قسط 1
دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں خواہشوں کا گھر۔۔۔۔۔
جو آنکھوں میں خواب کے دیے جلاتے وقت نہ حثیت یاد رکھتا ہے نا قسمت کی سوچتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُرخ پھولوں سے سجی سیج کی زینت بنے اُس وجود میں بھی ایسا ہی دل تھا جس نے خواہشیں بنتے ہوئے اس بات کو فراموش کر دیا تھا کے قسمت بہت پہلے ہی اپنے فیصلے لے چُکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشبوؤں سے مہکتے اُس وسیع و خوبصورت کمرے کی تنہائی میں وہ خواہشیں گم ہوتی جا رہی تھے
حلانکہ اُس کی خواہشیں بہت بڑی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام لڑکی کی طرح ایک خوشحال زندگی۔۔۔۔ایک خوشیوں کا آشیانہ اور ایک مکمل ہمسفر جس کے دل میں صرف اُس کی محبت ہو۔۔۔۔۔۔۔
لیکِن آج وہ ایک ایسے شخص کی دسترس میں تھی جو اپنی محبت پہلے ہی کِسی کے نام کر چکا تھا۔۔۔۔۔جس کے دل میں کِسی اور کی محبت پہلے ہی اپنا مقام بنا چکی تھی۔۔۔۔۔
اب اُس مقام پر اُس نام پر اپنا نام لکھنا نا ممکن جیسا تھا۔۔۔۔۔۔
سرخ جوڑے اور دلہن کے روپ نے اُس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھنے والی ہر نظر نے اُس کی تعریف کی تھی لیکن جس کے لیے یہ سنگھار کیا تھا وہ جانے کہاں اپنی بچھڑی محبت کا سوگ منا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔۔اور شاید غربت کا پہلا اصول ہوتا ہے کے اُس کے حصے میں صرف ادھُوری خوشیاں ہی آنی ہے۔۔۔
اُس کے امی ابو اس رشتے سے بے حد خوش تھے۔۔۔۔۔جس دن اُن کے گھر مشہور بزنس مین وقار احمد خان کی بیگم رئیسہ کی آمد ہوئی اور اُنہوں نے اپنے بیٹے شہیر احمد کے لیے اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تو اُنہیں لگا کے قسمت اُن پر اچانک مہرباں ہوگئی ہے۔۔۔۔
ایک نامور گھرانہ۔۔۔۔ایک پڑھا لکھا کامیاب انسان اور ایک پُرآسائش زندگی ماں باپ اپنی بیٹی کے لیے اس سے زیادہ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
شہیر احمد خان ایک طلاق شدہ انسان ،اُن کی بیٹی سے گیارہ سال بڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ باتیں اُس کی خوبیوں کے آگے فراموش ہو گئی تھیں۔۔۔۔
اُس کی رضا جس اُمید اور حسرت سے پوچھی گئی وہ نا کوئی سوال کر پائی نا انکار۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ شہیر احمد نے اُسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی نا کبھی اُس گھر کی کسی دعوت میں شرکت کی۔۔۔۔
بس اُس نے نکاح کے وقت چند گھڑیوں کے لیے اُس کی موجودگی کو محسوس کیا تھا
جب وہ ماہ نور شہیر احمد خان بنی تھی
صاف اندازہ لگایا جا سکتا تھا کے وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے شاید اپنی ماں کے لیے راضی ہوا ہے
پہلے تو صرف اندازہ تھا لیکِن صبح کے پانچ بجنے تک اُس کی کمرے میں غیر موجودگی نے اس بات پر پکّی مہر لگا دی تھی کے اُس کی محبت اُس کا ماضی نہیں ہے
اُس کا آج بھی اُس محبت کے نام ہی ہے
دل میں جو ہلکی سی اُمید تھی وہ اب دم توڑ چُکی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆
دوستوں سے جان چھڑا کر وہ مسکراتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا اُس کی تمنائیں اُس کی حسرتیں خواہشیں خواب سب مکمل ہو کر اُس کے کمرے کی رونق بنی ہوئی تھیں۔۔
اپنی محبت کو پا لینا کا سرور نظروں سے جھلک رہا تھا۔۔۔
دنیا جیت لینے کی خوشی ہلکی سی مسکراہٹ سے واضح تھی
اندر آیا تو بیڈ خالی تھا اور واشروم سے پانی کی آواز آرہی تھی۔۔
دروازے کو لاک کیا اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔
مہکتا ہوا کمرہ اُس کے ارمانوں کی طرح پور پور سجا ہوا تھا۔۔۔
بیڈ سے لے کر زمین کے ہر حصے میں گلاب کی چادر بچھی ہوئی تھی۔۔
مہک اور رنگ مل کر خوشنمائی پھیلائے ہوئے تھے۔۔۔
وہ ہتھیلیاں آپس میں۔رگڑتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور دیوار پر لگے آئینے میں خود کو سر سے پیر تک دیکھنے لگا۔۔۔۔
شیروانی کا اوپری جیکٹ اُتار کے صوفے پر پھینکا اور سفید کرتے کو درست کرنےلگا۔۔۔
پیشانی پر بکھرے بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے ہوئے مسکرایا۔۔ہر انداز ہر حرکت ہر انگ مسرور تھا
ٹیبل پر رکھی پرفیوم کی بوتل اٹھا کر خود پر اسپرے کیا اور بے تاب نظروں سے واشروم کے دروازے کو دیکھتا بے چینی سے اُس کا انتظار کرنے لگا۔۔تقریباً پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا۔۔۔۔
لیکِن وہ ویسے نہیں تھی جیسے وہ اُسے دیکھنے کا شدّت سے خواہش مند تھا۔۔۔۔۔اسلئے تھوڑی سی حیرانی ہوئی۔۔
دلہن کا لباس اور جویلری تبدیل کرکے وہ سرخ گھٹنوں تک آئی نائیٹی میں بھیگی بھیگی سی باہر آئی
شہیر کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح بے نیازی دکھاتی اپنے گیلے بالوں کو خشک کرتے ہوئے ڈریسنگ میرر کے سامنے کھڑی ہو گئی
اُس کا یہ مغرور انداز اُسے اور زیادہ خوبصورت بناتا تھا اور شہیر کو تو ہر حال میں وہ عزیز تھی
وہ مسکراتا ہوا اُس کی طرف بڑھا اور پیچھے سے آکر اُسے اپنے بازؤں کے حصار میں لیا۔۔۔
شہیر کی زندگی ۔۔۔تم نے اتنی جلدی چینج کر لیا۔۔۔۔۔تھوڑا تو اِنتظار کرتی یار مجھے تمھیں اپنی دلہن کے روپ میں دیکھنا تھا۔۔۔۔
وہ ٹھوڑی اُس کے کندھے پر رکھتے ہوئے شیشے میں اُسے دیکھ کر بولا۔۔۔
شہیر۔۔۔۔۔۔
وہ اُسے پیچھے کرتی اُس کی جانب مڑی
تمہیں پتہ ہے وہ لہنگا اور جویلری کتنے ہیوی تھے۔۔۔۔میں اُسے اور تھوڑی دیر رہنے دیتی نا تو مر ہی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بات مکمل کرے اُس کے پہلے شہیر نے اُس کے لبوں پر اُنگلی رکھ دی
شش۔۔۔۔۔خبردار جو ایسی بات کی۔۔۔۔۔
مرنے کی بات پر اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا تو وہ اُس کے انداز پر مسکرائی۔۔اُس کی مسکراہٹ سے وہ سرشار ہوا
تم اندازہ نہیں لگا سکتی عائزہ کے تمہیں پا کر میں کتنا خوش ہوں ایسا لگ رہا ہے میری زندگی میری خوشیاں مکمل ہو گئی ہے۔۔۔۔اب مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔خدا نے تمہیں میری زندگی بنا کر مجھے سب کچھ دے دیا ہے۔۔آئے ایم کمپلیٹ ناو۔۔۔
وہ اُس کے گالوں کو اُنگلیوں سے سہلا کر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا محبت سے بھرے لہجے میں بولا
شہیر یہ بات تم صبح سے مجھے کم سے کم دس بار کہہ چکے ہو۔۔۔۔۔
عائزہ نے اپنے کندھے سے بال پیچھے کرتے ہوئےبیزاری سے کہا
شہیر کی نظریں بھٹک کر اُس کے گلابی لبوں سے الجھنے لگی
میرا بس چلے تو جا کر آسمانوں پر لکھ دوں کے میں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں جسے عائزہ ملی ہے۔۔۔۔میری محبت ملی ہے
وہ اُسے کمر سے تھامے قریب کرتا ہوا بولا
باتوں سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔۔میرا گفٹ کہاں ہے۔۔۔
وہ اُسکے گلے میں باہیں ڈالے اترا کر بولی
اس دنیا میں آپکی شایانِ شان کچھ ہے ہی کہاں میڈم۔۔پھر بھی ایک کوششں کی ہے اُمید ہے آپکو پسند آۓ۔۔۔۔۔
وہ اُس کے چہرے پر آتے بھیگے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے مسکرا کر بولا۔اور کرتے کی پاکٹ سے ایک خوبصورت نازک سا ڈائمنڈ بریسلیٹ نکال کر اُس کی کلائی میں پہنایا
So beautiful۔۔۔۔۔۔۔
وہ خوش ہو کر بریسلیٹ کو دیکھنے لگی
After you sweet heart۔۔۔۔۔
وہ بھاری سرگوشی میں کان کے قریب کہتا اُنگلیوں سے اُس کی نازک گردن کو چھونے لگا۔۔۔۔۔
عائزہ نے آنکھیں بند کر لی وہ اُس کے چہرے کو تھامے اُس کے لبوں پر جھکا اپنی برسوں کی محبت کا عملی اظہار کرکے دل کو تسکین پہنچانے لگا
اُس پل اُس شب شہیر احمد خان کے لیے ساری دنیا تھم گئی تھی تھا تو بس وہ اور اُس کی پناہوں میں اُس کی محبت عائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔
عائزہ اُس کی بچپن کی محبت جسے چاہنے کی وہ تمام حدیں پار کر چکا تھا۔۔۔۔جس کی خوشی اداسی سکون سب کچھ سیدھے شہیر کے دل سے جڑے تھے۔۔۔
جو اُس کی زندگی تھی۔۔۔۔۔۔
جس پر وہ ہر پل محبت نچھاور کرتا تھا۔۔۔۔۔
جس کا انگ انگ شہیر کی محبت کی شدتوں کا گواہ تھا۔۔۔لیکِن۔۔۔۔
لیکِن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔۔۔
جہاں اُس کی محبت کے لاکھوں قصے تحریر تھے
آج اُس کمرے میں کوئی اور اُس سیج کی زینت بنا ہوا تھا۔۔۔۔
کبھی جو زندگی عائزہ کے نام کی تھی
آج اُس کے حقوق کسی اور کے نام تھے۔۔۔
آج اُس کا دل ہر احساس سے خالی تھا ۔۔ہر خوشی سے انجان تھا
تھیں تو بس ۔۔۔۔
ماضی کی جان لیوا یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تنہائی۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆
وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی شاید دِماغ اپنی سوچوں میں اتنا غرق تھا کے کسی چیز کا احساس ہی نہیں رہا تھا
پردوں کے اطراف سے روشنی اپنی جگہ بنا کر کمرے میں آنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک نظر پورے کمرے پر دوڑا کر اُس کا جائزہ لے چُکی تھی۔ جو۔رہنے والے کے شایان شان تھا۔۔۔۔
اپنے بھاری لہنگے کو سنبھالتے ہوئے اُس نے پیر بیڈ سے نیچے رکھے تو ایک لمحے کو لڑکھڑا گئی دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے خون منجمد ہو گیا تھا۔۔۔۔اسلیے تھوڑی دیر لگی قوت آنے میں۔۔۔
سنبھل کر ڈریسنگ ٹیبل تک آئی اور خود کو اوپری ڈوپٹے سے آزاد کرکے اُسے ایک طرف رکھا۔۔۔۔۔
رُوم میں موجود تین دروازوں کو اُلجھ کر دیکھنے لگی کہ جانے کونسا ڈریسنگ روم کا تھا اور کونسا واشروم کا۔۔۔۔۔۔۔
ایک دروازے کے ہنڈیل پر ہاتھ رکھ کر اُسے آہستہ سے کھولا تو۔۔۔۔
مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ساری رات یہاں سوتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی دلہن کو اکیلے چھوڑ کر جو رات بھر تمہارا اِنتظار کرتی رہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے سے منسلک اسٹڈی روم میں تھا جس کا ایک دروازہ باہر اور ایک روم کے اندر کھلتا تھا۔۔۔رئیسہ بیگم سامنے بیٹھے اپنے بیٹے سے شکوہ کر رہی تھی جس کی نور کی جانب پشت تھی۔۔۔۔۔
معاف کیجئے گا مام۔۔۔۔۔۔۔
میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھ سے زیادہ امیدیں نہ لگائیں۔۔۔۔آپ کی ضد سے شادی کر لی ہے لیکِن میری زندگی میں اس شادی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے نہایت تھکے تھکے لہجے میں اپنی ماں کی شکائت کا جواب دیا تھا
اُس کے دل میں محبت تو کیا رشتے کی بھی جگہ نہیں تھی۔۔۔
خواہشیں ٹوٹ کر نور کی آنکھوں میں چبھنے لگی
میں اُس کمرے میں بھی نہیں جانا چاہتا جہاں وہ لڑکی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔عائزہ کی جگہ کِسی اور کو اُس مقام پر دیکھنا میرے لیے ممکن نہیں
وہ لڑکی میری زندگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔
اُس کے لفظوں میں بچھڑی محبت کے لیےاہمیت تھی اور نئے وجود کے لیے صرف بے اعتنائی۔۔۔۔۔
وہ مکمل تو کیا ادھورا بھی اُس کا نہیں تھا۔۔۔۔۔
نور نے ہاتھ اٹھا کر چہرے پر پھسلتے آنسُو کو چھوا تو خاموشی میں چوڑیوں نے چھن چھن کرکے ارتعاش پیدا کیا رئیسہ بیگم نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور پتھر ہو گئیں۔۔۔
شہیر بھی اُس کی موجودگی کو محسوس کر گیا لیکِن پلٹ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔۔
وہ آہستہ قدم پیچھے لیتی واپس کمرے میں۔آکر اُسی جگہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل جوڑنے کی آس میں بری طرح ٹوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔
اب تک صرف مایوسی تھی اب ایک غم گلے پڑ گیا تھا۔۔۔
رئیسہ بیگم فوراً کمرے میں آئیں ۔۔ اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے اُس کا چہره تھاما لیکن اُس نے نظر اُٹھا کر اُنہیں دیکھنے کی غلطی نہیں کی۔۔۔۔
اپنے ٹوٹے دل کا اتنا مان تو رکھنا تھا کے اُس کے ٹکڑے اوروں کو نظر نہ آئے۔۔۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔ساری غلطی میری ہی ہے
بیٹے کی محبت میں اتنی خودغرض ہو گئی میں ۔
یہ تک نہیں سوچا کہ اُسے خوشیاں دینے کے لیے کسی اور کی خوشیاں چھین رہی ہوں۔۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم ہارے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔۔۔
میں تو اُس کی ویران زندگی کو آباد کر نا چاہتی تھی مجھے کیا پتہ تھا میرے بیٹا اپنی دیوانگی میں اتنا اندھا ہو چکا ہے کے کسی معصوم لڑکی کے جذبات سے کھیل جاۓ گا
اُن کی آواز میں نمی گھل گئی لیکِن وہ چاہ کر بھی اُنہیں کوئی تسلی کوئی دلاسہ نہیں دے پائی پتھر بن کر بیٹھی ایک نقطے کو گھورتی رہی۔۔۔۔
میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہا کس طرح اپنی غلطی کا ازالہ کروں۔۔۔۔۔۔۔کیسے تم سے معافی مانگوں
مجھے تمہیں پہلے ہی ساری حقیقت بتا دینی چاہیے تھی۔۔۔۔
لیکِن اب میں تمہیں کسی بات کے لیے مجبور نہیں کروں گی تم جو فیصلہ کرو گی میں اُس میں تمہارا ساتھ دوں گی یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم اُس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے نکل گئیں۔۔۔
وہ سوچ کر رہ گئی کے کیا فیصلہ لے۔۔۔۔۔
کیوں کے کچھ راستوں پر قدم رکھنے کے بعد واپسی بہُت مشکل ہوتی ہے۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆
رئیسہ بیگم ایک دور کے رشتےدار کی شادی میں شرکت کے لیے حیدر آباد آئیں تھیں ناز ، عمیر اور وحیدہ بیگم بھی ساتھ تھیں۔۔
اُس شادی کے دوران اُن کی ملاقات ماہ نور اور اُس کی فیملی سے ہوئی ۔۔
ماہ نور پہلی ہی نظر میں اُنہیں بے حد پیاری لگی۔۔۔۔۔۔
چند دن ساتھ رہتے ہوئے اُسے قریب سے جان کر وہ اُس کی نرم و نازک مزاج اور خوبصورتی کی وجہ سے اس کے مطلق سوچنے پر مجبور ہو گئیں۔۔۔
اُنہیں اپنے بیٹے شہیر کے لیے وہ بلکل پرفیکٹ لگی۔۔۔۔۔۔
حلانکہ اُن کی برادری اور خاندان میں لڑکیوں کی کمی نہیں تھی ۔۔۔۔۔شہیر احمد خان کی پرسنلٹی کے آگے اُس کا طلاق شدہ ہونا معنی نہیں رکھتا تھا۔۔
لیکن اُنہیں اپنے بیٹے کے لیے ایک ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو اُس کے نام و رتبے سے زیادہ اُس کی شخصیت کو اہمیت دے۔۔۔۔۔
جو اُس کی اُداس زندگی میں روٹھی خوشیاں لے کر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُسے بے وفائی کے درد سے نکال کر محبت کی نئی راہ دکھائے۔۔۔۔
وہاں سے واپس جانے سے پہلے اُنہوں نے ماہ نور سے مطلق ساری معلومات حاصل کرلی تھی۔۔جب وہ گھر پہنچی تو اُنہوں نے بنا دیر کیے شہیر سے شادی کے مطلق بات کی۔۔جس پر اُس نے ہمیشہ کی طرح صاف انکار کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں آپ مجھے کسی کا گناہ گار بنانا چاہ رہیں ہے مام۔۔۔۔۔۔
میں آپکی بات مان کراُسے اپنی زندگی میں شامل کر بھی لوں تب بھی اُسے وہ جگہ نہیں دے پاؤں گا جس کی وہ حقدار ہوگی۔۔۔۔۔۔
اُسے مجھ سے کچھ نہیں ملےگا سوائے خالی پن کے۔۔۔۔۔۔۔
کیوں میں کسی کے ساتھ یہ ذیادتی کروں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سر جھکائے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا
کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔کب تک ہم سب کو یوں سزا دیتے رہوگے۔۔۔
رئیسہ بیگم کی آواز میں بھیگ گئی اُس نے ایکدم سے سر اُٹھا کر اُنہیں دیکھا اور پریشان ہو کر اُن کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے
یہ آپ کیا کہہ رہیں ہیں مام۔۔۔۔۔۔۔میں آپکو کیسے سزا دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔
تڑپ کر اُن کی آنکھوں میں آنسُو دیکھتے ہوئے کہا
تم کیا سوچتے ہو۔۔۔ تمہیں یوں بکھرتے ہوئے دیکھ کر ہم سب خوش ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ۔ہمیں نظر نہیں آتا تم نے اپنے آپکو کتنا برباد کر لیا ہے۔۔۔۔۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شکوہ کر رہیں تھی جس پر وہ نظریں چرا گیا۔۔۔آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگی
کیوں اس لڑکی کے لیے تم خود کو اور ہم سب کو تکلیف دے رہے ہو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہیں اپنی زندگی میں خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔کیوں اپنی ماں کو اتنا تڑپا رہے ہو۔۔۔۔۔اگر مجھے کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔کیا اس بوجھ کے ساتھ ہی بھیج دوگے مجھے کے اپنے بیٹے کے لیے کچھ کر نہیں پائی۔۔۔۔
اُن کے دکھ اور آنسوؤں پر وہ لب بھینچ کر رہ گیا
پلیز مام۔۔۔۔۔اس طرح نا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کے ہاتھ چومتے ہوئے خفگی سے بولا۔۔۔۔۔رئیسہ بیگم نم نگاہوں سے اُس کے خوبرو چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ آپ جو چاہیں گی وہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔میں راضی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکا کر بھاری دل سے اپنی رضامندی دیتا وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔۔۔
حالانکہ وہ خوش نہیں ہو پائیں تھی کیوں کے اُنہیں پتہ تھا وہ یہ اُس کے ساتھ زبردستی ہے۔۔۔ لیکِن ایک اُمید تھی کے اُن کے اس فیصلے سے شاید سب ٹھیک ہوجائے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆
تین دن سے وہ اُس کمرے میں بند تھی۔۔۔۔۔۔۔,
جب وہ اُسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا تو کیوں سامنے جاتی
اپنا آپ اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا کے کوئی دھتکار دے اور وہ پھر بھی اُس کی طرف جائے۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم نے اُس کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی لیکن اپنی جانب سے کوشش کرتی رہیں کے اُسے بہلا سکے۔۔۔
اُن کا زیادہ تر وقت اُس کے ساتھ گزرا۔۔۔۔ناز، افرا اور عمیر بھی اُس سے بغیر کوئی سوال جواب کیے اُس کی دلجوئی کرنے میں لگے رہے۔۔,اُس کا خیال رکھتے رہے
شاید سب کو اندازہ تھا کے حالات کیا ہے۔۔۔۔۔
پہلے پہل تو اُس کا انداز لیا دیا ہی رہا۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر اُن سب کی اتنی محبت و توجہ کی وجہ سے وہ اُن سب سے اٹیچ ہو گئی۔۔اور بیزاری خوش گواری میں بدل گئی
اُن سب کا ساتھ اور اپنا پن پا کر اُسے اپنا آپ غیر معمولی لگنے لگا۔۔۔۔۔
اُس گھر میں کل آٹھ افراد تھے۔۔
۔وقار احمد خان اُن کی بیگم رئیسہ خان
بڑا بیٹا شہیر احمد خان اُس سے چھوٹا عمیر احمد اور دونوں کی اکلوتی بہن ناز احمد خان۔۔۔۔
وقار احمد خان کی بیوہ بہن بھی سالوں سے اُن کے ساتھ رہتی تھیں۔۔۔۔اُن کی دو بیٹیاں تھی عائزہ اور افرا
کم عمر میں ہی شہیر کو محبت کا روگ لگ گیا تھا۔۔۔
خوبصورت نین نقوش والی خود سے چار سال چھوٹی عائزہ اُس کے دل میں بس گئی تھی۔۔۔۔
وہ شروع سے ہی اپنے آپ میں رہنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔
شہیر کے اتنے اہمیت دینے اور سب کے بے جا لاڈ پیار نے اُسے کافی حد تم مغرور بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
شہیر کو اُس کا گھمنڈ اُس کی خود سری بھی اُس کی ادا ہی لگتی تھی۔۔۔۔و اُس کے نخرے اٹھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم بنا کہے اُس کے جذبات سے آگاہ تھی اس لیے اس کے بزنس جوائن کرتے ہی اُنہوں نے شادی کی بات کردی۔۔۔۔۔سب ہی اس رشتے سے خوش تھے اور شہیر کی خوشی کا تو اندازہ لگا پانا مشکل تھا
عائزہ کو اس بات پر حیرانی ہوئی تھی اور اُس نے اختلاف بھی کیا تھا کے وہ فلھال آگے پڑھنے اور کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔۔۔۔
لیکِن شہیر نے اُس سے وعدہ کیا کے وہ شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہے وہ ہمیشہ اُس کا ساتھ دیگا جس پر وہ بے دلی سے راضی ہو گئی۔۔۔۔۔۔
اُس کے چھبیسویں جنم دن پر اُس کی شادی کا فنکشن تھا اور یہ اُس کی زندگی کا بہترین تحفہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
عائزہ کی آمد نے اُس کی ذندگی کو خوشیوں سے بھر دیا تھا۔۔۔دن اور رات بے حد حسین ہو گئے تھے۔۔اُس نے عائزہ پر اپنی محبتوں کی بارش کر دی تھی ہر لمحے میں محبت بھر کر اُسے حسین بنا دیا تھا
عائزہ کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اتنی محبت پا کر خود کو خوش قسمت جانتی لیکِن عائزہ کی نظر میں وہ تھی ہی اتنی خاص کے اُس کے لیے انسان کچھ بھی کر جائے۔۔۔۔
شادی کے بعد اُس کی ہر فرمائش ہر خواہش شہیر اپنا مقصد سمجھ کے مکمل کرتا تھا۔۔۔۔اُس کے نخروں کو سر پر اٹھائے گھومتا تھا
شادی کے آٹھ مہینے بے حد خوش نما گزرے تھے لیکن پھر اچانک سے عائزہ کا رویہ بدلنے لگا۔۔۔۔۔وہ اُس کی حد سے زیادہ محبت سے بیزار ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
پہلے سے اُسے اپنی مرضی کرنے کی اور اپنے حساب سے جینے کی عادت تھی اور شہیر نے اُس پر کبھی کوئی روک نہیں لگائی تھی لیکن وہ ہر وقت اُسے اپنے آپ میں الجھائے رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کا دھیان اپنی طرف رکھنا چاہتا تھا۔۔ کوشش کرتا تھا کے وہ بھی اُسے اتنی ہی اہمیت دے۔۔۔اتنی ہی محبت کرے جتنی وہ کرتا ہے۔۔۔۔
اس بات پر وہ اکثر بگڑ جاتی تھی۔۔۔۔
اُس کی کالج میں ایک ڈائریکٹر کے بیٹے سے دوستی ہو گئی تھی جس نے اُسے ماڈلنگ کے خواب دکھانا شروع کر دیے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے بغیر شہیر کی مرضی جانے ہی فیصلہ کر لیا تھا کے وہ ماڈلنگ کریگی
شہیر کو پہلی دفعہ اس کی کسی بات سے اختلاف ہوا تھا اُس نے ہر طرح سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی ۔۔۔اُس سے دور ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔اُس سے ناراض رہنے لگی تو وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر حامی بھر گیا۔۔۔۔۔۔
گھر میں سب ہی یہاں تک کہ وحیدہ بیگم بھی اپنی بیٹی کے فیصلے سے سخت ناراض تھیں۔۔۔۔۔۔اُس کے ساتھ صرف شہیر تھا۔۔۔۔۔۔اور وہ ماڈلنگ کے شوق کے چکر میں اُس کے دل کو بہت بری طرح چوٹ پہنچا چکی تھی
وہ اُس کی ضد کے آگے جھک تو گیا تھا لیکِن اُس کے لیے یہ برداشت کر پانا نہایت مشکل تھا
اپنی بیوی کو غیر مردوں سے باتیں کرتے دیکھنا ۔۔
اُن کی سراہتی نظروں میں اپنی بیوی کا عکس دیکھنا۔۔۔۔
اُس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا لیکن وہ ضبط کر رہا تھا یہ سوچ کر کے وہ خود ہی اس سب سے تھک کر چھوڑ دے گی۔۔
اور جب شادی کے دس مہینے بعد اُسے خبر ملی کے عائزہ پریگنینٹ ہے اُس کی ساری ٹینشن ختم ہو گئی۔۔۔۔۔وہ ہر طرح سے بے فکر ہو گیا۔۔۔۔۔۔اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔۔۔۔۔وہ اس خوشی کو عائزہ سے شیئر کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی سوچ اور اُس کی بات نے شہیر کے پیروں سے زمین ہلا دی
وہ بچہ نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا کریئر بنانے کے لیے اس بچے کو ختم کردینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔شہیر کو یقین نہیں ہوا کے اُس کی محبت کا یہ صلہ مل سکتا ہے۔۔۔۔۔
پہلی دفعہ اُسے اپنی محبت پر افسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور پہلی دفعہ اُس نے عائزہ کو صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کے وہ اگر ایسا سوچے گی بھی تو وہ اُسے معاف نہیں کرےگا۔۔
لیکِن و اپنی ضد اور انا میں اتنی آگے نکل چکی تھی کے اُسے نا کسی بات کا خوف تھا نہ کچھ کھونے کا احساس۔۔۔۔۔۔شاید شہیر نے اُسے جیتنے کا عادی بنا دیا تھا اور وہ اب ہار ماننے کو تیار نہیں تھی
اُس نے دھوکے سے ابورشن کروا کر شہیر کی اُمید اور دل دونوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا
وہ یہ بات جان کر کتنے ہی گھنٹے اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا تھا۔۔۔دل اور جذبات دونوں میں درار پڑ گئی تھی۔۔۔ اگر اپنی بے انتہا پاک محبت کے بدلے اُسے یہ دغا ملی تو اُس محبت کی حیثیت کم کیسے نا ہوتی۔۔۔
اُس کے بعد سے سب بدل چُکا تھا۔۔۔۔۔اُن کا تعلق بس نام کو ہی رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔اُس کا دل خون کے آنسُو روتا تھا لیکن چہرے پر ایک شکن بھی عیاں نہیں تھی۔۔۔۔۔وہ کھو چکا تھا۔۔۔کِسی اندھیرے میں گم ہو چکا تھا اور عائزہ اُسے اُس کے حال پر چھوڑ کر اپنے خوابوں کو پرواز دینے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔۔۔
ایک کمرے میں رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھتے تھے۔۔۔۔۔
عائزہ پر نا اُس کے بدلنے کا کوئی اثر ہوا تھا نہ اُس کی لا تعلقی کی کوئی پرواہ تھی۔۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم بھی اپنے بیٹے کو بکھرتے دیکھ پریشان رہتی تھی
دن رات خدا سے دونوں کی خوشیو ں کی دعا کرتی تھی۔
شہیر سے دور ہوتے ہوتے ڈائریکٹر کے بیٹے سے عائزہ کے تعلقات مزید گہرے ہو گئے تھے اتنے کے اُس نے شہیر سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔۔۔
گھر میں سب حیران پریشان ساکت تھے لیکِن و اُس وقت زرا بھی حیران نہیں تھا اُس کے لائے گئے کاغذات پر خاموشی سے سائن کرکے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔
شادی کے ڈیڑھ سال میں ہی وہ تعلق ٹوٹ گیا جس سے اُس نے اپنی سانسیں جوڑ لیں تھی۔۔
وہ اُس سے الگ تو ہو گیا لیکن اُس کی محبت اپنے دل سے الگ نہیں کر پایا۔۔۔۔۔۔بس وہ درد میں بدل گئی
اُس گھر میں اپنے کمرے میں ہر جگہ اُسے عائزہ کی پرچھائی نظر آتی تھی
وہ گھر سے باہر ہی رہنے لگا تھا اور اس کے لیے بہانے کے طور پر اُس نے دلّی میں اپنے بزنس کی برانچ شروع کی تھی
رئیسہ بیگم اُس سے شکایت کرتی تھی اُسے سمجھاتی تھیں اور پھر اُس کی سچویشن سمجھ کر خاموش رہ جاتی تھیں۔۔۔۔
وحیدہ بیگم اپنی بیٹی کی وجہ سے اُس کے اپنے بھائی بھابھی کے آگے شرمند تھی۔۔۔۔۔۔اُنہیں اپنی بیٹی سے نفرت ہو چکی تھی اور اُنہوں نے اُس سے قطع تعلق کر لیا تھا
عائزہ نے کچھ ہی وقت بعد شفیع اختر سے شادی کر لی تھی اس نیوز پر سب گھر والوں نے عائزہ پر افسوس کیا تھا لیکن شہیر نے کوئی ریکشن نہیں دیا تھا جیسے اُسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
چار سال گزر چکے تھے عائزہ کو اُس کی زندگی سے گئے لیکن اُس کے زخم اب بھی اتنے ہی تازہ تھے۔۔۔۔
دل آج بھی محبت کے سوگ منا رہا تھا۔۔۔