قسط 1
پیلے رنگ کے سادےڈریس میں ریڈ سویٹر پہنے وہ نرم گھاس پر ٹہل رہی تھی شام کا آخری پہر تھا جس نے منظر کو پرفشاں بنایا ہوا تھا کہرے سے دھندلے ہوتے میدان میں وہ کہیں دور کسی غیر مرعی نقطے پر نظریں جماۓ کھڑی تھی سردی سے اس کا سفید رنگ مزید سفید ہورہا تھا
صوفی ی ی….. میری جان…….
پیچھے سے کسی نے آکر اسے اپنی بانہوں میں لیتے ہوۓ کہا وہ پلٹ کر اس کے سینے سے لگ گئی
آۓ مس یو سو.مچ ………
وہ اسے سختی سے خود میں بھینچتے ہوئے بولا صوفی نے اس کی تیز ہوتی دھڑکنوں کو سن کر وہاں ہاتھ رکھ کر اسے محسوس کرنے کی کوشش کی
دیکھ لو ہر دھڑکن تمہارا ہی نام لے رہی نا
وہ کہہ کر اس سے الگ ہوا صوفی کی انکھوں میں پانی اور چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی
کیا ہوا صوفی…. سب ٹھیک ہے نا
اس نے صوفی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوۓ پوچھا
میں پریگنینٹ ہوں راج………
صوفی نے اس کے چہرے پر نظریں جماۓ کہا اس کے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلی ہوتے صوفی نے باآسانی محسوس کیا وہ اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا اس کے تاثرات سے صوفی کی معمولی سی امید بھی دم توڈ چکی تھی
یہ غلط ہوا صوفی…. ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا… ..بہت غلط ہوا
وہ بنا اس کی جانب دیکھ کر افسوس بھرے لہجے میں بولا
غلط کو صحیح بھی تو کر سکتے ہیں نا راج……. کیوں نا ہم جلد سے جلد شادی کرلیں
صوفی نے اسے پرامید نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا
کیسی باتیں کررہی ہو صوفی… شادی کوئی بچوں کا کھیل ہے کیا……. تم جانتی ہو میں ابھی شادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا …….ابھی ابھی تو میرا کریئر اسٹارٹ ہوا ہے میں ابھی صرف اس طرف فوکس کرنا چاہتا ہوں ………پہلے اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتا ہوں اس طرح اچانک شادی کرلوں گا باپ بن جاؤنگا تو کیا ملے گا مجھے …………اور اگر کسی کو یہ بات پتہ چل گئی تو کیا امیج رہ جائگئی میری جس سوسائٹی میں نام بنانے کے خواب دیکھ رہا ہوں وہاں بدنام ہوکر رہ جاؤنگا بس………..
وہ دوسری جانب رخ کیے عاجزی سے بولا پھر دوبارہ اس کی جانب پلٹا
دیکھو صوفی آۓ لوو یو سو مچ… لیکن میں اس وقت تم. سے شادی نہیں کرسکتا اور نا ہی اس بچے کو ایکسیپٹ کرسکتا ہوں
تو کون ایکسیپٹ کرے گا اسے یہ تمہارا بچہ ہے تمہیں اسے اپنانا ہی ہوگا راج………… تمہارے خواب تمہارا کرئیر میری عزت اور بدنامی سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا…….. میں کیا جواب دوں گی جب کوئی مجھ سے پوچھے گا اس کے بارے میں…… امی کو کیا کہوں گی کیسے نظریں ملاؤں گی ان سے
وہ کہتے کہتے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر رونے لگی
تمہیں کسی کو کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے جان……..میں ہوں نا …….کسی کو پتہ چلے اس کے پہلے ہی ہم اس بچے کو ابورٹ کروالینگے
وہ اس کے قریب ہوکر دھیرے سے بولا صوفی نے اپنے ہاتھ ہٹاکر اسے بے یقینی سے دیکھا شاید اب بھی اسے تھوڑی بہت اچھائی کی امید باقی تھی
ہاں… ابھی کے لیے یہی سہی ہے تمہارے لیے بھی اور میرے لیے بھی……….بعد میں جب سہی وقت ہوگا تب ہم شادی کرلینگے…
وہ اس کی سوالیہ نطروں کو پڑھ کر بولا
میں نے سوچا تو تھا کہ تم بہت نیچے گر چکے ہو انسانیت بھول چکے ہو گناہ کی راہوں کو اپنا چکے ہو لیکن اتنا گرجاؤگے یہ امید نہیں تھی. ……….تم مجھے اپنی ہی اولاد کو قتل کرنے کو کہہ رہے ہو…
……نہیں یہ نہیں ہوگا کبھی بھی …….چاہے میں لاکھ بری سہی میں نے تم جیسے انسان سے محبت کرنے کی غلطی کی… تمہیں اپنی عزت تک سونپنے کی غلطی کرلی لیکن یہ گناہ میں کبھی نہیں کرونگی….تمہیں بعد میں جو کرنا ہے کرو جس جہنم کے گڑھے میں جانا چاہو جاؤ لیکن پہلے تمہیں
مجھے اور اپنے بچے کو سارے سماج کے سامنے اپنانا ہی ہوگا ورنہ
اس کی بات پر صوفی کو غصہ اگیا اس شخص کی وجہ سے وہ کس ازیت سے گزررہی تھی اور وہ اتنی گھٹیا بات کررہا تھا
ورنہ…. ورنہ کیا کرلوگی تم……..
صوفی کی دھمکی پر وہ بھی غصے سے بولا
ورنہ جس چیز کا ڈر ہے نا تمہیں وہی کرونگی میں چیخ چینخ کر سب کو بتاؤنگی تمہاری حقیقت……..پھر دیتے رہنا صفائیاں اور بچاتے رہنا اپنی جھوٹی شان
وہ سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوۓ بولی
کیا بتاؤگی….. یہی کہ یہ میرا بچہ ہے… کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اس بات کا….. تم جیسی لڑکیوں پر کوئی یقین نہیں کرتا صوفی ………….کیا پتہ میری طرح کتنے ہونگے تمہارے چاہنے والے انہیں میں سے کسی کا پاپ ہوگا یہ جسے تم………………
اس کی بات پوری ہو اس کے پہلے ہی ایک زور دار تماچہ اس کے گال پر پڑا جس کی اسے بلکل امید نہیں تھی
آئیندہ میرے بچے کو پاپ کہنے سے پہلے اور کسی بھی لڑکی کی عزت کے ساتھ کھیلنے سے پہلے اس تھپڑ کو یاد کرلینا… …..
وہ اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھ کر بولی اور پلٹ کر باہری گیٹ کی جانب بڑھ گئی وہ ساکت کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا
صوفی…………
وہ اسے روکنے کی خاطر غصے سے پکارتے ہوۓ آگے بڑھا لیکن تب تک وہ کافی. دور جا چکی تھی







وہ کالج گراؤنڈ میں گھاس پر دو زانو بیٹھی تھی ساتھ میں شزا نا جانے کون کون سی گاسپ سنارہی تھی لیکن اس کا دھیان شزا پر نہیں بلکہ دور سامنے پلر سے ٹیک لگاۓ کھڑے ضارم پر تھی جو اپنے گروپ کے ساتھ کھڑا باتیں کررہا تھا سفید شرٹ اور بلیک جینس پر انکھوں پر کالا چشمہ لگاۓ جب وہ ہنستا تو اس کے بائیں گال میں ڈمپل پڑٹا جو اسے مزید پرکشش بناتا وہ شاید کالج کا سب سے ڈیشنگ بندہ تھا اسی لیے کالج کی کئی لڑکیوں کی پسند تھا جن میں سے ایک زارا بھی تھی جس دن سے اس نے کالج آنا شروع کیا تھا اسی دن سے وہ ضارم کو سوچنے لگی تھی جب بھی وہ نظر آتا اس کی انکھوں میں ایک چمک سی اجاتی جسے ضارم نے کبھی نوٹ نہیں کیا شاید اسلیے کیونکہ کئی لڑکیوں کو اس نے اس طرح دیکھا تھا جب کہ زارا کہیں سے بھی ان کے مقابل نہیں تھی ایکدم سادہ سی اب بھی اس نے ڈارک گرین کلر کی کرتی پر وھائٹ لیگن اور وھائٹ دوپٹہ پہنا ہوا تھا جو بے نیازی سے اسکے گلے میں پڑا تھا بالوں کی ڈھیلی ڈھیلی سی چوٹی بنائ ہوئی اور کسی بھی قسم کے میک اپ اور جویلری سے بے نیاز …اس کا رنگ نا زیادہ سانولا تھ نا زیادہ گورا لیکن وہ اتنی سادہ رہتی رھتی کہ ہمیشہ خود کو میک اپ اور جویلری سے دور رکھتی تھی میک اپ کے نام پر کاجل اور بس ایک چھوٹی سی نوس رنگ جو ہمہ وقت اس کی ناک میں رہتی تھی جب کہ دوسری جانب ضارم جو ہر وقت ان لڑکیوں سے گھرا رہتا تھا جو پوارا بیوٹی پارلر ساتھ لے کر چلتی تھی اور کالج کو فیشن شو سمجھ کر آتی تھی جب کے وہ انہیں کوئی ویلیو نہیں دیتا تھا
زارا تم سن بھی رہی ہو میں کیا کہہ رہی ہوں
زارا کو مسلسل ہوں ہاں کرتے پاکر شزا نے اسے غصے سے دیکھتے ہوۓ اس کا بازو جنجھوڑا وہ ایک دم ہوش میں ائی
ہاں…ہاں…. ہاں میں… میں سن رہی ہوں نا بولو تم
جانے دو مجھے نہیں بولنا مجھے گھر جانا ہے
شزا اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوۓ بولی
ارے لیکن ابھی ایک لیکچر باقی ہے تھوڑی دیر رک جاؤ پھر ساتھ چلے گے
زارا بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی
میں تب تک یہاں کیا کرونگی کیونکہ تم تو اپنے پرنس چارمنگ کو دیکھتی رہوگی اور میں کبھی ان پودوں سے کبھی ان پیڑوں سے اور کبھی ان دیواروں سے باتیں کرتی رہونگی اس سے اچھا تو یہی ہے نا کہ میں چلی جاؤ
شزا نے جھلا کر کہا
اوکے بابا آۓ ایم سوری اب صرف تمہاری بات سنوں گی اوکے
وہ اپنی دوست کو ناراض دیکھ کر جلدی سے بولی
تو چلو کینٹین میں…….
شزا نے اسے آزمانے کی غرض سے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جہاں ضارم ہو وہاں سے وہ کبھی نہیں ہٹے گی لیکن زارا کے لیے اپنی دوست بھی کم امپورٹینٹ نہیں تھی اس لیے اس نے ضارم کو دیکھ کر گہری سانس لی اور اس کی جانب پلٹی
اوکے چلو…..
شزا خوش ہوکر اسے دیکھنے لگی جب کہ اب زارا ناراضگی نظروں میں لئے کھڑی تھی





ہمارے ملک کے اصل دشمن وہ لوگ ہے جو اسی زمین پر رہ کر اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے ہیں اپنے غیر قانونی کاموں کے زریعے غلط دھندوں کے زریعے … افیم …..گانجا…. ہتھیاروں کی تسکری یہ سب اج کل بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے جسے روکنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے
اس سب کے پیچھے کچھ جانی مانی ہستیوں کا ہاتھ ہے جو اپنے رتبے اور پیسے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کیونکہ ان کے منہ پہلے ہی پیسوں سے بند کر دیے جاتے ہیں اور کوئی ایماندار افسر آگے بڑھ کر شروعات کرتا بھی ہے تو یا اسے ڈرا دھمکا کر روک دیا جاتا ہے یا اس کی زندگی چھین لی جاتی ہے اور ایسے ہی ایماندار اور جانباز افسر تھے جناب شکیل احمد جن کا کل رات بے دردی سے قتل کردیا گیا انہوں نے ایک پہل کی تھی اس جرم کی تہہ تک پہنچنے کی اس کے اصل گناہ گاروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی جس سے کئی سارے سفید پوشوں کے بھید سامنے اجاتے شاید اسی لیے ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا لیکن مرتے مرتے بھی انہوں نے اپنا فرض پورا کرنا نہیں چھوڑا ان کے زریعے سے کچھ ایسے ثبوت ہاتھ لگے ہیں جن کی وجہ سے کئی سارے لوگ بے نقاب ہوۓ ہیں پولس نے انہیں ہتھیاروں اور ڈرگس کے ساتھ گرفتار کیا ہے کئی الیگل فیکٹریوں پر تالے لگاۓ گۓ ہیں اور ان کے مالکوں کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ جاری کی ہے. لیکن یہ تو صرف پیادے ہیں اس سب کے پیچھے اصل گناہ گار تو کوئی اور ہی ہے جنہیں اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے لیکن وہ اب بھی آزاد ہوا میں سانس لے رہے ہیں
ہم نے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے سچائی کو سامنے لانے کی اور انشاء اللہ بہت جلد ہم اس کے اصل گناہ گاروں تک بھی پہنچ جاۓ گے امید ہے آپ سب اس میں ہمارا ساتھ دینگے
فیالحال کے لیے مجھے اجازت دیجیے اگلی بار پھر حاضر ہونگے ایک نئی رپوٹ کے ساتھ جو کچھ اور چہروں کو بے نقاب کرے گی کیونکہ سچ دکھانا ہمارا فرض ہے خدا حافظ
اس نے مسکرا کر خدا حافظ کہتے ہوۓ اپنی بات ختم کی اور اپنی کرسی سے اٹھ گیا سامنے کھڑے شخص نے اسے انگوٹھا دکھاتے ہوۓ ڈن کہا کیمرہ اور ساری لائٹس بند ہوگئی وہ پاس رکھے پیپرس کو ترتیب دینے لگا اسی وقت تھوڑا سا دروازہ کھلا
امن….. تمہیں سر نے بلایا ہے
آنے والے شخص نے وہیں سے جھاکتے ہوۓ اسے اطلاع دی
کیوں …خیریت ہے …
اس نے اس سپیشل بلاوے پر حیران ہوکر کہا کیونکہ اکثر ایسے وقت پر ان لوگوں کو کسی نا کسی بات پر پھٹکار لگائی جاتی تھی
پتہ نہیں….لیکن ڈونٹ وری آج ان کا موڈ اچھا
سامنے والے نے انکھ دباتے ہوۓ کہا اور دروازہ بند کرکے چلا گیا امن نے سب کاغزات کو فائل میں رکھا اور فائل کو اپنے لاکر میں ڈال کر چابی جیب میں ڈالتے ہوۓ باہر نکل گیا
مے آۓ کم ان سر….
دروازے کو تھوڑا سا وا کرکے اس نے اجازت چاہی
آؤ امن…
اندر بیٹھے شخص نے اسے دیکھ کر کہا جس کی عمر تقریبا ساٹھ پینسٹھ کے قریب تھی آنکھوں پر چشمہ اور بلیک سوٹ میں وہ پروقار شخصیت کا مالک تھا پاس ہی ٹیبل پر ان کے نام کی پلیٹ تھی جس پر کے. کے…پٹیل لکھا ہوا تھا امن کرسی پر بیٹھ کر ان کی بات کا انتظار کرنے لگا
میں نے ابھی ابھی یہ فائل دیکھی…..
انہوں نے بلیو رنگ کی فائل کو دکھاتے ہوۓ کہا
آۓ ایم امپریسڈ……. تم نے جس طرح سے یہ رپورٹ تیار کی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا تم سچ میں یہ کرنا چاہوگے
انہوں نے امن کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا کیونکہ وہ ان لوگوں کے خلاف کام کررہا تھا جو فیالحال پاور میں تھے بڑی بڑی نام چین ہستیوں کا نام اس فہرست میں شامل تھا جو اندر ہی اندر اپنا غلط کاروبار چلا رہے تھے امن کا مقصد ان سب کے خلاف ثبوت اکٹھا کر کے انہیں سزا دلوانے کا تھا
بلکل سر میں یہ کرونگا…….. .مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں ان مجرموں کے خلاف ثبوت اکٹھا کرکے ان کے اصل چہرے عوام کو دکھاؤنگا یہ راکشس جو ان کے سامنے فرشتے بن کر رہتے ہیں ان کی حقیت سے ان سب کو واقف کروا کر رہونگا
اس نے مکمل سنجیدگی اور جوش سے کہا تو سامنے والے نے مسکراکر سر اثبات میں ہلا دیا
گڈ…. اس لیے تم میرے فیوریٹ ہو کیونکہ تم میں بھی وہی جوش وہی جزبہ ہے جو مجھ میں کبھی تھا آج سے بیس سال پہلے جب میں نے اس چینل کی شروعات کی تھی تو مجھ میں بھی یہی جوش تھا میرا مقصد بھی لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرانا تھا میڈیا پر لوگوں کو جو بھروسہ ہے اس بھروسے کا مان رکھنا تھا جہاں میڈیا کا مطلب صرف جھوٹ اور فریب رہ گیا تھا جہاں رشوت خوروں نے لوگوں کی انکھوں پر فریب کی پٹی باندھ دی تھی اس اندھیرے میں میں اایک دیپ جلانا چاہتا تھا چینل کی صورت میں ایک جنگ شروع کی میں نے…… اس جنگ میں بہت کچھ کھویا بھی ہے لیکن پیچھے نہیں ہٹا اور اب بھی بس یہی چاہتا ہوں کہ ہمارے چینل پر کسی پالیٹیکل پارٹی کا غلام بن کر ان کی تعریفوں کے قصیدے نہیں بلکہ حقیقت دکھائی جاۓلیکن
انھوں نے سنجیدگی سے کہا اور رک کر ایک گہری سانس لی
یہ اتنا آسان نہیں ہوگا امن….. اس کا انجام جانتے ہو نا تم…. وہ لوگ بہت پاورفل ہے کچھ بھی کرسکتے ہے تمہیں بہت سنبھل کر رہنا پڑے گا
انہوں نے اسے آگاہ کرتے ہوۓ کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جہاں پیسے کا زور نہیں چلتا وہاں وہ لوگ جان کے دشمن بن جاتے ہیں
انجام کا ڈر ہوتا تو کبھی اس فیلڈ میں قدم نہیں رکھتا سر اگر یہ راستہ چنا ہے تو خود سے وعدہ بھی کیا ہے کہ اپنا کام پوری محنت اور ایمانداری سے کرونگا بناء انجام کی پرواہ کیے
تو پھر ٹھیک ہے میں بھی اس میں تمہاری پوری مدد کرونگا اور ہاں کمشنر حیدر قریشی کا نام تو سنا ہی ہوگا تم نے کل تم اس ریسٹورانٹ میں جا کر ان سے مل لو وہ کچھ مدد چاہتے ہیں تم سے اور تمہاری بھی ہیلپ ہوجاۓ گی
انہوں نے ایک چٹھی پر ریسٹورانٹ کا نام لکھ کر اس کی جانب بڑھائی جسے امن نے لے کر اپنے کورٹ کی جیب میں رکھ لیا
اوکے سر….
فی الحال تم سب چھوڈ دو اور بس اسی کام پر فوکس کرو ……جو کرنا ہے کرو میری طرف سے پرمیشن یے تمہیں ……اور اگر کوئی پرابلم ہوئی تو میں دیکھ لونگا اور…… یہ تمہارے لیے
انہوں نے ٹیبل سے ایک انولپ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا امن نے سوالیہ نظروں سے اسےدیکھا
یہ تمہارا پرومشن لیٹر ہے
اس کے دیکھنے سے پہلے ہی انہوں نے بتا دیا
تھینکیو سو مچ سر……
وہ مسکرا ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا
ٹیک کیر…..
انہوں نے اسےتنبیہ کی وہ انولپ لے کر باہر نکل گیا
امن…….
وہ باہر نکلا تو پیچھے سے کسی نے آواز دی امن نے پلٹ کر دیکھا تو وہی شخص تھا اس کا کلیگ جو کچھ دیر پہلے اسے بلانے آیا تھا
کیا ہوا…..
اس نے امن کے ہاتھ میں انولپ دیکھ کر کہا
پرومشن…..
وہ اسے سامنے کرتا مسکرا کر بولا
واؤ…. کانگریٹس یار…. ٹریٹ تو بنتی ہے
وہ ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا
فیالحال مجھے گھر جانا ہے ٹریٹ پھر کبھی……. باۓ
وہ انولپ سے ہی باۓ کرتا ہوا آگے بڑھ کر باہری دروازے سے سٹوڈیو کے باہر نکل گیا