روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 1

یہ منظر دبئی کے بہت بڑے شہر راس الخیمہ کا ہے ۔اس شہر کو راس الخیمہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں خیموں سے مشاہبت رکھنے والے چھوٹے چھوٹے مکان ہیں۔ جو ساحل سمندر پر موجود ہیں ۔
وہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے لیے خود نہیں آتا تھا ۔لیکن اس وقت سوال اس کے لایفٹ ہینڈ شارف کا تھا۔
وہ جو بچپن سے اس کے ساتھ تھا اس کے ہر کام میں برابر کا شریک تھا۔
آج وہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔وہ اس وقت دبئی کی ایک بہت بڑی جیل میں تھا ۔اس کا وفادار ساتھی اس پر جان نچھاور کرنے والے کو وہ اس طرح سے نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔
یہ سچ تھا کہ ڈان کو اس سے کوئی محبت نہ تھی اس کے ساتھ کوئی دلی وابستگی نہ تھی مگر وہ اس کے لئے جان دینے کا حوصلہ رکھتا تھا ۔اور ڈان کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی ۔
رات ایک بجے کا وقت تھا راس الخیمہ شہر دن میں جتنا ویران اور خاموش ہوتا رات میں اتنا ہی روشنیوں سے بھرا ہوتا ۔
اور ڈیول اکثر اپنے کام روشنیوں میں کرنے کا عادی تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا ۔کہ گناہ کار کو اس کا گناہ نہیں بلکہ گناہ چھپانے کا طریقہ مار دیتا ہے ۔
اس لیے وہ جو بھی کرتا کھلے عام کرتا۔ وہ اپنے کسی بھی کام میں کوئی غلطی نہیں کرتا تھا ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ 30 سال کی عمر میں وہ انڈرورلڈ کاڈان تھا ۔گناہوں کی دنیا میں قدم رکھتے ہی ڈیوال نے اس شہر میں ڈان نامی کہیں کیڑے مکوڑوں کو مسل ڈالا ۔
دوبئی کا بچہ بچہ” ڈان’ دا’ڈیول “کو جانتا تھا ۔لیکن کوئی بھی اس کی شکل سے واقف نہ تھا.
وہ اتنی صفائی اور ہوشیاری سے کام کرتا تھا کہ ساتھ کھڑے خضر کو بھی پتا نہیں چلتا ۔
شارف بے گناہ نہیں تھا اس نے بھی کہیں گناہ کیے تھے لیکن جس چیز کا الزام ابھی اسے دیا جارہا تھا وہ اس نے نہیں کیا تھا ۔اور ڈان کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کی ٹیم میں کسی کو اس طرح سے ٹارگٹ کیا جائے .
اسے جن لوگوں سے مطلب نہ ہوتا ان سے وہ کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا نہ ہی دوستی اور نہ ہی دشمنی ۔
لیکن واثق ملک نے اسے سامنے سے لکارا تھا۔ اس کے لایفٹ ہینڈ شارف پر الزام لگا کے اسے جیل کے اندر کروا دیا تھا اور یہی چیز ڈان کوغصہ دلارہی تھی ۔
واثق ملک جوکہ فون پر اسے دھمکیاں دے چکا تھا کہ وہ شارف کو پھانسی کے پھندے تک پہنچائے گا ۔اس وقت اس سے چھپ کر ان چھوٹے چھوٹے مکانوں میں سے کسی ایک مکان میں تھا ۔
اس نے واثق ملک کو کہا تھا کہ چھپنے سے بہتر ہے کہ وہ سامنے آ کر اس سے بات کرے لیکن واثق ملک نہ مانا اسی کی وجہ سے آج شارف ایک ہفتے سے زیادہ وقت سے جیل میں تھا۔
وہ ڈان کا لایفٹ ہینڈ تھا اسے جیل میں کسی چیز کی کمی نہ تھی اے سی ‘ٹی وی’ بیڈ ‘وہ ڈان کا خاص بندہ تھا اسے ہر چیز مہیا کی گئی تھی ۔
لیکن جیل سے زیادہ ڈان کو یہاں اس کی ضرورت تھی۔ جس کی وجہ سے اس کا باہر ہونا ضروری تھا ۔
وہ تنگ گلی سے نکلتا ہوا ایک گھر کے اندر داخل ہوا جہاں اس کے کچھ آدمی ایک آدمی کو زمین پر بیٹھائے اس کے سر پر بندوقیں تانے کھڑے تھے ۔
وہ بالکل خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گیا اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا ۔
واثق ملک نے ذرا سی نگاہ اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔گھنے کالے بال جو پیچھے کی طرف پونی میں بندھے ہونے کے باوجود بھی ماتھے کو کور کیے ہوئے تھے ۔سرخ و سفید رنگت ۔سبز آنکھیں ہلکی ہلکی داڑھی ذرا ذرا سی مونچھ ۔وہ جب بات کرتا تھا اس کے گال پر ایک ڈمپل نمایاں ہوتا ۔لیکن یہ شخص ہنستا نہیں تھا ۔
اس لیے آج تک جس نے بھی اس کے گال کا ڈمپل دیکھا تھا اس سے بات کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا ۔
بے شک وہ عربی شہزادہ ہنستے ہوئے بھی قیامت ڈھاتا ہوگا
جب کاٹنے کی اوقات نہ ہو تو بھونکنا بھی نہیں چاہیے وہ اس کے سامنے شان بے نیازی سے صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا تھا
اب تک واثق ملک کوڈان کے سامنے اپنی اوقات کا اندازہ اچھے سے ہو چکا تھا ۔
وہ اتنے چھوٹے سے علاقے میں آ کر چھپ کے بیٹھ چکا تھا لیکن ڈان نے اسے یہاں سے بھی ڈھونڈ نکالا ۔
مجھے معاف کردو ڈیول مجھ سے غلطی ہوگئی ۔تم جیسا کہو گے میں ویسا کروں گا پلیز مجھے مت مارنا ۔
اسے جیسے ہی اندازہ ہوا کہ اب وہ ڈان سے بچ نہیں سکتا وہ گڑگڑانے لگا ۔
تم۔۔۔۔تمہیں ثبوت چاہیے نا؟ اپنے آدمی کے بے گناہ ہونے کا! میں تمہیں ابھی ثبوت دیتا ہوں وہ جلدی سے زمین سے اٹھنے لگا جب اس کے آدمیوں نے بندوق پر زور ڈال کر اسے واپس بٹھادیا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے اگر میں یہاں تک پہنچ سکتا ہوں تو کیا تم سے ثبوت نکالنا میرے لیے مشکل ہے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگا .
ویسے بہت صفائی سے کام کیا ہے تم نے مجھے تمہارا کام کرنے کا انداز پسند آیااس کے لہجے میں واثق ملک اپنا مذاق اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا .
تمہیں کیا لگتا ہے واثق میرے لیے شارف کو چھڑوانا مشکل ہے نہیں میں جب چاہوں اسے جیل سے نکلوا سکتا ہوں “ایسے ایسے” اس نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے چٹکی اس کے آنکھوں کے سامنے بجاتے ہوئے کہا .
تم جانتے ہو میں تمہیں کیوں ڈھونڈ رہا ہوں واثق ملک ؟
میں تمہیں شارف کے لئے نہیں بلکہ ان لڑکیوں کے لیے ڈھونڈ رہا ہوں جس کی ویڈیو تمہارے پاس ہے ۔وہ لڑکیاں جو باحفاظت ترکی میں ہیں لیکن ان کی فحاش ویڈیو آج بھی تمہارے پاس موجود ہیں ۔میں یہاں شارف کے لئے نہیں بلکہ ان لڑکیوں کے لئے آیا ہوں ۔
اس ویڈیو کا اورجنل پرنٹ میرے سامنے ریمو کرو اور باقی کی خود کرواؤ ابھی تمہارے پاس صرف 10 منٹ ہیں ۔اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا
لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا وہ ویڈیو تو سائٹ پر ریلیز ہوچکی ہے ۔اب تو کرڑووں لوگ دیکھ چکے ہوں گے ۔
کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ڈان نے اس کے سر پر بندوق تانتے ہوئے اس کی بات کاٹی ۔
نہ نہیں رکو میں کچھ کرواتا ہوں ۔مجھے مت مارنا وہ پھر سے التجا کرنے لگا ۔
دس منٹ۔۔۔” ڈان کا لہجہ سفاک تھا ۔
اور پھر سامنے کھڑا شخص اسے اپنے کرتب دکھانے لگا ۔اپنی جان بچانے کے لئے یہ شخص کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے کبھی ایک طرف فون کرتا تو کبھی دوسری طرف ۔جبکہ اس کے آدمی اس کے گھر کی تلاشی لے رہے تھے ۔
کیونکہ جو بھی تھا اس کے سارے آدمیوں کا ریکارڈ بہت صاف تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ شارف کے خلاف بھی ایسا کوئی جھوٹا ثبوت رہے
اور پھر وہی ہوا دس منٹ کے اندر ان لڑکیوں کی ہر ویڈیو سائٹ سے اور ہر قسم کی دوسری فحاش جگہ سے ریموو کردی گئی ۔
وہ لڑکیوں جو شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ ہنی مون کے لیے یہاں آئی تھی ۔واثق ملک نے ہوٹل کے رومز میں کیمرہ لگا کر ان کی ویڈیوز بنائیں جنہیں بعد میں سائیڈ پر ریلیز کرکے اس کا بہت پیسہ کمانے کا ارادہ تھا ۔
وہ کپلز شاید یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا ۔لیکن ڈیول جانتا تھا وہ جانتا تھا کہ ان کی زندگی کس طرح سے برباد ہو سکتی ہے ۔
ڈیول میں نے ہر قسم کا پرنٹ ریموو کروا دیا ہے لیکن۔۔۔!! وہ رکا۔
لیکن کیا۔۔۔۔؟ وہ غصے سے چلایا ۔
ان ویڈیوز کا ایک پرینٹ پاکستان پہنچا دیا گیا ہے ۔اس کی بات سن کر ڈیول نے ایک نگاہ اپنے دائیں طرف کھڑے خضر پر ڈالی جو کہتا تھا کہ اس کا ملک بہت پاک صاف ہے بہت نیک ہے ۔اس کے ملک میں کوئی فحاش کام نہیں ہوتا لیکن اب پاکستان بھی دنیا کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا خضر اس سے نگاہ نہیں ملا پا رہا تھا .
کوئی بات نہیں پاکستان سے میں نکلوا لوں گا۔ ایک ہفتے بعد صدیق کی بیٹی معصومہ یہاں آنے والی ہے میں اسے کہہ دوں گا وہ لے آئے گی خضر نے حل پیش کیا ۔تو ڈان اٹھ کر کھڑا ہوگیا اب اس کا یہاں کوئی کام نہ تھا ۔
پھر پیچھے مڑا اور واپس اس کے سامنے آ کر رکا
جانتے ہو واثق۔۔۔۔!! لوگ کہتے ہیں کہ جس کا کوئی اپنا نہیں ہوتا وہ دوسروں کی ماں بیٹیوں کی عزت کرتے ہیں لیکن آج تم نے ثابت کردیا کہ یہ بات بالکل غلط ہے ۔
جن لڑکیوں کی تم نے وہ ویڈیو بنائی وہ ابھی اپنی زندگی شروع کر رہی تھی ذرا سوچو اگر وہ ویڈیو ان لڑکیوں تک پہنچ جاتی تو کیا کبھی زندگی میں وہ خود سے نظر ملانے کے قابل رہتی ۔
چوری کرو ڈاکہ ڈالو قتل کرو لیکن ڈیول زنا نہیں کرنے دے گا۔
تم ایک اچھے آدمی تھے۔۔۔۔۔” وہ رکا
مگر تھے ۔۔۔۔۔۔”واثق ملک کو بات سمجھنے کا موقع دینے سے پہلے ہی گولی چلی تھی اور سامنے کھڑا وجود بے جان ہو گیا۔
°°°°°°°°°
وہ صبح سات بجے کی اٹھی ہوئی تھی روز کی بانسبت آج کام اتنا زیادہ تھا کہ اسے عصر پڑھنے کا وقت بھی نہ ملا ۔صبح سے سانس لینے کی بھی فرصت نہ تھی آج گھرمیں نو قسم کے کھانے بنائے گئے آخر مریم آپی کا رشتہ جو آرہا تھا ۔مریم اندر تیار ہو رہی تھی اپنی دو بہنوں تانیہ اور ماریہ کے ساتھ ۔۔۔”
روح کے ہاتھ میں بہت لذت تھی ۔وہ صبح سے ہی کچن میں گھسی تھی۔اور اب تک سب کام کر چکی تھی اسے تین بجے سے پہلے ہی گھر سے نکلنا تھا ۔
کیونکہ امی کا حکم تھا کہ جب تک یہ رشتے والے یہاں سے چلے نہ جائیں۔تب تک اپنی شکل کسی کو نہ دکھائے ان کا گھر اتنا چھوٹا سا تھا کہ کوئی بھی چھپ کر نہ بیٹھ سکتا ۔
پورے گھر میں صرف دو ہی کمرے تھے ایک میں جہاں ان کی بیٹیاں مریم تانیہ اور ماریہ رہتی تھی۔ دوسرا کمرا جہاں امی رہا کرتی تھیں اور تیسرا کچن یہ اتنا چھوٹا سا گھر تھا کہ باہر کھڑے شخص کو پورا پورا کمرہ نظر آتا ۔
اس لئے امی کا حکم تھا کہ جیسے ہی کھانا بن جائے اور سارا کام ختم ہوجائے وہ جلدی سے یہاں سے اٹھ کر فاطمہ بی کے گھر چلی جائے ۔
کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ سوتیلی بیٹی ایک بار پھر سے اس کی بیٹیوں کا کام خراب کردے ۔وہ صبح سے گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔اور آج اتفاق ایسا تھا کہ امی نے صبح سے اسے ایک بھی تھپڑ نہ مارا تھا ۔
اسے صرف فاطمہ بی کے گھر جانے کی اجازت تھی جہاں دوپہر میں وہ بچوں کو قرآن پڑھآتی تھی جس کی فاطمہ بی بی اس کی امی کو تنخواہ دیتی تھیں۔
اسکے علاوہ محلے کے بچوں کے والدین بھی اسے کچھ نہ کچھ دیتے رہتے اگر اسے روح کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا تو تعظیم اسے کب کا اس گھر سے نکال چکی ہوتیں ۔
آخر ان کے شوہر کے دھوکے سے تو یہ اولاد تھی ۔
انکے شوہر نے دو شادیاں کی تھیں پہلی شادی تعظیم سے جن میں سے ان کی تین بیٹیاں تھی بیٹا نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے دوسری شادی کرلی لیکن تعظیم سے چھپ کر”
جب تعظیم کو یہ بات پتا چلی تو بہت دیر ہوچکی تھی بیٹا تو انہیں دوسری بیوی سے بھی نہ ہوا بس ایک ان چاہا وجود روح دنیا میں آگئی۔
وہ معصوم سی لڑکی ہر کسی سے پیار کرنے والی لیکن یہاں اسے کوئی پیار نہیں کرتا تھا سوائے فاطمہ بی کے ۔۔۔”
وہ معصوم لڑکی اپنا بچپن کھو چکی تھی وہ انیس سال کی ہوچکی تھی گورنمنٹ سکول میں اس نے میٹرک کر لیا لیکن اس کے آگے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکی ۔وہ پڑھنا چاہتی تھی کچھ بننا چاہتی تھی لیکن کچھ بھی نہ کر پائی
اس کے حصہ میں محبتیں نہ تھی اگر کچھ تھا تو تین بہنوں یا امی کے تھپڑ وہ دن میں درجنوں کے حساب سے اس کے منہ پر اپنے نقش بناتے .
وہ احساس کمتری کا شکار لڑکی اپنے آپ سے بھی محبت نہیں کرتی تھی اسے فاطمہ بی بی کے گھر میں جانے کی اجازت بھی صرف اس لئے تھی کیونکہ وہ اس کی امی کو مہینے کے پانچ ہزار روپے دیتی تھیں ۔
فاطمہ بی بی جانتی تھیں کہ اس کے ساتھ اس گھر میں کیا کیا ہوتا ہے روح بچپن سے ان کے پاس آتی تھی انہیں وہ پیاری سی لڑکی بہت عزیز تھی ۔
اس کی ماں کا نام نور تھا ۔اور اس کے باپ کو اس سے محبت نہ تھی ۔اس کی ماں نے اس کا نام روحِ نور رکھا تھا یعنی کہ وہ اپنی ماں کی روح تھی ۔
اس کا ایک ماموں تھا جس کی کبھی کوئی خبر نا ملی صرف تانے ملے تھے اپنی سوتیلی ماں کے منہ سے کہ وہ بھاگ گیا۔کہاں گیا کیوں گیا کوئی نہیں جانتا تھا۔
اس سے اس کی بچپن کی یادیں چھین لی گئی ۔وہ صرف ایک دن کی تھی جب اس کی ماں اسے دنیا کی ٹھوکروں میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلی گئیں اس کے باپ کواس سے کوئی مطلب نہ تھا وہ تو بس اسے اٹھا کے اس کی سوتیلی ماں کے پاس لے آیا تھا ۔
سوتیلی اولاد سے بھی بلا کوئی محبت کرتا ہے ۔۔۔۔۔؟اس کے باپ نے کبھی اسے پیار سے نہ دیکھا اور سات سال کی عمر میں ہی وہ یتیم ہوگئی ۔
اس کی سوتیلی ماں کو جو ذرا سا اپنے شوہر کا ڈر تھا کہ اس کے سامنے روح کو کچھ نہ کہتی وہ ختم ہو گیا سات سال کی عمر میں ہی اس سے اس کا بچپن چھین لیا گیا تعظیم نے صاف لفظوں میں کہا کہ فری کی روٹی نہیں ملے گی کام کرنا ہوگا ۔
سات سال کا بچہ جو اپنے کپڑے بھی خود نہیں بدل سکتا روح نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں جھاڑو اٹھا لیا اسے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہ تھی جو بچتا ہے وہی کھانے کو ملتا ۔
وہ روتی نہ تھی اسے ان سب چیزوں کی عادت ہوچکی تھی ۔
اسے آواز نکالنے کی اجازت نہ تھی وہ بھی انسان تھی اسے بھی غصہ آتا تھا لیکن اسے جب غصہ آتا ہے وہ اپنے آپ پر نکالتی تھی .
