –
وہ ایک دم صوفے سے کھڑی ہوتی پھٹ ہی پڑی تھی – جبکہ مریم اچھے سے اس کی حالت سمجھ سکتی تھی اس کا ہسنے کو تو بہت دل کر رہا تھا مگر ہسنے کی بجائے وہ معصومے کہ پیچھے دیکھتی چہرے پر خوف سجائے کھڑی تھی – عارش ببب..بھائی آپ کک..کب آئے ؟؟ مریم کے الفاظ پر معصومہ کا سانس سوکھا تھا –
ععع…عا..عارش ببب..بھائی مم.میں تت…تو مزاق کک…کر رہی تھی – معصومہ نے بنا پیچھے مڑے آنکھیں زور سے بند کرتے سوکھے سانس کے ساتھ اٹکتے ہوئے کہا تھا مگر جواب میں عارش کی گرجتی غصے سے بھر پور آواز کی بجائے مریم کے چھوٹتے قہقہوں پر اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں اور جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں عارش کا نام و نشان بھی نہیں تھا –
مریمممممممم کی بچیییییییی !! غصے سے مریم کو دیکھتے وہ زور سے چیخی تھی جبکہ مریم کا ہس ہس کر برا ہال تھا – تم نہ مجھ سے بات بھی نہ کرنا آج کے بعد – غصے سے ہوئے لال چہرے کو پُھلائے وہ بولی تھی – اچھا نہ سوری سوری میری جان – مریم اپنی ہسی ضبط کرتی اس کے پاس آتی بولی –
بات نہ کرو مجھ سے – اس کا منہ ابھی بھی پھولا ہوا تھا – یار بس نہ معاف کردو اب نہیں کرتی تمہیں تنگ – ویسے ایک بات تو بتاو اگر اتنا ہی ڈرتی ہو تو کیوں اس طرح سے ان کے بارے میں بولتی ہو – مریم کے پوچھنے پر اس کا جوش پھر سے جاگ اٹھا تھا – کوئی نہیں ڈرتی میں آپ کے بھائی عارش ، بارش ، خارش سے – سمجھتے پتا نہیں کیا ہیں خود کو –
اپنی بوڈی کا بڑا غرور کرتے ہیں نہ مجھے تو سانڈ لگتے ہیں – اپنی بھراس نکالتے وہ آخر میں عارش کی پیکس والی بوڈی کو سانڈ کی بوڈی سے ملاتی ہستے ہوئے مریم کے آگے ہائے فائے کے لیے اپنا ہاتھ کرگئی مگر مریم کا تو اپنا سانس اب واقع سوکھا ہوا تھا – عارش بھائی – مریم نے آنکھوں میں خوف لیے پیچھے دیکھتے کہا –
بس کر دو اب نہیں میں ڈرنے والی – جانتی ہوں کہ کوئی بھی نہی… – اس بار بھی مریم کا مزاق سمجھتے وہ ہستے ہوئے بولتے پیچھے پلتی تھی مگر سامنے عارش کو لال آنکھوں سے خود کو گھورتا دیکھ اس کے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے اور وہ گرتے گرتے بچی تھی – ععع…عارش بھائی آپ کب آئے ؟؟
اس نے اٹکتے اٹکتے پوچھا – جب تم میری تعریفیں کر رہی تھی – اس نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتے چباتے ہوئے کہا جبکہ معصومہ آگے سے کھسیانی ہسی ہس دی تھی – دادی ، امی ، چاچی ، تائی امی کدھر ہو سارے نکل آو کمروں سے دیکھو عارش بھائی آگئے ہیں –
اس سے پہلے کہ عارش اس کی اچھے سے کلاس لیتا اس نے جلدی سے سب کو آوازیں لگانی شروع کر دیں تھیں کیونکہ ایک یہی طریقہ تھا سامنے کھڑے جلاد سے بچنے کا – اور واقع وہ اس چال میں کامیاب بھی ہو گئی تھی کیونکہ دادی ، تائی سب لوگ آگئے تھے اور عارش اسے گھور کر دیکھتا سب سے ملنے لگ گیا تھا –
اسے سب میں مگن دیکھ وہ موقع دیکھتی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئی تھی کیونکہ عارش کا کوئی بھروسہ نہیں تھا سب سے ملنے کے بعد وہ اس کی سب کے سامنے ہی کلاس لے لیتا –
:::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::
سب سے ملنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گیا تھا – اسے اچھے سے معلوم تھا کہ معصومہ وہاں سے غائب ہو چکی تھی اس لیے اس کا ارادہ بعد میں اس کی کلاس لینے کا تھا – ابھی فریش ہونے کے بعد وہ شیشے کے سامنے شرٹ لیس کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا کہ تبھی اچانک اپنے مسلز اور پیکس کو دیکھ اس کے کانوں میں معصومہ کے اپنی بوڈی کے بارے میں کہے گئے الفاظ گونجے تھے –
وہ میٹنگ کے سلسے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا اور آج ویسے تو اس نے رات جو آنا تھا لیکن جلدی ہی آگیا تھا مگر گھر داخل ہوتے ہی معصومہ کے الفاظ سن اس کا میٹر گھوم گیا تھا – ابھی بھی خود کو شیشے میں دیکھتے اس کا دائیاں ہاتھ خود بخود شیشے کی طرف بڑھا اور وہ شیشے میں نظر آتے اپنی بوڈی کے عکس کو چھو کر دیکھنے لگا – کیا واقع میری بوڈی سانڈ جیسی ہے ؟؟
لیکن میری اس بوڈی پر لڑکیاں مرتی ہیں – وہ خود سے آہستہ آواز میں بڑ بڑایا مگر اچانک حوش میں آتے ہی اس نے ہاتھ پیچھے ہٹایا تھا – یہ کیا کر رہے ہو عارش تم ؟؟ وہ تو ہے ہی پاگل تم کیوں پاگل بن رہے ہو ؟؟
تمہاری بوڈی ایک دم پرفیکٹ ہے – اس کم عقل کو کیا پتا اس سب کے بارے میں خود جو نازک مزاج ہے اتنی کہ ہوا سے بھی اڑ جائے – خود سے بڑبڑاتا وہ بیڈ پر رکھی شرٹ اٹھا کر پہنتا بیڈ پر لیٹ چکا تھا – اس کا ارادہ کچھ دیر آرام کرنے کا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial