قسط 1
اس نے خان ہا ؤس کے سامنے گاڑی روکی تھی۔ ایک نظرسامنے ڈال کر وہ مسکرایا تھا۔ خان ہاؤس کی ایک کھڑکی پر نظر جماتے ہوئے اس نے کار کے ہارن پر ہاتھ رکھا اور ہٹانا بھول گیا۔
‘‘پورا گھر ہارن کی آواز سے گونج رہا ہے اور ان محترمہ کو ہوش نہیں ہے’’ عائشہ بیگم چابیاں لے کر ایک کمرے کی طرف جارہی تھیں جب ساتھ والے کمرے سے اربش باہر آئی۔۔
’’ ماما کیا مسئلہ ہے ؟ صبح صبح اس ہارن نے ساری نیند خراب کر دی ہے میری ‘‘ وہ اپنے کمرے سے نائیٹ گاؤن اور کھلے بالوں میں باہر نکلی تھی ۔۔
’’ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آج سے ان محترمہ کی کلاسس شروع ہورہی ہیں اور میڈم کی نیند یں پوری نہیں ہورہیں ۔۔کب سے احتشام بچارا باہر بیٹھا ہارن بجا رہا ہے’’ ماما کہتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہیں تھیں جبکہ اربش احتشام کے نام پر چونکی تھی۔۔ ’’ اس لڑکی کی نیندیں تو میں ابھی بھگا کر آتی ہوں’’ عائشہ بیگم اس کے کمرے کا لاک کھول کر اندر چلی گئیں اور اربش بھاگتی ہوئی باہر گئ تھی۔۔
عائشہ بیگم نے کمبل اس پر سے کھینچ کر اتارا ’’ کون سی گولیاں کھا کر سوئی ہو تم ؟’’
’’ کیا ہوا ماما ؟ کیوں صبح صبح اٹھا رہی ہیں ؟؟ ’’ وہ کروٹ لے کر سیدھی ہوئی۔
’’صبح صبح ؟ ’’ اسکی بات پر تو عائشہ بیگم کو مزید غصہ آیا تھا ۔۔۔
’ پچھلے ۱۰ منٹ سے احتشام بچارا ہارن بجا رہا ہے۔۔ نو بج گئے ہیں اور تم کہہ رہی ہو صبح صبح ؟ ’’ ’
’’ کیا نو بج گئے؟ ’’ موبائیل میں ٹائم دیکھتے ہی وہ اچھل کر بیڈ سے اتری اور بھاگتی ہوئی واش روم میں گئی تھی۔
’’ ماما بس ایک گ
لاس جوس بنا دیں میں دو منٹ میں آئی ’’ واش روم سے اس کی آواز آئی تھی ۔
’’ روز کے ڈرامے ہیں اس کے تو’’ عائشہ بیگم کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی تھیں۔
اس نے ہارن سے ہاتھ نہ ہٹانے کی شاید قسم کھا رکھی تھی۔۔ وہ بھاگتی ہوئی اس کی کار تک آئی اور کھڑکی کی طرف جھک کر کہا تھا
’’ احتشام اس ہارن سے تو ہاتھ ہٹا لیں۔۔ میری نیند خراب کر دی ہے اس نے؟’’ اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکا ہاتھ ہارن پر سے ہٹایا تھا ۔۔۔ احتشام فوراً گاڑی سے باہر آیا ۔۔
’’ سوری میری وجہ سے تمہاری نیند خراب ہوئی۔۔ تمہیں تو معلوم ہے ہماری الہام کو نیند سے جگانا اتناآسان نہیں ہے ’’ اس نے مسکراتے ہوئے تھا۔۔ مگر اس ’ہماری الہام’ پر اربش کی مسکراہٹ مدھم ہوئی تھی۔۔
’’ جی ٹھیک کہا آپنے بہت سست ہے وہ۔۔ سونا تو جیسے اسکی زندگی کا مشن ہے؟ ’’ اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ایسا بلکل نہیں ہے وہ بہت ایکٹو اور محنتی ہے اور اسی محنت میں تھک بھی جاتی ہے میری پیاری الہام ’’ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جہاں سے الہام چلتئ ہوئی انکی طرف ہی آرہی تھی۔۔ اربش نے بھی سرد نظروں سے اس طرف دیکھا تھا۔۔
’’ چلیں پھر آپ دونوں جائیں۔۔ ویسے بھی اسکی وجہ سے دیر تو ہوہی گئ ہے ’’ وہ کہہ کر اندر کی جانب گئ تھی ۔۔۔جبکہ الہام بنا کچھ کہے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی تھی۔۔
’’ جلدی سے چلیں احتشام بھائی کلاس شروع ہونے والی ہے ’’ اس کے کہنے پر احتشام نے فوراً بیٹھ کر کار سٹارٹ کی تھی۔۔
۔۔ ’’ دیر بھی تمہاری ہی وجہ سےہوئی ہے ’’ سامنے دیکھتے ہوئے اس نےکہا لگایا تھا
۔ ’’ اور آپنے اس دیر کو بہت اینجوائے بھی کیا ہے؟’’ اس نے معنی خیز انداز میں کہا تھا۔۔اور وہ اس کا اشارو سمجھ گیا تھا
’’ ہاں اینجوائے تو بہت کیا ۔۔ ویسے تمہاری بہن تمہاری بہت تعریفیں کر رہی تھی ’’ اس نے شرارتی انداز میں کہا تھا۔۔
’’ جی جی مجھے اچھے سے معلوم ہے اسکی تعریفیں اور آپ کے جوابات’’ اس نے کھڑکی کی جانب رخ کیا تھا جہاں اسے اپنی یونیورسٹی قریب آتی نظر آئی تھی۔۔ وہ پھر سے احتشام کے طرف مڑی تھی
’’ یا د رکھیئے گا۔۔ صرف آپکی اور پاپا کی خواہش مجھے اس یونیورسٹی تک لائی ہے ورنہ۔۔’’ اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ دی گئ تھی۔۔
’’ ورنہ آپ مستقبل کی عاطف اسلم ہوتیں۔۔ میڈم آپکا احسان کبھی نہیں بھولوں گا میں۔۔ اب جاو تمہاری کلاس شروع ہونے والی ہے ’’ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی اور پھر اسکی کھڑکی کی جانب آکر جھکی تھی۔۔
’’ بہنیں اپنے بھائیوں پر احساس نہیں کرتی وہ تو بس انکا فخر بننا چاہتئ ہیں’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ ’’ میری یہ بہن میرا فخر ہے۔۔ اور میں چاہتا ہوں کے وہ اتنی اچھی ڈاکٹر بنے کہ پوری دنیا کو اس پر فخر ہو’’ اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا ۔۔ وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی۔۔
’’ وہ دن ضرور آئیگا۔۔ وعدہ رہا ’’ وہ ایک عزم کے ساتھ یونیورسٹئ کی طرف بڑھی تھی ۔۔وہ اسے جاتا دیکھ کر مسکرایا اور گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھ گیا ۔۔ اس نے اب ہسپتال جانا تھا ۔۔
وہ جب کلاس میں پہنچی تو ساری ہی سیٹس پر سٹودنٹس بیٹھ چکے تھے۔۔ اسے آگے بیٹھنے کی عادت تھی مگر اب اسے سب سے پیچھے ہی دو سیٹس خالی نظر آرہی تھیں۔۔ مجبوراً اسے ایک پر جاکر بیٹھنا پڑا تھا۔۔ دوسری خالی سیٹ پر بھی ایک لڑکا آکر بیٹھ گیا تھا۔ اس نے اب تمام سٹوڈنٹس کا جائزہ لینا شروع کیا یہاں بھی اسے لڑکیوں کی تیاری ضرورت سے زیادہ لگی تھی۔۔ میک اپ سے بھرے چہرے مختصر اور تنگ لباس ، ادائیں اور لڑکوں سے دوستی شوقین ۔ صرف چند منٹوں میں ہی لڑکے اور لڑکیوں میں دوستیاں ہوگئی تھی۔۔ لیکن وہ ان کو تنقیدی نظروں سے نہیں دیکھ رہی تھی۔۔ وہ تو یہ دیکھ رہی تھی کہ یہاں اس نے کس سے دوستی کرنی ہے ؟ اور کس سے دور رہنا ہے؟ وہ ہر ایک سے دوستی نہیں کرتی تھی۔۔ صرف ان سے دوستی کرتی تھی جو اسے ان تمام لڑکیوں سے بہتر لگے۔۔ اس نے ایک نظر اپنے آپ پر ڈالی تھی۔۔ کالی جینس کے اوپر ہلکی گلابی منامب لمبائی میں شرٹ ، گول انداز میں لپٹا ہوا گلے میں دوپٹہ، میک اپ کے نام پر آنکھوں میں ہلکا کاجل اور ہلکی گلابی لپ گلو، مناسب لمبائی میں کٹے ہوئے بال جو دونوں بازؤں پر بکھرے تھے ۔ اس نے ایک آخری نظر سب پر ڈالی تھی اور ایک گہری سانس لے کر سیدھی ہوئی تھی ۔۔ جہاں سامنے اب پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے تھے۔۔
ملازمہ چائے اور باقی چیزوں کے ساتھ گیسٹ روم میں آئی تھی۔۔ جہاں عائشہ بیگم اور رابعہ پھوپھو موجود تھیں۔۔ وہ بھی ملازمہ کے پیچھے ہی روم میں آئی اور اپنی رابعہ پھوپھو کے گلے لگ گئی تھی۔۔
’’ پھوپھو آج کیسے یاد آگئی آپکو ہماری؟’’ اس نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ یاد تو روز آتی ہے بس تمہیں تو پتہ ہے احتشام کی روٹین۔۔ آدھی آدھی رات ہوجاتی ہے اسے ہسپتال میں اور کئ مرتبہ تو رات بھی وہی گزرتی ہے ’’ چائے کا کپ لیتے ہوئے انھوں کہا تھا۔۔
’’ ڈاکٹرز کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے پھوپھو۔۔ صرف بچا کچا وقت ہی گھر والوں کو ملتا ہے’’ اپنا کپ لے کر وہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئ تھی۔۔
’’ ویسے رابعہ تمہیں اب اسکی شادی کر لینی چھاہئے۔۔ پھر دیکھنا کیسے ٹھیک ہوتی ہے اسکی روٹین ’’ عائشہ بیگم نے مشورے سے نوازا تھا۔۔
’’ ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔۔ اب اسکی بیوی ہی ٹھیک کر سکتی ہے اسے’’ رابعہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔۔
’’ تو پھر دیر کس بات کی ؟ کوئی لڑکی دیکھو اور جلدی سے شادی کر لو’’ عائشہ بیگم نے کہا تھا۔۔
’’ لڑکی کہیں اور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب سامنے ہی لڑکی موجود ہو’’ رابعہ نے معنی خیز انداز میں اربش کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ میں ابھی آئی’’ وہ مسکراتی ہوئی باہر نکلی تھی اور اب آگے کی بات سننے کے لئے بے چین تھی۔۔
’’ عائشہ میں جلد ہی احتشام سے بات کرونگی۔۔ مجھے یقین ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور تمہیں بھی ؟ ’’ انہوں نے سوالیاں انداز سے کہا تھا۔۔
’’ احتشام بہت اچھا بچہ ہے۔۔ مجھے بھلا کیوں اعتراض ہوگا؟ ’’ عائشہ بیگم نے خوشدلی سے کہا تھا۔۔ آخر انکی خواہش پوری ہورہی تھی۔۔
اس نے کمرے میں آکر دروازہ بند کیا تھا اور اب وہ خوشی سے پورے کمرے کا چکر لگا رہی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ احتشام سے شادی تو اسکی سب سے بڑی خواہش تھی ۔۔ وہ اسے پسند کرتی تھی۔ اس کے قریب ہونا چاہتئ تھی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔۔ احتشام کے لئے الہام کے علاوہ کوئی بھی ضروری نہیں تھا۔۔ وہ یہاں آتا بھی صرف اور صرف اسی کے لئے تھا۔۔ اس سے تو اسکی زیادہ بات بھی نہیں ہوپاتی تھی۔۔ نہ ہی احتشام اسے کوئی اہمیت دیتا تھا۔۔ یہی بات اسے بہت بری لگتی تھی مگر آج وہ بہت خوش تھی۔۔ وہ آئینے میں اپنا مسکراتا ہواعکس دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔ مگر یہ چمک صرف احتشام سے شادی کی نہیں بلکہ کسی کوہرانے کی تھی۔۔
’’ الہام میڈم۔۔ اب دیکھتئ ہوں میں کہ احتشام کیسے تمہیں اہمیت دیتا ہے۔۔ اہمیت تو دور میں اس کے سائے سے بھی تمہیں دور کردونگی ۔۔ وعدہ ہے تم سے ’’ آئینے میں اپنے عکس سے وہ ہم کلام ہوئی تھی۔۔۔
لگاتار دو گھنٹے کی کلاس سے اس کے سر میں درد شروع ہوگیا ۔۔ صبح ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے اب اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔۔ وہ سامان بیگ میں رکھ کر کلاس سے نکلنے والی تھی جب اسکی نظر اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی پر پڑی تھی۔۔ وہ شاید بیگ میں کچھ ڈونڈھ رہی تھی۔۔
’’ کچھ بھول گئی ہو ؟’’ اس نے اسکے پاس جاکر دوستانہ لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ جلدی میں پیسے بیگ میں رکھنا بھول گئی ہوں شاید’’ اس نے بیگ کی آخری زپ بند کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ چلو کوئی بات نہیں میں کینٹین جارہی ہوں تم بھی ساتھ چلو’’ وہ سمجھ گئی تھی کہ اسے پیسوں کی ضرورت کیوں تھی۔
’’ نہیں تم جاؤ۔۔ مجھے اتنی بھوک نہیں ہے’’ وہ تھوڑی جھجکی تھی۔۔
’’ ارے لیکن مجھے تو لگی ہےنا اور اب تو ہم دوست ہیں۔۔ تو ہمیں ساتھ ہی چلنا چاہئ ے’’ اس نے اسکی جھجک ختم کی تھی۔۔
’’ اوکے’’ وہ دونوں ساتھ چلتی ہوئی کینٹین گئی آئیں تھیں ۔۔ چائے اور سینڈوچز کا آرڈر دینے کے بعد اس نے بات شروع کی تھی۔۔
ویسے میں نے نام تو پوچھا ہی نہیں تمہارا’’ الہام نے کہا تھا ۔۔ ’’
اریج فاطمہ۔۔ اور تمہارا؟’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ ’’
الہام خان’’ ’’
’’ الہام ! بہت خوبصورت نام ہے تمہارا ’’ اس نے تعریف کی تھی۔
’’ ہاں مجھے بھی اپنا نام بہت پسند ہے’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ ویٹر اب انکا آرڈر رکھ کر گیا تھا۔۔
’’ تو ڈاکٹر بننے کا خیال کیسے آیا؟’’ اریج نے پوچھا تھا۔۔
’’ میرے بھائی کی خواہش تھی اور پاپا بھی یہی چاہتے تھے۔۔ تو میں نے سوچھا چلو بن ہی جاتی ہوں۔۔ دونوں خوش ہوجائیں گے’’ اس نے آخری بات اس انداز سے کہی تھی کہ اریج کوہنسی آگئی تھی۔۔
’’ اور تم کیوں بن رہی ڈاکٹر ؟ ’’ اب اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ میری بچپن کی خواہش ہے کہ میں ڈاکٹر بنو’’ اس کے لہجے سے ہی اسکی خواہش کی شدد ظاہر ہورہی تھی۔۔
’’ انشااللہ تم بہت اچھی ڈاکٹر بنوگی’’ اس نے دل سے دعا دی تھی۔۔ اسے یہ لڑکی بہت اچھی لگی تھی سادہ اور معصوم۔ ’’کلاس کا ٹائم ہوگیا تھا۔۔ وہ دونوں ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔۔ الہام کے سیدھے ہاتھ والی سیٹ پر وہ لڑکا بھی آکر بیٹھ چکا تھا جو پہلے بھی یہی تھا ۔۔ اریج نے اس لڑکے کو دیکھا تھا جبکہ الہام نے نہ پہلے غور کیا تھا نہ اب۔۔۔
’’ ویسے اب تک تمہارے گریڈز کیا آتے رہے ہیں ؟ ’’ اس نے الہام کے چہرے کے قریب آکر پوچھا تھا۔۔انداز سرگوشی کرنے والا تھا ۔۔
’’ میں ہمیشہ اپنے کالج میں ٹاپ کرتی رہی ہوں ’’ اس کے لہجے میں فخر نہیں تھا عام سے انداز میں کہا تھا۔۔
لیکن اب شاید ٹاپ کرنے میں بہت مشکل ہو تمہیں’’ ارئج کی بات پر اس نے حیران ہوکر اسے دیکھا تھا۔۔ ’’
وہ کیوں ؟’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔’’
’’ اس لڑکے کو دیکھ رہی ہوں ؟ ’’ اریج نے دائیں جانب بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا تھا جو اپنی ایک کتاب پر جھکا ہوا تھا ۔۔۔ الہام نے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔ ہلکی داڑھی ، کالی گہری آنکھیں ، ماتھے پر بکھرے بال اور بلیک ٹی شرٹ میں وہ کسی فلم کا ہیرو لگ رہا تھا مگر الہام نے ایک عام نگاہ اس پر ڈال کر اریج کی جانب دیکھا تھا۔۔
’’ ہاں دیکھ لیا ؟ ’’
’’ یہ اپنے کالج کا ٹاپ لسٹڈ رہا ہے اور صرف کالج نہیں بلکہ پورے شہر میں ٹاپ کرتا آیا ہے کمپیوٹر سے تیز دماغ چلتا ہے اسکا۔۔ اسکے ہوتے ہوئے تمہارا ٹاپ کرنا تو بہت مشکل ہے ’’ اریج نے جیسے اسکو ایک اہم مسئلہ بتایا تھا۔۔
الہام نےدوبارہ ایک نظر اس لڑکے پر ڈالی اور پھر دوبارہ اریج کو دیکھنے لگی ۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟’’ الہام کو مسلسل خود کو گھورتے دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔ ’’
’’ دیکھ رہی ہوں کہ دماغ تو تمہارا بھی بہت چلتا ہے۔۔ پہلے دن ہی تم نے ساری معلومات جمع کرلی اس لڑکے کی ’’ اس نے طنزیہ تعریف کی تھی۔۔
’’ اب اتنے سال ساتھ پڑھنا ہے ہم نے ۔۔تو معلومات تو ہونی چاہئے نہ ’’ اریج نے ایک اہم وجہ بتائی تھی۔۔
ہاں جی بلکل ہونی چاہئے ’’ اپنے مخصوص انداز میں کہتے ساتھ اس کے بیگ سے کتاب نکالی تھی۔۔ ’’
’’ پھر تمہیں پریشانی نہیں ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے ٹاپ کیسے کروگی تم ؟ ’’ وہ دوبارہ اسی ٹاپک پر آئی تھی۔۔
’’ اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے ؟ میں نے کبھی اس نیت سے پڑھائی نہیں کی کہ میں ٹاپ کروں ۔۔ میں صرف اس لئے محنت کرتی ہو کہ میرے بھائی اور پاپا مجھ پر فخر کر کریں۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرے مارکس بہت اچھے آئینگے۔۔ ٹاپ کرنا اہم نہیں میرے لئے ۔۔ اگر اب میں ٹاپ نہ کر سکی اور یہ لڑکا ٹاپ کرلیتا ہے تو مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی جتنی پہلی ہوتی تھی۔۔ یہاں میں کسی سے بھی مقابلہ کرنے نہیں آئی۔۔۔ میں یہاں اپنے پاپا اور اپنے بھائی کی خواہش پوری کرنے آئی ہوں ’’ اس نے مسکرا کر اریج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ جس کے ہونٹوں پر بھی اب مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔
’’ تم بہت اچھی ہو’’ اریج نے دل سے اسکی تعریف کی تھی ۔۔۔
’’ تم بھی بہت اچھی ہو ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔۔ کوئی اور بھی مسکرایا تھا۔۔۔ کسی اور نے بھی اسے سنا تھا۔۔ کسی اور کی نظروں نے بھی اسکی تعریف کی تھی۔۔۔ مگر وہ ہر نظر سے انجان پروفیسر کے لیکچر کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔۔۔