امی کے چھوٹے سے کمرے میں بس ایک ہی بیڈ تھا اسے زمین پر سونے کی جگہ میسر تھی یا پھر امی کا موڈ خراب ہوتا تو وہ کچن میں سو جاتی اسے یہ پتہ نہ تھا کہ یہ چٹائی کب سے اس کے پاس ہے لیکن وہ جب سے سو رہی تھی اسے یہی پھٹی پرانی چٹائی دی گئی تھی ۔
میٹرک تک سکول جاتی رہی جو اسی کے محلے میں ایک گورنمنٹ سکول تھا یہ بھی فاطمہ بی بی کی ہی مہربانی تھی جو اس کی امی کی منتیں کر کے اسکول میں داخل کروا دیا ۔وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی فاطمہ بی بی کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسی پڑھتی رہے تو کچھ بن سکتی ہے ۔
15 سال کی عمر میں جب اس نے میٹرک پاس کیا تو امی نے کہہ دیا کہ اب گھر کے کام کاج سیکھے گی وہ کیا سیکھتی اسے سب کچھ آتا تھا۔
بچپن سے ہی وہ سب کچھ کر لیتی تھی مگر اسے کسی کے سامنے بولنے کی اجازت نہ تھی غلطی سے ان کے گھر میں کوئی مہمان یا کوئی رشتہ دار آتا تو یہی سوچتا کہ شاید یہ بچی گونگی ہے ۔
اس کی سب سے چھوٹی بہن ماریہ بھی اس سے چھ سال بڑی تھی اور تینوں ابھی کنواری تھیں اس سے پہلے مریم کے لئے ایک رشتہ آیا تھا لیکن جب انہوں نے روح کو سامنے دیکھا تو کہہ دیا کہ ہمیں اس سے شادی کروانی ہے اگر آپ کو منظور ہو تو ۔جس کے بعد روح بیچاری کے جسم پر نہ جانے کتنے ہی زخم تھے امی بات بات پر اسے مارنے لگتیں کہتیں تو جو ان کے سامنے آئی اسی لیے میری بچی کا رشتہ ٹوٹ گیا .
وہ روتی تڑپتی لیکن کون سنتا تھا اس کی وہ ساری رات روتی تھی اور وہ بے حس عورت جیسے لوگ ماں کہتے تھے بےخبر سوتی رہتی ۔
وہ جانتی تھی کہ اس دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے اور فاطمہ بی بی وہ تو صرف پروسن ہیں وہ بس اس کے نام پر پانچ ہزار روپیہ اس کی ماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتی تھیں۔
اسے ایک گھنٹہ گھر سے باہر رہنے کی اجازت تھی لیکن صرف فاطمہ بی بی کے گھر اور کہیں جانے کی خواہش بھی نہ تھی وہ صرف فاطمہ بی بی سے اپنا دکھ بانٹتی اس کے زخم دیکھ کر وہ رحمدل عورت اکثر رو پڑتیں۔اور کہتی ۔۔!!
وہ دن دور نہیں جب تمہاری زندگی میں ایک شہزادہ آئے گا اور تمہیں اس دنیا سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائے گا ۔تمہیں خوشیاں دے گا محبت دے گا تمہاری ہر خواہش کو پورا کرے گا ان کی بات سن کر وہ ہنس کر کہتی۔۔۔۔”
شہزادے شہزادیوں کی زندگی میں آتے ہیں فاطمہ بی بی ۔میری زندگی میں کوئی شہزادہ نہیں آئے گا اگر اسے آنا ہوتا تو اب تک آ چکا ہوتا ۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial