قسط 1 اور 2
وہ جلدی جلدی ریستوران سے نکلا تھا دروازے سے باہر نکلتے ہی اک لڑکی سے ٹکراگیا وہ گرتے گرتے بچ گئ البتہ شاپنگ بیگ زمین
پر بکھر گئے
” سٹوپڈ! اندھے ہو کیا دیکھ کر نہی چل سکتے “
.”اے– مائنڈ یور لینگویج مجھے کوئ شوق نہیں ہے تم سے ٹکرانےکا تمہیں بھی دیکھ کر چلنا چاہئے”
ساحر خان اور کسی کی بد کلامی سن لے
عیشا زمین پر بکھرے سامان کا جائزہ لے رہی تھی اس کی بات پر بھڑک کر اسے دیکہا
“ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری دیکہتے نہیں تم نے میرا سامان توڑ دیا”
“اوکے یہ لو اور نکلو یہاں سے”
ساحر والٹ سے سارے نوٹ نکال ک اس کی اور بڑھاے
ہا………………….ہاؤ ڈیر یو تم نے کیا مجھے بہکاری سمجھ رکھا ہے. اے مسٹر اپنی دولت کا رعب”
” اپنے پاس رکھو اور چپ چاپ یہ سارا سامان سمیٹو سمجہے
انگلی کے دکہاتے ہوے وہ رعب سے بولی
“جانتی ہو کس سےبات کر رہی ہو”
” ہاں ایک اندھے سے”
” دیکھو تم نہیں جانتی میں کون ہوں”
میں کچھ جاننا بھی نہیں چاہتی جلدی سے یہ سب اٹھاؤ ورنہ میں شور مچا کر سب کو جمع”
” کرلونگی
ساحر نے اسے بغور دیکہا
“کتنی بد ذبان لڈکی ہے”
اس نے دل میں سوچااور اپنے ملازم کو فون لگایا وہ جلدی میں تھا اسلیے بحث کو ختم کرنا چاہتا تھا ورنہ وہ بھی کسی سے ہار
ماننے والا نہیں تھا اگلے پانچ منٹ میں تین باوردی ملازم وہاں پہنچے اور ساحر کے آرڈر مطابق سارا سامان اٹھا کر عیشا کی گاڑی
میں رکھا
“دیکھ لونگا تمہیں”
.
عیشا کے قریب سے گزرتے ہوے اسے گھور کر وارنگ کے انداز میں بولا
!******************************
پھر کیا ہوا”
الیشا نےتجسس سے پوچھا
پہر کیا—- میں نے کہ دیا چپ چاپ یہ سارا سامان سمیٹو ورنہ میں شور مچا کر سب کو جمع کرلونگی—- خود تو اٹھانے سے رہا اپنے ملازموں کو فون کر کے بلایا اور پتا ہے جاتے جاتے کہنے لگا—— میں تمہیں دیکھ لونگا “
اس کے منہ بنانے پر الیشا ہنس دی
تمہیں کہا تھا یے سب لانے کی ضرورت نہیں ہیں خواہ مخواہ الجھن ہو گئ وہ کوی گنڈہ بدمعاش ہوا تو”
افوہ آپی نگیٹیو مت سوچا کریں انجواے کیجےشادی ایک بار ہی ہوتی ہے”
پھر وہ سامان نکال کر الیشا کو دیکھاتی رہی
اچھا آپی میں ذرا زوبی سے مل کر اتی ہوں “
ابھی کیوں صبح چلی جانا نا چلو کھانا کھاتے ہیں”
افوہ اپی مجھے کونسا سو میل جانا ہے ابھی آئ”
کہ کر وہ بنا کچھ سنے نکل گئ اور الیشا بیگس الماری میں رکھنے لگی
عیشا کے والد یوسف علی اسکول ماسٹر تھے ان کے تین اولاد تھی سب سے بڑا بیٹا ریحان اس سے چھوٹی الیشا اور سب سے چھوٹی عیشا تینوں انھیں بے حد عزیز تھے لیکن عیشا سب کی لاڈلی تھی الیشا اور عیشا کے درمیان پانچ سال کا فاصلہ تھا وہ سب سے چھوٹی ہونے کے علاوہ بچپن سے ہی بےحد باتونی تیز دماغ اور شرارتی تھی جو بھی اسکی میٹھی باتیں سننتا بے اختیار اسے پیار اجاتا خاص طور پر یوسف علی کی اس میں جان تھی وہ اسی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو خوب سراہتے امی اس سے اکثر زیادہ باتیں کرنے پر اسےڈپٹ دیتی مگر ابوّ فوراً اس کی حمایت کے لئے تیار رہتے ریحان اور الیشا بھی اس پر جان چھڑکتےتھے عیشا بی.اے فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی الیشا کا رشتہ دو سال پہلے ہی اپنے خالہ زاد امران کے ساتھ طے تھا ریحان کی جاب ملتے ہی اسکی رضاسے ابو نے امران کی بہن فائزہ کا رشتہ مانگ لیا جسے ُخالہ نے بخوشی قبول کر لیا عیشا بے حد خوش تھی یہ دونوں کزنس اسے بہت پسند تھے اپنے ساتھ ساتھ وہ سب کے لئے زور شور سے شاپنگ میں مصروف تھی
وہ ابھی اپنی دوست زوبی جو پڑوس میں ہی رہتی اسے سارے دن کا احوال سنا کر لوٹی تو ڈاینگ ٹیبل پر سب کو اپنا منتظر پایا
لیجےآگئ”
ریحان نے اسے دیکھتے ہی سب کو اطلاع دی
اسللام و علیکم—- کھانا نہیں کھایا اپ لوگوں نے اب تک؟”
ابو کی پاس والی اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئ
ہاں اپ تو اس گھر میں نئ آئ ہے—– آپ کو تو جیسے کچھ پتا ہی نہیں—– جب تک آپ موجود نا ہو کوئ کھانا نہیں کھاتا”
آپی آپ اتنا غصہ کیوں ہو رہی ہے —– میں تو نہیں کہتی نا کہ میرا انتظار کرے”
پلیٹ میں سبزی ڈالتے ہوے وہ بے نیازی سے بولی
لیکن جانتی توہو نا یہاں سب خوامخواہ تمہیں کتنا بھاؤ دیتے ہے”
الیشامنہ بناتے ہوے بولی
آپی آپ مجھ سے اتنا جلتی کیوں ہے اب اگر سب مجھے آپ سے ذیادہ پیار کرتے ہے تو اس میں میری کیا غلطی ہے”
میں نہیں جلتی ولتی کسی سے مجھے کیا دیکھنا کل سے میں تو بلکل بہی انتظار نہیں کرونگی تمہار
ایک بات بتاؤ آپ کو—— سب میرے بنا کھانا کھا سکتے ہے مگر اپ کبہی نہیں کھائنگی”
اچھا!”
سب ہی اس کی بات پر ہنس دیے واقعی الیشا کے غصہ میں بہی اس کے لیے پیار ہی پیار ہوتا تھا
لیکن عادت تو ڈالنی پڑے گی سب کو کل جب تیری شادی ہوگی تو کیا کرینگے”
امی ہمیشہ کی طرح سنجیدگی سے کہنے لگی
کچھ نہیں کیونکہ میں شادی ہی نہیں کرنے والی ہوں”
سب یہی کہتے ہے لیکن کہنے سے کچھ نہیں ہوتا شادی تو ہونی ہی ہےایک دن”
ائے دن امی کو یہی فکر تھی
جی نہیں وہ دن نہیں آئگا. ابو آپ کہ دیں امی سے میں کبھی شادی نہیں کرونگی اسلیے بار بار مجھے پریشان نا کرے “
پلیٹ میں چمچ پٹخ کر وہ اپنے کمرے میں اگئ
امی اسے پسند نہیں تو آپ کیوں شادی کا ذکر کرتی ہے”
ریحان نے بہن کی حمایت کی
الیشا کی شادی کے بعداس کے رشتے انے شروع ہو جاینگے اگر ایسے ہی ضد کرتی رہی تو کیسے چلیگا”
وہ فکرمندی سے بولی
امی ابھی تو وہ صرف اٹھارہ سال کی ہے– آپ تین چار سال اس کی شادی کے بارے میں سوچو بھی مت— اسے پڑھنے دو ارام سے”
لیکن بیٹا اگر رشتہ اچھا ہو تو سوچنا پڑتا ہے”
ریحان صحیح کہ رہا ہے اتنی جلدی مت کریں عمر کے علاوہ اسے زہنی طور پر بہی تیار ہونا ضروری ہے.”
وہ خاموش ہو گئیں
امی آپ فکر نا کریں”
خاموش دیکھ کر ریحان نے انہیں تسللی دی تو وہ دھیرے سے مسکرادی
*-*-*-*-**-*-*-*-*-*-*-*–*-
سر— کافی
ملازم نے ڈرتےڈرتے اسے کافی پیش کی کیوں کہ جب وہ غصےّ میں ہوتا تھا تو کسی کی اسکے سامنے جانے کی ہممت نہیں ہوتی تھی
ایڈیٹ اتنی دیر لگتی ہے کافی لانے میں
حسب توقع اس نے غصےّ سے کہا
سوری سر
ملازم ٹرے لے کر نکل گیا
کیا ہوا— کیوں اتنا غصہ کر رہے ہو
دادی اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئ
پہلے یہ بتایے اپ اج پارک نہیں گئ
نہیں آج من نہیں کر رہا
ساحر نے انہیں مصنوعی غصے سے دیکھا
نینا نینا
اس نے دادی کی خاص ملازمہ کو بلایا
جی—-جی سر
تم دادی کو پارک کیوں نہیں لے گئ
سر— وہ—– دادی نے منع کردیا
تم سے کہا تھا نا اگر یہ منع کرے تو مجھے بتانا
سوری سر —–دادی نے کہا تھا کہ میں آپ کو نا بتاؤ
وہ سر جھکا کر معزرت کرنے لگی
تمہیں دادو کے انسٹرکشنس ماننے کی کوئ ضرورت نہیں—- انڈرسٹینڈ.
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
اٹھیے—–جلدی چلیے
وہ دادی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کھڑا ہوا
اج رہنے دو نا بیٹا
دادی لاڈ سے بولی
کیوں اج میں کیا خاص ہے چلیے
وہ کہاں ماننے والا تہا انہیں ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا پچھلی سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبہال لی ساتھ ہی نینا کو بیٹھنے کو کہا
جب سے دادی کو ہارٹ اٹیک ہوا تہا وہ بہت محتاط ہو گیا تہا ملازموں کی پوری فوج ہونے کے باوجود وہ ان کے ہر پل کی خبر رکھتا تہا دوائ ہو یا کہانا زرا سی کوتاہی ہو جاتی تو ملازموں کی شامت اجاتی
بلکل ہٹلر لگتے ہو کبھی کبھی
دادی نے ناراضگی سے کہا
اپکو تو خیال نہیں اپنی صحت کا اسلیے مجھے ہٹلر بننا پڑتا ہے
ایک دن نہ جاؤ تو کیا ہوجاےگا
روز بلا ناغہ جاونگے تو کیا ہو جاینگا
وہ انہی انداز بولا
وہ اپنی دادی کو لےکر بہت حسساس تھا سات سال کی عمر میں اس نے اپنے والدین کو کہودیا تہا تب سے دادی ہی اس کے لیے سب کچھ تھی اور اسے اب ان کے کھونے کے خیال سے ہی خوف اتا تھا
دادی کو پارک کے باہر ڈراپ کرکے اس نے نینا کو چند ہدایات دی اور ابھی کچھ دوری پر ہی پہنچا تہا کہ اچانک گاڑی کے سامنے ایک کتا آگیا اسنے ایکدم سے بریک لگای جس کی وجہ پیچھے والی گاڑی اس سے بری طرح ٹکرا گئ وہ گھبرا کر باہر نکلا
یو——آر یو میڈ—- دماغ خراب ہے کیا تمہارا—— گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیو چلا رہے ہو
عیشا اسے دیکھ کر مزید جہلا گئ
ون منٹ—– تمیز سے بات کرو میں نے کوئی جان بوجھ کر نہیں کیا
پھر وہی——-تم ہمیشہ مجھے ہی کیو ہٹ کرتے ہو—- – دوسرا کوئ نظر نہیں اتا کیا تمہیں
سامنے ڈاگ اگیا تھا—- مجھے بریک لگانی پڑی—- مجھے کیا پتا تھا کہ پیچھے تمہاری گاڑی ہے
وہ بمشکل ضبط کر رہا تھا
دیکھو– کیا حال کردیا میری گاڑی کا
اسنے ٹوٹے ہوے ہیڈ لائٹ کو بغور دیکھتے ہوے کہا ساحر نے والٹ سے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاے
یے لو
عیشا نے اس کے ہاتھ کی جانب دیکھ کر غصے سے مٹھیاّں بھینچ لی
پاگل ادمی!— تمہیں شرم نہیں آتی غلطیاں کرتے ہو اور پیسے دکہاتے ہو——- مجھے میری گاڑی ٹھیک کر کے دو ابھی
میں کوئ مکینک نہیں ہوں—— اڈریس دے دو گاڑی پہنچادونگا
واہ !——-اپنا اڑریس دےدوں تاکہ تم مجہے گھر آکر پریشان کرو—– غنڑے کہیں کے
تم خود کو سمجھتی کیا ہو— کب سے بکواس کئے جارہی ہو– لڑکی ہو اسلیے لحاظ کر رہا ہوں ورنہ—–
بکواس بند کرو—– ایک تو چوری اوپرسے—–
ون منٹ
اسے ہاتھ دکھاتے ہوئے بیچ میں ٹوک کر وہ اگے بڑھا اور ایک زور کی لات مار کر دوسری ہیڈ لائٹ بھی توڈ دی
ہاو——یہ—- یہ کیا کیا تم نے
اسے کہتے ہیں جان بوجھ کر کرنا——- اب تک بنا غلطی کے سن رہا تھا اب تم جو چاہو بول سکتی ہو
اب کے وہ ارام سے بولا
پاگل سٹوپڈ مین—— اسے ٹھیک کرو ورنہ جیل جاونگے
اب نا سوری بولونگا نا کچھ ٹھیک کرونگا—- گو ٹو ہیل
وہ گاڑی میں بیٹھ گیا عیشا اسے روکتی رہ گئ اور وہ بڑی آسانی سے وہاں سے نکل گیا
اللہ کرے تمہاری گاڑی پھاڑ سے گرجائے— دوبارہ ملے نا تو سمجھ لینا تم تو گئے
وہ دانت پیستی گاڑی میں بیٹھ گئ
****************************
سن میرے ہمسفر
سنایا خان
قسط 2
اسلام و علیکم دادای جان
وہ گھاس پر دو زانو بیٹھ گئ
وعلیکم اسسلام جان
کیسے ہیں آپ؟
پہلے یہ بتاؤ کل تم کیوں نہیں آئ؟
آرہی تہی دادی جان لیکن راستے میں چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا
ایکسیڈنٹ—- خیر تو ہے نا بیٹا؟
انہونے فکرمندی سے پوچھا
جی ہاں—- بس کچھ کم عقل لوگ ہوتے ہے گاڑی چلانی اتی نہیں شو آف کرنے کے چکر میں لوگوں کو پریشان کرتے ہے——– اگر وہ آدمی دوبارہ مجہے دکھ گیا نا تو بس
عیشا کا معمول تھا روزانہ فجر پڑھ کر تھوڈی دیر تلاوت کرتی اور گھر کے پاس والے پارک میں چہل قدمی کے لیے آجاتی چند دنوں میں ہی اس کی دادی کے ساتھ اچھی خاصی جان پہچان ہو گئ تھی اس کی وجہ اس کا باتونی مزاج تھا دادی کو یہ چلبلی لڑکی اپنی اپنی سی لگتی تھی
خیر دادی جان یہ بتایے آپ نے اس ہفتے چیک اپ کروایا ڈاکٹر سے؟
ہاں دو دن پہلے ہی کروایا ہے
کیا کہا پہر- سب ٹھیک ہے نا؟
وہ واقعی اُن کے لیے فکر کرتی تھی
ہاں کہ تو رہا تھا ٹھیک ہے– آگے اللہ مالک ہے
انھونے مسکراتے ہوئے کہا
فکر مت کیجیے دادی جان انشاء اللہ اپ بلکل ٹھیک ہوجائینگے
اس نے ان کے گلے میں بانہین ڈالتے ہوے پیار سے کہا
مجھے اپنی فکر کب ہے بیٹا مجھے تو ساحر کی فکر ہے—زرا سا بیمار ہوجاوں تو پریشان ہو جاتا ہے میرے بعد بھلا ہے ہی کون جو اس کا خیال رکھے—– ماں باپ بچپن میں ہی کھو چکا ہے— بس میں تو اتنا چاہتی ہوں اپنے جیتے جی اچھی سی لڑکی دیکھ کر اس کی شادی کردوں تاکہ سکون سے مر سکوں
ایسا کیوں کہ رہے ہو دادی— ابھی تو اپکو بہت دن جینا ہے —–اور رہی شادی کی بات تو سوچنا کیسا کر دیجیے نا شادی
عیشا نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوے کہا
بس ایک یہی بات تو وہ مانتا نہیں یا تو نظر انداز کردیتا ہے یا غصہ ہو جاتا ہے
ایسے کیسے نہیں مانتے آپ ان کی دادی ہے. —- لگایے کان کے نیچے دو پھر دیکہتے ہیں کیسے غصہ کرتے ہیں
عیشا کے انداز پر دادی دیر تک ہنستی رہی
ہو سکتا ہے ان کی نظر میں کوئ لڑکی ہو اسلیے ٹال رہے ہیں؟
وہ کچھ دیر سوچ کر بولی
ارے نہیں نہیں ایسا نہیں ہے— میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں وہ چھپانے والوں میں سے نہیں—– اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے مجھے پتا چلنا تھا—- بس کہتا ہے اتنی جلدی شادی کرنا نہیں چاہتا
تبھی ان کا فون رنگ کرنے لگا اور سکرین پر ساحر کا نام روشن ہوا
ہیلو
دادو اپ اب تک آئ کیوں نہیں—- نو بجنے والے ہیں
عیشا سے باتیں کر رہی تھی وقت کا پتا ہی نہیں چلا— بس ارہی ہوں تھوڑی دیر میں
انھونے عیشا کی جانب مسکرا کر دیکھا
ٹھیک ہے جلدی آئے مجھے افس کے لئے نکلنا ہے
کال بند کرکے وہ دوبارہ عیشا کی جانب متوجہ ہوئ
اچھا بیٹا اب میں چلتی ہوں کل ملاقات ہوگی
انھونے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
دادی جان میں تو آ نہیں پاونگی—- شادی میں چند دن ہی رہ گے ہے ایسے میں میرا آنا پاسیبل نہیں ہے—اور ہاں اپ شادی پر ضرور آئینگا
تمہارے والد گھر آے تھے دعوت دینے میں تو ضرور آؤنگی ساحر سے بہی کہونگی انشاء اللہ.
عیشا نے اُنھیں سہارا دیکر کھڑا کیا
جی اللہ حافظ
اُن کے گلے ملتے بولی
اللہ حافظ
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعاؤں سے نوازا اور ملازمہ کو اواز دی اور گاڑی میں بیٹھ گئ
گھر پہنچتے ہی ساحر کو ڈائنگ ٹیبل پر اپنا منتظر پایا
حد کرتی ہے اپ بھی دادو کب سے انتظار کر رہا ہوں میں
وہ آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھ گئں
بتایا تو سہی عیشا کے ساتھ تھی–_- اور ہاں اگلے اتوار کو اس کی بہن کی شادی ہے تمہیں بہی چلنا ہوگا
انہونے گویا حکم سنایا
جی
اس نے جوس کا گلاس رکھتے ہوے سکون سے کہا
ہیں؟——–
انہوں نے اسے حیرت سے دیکھا کیونکہ انہیں ساحر کے اتنی جلدی مان جانے کی بلکل توقع نہیں تھی
جسٹ چل دادو _—-جس عیشا نے آپ کو انوائیٹ کیا ہے وہ عمران کی کزن ہے اور الیشا بھابھی کی بہن اور عمران کی شادی تو مس کرونگا نہیں
تم جانتے ہو اُسے
اُنھیں حیرت ہوئی
کارڈ پڑھا ہے دادو اس سے پتا چلا جانتا نہیں ہوں
اس نے ان کی حیرت سیکنڈ میں دور کردی دادی اس کی اور عمران کی دوستی سے بخوبی واقف تھی
اچھا.——_–
دیکھا اب تو امران کی بھی شادی ہورہی ہے ——-بس ایک تم ہی ہو میری مانو تو تم بہی ——-
دادو پلیز- پھر سے وہی ٹاپک لیکر مت بیٹھ جانا
اس نے ان کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی
آخر تجھے شادی کے نام سے اتنی چڑ کیوں ہے؟
مجھے کوئ چڑ نہیں ہے دادو بس اتنی جلدی نہیں
وہ بے نیازی دکھاتا رہا
ماشاء اللہ ستائیس کے ہورہے ہو اگلے ماہ اور جلدی لگ رہا ہے تمہیں ———کوئ لڑکی پسند ہو تو مجھے بتاؤ میں بات اگے بڑھاتی ہوں؟
میری پیاری دادو اطمینان رکھیے مجھے کوئ لڑکی پسند وسند نہیں ہے
وہ مسکراتے ہوئے بولا
میری نظر میں ایک لڑکی ہے
انھوں نے کچھ سوچتے ہوے کہا
کون؟
ساحر حیران ہوا
ہے کوئ ملے گا اس سے
ہر گز نہیں —–اگلے چار پانچ سال انتظار کیجیے شاید مل لونگا
اس نے ایک دم سکون سے کہا
تجھے اس طرح مجھے پریشان کرکے کیا ملینگا؟
آپ کو میری آزادی چھین کر کیا ملے گا؟
اس نے بلکل ان ہی کے انداز میں خفگی سے کہا
ہاں تجھے تو بس اپنی آزادی کا خیال ہے میری خواہش کا کوئ خیال نہیں
دادو نو اموشنل ڈرامہ پلیز میں چلتا ہوں لیٹ ہورہا ہے اور ہاں دوائ لینا مت بھولیے گا خدا حافظ
وہ جلدی سے جان چھڑا کر نکل گیا اور دادی نے ایک گہری سانس لیکر اسے دیکھا
*-*-*-*-*-******************
سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا نزدیک دور کے سب ہی رشتہ دار موجود تھےاج الیشا کی مہندی کی رسم ہوئی تھی صبح سے وہ عورتوں کی بھیڑ میں گھری بیٹھی تھی تو اب فارغ ہوکر روم میں گئی تھی پہلے ریحان اور فائزہ کی شادی تھی اگلے دن اُن کا ولیمہ اور امران الیشا کی شادی تھی
عیشا بھی زوبی کے ساتھ زبردستی ریحان کو مہندی لگانے آگئی اس نے لاکھ منع کیا لیکن وہ بھی عیشا تھی a
عیشو میں کوئ لڑکی نہیں ہوں مجھے اتنی مہندی مت لگاؤ
ریحان نے جھنجلاتے ہوے کہا ہے
ریحان بھائ لگالیجے ورنہ پہلے ہی دن فائزہ بھابھی کی مار کھانی پڑےگی
زوبی نے ریحان کا دوسرا ہاتھ سجانا شروع کر دیا
میں مار کھانے والوں میں سے نہیں ہوں زوبی—- اور اپکی بھابھی کی مجال ہے جو نظر اٹھا کر بھی دیکھ لے
بھائ جان کیوں پھینک رہے ہیں دن میں دس بار تو سوری کہنا پڑتا ہے —–ففٹی پرسینٹ میسیج سوری کے ہی ہوتے ہے اوپر سے.……
عیشو کیوں میری انسلٹ کر رہی ہو لوگوں کے سامنے
ریحان نے اس کی بات کاٹی
ون منٹ.— بھائی جان آپ دونوں کے بیچ پہلے سے بات چیت کا سلسلہ تھا یا منگنی کے بعد سے ہے
زوبی تشویش ہوئی
میڈم. بات چیت سے کہیں زیادہ تھا دونوں کے بیچ —-ان شورٹ دھس اس دا ارینجڈ لو میریج ——-اور اس کہانی کی اہم کردار ہے دا ون این اونلی عیشا یوسف
جواب عیشا سے ملا
وہ کیسے
وہ مہندی روک کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
میں نے ہی تو ابو کو ان دونوں کی شادی کا سجیشن دیا تھا ورنہ ان میں اتنی ہمت کہاں
عیشو بیٹا– لگے ہاتھوں یہ بھی بتادو اس کام کے لیے مجھے کتنی بڑی رشوت دینی پڑی
ریحان اس کے اترانے پر تپ کر بولا
کیا مانگا تھا اس نے
زوبی نے تشویش سے پوچھا
ابو سے گاڑی چلانے کی اجازت——- اور اسکے لیے مجہے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے یہ میں ہی جانتا ہوں—– بس مار کھانی باقی تھی——– اس پر میڑم پچھلے ہفتے ایکسیڈنٹ کر آئ اس کا بہی سارا بھگتان ابو نے مجھے ہی ڈانٹ کر پورا کیا
زوبی اور عیشا اس کی حالت پر دیر تک ہنستے رہے
مے آی کم ان
اسی وقت ریحان کے دوست جاوید نے دستک دی
ارے جاوید آؤنا یار
کیا بات ہے بڑی محفل سجا رکھی
اس نے عیشا کے خوبصورت سراپے کو بغور دیکھتے ہوے کہا
کچھ نہیں بس تھوڈا ہنسی مزاق ہورہا تھا تم بتاؤ صبح سے کہاں غائب تھے
اب دونوں باتوں میں لگ گئے عیشا نے بار بار اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کی لیکن نظر اٹھا کر دیکھا نہیں
مہندی پوری ہوگی تو عیشا اور زوبی جانے کے لیے اٹھ گئ
عیشو چاے بھجوادینا
جی بھائ جان
اجاوید اس کے باہر نکل جانے تک اسے ہی دیکہتا رہا
وہ کچن میں چاے کا کہ کر زوبی کو لیے ڈراینگ روم میں اگئ اور زوبی اس کے ہاتھوں میں خوبصورت مہندی لگانے لگی
عیشا تم نے انکل سے ریحان بہائ اور فائزہ کے متعلق بات کیسے کی
زوبی کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی تھی
میں نے ابو سے کہا ابو آپی کی شادی ہوجاینگی تو گھر بہت سونا ہو جاینگا اسلیے بہائ کی بہی شادی ساتھ ہی کردیں—- اور فائزہ آپی کا اپشن سامنے رکھ دیا سمپل
رئیلی عیشا تم بہت لکی ہو—— تمہارے گھر میں سب کتنے فرینڈلی ہے ایک دوسرے سے
دونوں باتیں کرتی رہی تب ہی جاوید اگیا
ارے جاوید بھای اپ جارہے ہیں
اس نے اخلاقاً پوچھ لیا
کتنی بار کہا ہے عیشا مجہے بھائ مت کہا کرو انسلٹ لگتی ہے یار
وہ یہ بات کہیں بار کہہ چکا تھا عیشا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
مسٹر جاوید بہائ کے دوست کو بہائ ہی کہا جاتا ہے
اب کے زوبی بولی
لیکن مس زوبی میں بہائ ٹایپ نہیں لگتا نا
تو اپ کیا چاہتے یہ اپ کو کیا کہ کر بلاے
زوبی نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا
بلانے کی کیا ضرورت بس اشارہ کردے بندہ حاضر ہوجاینگا
وہ عیشا کی جانب دیکھتے ہوے دھیمے سے بولا
جی
عیشا نے نا سمجھی سے پوچھا
جسٹ جوکنگ یار اچھا چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی باے
وہ باہر نکل گیا اور وہ دونوں دوبارہ مہندی کی جانب متوجہ ہو گئ
عیشا مجھے یہ آدمی ٹھیک نہیں لگتا اس کی باتیں اس کا انداز زرا مشکوک ہے
سی بی ای کی ہیڑ آفیسر جی ایسا کچھ نہیں ہے میں انہیں دو سال سے بہائ کے ساتھ دیکھ رہی ہوں وہ اچھے انسان ہے بس زرا مزاقیہ ہے
عیشا بی بی اپ ان باتوں کے معنی نہیں جانتی سوری مگر اپ اس معاملے میں زرا بدھو ہے
اوکے دادی ماں جیسا اپ کہے بس زرا دھیان سے مہندی لگاو اگر زرا بھی خراب ہوی تو میں نے تمہارا چہرا خراب کر دینا ہے افٹر ال میرے بہائ جان اور آپی دونوں کی شادی ہے دوبارہ کہاں موقع ملےگا
اس نے جان چھڑائی اتنا تو وہ بھی سمجھتی تھی کے جاوید کی باتیں بے معنی نہیں ہے
***********************-*-**
وسیع و عریض لان مہمانوں سے بہرا تہا ریحان اور فائزہ کا ولیمہ اور امران الیشا کا نکاح تھا رات کا فنکشن تھا چاروں اور روشنی کہیں ہنسی کے ہنگامے تو کہیں سماجی مسائل پر تبصرہ کہیں چوڑی پایل کی آوازیں تو کہیں دوستوں کی چہ میگویاں
عورتوں اور مردوں کا علاہدہ انتظام تھا سٹیج پر ریحان اور عمران مہمانوں سے مبارکباد وصول کر رہے تہے ساحر نے بہی جاوید کے ہمراہ آگے بڑھ کر ریحان اور امران کو مبارکباد دی دادی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس وجہ سے وہ ریحان کی شادی پر نہیں آ پایا تھا نا امران کے باقی فنکشن اٹینڈ کر پایا تھا آج دادی کی طبیعت کافی بہتر تھی اسلئے وہ آگیا تھا پہلے وہ ریحان سے ہی ملا
تھینک یو سو مچ فور کمنگ مسٹر ساحر
ریحان اور وہ خوشدلی سے گلے ملے
اگر میں نہیں اتا تو عمران نے میری شادی نہیں ہونے دینا تھی
عمران نے اس کے بازو پر ایک ہلکا سا مکاّ جڑا
وہ مصنوعی غصے سے اسے دیکھتے ہوے بازو سہلانے لگا
محفل اختتام پر تہی مہمان تقریبا جا چکے تھے وہ چاروں ایک کونے میں آکر بیٹھ گئے
جاوید سے اپکی کافی تعریف سنی تھی اپ سے مل کر سب کم معلوم ہوتی ہے
ڈارک بلیو سوٹ میں کلین شیو اور اس کا مخصوص پرفیوم اس کی شخصیت کا واضح ثبوت تھا وہ پیر پر پیر جمایے آرام سے بیٹھ گیا
ریحان اپ خواہ مخواہ مجھے چڑھارہے ہے جبکہ میں تو کافی مغرور انا پرست انفیکٹ غنڈہ مشہور ہوں
اسے عیشا کے کہے جملے یاد آگے
نو مسٹر ساحر—- ایکچولی مجہے شروع سے ہی اس بزنس میں کافی انٹریس ہے اور اس حوالے سے ہر نیوز اور ارٹیکل میں اپ ہی ٹاپ پر ہے—– یو آر دا گریٹ پرسن
وہ ساحر کا متعارف نظر ارہا تھا
شکریہ— یہ سب تو میرے دادی کی دعاوں کا اثر ہے
سگریٹ
ریحان نے سگریٹ کا پیکیٹ آگے کرتے ہوے اسے آفر کیا
نو تھینکس میں سگریٹ نہیں پیتا
ریحان نے بے یقینی سے اسے دیکھا
ریحان یہ جناب زرا مختلف قسم کی مخلوق ہے ہائ سوسایٹی کے ماحول میں رہ کر بہی سگریٹ شراب اور لڑکیاں تینوں سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں
امران نے خلاصہ کیا اس سے بہتر ساحر کو کوئی نہیں جانتا تھا
امران صاحب بزنس مین ہوں وہی ڈیلس کرتا ہوں جس میں فائدہ نظر آۓ
اس نے پوری سنجیدگی سے کہا
دوست سلمان خان نے کہا ہے_– ایک بار جو جاۓ جوانی پھر نا آے— ابھی وقت ہے تو مزے کرلو
جاوید کے انداز پر وہ خوبصورتی سے ہنس دیا
تمہارے مزے تمہیں ہی مبارک مجھے تو معاف کرو—– میں ان بیکار چیزوں کو اہمیت دے کر ان کاغلام نہیں بن سکتا
اس نے دونوں کان پکڑے
یو آر رایٹ ساحر آئ ایم ایگری ود یو——- واقعی یہ عادتیں وقت کے ساتھ کمزوریاں بن جاتی ہے
امران نے اس کی تائید کی
تب ہی یوسف علی وہاں آگےء
ریحان –خالد صاحب کے گھر سے کوئ نہیں ایا انہیں کارڈ تو بھجوایا تھا نا
وہ اپنے کسی دوست متعلق پوچھ رہے تھے
جی ابو میں اپکو بتانا بھول گیا وہ لوگ آؤٹ آف ٹاون ہے
اچھا
ساحر بھی اُن کی جانب متوجہ ہوا
ساحر یہ میرے ابو ہے ابو مسٹر ساحر خان
ریحان نے تعارف کروایا
اسلام و علیکم انکل
ساحر نے کھڑے ہوکر ان سے مصافہ کیا انھونے بھی خوشدلی سے جواب دیا
انہیں بھلا کون نہیں جانتا—– بیٹا اپکے والد ہماری اسکول کے ٹرسٹی تھے ایک دو بار ان سے ملاقات ہوی ہے—- بہت ہی نیک دل انسان تھے
اپنے پاپا کے زکر پر اس کی آنکھیں اداس ہوگی
نایس ٹو میٹ یو انکل
بیٹا گھر سے کوئ نہیں ایا
دراصل دادی جان آنا چاہ رہی تھی لیکن ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تہی اسلیے.
اوہ
اچھا بیٹا میں زرا——-
انھوں نے چند مہمانوں کو جاتے دیکھ کر معذرت کی
جی. انکل
وہ ان کی بات سمجھتے ہوے بولا
بیٹا کبھی وقت نکال کر گھر ضرور آنا
انشاء اللہ
اس نے دوبارہ مصافہ کیا
اوکے فرینڈز اب میں چلونگا
ارے یار اتنی بہی جلدی کیا ہے بیٹھ نا
جاوید بولا
نہیں مجھے کل صبح سات بجے کی فلایٹ سے نیویارک کے لئے نکلنا ہے اور الریڑی کافی لیٹ ہوچکا ہوں
تھینکس اگین فور کمنگ
ریحان نے اس سے ہاتھ ملایا
وہ باری باری سب سے ملا اور جلدی جلدی پارکنگ ایریا میں ایا دور سے ہی ریموٹ سے گاڑی انلوک کی موبائل کی میسج ٹون پر موبائل چیک کرتا آگے بڑھنے لگا تھا کے گفٹ پیک سنبہالتی عیشا سے ٹکرا گیا گفٹ پیک اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا وہ لڑ کھڑائی لیکن سنبھال گئی لیکن اس کی سینڈل ٹوٹ گئی
او گاڈ——نوٹ اگین—–
عیشا کو دیکھ کر اس نے پریشانی سے ماتھا پکڑ لیا
-اوہ تم——– میں کیسے بہول سکتی ہوں کہ یہ تم ہی ہونگے—- کیونکہ ساری دنیا میں ایک تم ہی تو ہو میرے واحد دشمن——یو نو وھاٹ اب تک تو مجھے شک تھا لیکن اج یقین ہوگیا کہ تم واقعی اندھے ہو—–دیکھو مجھ سے پیسے لے کر اپنی آنکھوں کا علاج کروالو اور میری جان چھوڑو
اس نے ہاتھ زور سےجوڑتے ہوے کہا ساحر سپاٹ چہرے سے اُسے دیکھتے ہوے سکون سے اس کی باتیں سنتا رہا
اب الو کی طرح گھور کیوں رہے ہو
عیشا اس کے مسلسل دیکھنے پر اور بھڑک گئی
لڑکی کچھ نہیں تو کم سے کم اس بات کا ہی لحاظ کر لیا کرو کہ میں تم سے بڑا ہوں یا تمہیں بڑوں کی عزت کرنا آتا ہی نہیں
اتا ہے لیکن تب جب وہ عزت کرنے کے لایق ہو تمہاری طرح ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے نا پڑا ہو
تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے میں تمہیں فالو کررہا ہوں یہ تو اتفاق سے ———-
اتفاق——-اتفاق ایک بار ہوتا ہے مسٹر یوں باربار نہیں اخر تم چاہتے کیا ہو کیوں بار بار مجھے پریشان کر رہے ہو
ساحر نے تاسف سے سر ہلایا
میرے پاس تم سے بحس کرنے کے لیے فالتو وقت نہیں ہے
اس نے ایک نظر پونے بارہ بجاتی گھڑی پر ڈالی اور اگے بڑھنے لگا مگر عیشا نے فوراً سامنے اکر اس کا راستہ روک دیا
تم یوں جا نہیں سکتے مسٹر یہ اٹھاؤ
اس نے ساحر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے رعب سے کہا تو وہ اسے حیرانی سے دیکھتا رہا
اگر نا اٹھاؤں تو——
وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈالتے ہوئے بولا
تو تمہارے لیے بہت برا ہوگا
اچھا—–_ٹھیک ہے جو کرنا ہے کرلو –خوش
کہ کر وہ سایڈ سے آگے بڑھنے لگا لیکن وہ دوبارہ سامنے آگئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کا راستہ روک دیا
اس بار تم نقصان کی بھرپائی کیے بنا یہاں سے جا نہیں سکتے
بھرپای کر دیتا اگر تم میں بات کرنے کی تمیز ہوتی لیکن افسوس تم اس قابل نہیں ہو
وہ اس کے ہاتھوں کے نیچے سے جھک کر نکل گیا اور آکر گاڑی میں بیٹھ گیا
عیشانے گاڑی سٹارٹ ہونے سے پہلے ہی بالوں سے ہیر پن نکال کر ٹایر کی ہوا نکال دی سائڈ مرر میں اس کی کاروائ دیکھ ساحر نے باہر اکر پہلے ٹایر کو پہر اسے دیکھا ایک گہری سانس لی اور بنا کچھ کہے فون نکال کر کال ملای اور باہر نکل ایا عیشا بہی گفٹ اٹھا کر اندر چلی گئ اگلے پندرہ منٹ میں اس کا ڑرائیور گاڑی لے آیا
گاڑی پنکچر ہے ٹھیک کرواکر لے آؤ
اسنے ڈرائیور کو چابی تھمای اور خود اکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا
پتا نہیں کس قسم کی لڑکی ہے مجال ہے جو کبھی یہ سوچ لے کہ واقعی غلطی سے کچھ ہوا ہو ——–میں اسے فالو کرونگا خود کو مس ولڈ سمجھتی ہے کیا
اس کہ نظر میں عیشا کا خوبصورت سراپا گھوما سفید دودھیا رنگت میں ہلکی گلابیاں پرکشش نقوش گھنے براؤن کلچر میں جکڑے بال اور گھنی پلکوں کے نیچے بڑی بڑی براؤن آنکھیں
اس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہے
وہ ونڑ اسکرین پر نظریں جماے مسکرادیا لیکن اگلے ہی لمحے مسکراہٹ غائب ہو گئ
میں اس کے بارے میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں
یا اللہ ہر بار اس لڑکی سے ہی کیوں سامنا کرواتے ہیں- جب دیکھو اچھی خاصی بے عزتی کردیتی ہے بندہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کے ایک تو خود کی غلطی ہے اوپر سے لڑکی ذات ہے تھپڑ کھاتے ہی خدا کو پیاری نا ہو جائے———– واقعی اتنے اتفاق اب تو مجھے بھی ڈاؤٹ ہونے لگا ہے کہ میں جان بوجھ کر اس کے پیچھے پڑا ہوں————- بس ایک بار ایک بار مجھے موقع مل جاے اسے کچھ کہنے کا ساری کسر ایک ساتھ پوری کرلونگا وہ بھی یاد کریگی کے کس سے پالا پڑا تھا
اس نے گاڑی پورچ میں روک دی اور دادی کے روم میں چلا آیا وہ سونے ہی لگی تہی
دادو کیسی طبیعت ہےاب آپکی
وہ بیڑ کے کنارے پر بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامتے ہوے بولا
ٹھیک ہوں تم بتاؤ شادی میں گئے تھے
جی ہاں وہی سے ارہا ہوں
عیشا سے ملے
سب چھوڑ کر انھونے پہلا سوال وہی کیا جس کی اسے اُمید تھی
نہیں دادو مگر میں ریحان اور اس کے ابو سے ملا ہوں
اچھا کاش کے عیشا سے بہی مل لیتے خیر کیسے ہے وہ لوگ
اس نے ایک لمحہ دادی کو غور سے دیکھا
بہت اچھے ہے آپ کا بھی پوچھ رہے تھے گھر آنے کی دعوت بھی دی
کاش کے میں بھی جا پاتی تو ان سب سے ملاقات ہو جاتی——— ٹھیک ہے تم جاؤ رات بہت ہورہی ہے اور صبح تمہیں جانا بھی ہے—- واپس کب تک آؤگے
لگ بھگ دو تین دن لگ جاینگے
ٹھیک ہے شب بخیر
گڑ نائٹ دادو
وہ اُنکا ہاتھ چوم کر چادر ٹھیک کیے باہر آگیا